Tag: قومی یادگار

  • چند قومی یادگاریں جو تحریکِ‌ آزادی کا نقشِ جاوداں ہیں!

    چند قومی یادگاریں جو تحریکِ‌ آزادی کا نقشِ جاوداں ہیں!

    ہندوستان کے مسلمانوں کی لازوال جدوجہد اور تحریکِ پاکستان کے لیے دی گئی بے شمار قربانیوں کی بدولت اس سال ہم 74 واں جشنِ آزادی منائیں گے جس کے لیے تیّاریاں جاری ہیں۔

    14 اگست قریب ہے اور ہر سال کی طرح قومی پرچم اور بانی پاکستان و تحریکِ‌ آزادی کے مجاہدین کی تصاویر سے سرکاری و نجی اداروں کی بلند بالا عمارتیں، گھر اور شہروں کے مرکزی چوراہے اور نمایاں مقامات سجے ہوئے ہیں۔ یہ اس بات علامت ہے کہ ہم زندہ قوموں کی طرح جہاں اپنی تہذ یب و ثقافت، معاشرت اور اقدار کے امین ہیں، یہ اس امر کا اظہار بھی ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے بزرگوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو یاد رکھیں گے۔

    یہاں ہم جدوجہدِ آزادی کی عظیم شخصیات اور تحریکِ پاکستان سے متعلق چند قومی یادگاروں کے بارے میں بتارہے ہیں جو آزادی کے ہیروز کی یاد ہی تازہ نہیں‌ کرتیں بلکہ فنِ معماری اور اپنے طرزِ تعمیر کی انفرادیت کے ساتھ انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک کاوش ہیں۔ ان میں مزارِ قائد، مزارِ اقبال، مینارِ پاکستان اور پاکستان مونومنٹ شامل ہیں۔

    مزارِ قائد
    بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا مقبرہ معروف آرکیٹیکٹ یحیٰ مرچنٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس سے قبل چار نقشے رد کر دیے گئے تھے اور1959ء میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کی خواہش پر یحییٰ مرچنٹ نے یہ کام انجام دیا تھا۔

    یحییٰ مرچنٹ نے مزار کے ڈیزائن کا بنیادی کام 28 جنوری 1960ء کو مکمل کیا۔ تعمیر کا آغاز فروری 1960ء میں ہوا تھا۔ 31 جولائی 1960ء کو اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے مزار کا سنگِ بنیاد رکھا تھا- 31 مئی 1966ء میں مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل کرلیا گیا۔

    قائد اعظم کی آخری آرام گاہ پر مقبرہ تعمیر کرتے ہوئے اس عمارت کے ڈھانچے کو پائیلنگ (جس میں عمارت کے وزن کو زیرِ زمین بنائے گئے کنکریٹ کے ستونوں پر استوار کیا جاتا ہے) پر کھڑا کیا گیا ہے جو ہر قسم کے موسموں کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ مزار کی مرکزی عمارت بنیاد سے مربع شکل میں ہے جو کہ اندرونی طرف سے مثمن یعنی ہشت پہلو بنائی گئی ہے۔

    اس مزار کے احاطے میں بانی پاکستان کے سیاسی اور آزادی کے سفر میں شریک رفقا کی قبور بھی ہیں۔ ایک طرف لیاقت علی خان اور دوسری قبر سردار عبد الرّب نشتر اور تیسری قبر محترمہ فاطمہ جناح کی ہے۔

    مزارِ اقبال
    ہندوستان میں مسلمانوں کی عظیم ریاست حیدر آباد دکن کے مشہور اور ماہر معمار صاحبزادہ نواب زین یار جنگ بہادر نے شاعرِ‌ مشرق کے مزار کا ڈیزائن تیّار کیا تھا۔

    اس مزار کی تعمیر کا کام بوجوہ چند سال تاخیر سے شروع ہوا اور ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اس وقت کی انتظامیہ سے 1946ء میں مزار کی تعمیر کی اجازت حاصل کی۔ اس کی تکمیل 1950ء میں ہوئی۔ نواب زین یار جنگ کو حیدر آباد سے لاہور بلوایا گیا اور انھوں نے علّامہ کی قبر اور محلِ وقوع کا جائزہ لینے کے بعد مزار کا ڈیزائن پیش کیا جس کی منظوری کے بعد چند سال میں تعمیر کا کام مکمل ہوگیا۔

    مینارِ پاکستان
    مینارِ پاکستان ایک قومی یادگار ہے۔ یہ عین اس جگہ واقع ہے جہاں 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے قراردادِ پاکستان منظور کی تھی اور اس کے بعد مسلمانانِ برِصغیر کے لیے آزاد و خود مختار ریاست کے قیام کی جدوجہد شروع ہوئی تھی۔

    اس قومی یادگار کے معمار و مصوّر روسی نژاد پاکستانی نصیر الدّین مرات خان تھے۔

    مینارِ پاکستان کا سنگِ بنیاد 23 مارچ 1960ء کو رکھا گیا اور یہ تقریبا 8 سال کے عرصہ میں 21 اکتوبر 1968ء کو پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس یادگار کے ساتھ ایک وسیع و عریض باغ یا سبزہ زار کے لیے بھی جگہ مخصوص کی گئی تھی۔

    پاکستان مونومنٹ
    پاکستان کے دارُالحکومت اسلام آباد کے مشہور مقام شکرپڑیاں کا مونومنٹ یا یادگارِ پاکستان اُس عظیم جدوجہد اور تحریک کے لیے اپنی جان و مال اور ہر قسم کی قربانیاں دینے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے جن کی بدولت ہم ایک آزاد وطن کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔

    اسلام آباد میں پہاڑیوں پر بنائی گئی یہ یادگار پاکستانی عوام کے اتّحاد کی علامت بھی ہے۔ اسے آرکیٹیکٹ عارف مسعود نے ڈیزائن کیا تھا۔ پاکستان مونومنٹ کی تعمیر کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور یہ کام 2004ء میں شروع ہوا اور 23 مارچ 2007 ء میں مکمل کیا گیا۔

  • پاکستان کی 10 قومی یادگاریں

    پاکستان کی 10 قومی یادگاریں

    قومی یادگاریں قوم اور پاکستان کی عظمت کا نشان ہوتی ہیں اور قوم کی نمائندگی کرتی ہے، اسے کسی واقعہ یعنی قومی اہمیت کا احترام کرنے کیلئے تعمیر کیا جاتا ہے، پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے مطابق پاکستان میں 1997 میں نو قومی یادگاریں تھیں لیکن 2016 میں پاکستان کی گیارہ جگہوں کو قومی یادگار قرار دیا گیا ۔

    مزار قائد

    کراچی کے عین وسط میں سفید رنگ کے سنگ مرمر سے بنی ہوئی یہ عمارت پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ ہے، یہ مزار پوری دنیا میں کراچی کی پہچان ہے، اس عمارت کو 1960 سے 1970 کے درمیان میں تعمیر کی۔ اسکا ڈیزائن مشہور پاکستانی آرکیٹیکچر "یحییٰ مرچنٹ” نے بنایا تھا۔

    مزار میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم محترم لیاقت علی خان اور جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح بھی قائد کے ساتھ دفن ہیں۔

    mazar

    مینارِ پاکستان

    مینار پاکستان لاہور، پاکستان کی ایک قومی یادگار ہے، جسے لاہور میں عین اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں 23 مارچ 1940ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔ اس کو یادگار پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔

    pak-2

    اس کا ڈیزائن ترک ماہر تعمیرات نصر الدین مرات خان نے تیار کیا۔ تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960ء میں شروع کیا۔ اور 21 اکتوبر 1968ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔

    زیارت ریزیڈنسی ، کوئٹہ

    زیارت ریزیڈنسی کوئٹہ میں وادی زیارت کے خوبصورت اور پر فضاء مقام پر واقع ہے، لکڑی سے تعمیر کی گئی یہ خوبصورت رہائش گاہ اپنے بنانے والے کے اعلیٰ فن کی عکاس ہے، قیام پاکستان کے بعد اس رہائش گاہ کی تاریخی اہمیت میں اس وقت اضافہ ہوا، جب14جولائی1948کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ناسازی طبع کے باعث یہاں تشریف لائے۔

    ziarat

    اس عمارت کو اب عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا ہے، جہاں قائد اعظم کے زیر استعمال ر ہنے والی ا شیاء کو نمائش کے لئے ر کھا گیا ہے۔

    پاکستان یادگار ، اسلام آباد

    پاکستان یادگار اسلام آباد پاکستان میں ایک قومی یادگار ہے، جو ملک کے چاروں صوبوں اور تین علاقوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یادگارکھلے پھول کی شکل میں ایک تیزی سے ترقی پزیر ملک کے طور پر پاکستان کی پیش رفت کی نمائندگی کرتا ہے۔ یادگار کی چار اہم پنکھڑیاں چاروں صوبوں کی نمائندگی کرتی ہیں (بلوچستان، خیبر پختونخوا، پنجاب ، اور سندھ)، جبکہ تین چھوٹی پنکھڑیاں تین علاقوں کی نمائندگی کرتی ہیں ، جس میں گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور قبائلی علاقہ جات شامل ہیں۔

    pak-1

    فضا سے یادگار ایک ستارہ (وسط میں) اور ایک چاند (پنکھڑیوں کی دیواروں سے بنا) کی طرح دکھتا ہے، جو پاکستانی پرچم میں ستارہ و ہلال کی نمائندگی کرتا ہے۔

    وزیر مینشن ، کراچی

    قائد اعظم کی جائے پیدائش کی حیثیت سے تاریخی اہمیت رکھنے والی یہ عمارت کھارادر میں واقع ہے، یہاں قائد اعظم کے والد جناح پونجا 1874سے 1900 تک کرائے پر رہے تھے، دومنزلہ اس عمارت کو میوزیم کا درجہ دیا گیا ہے۔ قومی ورثہ کی یہ عمارت خستہ حالی کا شکار ہے۔ 2008 میں اس کی آرائش اور تزئین کی گئی تھی۔

    wazir

    علامہ اقبال کا مزار

    علامہ اقبال کا مزار کا شمار پاکستان کی قومی یادگاروں میں ہوتا ہے، یہ پاکستان کے شہر لاہور میں واقع ہے، اس عمارت کی طرز تعمیر افغان اور مورش طرز تعمیر پر بنیاد رکھتی ہے اور اسے مکمل طور پر لال پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے۔

    tomb

    قائداعظم ہاؤس ، کراچی

    قائداعظم ہاؤس جس کو فلیگ سٹاف ہاؤس بھی کہا جاتا ہے، عمارت انگریزی طرزِ تعمیر کی خوبصورت جھلک پیش کرتی ہے، پاکستان کے بانی، قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کے جدید پاکستان پر مرتب ہونے والے مثبت اثرات کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا جانے والا میوزیم ہے۔

    house

    یہ عمارت محمد علی جناح کی سابقہ رہائش گاہ ہے، جو یہاں 1944ء سے اپنی وفات یعنی 1948ء تک رہائش پزیر رہے۔ ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح یہاں 1964ء تک رہائش پزیر رہیں۔ یہ عمارت حکومت پاکستان نے 1985ء میں اپنی تحویل میں لے لی اور اس عمارت کو بطور میوزیم محفوظ کر دیا گیا۔

    شاہی قلعہ ، لاہور

    قلعہء لاہور جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، اس قلعہ کی تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسرِ تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہذٰا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر و روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتا ہے۔

    pak3

    قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔  یونیسکو نے اس قلعے کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔

    مکلی قبرستان ، ٹھٹہ

    ٹھٹھہ کے قریب واقع علاقہ مکلی تاریخی قبرستان کی بدولت دنیا بھر میں مشہور ہے، اس قبرستان کے ساتھ ایک صدیوں پرانی تہذیب منسلک ہے، اس میں چودھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک کے مقبرے اور قبریں موجود ہیں۔

    thatta

    شالا مار باغ ، لاہور

    شالا مار باغ کا شمار دنیا کے عظیم الشان باغوں میں ہوتا ہے، اس باغ کا سنگ بنیاد 1637ء میں رکھا گیا۔ اس پر چھے لاکھ روپے کے لگ بھگ لاگت آئی اور یہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں مکمل ہوا۔

    garden