Tag: قومی ترانے کے خالق

  • قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا 119ویں یوم پیدائش

    قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا 119ویں یوم پیدائش

    لاہور: اردو زبان کے شہرہ آفاق شاعر اور قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی ایک سو انیسویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

    قومی ترانے کے خالق کی حیثیت سے حفیظ جالندھری نے شہرت دوام پائی، ملکہ پکھراج نے ان کی نظم ابھی تو میں جوان ہوں کو گا کر امر کردیا، آپ 82 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    حفیظ جالندھری ایک نامور شاعر اور نثرنگار ہیں آپ 14 جنوری 1900 کو ہندوستان کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے اور آزادی کے وقت آپ لاہور منتقل ہوگئے، آپ کا قلمی نام ’ابولاثر‘ تھا۔

    آپ کا سب سے اہم فنی کارنامہ اسلام کی منظوم تاریخ ہے جس کا نام ’شاہ نامۂ اسلام‘ ہے لیکن آپ کی وجۂ شہرت پاکستان کا قومی ترانہ ہے۔ آپ کی خدمات کے صلے میں آپ کو شاعرِاسلام اور شاعرِپاکستان کے خطابات سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر اعزازات میں انہیں ہلال امتیاز اور تمغۂ حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

    ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں تو ڑ دیتا ہوں

    کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

    آپ کا موضوع سخن فلسفہ اورحب الوطنی ہے آپ کی بچوں کے لیے لکھی تحریریں بھی بے حد مقبول ہیں۔

    آپ غزلیہ شاعری میں کامل ویکتا تھے، 1925 میں ’نغمہ زار‘ کے نام سے حفیظ کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ ملکہ پکھراج کا گایا ہوا شہرہ آفاق گیت ابھی ’تو میں جوان ہوں‘ بھی اسی مجموعے میں شامل تھا۔

    آخر کوئی صورت تو بنے خانہٴ دل کی

    کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے

    اس کے بعد سوزوساز، تلخابہ شیریں، چراغ سحر اور بزم نہیں رزم کے عنوانات سے ان کے مجموعہ ہائے کلام سامنے آئے۔

    دیکھا جو تیرکھا کہ کمیں گاہ کی طرف

    اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

    حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1982 کو انتقال فرماگئے تھے ‘ اس وقت آپ کی عمر 82 سال تھی۔

    شعر وادب کی خدمت میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے

    یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی باتیں نہیں

  • قومی ترانے کے خالق حفیظ ؔجالندھری کو ہم سے بچھڑے 34 برس بیت گئے

    قومی ترانے کے خالق حفیظ ؔجالندھری کو ہم سے بچھڑے 34 برس بیت گئے

    کراچی : قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کا یوم وفات آج عقیدت و احترام سے منایا جائے گا۔ اس موقع پر ملک بھر میں خصوصی تقریبات منعقد ہوں گی جن میں شاہنامہ اسلام اور قومی ترانے کے خالق کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔

    پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری 14 جنوری سنہ 1900 کو پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے، آپ کے والد شمس الدین حافظِ قرآن تھے۔ حفیظؔ مرحوم نے اپنی ابتدائی تعلیم مسجد سے منسلک مدرسے سے حاصل کی، پھرایک مقامی اسکول میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔

    شاعری میں ان کو نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1947ء میں وہ ہجرت کر کے لاہور منتقل ہوگئے۔ اس سے قبل حفیظؔ جالندھری 1922ء سے 1929ء تک مختلف ماہناموں کے مدیر رہے جن میں نونہال، ہزار داستان، تہذیبِ نسواں، مخزن جیسے مجلے شامل ہیں۔

     

    ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ "نغمہ ء زار” 1935ء میں شائع ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد وہ "سونگ پبلسٹی ڈپارٹمنٹ” کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس دور میں انہوں نے بہت سے ایسے نغمے اور گیت لکھے جو عوام میں بہت مقبول ہوئے۔

    حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادر الکلام شاعر تھے، آپ کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے جو چار جلدوں میں شائع ہوا، اس کے ذریعے انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا، جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔

    jalindhari-post-01

    ان کے شاعرانہ کارناموں میں ایک بہت بڑا کارنامہ شاہنامہ فردوسی کے انداز میں شاہنامہ اسلام کی تخلیق ہے جس نے ان کی شہرت کو بقائے دوام بخشا۔

    اس طویل نظم میں انہوں نے اسلام کے دورِ زریں کی تاریخ بیان کی ہے۔ ان کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کے قومی ترانے کی تخلیق ہے جسے موسیقار احمد جی چھاگلا نے سُروں سے سجایا ہے۔ اس قومی ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    ان کی شاعری میں پائی جانے والی غنائیت اور مشاعروں میں ان کے ساحرانہ ترنم کی وجہ سے ان کو شعراء میں انفرادی حیثیت حاصل ہے۔ عام طور پر ان کی شاعری میں عشق، مذہب، حب الوطنی اور قدرت کے موضوعات پائے جاتے ہیں۔ وہ اپنے موضوعات برصغیر کے مخصوص ماحول کے تناظر میں چنتے ہیں۔

    ان کی زبان میں اردو اور ہندی کا بڑا خوبصورت امتزاج دیکھنے میں آتا ہے جو جنوبی ایشیا کی مخصوص ثقافت کا آئینہ دار ہے۔ حفیظ ؔ مرحوم کو ان کی خدمات کی بنا پر حکومت ِ پاکستان کی جانب سے تمغہ ء حسنِ کارکردگی اور ہلال ِ امتیاز سے نوازا گیا۔

    حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں نغمہ با، تلخابہ شیریں اور سوز و ساز، افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر، گیتوں کے مجموعے ہندوستان ہمارا، پھول مالی اور بچوں کی نظمیں اور اپنے موضوع پر ایک منفرد کتاب چیونٹی نامہ قابل ذکر ہیں۔

    ابوالاثر حفیظ جالندھری نے 21 دسمبر 1982 کو لاہور میں وفات پائی ، وہ مینار پاکستان کے سائے تلے آسودہ خاک ہیں۔