Tag: قیدی

  • گوانتا نامو جیل کے بعد: دکھ اور اذیت ناک یادوں کی داستان

    گوانتا نامو جیل کے بعد: دکھ اور اذیت ناک یادوں کی داستان

    کابل: ان 2 افغان دوستوں نے بدترین اور اذیت ناک مظالم کے حوالے سے جانی جانے والی بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتا نامو میں ایک ساتھ دن گزارے، ایک جیسے مظالم سہے، ایک جیسی اذیتوں سے گزرے، لیکن رہائی کے بعد دونوں نے الگ الگ انتہاؤں پر واقع دو مختلف راستے چنے۔

    ایک دوست نے داعش میں شمولیت اختیار کرلی، جبکہ دوسرا امریکی سرپرستی میں سرگرم اس افغان فوج میں شامل ہوگیا جو شدت پسندوں کی سرکوبی کے لیے برسر پیکار ہے۔

    یہ کہانی حاجی غالب اور عبد الرحیم مسلم دوست نامی دو دوستوں کی ہے۔ 5 سال تک گوانتا نامو میں قید رہنے والا حاجی غالب بھیگی آنکھوں کے ساتھ کہتا ہے، ’گوانتا نامو اس زمین پر بدترین جگہ ہے‘۔

    وہ کہتا ہے، ’ہر روز میں اپنے آپ سے وہی سوالات بار بار پوچھتا ہوں، مجھے کیوں قید کیا گیا تھا؟ میری زندگی کے 5 قیمتی سال کیوں برباد کیے گئے؟ کیا اس کا کوئی انصاف، کوئی کفارہ ہوسکتا ہے‘؟

    مزید پڑھیں: افغان قیدی خواتین کی دردناک داستان

    سنہ 2003 تک غالب افغان پولیس میں اپنی خدمات سر انجام دے رہا تھا۔ وہ ایک طالبان دشمن کمانڈر کے طور پر مشہور تھا۔ پھر اچانک اس پر کچھ مشکوک سرگرمیوں اور باغیوں سے رابطوں کا الزام لگایا گیا۔

    افغان حکام نے نہایت ذلت آمیز طریقے سے غالب کو اس کی نوکری سے برخاست کیا، اس کا یونیفارم سر عام پھاڑ کر اتارا گیا اور بعد ازاں اسے گوانتا نامو بھیج دیا گیا۔ سال پر سال گزرتے گئے، یہاں تک کہ سنہ 2007 میں امریکی فوج کو یقین ہوگیا کہ غالب کا طالبان یا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں۔

    afghan-2

    جب وہ آزاد فضا میں واپس آیا تو منتقم جذبات کے ساتھ اس نے ان کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا جو اس کی اصل بربادی کے ذمہ دار تھے، یعنی طالبان اور داعش۔ اس کی غیر موجودگی میں داعش نامی عفریت بھی افغانستان میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہا تھا۔

    غالب کو پتہ چلا کہ 2 سال قبل رہا کیا جانے والا اس کا دوست عبد الرحیم اب افغان صوبے ننگر ہار میں داعش کا اعلیٰ عہدے دار تھا۔

    عبد الرحیم کے ساتھ گوانتا نامو میں گزارے گئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے غالب بتاتا ہے، ’عبد الرحیم میں خداد قائدانہ صلاحیتیں موجود تھیں۔ قید کے دوران اس کا زیادہ تر وقت عبادت کرتے ہوئے اور قیدیوں کو جہاد کی تعلیم دیتے ہوئے گزرتا تھا۔ اس کا وعظ سن کر قیدی زار زار روتے تھے‘۔

    مزید پڑھیں: داعش کے ظلم کا شکار عراقی خاتون اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر

    غالب کے مطابق عبد الرحیم شاعر بھی تھا۔ جیل میں لکھنے کے لیے کوئی شے میسر نہیں تھی، لہٰذا عبد الرحیم چائے کے کپوں پر اپنے اشعار لکھا کرتا تھا۔

    عبد الرحیم جیسے اور بھی کئی قیدی تھے جو شاعری کیا کرتے تھے۔ ایک امریکی پروفیسر مارک فالکوف نے ان کی شاعری کو جمع کر کے ایک کتاب ’پویمز آف گوانتا نامو‘ بھی ترتیب دی۔

    اس کتاب میں عبد الرحیم کا ایک شعر درج ہے، ’غور کرو! کوئی شخص اپنے آپ کو یا کسی دوسرے کو مارنے پر کیوں مجبور ہوتا ہے؟ کیا جبر، جبر کرنے والے کے خلاف انتقام پر مجبور نہیں کرتا‘؟

    غالب کا ایک اور عزیز اس کے ساتھ گوانتا نامو میں قید تھا۔ وہاں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اب وہ اپنے آبائی پیشے زراعت کی طرف لوٹ چکا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’گوانتا نامو دہشت گردی کی کیاری ہے۔ یہ عبدالرحیم جیسے جنونیوں کے جنون کے مہمیز کرنے اور انہیں منطقی بنانے کا سبب بنتی ہے‘۔

    گوانتا نامو کے بے گناہ قیدی

    سنہ 2002 میں قائم کیے جانے والے اس قید خانے میں نصف سے زائد قیدی افغان ہیں۔ ان قیدیوں پر غیر انسانی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ان میں سے اکثر کسی غلط فہمی یا محض شک کی بنا پر اٹھائے گئے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جن کے دیرینہ دشمنوں نے ذاتی دشمنی کی بنا پر حکام کو گمراہ کن معلومات فراہم کیں کہ ان کا طالبان سے رابطہ ہے۔

    گو سابق صدر بارک اوباما نے گوانتا نامو کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم موجودہ صدر ٹرمپ ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، بلکہ وہ اس جیل خانے میں مزید توسیع کر کے اس میں نئے قیدی بھرنا چاہتے ہیں۔

    غالب کہتے ہیں، ’امریکا بے شک گوانتا نامو جیل کو ایک ضرورت سمجھتا ہو، لیکن اسے محب وطن افراد اور شدت پسندوں کے درمیان فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ہر افغان محب وطن اپنے ملک میں غیر ملکی مداخلت کو ناپسند کرتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ وہ دہشت گردی کی بھی حمایت کرتا ہو‘۔

    afghan-3

    خود غالب بھی طالبان سے سخت نفرت کرتا ہے اور وہ ان کے خلاف لڑنے والی ہر طاقت کا ساتھ دینے کو تیار ہے۔ لیکن اس عزم کی اسے نہایت المناک قیمت چکانی پڑی۔

    سنہ 2013 میں طالبان نے اس کے بھائی کو اس وقت قتل کردیا جب وہ صوبہ ننگر ہار میں ایک ہائی وے پروجیکٹ کی نگرانی پر معمور تھا۔ اس کے صرف چند ہفتوں بعد جب ایک دن اس کا خاندان اس کے بھائی کی قبر پر جمع تھا، طالبان کی جانب سے وہاں نصب کیا ہوا بم پھٹ گیا جس میں غالب کی 2 بیویوں سمیت اس کے خاندان کے 18 افراد مارے گئے۔

    وہ کہتا ہے، ’عبدالرحیم اور اس جیسے افراد غیر ملکیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، لیکن وہ افغانیوں کو ہی ختم کر رہے ہیں۔ میرا جب بھی اس سے سامنا ہوگا، میں اسے زندہ نہیں جانے دوں گا‘۔

  • ہیٹی میں جیل سے174قیدی فرار

    ہیٹی میں جیل سے174قیدی فرار

    پورٹ او پرنس: ہیٹی حکومت کا کہنا ہے کہ دارالحکومت پورٹ او پرنس سے 45 کلو میٹر مسافت پر واقع جیل سے 174 قیدی فرار ہو گئے۔

    تفصیلات کےمطابق ہیٹی حکام کا کہنا ہے کہ ان قیدیوں نے جیل سے فرار ہونے سے پہلےاسلحہ چرایا اور فائرنگ کرکے ایک سیکورٹی اہلکار کو ہلاک کردیاجبکہ جوابی فائرنگ میں ایک قیدی بھی مارا گیا۔

    h1

    ہیٹی حکومت کےمطابق جیل سے فرار ہونے والے قیدیوں کی تلاش کا کام اقوم متحدہ کے امن اہلکاروں کے تعاون سے جاری ہے اور بہت جلد مفرور قیدی پولیس کی گرفت میں ہوں گیں۔

    h2

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر حکومت نے اپنے پیغام میں قیدیوں کے جیل سے فرارہونے کی مذمت کی ہے۔

    h3

    وزیر انصاف کیملے ایڈورڈ جونیئر کا کہناہےکہ ایک اہلکار واقعے کے دوران مارا گیا جبکہ تین قیدی زخمی ہوئے جن میں سے ایک زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ فرار ہونے والے قیدیوں میں سے گیارہ کودوبارہ گرفتار کیا جاچکا ہے۔

    h4

  • برازیل:جیل میں 2 گروپوں میں تصادم،25 قیدی ہلاک

    برازیل:جیل میں 2 گروپوں میں تصادم،25 قیدی ہلاک

    برازیلیا: برازیل کی شمالی ریاست رورائما کی جیل میں 2 گروپوں میں تصادم کے نتیجے میں 25 قیدی ہلاک ہو گئے۔

    تفصیلات کےمطابق برازیل کی شمالی ریاست رورائما کے علاقے بواوسٹا کی جیل میں قیدیوں کے دوگروپوں میں جھڑپ کےنتیجے میں 25قیدی جان کی بازی ہار گئے۔

    برازیل پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 6 افراد کو گلا کاٹ کر ہلاک کیا گیا جبکہ 6 کو زندہ جلا کر مارا گیا۔

    قیدیوں کی لڑائی کے باعث ملاقات کے لیے آئے ہوئے افراد بھی محصور ہو کر رہ گئے جنہیں پولیس نے بحفاظت باہر نکالا اور حالات پر قابو پالیا۔مقامی میڈیا کے مطابق مقامی میڈیا کے مطابق740 افراد کے لیے بنائی گئی جیل میں اس وقت 1400 قیدی موجود ہیں۔

    واضح رہے کہ برازیل دنیا میں چوتھے نمبر پر آتا ہے جہاں تقریباََ 6لاکھ افراد قیدی ہیں اور ملک میں متعدد ایسی جیل ہیں جہاں گنجائش سے زائد قیدیوں کورکھا گیا ہے

  • جرمنی میں دہشتگردی کےالزام میں گرفتارقیدی کی خودکشی

    جرمنی میں دہشتگردی کےالزام میں گرفتارقیدی کی خودکشی

    برلن : برلن ایئر پورٹ پر حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار قیدی نےلایپزیگ شہر کی جیل میں خودکشی کر لی۔

    تفصیلات کےمطابق جرمن حکام کاکہناہےکہ برلن ائیرپورٹ پردہشت گردی کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار جابر البکرنامی شامی شہری جیل کے سیل میں خودکشی کرلی۔چوبیس گھنٹےنگرانی میں موجود جابر البکربھوک ہڑتال پرتھا۔

    پولیس جبار کی کئی ماہ سے نگرانی کر رہی تھی اور انٹیلیجنس حکام کو ایسی اطلاعات ملی تھیں کہ وہ ممکنہ طور پر کسی حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جس پر حکام نے مشرقی ریاست زاکسن میں پولیس کو الرٹ کیاتھا۔

    خیال رہے کہ ہفتے کے روز جابر البکرکی گرفتاری کےلیےاس کےفلیٹ پرچھاپہ ماراگیا تھا جہاں سے 1.5 کلوگرام گھریلو سطح پر تیار کیے جانے والا دھماکہ خیز مواد ملا تاہم وہ فرارہونے میں کامیاب ہوگیا تھا پیر کے روز جابرکو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ بائیس سالہ شامی پناہ گزین جابرالبکرکوگزشتہ سال جرمنی میں پناہ دی گئی تھی۔

  • سرگودھا: قیدی کی ہلاکت،جیل انتظامیہ کیخلاف ورثاء کا احتجاج

    سرگودھا: قیدی کی ہلاکت،جیل انتظامیہ کیخلاف ورثاء کا احتجاج

    سرگودھا :ڈسٹرکٹ جیل سرگودھامیں مبینہ تشددسے جاں بحق ہونے والے قیدی کے ورثاء نے سڑک بلاک کرکےجیل انتظامیہ کیخلاف احتجاج اور نعرے بازی کی۔ ڈکیتی کے جرم میں ڈسٹرکٹ جیل سرگودھامیں قید محمدعمران کوگزشتہ روز تشویش ناک حالت میں سول ہسپتال ایمرجنسی لایاگیاتھاجہاں کئی گھنٹے موت وزندگی کی کشمکش میں رہنے کے بعدوہ جاں بحق ہوگیا۔

    آج قیدی محمدعمران کے ورثاء نے مرحوم کی تدفین کے بعد احتجاج کرتے ہوئے ٹائروں کو نذرآتش کرکےروڈبلاک کردیا۔اس موقع پر لواحقین نے سینہ کوبی کرتے ہوئے جیل انتظامیہ کے خلاف شدیدنعرہ بازی کی ۔مظاہرین نے الزام لگایاکہ محمدعمران اپنی سزامکمل کرچکاتھا لیکن اس کوجیل انتظامیہ نے تشددکرکے ہلاک کیااور اب چھت سے گرنے کا ڈرامہ رچایاجارہاہے۔

    انہوں نے مزیدکہاکہ متوفی کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات موجودتھے ۔ انہوں نے وزیراعظم میاں نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف سے ہونے والے ظلم پرانصاف فراہم کرنے اور جیل انتظامیہ کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔