Tag: لالٹین

  • لالٹین کا جواب

    لالٹین کا جواب

    خواجہ حسن نظامی کو اردو ادب کے تاریخ میں کئی حیثیتوں سے یاد کیا جاتا رہے گا۔ وہ ایک ادیب و مؤرخ، انشا پرداز اور صحافی تھے جنھوں نے اپنی فکرِ‌ رسا اور نکتہ بینی کی عادت سے کئی ایسے مظاہر اور اشیاء کو بھی اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے جنھیں‌ ہم غیر اہم یا معمولی خیال کرسکتے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی کی نثر رواں، بے حد شگفتہ اور دل کش ہے اور ان کا انداز قاری کو متوجہ کرنے کی قوّت رکھتا ہے۔

    مشاہیرِ‌ اردو ادب کی بہترین اور لازوال تحریریں پڑھیے

    خواجہ صاحب کے زمانے میں‌ اجالا کرنے کے لیے لالٹین کا استعمال عام تھا جو بظاہر ایک سادہ اور معمولی چیز تھی، مگر جب خواجہ حسن نظامی کی خوش فکری نے اس پر توجہ کی تو یہ مختصر مگر نہایت پُراثر مضمون سامنے آیا۔ ملاحظہ کیجیے:

    ایک رات میں نے لالٹین سے پوچھا: کیوں بی! تم کو رات بھر جلنے سے کچھ تکلیف تو نہیں ہوتی؟

    بولی: آپ کا خطاب کس سے ہے؟ بتی سے، تیل سے، ٹین کی ڈبیہ سے، کانچ کی چمنی سے یا پیتل کے اس تار سے جس کو ہاتھ میں لے کر لالٹین کو لٹکائے پھرتے ہیں۔ میں تو بہت سے اجزا کا مجموعہ ہوں۔

    لالٹین کے اس جواب سے دل پر ایک چوٹ لگی ۔ یہ میری بھول تھی۔ اگر میں اپنے وجود کی لالٹین پر غور کر لیتا تو ٹین اور کانچ کے پنجرے سے یہ سوال نہ کرتا۔ میں حیران ہوگیا کہ اگر لالٹین کے کسی جزو کو لالٹین کہوں تو یہ درست نہ ہوگا اور اگر تمام اجزا کو ملا کر لالٹین کہوں تب بھی موزوں نہ ٹھہرے گا، کیونکہ لالٹین کا دم روشنی سے ہے۔ روشنی نہ ہو تو اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ مگر دن کے وقت جب لالٹین روشن نہیں ہوتی، اس وقت بھی اس کا نام لالٹین ہی رہتا ہے۔ تو پھر کس کو لالٹین کہوں۔

    جب میری سمجھ میں کچھ نہ آیا، تو مجبورا لالٹین ہی سے پوچھا: میں خاکی انسان نہیں جانتا کہ تیرے کس جزو کو مخاطب کروں اور کس کو لالٹین سمجھوں۔

    یہ سن کر لالٹین کی روشنی لرزی، ہلی، کپکپائی۔ گویا وہ میری ناآشنائی و نادانی پر بے اختیار کھلکھلا کر ہنسی اور کہا: "اے نورِ خدا کے چراغ، آدم زاد! سن، لالٹین اس روشنی کا نام ہے جو بتی کے سر پر رات بھر آرا چلایا کرتی ہے۔ لالٹین اس شعلے کو کہتے ہیں جس کی خوراک تیل ہے اور جو اپنے دشمن تاریکی سے تمام شب لڑتا بھڑتا رہتا ہے۔ دن کے وقت اگرچہ یہ روشنی موجود نہیں ہوتی لیکن کانچ اور ٹین کا پنجرہ رات بھر، اس کی ہم نشینی کے سبب لالٹین کہلانے لگتا ہے۔ تیرے اندر بھی ایک روشنی ہے۔ اگر تو اس کی قدر جانے اور اس کو پہچانے تو سب لوگ تجھ کو روشنی کہنے لگیں گے ، خاک کا پتلا کوئی نہیں کہے گا۔”

    دیکھو، خدا کے ولیوں کو جو اپنے پروودگار کی نزدیکی و قربت کی خواہش میں تمام رات کھڑے کھڑے گزار دیتے تھے، تو دن کے وقت ان کو نورِ خدا سے علیحدہ نہیں سمجھا جاتا رہا ، یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی ان کی وہی شان رہتی ہے۔ تو پہلے چمنی صاف کر۔ یعنی لباسِ ظاہری کو گندگی اور نجاست سے آلودہ نہ ہونے دے۔ اس کے بعد ڈبیا میں صاف تیل بھر۔ یعنی حلال کی روزی کھا، اور پھر دوسرے کے گھر کے اندھیرے کے لئے اپنی ہستی کو جلا جلا کر مٹا دے۔ اس وقت تو بھی قندیلِ حقیقت اور فانوسِ ربانی بن جائے گا۔”

  • الیکشن 2024: اے این پی کو انتخابی نشان الاٹ

    الیکشن 2024: اے این پی کو انتخابی نشان الاٹ

    اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عوامی نیشنل پارٹی کو انتخابی نشان لالٹین الاٹ کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن نے اے این پی کو انتخابی نشان لالٹین الاٹ کر دیا، نیز اس کی انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے مہلت کی درخواست بھی منظور کر لی۔

    اے این پی کو 10 مئی تک انٹرا پارٹی الیکشن کی مہلت دے دی گئی ہے، تاہم الیکشن کمیشن نے اے این پی پر اس تاخیر کے لیے 20 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کر دیا ہے۔

    یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کے سلسلے میں اسفندیار ولی کو نوٹس جاری کیا تھا، انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر الیکشن کمیشن نے 13 جماعتوں کو گزشتہ روز ڈی لسٹ کر دیا تھا۔

  • ماہ رمضان میں فانوس سے چراغاں کرنے کی خوبصورت اور قدیم روایت

    ماہ رمضان میں فانوس سے چراغاں کرنے کی خوبصورت اور قدیم روایت

    رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی تمام مسلمان ممالک میں رنگ و نور اور روشنیوں کی بہار آجاتی ہے۔ ہر ملک کے لوگ اپنے رواج اور طریقہ کار کے مطابق گلیوں، بازاروں اور عوامی مقامات کی سجاوٹ کرتے ہیں اور انہیں روشنیوں سے سجاتے ہیں۔

    مصر میں رمضان المبارک میں لالٹین جلانا اور ان سے چراغاں کرنا ایک نہایت قدیم اور خاص روایت ہے۔

    لالٹین جسے عربی میں فانوس بھی کہا جاتا ہے، یوں تو مصر میں سارا سال فروخت ہوتی ہے، لیکن رمضان المبارک میں اس کی فروخت میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ہر طرف گھروں اور بازاروں میں چھوٹے بڑے خوبصورت اور رنگین فانوس روشن نظر آتے ہیں۔

    فانوس سے چراغاں کی تاریخ

    قدیم مصری تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب فاطمی خلیفہ المعز الدین اللہ پہلی بار مصر آئے تو اہل مصر نے گلی کوچوں میں فانوس جلا کر ان کا استقبال کیا۔ یہ سنہ 969 عیسوی کا بتایا جاتا ہے۔

    یہ دن ماہ رمضان کا تھا اور بعض کتابوں میں یکم رمضان کا دن تھا۔

    اس وقت تک فانوس یا لالٹین کو صرف رات کے وقت گھر سے باہر نکلتے ہوئے روشنی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن خلیفہ کے استقبال کے بعد فانوس کا استعمال خوشی اور استقبال کا استعارہ بن گیا۔

    اس کے اگلے برس سے ماہ رمضان میں فانوسوں سے چراغاں کرنے کا رجحان شروع ہوا جو آگے چل کر ایک اہم رواج کی صورت اختیار کرگیا۔

    خلیفہ کی آمد کے کچھ عرصے بعد جب مصر میں فاطمی خلافت کا آغاز ہوا تو خلیفہ الحاکم نے حکم جاری کیا کہ لوگ اپنے گھروں اور دکانوں کے سامنے کی حصہ کی صفائی کریں اور رات کے وقت وہاں فانوس نصب کریں تاکہ گلیاں اور راستے روشن رہیں۔

    یہ فانوس ساری رات جلانے کا حکم تھا۔ اس حکم کی خلاف ورزی پر جرمانے بھی عائد کیے جاتے تھے۔

    ایک اور حکم خواتین کی سہولت کے لیے جاری کیا گیا کہ رات کے وقت خواتین اس وقت تک گھروں سے باہر نہ نکلیں جب تک ان کے ساتھ کوئی نو عمر لڑکا (یا مرد) لالٹین تھامے، انہیں روشنی دکھاتا ہوا ان کے ساتھ نہ چلے۔

    اس زمانے میں ماہ رمضان میں خواتین کے رات دیر تک گھروں سے باہر رہنے کا بھی رواج تھا۔

    یہ خواتین خاندان کی کسی ایک بزرگ خاتون کے پاس جمع ہوجاتیں اور اس محفل میں تاریخی قصے سنے اور سنائے جاتے۔ ہر گھر سے ایک خادم گھر کی خواتین کے ساتھ موجود ہوتا جو واپسی میں ان کے آگے روشن فانوس لے کر چلتا۔

    ساتھ ہی اس وقت گلیوں کے گشت پر معمور سپاہیوں کے لیے بھی فانوس کی موجودگی ضروری قرار دی گئی۔

    ان تمام احکامات نے فانوس سازی کے فن کو بطور صنعت پھیلانے کا آغاز کیا۔ فانوس بنانا باقاعدہ صنعت اور کاروبار کی شکل اختیار کرگیا اور اس میں وقت کے ساتھ جدتیں پیدا کی جانے لگیں جن کے تحت مختلف رنگ، جسامت اور ہیئت کے فانوس بنائے جانے لگے۔

    اب جبکہ جدید دور میں بجلی کی سہولت میسر ہے، تو فانوس ایک ضرورت سے زیادہ آرائش اور زیبائش کی شے بن گیا ہے تاہم ماہ رمضان میں فانوس جلانا مصر کی روایات کا اہم حصہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔

    مصر کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی فانوس اور لالٹین سے چراغاں کر کے ماہ رمضان کا استقبال کیا جاتا ہے۔

    مضمون بشکریہ: العربیہ ڈاٹ نیٹ

  • ماہ رمضان میں فانوس سے چراغاں کرنے کی قدیم روایت

    ماہ رمضان میں فانوس سے چراغاں کرنے کی قدیم روایت

    رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی تمام مسلمان ممالک میں رنگ و نور اور روشنیوں کی بہار آجاتی ہے۔ ہر ملک کےلوگ اپنے رواج اور طریقہ کار کے مطابق گلیوں، بازاروں اور عوامی مقامات کی سجاوٹ کرتے ہیں اور انہیں روشنیوں سے سجاتے ہیں۔

    مصر میں رمضان المبارک میں لالٹین جلانا اور ان سے چراغاں کرنا ایک نہایت قدیم اور خاص روایت ہے۔

    لالٹین جسے عربی میں فانوس بھی کہا جاتا ہے، یوں تو مصر میں سارا سال فروخت ہوتی ہے، لیکن رمضان المبارک میں اس کی فروخت میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ہر طرف گھروں اور بازاروں میں چھوٹے بڑے خوبصورت اوررنگین فانوس روشن نظر آتے ہیں۔


    فانوس سے چراغاں کی تاریخ

    قدیم مصری تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب فاطمی خلیفہ المعز الدین اللہ پہلی بار مصر آئے تو اہل مصر نے گلی کوچوں میں فانوس جلا کر ان کا استقبال کیا۔ یہ سنہ 969 عیسوی کا بتایا جاتا ہے۔

    یہ دن ماہ رمضان کا تھا اور بعض کتابوں میں یکم رمضان کا دن تھا۔

    اس وقت تک فانوس یا لالٹین کو صرف رات کے وقت گھر سے باہر نکلتے ہوئے روشنی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن خلیفہ کے استقبال کے بعد فانوس کا استعمال خوشی اور استقبال کا استعارہ بن گیا۔

    اس کے اگلے برس سے ماہ رمضان میں فانوسوں سے چراغاں کرنے کا رجحان شروع ہوا جو آگے چل کر ایک اہم رواج کی صورت اختیار کرگیا۔

    خلیفہ کی آمد کے کچھ عرصے بعد جب مصر میں فاطمی خلافت کا آغاز ہوا تو خلیفہ الحاکم نے حکم جاری کیا کہ لوگ اپنے گھروں اور دکانوں کے سامنے کی حصہ کی صفائی کریں اور رات کے وقت وہاں فانوس نصب کریں تاکہ گلیاں اور راستے روشن رہیں۔

    یہ فانوس ساری رات جلانے کا حکم تھا۔ اس حکم کی خلاف ورزی پر جرمانے بھی عائد کیے جاتے تھے۔

    ایک اور حکم خواتین کی سہولت کے لیے جاری کیا گیا کہ رات کے وقت خواتین اس وقت تک گھروں سے باہر نہ نکلیں جب تک ان کے ساتھ کوئی نو عمر لڑکا (یا مرد) لالٹین تھامے، انہیں روشنی دکھاتا ہوا ان کے ساتھ نہ چلے۔

    اس زمانے میں ماہ رمضان میں خواتین کے رات دیر تک گھروں سے باہر رہنے کا بھی رواج تھا۔

    یہ خواتین خاندان کی کسی ایک بزرگ خاتون کے پاس جمع ہوجاتیں اور اس محفل میں تاریخی قصے سنے اور سنائے جاتے۔ ہر گھر سے ایک خادم گھر کی خواتین کے ساتھ موجود ہوتا جو واپسی میں ان کے آگے روشن فانوس لے کر چلتا۔

    ساتھ ہی اس وقت گلیوں کے گشت پر معمور سپاہیوں کے لیے بھی فانوس کی موجودگی ضروری قرار دی گئی۔

    ان تمام احکامات نے فانوس سازی کے فن کو بطور صنعت پھیلانے کا آغاز کیا۔

    فانوس بنانا باقاعدہ صنعت اور کاروبار کی شکل اختیار کرگیا اور اس میں وقت کے ساتھ جدتیں پیدا کی جانے لگیں جن کے تحت مختلف رنگ، جسامت اور ہیئت کے فانوس بنائے جانے لگے۔

    اب جبکہ جدید دور میں بجلی کی سہولت میسر ہے، تو فانوس ایک ضرورت سے زیادہ آرائش اور زیبائش کی شے بن گیا ہے تاہم ماہ رمضان میں فانوس جلانا مصر کی روایات کا اہم حصہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔

    مصر کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی فانوس اور لالٹین سے چراغاں کر کے ماہ رمضان کا استقبال کیا جاتا ہے۔

    مضمون بشکریہ: العربیہ ڈاٹ نیٹ


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • تائیوان میں روشنیوں کا میلہ

    تائیوان میں روشنیوں کا میلہ

    تائی پے: موسم بہار کا آغاز ہوتے ہی تائیوان میں سالانہ لالٹین فیسٹیول کا آغاز ہوگیا۔ ہزاروں چمکدار روشنیوں سے رات میں دن کا سماں پیدا ہوگیا۔

    تائیوان میں آسمان سینکڑوں کاغذی لالٹینوں سے جگمگا اٹھا۔

    تائیوان میں قمری سال کو روایتی طور پر منایا گیا اور لوگوں نے روشنیوں سے سجی ہزاروں کاغذی لالٹینیں فضا میں اڑائیں جن سے رات کی تاریکی مدھم ہوگئی۔

    سینکڑوں افراد نے تھیلیوں پر نئے سال کے لیے اپنی خواہشات لکھیں اور نیچے آگ لگا فضا میں اڑا دیا۔

    روشنی سے جگمگاتے آسمان کے نظاروں سے بھرپور لطف اٹھانے کے لیے مقامی اور غیر مقامی افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔

    دیوہیکل روشنی کے مجسموں نے شہر کو بھی بقعہ نور بنا دیا۔ بچے بڑے سب ہی روشنیوں کے میلے میں خوش دکھائی دیے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چین میں رنگا رنگ روشنیوں کا میلہ

    چین میں رنگا رنگ روشنیوں کا میلہ

    چین میں سالانہ رائل لالٹین فیئر کا آغاز ہوگیا۔

    8

    7

    6

    ہر سال منائے جانے والے اس میلے میں سینکڑوں دیو ہیکل فن پارے شرکا کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔

    4

    3

    2

    جونہی رات ہوتی ہے، شہر دیوہیکل رنگ برنگی لالٹینوں سے جگمگا اٹھتا ہے۔

    5

    1

    روشنیوں کا یہ میلہ چینی کلینڈر کے 15 ویں دن یعنی فروری میں شروع ہونے والے لالٹین فیسٹیول تک جاری رہے گا۔