Tag: قومی زبان

  • گویائی کے نئے سکّے تلاش کرتی اردو زبان

    گویائی کے نئے سکّے تلاش کرتی اردو زبان

    زبان کے الفاظ سکّوں کی طرح چلتے ہیں۔ پرانے سکّے غیر محسوس طریقے سے بازار سے نکلتے جاتے ہیں، ان کی جگہ نئے سکّے راہ پا لیتے ہیں۔ نئے الفاظ زبان پر چڑھتے ہیں، نئے محاورے اور روزمرّہ استعمال میں آتے ہیں اور نئی زبان ڈھلنا شروع ہوجاتی ہے۔

    یہ سب کچھ مادّی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتا۔ یعنی کوئی کھانچا یا فرما نہیں ہوتا، جس میں زبان ڈھلتی ہو بلکہ یہ نفسیاتی اور فطری عمل کے ذریعے معرضِ وجود میں آتی ہے۔ آب و ہوا اور جغرافیائی اثرات سے اصول لیتی ہے، یعنی الفاظ ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ ان کے تلفّظ اور لہجے شمال، جنوب، مشرق، مغرب سمتوں میں بدلتے رہتے ہیں۔ غرض کہ اس طرح زبان کے لیے اور جدید زاویے اُبھرتے ہیں اور ایک ایسی زبان سامنے آتی ہے، جو عوامی بولی بن جاتی ہے، جسے ہر خاص و عام سمجھتا ہے اور بولتا بھی ہے۔

    ہمارے ملک میں یہی عمل جاری ہے۔ پچھلے پچاس برسوں میں اردو زبان پر کئی ردّے لگ چکے ہیں۔ اب اس کی نئی شکل ابھر کر سامنے آتی جا رہی ہے، اس نئی ابھرتی ہوئی اردو زبان کی رچی ہوئی شکل بعض ناولوں، ادبی تحریروں اور ٹی وی ڈراموں میں نظر آتی ہے۔ اس زبان میں وہی کھٹ مٹھا پن ہے، جو پیڑ میں لٹکتی ہوئی امبیا کا ہوتا ہے۔ دانت سے کترو تو مزہ بھی آتا ہے اور منہ بھی بنتا ہے۔ یہ زبان میٹھی بننے میں ابھی وقت لگے گا، مگر جب پوری طرح جوبن پر آئے گی تو اپنی مٹھاس دکھائے گی۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں کہ اردو کو ٹکسالی میزان قرار نہیں دیا جاسکتا۔بَرخلاف اس کے آج کی تخلیقی تحریریں پڑھیے تو ان میں سے اکثر و بیش تر میں جلدی جلدی کاتا اور لے دوڑے کا عمل نظر آئے گا۔ ان تحریروں میں پھوہڑ پن کا احساس ہوگا۔ یوں محسوس ہوگا کہ لکھنے والا نہ صرف زبان و بیان اور الفاظ کے رموز سے ناواقف ہے، بلکہ وہ اپنے قدیم و جدید ادب سے بھی اچھی طرح واقف نہیں ہے۔

    وہ تخلیقی سطح پر زبان سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہے اور انگریزی مرکبات اور جملوں کے بھونڈے ترجموں سے عبارت کو خراب کر رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ مغرب کے رجحانات اور اس کے ادب کی پیروی کر کے وہاں کے ادبی مشن کو پاکستان میں درآمد کر رہا ہے۔ وہ اپنے معاشرے اور اس کے مسائل اور رجحانات سے کٹا ہوا ہے۔ صرف بدیسی اثرات اور فیشن کی سوداگری کر رہا ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ عصری لسانی تقاضے، دونوں لسانی نظریات سے تکمیل پاتے ہیں۔ فن اور نظریہ دونوں کی ضرورت ہے۔ ادبی تحریر میں اپنی زمین کی بو باس ہونی چاہیے، جس تحریر میں مقامی معاشرتی بولی ترجمانی نہ کرتی ہو، بلکہ اس میں انگریزی زبان و اسلوب کے اثرات نمایاں ہوں، وہ تحریر زبان کی ٹکسالی اہمیت کو متاثر کرتی ہے اور ادبی روح کو بھی کچلتی ہے۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی ایسی تحریروں کو مسترد کرتے ہیں، جب کہ نارنگ قطع نظر زبان کے فنی لزوم کے صرف زبان کے ارتقا پر نظر رکھتے ہیں، ان کی زبان میں اب زمانہ ٹکسال سے باہر آچکا ہے اور گویائی کے سکّے عام بازار میں تلاش کر رہا ہے، لہٰذا اس رویّے کو وقت کی ضرورت سمجھ کر قبول کر لینا چاہیے۔

    (ڈاکٹر صابر حسین جلیسری کے مضمون سے غلام حسین قادر کا انتخاب)

  • بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کی علمی کاوشیں

    بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کی علمی کاوشیں

    بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کا مقام پاک و ہند میں اُردو سے بے پناہ محبت کرنے والے اور اُردو تحریک کو بامِ عروج تک پہنچانے والوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہے، اس کے علاوہ دنیا میں کسی بھی زبان میں اس زبان سے اس قدر محبت کرنے اور اس کے فروغ کے لئے آخری سانسوں تک جدوجہد کرنے والی اگر کوئی شخصیت ہے تو یہ منفرد اعزاز بھی بابائے اُردو مولوی عبدالحق ؒ کو حاصل ہے .

    بابائے اُردومولوی عبدالحقؒ کو ابتدا ءہی میں ریاضی سے گہرا لگاؤ تھا جس نے اُنہیں غور و فکر اور مشاہدے کا عادی بنا دیا ۔اس کے علاوہ انہیں فارسی اور اُردو شاعری، نثرنگاری ،تاریخ ،فلسفہ اور مذہب کا مطالعہ کرنے کا بھی شوق تھا ان علوم اور ادب کے مطالعے نے مولوی عبدالحقؒ کے قلب و ذہن پر مثبت اثرات مرتب کئے انہیں اپنے اطراف سے گہری دلچسپی پیدا ہوئی ۔غور و فکر ،مطالعے اور مشاہدے کا ذوق مزید گہرا ہوا ان کی فکر میں وسعت ،تخیل میں بلندی اور زبان و بیان کی باریکیاں واضح ہوئیں ۔بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کے بے شمار کارنامے ہیں طلبِ آگہی نے انہیں مزید متحرک اور مضطرب بنا دیا تھا۔ پہلی بار مولوی عبدالحقؒ کی کا وشوں سے دکنی زبان کے علمی اور ادبی شہ پارے سامنے آئے انہوں نے اپنی تحقیقی کاوشوں سے اس گوشہ ادب کی علمی اور لسانی اہمیت کو اُجاگر کیا۔

    قدیم دہلی کالج کے حوالے سے بھی بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحقؒ نے اپنی انتھک محنت اور خلوص سے ”مرحوم دہلی کالج“ لکھ کر اس ادارے کی ادبی اور تعلیمی کاوشوں کو نمایاں کیا۔فورٹ ولیم کالج کی طرز سے ذرا ہٹ کر دوبارہ دہلی کالج قائم کیا جس سے بلاشبہ اُردو میں بیشتر مغربی ادب اور علوم سے آگہی کا موقع میسر آیا ۔دہلی کالج نے اس دور کے طلبہ کی شخصیت اور ذہن سازی میں نمایاں کردار ادا کیا ۔بابائے اُردو مولوی عبدالحقؒ نے نہ صرف اُردو میں تنقید نگاری، مقدمہ نگاری اور معنویت عطا کی بلکہ اُردو میں پہلی بار حقیقی تبصرہ، جائزہ اور لسانی اکتساب صرف بابائے اُردو مولوی عبدالحقؒ کی مقدمہ نگاری میں میسر آیا انہوں نے اُردو میں تبصرہ نگاری کو ایک نیا رنگ اور ڈھنگ عطا کیا۔

    مولوی عبدالحق ؒ کی فکری، علمی، ادبی ، لسانی اور تعلیمی جدوجہد کے بارے میں جیسا کہ سب جانتے ہیں وہ سراپا اُردو اور اُردو ادب کی ایک نادر اور منفرد شخصیت تھے۔غالب کے خطوط کی ادب میں اپنی ایک اہمیت ہے ۔اس روایت کو آگے بڑھانے میں بابائے اُردو مولوی عبدالحقؒ نے زبان و بیان کا ایک نمونہ پیش کیا اور ان کے خطوط بھی اُردو ادب کا اہم اثاثہ بن گئے اس میدان میں بھی بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ نے اپنا الگ مقام بنایا ۔بابائے اُردو کی پوری زندگی اُردو کے فروغ کی جدوجہد میں گزری ،انجمن ترقی اُردو دارالترجمہ اور جامعہ عثمانیہ پر بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحقؒ کا بڑا قرض ہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ نے کراچی میں رہائش اختیار کی اور یہاں انجمن ترقی اُردو کے دفتر کے قیام کے ساتھ ہی اُردو کے نفاذ اور اُردو یونیورسٹی کے قیام کی جدوجہد بھی شروع کردی ۔بابائے اُردو مولوی عبدالحق ؒ پاکستان کی تشکیل اور یکجہتی کو اُردو سے وابستہ دیکھتے تھے ۔بابائے اُردومولوی عبدالحق کی تحریک ایک بامقصد تحریک تھی خاص طور پر پاکستان میں اُردو کی اہمیت اور ضرورت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ایک سو سال قبل بابائے اُردو ڈاکٹرمولوی عبدالحقؒ نے جو نظریہ قائم کیا تھا وہ آج بھی سچ ثابت ہورہا ہے۔ اُردو ہمارے ملک کی یکجہتی کے لئے ضروری ہے ۔

    زمانہ قدیم میں بھی بیشتر معاشرے ایک سے زیادہ زبانیں استعمال کرتے تھے ۔انگریزی آج ایک عالمی زبان ہے اور ہمیں عالمی رابطوں کے لئے انگریزی جاننا ضروری ہے مگر اُردو کو انگریزی کی اہمیت کے ساتھ پلڑے میں تولا جائے تو اُردو کا پلڑا انگریزی سے بہت بھاری ثابت ہوگا۔

    اُردو ہماری قومی یکجہتی کی ضمانت ،قومی ترجمان ، سماجی ، معاشی ،تہذیبی اور مذہبی حلقوں کی بھی ترجمانی کرتی ہے ۔ہمارے ملک میں ہر قومی گوشے میں اُردو کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ اُردو مقامی زبانوں اور بولیوں کی سب سے بڑی معاون ہے وہ ان کی بھی ترجمانی کرتی ہے ۔ان تمام کاوشوں اور ملک میں اُردو کالج سےوفاقی جامعہ اُردو کے قیام اور انجمن ترقی اُردو کی شاندار ترقی کا سہرا بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کے سر جاتا ہے ان کی اُردو کے لئے خدمات ،کاوشوں اور مصائب کو برداشت کرنے کی تاریخ بہت طویل ہے ۔

    آج بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کی57 ویں برسی ہے ۔ بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کا لگایا گیا پودا” اُردو کالج“ ان کی وفات کے بعدمحترم جمیل الدین عالی مرحوم و دیگر کی شب و روز مخلصانہ انتھک عملی کاوشوں کی بدولت اُردو یونیورسٹی کے تناور درخت کا روپ دھار چکا ہے۔ اس کے علاوہ ”اُردو باغ“ کی عمارت بھی تعمیر ہوچکی ہے ۔علم کی ان درسگاہوں سے علم کے پیاسے اپنی پیاس بجھا کر ملک و قوم کے مستقبل کو روشن بنانے میں مخلصی سے شب وروز مصروفِ عمل ہیں۔

    اللہ تعالی ہمارے حکمرانوں کو بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کی جدوجہد سے سبق حاصل کر کے عمل کرنے اور قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کے فرمان کے مطابق پاکستان بھر میں اُردو کو قومی و سرکاری سطح پر رائج کرکے” قومی یکجہتی “کو مضبوط بنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین اور بابائے اُردوڈاکٹر مولوی عبدالحقؒ کے درجات بلند فرمائے، آمین۔


    تحریر: عمران نور