Tag: قوت مدافعت

  • کرونا وائرس سے صحت یاب افراد کے لیے ایک اور بری خبر

    کرونا وائرس سے صحت یاب افراد کے لیے ایک اور بری خبر

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ کرونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد کے مدافعتی نظام پر طویل المعیاد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ کووڈ 19 کا سامنا کرنے والے افراد کے مدافعتی نظام پر طویل المعیاد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    ایڈیلیڈ یونیورسٹی، فلینڈرز یونیورسٹی، ویمنز اینڈ چلڈرنز ہاسپٹل اور رائل ایڈیلیڈ ہاسپٹل کی اس مشترکہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے کے 6 ماہ بعد بھی کچھ مریضوں کے مدافعتی نظام کے افعال میں نمایاں تبدیلیاں آسکتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ مدافعتی خلیات اور جینز پر بیماری کے بعد مرتب اثرات سے عندیہ ملتا ہے کہ کچھ مریضوں کو لانگ کووڈ علامات کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ان مریضوں کے مدافعتی خلیات کا گہرائی میں جا کر جائزہ لینے پر ہم نے بیماری سے منسلک چند نئے کرداروں کو دریافت کیا اور اس سے یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ آخر کچھ افراد کو کووڈ کی سنگین شدت یا لانگ کووڈ کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔

    تحقیق کے لیے 20 سے 80 سال کی عمر کے 69 کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو بیماری کو شکست دیے 6 ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا تھا اور ان افراد کے مدافعتی افعال کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    ان مریضوں میں سے 47 میں کووڈ کی شدت معمولی تھی، 6 میں معتدل اور 13 کو سنگین شدت کا سامنا ہوا تھا۔

    ماہرین نے ان افراد کے اینٹی باڈیز ردعمل، خون میں موجود ہزاروں جینز کے اثرات اور 130 مختلف اقسام کے مدافعتی خلیات کی جانچ پڑتال خون کے نمونوں کے ذریعے کی، جو بیماری کے 12، 16 اور 18 ہفتے بعد اکٹھے کیے گئے تھے۔

    ان کے مدافعتی افعال کے ردعمل کا موازنہ صحت مند افراد کے ساتھ کیا گیا۔ نتائج سے ثابت ہوا کہ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد میں بیماری کے 6 ماہ بعد مدافعتی نظام میں نمایاں تبدیلیاں آچکی تھیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ مدافعتی خلیات کے افعال میں کمزوری بیماری کے 12 ہفتے بعد سب سے زیادہ ہوتی ہے مگر بیشتر کیسز میں یہ کمزوری 6 ماہ بعد بھی برقرار رہتی ہے اور ممکنہ طور یہ دورانیہ زیادہ طویل ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں لانگ کووڈ کی علامات جیسے تھکاوٹ، سانس لینے میں دشواری، سینے میں تکلیف اور دماغی دھند کا تجزیہ نہیں کیا گیا تھا تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر یہ علامات مدافعتی نظام اور جینز پر مرتب منفی اثرات کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔

  • کرونا ویکسی نیشن کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    کرونا ویکسی نیشن کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کرونا ویکسین نہ صرف کرونا وائرس سے محفوظ رکھتی ہے بلکہ وائرس سے متاثرہ لوگوں میں قوت مدافعت بھی بڑھا دیتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کی جانے والی ویکسی نیشن وائرس سے متاثرہ لوگوں میں قدرتی مدافعت بڑھا دیتی ہے، یہاں تک کہ وہ تبدیل شدہ شکل کی حامل کرونا وائرس سے بھی انہیں ممکنہ طور پر محفوظ رکھتی ہے۔

    امریکا کی راک فیلیئر یونیورسٹی کے محققین نے کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے خون کا تجزیہ کیا تو انھیں ان مالیکیولز کے ارتقا کا اندازہ ہوا جو کہ مریضوں میں ویکسی نیشن کے بعد ڈیولپ ہوئے تھے۔

    یہ مالیکیولز مریضوں میں بہتر اور طویل المدتی دفاعی صلاحیت بڑھا دیتی ہے، اس تحقیق میں ایسے 63 افراد شامل تھے جو گزشتہ سال موسم بہار میں کرونا وائرس میں مبتلا ہوئے تھے، تاہم اس تحقیق کا ابھی دیگر ماہرین نے جائزہ نہیں لیا۔

    ان افراد کے فالو اپ ڈیٹا سے وقت گزرنے کے ساتھ ظاہر ہوا کہ ان کے امیون سسٹم کے میموری بی سیل نے جو اینٹی باڈیز پیدا کیے وہ سارس کووڈ 2 (جو کہ کرونا وائرس کا سبب بنتا ہے) کو نیوٹرلائز کرنے میں زیادہ بہتر ہوگئے تھے۔

    ماہرین نے اس گروپ میں شامل 26 افراد جنہیں موڈرنا یا فائزر ویکسین کی کم از کم ایک ڈوز لگ چکی تھی، ان میں اینٹی باڈیز مزید بڑھ چکے تھے۔ اور ان میں موجود مدافعتی نظام وائرس کے تبدیل شدہ شکل کے خلاف بھی غیر معمولی طور پر مزاحمت کا حامل ہوچکا تھا۔

  • کرونا وائرس: قوت مدافعت بڑھانے والی ساڑیوں کی فروخت شروع

    کرونا وائرس: قوت مدافعت بڑھانے والی ساڑیوں کی فروخت شروع

    بھوپال: بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے نوابوں کے شہر میں کپڑے کے ماہرین نے ایسی حیرت انگیز ساڑیاں تیار کی ہیں جو کرونا وائرس سے بچاؤ کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق منفرد شناخت رکھنے والے بھارتی شہر بھوپال میں محکمہ ہینڈلوم اور دستکاری کے افسران کے مشورے پر ہینڈلوم کے ذریعے ایسی ساڑیاں تیار کی گئی ہیں جن کے بارے میں دعویٰ ہے کہ یہ انسان کی قوت مدافعت میں اضافہ کر سکتی ہیں۔

    خیال رہے کہ کرونا وبا کے دوران دنیا بھر میں قوت مدافعت کے اضافے پر خاص طور سے توجہ دی جا رہی ہے، ایسے میں خواتین کے لیے بھوپال میں ادویہ میں بھگو کر تیار شدہ ساڑیاں پیش کی گئی ہیں، جنھیں آیور واستر کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ ساڑیاں سیکڑوں سال پرانے قدیم جڑی بوٹیوں کے مصالحوں کے نسخے سے تیار کی گئی ہیں، ان کو بنانے میں لونگ، بڑی الائچی، چھوٹی الائچی، چکرا پھول، دار چینی، جاوتری، کالی مرچ، شاہی زیرہ، تیز پتے وغیرہ کا استعمال کیا گیا ہے۔

    ان مصالحوں کو پہلے باریک پیسا جاتا ہے، پھر انھیں ایک پیکٹ میں 48 گھنٹوں تک پانی میں رکھا جاتا ہے اور پھر کپڑوں کو دوائیوں والے پانی کی بھاپ پر گھنٹوں تک رکھ دیا جاتا ہے، اور اس طرح قوت مدافعت میں اضافہ کرنے والی ساڑیاں تیار ہو جاتی ہیں، ٹیکسٹائل ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ساڑی تیار کرنے میں 5 سے 6 دن لگ جاتے ہیں۔

    تاہم دوسری طرف آیور وید کے ماہرین اس دعوے پر متفق دکھائی نہیں دیتے، لیکن بھوپال کے آیور وید کالج کے ایچ او ڈی ڈاکٹر نتن مروہ کا کہنا ہے کہ آیور وید میں استعمال ہونے والی تمام دواؤں میں ایک خاص عنصر پایا جاتا ہے، جو جلد پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔

    یہ ساڑیاں فی الوقت بھوپال، اندور اور گوالیار میں فروخت کے لیے پیش کی گئی ہیں، ہینڈلوم اور دست کاری کے ترقیاتی کمشنر راجیو شرما کا کہنا تھا کہ جلد یہ گووا، ممبئی، نوئیڈا، نئی دہلی، احمد آباد، گجرات، جے پور، کولکتہ، بنگلورو، چنئی، حیدرآباد اور رائے پور بھی بھیجی جائیں گی۔

    ایک ساڑی کی قیمت تقریباً 3 سے 5 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، خریداروں کی جانب سے مثبت تاثر کا اظہار کیا جا رہا ہے، کہا جا رہا ہے کہ ان کی تیاری کے لیے خاص مہارت اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔

    وبا کے دور میں اگر یہ ساڑیاں خواتین میں قوت مدافعت میں اضافے کا سبب بنتی ہیں تو یہ مقامی سطح پر ایک بڑی کامیابی سمجھی جائے گی۔ واضح رہے کہ مدھیہ پردیش کی دست کاری اور ہینڈلوم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے ملبوسات بھارت سے باہر بھی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔

    ٹیکسٹائل کے ماہر ونود ملیار کا کہنا ہے کہ قوت مدافعت میں اضافے کے لیے بنائی جانے والی ساڑیوں کو بنانے کا طریقہ بہت پرانا ہے، یہ ساڑیاں مصالحوں کے پانی سے تیار کی جاتی ہیں، اس کو پہننے کے بعد اس سے انسانوں میں جراثیم سے لڑنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔

  • خواتین میں کرونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت مضبوط کیوں؟

    خواتین میں کرونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت مضبوط کیوں؟

    واشنگٹن: طبی ماہرین نے آخر کار پتا لگا لیا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں کرونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت زیادہ مضبوط کیوں ہوتی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق خواتین کا مدافعتی نظام کرونا وائرس کے خلاف زیادہ مضبوط قرار دے دیا گیا، اس حوالے سے طبی ماہرین نے مختلف خیالات ظاہر کیے مگر اب ایک واضح جواب دیا گیا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں کرونا انفیکشن کی شدت میں اضافے یا موت کا خطرہ مردوں کے مقابلے میں کم کیوں ہے۔

    کرونا وائرس کی وبا کے آغاز ہی سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ معمر مردوں میں اس سے شدید بیمار ہونے اور موت کا خطرہ خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

    یہ تحقیق امریکا کی ریاست کنیکٹی کٹ میں قائم یئل یونی ورسٹی میں کی گئی جو طبی جریدے نیچر میں شایع ہوئی، جس میں کہا گیا ہے کہ خواتین کا مدافعتی ردعمل مردوں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور ہے۔

    ریسرچ کے مطابق خواتین کے جسم مردوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط مدافعتی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں، خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ ٹی سیلز تیار کرتی ہیں جو وائرس کو پھیلنے سے روکتے ہیں۔ یہ دیکھا گیا کہ کو وِڈ 19 سے بیمار خواتین میں مرد مریضوں کے مقابلے میں ٹی سیلز کی سرگرمیاں نمایاں حد تک زیادہ تھیں، یہ سرگرمیاں زیادہ عمر والی خواتین میں بھی دیکھی گئیں۔

    ریسرچ کے دوران مریضوں کی عمر اور ناقص ٹی سیلز ردِ عمل کے درمیان تعلق کو دیکھا گیا جو مردوں میں بدترین نتائج کا باعث تھا لیکن خواتین مریضوں میں ایسا نہیں تھا۔ محققین نے بتایا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ مردوں میں ٹی سیلز کے متحرک ہونے کی صلاحیت ختم ہونے لگتی ہے، جن لوگوں کے جسم ٹی سیلز بنانے میں ناکام رہتے ہیں، ان میں کو وِڈ 19 کے بدترین نتائج دیکھنے میں آئے۔

    اس ریسرچ کے لیے اسپتال میں زیر علاج 17 مردوں اور 22 خواتین کا انتخاب کیا گیا، جن میں سے کوئی بھی مریض وینٹی لیٹر پر نہیں تھا، مریضوں کو ادویات کا استعمال بھی کرایا گیا جس کے مدافعتی نظام پر اثرات دیکھے گئے۔

    ریسرچ کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کی تیاری کے سلسلے میں مریضوں کی جنس کو مدِ نظر رکھنا ہوگا۔ ممکن ہے نوجوان مرد و خواتین کے لیے ویکسین کا ایک ڈوز کافی ثابت ہو، تاہم معمر مردوں کو ویکسین کے 3 ڈوز کی ضرورت پڑے۔

    ماہرین کے مطابق جسم میں مدافعتی نظام کو ریگولیٹ کرنے والے بیش تر جینز ایک کروموسوم کی مدد سے متحرک ہوتے ہیں، جو مردوں میں ایک اور خواتین میں دو ہوتے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ہارمونز بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

  • گھر میں ایک فرد کرونا کا شکار ہو جائے تو … ماہرین کا نیا انکشاف

    گھر میں ایک فرد کرونا کا شکار ہو جائے تو … ماہرین کا نیا انکشاف

    اسٹراسبرگ: فرانسیسی محققین نے کرونا وائرس کے شکار افراد کے سلسلے میں ایک نیا انکشاف کر دیا ہے۔

    طبی ماہرین نے ایک تحقیقی مطالعے کے بعد کہا ہے کہ کرونا کے شکار شخص کے ساتھ گھر میں رہنے والے تین چوتھائی افراد کے اندر ‘خاموش’ قوت مدافعت پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اینٹی باڈی ٹیسٹ میں اس کا پتا نہیں چلتا۔

    اس تحقیق کے بعد محققین نے کہا ہے کہ کو وِڈ 19 سے متاثرہ افراد کی تعداد اس سے بھی بہت زیادہ ہو سکتی ہے جو اب تک سامنے آ چکی ہے، کیوں کہ ٹیسٹ میں خون میں پیدا ہونے والی مخصوص اینٹی باڈیز کی تلاش کی جاتی ہے، بہ جائے اس کے کہ ٹیسٹ میں جسم کی یادداشت کو دیکھا جائے یعنی T سیلز جو انفیکشن کے خلاف لڑتے ہیں۔

    سائنس دانوں نے دیکھا کہ کرونا کے مثبت شخص کے ساتھ گھر میں رہنے والے 8 افراد میں سے 6 کا کرونا وائرس اینٹی باڈیز ٹیسٹ منفی آ جاتا ہے لیکن جب ماہرین نے ان کے خون کے نمونے ٹی سیل امیونٹی کے لیے ٹیسٹ کیے تو معلوم ہوا کہ انھیں بھی معمولی علامات کے ساتھ کرونا وائرس لاحق ہو چکا ہے۔ ٹی سیل امیونٹی دراصل جسم کی کسی انفیکشن کے لیے گہری دفاع کا حصہ ہے، جس کا تعلق ہڈیوں کے گودے (بون میرو) میں سفید خون کے خلیات سے ہے۔

    کرونا مریضوں میں ذائقے اور سونگھنے کی حس کتنے عرصے میں بحال ہوگی؟

    ماہرین نے بتایا کہ کچھ مریضوں کے مدافعتی نظام وائرس کے خلاف رد عمل مختلف طریقے سے دے رہے ہیں، جن لوگوں کے خون میں اینٹی باڈیز نہیں ہوتے وہ دراصل زیادہ گہری سطح پر وائرس کے خلاف رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور یہ گہری سطح ٹی سیل رسپانس ہے۔

    اس تحقیقی مطالعے سے کرونا وائرس کی نشان دہی کے سلسلے میں ایک نیا امکان سامنے آیا ہے، اس طریقے کو ٹی بی (تپ دق) کے ٹیسٹ کے دوران ٹی سیل کا پتا لگانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، اس سے ایک ہی لیب میں سیکڑوں مریضوں پر کارروائی کرنے اور 2 دن کے اندر مؤثر نتائج حاصل کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔

    واضح رہے کہ یہ اندازا لگایا گیا ہے کہ اب تک آبادی کے 10 فی صد حصے میں وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہو چکی ہے، اس اندازے کا انحصار خون میں اینٹی باڈیز ٹیسٹس پر ہے، جو خون کے B خلیات پیدا کرتے ہیں۔

    ٹی سیلز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جسم کا بڑا ہتھیار ہے، جو ہڈیوں کے گودے میں موجود سفید خون کے خلیات سے پیدا ہوتے ہیں، جب جسم کے اندر امیون سسٹم (قوت مدافعت) کو وائرس کو ختم کرنے کے لیے مزید مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ ٹی خلیات کام شروع کرتے ہیں۔

    یہ تحقیقی مطالعہ فرانس کے اسٹراسبرگ یونی ورسٹی اسپتال میں ایسے 7 خاندانوں پر کیا گیا ہے جن کے کرونا کے ٹیسٹس غیر معمولی تھے، خاتون محقق پروفیسر سمیرا فافی کرمر نے بتایا کہ ہمارے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ کرونا کے اینٹی باڈیز کی نشان دہی پر انحصار کرنے والا موجودہ ڈیٹا حقیقی ڈیٹا سے بہت کم ہے۔

  • اسٹاک ہوم کے شہری مئی میں کرونا کی وبا کو مکمل شکست دے دیں گے

    اسٹاک ہوم کے شہری مئی میں کرونا کی وبا کو مکمل شکست دے دیں گے

    اسٹاک ہوم: سوئیڈن کی ایک سفیر نے دعویٰ کیا ہے کہ اسٹاک ہوم کے شہری مئی میں کرونا وائرس کی وبا کو مکمل شکست دے دیں گے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا میں سوئیڈن کی سفیر کیرن اولریکا اولِفسڈاٹر نے امریکی ریڈیو کو بتایا کہ لاک ڈاؤن فری شہر اسٹاک ہوم مئی میں کرونا وائرس کے خلاف مکمل امیونٹی کی سطح حاصل کر لے گا، کیوں کہ اس شہر کی 30 فی صد آبادی پہلے ہی سے وائرس کے خلاف قوت مدافعت رکھتی ہے۔

    انھوں نے دعویٰ کیا کہ سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں مئی تک امکان ہے کہ ‘ہرڈ امیونٹی’ حاصل کر لی جائے گی۔ واضح رہے کہ ہرڈ امیونٹی کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد نے کسی بیماری کے خلاف ویکسی نیشن یا بیماری کے ایک دور کے گزرنے کے بعد قوت مدافعت پیدا کر لی ہے، اور دیگر آبادی میں اس کے پھیلاؤ کا خطرہ نہیں رہتا۔

    سوئیڈن کی شہزادی بھی کرونا کے خلاف میدان میں آگئیں

    تاہم یہ سوال تاحال موجود ہے کہ کوئی امیونٹی کب تک برقرار رہتی ہے، کیوں کہ جنوبی کوریا میں ابھی حال ہی میں 222 صحت یاب مریضوں میں ایک بار پھر کو وِڈ نائنٹین کا ٹیسٹ پوزیٹو آیا ہے، حکام یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کہیں ٹیسٹ ہی میں کوئی مسئلہ تو نہیں تھا۔ خاتون سفیر اولفسڈاٹر نے بھی کہا کہ ہرڈ امیونٹی سے متعلق سوالات کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔

    خیال رہے کہ سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں لاک ڈاؤن نہیں لگایا گیا، سوئیڈن نے فٹ بال میچز منسوخ کیے اور یونی ورسٹیاں بند کر دی ہیں تاہم ریسٹورنٹس، سنیما، جمز، پبز، اور دکانیں بدستور کھلی ہوئی ہیں، جہاں سماجی فاصلے کی سختی سے ہدایت کی گئی ہے، جس کی خلاف ورزی پر کئی ریسٹورنٹس اور بارز بند کیے جا چکے ہیں۔

    قوت مدافعت کی سطح کو سمجھنے کے لیے سوئیڈن کے ہیلتھ نیشنل بورڈ نے کرونا وائرس سے متعلق 1700 اموات کی وجہ جاننے کی کوشش کی، اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ ان میں سے 90 فی صد مرنے والوں کی عمریں 70 سال سے زیادہ تھیں، نصف تعداد 86 سال کے عمر والوں کی تھی، صرف ایک فی صد اموات 50 سال کے اندر ہوئیں۔

    مرنے والوں کی اکثریت کو ایک یا زیادہ رسک فیکٹرز درپیش تھے، جن میں ہائی بلڈ پریشر (79 فی صد کیسز میں)، امراض قلب (48.5 فی صد کیسز)، ذیابیطس (29 فی صد کیسز)، اور پھیپھڑوں کی بیماری (14.6 فی صد کیسز) شامل ہیں۔ تاہم 14.4 فی صد کیسز میں یہ رسک فیکٹرز موجود نہیں تھے۔

    واضح رہے کہ سوئیڈن پر کرونا کی وبا کے خلاف سست رد عمل پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی گئی ہے، ایسی تصاویر بھی انٹرنیشنل میڈیا میں گردش کرتی رہی ہیں جن میں ریسٹورنٹس میں لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے سوئیڈن میں بہت تیزی سے وائرس پھیلا، اور اب تک وائرس سے 2,274 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 18,926 افراد اس سے متاثر ہیں۔

    سوئیڈن کے ہرڈ امیونٹی اپروچ کے سربراہ اور بڑے طبی ماہر ڈاکٹر اینڈرس ٹیگنل نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ہم تو لاک ڈاؤن کے خلاف برطانیہ کے نقش قدم پر چل رہے تھے تاہم اس نے بڑا یو ٹرن لے کر مایوس کیا، میں لاک ڈاؤن کے خلاف ہوں، کرونا وائرس ایسا خطرہ ہے جسے قابو کیا جا سکتا ہے، میں اب بھی ریسٹورنٹس جاتا ہوں، ہم تمام سروسز ختم نہیں کر سکتے۔

  • کرونا کیخلاف 4 ماہ بعد قوت مدافعت پیدا ہونے سے متعلق بڑی خبر

    کرونا کیخلاف 4 ماہ بعد قوت مدافعت پیدا ہونے سے متعلق بڑی خبر

    برلن: جرمنی کے سائنس دانوں نے کو وِڈ نائنٹین کی عالمگیر وبا کے 4 ماہ مکمل ہونے کے بعد خوش خبری سناتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اب انسانوں میں اس وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق بون یونی ورسٹی اسپتال نے جرمنی کی ایک سرحدی میونسپلٹی کے کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کے خون پر تحقیق کی، جس میں معلوم ہوا کہ اس آبادی کے بیش تر افراد میں نئے وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق جرمنی کے قصبے گینجٹ میں کرونا وائرس سے متاثرہ زیادہ تر ایسے افراد تھے جن میں علامات ہی ظاہر نہیں ہوئیں، تحقیق کے دوران ان افراد میں اینٹی باڈیز پائی گئیں، جن میں اینٹی باڈیز پیدا ہوئیں وہ آبادی کے 15 فی صد تھے۔

    ملیریا کی دوا کورونا مریض کی زندگی کیلئے خطرناک ہے، رپورٹ

    اینٹی باڈیز کی موجودگی پر ریسرچ کے سلسلے میں ضلع ہینزبرگ کے مذکورہ قصبے کے چار سو گھرانوں کے 1 ہزار افراد میں اینٹی باڈیز کا ٹیسٹ کیا گیا، اور اس کے ساتھ ان افراد میں انفیکشن کی علامات کو بھی دیکھا گیا، پروفیسر ہینڈرک اسٹریک نے ریسرچ کے عبوری نتائج میں بتایا کہ 14 فی صد افراد میں مزاحمت پیدا ہو چکی ہے اور قصبے کی 15 فی صد آبادی اب وائرس سے محفوظ سمجھی جا سکتی ہے۔

    پروفیسر گنٹر ہرٹ کا کہنا تھا کہ ہم 60 فی صد آبادی میں مزاحمت پیدا ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں، تب ہی یہ وائرس مکمل طور پر آبادی سے غائب ہو سکتا ہے۔ اس تحقیق سے یہ امید ظاہر کی گئی ہے کہ 15 فی صد کا مطلب ہے کہ اب وائرس پھیلنے کی رفتار کم ہو چکی ہے۔

  • مضرصحت جراثیم کو کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    مضرصحت جراثیم کو کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    انسانی جسم کسی اسٹیٹ آف دی آرٹ سے کم نہیں، مختلف قسم کے پیچیدہ نظاموں پر مشتمل ہمارا جسم ایک ایسا مربوط اور منظم سسٹم ہے جس میں ڈھونڈنے سے بھی کوئی جھول نہیں ملتا۔

    اس لیے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ احسن التخلیق انسانی جسم کو جراثیم کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کے بنانے والے کوئی راست اقدام نہیں کیے ہوں گے۔

    drug-post-2

    بیرونی فضاء میں موجود کوئی بھی جرثومہ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد اسے بیمار، نحیف اور کمزور کرسکتا ہے اس چیز سے بچنے کے لیے ہمارے خالق نے ایک سبک رفتار اور چابک دست عناصر پر مشتمل ایلیٹ فورس بنا رکھی ہے جو خون کے ذریعے ہمارے پورے جسم میں ہمہ وقت گشت پر رہتے ہیں۔

    drugs

    جی ہاں بات ہو رہی ہے خون میں موجود سفید خلیوں کی جو انسانی جسم کے لیے پولیس فورس کا کام دیتی ہے جب بھی کوئی خطرناک جرثومہ ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہی پولیس فورس جرثومہ کے خلاف جنگ کرتی ہے اور اسے توڑ پھوڑ دیتی ہے جس کے باعث ہم جراثیم کے مضر اثرات سے محفوظ رہ پاتے ہیں اس پورے نظام کو قوت مدافعت بھی کہا جاتا ہے۔

    جب کبھی یہ قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے تو خطرناک جراثیم ہمارے جسم میں پوری تباہ کاریوں کے ساتھ سرائیت کر جاتے ہیں اور یوں ہم بیمار پڑ جاتے ہیں۔

    ایسی صورت حال میں معالجین اینٹی بایوٹک ادویات تجویز کرتے ہیں جو جسم پر حملہ آور مضر جراثیم کو تباہ کر دیتے ہیں، مختلف قسم کے جراثیم کا مقابلہ کرنے کے لیے الگ الگ قسم کی اینٹی بایوٹک استعمال کی جاتی ہیں تا ہم ان کے سائیڈ ایفیکٹس کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    اینٹی بایوٹک کے بے جا اور بے تحاشا استعمال کی وجہ سے جہاں جسم کی قوت مدافعت مزید کم ہوجاتی ہے وہیں جراثیم بھی اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پیدا کر لیتے ہیں جس کے بعد اینٹی بایوٹک موثر نہیں رہی ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں: امریکا میں اینٹی بیکٹریل صابن پر پابندی


    اس دقت کے پیش نظر اب سائنس دانوں نے ایک ایسا بیکٹیریا دریافت کیا ہے جو مضر بیکٹیریا کو کھا جاتا ہے اس طرح خطرناک جراثیم جسم میں پنپ نہیں پاتے گویا سائنس دانوں نے لوہے کو لوہا کاٹتا ہے کے مصداق مضر جراثیم کو تباہ کرنے کے لیے مفید بیکٹیریا کا استعما ل کیا اس طرح وہ مریض جو اینٹی بایوٹکس سے مزاحمت رکھتے ہیں اب قابل علاج ہو جائیں گے۔

    drugs-post-1

    سائنس دانوں کے مطابق بیڈیلووِبریو نامی بیکٹیریا تیزی سے تیرنے والا بیکٹیریا ہے جو دوسرے مضر بیکٹریا کے اندر گھس جاتا ہے اور انھیں اندر سے کھانا شروع کر دیتا ہے اور خوراک مکمل کرنے کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہو کر مضر بیکٹیریا کے جسم سے باہر نکل آتا ہے۔

    سائنس دانوں نے بیڈیلوویبریو بیکٹیریا کا استعمال شنگیلا نامی مضر بیکٹیریا کے خلاف کیا جوآنتوں کے انفیکشن کا باعث بنتا ہے اور انسان کو فوڈ پوائزنگ سمیت قے اور دست میں مبتلا کردیتا ہے۔کامیاب تجربے میں مشاہدہ کیا گیا کہ بیڈیلوویبریو بیکٹیریا نے مضر بیکٹیریا شنگیلا کو تباہ کردیا جس کے باعث مریض جلد ہی شفایاب ہو گیا۔