Tag: لائبریریاں

  • ’گہرا مطالعہ‘ کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

    ’گہرا مطالعہ‘ کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

    ناٹنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر گریجری کیوری (Gregory Currie) نے نیویارک ٹائمز میں لکھا تھا کہ ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ادب کا مطالعہ ہمیں ایک بہتر انسان بناتا ہے؛ کیوں کہ ’’خارج میں اس بات کا کوئی اطمینان بخش ثبوت نہیں ملتا کہ لوگ ٹالسٹائی یا دوسری عظیم ادبی تخلیقات کو پڑھ کر اخلاقی یا سماجی اعتبار سے بہتر انسان بن گئے۔‘‘

    حالاں کہ یہ بات انتہائی غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ثبوت موجود ہیں۔ یارک یونیورسٹی، کناڈا کے ماہر نفسیات ریمنڈ مار ( Raymond Mar) اور ٹورنٹو یونیورسٹی میں علمی نفسیات کے پروفیسر ایمرٹس کیتھ اوٹلی(Keith Oatley) نے 2006 اور 2009 میں ایک مشترکہ اسٹڈی شائع کروائی، جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ جو لوگ زیادہ تر فکشن کا مطالعہ کرتے ہیں، وہ دوسروں کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں، ان کے اندر لوگوں کے تئیں ہمدردی کا جذبہ بھی دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے اور وہ دنیا کو دوسروں کے نظریے سے دیکھنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کا سرا محققین کی اس دریافت سے بھی جڑتا ہے کہ جو لوگ زیادہ ہمدردانہ جذبات کے حامل ہوتے ہیں، وہ ناول پڑھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ 2010 میں ریمنڈ نے بچوں کے سلسلے میں شائع شدہ اپنی اسٹڈی میں بھی اسی قسم کی باتیں لکھی تھیں، ان کے مطابق: ان کے سامنے جتنی زیادہ کہانیاں پڑھی گئیں، ان کے اذہان دوسروں کے خیالات کو سمجھنے کے اتنے ہی قریب ہوتے گئے۔

    مطالعے کی ایک قسم ہے، جسے Deep reading یا ’’گہرا مطالعہ ‘‘کہتے ہیں، اس کے مقابلے میں ’’سطحی مطالعہ‘‘(superficial reading) کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے، جس کا اطلاق عموماً انٹرنیٹ، ویب سائٹس وغیرہ کے مطالعے پر کیا جاتا ہے۔ محققین اور مطالعہ و علمی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بہ تدریج گہرے مطالعے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے اور اسے خطرات لاحق ہیں، اس کے تحفظ کے لیے ویسی ہی کوشش کی ضرورت ہے، جیسی کہ ہم کسی تاریخی عمارت یا فنی و تہذیبی شہ پارے کے تحفظ کے لیے کرتے ہیں۔ اگر گہرے مطالعے کا رجحان ختم ہوجاتا ہے تو اس سے نہ صرف آن لائن نشو و نما پانے والی ہماری نسلوں کا عقلی و جذباتی خسارہ ہوگا بلکہ اس سے ہماری تہذیب و ثقافت کے اہم جز مثلاً ناول، شاعری اور دوسری قسم کے ایسے ادب کی بقا کو بھی خطرات لاحق ہوجائیں گے، جس کے فروغ میں صرف وہ قارئین حصہ لیتے ہیں، جن کے اندر خاص طور پر لٹریچر کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

    دماغی سائنس، نفسیات اور نیورو سائنس سے متعلق ایک حالیہ تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ ’’گہرا مطالعہ‘‘(جو دھیرے دھیرے، کتاب میں ڈوب کر کیا جاتا ہے اور جو محسوس تفصیلات اور اخلاقی و جذباتی اتار چڑھاؤ سے مالا مال ہوتا ہے) ایک منفرد تجربہ اور الفاظ کی ظاہری سمجھ سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ حالاں کہ گہرے مطالعے کے لیے لازمی طور پر کسی مانوس اور پسندیدہ کتاب کا ہونا ضروری نہیں ہے، مطبوعہ صفحات میں فطری طور پر ایسی انفرادی صلاحیت ہوتی ہے، جو گہرے مطالعے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہائپر لنک سے آزاد کتاب قاری کو فیصلہ سازی کے تذبذب سے بچاتی ہے (کہ میں اس لنک پر کلک کروں یا نہ کروں؟) اور اسے پوری طرح مصنف کے بیانیے میں محو کر دیتی ہے۔

    یہ محویت یا استغراق ایک ایسے طریقۂ کار سے مربوط ہے جس کے ذریعے انسان کا دماغ کتاب میں مذکور مختلف تفصیلات، تلمیحات و استعارات سے مالا مال زبان سے معاملہ کرتا ہے۔ بایں طور کہ وہ ذہن کے پردے پر ایک عقلی نقشہ بناتا ہے جو کتاب کے ان مباحث پر قائم ہوتا ہے، جو اُس وقت ایکٹیو ہوسکتے ہیں جب وہ منظر حقیقی زندگی میں بھی سامنے ہو۔جذباتی احوال اور اخلاقی مسائل جو کہ ادب کے لازمی اجزا ہوتے ہیں، وہ بھی زبردست دماغی مشق کا ذریعہ ہیں، وہ ہمیں خیالی اور تصوراتی اشخاص کے دماغوں تک پہنچاتے اور جیسا کہ مطالعات و تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے، ہماری باہمی ہمدردی کی حقیقی صلاحیت میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ مگر یہ سب اس وقت نہیں ہوتا جب ہم انٹرنیٹ پر کوئی ویب سائٹ اسکرول کررہے ہوتے ہیں۔ گرچہ ہم اسے بھی پڑھنے سے تعبیر کر سکتے ہیں، مگر کتابوں کا گہرا مطالعہ اور منتشر معلومات پر مبنی ویب سائٹ کو دیکھنا، پڑھنا دونوں میں تجربے، نتائج اور ان سے حاصل ہونے والی صلاحیتوں کے اعتبار سے بہت فرق ہے۔ بہت سی ایسی دلیلیں ہیں، جو یہ بتاتی ہیں کہ آن لائن مطالعے میں قاری کا انہماک کم سے کم ہوتا ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے بھی بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں ہوتا، جو انٹرنیٹ کی دنیا سے کافی مانوس ہیں۔

    گہرا مطالعہ کرنے والا انسان ذہنی انتشار سے محفوظ ہوتا ہے اور وہ دورانِ مطالعہ سامنے آنے والے الفاظ کے درمیان پائے جانے والے باریک لغوی فرق کو بھی بخوبی سمجھتا ہے، پھر دورانِ مطالعہ بہ تدریج اس پر ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے جسے ماہر نفسیات وکٹر نیل (Victor Nell) نے مطالعے سے لطف اندوزی کی نفسیات سے متعلق اپنی ایک تحقیق میں’’خواب آور کیفیت‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ نیل کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ جب ایک قاری مطالعے سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے، تو اس کے مطالعے کی رفتار دھیمی ہو جاتی ہے۔ الفاظ کو سرعت کے ساتھ سمجھنا اور صفحے پر آہستگی سے آگے بڑھنا دونوں مل کر گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے والے کو تحلیل و تجزیہ، چیزوں کو یاد رکھنے اور آرا و افکار کو نتیجہ خیز بنانے کا کافی وقت فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح قاری کو مصنف کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے کا وقت ملتا ہے، جس کے زیر اثر دو محبت کرنے والوں کی طرح یہ دونوں ایک طویل و گرم جوشانہ گفتگو میں منہمک ہوجاتے ہیں۔

    یہ وہ مطالعہ نہیں ہے جسے بہت سے نوجوان جانتے ہیں۔ ان کا مطالعہ وقتی فائدے کا حامل ہے اور دونوں میں وہی فرق ہے، جسے معروف ادبی نقاد فرینک کرموڈ (Frank Kermode) نے ’’جسمانی مطالعہ‘‘ اور ’’روحانی مطالعہ‘‘ کے ذریعے بیان کیا ہے۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کو یہی باور کراتے رہے کہ ’’جسمانی مطالعہ‘‘ ہی سب کچھ ہے اور ابتدائی دور میں ہی مشق و ممارست کے ذریعے ہم نے انھیں روحانی مطالعے کا عادی نہیں بنایا، تو ہم انھیں ایک لطف انگیز و سرور بخش تجربے سے محروم رکھ کر دھوکے میں ڈالیں گے۔ ہم انھیں ایسے اعلیٰ اور روشنی بخش تجربے سے محروم کر دیں گے جو بطور انسان انھیں بلند کرسکتے ہیں۔

    ڈیجیٹل آلات سے نئی نسل کی وابستگی کو دیکھتے ہوئے بعض ترقی پسند معلمین اور کسل مند والدین بچوں کی عادتوں کے ساتھ چلنے اور ان کی تعلیم کو بھی آن سکرین لانے کی باتیں کرتے ہیں، حالاں کہ یہ غلطی ہے۔ اس کی جگہ ضرورت ہے کہ ہم انھیں ایسی جگہیں دکھائیں جہاں وہ کبھی نہیں گئے۔ ایسی جگہیں جہاں وہ محض ’’گہرے مطالعے‘‘ کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔

    (دی ٹائم میگزین کے ایک مضمون کا یہ ترجمہ نایاب حسن نے کیا ہے)

  • مقام و مرتبہ گر چاہیے تو!

    مقام و مرتبہ گر چاہیے تو!

    دنیا بھر میں مشہور دانا اور مفکّر ارسطو سے یہ قول منسوب ہے کہ’’اگر تم عظیم بننا چاہتے ہو تو اپنی فرصت کے اوقات ضائع نہ کرو۔‘‘

    جدید دور میں جہاں اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی بدولت مختلف ویڈیو، آڈیو اور تحریری مواد کی شکل میں بہت سی معلومات کا حصول ہر عمر کے طلبا یا نوجوانوں کے لیے آسان ہوگیا ہے اور انھیں بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے مواقع حاصل ہیں، وہیں ایک بڑی تعداد فرصت کے اوقات بھی ضایع نہیں کرنا چاہتی جو کہ بہت اچھی بات ہے اور کتابیں بھی ان کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔

    بدقسمتی سے کتاب کلچر کو کچھ دہائیوں کے دوران خاصا نقصان پہنچا ہے اور نئی کتب کی طباعت و اشاعت کے مسائل کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ گم ہوتا ہوا قاری ہے۔ ماہرینِ تعلیم اور دانش ور یہ اصرار کرتے رہے ہیں کہ طلبہ اور نوجوانوں کے کردار کی تشکیل و تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ انہیں اپنی تاریخ، تہذیب و تمدن، ملّی ورثے، مذہبی اقدار اور جدید علوم سے آشنا کیا جائے جس کے لیے جدید علوم سے متعلق نئی کتابوں کا ذخیرہ بھی درکار ہے اور فی الوقت اس جانب کوئی توجہ نہیں‌ دی جارہی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور صاحب ثروت طبقہ مل کر ایسے ادارے قائم کریں جن میں پرانی کتابوں سے معلومات یکجا کرنے کے ساتھ دور جدید کے علوم کی کتابوں کا ترجمہ کیا جائے اور ان کی اشاعت یقینی بنائے جائے۔ اسکولوں اور کالجوں کے ساتھ اہم کتب خانوں کو ایسی کتابیں مفت تقسیم کی جائیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں ملکی اور ثقافتی تاریخ سے متعلق اتنی کتابیں دستیاب نہیں ہیں، جتنی کہ ضرورت ہے اور جب طلبہ اور نوجوان اپنے مذہب اور ملکی و ثقافتی تاریخ سے پوری طرح واقف نہیں ہوں گے اور اپنے اسلاف کے کارناموں اور اوصاف کا علم نہیں ہوسکے گا تو قوم و ملک کا درست سمت میں سفر بھی ممکن نہیں ہو گا۔

    اس حوالے سے ملک کے دانش وروں، ماہرین تعلیم اور صاحبانِ علم و فضل کی مدد لے کر حکومت تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کرسکتی ہے۔ اس طرح ہمارے طلبہ اور نوجوان نسل تک وہ کتابیں پہنچا کر ان کے فرصت کے اوقات کو فضول مشاغل کی نذر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

    کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

    لو، جان بیچ کر بھی جو علم و ہنر ملے
    جس سے ملے، جہاں سے ملے، جس قدر ملے

    (از خدیجہ احمد علی)