Tag: قیدی

  • کراچی: سینٹرل جیل سے قیدی کے فرار کی کوشش ناکام

    کراچی: سینٹرل جیل سے قیدی کے فرار کی کوشش ناکام

    کراچی: سینٹرل جیل سے قیدی کے فرار کی کوشش ناکام بنادی گئی، تیسرے حفاظتی حصار پر تعینات ایف سی اہل کاروں نے قیدی کو پکڑ لیا۔

    تفصیلات کے مطابق جہانگیر نامی قیدی ایوب وارڈ میں بند تھا، شاطر قیدی پولیس اہل کاروں کو چکمہ دے کر دو حفاظتی رکاوٹیں عبور کرنے میں کامیاب رہا.

    تیسرے حفاظتی حصار پر تعینات فرنٹئیر کانسٹیبلری کے اہل کاروں نے قیدی کو دھرلیا اور اس کا منصوبہ ناکام بنا دیا.

    ایف سی اہل کاروں نے فرار ہونے والے قیدی کو جیل حکام کے حوالے کردیا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اس پورے واقعے سے متعلق جیل انتظامیہ بے خبر تھی.

    مزید پڑھیں: ملیر جیل سے فرار ہونے والا قیدی ضمانت کیلیے خود عدالت پہنچ گیا

    یاد رہے کہ ماضی میں جیل کے اطراف میں سرنگ کھو د کر ملزمان فرار کروانے کی کوشش کی گئی تھی۔

    خیال رہے کہ دو سال پہلے بھی سینٹرل جیل سے دو قیدی فرار ہوچکے ہیں، جس کے بعد حفاظتی انتظامات مزید سخت کر دیے تھے.

  • وزیر اعلیٰ پنجاب کا پیرول پر رہائی پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ

    وزیر اعلیٰ پنجاب کا پیرول پر رہائی پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ

    لاہور: وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے قیدیوں کو ریلیف دینے کے لیے احسن اقدام کرتے ہوئے پیرول پر رہائی پر عائد پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب میں قیدیوں کی پیرول پر رہائی پر عائد پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ پنجاب کی جیلوں سے پختونخواہ کے 400 قیدیوں کو ان کے صوبے میں بھجوانے کی ہدایت کردی گئی۔

    وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو پختونخواہ بھجوانے کے لیے قواعد کے تحت اقدامات کیے جائیں۔ قیدیوں کو بھی بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ جیلوں کے دورے کر کے قیدیوں کے مسائل سے آگاہی حاصل کر رہا ہوں، قیدیوں کو جیلوں میں جیل مینوئل کے تحت سہولتیں دیں گے۔ خواتین قیدیوں کے بچوں کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے گا۔

    ذرائع کے مطابق اس وقت پختونخواہ کے 400 قیدی پنجاب کی مختلف جیلوں میں سزائیں کاٹ رہے ہیں، پنجاب کی جیلوں میں قید ان قیدیوں سے ان کے رشتے دار بھی ملنے نہیں آتے۔

  • بھارتی قیدیوں کا تشدد: شہید پاکستانی شاکراللہ کی میت آج پاکستان آئے گی

    بھارتی قیدیوں کا تشدد: شہید پاکستانی شاکراللہ کی میت آج پاکستان آئے گی

    نئی دہلی: بھارتی جیل میں ہجوم کے ہاتھوں شہید ہونے والے پاکستانی کی میت آج وطن واپس لائی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی جیل میں ہجوم کے ہاتھوں شہید شاکراللہ کی میت آج بھارت کے حکام واہگہ بارڈر پر پاکستان کے حوالے کریں گے۔

    بھارتی ریاست راجستھان کے دارالحکومت جے پور کی جیل میں قید پاکستانی شہری شاکراللہ کو ساتھی قیدیوں نے بہیمانہ تشدد کر کے 20 فروری کو قتل کردیا تھا۔

    سینٹرل جیل کے بیرک میں موجود ہندو انتہا پسندوں نے پاکستانی شہری کے سر پر وار کیے جس کی وجہ سے گہرے زخم آئے اور شکور اللہ جیل میں ہی شہید ہوگئے تھے۔

    غیر ملکی میڈیا نے پاکستانی قیدی کی شہادت کا ذمہ دار جے پور جیل کی انتظامیہ کو قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔

    بھارت میں سفارتی ذمہ داریاں انجام دینے والے سابق سفیر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ عوام کو کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ بھارتی حکومت کا مؤقف ہی دہشت گردی اور انتہاپسندی پر مبنی ہے۔

    سابق سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کو جے پور کی جیل میں قید شاکراللہ کے قتل میں ملوث افراد کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کرنا چاہیے اور اسلام آباد میں موجود بھارتی سفیر کو طلب کرکے واقعے پر شدید احتجاج کرنا چاہیے۔

    پلواما حملے کا انتقام، بھارتی جیل میں قید پاکستانی قیدی ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل

    یاد رہے کہ بھارت کے شہر جے پور میں واقع سینٹرل جیل میں قید پاکستانی شہری کو ہجوم نے پلواما حملے کے بعد تشدد کر کے شہید کردیا تھا۔

  • فلموں کا شوقین مجرم فلمی انداز میں جیل سے فرار

    فلموں کا شوقین مجرم فلمی انداز میں جیل سے فرار

    پیرس: فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں فلموں کے شوقین ایک گینگسٹر نے فلمی انداز میں جیل سے فرار ہو کر سیکیورٹی اداروں کی دوڑیں لگوا دیں۔

    فرانس میں مسلح ڈکیتی اور دوران ڈکیتی قتل کرنے والے مجرم ریدوئن فائد کو اس کے ساتھی اس وقت چھڑا لے گئے جب وہ وزیٹرز روم میں اپنے بھائی کے ساتھ ملاقات کر رہا تھا۔

    فائد کے ساتھی ایک جگہ سے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ کو یرغمال بنا کر اسے ہیلی کاپٹر سمیت جیل کے اندر لے آئے۔

    ایک ساتھی جیل کے احاطے میں ہیلی کاپٹر کی حفاظت کرتا رہا جبکہ 2 ساتھی اندر داخل ہوئے، دھوئیں کے بم چلائے اور ویزیٹرز روم کے دروازے توڑ کر فائد کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر فرار ہوگئے۔

    یہ ساری کارروائی صرف 10 منٹ میں مکمل کی گئی۔

    بعد ازاں پولیس کو قریبی علاقے سے ہیلی کاپٹر مل گیا جسے جلا دیا گیا تھا لیکن فائد اور اس کے ساتھ تاحال مفرور ہیں۔ فرانسیسی پولیس کے 3 ہزار اہلکار اس وقت فائد کی تلاش پر مامور ہیں۔

    حکام کا کہنا ہے کہ فائد ہالی ووڈ فلموں کا بے حد شوقین ہے اور امریکی ڈائریکٹر مائیکل مین کی کرائم فلموں کا دیوانہ ہے۔

    ان کے مطابق ایک بار پیرس فلم فیسٹیول کے دوران وہ مائیکل مین سے ملا اور اس سے کہا، ’تم میرے تکنیکی مشیر ہو‘۔ اس نے کئی جرائم میں مائیکل کی فلموں میں دکھائی جانے والی مجرمانہ تکنیکیں بھی استعمال کیں۔

    فائد اس سے قبل بھی ایسی ہی ایک خطرناک تکنیک سے جیل سے فرار ہوچکا ہے۔ سنہ 2013 میں اس نے جیل کے گارڈز کو ڈھال بنا کر ڈائنامائٹ سے ذریعے جیل کے دروازوں کو توڑا اور فرار ہوگیا۔

    فرار کی یہ کامیاب کوشش اس نے جیل پہنچنے کے صرف ایک گھنٹے کے اندر کی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • غیر قانونی قید خانوں میں افغان خواتین کی دردناک حالت زار

    غیر قانونی قید خانوں میں افغان خواتین کی دردناک حالت زار

    افغانستان جیسے ملک میں جہاں شاید خواتین سانس بھی اپنے مردوں سے پوچھ کر لیتی ہوں گی، کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ وہاں خواتین جرائم میں بھی ملوث ہوسکتی ہیں؟ اور آپ کے خیال میں ایسی خواتین کو کیا سزا دی جاتی ہے؟

    افغانستان میں کسی بھی قسم کے جرم میں ملوث خاتون کو بطور سزا کسی قبائلی سردار کے گھر بھیج دیا جاتا ہے، جہاں وہ اس کے گھر والوں کی بلا معاوضہ خدمت کرتی ہے۔ یہی نہیں، گھر کے مردوں کی جانب سے کیا جانے والا جنسی و جسمانی تشدد بھی ان کی ’سزا‘ کا حصہ ہوتا ہے۔

    ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں مجرم قرار دی جانے والی 95 فیصد لڑکیاں اور 50 فیصد خواتین اخلاقی جرائم میں ملوث ہوتی ہیں۔ خواتین کے بنیادی حقوق سلب کرنے والے ان ’اخلاقی جرائم‘ کی کیا تعریف پیش کرتے ہیں؟ آئیے آپ بھی جانیں۔

    وہ خواتین جو گھر سے بھاگ جائیں، جو زنا میں ملوث پائی جائیں، یا جو شادی شدہ ہوتے ہوئے کسی دوسرے مرد سے تعلقات رکھیں، اخلاقی مجرم قرار پاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    ان ہی اخلاقی جرائم میں ملوث ایک عورت فوزیہ بھی ہے جس نے اپنے نگرانوں کو رسوائی سے بچانے کے لیے اپنا نام غلط بتایا۔

    افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیکا کی رہائشی فوزیہ کو گھر سے بھاگنے اور زنا میں ملوث پائے جانے کے جرم میں سزا یافتہ قرار دیا گیا ہے۔ اسے مقامی عدالت نے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔

    مگر بہت جلد اسے علم ہوا کہ اسے حکومت کی جانب سے طے کردہ 18 ماہ کی سزا نہیں ملے گی، نہ ہی اسے سرکاری جیل میں بھیجا جائے گا۔ اس کے برعکس اسے ایک قبائلی سردار کے گھر بھیجا جائے گا جہاں اس کی حیثیت ایک غلام جیسی ہوگی۔

    قید کا آغاز ہونے کے بعد فوزیہ کی زندگی کا ایک درد ناک سفر شروع ہوا۔ فوزیہ کے لیے منتخب کیے گئے قبائلی سردار نے اسے اپنے گھر سے متصل ایک جھونپڑی میں قید کردیا۔ روز صبح اس قید خانے کا دروازہ کھولا جاتا ہے جس کے بعد فوزیہ سردار کے گھر کے کام کرتی ہے، صفائی کرتی ہے، اور کپڑے دھوتی ہے۔

    سورج غروب ہونے کے بعد اسے واپس اس کے قید خانے میں بھیج دیا جاتا ہے۔

    دبیز پردے سے اپنے چہرے کو چھپائے فوزیہ شاید خوف کے مارے یہ تو نہ بتا سکی کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے یا نہیں، تاہم وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کا راز کھول گئی۔

    مزید پڑھیں: داعش کے ظلم کا شکار عراقی خاتون اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر

    وہ بتاتی ہے، ’مجھے جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے اور مجھ سے زرخرید غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے‘۔

    وہ کہتی ہے، ’میری دعا ہے کہ جو کچھ میں نے قید کے دوران سہا ہے اور سہہ رہی ہوں، وہ کبھی کوئی اور عورت نہ سہے‘۔

    اسے سب سے زیادہ دکھ اپنے خاندان سے جدائی کا ہے، ’یہ کوئی عام قید خانہ نہیں جہاں کبھی کبھار آپ کی والدہ یا بہن آپ سے ملنے آسکیں، یا وہ آپ کے لیے کچھ لے کر آئیں۔ مجھے یہاں نہ صرف اپنے گھر والوں بلکہ ساری دنیا سے الگ تھلگ کردیا گیا ہے اور یہ میرے لیے بہت وحشت ناک بات ہے‘۔

    فوزیہ کا کیس صوبائی عدالت میں زیر سماعت ہے، اور اس سے قبل بھی انہیں جیل بھیجے جانے کا فیصلہ سنایا جا چکا ہے، اس کے باوجود انہیں قبائلی سردار بھیجنے کی وجہ کیا ہے؟


    سزا کے لیے ’غیر معمولی‘ قید خانے کیوں؟

    افغانستان کے طول و عرض پر واقع جیلیں گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ہیں جو عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے پہلے کی تنقید کی زد میں ہیں۔

    افغانستان کے ڈائریکٹر برائے جیل خانہ جات عالم کوہستانی کے مطابق حکومت کی جانب سے قائم باقاعدہ جیلوں میں صرف 850 کے قریب خواتین موجود ہیں جو اخلاقی جرائم، منشیات کے استعمال یا قتل میں ملوث ہیں۔

    ان میں وہ خواتین شامل نہیں جو غیر قانونی طریقہ سے قیدی بنائی گئی ہیں۔ ان میں ہزاروں خواتین شامل ہیں جو ملک بھر میں مختلف مقامات پر قید ہیں۔

    afghan-2

    دراصل افغان حکومت کی جانب سے طے کردہ قوانین اور سزائیں عموماً خواتین پر لاگو نہیں کی جاتیں، اور مقامی کونسلوں یا گاؤں کے سربراہ ہی مجرم خواتین کی سزا کا تعین کرتے ہیں۔ البتہ حکومت اپنے قوانین اور عدالتی نظام کو قبائلی علاقوں میں بھی نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

    امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق سے متعلق تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان کا رسمی قانونی نظام دیہی اور قبائلی علاقوں میں غیر مؤثر ہے اور یہاں یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

    یہاں ہونے والے تنازعوں کو نمٹانے کے لیے علاقہ کے معززین بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے ایسی سزائیں ایجاد کرلی ہیں جو افغانستان کے قوانین سے بالکل علیحدہ اور بعض اوقات متصادم ہیں۔

    پکتیکا میں کام کرنے والی ایک سماجی کارکن زلمے خروٹ کا کہنا ہے کہ قید کی جانے والی ان خواتین کو بدترین جنسی و جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان سے غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ دراصل ان کی حیثیت گھر کے سربراہ کی جائیداد جیسی ہے۔

    دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں صرف خواتین کے لیے مخصوص جیلیں یا قید خانے کم ہیں۔ افغان صوبہ پکتیکا میں جس کی سرحدیں پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بھی ملتی ہیں، خواتین کو رکھنے کے لیے کوئی جیل یا مناسب قید خانہ موجود نہیں۔

    مزید پڑھیں: مہاجر شامی خواتین کا بدترین استحصال جاری

    افغانستان کے صوبائی محکمہ برائے امور خواتین کی سربراہ بی بی حوا خوشیوال نے اس بارے میں بتایا کہ وہ کئی خواتین مجرموں کو قبائلی سرداروں یا خواتین پولیس اہلکاروں کے گھر بھیجتے ہیں۔ ’ہم مانتے ہیں کہ یہ قانونی نہیں، لیکن جگہ کی کمی کی وجہ سے ہم مجبور ہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ انہیں قبائلی سرداروں کی جانب سے خطوط بھیجے جاتے ہیں کہ وہ ان مجرم خواتین کو ان کے گھر بھیجیں۔ وہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ ان کے گھر میں خواتین سے کوئی ظالمانہ سلوک نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اکثر سردار اپنی بات سے پھر جاتے ہیں اور ان کے گھر جانے والی خواتین کا بری طرح استحصال ہوتا ہے۔

    بی بی حوا کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس صرف 16 خواتین مجرموں کے کیس مقامی و صوبائی عدالتوں میں بھیجے گئے۔ ان کے علاوہ ایسے درجنوں مقدمات، جو خواتین کے خلاف قائم کیے گئے، قبائلی سرداروں نے بالا ہی بالا خود ہی طے کر لیے۔ ان مقدمات میں خواتین مرکزی ملزم تھیں یا بطور سہولت کار ملوث تھیں۔

    اس بارے میں افغان ڈائریکٹر برائے جیل خانہ جات عالم کوہستانی کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی پوری کوشش کرتی ہے کہ ایسی خواتین جو کسی قسم کے مقدمات میں قبائلی سرداروں کے گھر قید ہیں، انہیں قانونی معاونت فراہم کی جائے۔ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ خواتین کے مقدمات کی وقت پر سماعت کی جائے (اگر ان کے سرپرست اس کی اجازت دیں)، اور سزا ملنے کی صورت میں ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہونے دی جائے۔


    کیا تمام خواتین اس صورتحال کا شکار ہیں؟

    افغانستان میں غیر قانونی طور پر قید کی گئی تمام خواتین کو اس صورتحال کا سامنا نہیں۔ کچھ خواتین کو قانونی معاونت بھی میسر آجاتی ہے، تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین کی تعداد بہت کم ہیں۔

    خواتین قیدیوں کی اکثریت ایسی ہے جو دوران قید بری طرح استحصال کا شکار ہوتی ہیں اور بعض دفعہ ان کی قید کی مدت مقرر کردہ مدت سے بھی تجاوز کردی جاتی ہے۔


    قبائلی سرداروں کا کیا کہنا ہے؟

    اس بارے میں جب ایک قبائلی سردار خلیل زردان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اسے اپنے قبیلے کے لیے ایک قابل فخر عمل قرار دیا۔ اپنی رائفل سے کھیلتے ہوئے اس نے کہا، ’میرا نہیں خیال کہ خواتین قیدیوں کو اپنے گھر میں رکھنے میں کوئی قباحت ہے۔ میرے گھر میں کبھی کسی خاتون قیدی کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا گیا‘۔

    سردار زردان کے گھر میں خواتین کے لیے باقاعدہ جیل قائم ہے اور اس کی دوسری بیوی اس کے گھر میں چلائی جانے والی جیل کی نگران ہے۔ سردار کا کہنا تھا، ’جب کسی عورت کو سزا یافتہ قرار دیا جاتا ہے تو پولیس چیف مجھے فون کر کے کہتا ہے کہ اگر میرے گھر میں جگہ ہے تو میں اس عورت کو اپنے گھر میں رکھ لوں‘۔ ’یہ کام میں اپنے قبیلے کی عزت کے لیے کرتا ہوں، میرے قبیلے کو جب اور جتنی ضرورت ہوگی، میں اتنی عورتیں اپنے گھر میں رکھ سکتا ہوں‘۔

    افغانستان میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں اور اداروں کا مشترکہ مشن یہ ہے کہ یہاں سب سے پہلے خواتین کو ان کے بنیادی حقوق واپس دلوائے جائیں۔ دیگر سہولیات کی بات بعد میں آتی ہے۔

    افغانستان کی فٹبال کی پہلی خواتین ٹیم کی کپتان خالدہ پوپل زئی اس بارے میں کہتی ہیں، ’افغانستان سے طالبان کا کنٹرول ختم ہوگیا ہے لیکن ان کی سوچ لوگوں میں سرائیت کر چکی ہے۔ یہ سوچ خواتین کو ان کے بنیادی حقوق بھی دینے سے روک دیتی ہے اور لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خواتین کو جانور سے بھی بدتر کوئی مخلوق سمجھیں‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شارجہ، قیدیوں کی اپنے بچوں سے ویڈیو چیٹ کے ذریعے ملاقات

    شارجہ، قیدیوں کی اپنے بچوں سے ویڈیو چیٹ کے ذریعے ملاقات

    ابوظہبی : شارجہ جیل میں اسیر قیدی اپنے اہل خانہ اور بچوں سے ویڈیو چیٹنگ کے ذریعے ملاقات کرسکیں۔

    تفصیلات کے مطابق شارجہ جیل کی انتظامیہ، محکمہ سماجی بہبود اور فیملی کورٹ کے باہمی مشورے اور معاونت سے ملاقات سیل میں ڈیجیٹل سسٹم نصب کردیا گیا ہے جس کے ذریعے قیدیوں کو اپنے گھر ویڈیو چیٹ کرنے کی سہولت میسر آجائے گی اور وہ بلاتعطل طویل وقت تک اپنے اہل خانہ سے بالعموم اور بچوں سے بالخصوص بات چیت کرسکیں گے۔

    ڈائریکٹر سماجی بہبود عفاف المیری نے میڈیا کو بتایا کہ جیل میں قید اسیروں کا رابطہ اپنے اہل خانہ سے کٹ جاتا ہے جس سے سب سے زیادہ بچوں کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور رابطے کا یہ فقدان گھر کا شیرازہ بکھرنے کا موجب بن جاتا ہے، قیدیوں کے اہل خانہ کی دقت کو مد نظر رکھتے ہوئے ویڈیو چیٹنگ کا نظام نصب کیا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ قیدیوں سے ملنے کے لیے آنے والی خواتین کو مشکلات اور بچوں کی نفسیات مسائل کا سامنا رہتا ہے اور جیل کے ناپسندیدہ ماحول سے ان کی ذہنی افزائش مین منفی اثرات کا اندیشہ رہتا ہے جب کہ بہت سی نجی معاملات بھی جیل میں ہونے والی ملاقات میں زیر بحث نہیں لائے جا سکتے تھے۔

    ڈائریکٹر سماجی بہبود نے کہا کہ مذکورہ مسائل کی بناء جیل کے شعبے اصلاح اور تادیبی شعبے میں ویڈیو چیٹنگ کی سہولت کا آغاز کیا گیا ہے جس کے ذریعے قیدی اپنے اہل خانہ سے گھر کے ماحول میں رہتے ہوئے بات چیت کرسکیں گے اور اہل خانہ کو بھی جیل کے چکر نہیں لگانے پڑیں گے۔

    وزیر انصاف کا کہنا تھا کہ مٹحدہ عرب امارات میں اس ماہ کو ایجادات کے ماہ کے طور پر منایا جارہا ہے، جیل میں ڈیجیٹل سسٹم کو رائج کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے جو ابتدائی طور پر یو اے ای کے نو بڑے شہروں میں شروع کی گئی ہے تاہم بہت جلد اس دائرہکار دیگر شہروں تک پھیلایا جائے گا۔

  • وینزویلا کی جیل میں جھڑپ‘ 37 قیدی ہلاک

    وینزویلا کی جیل میں جھڑپ‘ 37 قیدی ہلاک

    کاراکاس: وینزویلا کی جیل میں سیکورٹی فورسز کی جانب سےکیے گئے آپریشن کے دوران قیدیوں کی جانب سے مزاحمت کے نتیجےمیں 37 قیدی ہلاک ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق وینزویلا کی جیل کو پرتشدد گروپوں سے چھڑانے کے لیےسیکورٹی فورسز کی جانب سے کیے گئے آپریشن پر قیدیوں کی جانب سے مزاحمت کے نتیجے میں 37 قیدی ہلاک ہو گئے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ شدت پسند گروپوں سے جیل کا کنٹرول واپس حاصل کرنے کے لیے رات گئے آپریشن شروع کیا گیا تو قیدیوں کی جانب سے مزاحمت کی گئی جس پر بڑی تعداد میں قیدیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔

    خیال رہے کہ وینزویلا میں انسانی حقوق کے وکیلوں کی جانب سے مسلسل یہ شکایات سامنے آ رہی تھیں کہ پرتشدد گروپوں کا ملک کے بہت سے جیلوں پر کنٹرول ہے اور وہ وہاں منشیات فروشی اور ہتھیاروں کی خرید و فروخت عام ہے۔


    وینزویلا کی قومی اسمبلی پرمسلح افراد کا حملہ‘ متعدد افراد زخمی


    واضح رہے کہ گزشتہ ماہ وینزویلا میں مسلح افراد نے قومی اسمبلی پرحملہ کیا تھا جس میں اپوزیشن ارکان سمیت متعدد افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • میکسیکوکی جیل میں جھڑپ‘ 28 قیدی ہلاک

    میکسیکوکی جیل میں جھڑپ‘ 28 قیدی ہلاک

    میکسیکو سٹی :: میکسیکوکی جیل میں دو قیدی گروہوں میں جھڑپوں کے نتیجےمیں28 قیدی ہلاک ہوگئے۔

    تفصیلات کےمطابق جنوب مغربی میکسیکو کےشہراکاپلکو کی لاس کروسس جیل میں قیدیوں کے دوگروپوں کےدرمیان ہونے والی لڑائی میں 28قیدی ہلاک ہوگئے۔

    پولیس حکام کےمطابق جیل کےاندر مختلف جگہوں سے لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن میں باورچی خانہ بھی شامل ہے۔

    قیدیوں نے ایک دوسرے کو چاقو اور ڈنڈوں سے مارا اور بعض قیدیوں کے سر کاٹ ڈالے۔گورنر نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

    خیال رہےکہ اکاپلکو ایک زمانے میں میکسیکو کا مقبول سیاحتی مقام ہوا کرتا تھا، لیکن تشدد اور منشیات کے دھندے نے اسے میکسیکو کے خطرناک ترین علاقوں میں سے ایک بنا دیا ہے۔


    مزید پڑھیں: میکسیکو کی جیل میں جھڑپ، باون قیدی ہلاک


    یاد رہےکہ گزشتہ سال فروری میں میکسیکوکی جیل میں متحارب قیدی گروہوں میں جھڑپوں کے نتیجےمیں52 قیدی ہلاک ہوگئےتھے۔

    واضح رہےکہ میکسیکو میں پرتشدد واقعات عام ہیں۔ اس سال صرف مئی کے مہینے میں 2186 لوگ تشدد کا نشانہ بن کر قتل ہوئے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • کلبھوشن کیس: پاکستان نےبھارتی وزارتِ خارجہ کا موقف مسترد کردیا

    کلبھوشن کیس: پاکستان نےبھارتی وزارتِ خارجہ کا موقف مسترد کردیا

    اسلام آباد: پاکستان نے کلبھوشن یادیو سے متعلق بھارتی وزارت خارجہ کا بیان مسترد کرتے ہوئےباہمی قونصلر رسائی معاہدے پر موثر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے۔

    تفصیلات کےمطابق ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا کا کہنا ہے کہ 2008 کا معاہدہ قیدیوں کی فہرستوں کے سال میں دو مرتبہ تبادلہ کا پابند کرتا ہے لیکن کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر اور’را‘ کا ایجنٹ ہے۔

    نفیس ذکریا کا کہناہےکہ کلبھوشن کو’را‘ نے دہشت گردی اور جاسوسی کے لیے پاکستان بھیجا ہے اس لیے کلبھوشن یادیو کے معاملے کو سول قیدیوں کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔


    پاکستان نے بھارتی قیدیوں کی فہرست بھارت کے حوالے کردی


    ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ یکم جولائی کو دونوں ممالک کی جیلوں میں بند دوسرے کے قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا گیا، پاکستان نے سزا پوری کرنے والے پانچ بھارتی قیدیوں کو22 جون کو وطن واپس بھیج دیا اورسزا پوری کرنے والے 20 پاکستانی سول قیدی تاحال بھارت سے واپسی کے منتظر ہیں۔


    کلبھوشن یادیو نے آرمی چیف سے رحم کی اپیل کردی، جرائم کے اعتراف کی نئی ویڈیو جاری


    ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق بھارت کی جانب سے پاکستان کو107 ماہی گیروں اور85 شہریوں تک قونصلر رسائی تاحال نہیں دی گئی۔

    واضح رہےکہ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نےکہاکہ پاکستانی مریضوں کے میڈیکل ویزوں پر شرائط عائد کرنا بھارت کے انسانی ہمدردی کے دعووں کی نفی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

  • تھر: عدالت کے حکم پر زنجیروں سے بندھی خاتون بازیاب

    تھر: عدالت کے حکم پر زنجیروں سے بندھی خاتون بازیاب

    تھر پارکر: صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں پولیس نے سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گاؤں مبارک رند میں کارروائی کرتے ہوئے رنجیروں میں قید پٹھانی بھیل نامی خاتون کو بازیاب کرلیا۔ خاتون کو کل عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق زنجیروں میں جکڑی خاتون کو ایک ماہ بعد رہائی مل گئی۔ تھر پارکر کے گوٹھ مبارک رند میں پولیس نے سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر کارروائی کرتے ہوئے زبردستی قیدی بنائی گئی پٹھانی بھیل کو بازیاب کرلیا۔

    پولیس کے مطابق خاتون کو مقامی وڈیرے کے ڈیرے پر زنجیریں ڈال کر رکھا گیا تھا۔ چھاپے کے دوران ڈیرے میں موجود مسلح افراد نے پولیس پر فائرنگ کردی، جوابی فائرنگ کے بعد ملزمان فرار ہوگئے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کو پلاٹ کے معاملے پر اغوا کیا گیا تھا اور اس کے اہل خانہ نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔