Tag: لال بیگوں

  • لال بیگوں کے آٹے سے پروٹین بھری ڈبل روٹی انسانی خوراک کے لیے تیار

    لال بیگوں کے آٹے سے پروٹین بھری ڈبل روٹی انسانی خوراک کے لیے تیار

    برازیلیا: برازیل کے تحقیقی ماہرین نے انسانی جسم میں موجود پروٹین کی کمی کو پورا کرنے کے لیے لال بیگوں والی ڈبل روٹی تیار کرلی جسے مستقبل میں عام خوراک کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق برازیل کی یونیورسٹی آف ریو گرانڈ نے اقوام متحدہ کی پیش گوئی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی ڈبل روٹی تیار کرلی جو مستقبل میں انسان استعمال کرسکیں گے۔

    تحقیقاتی ماہرین نے اقوام متحدہ کی آبادی سے متعلق رپورٹ کو سامنے رکھا جس میں کہا گیا تھا کہ سنہ 2050 تک کراہ ارض پر انسانوں کی آبادی 9 کھرب 70 ارب سے تجاوز کرسکتی ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اگر آبادی اتنی تعداد میں بڑھ گئی تو انسانی خوراک کی نہ صرف قلت ہوگی بلکہ قحط پڑجائے گا۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے خدشے کے باعث نہ صرف خوراک میں کمی ہوجائے گی بلکہ انسان کے درکار پروٹین کی مقدار کو فراہم کرنا بھی ناگزیر ہوجائے گا۔

    ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے برازیل کے تحقیقاتی ماہرین نے آٹے اور معدے میں لال بیگوں کو ملا کر ایسی ڈبل روٹی تیار کی جو انسانی جسم میں موجود پروٹین کی مقدار کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔

    مزید پڑھیں: رنگ گورا کرنے کی کریمز میں لال بیگوں کا استعمال

    محقق اندریسا جینزن کا کہنا تھا کہ ڈبل روٹی کے لیے گندگی میں بیٹھنے والے لال بیگ استعمال نہیں کیے گئے بلکہ پالتو ’لابسٹر‘ نامی لال بیگوں کو آٹے میں شامل کیا گیا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ابتدائی مرحلے میں شمالی افریقہ میں پائے جانے والے لال بیگوں کو لاکر آٹے کے ساتھ پیسا گیا، مارکیٹ میں ان لال بیگوں کی قیمت 51 ڈالر فی کلو ہے۔

    برازیل کے محققین کا کہنا تھا کہ پروٹین کی کمی کو ویسے تو دیگر کیڑوں کو استعمال کر کے بھی پورا کیا جاسکتا ہے مگر لال بیگوں کا چناؤ دو وجوہات کی بنا پر کیا گیا، پہلی تو یہ کہ ان میں سب سے زیادہ پروٹین موجود ہے اور دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ کراض ارض پر یہ لاکھوں سال سے موجود ہیں جو قدرتی طور پر اپنا ارتقائی عمل اور جنیاتی خصوصیات بھی رکھتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: چین نے تیس کروڑ امریکی لال بیگ کیوں پال لیے؟

    محققین کی جانب سے تیار کی جانے والی ڈبل روٹی کو جینزن نے پروٹین سے بھرپور قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس تیاری کے لیے استعمال ہونے والے آٹے میں 10 فیصد لال بیگوں کا استعمال کیا گیا جس سے پروٹین میں 133 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ایک عام ڈبل روٹی میں 9.7 گرام پروٹین ہوتے ہیں۔

    اندریسا کا کہنا تھا کہ ڈبل روٹی اور عام ڈبل روٹی میں کوئی خاص فرق نہیں کیونکہ ہم نے اس کی ساخت، خوشبو، رنگ اور ذائقے کا مشاہدہ کیا تو کوئی خاص تبدیلی نظر آئی البتہ کچھ کھانے والوں کو یہ مونگ پھلی کے ذائقے جیسے لگ سکتے ہیں۔

  • رنگ گورا کرنے کی کریمز میں لال بیگوں کا استعمال

    رنگ گورا کرنے کی کریمز میں لال بیگوں کا استعمال

    بیجنگ: چین کے ڈاکٹرز کی تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ جنوب مغربی صوبے سیچوان کے علاوہ مختلف علاقوں میں دوا ساز کمپنیاں اعلیٰ نسل کے امریکی لال بیگ کی افزائش کرکے سالانہ اربوں کاکروچ پیدا کررہی ہیں جن سے رنگ گورا کرنے کی کریمز سمیت مختلف ادویات تیار کی جاتی ہیں۔

    لال بیگ کو ویسے تو عام لوگ گندگی یا بیماری کی نشانی سمجھتے ہیں تاہم گزشتہ کچھ سالوں سے طبی ماہرین ایسی ادویات تیار کررہے ہیں جن میں لال بیگ شامل کیے جاتے ہیں۔

    ہانگ کانگ کے طبی جریدے میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق چین میں اس وقت انسانوں سے تین گنا زیادہ لال بیگ پائے جاتے ہیں جن کی افزائش مختلف دوا ساز کمپنیاں کرتی ہیں اور ان سے سالانہ لاکھوں ڈالر کماتی بھی ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق لال بیگوں کی افزائش اتفاقی نہیں بلکہ اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے، چین کے مغربی صوبے سیچوان کے شہر شیکچانگ میں ایک کمپنی ایسی ہے جو سالانہ اعلیٰ نسل کے اربوں امریکی لال بیگ مصنوعی طریقے سے پیدا کر کے اُن کی افزائش کرتی ہے اور پھر انہیں ذیابیطس سمیت مختلف بیماریوں کی ادویات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں:  چینی جوڑے کے سامان سے 200 زندہ لال بیگ برآمد

    چین کے ڈاکٹرز کی تنظیم ’گڈ ڈاکٹرز‘ کے صدر فیونینگ گینگ کا کہنا تھا کہ لال بیگ کی افزائش کرنے والی فیکٹریاں یومیہ ہزاروں کاکروچز مختلف اسپتالوں کو پہنچاتی ہیں جس کے عوض انہیں بھاری معاوضہ ملتا ہے۔

    فیونینگ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ملک میں لال بیگوں کو مار کر ذیابیطس، السر اور جلدی بیماریوں سے نجات کے لیے ادویات تیار کی جاتی ہیں جبکہ خواتین کی خوبصورتی کے لیے بنائی جانے والی کریمز میں بھی لال بیگ شامل ہوتے ہیں‘۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق چین کے وسطی صوبے ہینان میں بھی لال بیگوں کی افزائش اور انہیں فروخت کرنے کا کام پروان چڑھ رہا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق 30 کروڑ لال بیگوں کے لیے یومیہ 15 ٹن کچرا، ناقص غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔

    یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ غذائی کچرے اور کھانے کو حکومت کی جانب سے تیار کردہ عالیشان اور کثیر المنزلہ عمارتوں میں پھینکا جاتا ہے جہاں کروڑوں کی تعداد میں لال بیگ موجود ہیں۔

    چین کی مختلف دوا ساز کمپنیوں نے کھیلوں سے بڑے گراؤنڈ ان لال بیگوں کی افزائش کے لیے متعین کیے ہوئے ہیں جہاں سورج کی روشنی بالکل نہیں ہوتی اور اُن کے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔