Tag: قومی اسمبلی کا اجلاس

  • صدرپاکستان نے قومی اسمبلی کا اجلاس منگل کو طلب کرلیا

    صدرپاکستان نے قومی اسمبلی کا اجلاس منگل کو طلب کرلیا

    اسلام آباد : صدر پاکستان ممنون حسین نے قومی اسمبلی کا اجلاس منگل کو طلب کرلیا، اجلاس سہہ پہر3بجےہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق صدرمملکت ممنون حسین نے قومی اسمبلی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں یکم اگست بروز منگل کی سہ پہر تین بجے طلب کرلیا ہے۔

    اجلاس بلانے کی سمری وزارت پارلیمانی امور کی طرف سے بھیجی گئی، ذرائع کے مطابق اجلاس میں عبوری وزیر اعظم کا انتخاب کیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے عبوری وزیر اعظم کیلئے شاھد خاقان عباسی کا نام کی منظوری دی ہے جبکہ نو منتخب وزیر اعظم کیلئے وزیر اعلیٰشہباز شریف کا نام فائنل کیا گیا ہے جو نواز شریف کی خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست این اے120پر ضمنی انتخاب کے بعد وزیر اعظم کا انتخاب لڑیں گے۔

  • قومی اسمبلی کا اجلاس، حکومتی اور پی ٹی آئی ارکان میں‌ مار پیٹ

    قومی اسمبلی کا اجلاس، حکومتی اور پی ٹی آئی ارکان میں‌ مار پیٹ

    اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکومتی اور پی ٹی آئی ارکان کے درمیان لڑائی ہوگئی، ارکان نے ایک دوسرے کو تھپڑ مارے اور مغلظات بکیں،سیکیورٹی اہلکاروں نے آکر اراکین کو چھڑایا، اسپیکر کو اجلاس معطل کرنا پڑگیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں حکومتی اور پی ٹی آئی ارکان کے درمیان زبانی تصادم ہوا جو بڑھتے بڑھتے عملی تصادم میں تبدیل ہوگیا،ایوان میں حکومتی اوراپوزیشن اراکین گتھم گتھا ہوگئے اور دونوں جانب سے اراکین نے گالیوں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو دھکے دیے، تھپڑ مارے۔

    اے آر وائی نیوز اسلام کے نمائندے اظہر فاروق نے بتایا کہ جھگڑا اس وقت شروع ہوا شاہ محمود قریشی نے تحریک استحقاق پر نواز شریف پر تنقید کی، حکومتی بینچوں کی جانب سے شاہد خاقان عباسی اپوزیشن ارکان کی طرف بڑھے اور ایک رکن کو دھکا دیاجس پرجھگڑا شروع ہوا اور دونوں جانب سے اراکین اٹھ کر آگئے، بعدازاں گالم گلوچ ہوئی، ایک دوسرے کو تھپڑے مارے گئے۔

    یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جھگڑا ن لیگ کے کن شاہد خاقان عباسی اور تحریک انصاف کے رکن شہریار خان عباسی کے درمیان اس وقت ہوا جب شاہد خاقان عباسی اپوزیشن بینچوں کی طرف آئے، دونوں ارکان نے ایک دوسرے کو تھپڑ مارے، جھگڑے کو دیکھ کر سیکیورٹی اہلکار فورا پہنچے اور ایک دوسرے سے الجھتے ہوئے ارکان کو چھڑایا۔

    پندرہ منٹ بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو ایوان میں جھگڑا ختم ہوچکا تھا تاہم کشیدگی باقی تھی، دوبارہ اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی لیکن پی ٹی آئی کے ارکان باہر جاچکے تھے۔

    قبل ازیں شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر کے دوران گلی گلی میں شور ہے، نواز شریف چور ہے کے نعرے بھی لگوائے جس پر ن لیگ کے اراکین ناراض ہوئے۔

    جھگڑے کے بعد پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم تو یہاں بات کرنے آئے تھے لیکن حکومتی اراکین کے رویے کے سبب ایوان تو پہوانوں کا اکھاڑہ لگ رہا تھا، ہم پر حملہ کیا گیا،ہمیں دھکے دیے گئے، گھونسے برسائے گئے،اپوزیشن پر کیے گئے اس حملے پر بھی تحریک استحقاق جمع کرائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے صرف یہ درخواست کی تھی کہ ہمارے پانچ ارکان کو بولنے کی اجازت دیں لیکن اجازت نہ ملی، وزیراعظم نے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا شروع کردیا ہے۔

    اسمبلی میں بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے کہا ہے کہ جن کے پاس دلائل نہیں ہوتے وہ ایسی ہی قابل مذمت حرکات میں ملوث ہوتے ہیں، پی ٹی آئی کا یہ طرز عمل جمہوری اور پارلیمانی اصولوں کے منافی ہے، انہوں نے نامناسب فعل انجام دے کر اسمبلی کے تقدس کو پامال کیا،ایسا فعل انجام دیا کہ جس ٹہنی پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں۔

    نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ شاہ محمود نے جتنے لیڈر بدلے ان کے نام بھی نہیں بتاسکتے، وزیراعظم اپنے بزرگوں، بھائیوں اور بچوں سمیت پورے اہل خانہ کا حساب دے چکے ہیں، شاہ محمود نے ہمارے قائد کے خلاف نعرے لگوائے۔

  • قومی اسمبلی کے اجلاس میں پھر شور شرابہ، پی ٹی آئی و لیگی ارکان میں گرما گرمی

    قومی اسمبلی کے اجلاس میں پھر شور شرابہ، پی ٹی آئی و لیگی ارکان میں گرما گرمی

    اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اجلاس میں آج پھر شور شرابہ ہوا، پی ٹی آئی اور لیگی ارکان کے درمیان گرما گرمی جاری رہی، شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران لیگی ارکان کے جملے کسنے پر ایوان میں شور شرابہ ہوگیا، قریشی نے سعد رفیق کی جانب سے غنڈے کہنے پر معافی کا مطالبہ کردیا۔


    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا جس کا آغاز دو گھنٹہ تاخیر سے ہوا۔
    اسپیکر نے پاکستان تحریک انصاف کے رکن شاہ محمود قریشی کو تقریر کی اجازت دی۔

    انہوں نے گفتگو کے آغاز میں اسپیکر کو دو بار ایاز صادق کہہ کر پکارا جس پر لیگی ارکان نے شور کیا تو انہوں نے چڑ کر اور گفتگو پر زور دے کر یکے بعد دیگر چھ بار ایاز صادق پکارا تو عابد شیر علی و دیگر ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوئے اور لیگی ارکان نے شور کیا جو اسپیکر کی مداخلت پر خاموش ہوئے۔

    شیریں مزاری نے ن لیگی اراکین کے بولنے پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ مداخلت کررہے ہیں۔ رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ اگر ہمیں گزشتہ روز ہی خطاب کی اجازت دے دی جاتی تو یہ شور شرابہ نہ ہوتا.

    شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اسپیکر لیگی ارکان کے منہ بند کرائیں تو میں بات کروں، اقتدار کے نشے میں میری آواز کو دبایا گیا تو مزاحمت کروں گا، اسپیکر میرا تحفظ کریں، اگر آپ کو اسپیکر بننا ہے تو اس کرسی پر بیٹھ کر جیالا نہ بنیں۔

    شاہ محمود قریشی کے طویل خطاب کے دوران لیگی ارکان کی جانب سے چپکے بار بار جملے کسے جاتے رہے جس پر قریشی تقریر روک روک کر انہیں سناتے رہے ، اسپیکر بار بار قریشی سے کہتے کہ آپ انہیں چھوڑیں اپنی تقریر جاری رکھیں تاہم گفتگو میں باربار مداخلت پر شاہ محمود قریشی چراغ پا ہوگئے اور ایوان میں شور کیا۔

    انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز لیگی وزیر سعدرفیق نے ہمیں غنڈہ کہا ، ایوان میں ہماری 4 خواتین بھی ہیں، کیا یہ بھی غنڈہ ہیں؟ لیگی ارکان کو معافی مانگنی ہوگی،ریلوے میں تو آئے دن حادثات ہوتے ہیں، اگر سعد رفیق نے معافی نہیں مانگی تو ریلوے میں نہیں اس پارلیمان میں حادثہ ہوجائے گا، میں اسپیکر سے وضاحت چاہوں کہ ہم ارکان ہیں یا غنڈے؟اسپیکر نے کہا کہ اگر لفظ غنڈے استعمال ہوا ہے تو میں اسے اسمبلی کی کارروائی سے حذف کراؤں گا۔

    اسپیکر اسمبلی نے لیگی رکن سعد رفیق کو بات کرنے کی اجازت دی تو پی ٹی آئی نے اعتراض کیا جس پر اسپیکر نے کہا کہ طے ہوا تھا اب حکومتی رکن کی بار ی ہے اس لیے اعتراض نہ کیا جائے لیکن پی ٹی آئی ارکان نہ مانے بعدازاں سعد رفیق خود ہی اپنی تقریر سے دست بردار ہوگئے۔

    جماعت اسلامی کے رکن طار ق اللہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کرپشن کے خاتمے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے اور بدنیتی کا مظاہرہ کررہی ہے، پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، حکومت کو پاناما لیکس پر کمیٹی بنانا چاہیے تھی.

    بعدازاں اجازت ملنے پر تقریر کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ کل جو کچھ ایوان میں ہوا وہ اس لیے ہوا کہ ہمارے بھی جذبات تھے، پی ٹی آئی کے ارکان کی مزاحمت پر ہم نے عمران خان کے خلاف نعرہ لگایا۔

    میں سیاسی ورکر ہوں اس لیے تسلیم کرتا ہوں کہ کل میں نے اپنی تقریر میں لفظ غنڈہ استعمال کیا، اگر ہمارے لیڈر کو گالیاں دی جائیں تو ہم اس طرح کہیں گے، غنڈہ نہیں کہا غنڈہ گردی کا تاہم میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں، کسی کی بے عزتی کرکے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

    انہوں نے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے ارکان لڑائی جھگڑا کرنے کے علاوہ کوئی قانونی سازی بھی کرلیا کریں وہ یہاں سے تنخواہ وصول کرتے ہں، ارکان ہماری ٹانگیں کھنیچنے کے بجائے بہترین اپوزیشن بنیں، ہماری کارکردگی پر تو بحث کری نہیں۔

     

    انہوں نے کہا کے پی کے میں درخت لگانے کی بات کی تو وہ کہاں گئی؟وہ درخت کہاں گئے کیا انہوں نے سلیمانی ٹوپی پہن لی؟ وہاں جیلوں سے کئی کئی قیدی فرار ہوجاتے ہیں لیکن صوبائی حکومت نے کسی پشیمانی کا مظاہرہ نہیں کیا، یہ ارکان اپنے کارکردگی کے بارے میں دو جملے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔

    اس دوران پی ٹی آئی کے ارکان نے شور کیا تو اسپیکر نے انہیں چپ کرایا اور سعد رفیق نے بھی شور کیا کہ مہربانی کریں شور نہ کریں آپ کو بھی موقع ملے گا،حوصلہ کریں، شیریں مزاری کے کہنے پر انہوں نے ہاتھ جوڑے کہ باجی میں آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

    شاہ محمود قریشی نے اپنی نشست پر کھڑے ہو کر سعد رفیق کی معافی قبول کی، وزیر خزانہ اسحق ڈار نے مختصر خطاب کیا بعدازاں اسپیکر ایاز صادق نے اجلاس کی کارروائی کل صبح تک کے لیے ملتوی کردی۔


    ajlaAyaz Sadiq says PML-N members accuse him of… by arynews

     

    سعد رفیق کو بات کرنے کی اجازت دینے سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے شاہ محمود قریشی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرا رویہ اتنا کچھ سننے کے بعد تبدیل نہیں ہوا،میرے پاس ممبران کو عزت دینے کے سوا کچھ نہیں، جس طرح آپ منتخب ہوئے ہیں اسی طرح میں بھی منتخب ہوا ہوں۔

    انہوں نے کہا کہہ مجھے جس طرح ڈی سیٹ کیا گیا میں عوام کی طرف گیا اور دوبارہ منتخب ہوکر آیا، تحریک انصاف کے استعفوں کا معاملہ آیا تو میں نے تحریک انصاف کو تحفظ نہیں دیا بلکہ قانون اور قاعدے کے مطابق اپنا کام سرانجام دیا اور چالیس دن ان کے استعفیٰ منظور نہ ہوئے لیکن مجھ پر حکومتی بنچوں سے اپوزیشن کی جانب داری کے الزامات عائد ہوئے، میں نے اپوزیشن کو بہت وقت دیا لیکن مجھ پر الزام لگا کہ میں جانب دار ہوں۔

    انہوں نے  کہا کہ مجھ پر جو تنقید کنٹینر پر کی گئی میں اس کا یہاں ہائوس میں بیٹھ کر جواب دینا نہیں چاہتا، قریشی صاحب نے ہائوس کی کتاب کو مقدس قرار دیا لیکن گزشتہ روز پی ٹی آئی کے ارکان کی جانب سے ہائوس کی کتاب کو اٹھا کر زمین پر پٹخا گیا میرے پاس اس کی ویڈیو موجود ہے لیکن میں بات کو بڑھانا نہیں چاہتا۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی قومی اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا تھا، پی ٹی آئی کے ارکان نے بولنے کی اجازت نہ ملنے پر اسپیکر کا گھیرائو کرکے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دی تھی اور وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نعرے بازی کی تھی

    یہ پڑھیں: قومی اسمبلی کا اجلاس: اسپیکر کا گھیراؤ، پی ٹی آئی نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں

    اجلاس کے دوران تحریک انصاف کی رکن اپنے مخصوص انداز میں مسلم لیگ ن کے ارکان کو خاموش کراتی رہیں جس پر خواتین ارکان بھی مسکرادیں۔

  • قومی اسمبلی کا اجلاس: اسپیکر کا گھیراؤ، پی ٹی آئی نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں

    قومی اسمبلی کا اجلاس: اسپیکر کا گھیراؤ، پی ٹی آئی نے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں

    اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پی ٹی آئی ارکان نے بولنے کی اجازت نہ ملنے پر ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑی دیں، اسپیکر کی نشست کا گھیراؤ کیا جس پر اسپیکرایازصادق نے اجلاس پندرہ منٹ کےلیے ملتوی کردیا اور نشست چھوڑ گئے، خورشید شاہ نے بھی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

    قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت جاری رہا، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ خورشید شاہ کی تقریر کے بعد اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے حکومتی بینچ سے خواجہ سعد رفیق کو پوائنٹ آف آرڈر پر تقریر کرنے کی اجازت دینے پر اپوزیشن اراکین نے شدید احتجاج شروع کردیا، پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف نعرے بازی کی گئی، اراکین نے اسپیکر کے ڈائس کے سامنے جا کر ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں جس کے باعث خواجہ سعد رفیق کو اپنی تقریر روکنا پڑی۔

    اسپیکر ایازصادق کا کہنا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر پہلے اپوزیشن لیڈر نے بات اب حکومتی رکن کی باری ہے اس کے بعد آپ کو بھی موقع دیا جائے گا لیکن مشتعل پی ٹی آئی کے اراکین نہ مانے اور مطالبہ کیا کہ پہلے پوری اپوزیشن کو بات کرنے دی جائے بعدازاں حکومتی رکن کو ایک ہی بار بولنے کا موقع دیا جائے ہر تنقید کے بعد نہیں جواب میں اسپیکر اپنے موقف پر قائم رہے کہ پہلے سعد رفیق بات کریں گے بعدازاں پی ٹی آئی ارکان جس پر تنازع بڑھ گیا۔

    خواجہ سعد رفیق کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی ارکان نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑی دیں، اسپیکر کی نشست کا گھیراؤ کیا جس پر اسپیکرایازصادق نے اجلاس پندرہ منٹ کےلیے ملتوی کردیا اور نشست چھوڑ گئے۔

    قبل ازیں اپنی تقریر میں  قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے مر کزی رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ پر اس کے اندر سے ہی حملہ ہو رہا ہے، چیف جسٹس آف پاکستان کو کیوں متنازع بنایا جا رہا ہے، وہ پورے پاکستان کے چیف جسٹس ہیں، آج پاکستان کا وزیر اعظم ایک قطری شہزادے کے پیچھے چھپ رہا ہے۔

    خورشید شاہ نے کہا کہ جھوٹ ایک لعنت ہے، اس سے قومیں تباہ ہوجاتی ہیں لیکن وزیراعظم آج اس ایوان میں آکر جھوٹ بولتے ہیں،وزیراعظم کو یہ خیال ہونا چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کی پیداوار ہیں، پارلیمنٹ نے ہی ان کی اہمیت کو تسلیم کروایا،  جھوٹ چاہے خورشید شاہ بولے یا کوئی اور یہ مقدس ایوان ہے یہاں جھوٹ بولنے سے اس ایوان کا استحقاق مجروح ہورہا ہے۔

    خورشید شاہ نے کہا کہ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کا رتبہ سب سے زیادہ ہوتا ہے، ایوان عدلیہ اور عدالت سے زیادہ مقدس ہے، اس ایوان کو بچانے کے لیے اپوزیشن نے ہر دور میں اہم کردار ادا کیا۔

    مزید پڑھیں : خورشید شاہ نے نواز شریف کے خلاف تحریک استحقاق جمع کرادی

    خورشید شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے یہاں پر کہے گئے ایک ایک لفظ کی اہمیت ہوتی ہے، ایوان بڑی قربانیوں اور مشکلوں سے حاصل ہواہے، یہی ایوان آئین بناتا ہے ادارے اس سے جنم لیتے ہیں ،ہماری پارٹی نے اس ایوا ن کے لیے ڈنڈے کھائے جیل میں گئے، ضرورت پڑنے پر گولیاں بھی کھائیں۔

    خورشید شاہ کی جانب سے پاناما کیس پر اظہار خیال کیا گیا تو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے خورشید شاہ کو پاناما کیس کے معاملے پر بات کرنے سے گریز کرنے کی ہدایت اور کہا کہ پاناما کا معاملہ عدالت میں ہے۔ اس پر اپوزیشن لیڈر نے کہا پارلیمنٹ سپریم ہے جو عدالت سے زیادہ مقدس ہے۔

    خورشید شاہ نے مزید کہا کہ وزیراعظم کا پارلیمنٹ میں اپنی تقریر کو سیاسی قرار دینا افسوس ناک ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کیا سیاست جھوٹ ہے؟۔ سیاست خدمت اور عبادت ہے جبکہ سیاست کو جھوٹ سمجھنے والے آمریت کی سوچ رکھتے ہیں۔

  • قومی اسمبلی، انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس منظور، اپوزیشن کا واک آؤٹ

    قومی اسمبلی، انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس منظور، اپوزیشن کا واک آؤٹ

    اسلام آباد : قومی اسمبلی کے آج کے اجلاس میں انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس میں توسیع کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی ہے جب کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے واک آﺅٹ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس میں انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس میں توسیع کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی ہے۔

    ذرائع کے مطابق اِنکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس2016 میں ٹیکس نادہندگان کو مزید 120 یوم کی توسیع کی منظوری دی گئی ہے۔

    آرڈیننس کے خلاف اپوزیشن جماعتیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اراکینِ اسمبلی نے اس قرارداد پر اپوزیشن کو اعتماد میں نہ لینے، اظہارِ خیال کا موقع نہ دینے اور بل کے بجائے آرڈیننس کی صورت میں پیش کرنے پر اجلاس سے واک آﺅٹ کرگئے۔

    اس موقع پر ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی رشیدگو ڈیل نے کہا ہے کہ جب مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں تھی توآرڈیننس لانے اور توسیع پر بہت واویلا کرتی تھی اور اسے جمہوریت کے منافی قرار دیتی تھی جب کہ آج خود بھی اس روش پر چل پڑی ہے۔

    جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمان) کے اراکین اس قرارداد کی منظوری کے خلاف اپوزیشن کے واک آؤٹ کا حصہ نہیں بنے جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف اسمبلی سے مسلسل بائیکاٹ کی وجہ سے آج کے اجلاس میں بھی شریک نہیں تھی۔

  • عائشہ گلالئی کی والدہ کا گھوسٹ ملازم ہونے کا انکشاف

    عائشہ گلالئی کی والدہ کا گھوسٹ ملازم ہونے کا انکشاف

    اسلام آباد: تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کی والدہ کے محکمہ تعلیم میں گھوسٹ ملازم ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ انکشاف قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہوا تاہم اسپیکر ایاز صادق نے عائشہ گلالئی کے موجود نہ ہونے پر اراکین کو اس موضوع پر بات کرنے سے روک دیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا جس میں رکن اسمبلی نعیمہ کشور کے سوال پر پارلیمانی سیکرٹری سیفران شاہین اشفاق نے ایک چشم کشا انکشاف کیا کہ تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلا لئی کی والدہ محکمہ تعلیم کی گھوسٹ ملازمہ ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ عائشہ گلا لئی کی والدہ ایف آر بنوں میں سرکاری اسکول کی استانی ہیں، شاہین اشفاق کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی رکن اسمبلی کی والدہ گھر بیٹھے تنخواہ لیتی ہیں۔

    اس موقع پراسپیکر ایاز صادق کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ کیونکہ رکن قومی اسمبلی عائشہ گلا لئی اس وقت ایوان میں اپنے دفاع کیلیے موجود نہیں ہیں لہٰذا ان کا نام لے کر کوئی بات یا الزام نہ لگایا جائے۔

  • قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیزاجلاس، اپوزیشن کا دو باربائیکاٹ

    قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیزاجلاس، اپوزیشن کا دو باربائیکاٹ

    اسلام آباد : قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف نااہلی ریفرنس پر پی ٹی آئی ارکان کو بات کرنے سے روکنے پر اپوزیشن نے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا، اپوزیشن ارکان نے دو بار اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔

    پی ٹی آئی ارکان نے احتجاج کےدوران ’’ستیاناس ہوگیا‘‘کے نعرے لگائے ۔ اسپیکر اور شیخ رشید کے درمیان بھی تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت منعقد ہوا، اجلاس میں  وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نااہلی ریفرنس الیکشن کمیشن کو نہ بھیجنے پر پی ٹی آئی ارکان نے شدید احتجاج کیا۔

    اراکین کو نکتہ اعتراض پر بولنے کی بھی اجازت نہ ملی، اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے پی ٹی آئی ارکان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی ارکان کا پوائنٹ درست ہے بولنے دیں اس سے وزیراعظم کے خلاف ریفرنس دائر نہیں ہوجائے گا۔ ساتھ ہی اسپیکر سے یہ بھی کہہ دیا کہ آپ ماحول خراب کریں گے تو حکومت کو مشکل ہوگی۔

    احتجاج کے دوران پی ٹی آئی ارکان ’’ستیاناس ہوگیا‘‘کے نعرے لگاتے رہے۔ اسپیکر ایاز صادق نے جواب دیا کہ کسی کے کہنے سے ستیاناس نہیں ہوتا۔

    اس دوران عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید بولے تو ان کا اسپیکر کے ساتھ تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ شیخ رشید نے کہا کہ آپ خود جمہوریت کی قبرکھود رہے ہیں۔

    اپوزیشن کے احتجاج کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف پھر پی ٹی آئی پر برسے اور سوال اٹھایا کہ شوکت خانم کاپیسہ مسقط اورعمان کیسے پہنچا؟

    اسپیکرقومی اسمبلی نے ریمارکس میں کہا کہ ریفرنس کے معاملے میں جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا، ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کےخلاف ریفرنس میں پاناما لیکس سے متعلق شواہد نہیں ملے۔

     

  • قومی اسمبلی کا اجلاس : اپوزیشن نے سائبرکرائم بل کی مخالفت کردی

    قومی اسمبلی کا اجلاس : اپوزیشن نے سائبرکرائم بل کی مخالفت کردی

    اسلام آباد : قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا، اس موقع پر وزیر مملکت آئی ٹی انوشے رحمان نے الیکٹرانک جرائم کے تدارک کا بل ایوان میں پیش کیا جس پر اپوزیشن نے سوالات اٹھادیئے۔

    اپوزیشن کا مؤقف تھا کہ بل میں بچوں کے لیے جو سزائیں ہیں وہ قابل قبول نہیں پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ یہ کون سا جمہوری قانون ہے ؟

    ایم کیو ایم کے علی رضا عابدی نے کہا یہ کون سی جمہوریت ہے کہ طبیعت پر گراں گزرنے والا ایک جملہ تک سوشل میڈیا پر آجائے تو قابل گرفت ہوگا۔

    نفیسہ شاہ نے کہا کہ اگر یہ بل پاس ہوگیا تو انہیں پارلیمنٹ کا حصہ ہونے پر شرمندگی ہوگی۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی سائبرکرائم بل کی مخالفت کافیصلہ کیا ہے۔

    اس حوالے سے شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ بل کی بعض شقوں پرتحفظات ہیں، قومی اسمبلی کا کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے بل پر ووٹنگ نہ ہوسکی۔

     

  • مسلم لیگ ن کے ناراض اراکین کھل کر سامنے آگئے

    مسلم لیگ ن کے ناراض اراکین کھل کر سامنے آگئے

    اسلام آباد : قومی اسمبلی کے اجلاس میں اسحاق ڈار کی تقریر کے دوران مسلم لیگ ن کے ناراض اراکین کا گروپ اپنی نشستوں سے اٹھ کر لابی کی نشتوں پر بیٹھ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق آج ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جب اسحاق ڈار نے اپنی تقریر کا آغاز کیا تو مسلم (ن) کے ناراض اراکین اپنی نشستیں چھوڑ کر چلے گئے۔ناراض اراکین کو جاتا دیکھ کر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور شیخ آفتاب ناراض گروپ کے اراکین کے پیچھے گئے اور منت سماجت کر کے واپس ایوان میں لے آئے۔

    لیگی ایم این اے نجف عباس سیال کا کہنا تھا کہ ’’ احتجاج کی وجہ بہت سارے مسائل ہیں جن میں سب سے اہم مسئلہ تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونا ہے‘‘۔احتجاج کرنے والوں میں نجف سیال ،راؤاجمل ،جعفراقبال اور ریاض الحق سمیت متعدد ارکان شامل تھے۔

    مسلم لیگ ن کے ناراض اراکین کا کہنا ہے کہ ہم نے وفاقی وزیر دفاع کو اپنے تمام تحفظات سے آگاہ کردیا ہے کہ اگر اگلے تحفظات دور نہ کیے گئے تو ہر دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا۔

    دوسری جانب اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود نے ناراض اراکین کی تعداد کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ ناراض اراکین کی تعداد 80 تک پہنچ گئی ہے۔

  • ہمارا دامن صاف ہے، احتساب کیلئے تیار ہیں، نوازشریف کا قومی اسمبلی میں خطاب

    ہمارا دامن صاف ہے، احتساب کیلئے تیار ہیں، نوازشریف کا قومی اسمبلی میں خطاب

    اسلام آباد: قومی اسمبلی کا اہم اجلاس سردار ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا، اجلاس میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ ، پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، شیخ رشید ، چوہدری پرویز الٰہی، سراج الحق دیگر موجود تھے۔

    اسپیکر ایاز صادق نے اس موقع پر اعلان کیا کہ اسمبلی سے سب سے پہلا خطاب وزیراعظم نواز شریف کریں گے جبکہ دوسرا خطاب اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور اس کے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان خطاب کریں گے.

    اجلاس میں معمول کے مطابق وقفہ سوالات کا سلسلہ جاری تھا کہ اس دوران وزیراعظم نواز شریف ایوان میں پہنچ گئے اس موقع پراراکین اسمبلی نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا جبکہ لیگی اراکین نے وزیر اعظم کے حق میں نعرے بازی کی۔

    وزیر اعظم کا قومی اسمبلی سے خطاب 

    وزیر اعظم میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پانامہ لیکس میں میرے بیٹوں کا ذکرآیا ہے میرا نہیں ،مجھے خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن پھر بھی میں نے اپوزیشن کے مطالبے پر چیف جسٹس کی سربراہی میں تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔

    وزیراعظم نے کہا کہ اس کے باوجود اپوزیشن نے اس کے ٹی او آرز ماننے سے انکار کردیا، میری رائے کو مثبت لینے کی بجائے اس پر تنقید کی گئی۔

    حکومتی ٹی او آرز کے جواب میں اپوزیشن نے جو ٹی آر اوز پیش کئے وہ صرف ایک فرد کے گرد گھومتے ہیں، جس کا نام پانامہ لیکس میں کہیں موجود نہیں، حد تو یہ ہے کہ کمشین سے پہلے ہی مجھ پر فرد جرم تک عائد کردی گئی۔

    513607-pm-1463405241-298-640x480

    وزیراعظم نے اسپیکر سے درخواست کی کہ وہ اپوزیشن لیڈر اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی مشاورت سے پاناما لیکس کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی بنائیں جو اتفاق رائے سے ٹرم آف ریفرنس اور دیگر معاملات کو حتمی شکل دے تاکہ بدعنوانی کرنے والوں کا محاسبہ کیا جاسکے۔


    انہوں نے کہا کہ ہم کسی بات کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہتے، حکومت ملک کی ترقی اور خوشحالی اور قوم کا مفاد چاہتی ہے۔

    اللہ کا کرم ہے کہ ہمارا دامن صاف ہے، سیاست میں آکر بنایا کچھ نہیں البتہ گنوایا ضرور ہے، میرے پاس چھپانے کو نہ آج ہے اور نہ پہلے تھا۔

    وزیر اعظم نوازشریف نے پارلیمنٹ کو یقین دہانی کرائی کہ حکومت پانامہ پیپرز معاملہ کی جلد تحقیقات چاہتی ہے، اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کی کابینہ کے ساتھی ہر قسم کے احتساب کے لئے تیار ہیں۔

    وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ میں ایوان میں وضاحت دوں لیکن یہ معاملہ اب یوں ختم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اسے ایسا ہونا چاہیے، بات نکل ہی گئی ہے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ضرور ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میرے دل میں پارلیمنٹ کی بہت عزت ہے، یہ ایوان قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی علامت ہے۔

    وزیر اعظم نے اپنے ٹیکس گوشواروں کی تفصیل ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ذاتی طور پر تین کروڑ ساٹھ لاکھ روپے کا ٹیکس دیا، جبکہ میرے خاندان نے 23 سال میں دس ارب روپے کا ٹیکس دیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کمیشن کے قیام کے بارے میں محترم چیف جسٹس کا صاحب کا خط ہمیں موصول ہوگیا ہے اور ہمارے قانونی ماہرین اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔

    چیف جسٹس کے خط کی روشنی میں ہمیں اپوزیشن کے ساتھ مل کر کوئی دائرہ اختیار بنانے میں کوئی حرج نہیں لیکن سب کو ایک ہی معیار میں تولنا ہوگا، اس کے الگ الگ معیار نہیں ہوسکتے۔

    ان کا کہنا تھا کہ خدا خدا کرکے ہمارے شہروں کا امن واپس آرہا ہے، قومی سطح پر ہمارے وقار میں اضافہ ہوا اور ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ آج کا پاکستان 3 سال قبل کے پاکستان سے زیادہ روشن توانا اور مستحکم ہے، 2018 کا پاکستان اس سے بھی زیادہ مستحکم ہوگا۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ ٹیکس چوری اور قرضے معاف کرانے والوں کی بھی چھان بین ہونی چاہیئے، قیمتی جہازوں اور بڑے محلات میں رہنے والوں کی کہانی بھی سامنے آنی چاہیئے۔

    وزیراعظم نے کہا کیچڑ اچھالنے والوں کو بتانا دینا چاہتا ہوں کہ میں نے بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب بہت سے رفاعی اداروں کو مفت زمینیں اور مالی گرانٹس اور مشینری کی درآمد میں ٹیکس کی چھوٹ دی ہوگی۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمارے خاندان کے زیر انتظام چلنے والے فلاحی اداروں کے لیے ایک انچ سرکاری زمین دی گئی نہ ہی کوئی گرانٹ دی گئی،انہوں نے سوال کیا کہ کیا کرپشن کرنے والوں کا طرزعمل ایسا ہی ہوتا ہے۔

    نواز شریف نے پیسہ کہاں آیا اور کیسے باہر گیا کے جواب میں کہا کہ جدہ فیکٹری فروخت کرکے لندن کا فلیٹ خریدا، انہوں نے کہا کہ جدہ فیکٹری ہو یا لندن فلیٹ پاکستان سے ایک روپیہ بھی باہر نہیں گیا۔

    سید خورشید شاہ کا انتہائی مختصر خطاب 

    وزیر اعظم کے خطاب کے بعد اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے انتہائی مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے سات سوالوں کے جواب دینے کے بجائے دبئی اور جدہ کے لیکس بھی بتا دیئے اب سات نہیں 70 سوال ہوں گے ، ہم نے جو سوالات کیے تھے ان کا جواب نہیں ملا ، یہ کہہ کر وہ اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔

    بعد ازاں اسپیکر ایاز صادق نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو خطاب کی دعوت دی۔

    اپوزیشن نے وزیراعظم نوازشریف کی تقریر کے بعد قومی اسمبلی سے واک آﺅٹ کر دیا، عمران خان نے بھی اسمبلی میں خطاب کے بجائے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا ۔