Tag: لائبریری

  • ویڈیو رپورٹ: پشاور کا چائے خانہ نیا آئیڈیا لے کر آ گیا

    ویڈیو رپورٹ: پشاور کا چائے خانہ نیا آئیڈیا لے کر آ گیا

    ویڈیو رپورٹ: مدیحہ سنبل

    پشاور میں شہری نے چائے خانے میں لائبریری کھول لی، جہاں گرما گرم چائے کے ساتھ نوجوان کتابیں پڑھ کر علم کی پیاس بجھاتے ہیں، طلبہ کا کہنا ہے کہ اس چائے خانے میں آ کر معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔

    پختون روایات کو زندہ رکھنے کے لیے پشاور کے چائے خانے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، اب ان میں سے ایک چائے خانے میں منی لائبریری بنائی گئی ہے، جہاں آنے والے کڑک چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے کتب بینی کرتے ہیں۔

    لائبریری میں تاریخ، شاعری، سیاست کے ساتھ ساتھ دیگر کتابیں بھی مطالعے کے لیے رکھی گئی ہیں، کتابوں کی تعداد 500 کے قریب ہے، چائے خانے کے اس اقدام سے ایک بار پھر نوجوان بک ریڈنگ کی طرف راغب ہوں گے۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • سریاب کی لائبریری کا المیہ، ایک تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    سریاب کی لائبریری کا المیہ، ایک تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    کوئٹہ کے علاقے سریاب میں اپنی نوعیت کی پہلی اور واحد لائبریری بند ہونے جا رہی ہے۔ منشیات جیسے منفی رجحانات میں گرے پس ماندہ علاقے لوہڑ کاریز میں اپنی مدد آپ لائبریری قائم کرنے والے نوجوانوں کو سرکاری عمارت خالی کرانے کا نوٹس دے دیا گیا۔ لائبریری میں 10 ہزار کتابیں، اور 15 سو رجسٹرڈ قارئین ہیں۔

    سریاب کے پس ماندہ علاقے لوہڑ کاریز کے رہائشی محمد شعیب کو محلے میں موجود لائبریری نے 10 سال کی عمر میں ہی مطالعے کا شوقین بنا دیا تھا۔ 2 سال سے روزانہ کتابیں پڑھنے آتا ہے۔ آٹھویں جماعت کا طالب علم ان دنوں بلوچی لوک کہانیوں کی اردو میں لکھی گئی کتاب پڑھ رہا ہے۔

    خدشہ ہے کہ یہ ننھا قاری شاہد یہ کتاب نہ پڑھ سکے گا، کیوں کہ سرکاری عمارت میں قائم لوہڑ کاریز پبلک لائبربری کو حکومت نے خالی کرنے کا نوٹس دے دیا ہے۔ شعیب کی طرح کتابیں پڑھنے، مسابقتی امتحانات کی تیاری کرنے والے نوجوان بالخصوص طالبات پریشان ہیں۔

    یہ عمارت 2013 میں سرکاری اسپتال کی غرض سے بنائی گئی تھی، مگر اسپتال فعال نہ ہو سکا تو 2018 میں محلے کے طلبہ نے اس میں اپنی مدد آپ کے تحت لائبربری قائم کر لی۔ محکمہ صحت نے اب اسپتال فعال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ عمارت خالی کرانا چاہتا ہے۔

    نوجوانوں کا کہنا ہے کہ عمارت اسپتال کے لیے موزوں جگہ پر نہیں ہے، گلیاں تنگ اور پارکنگ و دیگر سہولیات نہیں ہیں، اس لیے پہلے بھی فعال نہیں ہو سکا تھا۔ طلبہ اور علاقہ مکینوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ یہاں اسپتال بن بھی جائے تو پوری طرح فعال نہیں ہو سکتا، اس لیے حکومت زمینی حقائق کے مطابق فیصلہ کرے۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • انوکھا سیلون، نائی نے گاہکوں کے لئے لائبریری کھول دی

    انوکھا سیلون، نائی نے گاہکوں کے لئے لائبریری کھول دی

    بھارت میں اپنی نوعیت کے انوکھے سیلون نے ہر خاص و عام کی توجہ حاصل کرلی۔ نائی نے اپنی دکان میں آنے والے گاہکو کے لئے لائبریری کھول دی۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق دکان کے مالک دیپ کمار بوردولوئی کا کہنا تھا کہ مجھے کتابیں پڑھنا پسند ہے۔ میں نے یہ سیلون 2016 میں شروع کیا تھا۔ ہمارے علاقے میں زیادہ سیلون نہیں ہیں اور میں لوگوں کو اپنی باری کا انتظار کرتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔

    سیلون کے مالک نے بتایا کہ چونکہ مجھے بھی کتابیں پڑھنا پسند ہے اس لیے میرے ذہن میں خیال آیا، کیوں نہ کچھ کتابیں یہاں بھی رکھ دوں تاکہ لوگ اپنی باری آنے تک کتابیں پڑھ سکیں اور بوریت کا شکار نہ ہوں، اس کے علاوہ جب گاہک نہیں ہوتے تو میں بھی کتابیں پڑھ سکتا ہوں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ناگون ضلع کے رہدلا گاؤں کے رہنے والے دیپ بوردولوئی کو جلمل بوردولوئی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ دیپ بوردولوئی ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہے جس نے دکان چلا کر خود انحصاری کا خواب دیکھا۔

    دیپ کا کہنا تھا کہ میں جانتا ہوں ہمارے علاقے کے لوگ بھی پڑھنے کی عادت سے محروم ہورہے ہیں، میں نے یہ بھی سوچا کہ اگر میں یہاں کچھ کتابیں رکھوں تو اس سے نہ صرف انتظار کرنے والے گاہکوں کو مدد ملے گی بلکہ کتابیں پڑھنے میں دلچسپی رکھنے والے بھی خوش ہوجائیں گے۔

    اُنہوں نے کہا کہ آج کل کتابیں بھی مہنگی ہیں اور ہمارے علاقے میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو انہیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ میری دکان میں آکر وہ مفت بھی پڑھ سکتے ہیں۔

    نائی نے مزید کہا کہ مجھے لوگوں کی طرف سے اچھا رسپانس ملا ہے، خاص طور پر یہاں آنے والے نوجوان اکثر بال کٹوانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے کتابیں پڑھنے میں مگن رہتے ہیں۔

    ایک مقامی طالب علم پرناب ڈیکا کا کہنا تھا کہ ہم یہاں باقاعدگی سے آتے ہیں۔ جب بھی ہمیں یہاں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے تو ہم کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔

    دکان میں موجود ایک گاہک کا کہنا تھا کہ میں پچھلے کئی سالوں سے یہاں بال کٹوانے کے لیے آ رہا ہوں۔ باردولوئی کی جانب سے اٹھایا گیا یہ قدم انتہائی خوش آئند ہے اور یہ سیلون ہمارے لیے ایک لائبریری کی مانند ہے۔

    گاڑی کے بونٹ پر چڑھنے والے نوجوان کیساتھ ڈرائیور نے کیا کیا؟ ویڈیو وائرل

    ہمارے گاؤں میں ایک پبلک لائبریری ہوا کرتی تھی، لیکن وہاں کتابیں زیادہ نہیں ہیں۔ میں جب بھی یہاں آتا ہوں اور لمبی قطار دیکھتا ہوں تو پڑھنے کے لیے کچھ اٹھا لیتا ہوں۔

  • امریکا: لائبریری سے لی گئی کتاب 93 سال بعد واپس

    امریکا: لائبریری سے لی گئی کتاب 93 سال بعد واپس

    امریکا میں عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جب 93 سال پہلے ایک لائبریری سے نکلوائی گئی کتاب خاتون نے واپس کردی۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق لِکنگ کاؤنٹی لائبریری کے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہارٹ تھروبز نامی کتاب (جس میں ہزاروں شعراء کے کلام موجود ہیں) کو حال ہی میں ایک خاتون کی جانب سے لائبریری کو واپس کردیا گیا۔

    لائبریری منتظمین کو مذکورہ خاتون نے بتایا کہ انہیں یہ کتاب اپنی ایک رشتے دار کے گھر میں ملی۔

    کتاب میں لگے کارڈ میں لکھا ہوا ہے کہ کتاب تاخیر سے جمع کرائے جانے پر فی روز دو سینٹس کے حساب سے جرمانہ ادا کرنا ہوگا، لیکن لائبریری کی پوسٹ کے مطابق لائبریری نے تاخیر سے کتب جمع کرائے جانے پر جرمانے کو ختم کردیا ہے۔

  • 8 سالہ شاکر کا قتل، مرکزی ملزم گرفتار، ڈی این اے کیا جائے گا

    8 سالہ شاکر کا قتل، مرکزی ملزم گرفتار، ڈی این اے کیا جائے گا

    کراچی: پولیس نے کراچی کے علاقے عمر ماروی گوٹھ، قائد آباد میں 8 سالہ بچے شاکر حسین کے قتل کے مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا ہے، جرم کے تعین کے لیے ملزم کا ڈی این اے کیا جائے گا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پولیس نے شاہ لطیف تھانے کی حدود میں بچے کے قتل کے معاملے میں میر بالاج نامی ایک شخص کو حراست میں لے لیا ہے، جس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اسے اہل محلہ نے لاش کے ساتھ دیکھ کر لائبریری میں بند کر دیا تھا۔

    پولیس کا میر بالاج کو مرکزی ملزم قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ اس کا ڈی این اے کرایا جائے گا، نیز، پولیس نے اس کیس میں 18 گیر مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لیا ہے۔

    گھر سے روٹی لینے نکلنے والے بچے کے ساتھ دردناک واقعہ، لاش لائبریری سے برآمد

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی معلومات کے مطابق بچے کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے، جب کہ مرکزی ملزم میر بالاج کو رنگے ہاتھوں لائبریری سے پکڑا گیا تھا، بالاج کو اہل محلہ نے بچے کی لاش دیکھ کر لائبریری میں بند کر دیا تھا اور وہ مقتول بچے کا پڑوسی بھی ہے۔

  • ٹک ٹاک کا نئے فیچر کا اعلان

    ٹک ٹاک کا نئے فیچر کا اعلان

    ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک نے ٹک ٹاک لائبریری نامی نئے ان ایپ کری ایشن ٹول کا اعلان کردیا، نئے فیچر سے صارفین کو مزید سہولت حاصل ہوگی۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ تخلیق کاروں کے لیے ٹرینڈ میں شریک ہونے کے لیے اور انٹرٹینمنٹ مواد تک رسائی حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

    ابتدا میں اس لائبریری میں جفی کا مخصوص کانٹینٹ ہوگا جس میں آوازوں کے ساتھ جف کا مجموعہ ہوگا۔

    ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ اس کو امید ہے کہ لائبریری میں مزید کانٹینٹ ذرائع، آڈیو اور ساؤنڈز، ٹیکسٹ ٹیمپلٹ اور دیگر ٹک ٹاک کریئٹر کانٹینٹ شامل کیے جائیں گے۔

    کمپنی نے یہ بتانے سے انکار کردیا کہ ان تمام چیزوں کے لیے مستقبل میں کن کے ساتھ شراکت قائم کی جا سکتی ہے۔

    اگرچہ ٹک ٹاک اپنی ویڈیو ایپ میں پہلے ہی متعدد تخلیقی ٹولز رکھتی ہے لیکن کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ تخیلق کاروں کے اپنے اظہار میں مدد دینے کے لیے نئے راستوں کی تلاش جاری رکھے گی۔

  • انسان کی سب سے بڑی ایجاد کیا ہے؟

    انسان کی سب سے بڑی ایجاد کیا ہے؟

    اگر میں ہر ہفتے ایک کتاب ختم کروں تو میں اپنی پوری زندگی میں صرف چند ہزار کتابیں پڑھ سکوں گا۔ یہ ایک بڑی لائبریری کا ایک فی صد بھی نہیں ہوا۔ فیصلہ صرف یہ کرنا ہوگا کہ کون سی کتاب پڑھی جائے؟

    کتاب کتنی عجیب چیز ہے۔ ایک درخت کی چھال سے بنی ہوئی چپٹی سی چیز جس پر مضحکہ خیز تصوریں بنی ہوئی ہیں۔ لیکن آپ اس پر ایک نظر ڈالیں تو آپ ایک دوسرے شخص کے دماغ میں پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا شخص جو ہزاروں سال پہلے مر چکا ہے۔ صدیوں کا فاصلہ ہونے کے باوجود وہ بالکل واضح لفظوں میں آپ سے مخاطب ہو جاتا ہے۔

    تحریر شاید انسان کی سب سے بڑی ایجاد ہے۔ یہ ان انسانوں کو ایک دوسرے سے ملا دیتی ہے جو ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔ یہ مختلف دور کے باشندوں سے روشناس کرا دیتی ہے۔

    کتاب وقت کی زنجیروں کو توڑ دیتی ہے۔ کتابیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان بھی کمال کر سکتا ہے۔ لائبریریوں کے کمرے ان کمالات سے بھرے ہوئے ہیں۔

    اسکندریہ کی لائبریری قائم ہوئے 2300 سال گزر چکے ہیں۔ اس دوران تقریباً سو نسلیں پیدا ہوکر مر چکی ہیں۔ اگر علم صرف زبان کے ذریعے سے دوسروں کو منتقل ہوتا تو ہمیں اپنے ماضی کے بارے میں کتنا کم علم ہوتا۔ ہماری ترقی کی رفتار کتنی سست ہوتی۔ ہر چیز اس پر منحصر ہوتی کہ ہمیں کیا بتایا گیا ہے اور وہ کس حد تک درست ہے۔ قدیم علم لوگوں تک پہنچتے پہنچتے بدلتا رہتا اور آخر کار ضائع ہو جاتا۔

    کتابیں ہمیں وقت میں سفر کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ لائبریری پورے پورے سیّارے اور پوری پوری تاریخ کے عظیم ذہنوں اور عظیم استادوں سے ہمارا رشتہ جوڑ دیتی ہے۔ اور انسانی نسل کے اجتماعی شعور میں اپنا حصّہ بٹانے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔

    میں سمجھتا ہوں کہ ہماری تہذیب کی صحّت ہمارے شعور کی گہرائی اور مستقبل کے بارے میں ہمارا تجسّس کا امتحان اس سے ہوتا ہے کہ ہم اپنی لائبریریوں کو کیسے رکھتے ہیں۔
    ایک وقت کے عام کھانے کی قیمت میں آپ روم کے عروج و زوال کا مزہ لے سکتے ہیں۔ کتابیں علم کا خزانہ ہیں۔ یہ ہمارے genes سے دماغ تک اور دماغ سے کتابوں تک کے لمبے ارتقائی سفر کی گواہ بھی ہیں۔

    دماغ رات کو بھی اطلاعات جذب کرنے اور تقسیم کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ اطلاعات اسے زندہ رکھتی ہیں اور وہ صلاحیت مہیا کرتی ہیں جو بدلتے ہوئے حالات میں زندہ رہنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ انسان کا genes سے دماغ اور دماغ سے کتابوں تک کا سفر جاری ہے۔

    (کارل ساگان کی کائنات (cosmos) نامی تصنیف سے اقتباس جس کے مترجم منصور سعید ہیں)

  • اونٹ جو بلوچستان کے دیہات میں علم کی روشنی پھیلا رہا ہے

    اونٹ جو بلوچستان کے دیہات میں علم کی روشنی پھیلا رہا ہے

    بلوچستان کے دور دراز جنوب مغربی صحرائی علاقے میں قدم بڑھاتا روشن نامی اونٹ ایسا سامان ڈھو رہا ہے، جو انمول ہے، اس پر ان بچوں کے لیے کتابیں لدی ہوئی ہیں جو کووڈ 19 کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسکول نہیں جا پا رہے۔

    پاکستان میں گزشتہ سال مارچ میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے اور گزشتہ ایک سال میں یہ بہت کم عرصے کے لیے ہی کھل پائے ہیں۔ ملک بھر میں 5 کروڑ اسکول جانے کی عمر رکھنے والے بچے اور یونیورسٹی کے طلبہ اب اپنے گھروں ہی میں پڑھنے پر مجبور ہیں۔ لیکن بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں گھر سے پڑھنا مشکل ہے کیونکہ یہاں کئی دیہات انٹرنیٹ تک رسائی نہیں رکھتے۔

    یہی وجہ ہے کہ ایک ہائی اسکول پرنسپل رحیمہ جلال کو کیمل لائبریری پروجیکٹ کا خیال آیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے پچھلے سال اگست میں اس لائبریری کا آغاز کیا تھا کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کے علاقے اور ارد گرد کے دیہات کے بچے اسکول بند ہونے کے باوجود پڑھیں۔

    رحیمہ جلال مند گرلز ہائی اسکول کی پرنسپل ہیں اور وفاقی وزیر دفاعی پیداوار پاکستان زبیدہ جلال کی بہن ہیں لیکن اتنے بڑے خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود انہوں نے مقامی لوگوں کی بہبود اور تعلیم کو اپنا مقصد حیات بنا رکھا ہے۔ اس منصوبے کے تحت وہ فیمیل ایجوکیشن ٹرسٹ اور الف لیلہ بک بس سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔

    اب کیمل لائبریری کے تحت روشن نامی اونٹ بلوچستان کے ضلع کیچ کے چار مختلف دیہات کے لیے کتابیں لے جاتا ہے۔ وہ ہفتے میں تین مرتبہ ہر گاؤں میں جاتا ہے اور ہر گاؤں میں تقریباً دو گھنٹے قیام کرتا ہے۔ بچے کتابیں حاصل کرتے ہیں اور روشن کے اگلے دورے پر اسے واپس کرتے ہیں۔ کچھ کتابیں بچوں میں مفت بھی تقسیم کی جاتی ہیں۔

    انہی بچوں میں سے ایک 9 سالہ عنبرین ہیں، جو بلوچی زبان میں کہتی ہیں کہ مجھے تصویروں والی کتابیں پسند ہیں کیونکہ تصویریں دیکھ کر کہانی زیادہ اچھی طرح سمجھ آتی ہے۔

    رحیمہ جلال اس منصوبے کو مزید دیہات تک پھیلانا چاہتی ہیں لیکن اس کے لیے انہیں سرمائے کی ضرورت ہے۔ ان کے منصوبے کا اس وقت خرچہ تقریباً 118 ڈالرز ماہانہ ہے۔

    روشن کے مالک مراد علی کہتے ہیں کہ انہیں یہ لائبریری کا کام بہت پسند ہے۔ انہیں بچوں کو کتابیں پڑھتا دیکھ کر بہت خوشی ملتی ہے۔

  • لائبریری کو کتاب 72 سال بعد واپس ملی، کتاب کون سی تھی؟

    لائبریری کو کتاب 72 سال بعد واپس ملی، کتاب کون سی تھی؟

    نیویارک: امریکا کی ایک لائبریری نے کہا ہے کہ تھیوڈور روزویلٹ کی سوانح حیات حال ہی میں واپس ہوئی ہے، تقریباً 72 سال کی تاخیر سے۔

    تفصیلات کے مطابق نیویارک کے ایک چھوٹے سے گاؤں میٹیٹک سے تعلق رکھنے والے جان موس نے کتاب لائبریری کو لوٹاتے ہوئے کہا کہ انھیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ ڈینیل ہینڈرسن کی کتاب ’گریٹ ہارٹ: دی لائف اسٹوری آف تھیوڈور روزویلٹ‘ ان کے قبضے میں کیسے آ گئی، لیکن حال ہی میں انھیں یہ کتاب اسٹور میں پڑی پلاسٹک کی ایک بڑی کریٹ میں ملی۔

    خیال رہے کہ تھیوڈور روزویلٹ 26 ویں امریکی صدر تھے، جان موس نے کتاب کے حوالے سے کہا کہ ہو سکتا ہے یہ میرے والدین کے گھر سے ملی ہو جب 2013 میں میں نے ان کا گھر صاف کروایا تھا، یا یہ ان درجنوں کتابوں میں سے ایک ہوگی جو میں نے برسوں میں مختلف جگہوں میں لگی سیلز سے خریدی تھیں۔

    موس نے یہ کتاب حال ہی میں سامنے آنے پر جب یہ دیکھا کہ یہ اماگنسیٹ فری لائبریری کی ہے تو واپس پہنچا دی، لائبریری والوں کا کہنا تھا کہ اس کتاب نے تو 5 اپریل 1949 کو واپس ہونا تھا۔

    لائبریری کے ڈائریکٹر لارن نکولس نے میڈیا کو بتایا کہ کتاب کا یہ ایڈیشن 1919 کا ہے، اور اس پر لائبریری کی اصلی بک پلیٹ لگی ہوئی ہے، اور اس کی پشت پر سرکولیشن پالیسی بھی چپکائی گئی ہے، یہ دونوں چیزیں میں نے لائبریری میں ایک یا دو کتابوں ہی پر الگ الگ دیکھی ہیں۔

    انھوں نے بتایا کہ کتاب کی لیٹ فیس 1949 کی لائبریری فیس فی دن ایک پیسہ (پینی) کے حساب سے اب تک 262 ڈالر ہو چکی ہے، تاہم لائبریری نے بعد میں تمام لیٹ فیسیں ختم کر دی تھیں۔

  • جب لائبریری آف کانگریس سے شعلے بلند ہوئے!

    جب لائبریری آف کانگریس سے شعلے بلند ہوئے!

    یہ 1800 کی بات ہے جب امریکا میں ایک عظیم کتب خانے اور علمی و تحقیقی مرکز کی بنیاد رکھی گئی۔

    واشنگٹن میں قائم کردہ اس عمارت کو لائبریری آف کانگریس کا نام دے کر قومی اثاثہ قرار دیا گیا، مگر صرف 14 سال بعد ہی اس عمارت کو آگ لگا دی گئی! یہ کام برطانوی سپاہیوں کا تھا جنھوں واشنگٹن پر حملہ کیا تھا۔

    اسے دنیا کا عظیم کتب خانہ اور کانگریس کا تحقیقی مرکز کہا جاتا ہے جہاں اہم اور نایاب کتب کے علاوہ مختلف روایتی اور غیر روایتی علوم پر معلومات کا تحریری اور تصویری ذخیرہ موجود ہے جب کہ فن و ثقافت کے بیش قیمت نمونے اور متعدد تاریخی اشیا بھی رکھی گئی ہیں۔ علم و فنون کے شیدائیوں کو کہا جاتا ہے کہ جب بھی امریکا جانا ہو تو کانگریس کی لائبریری کا دورہ ضرور کریں۔

    کتب خانے کے ایک حصّے کو لگائی گئی آگ نے جہاں عمارت کو نقصان پہنچایا وہیں بہت سا ذخیرۂ علم و فن بھی ضایع ہو گیا۔ اس زمانے میں امریکا کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن نے اس عمارت کے لیے ذاتی کوششوں سے سرمایہ جمع کیا اور اسے دوبارہ تعمیر کیا۔ وہ خود بھی مطالعہ کے شوقین اور علم و ادب کے شیدا تھے۔ ان کے نجی کتب خانے میں ہزاروں کتابیں اور نادر و نایاب اشیا موجود تھیں جس میں کچھ فروخت کرکے حاصل ہونے والی رقم عمارت کی تعمیر پر خرچ کی اور بہت سی کتابیں اس لائبریری کو عطیہ کر دیں۔

    کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر کے ذخیرۂ کتب میں قرآن مجید کا ایک نسخہ بھی تھا۔ یہ نسخہ انھوں نے 1776 سے چند برس پہلے خریدا تھا۔