Tag: قومی کتب خانہ

  • قیامِ پاکستان اور لائبریری تحریک

    قیامِ پاکستان اور لائبریری تحریک

    لاہور جو کتب خانوں کا شہر اور لائبریری تحریک کا مرکز تھا، قیامِ پاکستان کے وقت رونما ہونے والے واقعات کے باعث اس کی تمام تر لائبریری سر گرمیاں ماند پڑ چکی تھیں۔ کتب خانوں میں کام کرنے والے عملے کی اکثریت ہندوؤں کی تھی، ان کے ہندوستان چلے جانے کی وجہ سے کتب خانے بند ہو گئے۔

    ۱۹۱۵ء میں قائم ہونے والا ’لائبریری اسکول‘ بند ہو گیا، لائبریری پروفیشن کا ترجمان رسالہ ’ماڈرن لائبریرین‘ کی اشاعت بند ہو گئی۔ ایسی صورتِ حال میں کتب خانوں کا قیام اور لائبریری تحریک کو بالکل ہی ابتداء سے شروع کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ دور مصائب و مشکلات اور جدوجہد کا دور تھا۔ لائبریرین شپ سے تعلق رکھنے والی محترم شخصیات اور وہ لوگ جنہوں نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تھی سب ہی نے ان مشکل حالات میں لائبریرین شپ کے فروغ اور ترقی کے لیے خلوصِ دل کے ساتھ دن رات محنت کر کے نہ صرف لائبریری تحریک کی بنیاد رکھی بلکہ اسے پروان چڑھانے کی مسلسل انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کرتے رہے ان احباب نے ایسی منصوبہ بندی کی کہ آج پاکستان لائبریرین شپ ترقی کے اعتبار سے دوسرے شعبوں سے کسی بھی طرح کم نہیں۔ ان قابلِ تعریف شخصیات میں خان بہادر اسد اللہ خان، محمد شفیع، نور محمد خان، خواجہ نور الٰہی، فضل الٰہی، عبدالسبحان خان، عبدالصبوح قاسمی، عبدالرحیم، ڈاکٹر محمد علی قاضی، الطاف شوکت، فرحت اللہ بیگ، جمیل نقوی، الحاج محمد زبیر، سید ولایت حسین شاہ، حبیب الدین احمد، ڈاکٹر عبدالمعید اور ابن حسن قیصر شامل ہیں۔ لائبریری تحریک کو منظم کرنے اور فروغ دینے میں یہ احباب انفرادی اور اجتماعی کوششیں کرتے رہے، ان میں ڈاکٹر عبدالمعید اگلی صف میں نظر آتے ہیں اور دیگر احباب ان کے شانہ بہ شانہ تھے، قیصر صاحب اس دور کے ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے ہر جگہ نظر آتے ہیں۔

    لاہور ہی میں برطانوی ہندوستان میں قائم ہونے والی پنجاب لائبریری ایسوسی ایشن قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۸ء میں مغربی پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے نام سے قائم ہوئی لیکن صوبوں کے ادغام کے بعد اسے دوبارہ پنجاب لائبریری ایسوسی ایشن کا نام دے دیا گیا۔ اس ایسوسی ایشن نے دسمبر ۱۹۴۹ء میں ’’ ماڈرن لائبریرین‘‘ ( نیو سیریز) شائع کیا لیکن یہ جولائی ۱۹۵۰ء میں بند ہو گیا۔ ۱۹۴۸ء میں پنجاب لائبریری ایسوسی ایشن نے لائبریری سائنس میں سر ٹیفکیٹ کورس شروع کیا لیکن یہ ایک سال میں بند ہو گیا۔ اِسی دوران ڈاکٹر عبدالمعید سندھ یونیورسٹی کے لائبریرین مقرر ہوئے اور لاہور سے کراچی منتقل ہو گئے۔

    اب کراچی میں لائبریری سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ کراچی لائبریری ایسوسی ایشن ۱۹۴۹ء میں قائم ہوئی۔ اس ایسوسی ایشن نے لائبریری سائنس میں سر ٹیفکیٹ کورس بھی شروع کیا جو کراچی میں اپنی نوعیت کا اوّلین کورس تھا۔ اس کورس نے لائبریرین شپ کو بنیاد فراہم کرنے میں بہت مدد دی۔ پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ ۱۹۵۰ء اور پا کستان لائبریری ایسوسی ایشن کی بنیاد کراچی میں مارچ ۱۹۵۷ء میں رکھی گئی۔ قیصر صاحب ان اداروں کے قیام اور سر گرمیوں میں دیگر احباب کے ہمراہ خاموشی سے جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں پاکستان لائبریرین شپ میں ایک ایسی انجمن معرضِ وجود میں آئی جس نے مختصر وقت میں کتب خانوں اور لائبریری تحریک کے فروغ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر دکھایا۔ یہ انجمن شہید حکیم محمد سعید کی سر پرستی میں ’انجمن فروغ و ترقی کتب خانہ جات، اسپل (SPIL) کے نام سے قائم ہوئی۔ ایسوسی ایشن نے ملک کے مختلف شہروں میں لائبریرین شپ کے مختلف موضوعات پر یکے بعد دیگرے قومی نوعیت کے سیمینار، ورکشاپس اور کانفرنسیں منعقد کیں، کتب خانوں کے فروغ و ترقی کے منصوبے اور تجاویز حکومت کو پیش کیں۔ شہید حکیم محمد سعید نے نہ صرف اسپل (SPIL) کے پرچم تلے کتب خانوں کی ترقی کے لیے جدوجہد کی بلکہ دیگر لائبریری انجمنوں کی بھی سرپرستی کی اور ان کے تحت ہونے والے کتب خانوں کی ترقی کے پروگراموں کے ذریعہ حکومت کو ملک میں کتب خانوں کے قیام اور ترقی کا احساس دلاتے رہے۔

    قیامِ پاکستان کا ابتدائی دور مسائل اور مشکلات کا دور تھا۔ حکومت بعض اہم اور قومی نوعیت کے امور کی انجام دہی میں مصروف رہی جس کے نتیجہ میں تعلیم بشمول کتب خانوں کی جانب فوری توجہ نہ ہو سکی۔ ملک میں کتب خانوں کے قیام اور لائبریری تحریک کے سلسلے میں حکومتِ پا کستان کی جانب سے جو اوّلین اقدام سامنے آیا وہ امپیریل لائبریری کلکتہ کے سابق لائبریرین‘ انڈین لائبریری ایسوسی ایشن کے بانی سیکریٹری، لائبریری ایسوسی ایشن لندن کے فیلو اور اسا ڈان ڈکنسن کے شاگرد خان بہادر خلیفہ محمداسد اللہ خان کا تقرر وزارتِ تعلیم حکومت پاکستان میں بطور ’’آفیسر بکارِ خاص‘‘ (Officer on Special Duty) تھا جنہوں نے ہندوستان کو خیر باد کہتے ہوئے پاکستان ہجرت کی۔ خان بہادر صاحب کو ہندوستان لائبریرین شپ میں بہت ہی بلند مقام حا صل تھا۔ ۱۹۳۵ء میں برطانوی حکومت نے انہیں اُن کی اعلیٰ لائبریری خدمات کے اعتراف میں ’’خان بہادر‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ قدرت نے خان بہادر صاحب کو پاکستان میں بہت کم مہلت دی۔ وہ ۲۳ نومبر ۱۹۴۸ء کو رحلت کر گئے۔ مختصر عرصہ میں بھی انہوں نے پاکستان میں لائبریری تحریک اور ملک کی قومی لائبریری کی بنیاد رکھی۔ بقول ڈاکٹر ممتاز انور، اسداللہ نے افسر بکارِ خاص کی حیثیت سے کراچی میں مختصر عرصہ خدمات انجام دیں جہاں انہوں نے بنیادی نوعیت کے کام کیے۔ اس میں شک نہیں کہ ڈائریکٹریٹ آف آرکائیوز و لائبریریز اور نیشنل لائبریری ۱۹۴۹ء میں اسد اللہ کے کام کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئے۔ ‘ ڈاکٹر حیدر کا کہنا ہے کہ ’’ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو ایک بات مسلمہ ہے وہ یہ کہ ۱۹۴۹ء میں ڈائریکٹریٹ آف آرکائیوز و لائبریریز کا قیام بہادر صاحب کی کوششوں کا مرہون منت ہے۔‘‘

    اس طرح پاکستان میں لائبریری تحریک کا آغاز کراچی سے اور لاہور سے بیک وقت شروع ہوا۔ گویا لاہور سے انجمن سازی کا آغاز ہوا اور کراچی سے کتب خانوں کے قیام اور فروغ کے لیے منصوبہ بندی کی گئی۔ بعد ازاں انجمن سازی کی سرگرمیاں کراچی سے پورے آب و تاب سے شروع ہو گئیں۔

    (کتاب یادوں کی مالا از قلم رئیس احمد صمدانی سے اقتباس)

  • 1978 کی یادیں: قومی کتب خانہ اور اسلام آباد کی مخلتف جامعات کی لائبریریاں

    1978 کی یادیں: قومی کتب خانہ اور اسلام آباد کی مخلتف جامعات کی لائبریریاں

    ایک زمانہ تھا جب علم و ادب کے مراکز اور کتب خانے آباد ہوا کرتے تھے۔ لائبریریوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔

    ملک کے مختلف علاقوں میں موجود کتب خانوں‌ سے طالب علم اور مطالعہ کے شوقین استفادہ کرتے اور ان کی رونق بحال رکھتے۔ تاہم بعد کے ادوار میں علم و فنون اور سرکاری سطح پر کتب خانوں کی سرپرستی کا سلسلہ ختم ہوتا چلا گیا۔ یوں کئی اہم لائبریریاں اور بلدیہ کے ماتحت کتب خانے ویران ہو گئے۔

    الحاج محمد زبیر کی ایک کتاب اسلامی کتب خانے اس حوالے سے اہم کاوش ہے جو 1978 میں شایع ہوئی تھی۔ اس کتاب کی ورق گردانی کے دوران قومی کتب خانہ اسلام آباد اور اسی شہر کی چند دیگر لائبریریوں پر چند سطر پارے نظر سے گزرے۔ ان کا خلاصہ آپ کی نذر ہے۔ مصنف لکھتے ہیں۔

    قومی کتب خانہ اسلام آباد کی عمر گو زیادہ نہیں ہے، لیکن اس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اس کا شمار پاکستان کے عظیم کتب خانوں میں ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہاں اردو، عربی اور انگریزی زبان میں کتابوں کی تعداد 39 ہزار تھی۔ عربی زبان میں اتنا اچھا ذخیرہ پاکستان کے کم کتب خانوں میں ملے گا۔

    اس کے علاوہ اسلام آباد کی درس گاہوں کے کتب خانوں میں یہاں کی یونیورسٹی لائبریری کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ اس میں سال بہ سال جملہ علم و فنون کی کتابوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان کے نام ور دانش ور پیر حسام الدین کا بیش قیمت ذخیرۂ کتب شامل ہو جانے سے اس لائبریری کی قدر و قیمت میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔

    سینٹرل اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا کتب خانہ بھی نہایت عالی شان ہے۔ اس میں علومِ اسلامی پر ایسا ذخیرہ ہے جو کسی اور لائبریری میں نہیں۔ کتب خانہ گنج بخش کی بات کی جائے تو مرکزِ تحقیقات فارسی، ایران و پاکستان کا وہ عظیم کتب خانہ ہے جو حضرت داتا گنج بخش ہجویریؒ کے نام پر قائم ہے۔

    یہاں بارہ ہزار مطبوعات اور آٹھ ہزار مخطوطات جمع ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں کہ اسلام آباد ہر قسم کے کتب خانوں سے معمور ہے۔ یہاں وفاقی اسمبلی اور سیکریٹریٹ وغیرہ کے دفاتر اور سفارت خانوں کے علاوہ یونیورسٹیاں اور بہت سے تعلیمی و سماجی ادارے بھی ہیں جن سے منسلک کتب خانے بڑے نایاب اور اعلیٰ شمار کیے جاتے ہیں۔