Tag: لاپتا شہری

  • گمشدہ شہری کے حوالے سے پولیس کو کیا کرنا چاہیے؟ عدالت کو بتانا پڑ گیا

    گمشدہ شہری کے حوالے سے پولیس کو کیا کرنا چاہیے؟ عدالت کو بتانا پڑ گیا

    کراچی: 2017 سے گمشدہ شہری کی بازیابی سے متعلق کیس میں عدالت نے پولیس افسر کو جھاڑ پلا دی، اور شہری کے حوالے سے اہم ہدایات جاری کر دیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں 2017 سے لاپتا شہری کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، وکیل نے عدالت کو بتایا کہ محمد یوسف تھانہ سائٹ بی ایریا کی حدود سے گم ہوا، گمشدہ شہری کے 3 بچے ہیں اور کوئی کمانے والا نہیں ہے۔

    تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ گمشدہ محمد یوسف کے خلاف 3 مقدمات درج ہیں، لیکن عدالت نے آئی او سے استفسار کیا کہ آپ کے پولیس رولز کیا کہتے ہیں، کبھی پڑھتے ہیں؟ عدالت نے تفتیشی افسر کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کبھی زحمت بھی کی پولیس رولز پڑھنے کی؟

    جج نے کہا گمشدہ شہری اگر ملزم ہے تو اسے ڈھونڈ کر گرفتار کیا جائے، شہری کا خاندان بھی کہہ رہا ہے کہ اگر کسی نے قتل کر دیا ہے تو لاش تو ملے، عدالت نے 2018 میں ججمنٹ دی تھی کہ ملزمان کا ڈیٹا ویب سائٹ یا ایپ پر رکھا جائے۔

    جج نے کہا کہ ملزم مارا گیا ہو یا گرفتار ہو تو اس سے متعلق معلومات ایپ پر ہونی چاہئیں، عدالت نے پولیس کے تفتیشی افسر کو 2018 کی ججمنٹ کا جائزہ لینے کی ہدایت کی اور سیکریٹری سوشل ویلفیئر، سیکریٹری زکوٰۃ ویلفیئر و دیگر کو نوٹسز جاری کر دیے۔

    سندھ ہائی کورٹ نے فریقین کو لاپتا شہری کے اہلخانہ کی مالی معاونت کا بھی حکم دیا، اور 15 دن میں عمل درآمد رپورٹ طلب کر لی۔

  • 11 سال سے لاپتا شہری کو عدالت میں پولیس نے پاگل قرار دے دیا، والد کی آہ و زاری

    11 سال سے لاپتا شہری کو عدالت میں پولیس نے پاگل قرار دے دیا، والد کی آہ و زاری

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں 11 سال سے لاپتا شہری سمیت 15 سے زائد لاپتا شہریوں کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ درخواستوں کی سماعت جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی، ملیر کے علاقے سے لاپتا حبیب خان کے بزرگ والد عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت کے دوران شہری کے والد نے آہ و زاری کرتے ہوئے کہا میں 11 سال سے پولیس اسٹیشنز اور عدالتوں کے دھکے کھا رہا ہوں، اب تک کہیں سے انصاف نہیں ملا۔ انھوں نے بتایا 2011 میں حبیب خان ڈیوٹی سے گھر واپس آرہا تھا، اسی دوران اسے راستے سے غائب کر دیا گیا۔

    مدعی نے عدالت کو بتایا میرا بیٹا تاحال لاپتا ہے اب تک پولیس کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے، 11 سال سے ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے، کیا انھوں نے اللہ کو جواب نہیں دینا؟

    عدالت نے کہا کہ بتایا جائے شہری کی بازیابی کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ جے آئی ٹیز میں ان کو بلایا جاتا ہے تو یہ جے آئی ٹی اجلاس میں نہیں آتے۔ تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے بیٹے کا دماغی توازن سہی نہیں تھا۔ اس پر شہری کے والد نے کہا کہ جے آئی ٹی اجلاس کے لیے ہمیں بتایا تک نہیں جاتا اور ہماری کالز کا بھی جواب نہیں دیا جاتا۔ عدالت نے کہا کہ اب جے آئی ٹی ہوگی تو یہ خود آپ سے رابطہ کریں گے۔

    پولیس نے عدالت کو بتایا کہ جنید احمد نیو کراچی کے علاقے سے، حبیب خان ملیر کے علاقے سے، طارق خان عوامی کالونی اور دیگر شہری کراچی کے مختلف علاقوں سے لاپتا ہیں۔ حبیب خان سمیت دیگر شہریوں کی بازیابی کے لیے متعدد جے آئی ٹی اجلاس اور پی ٹی ایف سیشنز ہو چکے ہیں۔ شہریوں کی بازیابی کے لیے ملک بھر کی ایجنسیوں اور حراستی مراکز کو خطوط ارسال کیے گئے ہیں۔

    عدالت نے ایف آئی اے سے گم شدہ شہریوں کی ٹریول ہسٹری طلب کر لی، عدالت نے جے آئی ٹیز اور پی ٹی ایف سیشنز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ بھی طلب کر لی، عدالت نے درخواستوں کی سماعت 30 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

  • 70 لاکھ اغوا برائے تاوان کیس میں شہری کو ایف آئی آر کے لیے عدالت جانا پڑ گیا

    70 لاکھ اغوا برائے تاوان کیس میں شہری کو ایف آئی آر کے لیے عدالت جانا پڑ گیا

    کراچی: 70 لاکھ تاوان کے لیے اغوا ہونے والے شہری محمد صدیق کے کیس اندراج کے لیے مدعی کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں کراچی سے لاپتا شہری کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، درخواست کی سماعت جسٹس کوثر سلطانہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔

    درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ محمد صدیق 26 جون کو شام 6 بجے کسی کام کے سلسلے میں گھر سے نکلا تھا، اس دن سے وہ گھر واپس نہیں آیا، جب کہ پولیس نے تاحال مقدمہ درج نہیں کیا۔ وکیل نے مزید بتایا کہ چند روز قبل شہری کے والد اعظم گل کو کسی نمبر سے کال آئی تھی، جس میں 70 لاکھ تاوان کی ڈیمانڈ کی گئی ہے۔

    عدالت نے کہا کہ جس نمبر سے کال آئی تھی وہ نمبر پولیس کو فراہم کر دیں تاکہ وہ ٹریس آوٴٹ کر سکیں، عدالت نے درخواست گزار وکیل کو متعلقہ نمبر پولیس کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے متعلقہ پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے درخواست کی مزید سماعت 2 ہفتوں تک ملتوی کر دی ہے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا وفاقی حکومت کو لاپتا شہری کے والد کو 30 لاکھ معاوضہ دینے کا حکم

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا وفاقی حکومت کو لاپتا شہری کے والد کو 30 لاکھ معاوضہ دینے کا حکم

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے 15 سال سے خیبر پختونخواہ کے لاپتا شہری ہارون محمد کی بازیابی کی درخواست پر بڑا حکم جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو کے پی سے لاپتا شہری ہارون محمد کے والد کو 30 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا حکم دے دیا ہے۔

    عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت سے قبل حکومت درخواست گزار لاپتا شہری کے والد کو معاوضہ ادا کر دے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے بذریعہ سیکریٹری داخلہ آئی جی خیبر پختونخوا کو بھی ہدایات جاری کیں۔

    ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کی فیملی کو مقدمہ لڑنے پر دھمکیاں مل رہی ہیں، جس پر عدالت نے آئی جی خیبر پختونخوا کو ہدایت کی کہ درخواست گزار کو سیکیورٹی فراہم کی جائے، اور سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

    اس کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت کے سامنے پیش ہوئے، درخواست گزار کی جانب سے ایمان زینب مزاری عدالت میں پیش ہوئیں، سماعت کے بعد عدالت نے کیس کی اگلی سماعت دو ہفتے تک ملتوی کر دی۔

  • انصاف نہیں کر سکتے تو عدالتیں بند کر دیں، لاپتا شہری سمیر آفریدی کی والدہ کی جج کے سامنے دہائی

    انصاف نہیں کر سکتے تو عدالتیں بند کر دیں، لاپتا شہری سمیر آفریدی کی والدہ کی جج کے سامنے دہائی

    کراچی: سندھ ہائیکورٹ میں لاپتا شہری سمیر آفریدی کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، عدالت نے کیس میں سیکریٹری داخلہ سندھ کو فوری طلب کر لیا۔

    8 سال سے لاپتا شہری سمیر آفریدی کیس میں عدالت نے متعلقہ ڈی آئی جی انوسٹیگیشن کو بھی طلب کرتے ہوئے وفاقی سیکریٹری داخلہ سے بھی رپورٹ طلب کر لی۔

    عدالت نے کہا کہ جب جبری گمشدگی کا تعین ہو چکا ہے تو بتایا جائے کہ بندہ کس ادارے کے پاس ہے؟

    لاپتا شہری کی بزرگ والدہ نے کمرہ عدالت میں دہائیاں دیتے ہوئے کہا کہ اگر انصاف نہیں کر سکتے اور سچائی سامنے نہیں لا سکتے تو عدالتیں بند کر دیں۔ والدہ نے بتایا ’’میں بیٹے کی بازیابی کے لیے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہوں، میری ایک ٹانگ بھی کاٹ دی گئی ہے، بیٹے کے بچے جیتے جی یتیم ہو گئے ہیں۔‘‘

    سرکاری وکیل نے کہا کہ سمیر آفریدی جبری طور پر لا پتا ہے، جے آئی ٹیز اور ٹاسک فورس اجلاس میں تعین ہو چکا ہے۔ سمیر آفریدی کی والدہ نے دہائی دی کہ ’’سب سے بڑی دہشت گرد تو حکومت خود ہے۔‘‘

    نمائندہ سرکار نے عدالت کو بتایا کہ سمیر آفریدی کا پتا کرنے کے لیے ملک بھر کے آئی جیز کو خطوط لکھے گئے ہیں، حراستی مراکز کے علاوہ وزارت داخلہ اور دفاع سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔

    جسٹس نعمت اللہ نے کہا کہ عدالت درخواست گزار سے اظہار ہمدردی کرتی ہے، عدالت آپ کے بیٹے کی بازیابی کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ عدالت نے پیش کی گئی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ کو فوری طلب کر لیا۔

  • لاپتا شہری اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش، اہم بیان دے دیا

    لاپتا شہری اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش، اہم بیان دے دیا

    اسلام آباد: لاپتا شہری منیب اکرم کو اسلام آباد پولیس نے ہائیکورٹ میں پیش کر دیا، شہری نے بتایا کہ سادہ لباس پہنے کچھ لوگوں نے انھیں رات کو گھر سے اٹھا لیا تھا، عدالت نے سماعت مکمل ہونے پر آئی جی اسلام آباد کو اس سلسلے میں تحقیقات کا حکم دے کر کیس نمٹا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاپتا شہری منیب اکرم کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی، پولیس نے لاپتا شہری کو عدالت میں پیش کر دیا۔

    بازیاب شہری منیب اکرم نے بتایا کہ مجھے 19 اگست کو رات گھر سے کچھ لوگوں نے اٹھایا، میرا لیپ ٹاپ اور موبائل لے کر چیک کیا گیا اور مجھے دھمکیاں دی گئیں۔ مجھے جو لوگ لے کر گئے تھے انھوں نے مجھے سوشل میڈیا استعمال نہ کرنے کا کہا، مجھے انھوں نے کہا فیس بک ٹویٹر آج کے بعد استعمال نہیں کرنا پھر چھوڑ دیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے اٹھایا تھا، شہری نے جواب دیا کہ مجھے علم نہیں مگر سول کپڑوں میں لوگ آئے تھے، پھر میں ڈر کی وجہ سے گاؤں چلا گیا اور موبائل بند کر دیا، اور یکم اکتوبر کو گھر واپس آیا۔

    عدالت نے بازیاب شہری سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا اگر 6 گھنٹے بعد آپ کو چھوڑا گیا تھا تو گھر میں کیوں نہیں بتایا، شہری نے جواب دیا کہ میں گھر والوں کو بتاتا تو گھر والے واپس لے آتے، اور مجھے دوبارہ اٹھائے جانے کا خوف تھا۔

    سماعت کے دوران عدالت نے ایس ایچ او سے استفسار کیا کہ ایس ایچ او صاحب آپ کے علاقے میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ عدالت نے ڈی ایس پی پر بھی اظہار برہمی کیا، اور کہا کہانیاں نہ سنائیں، باہر سے سی ٹی ڈی آ کر اس عدالت کے احاطے میں یہ چیزیں کر رہی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا اس عدالت نے کئی بار کہا کہ یہ عدالت اس قسم کے واقعات برداشت نہیں کرے گی، اب اس کیس میں یہ عدالت کس کو قصور وار ٹھہرائے؟ یہ بھی نہیں پتا کہ یہ بچہ اپنے بیان میں سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔

    عدالت نے کہا ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو بتائے بغیر کسی کی ہمت نہیں کہ ایسا کوئی کام کرے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ کو ریاست نے لوگوں کو تحفظ کے لیے رکھا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب بتائیں کہ اس کیس کا اب کیا کریں؟

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی فیصلوں کے باوجود اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ریاست کی ناکامی ہے، عدالت نے کہا اگر ریاست ناکام ہے تو کوئی اور کیسے ہمت کرے گا، اس عدالت کو پتا ہے کہ پولیس کے علم میں لائے بغیر ایسا کچھ ممکن نہیں۔

    بازیاب شہری منیب اکرم کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو تحقیقات کا حکم دے دیا، عدالت نے کہا آئی جی اسلام آباد تحقیقات کر کے ریورٹ 15 روز میں رجسٹرار ہائی کورٹ کو جمع کرائیں، اور ہدایت کی کہ پٹشنر کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے۔ عدالت نے احکامات کے بعد بازیابی کی درخواست نمٹا دی۔