Tag: لائبریری

  • 1978 کی یادیں: قومی کتب خانہ اور اسلام آباد کی مخلتف جامعات کی لائبریریاں

    1978 کی یادیں: قومی کتب خانہ اور اسلام آباد کی مخلتف جامعات کی لائبریریاں

    ایک زمانہ تھا جب علم و ادب کے مراکز اور کتب خانے آباد ہوا کرتے تھے۔ لائبریریوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔

    ملک کے مختلف علاقوں میں موجود کتب خانوں‌ سے طالب علم اور مطالعہ کے شوقین استفادہ کرتے اور ان کی رونق بحال رکھتے۔ تاہم بعد کے ادوار میں علم و فنون اور سرکاری سطح پر کتب خانوں کی سرپرستی کا سلسلہ ختم ہوتا چلا گیا۔ یوں کئی اہم لائبریریاں اور بلدیہ کے ماتحت کتب خانے ویران ہو گئے۔

    الحاج محمد زبیر کی ایک کتاب اسلامی کتب خانے اس حوالے سے اہم کاوش ہے جو 1978 میں شایع ہوئی تھی۔ اس کتاب کی ورق گردانی کے دوران قومی کتب خانہ اسلام آباد اور اسی شہر کی چند دیگر لائبریریوں پر چند سطر پارے نظر سے گزرے۔ ان کا خلاصہ آپ کی نذر ہے۔ مصنف لکھتے ہیں۔

    قومی کتب خانہ اسلام آباد کی عمر گو زیادہ نہیں ہے، لیکن اس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اس کا شمار پاکستان کے عظیم کتب خانوں میں ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہاں اردو، عربی اور انگریزی زبان میں کتابوں کی تعداد 39 ہزار تھی۔ عربی زبان میں اتنا اچھا ذخیرہ پاکستان کے کم کتب خانوں میں ملے گا۔

    اس کے علاوہ اسلام آباد کی درس گاہوں کے کتب خانوں میں یہاں کی یونیورسٹی لائبریری کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ اس میں سال بہ سال جملہ علم و فنون کی کتابوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پاکستان کے نام ور دانش ور پیر حسام الدین کا بیش قیمت ذخیرۂ کتب شامل ہو جانے سے اس لائبریری کی قدر و قیمت میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔

    سینٹرل اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا کتب خانہ بھی نہایت عالی شان ہے۔ اس میں علومِ اسلامی پر ایسا ذخیرہ ہے جو کسی اور لائبریری میں نہیں۔ کتب خانہ گنج بخش کی بات کی جائے تو مرکزِ تحقیقات فارسی، ایران و پاکستان کا وہ عظیم کتب خانہ ہے جو حضرت داتا گنج بخش ہجویریؒ کے نام پر قائم ہے۔

    یہاں بارہ ہزار مطبوعات اور آٹھ ہزار مخطوطات جمع ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں کہ اسلام آباد ہر قسم کے کتب خانوں سے معمور ہے۔ یہاں وفاقی اسمبلی اور سیکریٹریٹ وغیرہ کے دفاتر اور سفارت خانوں کے علاوہ یونیورسٹیاں اور بہت سے تعلیمی و سماجی ادارے بھی ہیں جن سے منسلک کتب خانے بڑے نایاب اور اعلیٰ شمار کیے جاتے ہیں۔

  • برطانوی شہری نے 52 برس بعد کتاب لائبریری کو واپس کردی

    برطانوی شہری نے 52 برس بعد کتاب لائبریری کو واپس کردی

    لندن : برطانوی شہری نے ایمانداری کی مثال کردی، 52 برس قبل لائبریری سے لی گئی کتاب جرمانے کے ساتھ لائبریری انتظامیہ کو لوٹا دی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں ایک شخص نے 1967 میں لائبریری سے لی گئی کتاب 52 سال بعد جرمانے کی رقم کا چیک لائبریری میں دوبارہ جمع کرادی۔

    لائبریری کے مینیجر کا کہنا تھا کہ قاری (کتاب پڑھنے والا) کئی برس کتاب اپنے پاس رکھنے پر شرمندہ تھا۔

    برطانوی شہری نے کتاب لائبریری کو لوٹاتے ہوئے 100 پاؤنڈ کا چیک بھی بطور جرمانہ مینیجر کے حوالے کیا۔

    مینیجر نے میڈیا کو بتایا کہ میں بہت حیران ہوں کہ میتھا فزیکل شاعر کی کی کتاب دوبارہ اپنی جگہ پر آگئی ہے، خاتون مینیجر کا کہنا تھا کہ شہری نے کتاب لوٹاتے ہوئے ایک تحریر بھی جمع کروائی جس میں تاخیر کی وجوہات تحریر ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ کتاب پر سنہ 1967 کی مہر بھی ثبت ہے جسے کتاب کی واپسی پر کتاب پر ثبت کی جاتی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق قاری پر 52 برس میں 100 پاؤنڈ جرمانہ ہوا کیوں کہ ہر ہفتے ان پر پرانی کرنسی کے اعتبار سے 3 پینس جرمنانہ بڑھتا جارہا تھا جو اب 15 پاؤنڈ ایک دن کا کرایہ ہے۔

  • جدید ٹیکنالوجی ’’ لائبریریز ‘‘  کو ویران کرنے کی ذمہ دار

    جدید ٹیکنالوجی ’’ لائبریریز ‘‘ کو ویران کرنے کی ذمہ دار

    عصر حاضر میں ہونے والی جدید ایجادات کے باعث جہاں انسانی زندگی آسان ہوئی وہیں کچھ اہم روایات اور ثقافتیں معدوم ہوگئیں، جن میں سب سے اہم لائبریریز ہیں۔ انٹرنیٹ اور ای کتابوں کے آنے کے بعد مطالعے کا ذوق رکھنے والے افراد نے کتب خانوں کا رخ کرنا کم کردیا ہے، جدید ٹیکنالوجی کے باوجود لائبریری کا وجود باقی ہے تاہم اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو مستقبل میں کتب خانے بالکل ویران بھی ہوسکتے ہیں۔

    ایک وقت تھا کراچی کی شناخت کتب خانوں سے ہی ہوتی تھی کیونکہ شہر میں 30 سے زائد لائبریریز موجود تھیں جہاں سے طالب علم اور مطالعے کا ذوق رکھنے والے افراد استفادہ کرتے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔کراچی کی لائبریریز طلب علموں کی ضروریات پوری کرنے کا آسان ذریعہ بھی تھیں۔

    شہر قائد میں قائم فریئر ہال میں موجود لیاقت لائبریری 1865 میں قائم ہوئی جہاں قیمتی اور اہم تصانیف موجود ہیں، حکومتی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے کتابوں اور الماریوں کو دیمک لگ چکا ہے۔

    مزید پڑھیں: حسرت موہانی لائبریری عوام کے لیے کھول دی گئی

    اسی طرح کراچی کی ایک اور محمود حسن لائبریری 1952 میں قائم ہوئی جہاں اس وقت بھی ساڑھے تین لاکھ سے زائد قیمتیں کتابیں موجود ہیں، اسی طرح ڈیفنس سینٹرل لائبریری جو برطانوی سفارت خانے میں موجود ہے یہاں بھی مختلف موضوعات کی 70 ہزار سے زائد تصانیف موجود ہیں۔

    کتب خانے شہر کے منظر نامے سے غائب کیوں ہونے لگے؟

    لائبریریز کے بھوت بنگلے جیسا منظر پیش کرنے کی وجہ قارئین کی تعداد کا کم ہونا ہے کیونکہ بیشتر کتب خانوں کی انتظامیہ کتاب کے کرائے کے عوض جمع ہونے والی رقم سے ہی مرمت اور نئی تصانیف خریدنے کا کام کرتی تھیں، اب اکثر صارفین انٹرنیٹ کے ذریعے موبائل یا کمپیوٹر پر ہی اپنی متعلقہ کتاب کا مطالعہ باآسانی کرلیتے ہیں۔

    نامور سینئر صحافی اختر بلوچ کا کہنا تھا کہ ’علمی مطالعے یا تحقیق کے لیے جن کتابوں یا مواد کی ضرورت ہوتی ہے وہ باآسانی موبائل فون کی مدد سے مل جاتا ہے، جدید دور کی وجہ سے لوگوں کی کتب خانوں میں آمد ورفت کم ہوگئی اور آہستہ آہستہ لائبریرز کی تعداد بھی وقت کے ساتھ کم ہوتی گئی‘۔

    یہ بھی پڑھیں: دنیا کی خوبصورت ترین لائبریری

    اُن کا کہنا تھا کہ ایک وقت ایسا تھا کہ جب نامور مصنفین اور شعرا کے افسانے خریدنے کی قارئین سکت نہیں رکھتے تھے تو وہ لائبریری سے چند پیسوں کے عوض کتاب حاصل کر کے اس کا باآسانی مطالعہ کرلیتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہر دو یا تین گلیوں کے فاصلے پر ایک لائبریری ضرور موجود ہوتی تھی اسی طرح شہر کی ایک آنہ لائبریری بہت مشہور تھی جو صرف ایک آنے کے عوض کتاب کرائے پر فراہم کرتی تھی۔

    انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ماضی میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ دو یا تین لوگ مل کر کتاب کا کرایہ دیتے تھے اور سب کی کوشش ہوتی تھی وہ مطالعہ کرلے، کتب خانے ویران ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مطالعے کا شوق ختم ہوگیا بلکہ اب صورتحال بہت تبدیل اور نظام بہت زیادہ جدید ہوگیا کیونکہ اب قاری کو واٹس ایپ، گوگل، وکی پیڈیا کی سہولت آسانی سے مل جاتی ہے اور وہ اپنا کام کامیابی سے کرلیتا ہے۔

    اسے بھی پڑھیں: چین میں 12 لاکھ کتابوں پر مشتمل خوبصورت لائبریری

    پڑھیں: فریئر ہال کی قدیم لائبریری تباہی کے دہانے پر

    اختر بلوچ کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ اپنی تحریر ، بلاگ، مقالے میں مستند بات یا تاریخی حوالہ دینا چاہتے ہیں تو اُس کے لیے کتاب کا موجود ہونا بہت ضروری ہے، انٹرنیٹ پر جو کتابیں موجود ہیں ان کے بھی مکمل مطالعے کے لیے رقم دینی ضروری ہوتی ہے، اس لیے کتاب کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ ایک سند ہے۔

    لائبریریوں کی تاریخ

    دنیا کی پہلی لائبریری کا قیام شام میں پانچ سال قبل ہوا، قدیم ترین کتب خانے 2500 قبل مسیض میں قائم ہوئے جہاں آج بھی کتابوں اور تصانیف کو مکمل حفاظت کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور مطالعے کا ذوق رکھنے والے تاریخی تصانیف سے استفادہ کرتے ہیں۔

  • زنجیروں میں قید نایاب کتابیں

    زنجیروں میں قید نایاب کتابیں

    کیا آپ جانتے ہیں ایک زمانے میں کتابوں کو زنجیر سے باندھ کر رکھا جاتا تھا تاکہ کوئی انہیں چرا نہ سکے؟

    یہ قصہ ہے سترہویں صدی کا جب نایاب اور قدیم کتابوں کو چوری ہونے سے بچانے کے لیے زنجیروں سے منسلک کردیا جاتا تھا۔

    زنجیروں میں قید کتابوں پر مشتمل ایسی ہی ایک لائبریری اب بھی موجود ہے۔

    انگلینڈ کے علاقے ہرفورڈ کے کلیسا میں موجود یہ لائبریری اپنی نوعیت کی انوکھی لائبریری ہے۔ یہ کتب خانہ سنہ 1611 میں بنایا گیا اور یہاں 15 سو کتابیں موجود ہیں جو تمام نہایت قدیم اور نایاب ہیں۔

    یہی نہیں ان کتابوں کو آج بھی اسی طریقے سے رکھا جاتا ہے جیسے صدیوں قبل رکھا جاتا تھا، یعنی زنجیروں سے باندھ کر۔

    کتب خانے کی منتظم بتاتی ہیں کہ جس ترتیب سے کتاب شیلف میں رکھی جاتی ہے تو کتاب کا نام والا حصہ سامنے ہوتا ہے، اگر وہاں زنجیر باندھی جائے تو زنجیر باآسانی کھینچ کر کتاب پھاڑی جا سکتی ہے۔

    اس کے برعکس کتابوں کے سرورق کے کونے پر زنجیر منسلک کی جاتی ہے۔ اس زنجیر کے ساتھ کتاب کو اگر روایتی طریقے سے رکھا جائے تو زنجیر کھینچنے سے کتاب کے پھٹنے کا خدشہ ہے۔

    چنانچہ ان کتابوں کو شیلف میں الٹا رکھا جاتا ہے یعنی صفحات سامنے کی طرف ہوتے ہیں۔

    کتابوں کی پہچان کے لیے ہر شیلف کے ایک طرف کتابوں کی فہرست بھی موجود ہے تاکہ مطلوبہ کتاب باآسانی ڈھونڈی جاسکے۔

    منتظم کے مطابق گو کہ ان زنجیروں کو کھولنے کے لیے نئی چابیاں بنا لی گئی ہیں تاہم ہمارے پاس قدیم اور اصل چابی اب بھی موجود ہے۔

    کتب خانے میں موجود قدیم کتابیں زیادہ تر سترہویں صدی کی ہیں، تاہم کچھ ایسی بھی ہیں جو بارہویں صدی میں لکھی گئیں اور سترہویں صدی میں ان کی جلد سازی کی گئی۔

    ان کتابوں کا رسم الخط بھی قدیم ہے جو اب تبدیل ہوچکا ہے۔

    بعض کتابوں میں تصاویر بھی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرون وسطیٰ کی مصوری اور رنگوں کا استعمال کس طرح ہوتا تھا۔

    کیا آپ اس کتب خانے کا دورہ کرنا چاہیں گے؟

  • دنیا کی خوبصورت ترین لائبریری

    دنیا کی خوبصورت ترین لائبریری

    جمہوریہ چیک کا دارالحکومت پراگ یورپ کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اس شہر کی بنیاد تقریباً 880 عیسوی میں رکھی گئی تھی۔

    اس شہر میں بے شمار لائبریریز یا کتب خانے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک کتب خانہ کیلیمنٹیم لائبریری بھی ہے جسے اگر دنیا کی خوبصورت ترین لائبریری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

    مزید پڑھیں: یورپ کے خوبصورت ترین شہر پراگ کی سیر کریں

    گیارہویں صدی عیسوی میں تعمیر کیے جانے والے اس کتب خانے کا نام ایک مذہبی پیشوا سینٹ کلیمنٹ کا نام پر رکھا گیا ہے۔ پندرہویں صدی عیسوی میں یہاں ایک بدھ خانقاہ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔

    سنہ 1622 میں اس کتب خانے کو ایک جامعہ میں تبدیل کردیا گیا جو اس وقت عیسائی دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی قرار پائی۔

    مختلف نوع کی عمارات میں تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس مقام کے رقبے میں بھی توسیع کی جاتی رہی اور آج اسے یورپ میں سب سے زیادہ عمارات کا حامل رقبہ قرار دیا جاتا ہے۔

    یہاں موجود کتابوں میں کچھ کتابیں ایسی بھی ہیں جو قدیم دور کے اہم مذہبی رہنماؤں کے زیر مطالعہ رہیں۔ بعض کتابوں پر ان اہم شخصیات کے ہاتھ سے لگائے گئے نشانات بھی موجود ہیں۔

    لائبریری کے در و دیوار اور چھتوں پر خوبصورت نقش نگاری کی گئی ہے جس میں قدیم دور کا روایتی و مذہبی رنگ نمایاں ہے۔ چھت پر حضرت عیسیٰ کی شبیہہ سمیت کئی مذہبی رہنماؤں کی شبیہیں بھی یہاں کندہ ہیں۔

    اس کتب خانے کا بنیادی فن تعمیر تو گیارہویں صدی کا ہے، تاہم جیسے جیسے اس کے رقبے میں توسیع کی گئی، نئی بننے والی عمارات کو اس دور کے فن تعمیر کے مطابق بنایا گیا جس کے بعد اب یہ مختلف ادوار کی خوبصورت فن تعمیرات کا شاہکار معلوم ہوتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • انسانی لائبریری میں جیتی جاگتی کتابیں

    انسانی لائبریری میں جیتی جاگتی کتابیں

    لائبریری یا کتب خانے میں جانا، وہاں بیٹھ کر کتابیں پڑھنا اور وقت نہ ہونے کے باعث ان کتابوں کو مستعار گھر لے آنا، اور پھر پڑھ کر واپس کردینا تو ایک عام سی بات ہے، لیکن کیا آپ نے جیتی جاگتی کتابیں دیکھی ہیں جو خود آپ کو اپنی کہانی سنائیں؟

    سننے میں حیران کن بات لگتی ہے، مگر کئی مغربی ممالک میں اب ایسے ہی کتب خانوں کا رواج فروغ پا رہا ہے جسے انسانی کتب خانے یا ہیومن لائبریری کا نام دیا جاتا ہے۔

    یہ لائبریری عام کتب خانوں سے ہٹ کر ہے۔ یہاں انسان، کتابوں کی صورت آپ کا استقبال کریں گے اور اپنے تجربات سنا کر آپ کے علم اور مشاہدے میں اضافہ کریں گے۔

    library-2

    ان کتابوں سے آپ سوالات بھی کر سکتے ہیں۔ آخر ہیں تو یہ انسان، جیتے جاگتے، ہنستے روتے انسان۔

    ان کتب خانوں میں مختلف حوالہ جات سے کتابوں (انسانوں) کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: 100 سال قدیم تھیٹر عظیم الشان کتاب گھر میں تبدیل

    مثال کے طور پر اگر آپ کسی پناہ گزین کے بارے میں معلومات چاہتے ہیں، تو آپ کو کسی ایسے شخص کے ساتھ بٹھا دیا جائے گا جو خود پناہ گزین ہوگا۔

    library-4

    اسی طرح یہاں مختلف بیماریوں جیسے ایڈز یا آٹزم کا شکار، بے روزگار، زیادتی اور تشدد، تنہائی، ذہنی امراض اور زندگی کے دیگر تلخ تجربے سہنے والے افراد آپ کے منتظر ہوں گے کہ آپ آئیں اور وہ آپ کو اپنی زندگی کی کہانی سے آگاہ کریں۔

    یہاں آپ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد سے بھی مل کر اس شعبہ کی زندگی کے بارے میں جان سکتے ہیں۔

    library-3

    library-5

    یہاں داخلے کا طریقہ کار بھی عام لائبریریوں جیسا ہے۔ آپ لائبریری میں چیک ان کرتے ہیں، وہاں موجود افراد کے مختصر تعارف میں اپنی دلچسپی کے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں جس کے بعد لائبریرین آپ کو آپ کی مطلوبہ ’کتاب‘ سے ملوا دیتا ہے۔

    لائبریری میں وقت گزارنا یوں تو علم اور تجربے میں قیمتی اضافے کا سبب بنتا ہے، لیکن اس طرح کی لائبریری میں وقت گزارنا یقیناً ایک شاندار تجربہ ہوگا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چین میں 12 لاکھ کتابوں پر مشتمل خوبصورت لائبریری

    چین میں 12 لاکھ کتابوں پر مشتمل خوبصورت لائبریری

    بیجنگ: چین میں کتابوں کی عظمت کے شایانِ شان خوبصورت ترین لائبریری کا افتتاح کردیا گیا جسے دیکھ کر حصول علم کے متوالے حیران رہ گئے۔

    چین کے شہر تیانجن میں نہایت شاندار کتب خانہ تیار کیا گیا ہے جو خوبصورتی، ڈیزائن اور سہولت کا انوکھا شاہکار ہے۔

    پانچ منزلہ لائبریری میں 12 لاکھ کتابیں موجود ہیں جو دنیا بھر کے زبانوں اور ادب کی ہیں۔ کتب خانے کے مرکزی بیضوی انداز کے ہال کو درمیان سے دیکھنے پر آنکھ کا گمان ہوتا ہے۔

    یہاں لوگ کتابیں نہ بھی پڑھیں تب بھی گھوم پھر کر لائبریری ضرور دیکھتے ہیں۔

    جدید طرز کی اس لائبریری میں دفاتر اور میٹنگ رومز کے علاوہ کمپیوٹر، آڈیو اور ویڈیو کمرے بھی موجود ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دبئی کے ساحل پر قائم لائبریری

    دبئی کے ساحل پر قائم لائبریری

    مطالعے کے شوقین افراد جب تفریح کے لیے جاتے ہیں تب بھی انہیں مطالعے اور کتاب کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے افراد ساحل کنارے بھی ٹھنڈی ہوا میں لیٹ کر کتاب پڑھنا چاہتے ہیں۔

    ایسے ہی شوقین افراد کے لیے دبئی میں ساحل پر ایک کتب خانہ قائم کردیا گیا ہے جو اپنی نوعیت کا منفرد کتب خانہ ہے۔

    دبئی کے ساحل پر قائم اس لائبریری کا مقصد صرف مطالعے کے شوقین افراد کے لیے نہ صرف تفریح طبع کا سامان فراہم کرنا ہے بلکہ ساحل پر آنے والے دیگر افراد کو بھی مطالعے کی طرف راغب کرنا اور علم اور معلومات کا پھیلاؤ ہے۔

    یہ لائبریری دبئی کے پرکشش ساحل کو سیاحوں کے لیے مزید پرکشش بنانے کا سبب بھی ہیں۔

    یہاں عربی اور انگریزی زبان میں کتابیں رکھی گئی ہیں کہ تاکہ غیر ملکی سیاح بھی ان کتابوں کو پڑھ کر متحدہ عرب امارات کی تاریخ، ثقافت اور تمدن کے بارے میں جان سکیں۔

    دبئی کی مقامی حکومت کی جانب سے قائم کی جانے والی یہ بیچ لائبریری ماحول دوست بھی ہے۔ ان میں چھوٹے سولر پینل لگائے گئے ہیں جو دن بھر سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرتے ہیں اور رات میں اس بجلی سے یہاں لگی روشنیاں جل اٹھتی ہیں۔

    حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس نوعیت کی کم از کم 8 لائبریریاں قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں یہ پہلی لائبریری ہے۔

  • دنیا کی پہلی برفانی لائبریری

    دنیا کی پہلی برفانی لائبریری

    روس میں دنیا کی پہلی برفانی لائبریری کا افتتاح کردیا گیا۔ اس انوکھی لائبریری میں برف کی دیواروں پر مختلف اقوال و جملے لکھے گئے ہیں۔

    اپنی نوعیت کی منفرد اس لائبریری کے لیے دنیا بھر سے ہزاروں افراد نے اپنے پسندیدہ عبارات و منتخب جملے بھیجے جنہیں برف سے بنی دیواروں پر کندہ کیا گیا۔

    russia-6

    russia-2

    russia-4

    اس لائبریری میں انگریزی، روسی، کورین اور چینی زبان میں مختلف کتابوں سے لی گئی عبارتیں درج ہیں۔

    russia-3

    russia-5

    کھلے آسمان تلے سجائی جانے والی یہ لائبریری اپریل تک قائم رہے گی، اس کے بعد جب گرمیوں کا آغاز ہوگا تو یہ لائبریری پگھل جائے گی۔

  • سو سالہ قدیم تھیٹر عظیم الشان کتاب گھر میں تبدیل

    سو سالہ قدیم تھیٹر عظیم الشان کتاب گھر میں تبدیل

    آج کل کے دور میں کتاب خریدنا ایک آسان عمل بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود ڈھیروں سائٹس کے ذریعہ آپ گھر بیٹھے اپنی پسند کی کتاب نہایت موزوں قیمت پر منگوا سکتے ہیں۔ لیکن دنیا میں ایک بک شاپ ایسی بھی ہے جہاں لوگ کتاب خریدنے تو جاتے ہی ہیں لیکن صرف اسے دیکھنے کے لیے آنے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔

    یہ کتاب گھر یا بک شاپ ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس میں ہے جہاں ایک قدیم تھیٹر کو بک شاپ میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اب یہ جگہ تاریخ اور مطالعہ دونوں کے شوقین افراد کا مرکز بن چکی ہے۔

    book-8

    book-7

    دراصل یہ کتابوں کا ایک سپر اسٹور ہے جس کے اندر کتابوں کی 734 دکانیں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ یہاں پڑھنے کے لیے مختلف حصے بھی مخصوص کیے گئے ہیں۔

    book-5

    book-3

    سو سال قدیم یہ تھیٹر اپنے زمانے میں بھی فن و ادب کا مرکز رہا ہوگا جس کا اندازہ اس کے در و دیوار اور چھت پر کی گئی مصوری کو دیکھ کر ہوتا ہے۔

    book-9

    book-2

    تھیٹر سے بک شاپ میں تبدیل کرنے کے لیے اس پر ارجنٹینی ماہر تعمیر فرنینڈو مینزون نے کام کیا۔ فرنینڈو نے اس میں صرف الماریوں اور صوفوں کا اضافہ کیا جبکہ بقیہ تمام ساز و سامان ویسے کا ویسا ہی رہنے دیا۔

    book-4

    book-6

    اسٹور میں جانے والے افراد خوبصورت اسٹیج، ریشمی پردے، شاندار مصوری اور سلیقہ سے سجی لاکھوں کتابیں دیکھ کر سحر زدہ رہ جاتے ہیں۔