Tag: قیام پاکستان

  • 100 سالہ بزرگ نے قیام پاکستان اور ہجرت کی دلخراش داستان سنا دی (ویڈیو رپورٹ)

    100 سالہ بزرگ نے قیام پاکستان اور ہجرت کی دلخراش داستان سنا دی (ویڈیو رپورٹ)

    پاکستانی آج 78 واں یوم آزادی منا رہے ہیں ایک 100 سالہ بزرگ عبدالشکور نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ قیام پاکستان کے وقت ہجرت کی دلخراش سنا دی۔

    پاکستانی آج 78 واں یوم آزادی منا رہے ہیں۔ لیکن پاکستان بننے میں جہاں تحریک پاکستان کے رہنماؤں کی جدوجہد کارفرما ہے۔ وہیں بھارت سے نئے ملک پاکستان بسنے کے لیے ہجرت کرنے والوں کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ یہ لہو سے رنگی اور آگ وخون کا دریا پار کر کے آنے والوں کی وہ داستان ہے جو سننے والوں کو لرزا دیتی ہے۔

    آج بہت کم لوگ ایسے رہ گئے ہیں جنہوں نے پاکستان اپنی آنکھوں کے سامنے بنتے دیکھا اور پھر وہ ہجرت کی صعوبتیں برداشت کر کے پاکستان پہنچے۔ ان میں ہی ایک فیصل آباد کے 100 سالہ بزرگ عبدالشکور بھی ہیں جنہوں نے والدہ اور دو بھائیوں کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی۔

    فیصل آباد کے علاقے گوبند پورہ میں مقیم 100 سالہ عبدالشکور ہر سال 14 اگست کو جشن آزادی جوش وخروش سے مناتے ہیں۔ انہوں نے بھیگی آنکھوں سے ہجرت کے وقت ڈھائے جانے والے مظالم اور مسلمانوں کے قتل عام کی داستان سنائی۔

    قیام پاکستان کے وقت لدھیانہ کے گاؤں کوٹلہ اجنیر کے زمیندار خاندان سے تعلق رکھنے والے عبدالشکور کی عمر 22 سال تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان سے 6 ماہ قبل ان کے گاؤں میں بانی پاکستان قائد اعظم نے جلسہ کیا تھا اور الگ وطن کی نوید سنائی تھی۔

    بزرگ نے بتایا کہ جب پاکستان بن گیا تو انہوں نے والدہ اور دو بھائیوں کے ہمراہ لدھیانہ سے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ پیدل اور بیل گاڑی پر صعوبتوں بھرا سفر کر کے وہ والٹن کیمپ پہنچے۔

    عبدالشکور جو ایک صدی دیکھ چکے ہیں۔ اپنے پوتوں اور پڑپوتوں کو قیام پاکستان کے خونچکاں حالات سناتے ہوئے اور اپنے آبائی علاقے کی یادوں میں گم ہو کر اداس اور آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت ہندو اور سکھ بلوائیوں نے دودھ پیتے بچوں کو نیزوں میں پرویا۔

    ویڈیو رپورٹ: قمر الزماں

    عبدالشکور اور ان جیسے لاکھوں مسلمان اس یقین کے ساتھ پاکستان پہنچے تھے کہ ایک آزاد ملک میں زندگی گزار سکیں گے ۔ اب یہ نئی نسل کی ذمہ داری ہے کہ وطن عزیز کی سلامتی اور استحکام کے لئے بھرپور کردار ادا کرے۔

  • کرتارپور راہداری نے قیام پاکستان کے وقت بچھڑے 2 خاندانوں کی 78 سال بعد ملا دیا

    کرتارپور راہداری نے قیام پاکستان کے وقت بچھڑے 2 خاندانوں کی 78 سال بعد ملا دیا

    کرتارپور راہداری نے قیام پاکستان کے وقت بچھڑے دو خاندانوں کی 78 سال بعد دوبارہ ملا دیا جذباتی ملاقات میں خوشی آنکھوں سے چھلک پڑی۔

    کرتارپور راہداری نے ایک بار پھر قیام پاکستان کے وقت بچھڑے خاندانوں کو ملا دیا۔ 78 سال بعد جب ان خاندانوں کے افراد آپس میں ملے تو خوشی ان کی آنکھوں سے چھلک پڑی۔

    منگل سنگھ، شنگارا سندھ اور کرتار سنگھ تین بھائی تھے۔ تقسیم ہند کے وقت کرتار سنگھ کی فیملی کڑیال ضلع شیخوپورہ میں رہ گئی جب کہ منگل سنگھ اور اس کا بھائی شنگارہ سنگھ لدھیانہ بھارت جا بسے تھے۔

    سوشل میڈیا کا دور شروع ہوا تو باہمی رابطوں میں دونوں خاندانوں نے ایک دوسرے کو پہچانا جو 78 سال بعد بچھڑے خاندانوں کی ملاقات کا سبب بنا۔

    سوشل میڈیا پر رابطہ کے بعد گزشتہ روز کرتار سنگھ کے بیٹے حاجی امین کی لدھیانہ سے آئے اپنے پھوپھی زاد بھائیوں سے ملاقات ہوئی تو جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔

    دونوں خاندانوں نے کرتار پورراہدری کھولنے پر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور بھارتی مہمانوں نے پاکستان کی بہترین مہمان نوازی پر دربار انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔

    بھارت سے آئے خاندان نے مطالبہ کیا پاکستان حکومت پاسپورٹ کی شرط ختم کرے اور ادھار کارڈ پر بارڈر انٹری کی اجازت دے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آکر درشن دیداروں کے ساتھ اپنوں سے مل سکیں۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل 2022 میں بھی کرتارپور راہداری پر قیام پاکستان کے وقت بچھڑے دو خاندان ساڑھے سات دہائیوں بعد آپس میں ملے تھے۔

    https://urdu.arynews.tv/lhr-kartarpurfamily-reunites75-years/

  • قیام پاکستان کے وقت روپیہ کتنا تگڑا اور امریکی ڈالر کتنا سستا تھا؟

    قیام پاکستان کے وقت روپیہ کتنا تگڑا اور امریکی ڈالر کتنا سستا تھا؟

    اس وقت پاکستانی روپے کی قدر انتہائی گر چکی ہے اور ایک امریکی ڈالر 280 روپے کے لگ بھگ ہے قیام پاکستان کے وقت یہ تناسب کیا تھا۔

    پاکستانی روپے کی قدر میں آنے والی گراوٹ کی وجہ سے عوام شدید ترین مہنگائی کا بوجھ برداشت کیے ہوئے ہیں۔ یوں تو زباں زد عام یہ ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے ہر چیز کی قیمت میں آگ لگ جاتی ہے مطلب بڑھ جاتی ہے مگر درحقیقت مہنگائی کا دارومدار عالمی کرنسی ڈالر پر منحصر ہوتا ہے۔

    آج اگر آپ کی جیب میں 280 روپے ہیں تو سمجھ لیں کہ آپ ایک امریکی ڈالر کے مالک ہیں لیکن قومی کرنسی کی یہ بے قدری ہمیشہ سے نہیں تھی۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستانی روپے ڈالر کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں تھا۔

    پاکستان 14 اگست 1947 کو قائم ہوا۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر کی پاکستانی کرنسی میں مالیت 3 روپے 31 پیسے تھی۔ وہ نوجوان نسل جو ہر گھنٹے بعد ڈالر کی قیمت بڑھتے دیکھتی ہے۔ اس کے لیے یہ بات کسی حیرت سے کم نہ ہوگی کہ ڈالر کی قیام پاکستان کے وقت کی مالیت تقریباً ڈیڑھ دہائی تک برقرار رہی۔

    سال 1960 میں امریکی ڈالر کی قیمت 4 روپے 76 پیسے رہی جب کہ 10 سال بعد 1970 میں ایک ڈالر 9 روپے 52 پیسے کا ہو گیا تھا۔ ایک اور حیرت انگیز امر کہ 1970 سے 1980 تک ایک دہائی کے دوران ڈالر کی مالیت میں صرف 38 پیسے کا ہی اضافہ ہوا اور 1980 میں ایک ڈالر 9 روپے 90 پیسے میں دستیاب تھا۔

    1990 میں ڈالر بڑھ کر 21.71 روپے کا ہو گیا۔ 1998 میں پاکستانی ایٹمی تجربات کے بعد لگنے والی پابندیوں کے باعث ڈالر کی قیمت تیزی سے بڑی اور نئے ہزاریے کے آغاز 2000 میں ایک امریکی ڈالر کی مالیت 51 روپے 90 پیسے کے برابر ہو گئی۔

    2010 میں یہی ڈالر 85 روپے 50 پیسے جب کہ 2020 میں 160 روپے 50 پیسے تھا۔ تاہم اس کے بعد اگلے دو سال میں ڈالر کی قدر میں اتنی تیز رفتاری سے اضافہ ہوا کہ 2022 میں یہ 300 روپے پاکستانی کے لگ بھگ پہنچ چکا تھا۔ تاہم پھر حکومتی اقدامات کے باعث اب ڈالر 278 روپے 96 پیسے ہے۔

    ماہرین معاشیات قیام پاکستان کی ابتدا میں روپے کی قدر میں استحکام کی ایک بڑی وجہ پاکستانی روپے کی قدر برطانوی پاؤنڈ سے منسلک ہونے کو قرار دیتے ہیں۔ جس

    کی وجہ سے لگ بھگ چوتھائی صدی تک اس کی قدر میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔
    اس کی دوسری بڑی وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی معیشت آج کی طرح غیر ملکی کرنسی پر انحصار نہیں کرتی تھی۔

     

  • تحریکِ‌ آزادی: علمائے کرام اور دینی شخصیات کا کردار

    تحریکِ‌ آزادی: علمائے کرام اور دینی شخصیات کا کردار

    تحریکِ پاکستان اور آزادی کی جدوجہد میں جہاں سیاست داںوں اور سماجی راہ نماؤں نے قائدِ اعظم کی قیادت میں اپنا کردار ادا کیا، وہیں مشائخِ عظام و علمائے کرام اس تحریک میں صفِ اوّل میں نظر آتے ہیں۔ علمائے کرام نے اپنے اسلامی تشخص کا دفاع کرتے ہوئے ایک ایسی ریاست کے قیام کے لیے ہر قسم کی قربانی دی جس کی بنیاد کلمہ پر رکھی جانی تھی۔

    تاریخ گواہ ہے کہ برِّصغیر کے علما اور ہندوستان بھر کے خانقاہوں سے وابستہ مشائخ قائدِاعظم محمد علی جناح اور دیگر اکابرین کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے اور اسلام کے نام پر علیحدہ وطن کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیا۔ ہر محاذ پر علما نے فتنوں کا تدارک کیا اور فساد کا راستہ روکا۔ قائد اعظم کے مخالفین کو کڑا جواب دیا اور جناح صاحب کی حمایت میں کھڑے رہے۔

    مفکّرِ پاکستان، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے برّصغیر کے مسلمانوں کے لیے جس آزاد اسلامی اور فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا، اس کی عملی تصویر قائدِاعظم محمد علی جناحؒ اور انہی قائدین کی کوششوں سے ممکن ہوئی جو آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ یہاں ہم تحریکِ پاکستان کے لاکھوں مسلمانوں کی طرح جان و مال کی قربانیاں دینے والی ان چند نام ور مذہبی اور دینی شخصیات کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جن کی تحریکِ پاکستان کے لیے خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ یہ علما اور صوفی شخصیات بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے دست و بازو رہے ہیں۔

    پیر جماعت علی شاہ
    آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا اور قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ و مشاورت میں پیش پیش رہے۔ آپ مسلم لیگ اور قائدِاعظمؒ پر مکمل اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھانے میں ہر طرح سے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ وائسرائے ہند کے نام تار میں آپ نے فرمایا ’’مسلم لیگ‘‘ مسلمانانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور قائدِاعظم محمد علی جناح اسلامیانِ ہند کے واحد لیڈر ہیں۔ ایگزیکٹو کونسل کے مسلم ارکان کی نام زدگی مسلم لیگ اور قائدِاعظم کا کام ہے۔ طول و عرضِ ہندوستان میں میرے لاکھوں مرید مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔

    مجاہدِ ملّت مولانا عبدالستار خان نیازی
    مولانا نیازی نے علامہ محمد اقبال کے حکم پر ’’مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحریک پاکستان کے لیے بہت کام کیا۔ آپ کی بانی پاکستان کے ساتھ خط و کتابت اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ قائدِاعظم نے آپ کے لیے فرمایا ’’جس قوم کے پاس نیازی جیسے نوجوان ہوں، اسے پاکستان بنانے سے کون روک سکتا ہے۔‘‘

    شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی
    تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والوں میں ایک نام شاہ صاحب کا بھی ہے جنھوں نے قائدِاعظم سے کئی ملاقاتیں کیں جس میں اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے دنیا بھر میں اہم شخصیات اور بالخصوص مسلمانوں کی اس حوالے سے تائید اور حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششوں پر مفید بات چیت ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کے کہنے پر آپ نے اپنے بیرونِ ممالک اپنے دوروں میں عالمی راہ نماؤں کو پاکستان کے قیام کی کوششوں کی ضرورت اور اس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔

    مولانا عبدالحق بدایونی
    تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل مولانا صاحب نے لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کی بھرپور تائید کی اور اپنے رفقا سمیت قراردادِ پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ برطانوی ہند میں انتخابات کے موقع پر آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ نے یو پی، بہار،اڑیسہ، بنگال، آسام، بمبئی، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے دور افتادہ علاقے میں جا کر مسلمانوں کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے جس وفد کو بھیجا تھا اس میں مولانا بدایونی شامل تھے۔

    علّامہ سید احمد سعید کاظمی
    ہندوستان کے علما میں ایک نام کاظمی صاحب کا ہے جنھوں نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس جس میں لاکھوں لوگ اور ہزاروں علمائے کرام شریک ہوئے تھے، اپنی شرکت یقینی بنائی اور کانفرنس میں تشریف لائے جس سے اس وقت ہند بھر میں ان کے ماننے والوں تک بھی تحریکِ پاکستان کا مقصد پہنچا اور اسے تقویت ملی۔ 27 اپریل 1946ء کو منعقدہ آل انڈیا سنی کانفرنس کو جدوجہدِ آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔

    آزادی کی تحریک کے قافلے میں شامل یوں تو کئی مجاہدوں، جناح صاحب کے جاں نثاروں اور مسلم لیگ کے متوالوں کے نام لیے جاسکتے ہیں جن کی کاوشوں اور کارناموں کی تفصیل کئی ابواب کی متقاضی ہوگی، لیکن سچ یہ ہے کہ اس زمانے میں ہر قسم کی مسلکی تفریق اور تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر تمام مکاتبِ فکر کے علما نے قیامِ‌ پاکستان کو اپنا نصب العین قرار دے کر تاریخ رقم کی اور قائدِ اعظم کی ہدایت پر ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئے اور پاکستان کے لیے جدوجہد کا پیغام عام کیا۔

    پیر جماعت علی شاہ، مولانا ابو الحسنات و دیگر، مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے رفقا، مولانا شفیع دیو بندی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی نے ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی مسلمان کو عبادت گاہوں، خانقاہوں اور جلسہ گاہ میں آزاد وطن کی جدوجہد میں شریک ہونے کی ہدایت کی اور تحریکِ‌ پاکستان کو کام یاب بنایا۔

  • تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والی خواتین کا تذکرہ

    تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والی خواتین کا تذکرہ

    تقسیمِ ہند کے اعلان اور قیامِ پاکستان کو 75 سال بیت چکے ہیں۔ برصغیر کے عوام نے انگریزوں‌ کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بے شمار قربانیاں‌ دیں‌ اور مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو کر مسلمانوں نے آزاد وطن کی جدوجہد کی۔ اس میں‌ خواتین بھی شامل تھیں جن کے تذکرے کے بغیر آزادی کی جدوجہد اور قیامِ پاکستان کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔

    ان خواتین میں‌ مسلمان اکابرین اور زعما کے گھرانوں اور ہندوستان کے کونے کونے میں بسنے والی عام عورتیں شامل تھیں جنھوں نے جلسے جلوس اور احتجاجی سرگرمیوں میں شرکت کرنے کے علاوہ گرفتاریاں اور جان و مال کا نذرانہ بھی پیش کیا۔

    ہندوستان کی تاریخ کی عظیم تحریک جس کے بعد ہم نے پاکستان حاصل کیا، محترمہ فاطمہ جناح، امجدی بانو بیگم، سلمیٰ تصدق حسین، بی اماں، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم گیتی آراء، بیگم جہاں آرا شاہنواز اور بے شمار خواتین کی لازوال جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر ہے۔

    ان خواتین کا لازوال کردار، عظمت و حوصلہ اور مسلمانوں کے لیےعلیحدہ ریاست حاصل کرنے کا جذبہ مردوں سے کسی طور کم نہ تھا، بلکہ ان میں سے اکثر ایسی خواتین تھیں جنھوں نے تحریکی ذمہ داریاں اور کام انجام دینے کے ساتھ اپنی گھریلو ذمہ داریاں بھی پوری کیں اور اپنے قول و عمل سے آزادی کے سفر اور تحریکِ پاکستان میں ایک نئی روح پھونک دی۔

    یہاں ہم تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی چند خواتین کا مختصر تعارف پیش کررہے ہیں۔

    مادرِ ملت محترمہ فاطمہ علی جناح
    تحریکِ پاکستان میں اگر خواتین کے نمایاں اور فعال کردار کی بات کی جائے تو جہاں اپنے بھائی اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی طرح مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح نے خود ایک سیاسی مدبّر اور قائد کی حیثیت سے صفِ اوّل میں مرد راہ نماؤں کے ساتھ نظر آئیں، وہیں ان کا ایک بڑا کارنامہ ہندوستان میں خواتین میں آزادی کا شعور بیدار کرنا اور بڑی تعداد کو مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھا کرنا تھا۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی بے لوث اور انتھک جدوجہد ایک مثال ہے جس نے انھیں برصغیر کی تاریخ میں ممتاز کیا۔

    محترمہ فاطمہ علی جناح پیشے کے اعتبار سے دندان ساز تھیں جو برصغیر کے طول و عرض میں خواتین میں علیحدہ مسلم ریاست سے متعلق شعور بیدار کرنے اور مسلمانوں کو منظّم و متحرک کرنے کے لیے دن رات میدان عمل میں رہیں۔ تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی خدمات ایک سنہرا اور روشن باب ہیں۔

    بی امّاں
    اس عظیم خاتون کا نام ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا جنھوں نے اپنے عزیز از جان بیٹوں کو اسلام کا پرچم سربلند رکھنے اور آزادی کی خاطر گردن کٹوا لینے کا درس دیا اور خود بھی جدوجہدِ‌ آزادی کے حوالے سے میدانِ‌ عمل میں متحرک اور فعال رہیں۔ بی امّاں نے گھر گھر جاکر عورتوں میں سیاسی شعور اور انگریزوں سے آزادی کی جوت جگائی اور انھیں‌ اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگاہ و خبردار کیا۔

    بی امّاں کا اصل نام آبادی بانو تھا۔ وہ عظیم سیاسی راہ نما مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی والدہ تھیں جنھیں دنیا جوہر برادران کے نام سے جانتی ہے۔ مسلمانوں کی امارت اور خلافت کے یہ متوالے جیل کی قید اور صعوبتیں جھیلتے تو بی امّاں کی تلقین اور ان کا حکم یاد کرتے کہ بیٹا خلافت کے لیے جان دے دینا اور آزادی کا خواب دیکھنا مت ترک کرنا، چاہے گردن ہی تن سے جدا کیوں نہ کردی جائے۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ناقابل فراموش کردار ادا کرنے والی بی امّاں تعلیم یافتہ نہ تھیں لیکن ایک آزاد مملکت کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے جلسے جلوس سے لے کر چند کانفرنسوں کی صدارت بھی بخوبی کی۔ انھوں نے خواتین میں جذبہ حرّیت بیدار کرتے ہوئے انھیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے نمایاں کام کیا۔

    بیگم رعنا لیاقت علی خان
    بیگم رعنا لیاقت علی خان معاشیات کے مضمون میں ڈگری یافتہ تھیں اور انھوں نے تحریکِ پاکستان جناح کمیٹی میں بطور اقتصادی مشیر خدمات سرانجام دیں۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی رفیق حیات تھیں۔

    انھوں نے قرار دادِ پاکستان کے مسودے کی تیاری کے دوران چند کلیدی نکات بتائے تھے۔ انھیں تحریکِ پاکستان کی کارکن اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    بیگم جہاں آرا شاہنواز
    آزادی کی جدوجہد کا ایک نمایاں کردار بیگم جہاں آرا شاہنواز ہیں۔ آپ مسلمانوں کی نمائند ہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا نام تجویز کرنے والے عظیم سیاسی راہ نما سر میاں محمد شفیع کی صاحبزادی تھیں۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز کو اس جماعت کی پہلی خاتون رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور انھوں نے تینوں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔

    بیگم زری سرفراز
    بیگم زری سرفراز نہ صرف تحریک پاکستان کی ایک سرگرم کارکن تھیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں‌ خواتین کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے بھی کوشاں رہیں اور اس حوالے سے بہت کام کیا۔ بیگم زری سرفراز 1940ء کے تاریخ ساز جلسے میں شریک ہوئی تھیں۔ انھوں نے مردان میں مسلم لیگ خواتین کی داغ بیل ڈالی جب کہ 1945ء میں برصغیر کی مسلم لیگی خواتین کی کانفرنس منعقد کروانے کا سہرا بھی آپ ہی کے سَر ہے۔ انھوں نے 1947ء میں سول نافرمانی اور وائسرائے کے پشاور کے دورے کے موقع پر احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی تھی۔

  • ’’عزم عالی شان، شاد رہے پاکستان ‘‘ قیام پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی پر لوگو جاری

    ’’عزم عالی شان، شاد رہے پاکستان ‘‘ قیام پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی پر لوگو جاری

    اسلام آباد : حکومت نے قیام پاکستان کے 75 سال مکمل ہونے کی ڈائمنڈ جوبلی پر’’عزم عالی شان، شاد رہے پاکستان ‘‘ کے عنوان سے لوگو جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر قیام پاکستان کے 75 سال مکمل ہونے کی ڈائمنڈ جوبلی پر لوگو جاری کردیا۔

    مریم اورنگزیب نے کہا کہ لوگو کاعنوان ہے’’عزم عالی شان، شاد رہے پاکستان ‘‘ہے، یہ پاکستان سے محبت اور عزم کی تجدید ہے کہ ہمارے بہادر اور عظیم بزرگوں اور شہداء نے جس عزم سے پاکستان بنایا تھا۔

    وزیراطلاعات نے پیغام میں کہا کہ اسی عزم کے ساتھ معاشی طور پر اسے مظبوط اور خودانحصار، فلاحی مملکت اور دفاعی لحاظ سے ناقابل تسخیر بنائیں گے تاکہ قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد حاصل ہوں اور عوام کی زندگیوں میں وہ آسانیاں آئیں جن کا خواب برصغیر کے مسلمانوں نے دیکھا تھا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنے نوجوانوں کو فیصلہ ساز بنائیں گے ، قیام پاکستان کی طرح ایک اسلامی فلاحی، ترقی یافتہ اور معاشی طور پر خودمختار پاکستان کا خواب بھی سچ ہو کر رہے گا۔

  • تحریکِ آزادی: قائدِ اعظم کی زندگی کے پانچ ادوار، مختصر جائزہ

    تحریکِ آزادی: قائدِ اعظم کی زندگی کے پانچ ادوار، مختصر جائزہ

    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے اور اس پلیٹ فارم سے مسلمانانِ کی آزادی کی جدوجہد کا آغاز کرنے کے بعد ایک نہایت ہنگامہ خیز اور مصروف زندگی گزاری۔

    اگر ہم اپنے قائد و راہ بَر کے تعلیمی دور سے لے کر ان کی وفات تک زندگی پر نظر ڈالیں تو اسے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن سے بالخصوص نوجوان نسل کو واقف ہونا چاہیے۔

    محمد علی جناح کی زندگی کے پہلے دور کو 20 برسوں پر محیط کہا جاسکتا ہے۔ یہ زمانہ تھا 1876ء سے 1896ء تک کا، جب انھوں نے تعلیم پائی اور انگلستان میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔

    اس کے بعد اگلے دس سال یعنی 1896ء سے لے کر 1906ء تک کے عرصے میں انھوں نے مکمل یک سوئی اور محنت سے وکالت میں اپنی لیاقت کا لوہا منوایا۔

    مؤرخین اور سوانح و خاکہ نگار محمد علی جناح کے تیسرے دور کو 1906ء سے 1916ء تک دیکھتے ہیں، جب وہ زیادہ تر کانگریس کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے چوتھے دور کی بات کی جائے تو وہ 20 سال پر محیط ہے اور 1916ء سے 1936ء کا زمانہ ہے۔ اس دور میں وہ کانگریس اور لیگ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔

    پانچواں دور 1937ء سے شروع ہوتا ہے اور یہ ان کی وفات تک یعنی 1948ء تک کا ہے۔ اس دور کے ابتدائی برسوں میں محمد علی جناح نے وکالت چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ مسلمانانِ ہند کے اتحاد اور تنظیم پر مرکوز کردی اور پاکستان کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیا تھا۔ بعد کے برسوں میں وہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں بے حد مصروف ہوگئے اور قیامِ پاکستان کے بعد پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔

    قائدِاعظم کی زندگی کے ان ادوار کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو سامنے آئے گا کہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد اور نصبُ العین کے حصول کے لیے مصروفِ کار رہے۔

    قائداعظم سے 21 جون 1937ء کو شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے کہا تھا: ’’ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان لیڈر ہوسکتے ہیں جو اپنی قوم کو اس طوفان سے، جو ان پر آنے والا ہے، بچاسکتا ہے۔ اس لیے قوم کو حق ہے کہ وہ آپ سے راہ نمائی کی امید رکھے۔‘‘

    قائدِ اعظم قوم کے اس حق اور اپنے فرض کو بخوبی پہچان چکے تھے اور کانگریس سے تعلق توڑنے اور وکالت ترک کرنے کے بعد اپنی تمام زندگی حصول و قیامِ پاکستان کی جدوجہد کرتے ہوئے گزار دی۔

  • قیامِ‌ پاکستان: سردار عبدالرّب نشتر اور ڈاک ٹکٹوں کا اجرا

    قیامِ‌ پاکستان: سردار عبدالرّب نشتر اور ڈاک ٹکٹوں کا اجرا

    سردار عبدالرّب نشتر ایک مدبّر و شعلہ بیان مقرر اور تحریکِ پاکستان کے صفِ اوّل کے راہ نما تھے جنھوں نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار ہوئے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد سردار عبدالرّب نشتر ملک کے پہلے وزیرِ اعظم خان لیاقت علی خان کی کابینہ میں شامل رہے اور وطنِ عزیز کے استحکام اور ترقّی و خوش حالی کے لیے کام کیا۔

    74 ویں جشنِ آزادی کے موقع پر ہم پاکستان کے اسی قابل اور مخلص راہ نما کے ایک یادگار کام کا تذکرہ کررہے ہیں جو محکمہ ڈاک سے متعلق ہے۔

    پاکستان بننے کے بعد جہاں انتظامی اور ریاستی امور چلانے کے لیے مختلف ادارے اور شعبہ جات قائم کیے گئے، وہیں ڈاک کا نظام اور اس کے تحت ٹکٹوں کے اجرا کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد 9 جولائی 1948ء کو محکمہ ڈاک کے تحت سردار عبدالرّب نشتر کی راہ نمائی، ذاتی دل چسپی اور مسرت حسین زبیری کی کوششوں سے چار ٹکٹوں کا اجرا کیا۔

    یہ پاکستان کے اوّلین ڈاک ٹکٹوں کا سیٹ تھا جن کی مالیت ڈیڑھ، ڈھائی، تین آنہ اور ایک روپیہ تھی۔ ان میں سے تین ڈاک ٹکٹوں پر بالترتیب سندھ اسمبلی بلڈنگ، کراچی ایئر پورٹ اور شاہی قلعہ لاہور کی تصاویر بنی تھیں جب کہ آخرالذّکر چوتھا ٹکٹ مصوّری کا نمونہ تھا۔

    بعدازاں محکمہ ڈاک نے سردار عبدالرّب نشتر یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔

  • قائدِ‌اعظم کو کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کیوں حاصل کرنا پڑا؟ ایک یادگار واقعہ

    قائدِ‌اعظم کو کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کیوں حاصل کرنا پڑا؟ ایک یادگار واقعہ

    بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت و کردار کو ہندوستانی اور بعض انگریز مؤرخین نے بھی سراہا ہے اور ان کی زندگی کے مختلف ایسے واقعات کا تذکرہ کیا ہے جو ان کے بااصول، صاف گو ہونے اور مضبوط و اجلے کردار کی غمّازی کرتے ہیں۔ یہاں ہم ایک ایسے ہی واقعے کا تذکرہ کررہے ہیں جو دل چسپ بھی ہے۔

    قانون کی تعلیم مکمل کرکے لندن سے ہندوستان لوٹنے والے محمد علی جناح نے جب ممبئی (بمبئی) میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنا چاہا تو انھیں کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت پڑی۔

    پریکٹس شروع کرنے کے خواہش مند کسی بھی وکیل کے لیے لازمی تھا کہ وہ یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کرے۔ ایک روز محمد علی جناح صبح سویرے ایک انگریز مجسٹریٹ کے بنگلے پر پہنچ گئے اور نوکر کے ہاتھ ایک چٹ پر اپنا نام اور ڈگری لکھ کر ضروری کام سے ملاقات کا پیغام اندر بھجوا دیا۔ مجسٹریٹ نے انھیں اندر بلا لیا۔

    قائدِ اعظم نے اندر جاتے ہی سوال کیا:’’میرے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

    مجسٹریٹ نے جواب دیا: مجھے آپ بے حد شریف آدمی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اس پر قائدِ اعظم نے اسی وقت ایک کاغذ آگے بڑھا دیا اور نہایت ادب اور شائستگی سے کہا: ’’جنابِ عالی، یہ الفاظ اس پر لکھ دیجیے۔ دراصل مجھے قانون کی پریکٹس شروع کرنے کے لیے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے۔‘‘

  • تحریکِ‌ آزادی: مولانا ظہورُ الحسن درس جن کی اقتدا میں بانی پاکستان نے نمازِ عید ادا کی

    تحریکِ‌ آزادی: مولانا ظہورُ الحسن درس جن کی اقتدا میں بانی پاکستان نے نمازِ عید ادا کی

    تحریکِ پاکستان کے راہ نما اور قائدِ‌ اعظم کے رفیق مولانا ظہور الحسن کا نام تاریخ میں ایک باکردار، جرات مند، کھرے اور سچّے انسان کے طور پر درج ہے۔ وہ ایک عالمِ دین اور شعلہ بیاں خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر اور متعدد کتب کے مصنّف و مؤلف بھی تھے۔

    9 فروری 1905ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے ظہور الحسن کے والد ایک نام ور عالمِ دین تھے۔ ان کی تربیت مذہبی اور دینی ماحول میں ہوئی جہاں انھوں نے اپنے بزرگوں کے قائم کیے ہوئے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔

    مولانا ظہور الحسن بھی عالمِ دین اور شعلہ بیاں خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر تھے۔ آپ کی مادری زبان سندھی تھی لیکن اردو پر دسترس رکھتے تھے۔

    ظہور الحسن درس بھی اپنے والد کی طرح عالمِ دین بننے کے بعد بندر روڈ کراچی میں واقع عید گاہ میں جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی امامت و خطابت کرنے لگے۔

    بندر روڈ کا عید گاہ میدان، برصغیر کے مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ تحریکِِِ پاکستان کے سلسلے میں 11 اکتوبر 1938ء کو صوبائی مسلم لیگ کانفرنس قائد اعظم محمد علی جناح کی زیرِ صدارت اسی میدان میں منعقد ہوئی تھی۔ 15 اکتوبر 1939ء کو علامہ درس کی کاوشوں سے اسی جگہ ایک تاریخی جلسہ منعقد ہوا جس میں پاک و ہند سے صفِ اوّل کے راہ نماؤں اور علما نے شرکت کی۔ 15 دسمبر 1941ء کو اسی عید گاہ میں علامہ ظہور الحسن درس کی صدارت میں کراچی مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی۔

    قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی نمازِ جمعہ و عیدین کا سب سے بڑا اجتماع اسی عید گاہ میدان میں ہوا کرتا تھا اور یہ علامہ درس کی سحر انگیز شخصیت کا کمال تھا کی لوگ دور دراز کے علاقوں سے آکر ان اجتماعات میں شرکت کرتے تھے۔

    قیام پاکستان کے چند دن بعد 18 اگست 1947ء کو نماز عید الفطر کا ایک عظیم الشّان اجتماع کراچی کی اسی عید گاہ میں منعقد ہوا، جس میں قائدِاعظم محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خان، سردار عبدالرّب نشتر، خواجہ ناظم الدین، راجہ غضنفر علی خان، حسین شہید سہروردی و دیگر اہم حکومتی شخصیات اور اکابرینِ ملت نے مولانا درس کی اقتدا میں نمازِ عید ادا کی۔

    مولانا ظہور الحسن درس 14 نومبر 1972ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے اور قبرستان مخدوم صاحب، کراچی آسودۂ خاک ہوئے۔