Tag: قمر الزماں کائرہ

  • مریم لاؤ لشکر کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہی ہیں، الیکشن کمیشن روک نہیں سکا: کائرہ

    مریم لاؤ لشکر کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہی ہیں، الیکشن کمیشن روک نہیں سکا: کائرہ

    لاہور: پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ اختیارات ہونے کے باوجود الیکشن کمشن ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر کارروائی نہیں کر رہا۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے لاہور میں پریس کانفرنس میں حلقہ این اے 120 میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے آئین پر عملدر آمد کا مطالبہ کردیا۔

    پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکریٹری ندیم افضل چن نے کہا کہ مریم نواز سرکاری وسائل استعمال کر رہی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ عمران خان کی درخواست پر عدلیہ نے فیصلہ دیا ہے، حکمران جماعت کا احتساب نہیں ہو رہا۔ ٹیکس ریکارڈ کے بعد خطرہ ہے کہ پاناما لیکس کا ریکارڈ بھی نہ جل جائے۔

    پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے 20 ستمبر کو ساہیوال اور جمعرات کے روز مزنگ میں جلسے کا بھی اعلان کیا۔


     

  • پنجاب حکومت شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہوگئی، قمر الزماں کائرہ

    پنجاب حکومت شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہوگئی، قمر الزماں کائرہ

    لاہور : پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر الزماں کائرہ نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرانا وفاقی حکومت کا کام تھا جس میں وہ بری طرح ناکام رہی ہے۔

    قمر الزماں کائرہ لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل در آمد کرانے پر ناکامی کا اعتراف وزیراعظم خود بھی کر چکے ہیں۔

    انہوں نے کہا ہے کہ پنجاب میں امن و امان کی روز بہ روز مخدوش ہوتی صورتِ حال کے پیش نظر اگر رینجرز کی تعیناتی ضروری ہے ہو تو کسی دوسرے سانحہ کا انتظار کرنے کے بجائے فوری طور پر رینجرز کو تعینات کردینا چاہیے۔

    قمر الزماں کا کہنا تھا کہ اگر پنجاب حکومت رینجرز کو تعینات نہیں کرنا چاہتی تو کم از کم پولیس کو ہی سیاسی دباؤ سے آزاد کر کے فری ہینڈ دے دیا جائے تو پنجاب پولیس بھی امن قائم کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی۔

    انہوں نے کہا ہمیں اپنی فورسز پر فخر ہے اور سیکورٹی ادارے دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں بھی دی ہیں۔

    ہمارے دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں واضح کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں اور ہمارے دور میں ہی سوات میں امن لایا گیا تھا جس کے لیے سیکیورٹی اداروں نے قربانیاں دیں۔

  • قمر الزماں کائرہ پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر منتخب

    قمر الزماں کائرہ پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر منتخب

    لاہور: سابق وفاقی وزیر قمر الزماں کائرہ کو پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر منتخب کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور میں بلاول بھٹو کی زیر صدارت پیپلز پارٹی پنجاب کی کوآرڈی نیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پنجاب کی تنظیم سازی کے بارے میں مشاورت کی گئی۔

    اجلاس میں سابق وفاقی وزیر قمر الزمان کائرہ کو پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر منتخب کردیا گیا۔

    اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قمر الزماں کائرہ کا کہنا تھا کہ وہ اس اعتماد پر پارٹی لیڈران کے بے حد شکر گزار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ملک کی روایت ہے۔ باقی جماعتیں وقت کے ساتھ ساتھ ختم آئیں اور ختم ہوگئیں لیکن پیپلز پارٹی قائم ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اپنے روایتی رنگ میں واپس آرہی ہے۔ مشکل وقت آتے رہتے ہیں۔ کسی اور جماعت نے اتنے مشاورتی عمل نہیں کیے جتنے پیپلز پارٹی نے کیے۔

    انہوں نے بتایا کہ بقیہ عہدوں کے لیے بھی مشاورت جاری ہے جن کا بہت جلد اعلان کردیا جائے گا۔

  • ن لیگ عدالتوں‌ کے فیصلے تسلیم نہیں‌ کرتی، کائرہ

    ن لیگ عدالتوں‌ کے فیصلے تسلیم نہیں‌ کرتی، کائرہ

    اسلام آباد: پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزماں کائرہ نے کہا کہ ن لیگ شروع سے ہی عدالتوں کے فیصلے تسلیم نہیں کرتی، حکومت ہمارے مطالبات مان لے احتجاج خود بخود ختم ہوجائےگا،عمران خان تنہا ہی نکل پڑے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ باقی جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلیں اور سولو فلائٹ نہ کریں۔


    اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال پر اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس طلب کرلیا ہے، عمران خان کے مطالبات جائز ہیں، اپوزیشن کے بھی یہی مطالبات ہیں، پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت میں اتحادی جماعتیں بھی ان کے ساتھ ہیں، ن لیگ عدالتی فیصلے تسلیم نہیں کرتی لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کل ہمارے پاس آئی تھی۔

    تحریک انصاف کے رہنما  علی محمد خان نے کہا کہ وفاقی حکومت نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی، ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا گیا، سب کو اپنی ذمہ  داری ادا کرنی ہوگی، پی ٹی آئی کے ساتھ عوامی مسلم لیگ کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

  • مشرف کو سزا دینے سے جمہور کی حکمرانی کا خواب شرمندہِ تعبیر ہوگا ؟

    مشرف کو سزا دینے سے جمہور کی حکمرانی کا خواب شرمندہِ تعبیر ہوگا ؟

    تحریر: سید فواد رضا

    جذباتی مزاج کی حامل پاکستانی قوم جو کہ جمہوریت کی سب سے بڑی دعویدار ہے آج کل اپنی تاریخ کے اہم ترین موڑ سے گزر رہی ہےاور یہ ایک ایسا موقع ہے کہ جب اس قوم نے ایک عہد ساز فیصلہ کر کے اپنے مستقبل کی سمت کا تعین کرنا ہے اور یہ فیصلہ ہے سابق صدر مملکت جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے مستقبل کا، انکے خلاف ایک خصوصی عدالت کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے اور اس عدالت نے سابق صدر پر فرد ِ جرم عائد کرنے کے لئے انکے عدالت میں طلب کر رکھا تھا اور انتہائی سخت الفاظ میں فیصلہ سنا چکی تھی کہ اگر آج وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے تو انکی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردئے جائیں گے لیکن ہوا کچھ یوں کہ پرویز مشرف  چک شہزاد میں واقع اپنے فارم ہاوٗس سے انتہائی سخت سیکیورٹی میں عدالت کے لئے روانہ تو ہوئے لیکن پہنچ گئے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی۔

    یہ خبر نشر ہونا تھی کہ سرد موسم میں اسلام آباد کا سیاسی ماحول یکدم گرم ہوگیا انکے حامی اور مخالف دونوں ہی میدان میں اتر آئے اور ان میں سب سے زیادہ متحرک نظرآئے بلاول بھٹو جنہوں نے ٹویٹر پر پیغامات کی بھرمار کردی یہ تک کہہ دیا کہ نجانے بزدل مشرف نے بہادر فوج کی وردی کیسے پہنی ہوگی؟  اسکے بعد پیپلز پارٹی کے قمرالزمان کائرہ اس بیان کی تردید کرتے نطر آئے۔

    کور کمانڈرز کی میٹنگ بھی ہوئی  اورحجاز ِمقدس کے وزیرِ خارجہ سعود الفیصل بھی پاکستان تشریف لا رہے ہیں تو گویا افواہوں کا ایک طوفان گرم ہوگیا ہر کوئی اپنی ذہنی استعطاعت کی مطابق قیاس آرائیاں کرنے لگا کہ یہ ہونے والا ہے اور وہ ہونے والا ہے ، سونے پر سہاگہ ایک اور خبر سنی کہ صہبا مشرف پہلی دستیاب پرواز سے لندن روانہ ہوجائیں گی اس خبر نے تو گویا پچھلی تمام خبروں پر تصدیق کی مہر ثبت کردی اور پرویز مشرف کے مخالفین یہ سمجھنے لگے کہ اب تو بس مشرف گئے ہاتھ سے لیکن پھر ایک اور بیان آیا چوہدری شجاعت حسین کا جس میں انہوں نے کہا کہ انکی ڈاکٹر کیانی سے بات ہوئی ہے اور انکے مطابق پرویز مشرف کو علاج کے لئے بیرون ِ ملک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

       لیجئے جی ! بات وہیں پر آگئی جہاں سے شروع ہوئی تھی اب مشرف باہر جائیں گے یا نہیں؟ انکو سزا ہوگی یا نہیں ؟ یہ دونوں سوال ابھی بھی اپنی جگہ قائم ہیں اور انکا جواب تو بس آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے یا وہ مقتدر افراد کے جنکے ہاتھوں میں اس ملک کے عوام کی تقدیر یک جنبش ِ قلم سے بدل دینے کا اختیار ہے لیکن میرا آج کا موضوع پرویز مشرف نہیں بلکہ آمریت ہے وہ آمریت جسکے خلاف آج اس ملک کا ہر طبقہ فکر صف بندی کئے ہوئے ہے  اور ان سرفروشان ِ جمہوریت کا پورا زور صرف اس بات پر صرف ہورہا ہے کہ  اب کوئی طالع آزما اقتدار پر قابض نا ہوپائے۔

    لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم نے اس ملک کی تقدیر حقیقتاً جمہوری  نمائندوں کو سونپ دی ہے ؟

    تاریخ کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے جمہوریت کی جو سب سے بہترین تشریح میری نظر سے گزری وہ کچھ اس طرح ہے کہ عوام کی عوام پر عوام کے لیے عوام کی جانب سے دیئے گئے اختیار کو جمہوریت کہتے ہیں، لیکن ہمارے ملک کا منظر نامہ کچھ اسطرح ہے کہ نا تو عوام کی حکمرانی ہے اور نا ہی عوام کی حالتِ زار کے لئےکوئی بہتری کی امید، چند گنے چنے چہرے ہیں جو بار بار ایوانِ اقتدارپر براجمان ہیں اور اب کیونکہ وہ چہرے بزرگی کی جانب مائل ہیں تو انہوں نے اپنے سیاسی گدی نشین بھی میدان میں اتار دیئے ہیں جو کہ مستقبل میں اس قوم کی قیادت کا اہم ترین فریضہ انجام دیں گے۔

     ہر پانچ سال بعد الیکشن ہونگے یکے بعد دیگرے پارٹیاں اپنی باری لیں گی اور نظام چلتا رہے گا لیکن کب تک؟ اس وقت تک جب تک ایک عام سیاسی کارکن جو کہ ہر جلسے میں سب سے آگے نعرے بازی کرتا ہے اپنے لیڈر کے لئے جذباتی سیاسی بحثیں کرتا ہے بم دھماکوں اور گولیوں کی بوچھار میں سینہ سپر رہتا ہے لیکن یہ بات نہیں سمجھ پاتا کہ اگر اسکے قائد کا جواں سال بیٹا یا بیٹی وزارت کا امیدوار ہوسکتا ہے تو وہ خود کیوں امیدوار نہیں ہوسکتا۔

    کیا ایم این اے ، ایم پی اے کی کرسیاں صرف مخصوص خاندانوں کے لے ہی مخصوص رہیں گی ایک عام سیاسی کارکن کیوں ان کرسیوں پر بیٹھ کر ملک و قوم کی قسمت کا فیصلہ کرسکتا ؟ پرویزمشرف اگرآئین و قانون کے مجرم ہیں تو انکو سزا ضرور دینی چائیے لیکن اس سے پہلے ہمیں ایک تلخ فیصلہ کرنا پڑے گا اور وہ یہ کہ صرف فوجی آمر کو سزا نہیں دینی بلکہ ہر وہ شخص سزا کا سزاوار ہے جو جمہوریت کا لبادہ اوڑھے جمہور کے حقوق پر شب خون مارتا آیا ہے اور یقین کیجئے کہ عوام کے حق میں یہ تاریخ ساز فیصلہ ان افراد میں سے کوئی بھی نہیں کرے گا جنکے ہاتھ میں اس وقت کی قوم کی تقدیر ہے ، عوام کو اپنی تقدیر کا یہ تاریخ ساز فیصلہ خود ہی کرنے ہوگا ورنہ تاریخ اس قوم کے بارے میں جو فیصلہ کرے گی اسے بیان کرنے کی قلم میں تاب نہیں۔

    وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
    تری بربادیوں  کے مشورے ہیں آسمانوں میں