Tag: قید

  • بحرین، دہشتگردی کے الزامات میں 138 افراد کو قید کی سزائیں، شہریت منسوخ

    بحرین، دہشتگردی کے الزامات میں 138 افراد کو قید کی سزائیں، شہریت منسوخ

    منامہ : بحرینی عدالت نے پاسداران انقلاب کے ہمراہ دہشت گرد گروپ تشکیل دینے اور دہشتگردانہ کارروائیوں کی سازش کرنے کے الزام میں 138 افراد کو 3 سال سے عمر قید تک کی سزا سنادی۔

    تفصیلات کے مطابق بحرین میں ایک عدالت نے 138 افراد کو ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب کے ساتھ مل کر ایک دہشت گرد گروپ تشکیل دینے اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی سازش کے الزامات میں قصور وار دے کر قید کی سزا سنائی ہیں اور ان سب کی شہریت منسوخ کرنے کا حکم دیا ہے۔

    بحرین کے ایڈووکیٹ جنرل احمد الحمادی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان ملزموں نے لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے طرز پر بحرین میں بھی حزب اللہ کے نام سے ایک دہشت گرد گروپ تشکیل دینے کی کوشش کی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ان 138 افراد میں سے 69 کو دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوّث ہونے کے الزامات میں عمر قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

    پبلک پراسیکیوشن کے بیان کے مطابق پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر کو نظامتِ عامہ برائے تفتیش ِ جرائم کی جانب سے بحرین میں دہشت گردی کے ایک سیل کے قیام سے متعلق رپورٹ موصول ہوئی تھی۔

    یہ سیل ایرانی رجیم کے لیڈروں نے قائم کیا تھا اور وہ سپاہ پاسداران انقلاب کے عناصر کو بحرینی حزب اللہ نامی اس گروہ کی تشکیل کے لیے دہشت گردوں کو لاجسٹیکل اسپورٹ مہیا کرنے کی ہدایات جاری کرتے تھے۔

    بحرین میں اس سے قبل بھی پاسداران انقلاب ایران سے تعلق یا ان سے تربیت حاصل کرنے کے الزامات میں متعدد افراد کو قید و جرمانے کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں، ایک فوجداری عدالت نے چند ماہ قبل کالعدم قرار دیے گئے ایک دہشت گرد گروپ فروری 14 اتحاد سے تعلق کے الزام میں تین افراد کو تین سال سے عمر قید تک جیل کی سزائیں سنائی تھیں۔

    استغاثہ کے مطابق ان میں ایک مدعا علیہ کا تعلق دہشت گرد تنظیم سریّہ المختار سے تھا، اس نے دوسرے دو مدعا علیہان کو بحرین کے علاقے بری میں دہشت گردی کی کارروائیوں اور بلووُں کے لیے بھرتی کیا تھا اور اس کو دھماکا خیز مواد سے عوامی مقامات پر حملوں کی تربیت دی تھی۔

  • جو لوگ دیوار بنا رہے وہ دیوارکے اندر ہی قید ہوجائیں گے، پوپ فرانسس

    جو لوگ دیوار بنا رہے وہ دیوارکے اندر ہی قید ہوجائیں گے، پوپ فرانسس

    ویٹی کن سٹی : پوپ فرانسس نے تارکین وطن کے ساتھ ناروا سلوک کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپ امریکا تارکین وطن سے آباد ہوا آج انہیں روکا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مسیحی برادری کے رومن کیتھولک فرقے کے سربراہ پوپ فرانسس نے تارکین وطن کے معاملے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو لوگ دیوار بنا رہے ہیں وہ دیوار کے اندر ہی قید ہوجائیں گے۔

    پوپ فرانسس کا کہنا تھا کہ حضرت عیسیٰ بھی مہاجر تھے، ہم سب مہاجر ہیں۔

    پوپ فرانسس نے مشرق وسطیٰ میں بچوں کی موت کا ذمہ یورپ اور امریکا دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان، شام اور یمن میں معصوم بچے امریکا اور یورپ کی وجہ سے مر رہے ہیں۔

    مسیحی پیشوا کا کہنا تھا کہ اگر یہ امیر ممالک جنگ کےلیے ہتھیار ہی فراہم کریں تو معصوم لوگوں اور بچوں جانیں بچ سکتی ہیں۔

    [bs-quote quote=”حضرت عیسیٰ بھی مہاجر تھے، ہم سب مہاجر ہیں۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”پوپ فرانسس” author_job=”مذہبی پیشوا مسیحی برادری” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2019/04/pope-francis-60×60.jpg”][/bs-quote]

    خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے میکسیکو کی سرحد سے غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والی تارکین وطن کو روکنے کےلیے امریکا اور میکسیکو کے درمیان واقع سرحد پر دیوار تعمیر کروا رہے ہیں۔

    امریکی صدر میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کےلیے کانگریس سے فنڈ جاری کروانے کےلیے ملک میں امریکی تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن بھی کروایا تھا جبکہ ایمرجنسی نافذ کرکے فنڈ جاری کرنے کی بھی دھمکی دی تھی۔

    یاد رہے کہ مارچ کے اختتام میں دورہ مراکش کے دوران پوپ فرانسس نے جنونیت کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں مستقبل کے لیے مذہبی رہ نما اصولوں کی مناسب تیاری کی ضرورت ہے۔

    پوپ فرانسس نے ضمیر کی آزادی اور مذہبی آزادی کا انسانی وقار کے بنیادی حق کے طور پر دفاع کیا ہے۔

    مسیحوں کے روحانی پیشوا نے مختلف عقیدوں کے پیروکاروں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ باہمی بھائی چارے کے ساتھ مل جل کر رہیں۔

  • شاہ سلمان کا جرمانوں کی عدم ادائیگی کے باعث قید تمام قیدیوں کی رہائی کا حکم

    شاہ سلمان کا جرمانوں کی عدم ادائیگی کے باعث قید تمام قیدیوں کی رہائی کا حکم

    ریاض : شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مشرقی علاقے کے دورے کے دوران جرمانوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے قید تمام افراد کی فوری رہائی کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق حقوق سے متعلق کیسز کے تحت قید ان تمام قیدیوں کے جرمانے حکومت کی طرف سے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو جرمانوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے قید ہیں۔

    شاہ سلمان کی ہدایت پر فوج داری کیسز کے علاوہ دیگر عمومی نوعیت کے کیسز کے تحت جیل میں قید ایسے قیدیوں جن کے ذمہ ایک ملین ریال یا اس سے کم رقم کی جرمانہ کی ادائیگی باقی ہے کو رہا کرنے کا حکم دیا گیا۔

    خیال رہے کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کل سوموار کو تیونس کےدورے سے واپس سعودی عرب کے مشرقی علاقے میں پہنچے تھے۔

    الظہران کے شاہ عبدالعزیز ہوائی اڈےپر مشرقی علاقے کے گورنر شہزادہ سعود بن نایف اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

    مزید پڑھیں : سعودی عرب میں قیدیوں کو جسمانی و ذہنی تشدد کا سامنا، برطانوی میڈیا

    یاد رہے کہ برطانوی خبر رساں ادارے دی گارجین نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب کے حکام شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیے گئے دو سو سے زائد افرادکی گرفتاری کے حکم نامے کا جائزہ لینے کا حکم بھی دیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی جیلوں میں قید افراد کو جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنانے کے طبی معائنے کی رپورٹ شاہ سلمان کو پیش کی جائے گی۔

    برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ رپورٹ دیکھنے کے بعد امکان ہے کہ شاہ سلمان جسمانی تشدد کا نشانہ بنائے جانے والے قیدیوں کی رہائی کا حکم دے دیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ جسمانی و ذہنی تشدد کا شکار 60 سے زائد قیدیوں کے طبی معائنے کا حکم شاہ سلمان کی جانب سے دیا گیا تھا۔

  • داعش کی حمایت، اردن کے11 شہریوں کو پانچ سال کی سزا

    داعش کی حمایت، اردن کے11 شہریوں کو پانچ سال کی سزا

    عمان: ادرن کی فوج داری عدالت نے دہشت گرد تنظیم داعش کی حمایت میں 11 اردنی شہریوں کو پانچ سال قید کی سزا سنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق اردن کی ایک فوج داری عدالت نے داعش کی حمایت کے الزام میں 11 اردنی باشندوں کو پانچ سال قید کی سزا سنا دی۔

    غیرملکی خبر رساں اداروں کے مطابق ملزمان میں تین مختلف جامعات کے طلباء شامل ہیں۔ انہیں داعش کی حمایت کی پاداش میں دو سے پانچ سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔

    ملزمان پر سوشل میڈیا پر دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اورفیس بک کے ذریعے داعش کی حمایت میں پروپگنڈہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ تمام ملزمان کی عمریں بیس اور تیس سال کے درمیان ہیں۔

    فوج داری عدالت کی جانب سے ملزمان کو یہ سزائیں سوشل میڈیا پر ان کی طرف سے پوسٹ کردہ بیانات اور مواد کی بنیاد پر سنائی گئی ہیں۔

    عدالت میں زیرسماعت دہشت گردی کے کیس میں زیادہ تر ملزمان پر النصرہ فرنٹ، داعش اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی حمایت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

    امارات میں داعش کے ’کی بورڈ جہادی‘ کو پانچ سال قید، دس لاکھ درہم جرمانہ

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے متحدہ عرب عمارات کی عدالت نے سوشل میڈیا پر شدت پسندی کی ترغیب دینے والے دو افراد کو سائبر کرائم کے قوانین کے تحت قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

  • سعودیہ میں قید انسانی حقوق کی علمبردار تین خواتین عارضی طور پر رہا

    سعودیہ میں قید انسانی حقوق کی علمبردار تین خواتین عارضی طور پر رہا

    ریاض : سعودی حکام نے انسانی حقوق کی علمبردار اور حقوق نسواں کیلئے جدوجہد کرنے والی تین خواتین رضاکاروں کو عارضی طور پر رہا کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے انسانی حقوق کی علمبردار متعدد خواتین رضاکاروں کو ایک برس قبل سعودی حکومت کے خلاف اور خواتین کی آزادی کےلیے آواز اٹھانے پر گرفتار کیا تھا جن میں سے تین رضاکار خواتین کو عدالت نے عارضی طور پر رہا کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی حکام کی جانب سے اتوار تک مزید خواتین کی رہائی متوقع ہے، جنہیں غیر ملکیوں سے رابطوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

    برطانیہ کی غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی سعودی تنظیم اے ایل کیو ایس ٹی کا کہنا ہے کہ رہائی پانے والی خواتین میں ایمان الفجان، عزیزہ یوسف اور رقیہ المحارب شامل ہیں۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ترجمان لین مالوف نے خواتین رضاکاروں کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ رہائی مستقل ہونی چاہیے کیونکہ ان خواتین کو حقوق نسواں کے لیے آواز اٹھانے کے جرم میں قید کیا گیا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ خواتین صرف پُر طریقوں سے حقوق نسواں کےلیے جدوجہد کررہی تھیں جس کی پاداش میں انہیں اپنے عزیزوں سے دور کرکے ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ترجمان نے سعودی حکام سے مطالبہ کیا کہ رہائی پانے والی اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی دیگر خواتین پر عائد الزامات ختم کرکے انہیں بھی غیر مشروط رہائی دے۔

    خیال رہے کہ انسانی حقوق اور حقوق نسواں کےلیے کوششیں کرنے والی گیارہ خواتین کو گزشتہ برس جون میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی تھی۔

    مزید پڑھیں : سعودیہ میں‌ قید خواتین رضاکار ایک مرتبہ پھر عدالت میں پیش

    یاد رہے کہ کچھ ماہ قبل برطانیہ کی انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب سے متعلق اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی عرب کے صوبے جدہ کی دھابن جیل میں قید انسانی حقوق کی عملبردار خواتین کو دوران تفتیش جنسی زیادتی، تشدد اور دیگر ہولناک زیادتیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں : سعودیہ میں قید خواتین رضاکاروں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

    ایمنسٹی انٹرنینشل نے اپنی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گرفتار خواتین رضاکاروں کو دوران تفتیش بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور اس قدر کوڑے مارے گئے ہیں کہ متاثرہ خواتین کھڑی ہونے کے بھی قابل نہیں رہیں۔

    جاری رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ تفتیش کاروں نے کم از کم 10 خواتین کو ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تفتیش کاروں نے جبراً ایک دوسرے کو بوسہ دینے پر مجبور کیا گیا۔

  • سعودیہ میں‌ قید خواتین رضاکار ایک مرتبہ پھر عدالت میں پیش

    سعودیہ میں‌ قید خواتین رضاکار ایک مرتبہ پھر عدالت میں پیش

    ریاض : سعودی حکام نے انسانی حقوق کے لیے سماجی خدمات انجام دینے والی 10 خواتین رضاکاروں کو تقریباً ایک سال قید میں رکھنے کے بعد آج دوسری مرتبہ عدالت میں پیش کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے انسانی حقوق کی علمبردار متعدد خواتین رضاکاروں کو ایک برس قبل سعودی حکومت کے خلاف اور خواتین کی آزادی کےلیے آواز اٹھانے پر گرفتار کیا تھا جن میں سے دس رضاکار خواتین کو آج مقدمات کی سماعت کےلیے دوسری مرتبہ عدالت میں پیش کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ عدالت میں پیش کی گئی خواتین میں لجین الھذلول، بلاگر ایمان النفجان اور یونیورسٹی پروفیسر ھنون الفاسی شامل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اگر استغاثہ نے مذکورہ خواتین پر عائد الزامات ثابت کردئیے تو انسانی حقوق کے لیے خدمات انجام دینے والی رضاکاروں کو پانچ پانچ برس قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ گرفتار خواتین کو سعودی عرب کی کرمنل کورٹ میں پیش کیا گیا، حکام نے عدالت میں غیر ملکی سفیروں اور صحافیوں کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی تاہم مذکورہ خواتین کے اہلخانہ کو عدالت میں آنے کی اجازت تھی۔

    خیال رہے کہ کچھ ماہ قبل برطانیہ کی انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب سے متعلق اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی عرب کے صوبے جدہ کی دھابن جیل میں قید انسانی حقوق کی عملبردار خواتین کو دوران تفتیش جنسی زیادتی، تشدد اور دیگر ہولناک زیادتیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں : سعودیہ میں قید خواتین رضاکاروں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

    ایمنسٹی انٹرنینشل نے اپنی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گرفتار خواتین رضاکاروں کو دوران تفتیش بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور اس قدر کوڑے مارے گئے ہیں کہ متاثرہ خواتین کھڑی ہونے کے بھی قابل نہیں رہیں۔

    جاری رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ تفتیش کاروں نے کم از کم 10 خواتین کو ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تفتیش کاروں نے جبراً ایک دوسرے کو بوسہ دینے پر مجبور کیا گیا۔

  • کمسن بچے سے زیادتی کی کوشش، پاکستانی شہری کو قید کی سزا

    کمسن بچے سے زیادتی کی کوشش، پاکستانی شہری کو قید کی سزا

    دبئی : اماراتی عدالت نے پاکستانی شہری کو کمسن بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کرنے کے جرم میں تین ماہ قید کی سزا سنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب اماراتی کی ریاست دبئی کی عدالت نے ہراسگی کیس کی سماعت کرتے ہوئے 30 سالہ ملزم کو ایلیوٹر کے اندر 13 سالہ عرب شہری کے ساتھ بد فعلی کی کوشش کے جرم میں سزا سنائی ہے۔

    پبلک پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ بے روز گار پاکستانی شہری کے خلاف گزشتہ برس الراشدیہ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروائی گئی تھی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ بے روز گار پاکستانی شہری نے پہلے عمارت کے باہر 13 سالہ لڑکے کو چھوا اور اس کے بعد متاثرہ بچے کا تعقب شروع کردیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ جیسے ہی متاثرہ بچہ لفٹ میں سوار ہوا ملزم بھی لفٹ میں داخل ہوگیا اور تنہائی کا فائدہ اٹھا کر دوبارہ لڑکے کو جنسی طور پر ہراساں کرنا شروع کردیا۔

    پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے لفٹ کے اندر متعدد دفعہ عرب شہری لڑکے کو دبوچا جس کے بعد بچہ بے حواسی کے عالم میں بھاگتا ہوا اپنے والدین کے پاس گیا اور تمام واقعہ سنایا جس کے بعد انہوں نے پولیس میں شکایت درج کروائی۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ملزم نے پہلی سماعت کے دوران خود پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ میں حجام کے پاس جارہا تو میں نے ایک بچے کو پریشانی کے عالم میں تنہا بیھٹے ہوئے دیکھا تو دوستانہ انداز دبوچتے ہوئے پریشانی کی وجہ معلوم کی۔

    خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ عدلت نے ملزم پر جرم ثابت ہونے کے بعد پاکستانی شہری کو تین قید اور ملک بدری کی سزا سنادی۔

  • سعودیہ میں‌ قید خواتین رضاکاروں کی پہلی مرتبہ عدالت میں پیشی

    سعودیہ میں‌ قید خواتین رضاکاروں کی پہلی مرتبہ عدالت میں پیشی

    ریاض : سعودی حکام نے انسانی حقوق کےلیے سماجی خدمات انجام دینے والے دس خواتین کو ایک سال قید میں رکھنے کے بعد عدالت میں پیش کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے انسانی حقوق کی علمبردار متعدد خواتین کو ایک برس قبل سعودی حکومت کے خلاف اور خواتین کی آزادی کےلیے آواز اٹھانے پر گرفتار کیا تھا جن میں سے دس رضاکار خواتین کو گزشتہ روز عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ گرفتار خواتین کو سعودی عرب کی کرمنل کورٹ میں پیش کیا گیا، حکام نے عدالت میں غیر ملکی سفیروں اور صحافیوں کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی تاہم مذکورہ خواتین کے اہلخانہ کو عدالت میں آنے کی اجازت تھی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ کرمنل کورٹ میں پیش کی گئیں خواتین رضاکاروں میں لجین الھذلول اور عزیزہ الیوسف سمیت دس خواتین شامل تھیں۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ کا کہنا ہے کہ مذکورہ خواتین کو طویل عرصے سے قید میں رکھا ہوا تھا لیکن ان پر کوئی مقدمہ چلایا جارہا ہے اور نہ ہی نہیں کسی وکیل تک رسائی کا حق حاصل ہے۔

    خیال رہے کہ کچھ ماہ قبل برطانیہ کی انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب سے متعلق اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی عرب کے صوبے جدہ کی دھابن جیل میں قید انسانی حقوق کی عملبردار خواتین کو دوران تفتیش جنسی زیادتی، تشدد اور دیگر ہولناک زیادتیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    سعودیہ میں قید خواتین رضاکاروں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

    ایمنسٹی انٹرنینشل نے اپنی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گرفتار خواتین رضاکاروں کو دوران تفتیش بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور اس قدر کوڑے مارے گئے ہیں کہ متاثرہ خواتین کھڑی ہونے کے بھی قابل نہیں رہیں۔

    جاری رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ تفتیش کاروں نے کم از کم 10 خواتین کو ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تفتیش کاروں نے جبراً ایک دوسرے کو بوسہ دینے پر مجبور کیا گیا۔

  • اسرائیلی جیل میں قید بیمار فلسطینی بہیمانہ تشدد سے جاں‌ بحق

    اسرائیلی جیل میں قید بیمار فلسطینی بہیمانہ تشدد سے جاں‌ بحق

    یروشلم : اسرائیلی جیل میں قید 51 سالہ فلسطینی شہری انسان سوز مظالم اور بیماری کے دوران جیل حکام کی مجرمانہ غفلت کے باعث جان کی بازی ہار گیا۔

    تفصیلات کے مطابق غزہ کی ساحلی پٹی پر واقع پناہ گزین کیمپ سے تعلق رکھنے والا فلسطینی شہری فارس کو28 برس قبل اسرائیلی فوجیوں نے جیل منتقل کیا تھا، اسرائیلی درندے گزشتہ 28 برسوں سے فارس کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنارہے تھے۔

    فلسطینی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ شہید شہری غیر انسانی سلوک اور تشدد کے باعث شدید علیل ہوچکا ہوگیا تھا لیکن اسرائیلی فوجیوں نے بیماری میں ہی غیر انسانی سلوک اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جس کے باعث اس کی حالت غیر ہوگئی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز اسرائیلیوں نے 51 سالہ فلسطینی قیدی کو انتہائی تشویش ناک حالت میں استپال منتقل کیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکا۔

    فلسطینی محمکہ امور اسیران کا کہنا ہے کہ فارس بارود کی اسرائیلی جیل میں شہادت کی اصل وجہ تاحال واضح نہیں ہوسکی ہے لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف ہے کہ فلسطینی شہری اسرائیلی ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت کے باعث شہید ہوا۔

    فلسطینی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ شہید فلسطینی شہری کو سنہ 1991 میں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی شہری کے مبینہ قتل کے الزام گرفتار کیا گیا تھا، اسرائیلی نے عدالت نے فارس کو اسرائیلی شہری کو ہلاک کرنے کے جرم میں تاحیات قید کی سزا سنائی تھی۔

    فلسطینی محکمہ امور اسیران کے ترجمان ناہید الفخوری کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام نے فارس بارود کے اہل خانہ کو گزشتہ 18 برسوں سے فلسطینی شہری سے ملاقات بھی نہیں کرنے کی دی تھی۔

    فلسطینی حکام کے مطابق 7 ہزار بے گناہ فلسطینی شہری مختلف اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں جبکہ 400 فلسطینی اسیر ایسے ہیں جنہیں بغیر عدالتی کارروائی کے جیلوں میں قید رکھا گیا ہے ان میں کچھ فلسطینی گزشتہ 11 برس سے قید و بند کی صعبتیں برداشت کررہے ہیں۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں پابند سلاسل 7 ہزار قیدیوں میں سے 1500 مریض جبکہ 18 فلسطینی بیماریوں کے باعث الرملہ جیل اسپتال میں زیرعلاج ہیں۔

  • غیر قانونی قید خانوں میں افغان خواتین کی دردناک حالت زار

    غیر قانونی قید خانوں میں افغان خواتین کی دردناک حالت زار

    افغانستان جیسے ملک میں جہاں شاید خواتین سانس بھی اپنے مردوں سے پوچھ کر لیتی ہوں گی، کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ وہاں خواتین جرائم میں بھی ملوث ہوسکتی ہیں؟ اور آپ کے خیال میں ایسی خواتین کو کیا سزا دی جاتی ہے؟

    افغانستان میں کسی بھی قسم کے جرم میں ملوث خاتون کو بطور سزا کسی قبائلی سردار کے گھر بھیج دیا جاتا ہے، جہاں وہ اس کے گھر والوں کی بلا معاوضہ خدمت کرتی ہے۔ یہی نہیں، گھر کے مردوں کی جانب سے کیا جانے والا جنسی و جسمانی تشدد بھی ان کی ’سزا‘ کا حصہ ہوتا ہے۔

    ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں مجرم قرار دی جانے والی 95 فیصد لڑکیاں اور 50 فیصد خواتین اخلاقی جرائم میں ملوث ہوتی ہیں۔ خواتین کے بنیادی حقوق سلب کرنے والے ان ’اخلاقی جرائم‘ کی کیا تعریف پیش کرتے ہیں؟ آئیے آپ بھی جانیں۔

    وہ خواتین جو گھر سے بھاگ جائیں، جو زنا میں ملوث پائی جائیں، یا جو شادی شدہ ہوتے ہوئے کسی دوسرے مرد سے تعلقات رکھیں، اخلاقی مجرم قرار پاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    ان ہی اخلاقی جرائم میں ملوث ایک عورت فوزیہ بھی ہے جس نے اپنے نگرانوں کو رسوائی سے بچانے کے لیے اپنا نام غلط بتایا۔

    افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیکا کی رہائشی فوزیہ کو گھر سے بھاگنے اور زنا میں ملوث پائے جانے کے جرم میں سزا یافتہ قرار دیا گیا ہے۔ اسے مقامی عدالت نے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔

    مگر بہت جلد اسے علم ہوا کہ اسے حکومت کی جانب سے طے کردہ 18 ماہ کی سزا نہیں ملے گی، نہ ہی اسے سرکاری جیل میں بھیجا جائے گا۔ اس کے برعکس اسے ایک قبائلی سردار کے گھر بھیجا جائے گا جہاں اس کی حیثیت ایک غلام جیسی ہوگی۔

    قید کا آغاز ہونے کے بعد فوزیہ کی زندگی کا ایک درد ناک سفر شروع ہوا۔ فوزیہ کے لیے منتخب کیے گئے قبائلی سردار نے اسے اپنے گھر سے متصل ایک جھونپڑی میں قید کردیا۔ روز صبح اس قید خانے کا دروازہ کھولا جاتا ہے جس کے بعد فوزیہ سردار کے گھر کے کام کرتی ہے، صفائی کرتی ہے، اور کپڑے دھوتی ہے۔

    سورج غروب ہونے کے بعد اسے واپس اس کے قید خانے میں بھیج دیا جاتا ہے۔

    دبیز پردے سے اپنے چہرے کو چھپائے فوزیہ شاید خوف کے مارے یہ تو نہ بتا سکی کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے یا نہیں، تاہم وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کا راز کھول گئی۔

    مزید پڑھیں: داعش کے ظلم کا شکار عراقی خاتون اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر

    وہ بتاتی ہے، ’مجھے جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے اور مجھ سے زرخرید غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے‘۔

    وہ کہتی ہے، ’میری دعا ہے کہ جو کچھ میں نے قید کے دوران سہا ہے اور سہہ رہی ہوں، وہ کبھی کوئی اور عورت نہ سہے‘۔

    اسے سب سے زیادہ دکھ اپنے خاندان سے جدائی کا ہے، ’یہ کوئی عام قید خانہ نہیں جہاں کبھی کبھار آپ کی والدہ یا بہن آپ سے ملنے آسکیں، یا وہ آپ کے لیے کچھ لے کر آئیں۔ مجھے یہاں نہ صرف اپنے گھر والوں بلکہ ساری دنیا سے الگ تھلگ کردیا گیا ہے اور یہ میرے لیے بہت وحشت ناک بات ہے‘۔

    فوزیہ کا کیس صوبائی عدالت میں زیر سماعت ہے، اور اس سے قبل بھی انہیں جیل بھیجے جانے کا فیصلہ سنایا جا چکا ہے، اس کے باوجود انہیں قبائلی سردار بھیجنے کی وجہ کیا ہے؟


    سزا کے لیے ’غیر معمولی‘ قید خانے کیوں؟

    افغانستان کے طول و عرض پر واقع جیلیں گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ہیں جو عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے پہلے کی تنقید کی زد میں ہیں۔

    افغانستان کے ڈائریکٹر برائے جیل خانہ جات عالم کوہستانی کے مطابق حکومت کی جانب سے قائم باقاعدہ جیلوں میں صرف 850 کے قریب خواتین موجود ہیں جو اخلاقی جرائم، منشیات کے استعمال یا قتل میں ملوث ہیں۔

    ان میں وہ خواتین شامل نہیں جو غیر قانونی طریقہ سے قیدی بنائی گئی ہیں۔ ان میں ہزاروں خواتین شامل ہیں جو ملک بھر میں مختلف مقامات پر قید ہیں۔

    afghan-2

    دراصل افغان حکومت کی جانب سے طے کردہ قوانین اور سزائیں عموماً خواتین پر لاگو نہیں کی جاتیں، اور مقامی کونسلوں یا گاؤں کے سربراہ ہی مجرم خواتین کی سزا کا تعین کرتے ہیں۔ البتہ حکومت اپنے قوانین اور عدالتی نظام کو قبائلی علاقوں میں بھی نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

    امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق سے متعلق تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان کا رسمی قانونی نظام دیہی اور قبائلی علاقوں میں غیر مؤثر ہے اور یہاں یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

    یہاں ہونے والے تنازعوں کو نمٹانے کے لیے علاقہ کے معززین بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے ایسی سزائیں ایجاد کرلی ہیں جو افغانستان کے قوانین سے بالکل علیحدہ اور بعض اوقات متصادم ہیں۔

    پکتیکا میں کام کرنے والی ایک سماجی کارکن زلمے خروٹ کا کہنا ہے کہ قید کی جانے والی ان خواتین کو بدترین جنسی و جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان سے غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ دراصل ان کی حیثیت گھر کے سربراہ کی جائیداد جیسی ہے۔

    دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں صرف خواتین کے لیے مخصوص جیلیں یا قید خانے کم ہیں۔ افغان صوبہ پکتیکا میں جس کی سرحدیں پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بھی ملتی ہیں، خواتین کو رکھنے کے لیے کوئی جیل یا مناسب قید خانہ موجود نہیں۔

    مزید پڑھیں: مہاجر شامی خواتین کا بدترین استحصال جاری

    افغانستان کے صوبائی محکمہ برائے امور خواتین کی سربراہ بی بی حوا خوشیوال نے اس بارے میں بتایا کہ وہ کئی خواتین مجرموں کو قبائلی سرداروں یا خواتین پولیس اہلکاروں کے گھر بھیجتے ہیں۔ ’ہم مانتے ہیں کہ یہ قانونی نہیں، لیکن جگہ کی کمی کی وجہ سے ہم مجبور ہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ انہیں قبائلی سرداروں کی جانب سے خطوط بھیجے جاتے ہیں کہ وہ ان مجرم خواتین کو ان کے گھر بھیجیں۔ وہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ ان کے گھر میں خواتین سے کوئی ظالمانہ سلوک نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اکثر سردار اپنی بات سے پھر جاتے ہیں اور ان کے گھر جانے والی خواتین کا بری طرح استحصال ہوتا ہے۔

    بی بی حوا کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس صرف 16 خواتین مجرموں کے کیس مقامی و صوبائی عدالتوں میں بھیجے گئے۔ ان کے علاوہ ایسے درجنوں مقدمات، جو خواتین کے خلاف قائم کیے گئے، قبائلی سرداروں نے بالا ہی بالا خود ہی طے کر لیے۔ ان مقدمات میں خواتین مرکزی ملزم تھیں یا بطور سہولت کار ملوث تھیں۔

    اس بارے میں افغان ڈائریکٹر برائے جیل خانہ جات عالم کوہستانی کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی پوری کوشش کرتی ہے کہ ایسی خواتین جو کسی قسم کے مقدمات میں قبائلی سرداروں کے گھر قید ہیں، انہیں قانونی معاونت فراہم کی جائے۔ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ خواتین کے مقدمات کی وقت پر سماعت کی جائے (اگر ان کے سرپرست اس کی اجازت دیں)، اور سزا ملنے کی صورت میں ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہونے دی جائے۔


    کیا تمام خواتین اس صورتحال کا شکار ہیں؟

    افغانستان میں غیر قانونی طور پر قید کی گئی تمام خواتین کو اس صورتحال کا سامنا نہیں۔ کچھ خواتین کو قانونی معاونت بھی میسر آجاتی ہے، تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین کی تعداد بہت کم ہیں۔

    خواتین قیدیوں کی اکثریت ایسی ہے جو دوران قید بری طرح استحصال کا شکار ہوتی ہیں اور بعض دفعہ ان کی قید کی مدت مقرر کردہ مدت سے بھی تجاوز کردی جاتی ہے۔


    قبائلی سرداروں کا کیا کہنا ہے؟

    اس بارے میں جب ایک قبائلی سردار خلیل زردان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اسے اپنے قبیلے کے لیے ایک قابل فخر عمل قرار دیا۔ اپنی رائفل سے کھیلتے ہوئے اس نے کہا، ’میرا نہیں خیال کہ خواتین قیدیوں کو اپنے گھر میں رکھنے میں کوئی قباحت ہے۔ میرے گھر میں کبھی کسی خاتون قیدی کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا گیا‘۔

    سردار زردان کے گھر میں خواتین کے لیے باقاعدہ جیل قائم ہے اور اس کی دوسری بیوی اس کے گھر میں چلائی جانے والی جیل کی نگران ہے۔ سردار کا کہنا تھا، ’جب کسی عورت کو سزا یافتہ قرار دیا جاتا ہے تو پولیس چیف مجھے فون کر کے کہتا ہے کہ اگر میرے گھر میں جگہ ہے تو میں اس عورت کو اپنے گھر میں رکھ لوں‘۔ ’یہ کام میں اپنے قبیلے کی عزت کے لیے کرتا ہوں، میرے قبیلے کو جب اور جتنی ضرورت ہوگی، میں اتنی عورتیں اپنے گھر میں رکھ سکتا ہوں‘۔

    افغانستان میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں اور اداروں کا مشترکہ مشن یہ ہے کہ یہاں سب سے پہلے خواتین کو ان کے بنیادی حقوق واپس دلوائے جائیں۔ دیگر سہولیات کی بات بعد میں آتی ہے۔

    افغانستان کی فٹبال کی پہلی خواتین ٹیم کی کپتان خالدہ پوپل زئی اس بارے میں کہتی ہیں، ’افغانستان سے طالبان کا کنٹرول ختم ہوگیا ہے لیکن ان کی سوچ لوگوں میں سرائیت کر چکی ہے۔ یہ سوچ خواتین کو ان کے بنیادی حقوق بھی دینے سے روک دیتی ہے اور لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خواتین کو جانور سے بھی بدتر کوئی مخلوق سمجھیں‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔