Tag: لاپتہ افراد کیس

  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا لاپتہ افراد کیس سے متعلق بڑا حکم

    اسلام آباد ہائیکورٹ کا لاپتہ افراد کیس سے متعلق بڑا حکم

    ہائیکورٹ کے 2 رکنی خصوصی بنچ نے وفاقی حکومت کی اپیلیں مسترد کر دیں، غلام قادر کی بازیابی کی درخواست پر جسٹس محسن کا فیصلہ برقرار رکھا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاپتہ شہری غلام قادر کی بازیابی کی درخواست پر جسٹس محسن اختر کیانی کا فیصلہ بھی برقرار رکھا گیا ہے، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری دفاع اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن پر ایک ایک کروڑ جرمانہ بحال کردیا گیا ہے۔

    اس وقت کے ایس ایچ او گولڑہ پر بھی ایک کروڑ روپے کا جرمانہ بحال کیا گیا، جسٹس محسن اختر نے 2021 میں عدالتی تاریخ کے سب سے بڑے جرمانے عائد کیے گئے تھے۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے شہری کی عدم بازیابی پر ریاستی مشینری کو ذمہ دار قراردیا تھا، جسٹس محسن اختر نے لاپتہ شہری غلام قادر کے بھائی کی درخواست پر فیصلہ جاری کیا تھا۔

    30 دن میں شہری بازیاب نہ ہونے پر ذمہ داروں کیخلاف محکمانہ کارروائی کا فیصلہ بھی بحال کیا گیا ہے، غلام قادر 28 اگست 2014 سے اسلام آباد کے تھانہ گولڑہ کی حدود سے لاپتہ ہے۔

  • لاپتہ افراد کیس: وفاقی حکومت کو پرویز مشرف اور تمام وزرائےاعظم کو نوٹس جاری کرنے کا حکم

    لاپتہ افراد کیس: وفاقی حکومت کو پرویز مشرف اور تمام وزرائےاعظم کو نوٹس جاری کرنے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ  نے 5 لاپتہ افراد سے متعلق کیس میں وفاقی حکومت کوپرویزمشرف اورتمام وزرائےاعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پانچ لاپتہ افراد کے کیسز پر سماعت کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ وفاقی حکومت کا کردار کہان ہے، اس عدالت نے حکامات دیئے ہیں عمل درآمد کیوں نہیں ہوا۔

    سرکاری وکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں اس نوعیت کا ایک کیس ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس عدالت میں جو کیس زیر سماعت ہے اس کی بات کر لیں۔

    عدالت نے گزشتہ آرڈر پڑھنے کا حکم دیا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا یہ اسٹیٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کریں، تسلیم شدہ ہے کہ ایک چیف ایگزیکٹو نے "ان دا لائن” فائر میں کہا جبری گمشدگی ریاست کی پالیسی ہے، ریاست کے ایکٹ سے نظر آنا چاہیے کہ جبری گمشدگی ریاست کی پالیسی نہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افراد کو عدالت پیش کریں یا ریاست کی ناکامی کا جواز دیں، کیوں نا عدالت تمام چیف ایگزیکٹوز پر آئین سے مبینہ انحراف پر کارروائی کرے؟

    عدالت نے وفاقی حکومت کو پرویز مشرف سے لےکر آج تک تمام وزرائے اعظم کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل اس وقت ملک سے باہر ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ملک کے چیف ایگزیکٹو کو ثمن جاری کروں، یہ عدالتی حکم کی ایک ایک لفظ کا جواب چاہئے۔

    عدالت نے سرکاری وکیل سے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا مسنگ پرسنز پر کتنے پروگرام ہوئے ہیں، عدالت کے ساتھ بلیم گیم نا کھیلا جائے کس چیز کی گھبراہٹ ہے۔

    سرکاری وکیل نے بتایا کہ مسنگ پرسنز پر پروگرام کرنے کے لئے وفاق نے پی بی اے کو خط لکھ دیا ہے۔

    کرنل ر انعام رحیم ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر وزیر اعظم نے آئی ایم ایف مذاکرات نہیں کرنے ہیں، مسنگ پرسنز پر ایک خفیہ ٹرائل کرایا گیا ہے،خفیہ ٹرائل سے مسنگ پرسنز کے خاندان کو بھی نہیں بتایا گیا تاہم جیل ذرائع سے معلوم ہوا کہ ٹرائل مکمل ہو گیا ہے۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے پر انٹیلیجنس بیورو اور دیگر خفیہ ادارے ملوث ہیں، کوئی بھی ججمنٹ ہوا میں نہیں دیا جا سکتا، عدالت کو بتایا جائے کہ کس نے کس کو اٹھایا۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم مسنگ پرسنز کے حوالے سے ناکام ہے، ابھی بھی شکایات آ رہی ہیں لوگوں کو مسنگ کیا جا رہا ہے،اسٹیٹ مسنگ پرسنز کیس میں ملوث ہے، ماورائے عدالت قتل پولیس نے کئے ہیں۔

    عدالت نے اٹارنی جنرل کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیتے پوئے کہا ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت کو مطمئن نہیں کر سکے، عدالت نے یہ معاملہ گزشتہ کابینہ میں بھیجا تھا، مگر کوئی حل نہیں نکلا۔

    عدالت نے سابق وزیرداخلہ شیخ رشید اور موجودہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو بھی ذاتی میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا اس کیس کو مزید التوا میں نہیں رکھ سکتے بعد ازاں سماعت 4 جوائی تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔

  • لاپتہ افراد کیس: چیف جسٹس کا تمام درخواستوں پر کارروائی اور خصوصی سیل بنانے کا حکم

    لاپتہ افراد کیس: چیف جسٹس کا تمام درخواستوں پر کارروائی اور خصوصی سیل بنانے کا حکم

    کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے لاپتہ افراد کے معاملے پر خصوصی سیل قائم کرنے اور تمام درخواستوں پر کارروائی کا حکم جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اتوار کے روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں لاپتہ افراد کے حوالے سے مقدمات کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے کی جس میں ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ سمیت حساس اداروں کے اعلیٰ افسران کو جواب دینے کے لیے طلب کیاگیا۔

    سپریم کورٹ کے باہر لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی بڑی تعداد چیف جسٹس کی آمد سے قبل موجود تھی جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں پیاروں کی تصاویر اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے۔ چیف جسٹس نے مظاہرین سے درخواستیں وصول کیں اس موقع پر انہوں نے شکایات کے انبار لگا دیے۔

    مزید پڑھیں: لاپتہ افراد‘ سندھ ہائی کورٹ نے دیگرصوبوں کے حراستی مراکز سے رپورٹ طلب کرلی

    درخواست گزار نیلم نے دوران سماعت عدالت کو بتایا کہ ’میرے والد 14 ماہ سے لاپتہ ہیں اور اُن کے بارے میں کوئی معلومات دینے کو تیار نہیں‘ چیف جسٹس نے آئی جی سندھ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں سے استفسار کیا کہ ’صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ 57 سالہ شخص بھی لاپتہ ہورہا ہے جس پر مجھے بہت زیادہ افسوس ہے‘۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ پہلے بھی عدالت نے حکم دیا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرائیں اور اگر اُن کے پیاروں کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا تو بھی آگاہ کردیں تاکہ کم از کم انہیں صبر تو آسکے۔

    سماعت کے دوران 50 سے زائد لاپتہ افراد کے اہل خانہ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور انہوں نے آہ و بکا کی اور ہنگامہ شروع ہوگیا، چیف جسٹس نے لوگوں کو خاموش کرانے کی کوشش بھی کی البتہ انہوں نے بات نہ مانی تو سماعت کو ختم کردیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کیس، عدالت کا لاوارث لاشوں کی شناخت اور ڈی این اے کیلئے میکینزم بنانے کا حکم

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں آپ کو خاموش کروارہا تھا مگر کسی نے بات نہ مانی اور عدالتی تقدس کو پامال کیا، کسی بھی خاتون کو یہ حق نہیں وہ پولیس اہلکار پر ہاتھ اٹھائے۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے شور شرابے اور بدمزگی کو دیکھتے ہوئے کمرہ عدالت میں رینجرز اور پولیس بھی طلب کی گئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • لاپتہ افراد کیس: سماعت دو ہفتے کیلئے ملتوی

    لاپتہ افراد کیس: سماعت دو ہفتے کیلئے ملتوی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کے پی کے حکومت کو لاپتہ افراد کے حوالے سے رپورٹ آئندہ سماعت سے پہلے عدالت میں جمع کروانے کا حکم دے دیا ہے۔

    لاپتہ افراد کیس کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔مسخ شدہ نعشوں کی شناخت نہ ہونے اور ورثاء کے حوالے نہ کئے جانے پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا ۔

    جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر حکومت مخلص ہو تو مسخ شدہ نعشیں ورثاء کے حوالے کرنے کے لئے ڈیڑھ سال کا عرصہ کافی ہے ۔

    فاضل جج نے کہا کہ اگر تمام حکومتیں سنجیدہ ہو جائیں تو یہ لاپتہ افراد کا معمہ حل ہوسکتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ہم جج ہیں لیکن انسان بھی ہیں وارثان کا دکھ دیکھا نہیں جاتا ۔مقدمے کی مزید سماعت دو ہفتے کے لئے ملتوی کر دی گئی ہے ۔