Tag: لانگ کووڈ

  • کووڈ 19 سے معمولی بیمار افراد کے لیے بری خبر

    کووڈ 19 سے معمولی بیمار افراد کے لیے بری خبر

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد اس کی علامات لمبے عرصے تک مریضوں کو متاثر کرسکتی ہیں، اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سوئیڈن میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس سے معمولی حد تک بیمار ہونے والے ہر 10 میں سے ایک مریض کو صحت یابی کے بعد طویل المعیاد بنیادوں پر کم از کم ایک معتدل یا سنگین علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

    کیرولینسکا انسٹیٹوٹ اور ڈینڈرئیڈ ہاسپٹل کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ان طویل المعیاد علامات میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی اور تھکاوٹ سب سے عام ہے۔

    اس تحقیق پر سنہ 2020 کے وسط سے کام ہو رہا تھا جس کا مقصد کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد بیماری کے خلاف مدافعت کی مدت کو جاننا تھا۔ تحقیق کے پہلے مرحلے میں ڈینڈرئیڈ ہاسپٹل کے 2149 ملازمین کے خون کے نمونے اکٹھے کیے گئے جن میں سے 19 فیصد میں کرونا وائرس سے بننے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا۔

    محققین کی جانب سے ہر 4 ماہ بعد خون کے نمونے اکٹھے کیے گئے اور رضا کاروں سے طویل المعیاد علامات اور زندگی کے معیار پر اثرات سے متعلق سوالات کے جوابات حاصل کیے گئے۔

    جنوری 2021 میں تیسرے فالو اپ کے دوران تحقیقی ٹیم نے کم از کم 8 ماہ قبل کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں طویل المعیاد علامات کی موجودگی اور سماجی، گھریلو اور پیشہ وارانہ زندگی پر مرتب اثرات کا تجزیہ کیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ 19 سے معمولی حد تک بیمار ہوکر اسے شکست دینے والے 26 فیصد افراد کو کم از کم ایک معتدل سے سنگین علامت کا سامنا ہوا جو 2 ماہ سے زیادہ عرصے تک برقرار رہی۔

    11 فیصد افراد کو سماجی، گھریلو یا پیشہ وارانہ زندگی میں کم از کم ایک علامت کی وجہ سے منفی اثرات کا تجربہ ہوا۔ سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، تھکاوٹ اور نظام تنفس کے مسائل سب سے عام علامات تھیں۔

    محققین نے بتایا کہ ہم کووڈ 19 سے معمولی بیمار ہونے والے افراد میں طویل المعیاد علامات کی موجودگی پر کام کر رہے تھے اور تحقیق میں شامل افراد جوان اور صحت مند گروپ کا حصہ تھے جو ملازمتیں کررہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے دریافت کیا کہ سب سے نمایاں طویل المعیاد علامات میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، تھکاوٹ اور نظام تنفس کے مسائل تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دماغی علامات جیسے ذہنی دھند، یادداشت اور توجہ مرکوز کرنے کے مسائل، مسلز اور جوڑوں میں تکلیف، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی یا بخار کی شرح میں کوئی اضافہ دریافت نہیں کیا۔

  • کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کا سامنا کن افراد کو رہتا ہے؟

    کووڈ 19 سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کا سامنا کن افراد کو رہتا ہے؟

    کرونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد کو طویل عرصے تک اس کی علامات کا سامنا رہتا ہے اور حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ہر 10 میں سے 3 مریض ان علامات کا سامنا کرتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں علم ہوا کہ کووڈ سے متاثر ہر 10 میں سے ایک مریض کو 3 یا اس سے زیادہ مہینے تک کووڈ کی علامات کا سامنا ہوتا ہے اور ان میں تھکاوٹ سب سے عام ہے۔

    ایسے مریضوں کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جن میں بیماری کی علامات صحت یابی کے بعد بھی کئی ماہ تک موجود رہتی ہیں۔

    برطانیہ کے نیشنل انسٹی ٹوٹ فار ہیلتھ ریسرچ (این آئی ایچ آر) کی اس تحقیق میں متعدد تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیق میں انتباہ کیا گیا کہ کووڈ کے ایسے مریضوں کے اعضا پر طویل المعیاد منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جن کو بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا تھا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ ممکنہ طور پر 4 مختلف سنڈرومز کا مجموعہ ہوسکتا ہے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان سنڈرومز میں پوسٹ انٹینسیو کیئر سنڈروم، اعضا کو طویل المعیاد نقصان، پوسٹ وائرل سنڈروم اور ایک نیا سینڈروم شامل ہے جو دیگر سے مختلف الگ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ لانگ کووڈ ایک متحرک بیماری ہے، ماہرین کا کہنا تھا کہ اس تجزیے سے بیماری کے مختلف پیٹرنز کو سمجھنے میں مدد ملے گی، مگر ہمیں اس کی ہر وجہ کو جاننے کی ضرورت ہے، ہمیں مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے کہ یہ علامات کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم 10 فیصد افراد کو لانگ کووڈ کی ایک علامت کا سامنا 3 ماہ بعد بھی ہوتا ہے، مگر ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کا عمل محدود ہونے کے باعث ہوسکتا ہے کہ یہ شرح زیادہ ہو۔

  • کووڈ 19 کا مریض کب تک بیمار رہ سکتا ہے؟

    کووڈ 19 کا مریض کب تک بیمار رہ سکتا ہے؟

    لندن: برطانوی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ کووڈ 19 کا شکار افراد کو اس کی علامات کا 6 ماہ تک سامنا ہوسکتا ہے، لانگ کووڈ کی متعدد علامات کا آغاز بیماری کے ایک ماہ بعد ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ لانگ کووڈ کے شکار بیشتر افراد کو کووڈ کی علامات کا سامنا 6 ماہ بعد بھی ہورہا ہے اور ان کی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔

    لندن کالج یونیورسٹی کی تحقیق میں 56 ممالک کے 3 ہزار 762 افراد کو ایک سروے کا حصہ بنایا گیا تھا جو جون سے قبل کووڈ 19 کا شکار ہوئے تھے اور ان میں بیماری 28 دن سے زیادہ عرصے تک برقرار رہی تھی۔

    تحقیق کے ابتدائی نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تحقیق میں شامل 93 فیصد افراد بیماری کے 6 سے 7 ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کر رہے تھے۔

    اس سروے میں شامل افراد سے پوچھا گیا کہ انہیں 205 میں سے کسی علامت کا سامنا تو نہیں۔

    تحقیق میں 40 فیصد سے زائد افراد نے دماغی دھند اور مسلز میں تکلیف جیسی علامات کی شکایت کی، جس میں کوئی بہتری اتنے عرصے میں نہیں آئی، محققین کے مطابق لانگ کووڈ کی متعدد علامات کا آغاز بیماری کے ایک ماہ بعد ہوتا ہے۔

    رواں ماہ ہی برطانیہ کے محکمہ شماریات نے لانگ کووڈ کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے شکار ہر 10 میں سے ایک فرد کو اس بیماری کی علامات کا سامنا 12 ہفتے یا اس سے بھی زائد عرصے تک ہوتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے برطانیہ کے لاکھوں افراد کے انفیکشن سروے کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا اور دریافت کیا گیا کہ نومبر 2020 کے آخری ہفتے کے دوران ملک میں ایک لاکھ 86 ہزار افراد کو لانگ کووڈ کی علامات کا سامنا تھا، جن کا دورانیہ 5 سے 12 ہفتے کے درمیان تھا۔

    سب سے عام علامت تھکاوٹ تھی جس کے بعد کھانسی، سر درد، سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی، گلے کی سوجن، بخار، سانس لینے میں مشکلات، متلی، ہیضہ اور پیٹ درد نمایاں تھے۔

    اس رپورٹ کے حوالے سے ایکسٹر میڈیکل اسکول کے ڈاکٹر ڈیوڈ اسٹرین کا کہنا تھا کہ ابتدائی ڈیٹا تشویشناک ہے۔

    ڈاکٹر ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ اس ڈیٹا سے ہمیں پپچیدگیوں کے بارے میں تفصیلات ملتی ہیں، مثال کے طور پر کووڈ 19 کے مریضوں میں ہارٹ اٹیک، فاللج یا ہارٹ فیلیئر کا خطرہ کسی اور بیماری کے باعث اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ ہوتا ہے، جبکہ ذیابیطس یا گردے کے امراض میں مبتلا ہونے کا امکان بالترتیب 9 اور 10 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ یہ وائرس نظام تنفس کی کوئی عام بیماری نہیں بلکہ یہ ملٹی سسٹم مرض ہے۔

  • کووڈ 19 کے دیرپا اثرات، کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے ایک اور تشویشناک خبر

    کووڈ 19 کے دیرپا اثرات، کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے ایک اور تشویشناک خبر

    لندن: کرونا وائرس کے آغاز سے ہی اس کے اثرات اور نقصانات سامنے آرہے ہیں، اب حال ہی میں ماہرین نے ایک اور تشویشناک امر کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑوں کو کئی ماہ بعد بھی نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق میں 10 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ایسی نوول اسکیننگ تکنیک کا استعمال کیا گیا جو پھیپھڑوں کو پہنچنے والے ایسے نقصان کو شناخت کرسکیں جو روایتی اسکین سے ممکن نہیں۔

    اس مقصد کے لیے ایک گیس xenon کو ایم آر آئی اسکینز استعمال کر کے پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کی تصاویر تیار کی گئیں۔ تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 19 سے 69 سال کے درمیان تھی اور ان میں سے 8 کو ابتدائی بیماری کے 3 ماہ بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔

    ان میں سے کسی کو بھی بیماری کے دوران آئی سی یو میں داخل کرانے یا وینٹی لیشن کی ضرورت نہیں پڑی تھی جبکہ روایتی اسکینز میں بھی پھیپھڑوں میں کوئی مسائل دریافت نہیں ہوئے تھے۔

    نئی تکنیک سے اسکینز سے ان مریضوں میں پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کے آثار دریافت کیے گئے، جہاں سے ہوا آسانی سے خون میں شامل نہیں ہورہی تھی اور اسی وجہ سے انہیں سانس لینے میں مشکلات کا سامنا تھا۔

    اب تحقیقی ٹیم کی جانب سے سو مریضوں کو ٹرائل کا حصہ بنا کر دیکھا جائے گا کہ جن افراد کو کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا نہیں ہوا یا اسپتال میں داخل نہیں ہوئے، ان کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا یا نہیں۔

    اس تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو نقصان تو نہیں پہنچتا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا یہ مستقل ہے یا وقت کے ساتھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی حد تک پھیپھڑوں کو نقصان پہنچنے کی توقع تھی مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی زیادہ ہوگی جتنی ہم نے دیکھی۔

    انہوں نے بتایا کہ ویسے تو کوویڈ 19 کی سنگین شدت اور موت کا خطرہ 60 سال سے زائد عمر افراد میں زیادہ ہوتا ہے، مگر ہمارے ٹرائل میں دریافت کیا گیا کہ ہر عمر کے گروپ میں پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر نئے اسکین سے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصان کی شناخت ہوگئی تو یہ ممکنہ طور پر لانگ کووڈ کے پیچھے چھپا ایک عنصر ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں بیماری سے صحت یابی کے کئی ماہ بعد بھی لوگوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔