Tag: لانگ کووڈ

  • ’طویل کرونا‘ یورپ کے لیے ڈراؤنا خواب، ایک کروڑ 70 لاکھ یورپی شکار

    ’طویل کرونا‘ یورپ کے لیے ڈراؤنا خواب، ایک کروڑ 70 لاکھ یورپی شکار

    ’طویل کرونا‘ یعنی لانگ کووِڈ یورپ کے لیے ڈراؤنا خواب بن گیا ہے، عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صرف یورپ میں ایک کروڑ 70 لاکھ افراد طویل کرونا کے شکار ہوئے۔

    ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق صرف یورپ میں ایک کروڑ 70 لاکھ افراد نے گزشتہ دو سال کے دوران لانگ کووڈ کا سامنا کیا ہے اور اب تک ان میں سے بیش تر افراد مرض کے اثرات سے باہر نہ نکل سکے ہیں۔

    خیال رہے کہ لانگ کووڈ یعنی طویل کرونا کی اصطلاح کرونا کے شکار ان مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو صحت یابی کے بعد بھی مختلف طبی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔

    طویل کرونا کا مطلب ہے کہ مریض کرونا سے صحت یابی کے بعد بھی 6 ماہ سے ڈھائی سال تک کرونا جیسی علامات سمیت دیگر طبی پیچیدگیوں میں مبتلا رہتا ہے، ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریبا 15 کروڑ افراد ایسے ہیں جو لانگ کووڈ کا شکار ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق طویل کرونا کا شکار زیادہ تر خواتین بن رہی ہیں، اور یورپ میں ہر تین میں سے ایک بالغ خاتون جب کہ ہر پانچ میں سے ایک بالغ مرد اس کا شکار ہوا۔

    خواتین میں بیماری کی علامات شدید دیکھی گئیں اور انھیں علامات کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث اسپتال بھی داخل کرانا پڑا۔

  • اومیکرون سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر

    اومیکرون سے صحت یاب افراد کے لیے اچھی خبر

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ کرونا وائرس کی قسم اومیکرون سے متاثر افراد میں لانگ کووڈ یعنی صحت یابی کے بعد بھی طویل عرصے تک اس کا علامات کا سامنا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی قسم اومیکرون پر کی جانے والی اب تک کی ایک مستند اور جامع تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ قسم سے صحت یاب ہونے والے افراد میں لانگ کووڈ سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

    دی لینسٹ میں شائع تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ اومیکرون سے متاثرہ افراد میں بھی لانگ کووڈ میں متاثر ہونے کے امکانات موجود ہیں مگر اس کی شرح دیگر قسموں سے کم ہے۔

    رپورٹ کے مطابق کنگز کالج لندن کے ماہرین کی جانب سے برطانیہ میں اومیکرون کی لہر کے دوران مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا اور ان کی صحت یابی کے بعد ان میں طویل عرصے تک رہنے والی علامات کو بھی دیکھا۔

    تحقیق کے دوران ماہرین نے اومیکرون سے قبل ڈیلٹا سمیت کرونا کی دیگر قسموں میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب ہونے والے افراد اور ان میں طویل عرصے تک رہنے والی علامات کو بھی جانچا۔

    ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ اومیکرون سے صحت یاب ہونے والے صرف 4 فیصد افراد میں صحت یابی کے کئی ماہ بعد کرونا کی علامات موجود رہیں، یعنی وہ لانگ کووڈ کا شکار رہے۔

    تاہم اومیکرون کے علاوہ ڈیلٹا یا دوسری قسموں سے صحت یاب ہونے والے 10 فیصد افراد طویل عرصے تک لانگ کووڈ کا شکار رہے۔

    ماہرین نے تحقیق کے دوران اومیکرون سمیت دیگر قسموں سے متاثر ہونے والے افراد کے مرض کے دورانیے کو بھی نظر میں رکھا۔

    سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ اگرچہ اومیکرون پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج حوصلہ کن ہیں، تاہم اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ اس سے لانگ کووڈ نہیں ہوتا۔

    یہاں یہ بات یاد رہے کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے متعدد افراد کو بیماری سے صحت یاب ہونے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جسے ماہرین نے لانگ کووڈ کا نام دیا ہے۔

  • کرونا کی طویل مدت علامات سے نجات کا آسان نسخہ

    کرونا کی طویل مدت علامات سے نجات کا آسان نسخہ

    امریکا میں حال ہی میں ایک اہم تحقیقی مطالعے کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ لانگ کووِڈ یعنی کرونا وائرس کی بیماری کی طویل مدت علامات سے نجات کا ایک آسان حل بھی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر کرونا مریضوں میں دیکھا گیا ہے کہ بیماری ختم ہونے کے بعد بھی انھیں طویل المیعاد علامات کا سامنا ہوتا ہے، جسے لانگ کووڈ کہتے ہیں۔

    پینینگٹن بائیومیڈیکل ریسرچ سینٹر کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر روزمرہ کے معمولات میں چہل قدمی یا ورزش کو معمول بنا لیا جائے تو لانگ کووِڈ سے منسلک علامات یعنی ڈپریشن اور ذیابیطس کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔

    طویل مدت کی علامات میں ذہنی صحت متاثر ہونے کے علاوہ انسولین کی سطح متاثر ہونا بھی شامل ہے، جس سے خون میں شوگر بڑھ جاتا ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے ایکسرسائز اینڈ اسپورٹس سائنس ریویوز میں شائع ہوئے ہیں، محققین نے لکھا کرونا بیماری کے باعث بننے والی جسمانی سوزش سے کچھ مریضوں میں طویل مدت علامات پیدا ہوتی ہیں، اس سے ورم اور تناؤ کا ایسا سائیکل بنتا ہے جو خلیات کے افعال روک دیتا ہے، اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جسمانی سرگرمیوں سے اس سائیکل کی روک تھام ہو سکتی ہے، جس سے کووڈ سے جڑے ڈپریشن اور ذہنی بے چینی یا گھبراہٹ میں کمی آ سکتی ہے۔

    محققین نے بتایا کہ تناؤ، مدافعتی ردِ عمل، ورم یا سوزش اور انسولین کی حساسیت کے سلسلے میں ورزش مثبت اثرات مرتب کرتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پہلے ثابت ہو چکا ہے کہ کم شدت والی ورزشیں جیسا کہ چہل قدمی سے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے اور انسولین کی حساسیت بحال ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایروبک ورزشیں انسولین کی حساسیت کو بہتر بنانے کے لیے زیادہ اچھی سمجھی جاتی ہیں تو دوسری طرف دوڑنا، سائیکل چلانا یا چہل قدمی ذہنی تناؤ کے حوالے سے زیادہ مددگار ہو سکتے ہیں۔ ماہرین نے بتایا کہ دن بھر میں 30 منٹ کی معتدل چہل قدمی کرنا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

  • کووڈ 19 اعصابی نقصان پہنچانے کا بھی سبب

    کووڈ 19 اعصابی نقصان پہنچانے کا بھی سبب

    کووڈ 19 جسم کے مختلف اعضا کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کے دیرپا نقصانات بھی ہوتے ہیں، حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ یہ مرض اعصابی نقصان پہنچانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے کچھ مریضوں کے اعصاب کو نقصان پہنچتا ہے جس سے تھکاوٹ، حسوں میں تبدیلیاں اور ہاتھوں و پیروں میں تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے مریضوں کے اعصاب کو بھی نقصان پہنچتا ہے، بظاہر یہ بیماری کے باعث مدافعتی نظام کو پہنچنے والے مسائل کا نتیجہ ہوتا ہے۔

    میساچوسٹس جرنل ہاسپٹل کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ ان ابتدائی رپورٹس میں سے ایک ہے جس میں لانگ کووڈ کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا جو کہ کووڈ بیماری کی طرح اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہمارے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ لانگ کووڈ کے کچھ مریضوں کے اعصاب کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ نقصان اعصابی خلیات کی اسمال فائبر اقسام کو پہنچتا ہے۔

    اس تحقیق میں لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے 17 افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں اعصابی مسائل کی تاریخ نہیں تھی۔

    نتائج میں دریافت ہوا کہ 59 فیصد مریضوں میں ٹیسٹ سے کم از کم اعصابی نقصان کی تصدیق ہوئی، دو فیصد میں مسلز کے اعصاب کو نقصان پہنچانے والے عارضے جبکہ 10 فیصد میں اسمال فائبر نیورو پیتھی کی تشخیص ہوئی جو دائمی درد کا باعث بنتی ہے۔

    ان افراد میں تھکاوٹ، کمزوری، حسوں میں تبدیلی، پیروں اور ہاتھوں میں تکلیف عام علامات تھیں۔

    علاج سے وقت کے ساتھ 52 فیصد مریضوں کی حالت بہتر ہوگئی مگر تمام علامات کا خاتمہ نہیں ہوا۔

    محققین نے بتایا کہ اگر لانگ کووڈ کی علامات میں وقت کے ساتھ بہتری نہ آئے یا وضاحت ممکن نہ ہو تو ڈاکٹر سے نیورو پیتھی کے امکانات پر بات کرنی چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ ماہرین ابھی کلینکل ٹرائلز نہیں کرپائے ہیں جس میں کووڈ کے بعد مخصوص نیورو پیتھی علاج کی جانچ پڑتال کی جاسکے مگر کچھ موجودہ ٹریٹمنٹس ممکنہ طور پر مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

  • لانگ کووڈ کا امکان بڑھانے والے عناصر

    لانگ کووڈ کا امکان بڑھانے والے عناصر

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہوجانے کے بعد بھی بعض افراد کو لانگ کووڈ کا سامنا ہوسکتا ہے، اب اس حوالے سے ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    سوئیڈش میڈیکل سینٹر، انسٹی ٹیوٹ فار سسٹمز بائیولوجی اور یونیورسٹی آف واشنگٹن اسکول آف میڈیسن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ 4 عناصر سے کووڈ کے مریضوں میں لانگ کووڈ کا امکان بڑھتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے خیال میں یہ ان اولین اہم کوششوں میں سے ایک ہے جس میں لانگ کووڈ کے پیچیدہ عمل کو سامنے لایا گیا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کے ممکنہ 4 عناصر میں سے ایک بیماری کے ابتدائی مراحل میں مریض کے خون میں کرونا وائرس آر این اے کی سطح ہے، جو بیماری کی شدت کی بھی ممکنہ عکاسی کرتی ہے۔

    اسی طرح دوسرا عنصر آٹو اینٹی باڈیز کی موجودگی ہے، یعنی ایسی اینٹی باڈیز جو جسم کے صحت مند ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔

    تیسرا عنصر ایپسٹین بر وائرس کا متحرک ہونا ہے جو نوجوانی میں غیر متحرک ہوجاتا ہے جبکہ آخری عنصر ذیابیطس ٹائپ 2 کا شکار ہونا ہے۔

    اس تحقیق کا آغاز مارچ 2020 میں ہوا تھا اور اس میں 18 سے 29 سال کی عمر کے 200 سے زیادہ ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا جو کووڈ کے باعث اسپتالوں میں 2 سے 3 ماہ تک زیرعلاج رہے۔

    ان مریضوں پر تحقیق لانگ کووڈ کی علامات جیسے تھکاوٹ اور دماغی دھند سے قبل شروع ہوگی تھی، جب لانگ کووڈ کی علامات کو رپورٹ کیا گیا تو ماہرین نے ان مریضوں کا گہرائی میں جاکر جائزہ لیا اور مختلف مراحل میں مختلف حیاتیاتی فیچرز کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق کے مطابق 37 فیصد مریض بیماری کو شکست دینے کے 2 سے 3 ماہ بعد بھی لانگ کووڈ کی 3 یا اس سے زیادہ علامات کو رپورٹ کرتے ہیں، 24 فیصد ایک یا 2 علامات جبکہ 39 فیصد نے کسی بھی علامت کا سامنا ہونے کو رپورٹ کیا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ جن افراد کو لانگ کووڈ کا سامنا تھا، ان میں سے 97 فیصد کو 3 یا 4 عناصر کو دریافت کیا گیا تو ہمارے خیال میں نتائج اس حوالے سے اہم ہیں۔

    تحقیق کے مطابق سب سے واضح عنصر آٹو اینٹی باڈیز ہوتا ہے جو لانگ کووڈ کے دو تہائی کیسز میں دریافت ہوا، باقی تینوں عناصر میں کوئی ایک ایک تہائی کیسز میں دریافت ہوا۔

    چونکہ تحقیق وبا کے ابتدائی ایام میں شروع ہوئی تھی تو دیگر عناصر جیسے ویکسین اور ڈیلٹا یا اومیکرون سے بریک تھرو انفیکشنز کا جائزہ نہیں لیا گیا تھا۔

  • کووڈ 19 سے معمولی بیمار ہونا بھی خطرے سے خالی نہیں

    کووڈ 19 سے معمولی بیمار ہونا بھی خطرے سے خالی نہیں

    کووڈ 19 کا مرض مختلف عمر کے افراد پر مختلف اثرات مرتب کرتا ہے، اب اسی حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے درمیانی عمر یا معمر مریضوں کی جسمانی نقل و حرکت اور افعال پر طویل المعیاد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    کینیڈا کی لونگی ٹیوڈنل اسٹڈی آن ایجنگ میں 24 ہزار 114 معمر اور درمیانی عمر کے افراد کا جائزہ لیا گیا جنہیں کووڈ 19 ہوا تھا، بیشتر افراد میں کووڈ کی شدت معمولی سے معتدل تھی اور انہیں اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا تھا مگر ان پر بیماری کے بعد منفی اثرات کا تسلسل برقرار رہا۔

    تحقیق میں بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ سے معمولی یا معتدل حد تک بیمار ہونے والے افراد کو بھی نگہداشت کی ضرورت ہوسکتی ہے حالانکہ ان کو اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت بھی نہیں پڑی تھی۔

    ان افراد کے ابتدائی گروپ میں شامل لگ بھگ 42 فیصد کی عمر 65 سال یا اس سے زیادہ تھی اور 51 فیصد خواتین تھیں۔

    ان افراد کی نقل و حرکت کو 3 جسمانی مشقوں سے جانچا گیا، جیسے ایک کرسی پر بیٹھنے کے بعد کھڑے ہونے، گھریلو کاموں میں شمولیت اور روزمرہ کی جسمانی سرگرمیاں۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے متعدد افراد کو ایروبک سرگرمیوں میں نمایاں چیلنجز کا سامنا کرتے دیکھا، دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ دیگر سخت سرگرمیاں جیسے بھاری وزن اٹھانے کے قابل تھے، مگر عام سرگرمیاں ان کے لیے مشکل ہوگئیں، یعنی کچھ دیر تک چلنا، سیڑھیاں چڑھنا یا سائیکل چلانا وغیرہ۔

    انہوں نے کہا کہ جسمانی نقل و حرکت پر یہ منفی اثرات محض عمر میں اضافے کا اثر نہیں تھے کیونکہ وہ دیگر کام کرنے کے قابل تھے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ کووڈ 19 سے نقل و حرکت کے مسائل مسلز، جوڑوں اور اعصاب پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، جبکہ لوگوں کو وزن منتقل کرنے، توازن اور اپنے بل پر چہل قدمی میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق کووڈ 19 کے اس طرح کے طویل المعیاد اثرات سے متاثر افراد کو زیادہ لمبے عرصے تک نگہداشت کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ طبی امداد کے بغیر سنگین کیسز میں مریضوں کو تھکاوٹ، ماحول سے کٹ جانے اور مسلز کے حجم میں کمی کا سامنا ہوسکتا ہے، جبکہ کم شدت والے کیسز میں لوگ اپنے بل پر ریکور ہوسکتے ہیں مگر طبی امداد کے بغیر اس میں طویل عرصہ لگ سکتا ہے۔

  • خواتین میں لانگ کووڈ زیادہ نقصان دہ ہوسکتا ہے

    خواتین میں لانگ کووڈ زیادہ نقصان دہ ہوسکتا ہے

    ایک نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والی خواتین کی جسمانی کارکردگی بیماری سے پہلے کی طرح بحال نہ ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    امریکا کی انڈیانا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کرونا وائرس کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد بنیادوں پر علامات کا سامنا کرنے والی خواتین ممکنہ طور پر ماضی کی طرح ورزش نہیں کرسکیں گی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کچھ خواتین نے کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی کو رپورٹ کیا، جس سے جسمانی سرگرمیوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والی خواتین میں دل اور پھیپھڑوں کے مسائل کی علامات کا تسلسل سانس لینے میں دشواری یا جوڑوں اور مسلز میں تکلیف کا باعث بنتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق مردوں میں کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں اور موت کی شرح زیادہ ہے مگر یہ پہلی بار ہے جب ایسے شواہد دریافت ہوئے جن کے مطابق بیماری کے بعد خواتین کو زیادہ جدوجہد کا سامنا ہوتا ہے۔

    سابقہ تحقیقی رپورٹس میں بھی بتایا گیا تھا کہ کووڈ کو شکست دینے کے بعد ہر 3 میں سے ایک خاتون کو طویل المعیاد علامات کے علاج کے لیے ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑا۔

    اس نئی تحقیق میں لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والی خواتین کو 6 منٹ تک چہل قدمی کرنے کا کہا گیا اور پھر دیکھا گیا کہ ایسا کرنے کے بعد ان کی دل کی دھڑکن کب تک معمول پر آتی ہے۔

    اس ٹیسٹ سے قبل ماہرین نے تمام رضا کاروں کی آرام کے وقت دھڑکن کی رفتار، بلڈ پریشر، خون میں آکسیجن کی مقدار اور سانس لینے میں دشواری کی جانچ پڑتال کم از کم 10 منٹ تک بیٹھے رہنے کے بعد کی تھی۔

    ٹیسٹ کے دوران خواتین کو ہر ممکن تیزرفتاری سے چہل قدمی کی ہدایت کی گئی تھی اور ٹیسٹ کے فوری بعد دھڑکن کی رفتار، خون میں آکسیجن کی مقدار، سانس لینے میں دشواری اور دیگر عناصر کا ایک بار پھر جائزہ لیا گیا۔

    پھیپھڑوں کی کسی بڑی بیماری، امراض قلب کی تاریخ یا تمباکو نوشی کرنے والی خواتین کو اس تجربے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

    نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین کا ماننا ہے کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والی خواتین کے لیے بحالی نو پروگرام کی ضرورت ہے، جس میں ان کے پھیپھڑوں کی کارکردگی کو دوبارہ بحال کرنے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔

    ان کا کہنا تھا کہ بالخصوص درمیانی عمر کی مریض خواتین کے لیے یہ بہت ضروری ہے کیونکہ عمر بڑھنے سے خواتین میں پھیپھڑوں کی بے قاعدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ عمر بڑھنے سے خواتین میں جسمانی معذوری کا خطرہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

  • خواتین میں لانگ کووڈ کا خطرہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ

    خواتین میں لانگ کووڈ کا خطرہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ

    کووڈ 19 کی شرح مردوں اور خواتین میں یکساں پائی جاتی ہے مگر حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ لانگ کووڈ کا خطرہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپان میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ خواتین میں کووڈ 19 کی طویل المعیاد علامات کا امکان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    نیشنل سینٹر فار گلوبل ہیلتھ اینڈ میڈیسن کی اس تحقیق میں بیماری کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد علامات یا لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد کے بارے میں جاننے کے لیے سروے کیا گیا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ خواتین میں بیماری سے ریکوری کے بعد کووڈ کی طویل المعیاد علامات جیسے تھکاوٹ اور سونگھنے یا چکھنے کی حسوں کے مسائل کا امکان مردوں سے زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق خواتین کو مردوں کے مقابلے میں طویل المعیاد بنیادوں پر تھکاوٹ کا تجربہ دگنا جبکہ بالوں کے گرنے کا سامنا 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں فروری 2020 سے مارچ 2021 کے دوران کووڈ 19 کو شکست دینے والے مریضوں سے سروے کیا گیا جس میں 457 افراد نے اپنی رائے دی۔

    سروے میں مختلف سوالات پوچھے گئے جیسے بیماری کی ابتدائی علامات اور ریکوری کے بعد طویل المعیاد علامات وغیرہ۔

    جب محققین نے ڈیٹا کا موازنہ کیا تو انہوں نے دریافت کیا کہ خواتین میں چکھنے کی حس سے متعلق مسائل کا امکان 60 فیصد جبکہ سونگھے کے مسائل کا امکان 90 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ سونگھنے اور چکھنے کی حسوں کے مسائل جوان افراد یا دبلے پتلے افراد میں زیادہ نظر آتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق 120 افراد یا 26 فیصد کو کووڈ کو شکست دینے کے بعد مختلف علامات کا سامنا 6 ماہ بعد بھی ہورہا تھا جبکہ 40 یا 9 فیصد میں لانگ کووڈ کا مسئلہ ایک سال بعد بھی موجود تھا۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ کووڈ 19 کی معمولی شدت سے متاثر کچھ مریضوں کو بھی طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوا۔

    محققین نے بتایا کہ مرد، بزرگوں اور موٹاپے کے شکار افراد میں بیماری کے ابتدائی مرحلے میں علامات کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر بیماری کے مابعد اثرات جیسے چکھنے کے مسائل سے محرومی کا خطرہ بالکل مختلف گروپس میں زیادہ ہوتا ہے، مگر اب تک لانگ کووڈ کی وجوہات معلوم نہیں۔

  • ہر 3 میں سے 1 مریض کو لانگ کووڈ کی علامت کا سامنا

    ہر 3 میں سے 1 مریض کو لانگ کووڈ کی علامت کا سامنا

    حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ہر 3 میں سے 1 مریض کو لانگ کووڈ کی ایک علامت کا سامنا ضرور رہتا ہے، تحقیق برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 3 میں سے ایک مریض کو لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

    لانگ کووڈ کے حوالے سے اب تک ہونے والے تحقیقی کام میں متعدد علامات کی نشاندہی ہوئی ہے جو بیماری کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی لوگوں کو متاثر کررہی ہوتی ہیں۔

    برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ (این آئی ایچ آر) اور آکسفورڈ ہیلتھ بائیو میڈیکل ریسرچ سینٹر (بی آر سی) کی اس تحقیق میں لانگ کووڈ کی جانچ پڑتال کے لیے امریکا میں کووڈ کو شکست دینے والے 2 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ افراد کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 37 فیصد مریضوں کو بیماری کی تشخیص کے 3 سے 6 ماہ بعد بھی لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت کا سامنا ہورہا تھا۔

    ان میں سانس کے مسائل، نظام ہاضمہ کے مسائل، تھکاوٹ، درد، ذہنی بے چینی یا ڈپریشن سب سے عام رپورٹ کی جانے والی علامات تھیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے تصدیق ہوتی ہے کہ ہر عمر کے کووڈ کے مریضوں کی بڑی تعداد کو ابتدائی بیماری کے 6 ماہ بعد بھی مختلف علامات کے باعث مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ایک تہائی سے زیادہ مریضوں میں 3 سے 6 ماہ بعد بھی لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت موجود تھی۔ بیماری کی شدت، عمر اور جنس لانگ کووڈ کے امکانات پر اثر انداز ہونے والے عناصر ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کی علامات کا امکان ان مریضوں میں زیادہ ہوتا ہے جو بیماری کے باعث ہسپتال میں زیر علاج رہے ہوں اور مردوں کے مقابلے میں خواتین میں اس کی شرح معمولی سی زیادہ ہوتی ہے۔

    لوگوں کو لانگ کووڈ کی کن علامات کا سامنا ہوسکتا ہے اس کا انحصار بھی مختلف عناصر ہر ہوتا ہے، مثال کے طور پر معمر افراد اور مردوں کو سانس کی مشکلات اور دماغی مسائل کی علامات کا زیادہ سامنا ہوتا ہے، جبکہ جوان افراد اور خواتین کی جانب سے سر درد، معدے کے مسائل، ذہنی بے چینی یا ڈپریشن کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جن افراد کو کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہنا پڑتا ہے ان میں دماغی مسائل جیسے ذہنی دھند اور تھکاوٹ کا امکان دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح جن افراد کو ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی، ان میں سردرد کی شکایت زیادہ عام ہوتی ہے۔

    ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ متعدد مریضوں میں لانگ کووڈ کی علامات کی تعداد ایک سے زیادہ ہوتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ فلو سے صحتیاب ہونے والے مریضوں میں بھی اس طرح کی علامات ظاہر ہوتی ہیں یا نہیں۔

    تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ فلو کے مریضوں میں بھی علامات لانگ کووڈ کے کچھ مریضوں کی طرح طویل المعیاد مدت تک برقرار رہتی ہیں، مگر فلو کے مریضوں کی طویل المعیاد علامات کی شدت زیادہ نہیں ہوتی۔

  • کیا بچوں کو بھی لانگ کووڈ ہوسکتا ہے؟

    کیا بچوں کو بھی لانگ کووڈ ہوسکتا ہے؟

    بچوں میں کرونا وائرس کے خطرات کے حوالے سے مختلف تحقیقات کی جاتی رہی ہیں اب حال ہی میں ایک اور تحقیق میں بچوں میں لانگ کووڈ کے حوالے سے معلومات ملی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 7 میں سے ایک بچے کو صحت یابی کے کئی ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    لندن کالج یونیورسٹی اور پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ بچوں میں کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر وہ طویل المعیاد علامات کا سامنا کر سکتے ہیں۔

    یہ اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے جس میں بچوں میں لانگ کووڈ کی شرح کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 11 سے 17 سال کے جن بچوں میں وائرس کی تصدیق ہوتی ہے ان میں 15 ہفتے بعد 3 یا اس سے زیادہ علامات کا امکان اس عمر کے کووڈ سے محفوظ افراد سے دگنا زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں جنوری سے مارچ کے دوران 11 سے 17 سال کی عمر کے 3065 کووڈ مریضوں کا موازنہ اسی عمر کے 3739 بچوں سے کیا گیا جن کا کووڈ ٹیسٹ منفی رہا تھا ان کا ڈیٹا کنٹرول گروپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔

    جن کا کووڈ ٹیسٹ مثبت رہا ان میں سے 14 فیصد نے 15 ہفتوں بعد 3 یا اس سے زیادہ علامات جیسے غیرمعمولی تھکاوٹ یا سردرد کو رپورٹ کیا، کنٹرول گروپ میں یہ شرح 7 فیصد تھی۔

    ماہرین نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ہزاروں بچوں یا نوجوانوں میں کووڈ کے 15 ہفتوں بعد متعدد علامات موجود ہوسکتی ہیں، مگر اس عمر کے گروپ میں لانگ کووڈ کی شرح توقعات سے کم ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے۔