Tag: لاہور شہر

  • پی آئی اے جہاز کی لاہور شہر کے درمیان لینڈنگ، ایسا کیوں ہوا؟ حیران کن ویڈیو رپورٹ

    پی آئی اے جہاز کی لاہور شہر کے درمیان لینڈنگ، ایسا کیوں ہوا؟ حیران کن ویڈیو رپورٹ

    لوگوں نے جہاز کو آسمان پر اڑتے دیکھا ہوگا یا ایئرپورٹ پر کھڑے ہوئے مگر لاہور شہر کے بیچوں بیچ پی آئی اے کا جہاز حیران کن منظر پیش کرتا ہے۔

    لاہور کے مرکزی علاقے میں صرف پی آئی اے کا طیارہ ہی کھڑا نہیں بلکہ بہت سارے لوگ جن میں بچے اور بڑے سب شامل ہیں۔ جوش وخروش سے سیڑھیاں چڑھتے جہاز کے اندر جا رہے ہیں۔

    اس حوالے سے لاہور کے ایک پرانے شہری نے جہاز کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کا یہ طیارہ 70 سال پرانا ہے اور تقریباً 40 سال سے تو لاہور میں اسی مقام پر کھڑا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ 1987 میں یہ جہاز کراچی سے لاہور لایا گیا تھا۔ دو سال تک ایئرپورٹ پر کھڑا رہنے کے بعد اس کو یہاں منتقل کر دیا گیا۔

    ایک نوجوان جس شہر کے بیچوں بیچ جہاز دیکھ کر حیران رہ گیا وہ تجسس میں یہاں آیا اور اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے پہلے یہی سنا تھا کہ لاہور میں ایک ہی علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے، لیکن جب یہاں سے گزرے تو پتہ چلا کہ یہاں بھی ایک ایئرپورٹ ہے تو دیکھنے کے لیے آ گئے۔

    ایک اور شہری جو اپنے بچوں کے ساتھ یہاں تفریح کے لیے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے وہ اپنے والد کے ساتھ یہاں آتے تھے اور اب وہ اپنے بچوں کو یہاں ساتھ لاتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہاں کھڑا پی آئی اے کا یہ جہاز ان افراد کے لیے جنہوں نے کبھی جہاز میں سفر نہیں کیا یا سوار نہیں ہوئے۔ تجربہ حاصل کرنے کے لیے اچھی چیز ہے۔

    بچے جہاز میں آکر خوش ہیں لیکن سب سے زیادہ خوشی ان بچوں کو ہو رہی ہے۔ جنہیں کھڑی کے ساتھ والی سیٹ ملی ہے، لیکن جہاز کی اس کھڑی سے ان بچوں کو بادلوں کے بجائے لاہور کی سڑکیں ہی نظر آتی ہیں۔

    جہاز میں آنے والے تمام بڑے ہوں یا بچے جہاز کی سیٹوں پر بیٹھ کر خود کو مسافر تصور کرتے ہیں۔ خوب انجوائے کرتے ہیں اور جہاز میں سفر کا تصور کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

     

  • وہ مشہور شخصیات جن کی لاہور کو دوبارہ دیکھنے کی حسرت پوری نہ ہوسکی

    وہ مشہور شخصیات جن کی لاہور کو دوبارہ دیکھنے کی حسرت پوری نہ ہوسکی

    کرشن چندر روزانہ داتا صاحب کو سلام کر کے گزرتے، اپنا پتہ” داتا کے سائے میں” بتاتے۔ مولانا صلاح الدین احمد، باری علیگ اور عاشق بٹالوی کے ساتھ گپ شپ کرتے انارکلی سے گزرتے تین گھنٹے لگ جاتے۔

    کرشن کا پہلا افسانہ” سادھو” 1929 میں ایف سی کالج میگزین” فولیو” میں چھپا۔ علامہ اقبال پر پی ایچ ڈی کرنا چاہتے تھے، سناپسس بھی پیش کیا لیکن یہ کہہ کر اجازت نہیں دی گئی کہ زندہ شخصیت پر نہیں ہوسکتی۔ کرشن کہتے تھے، لاہور میں رہ کر کوئی بوڑھا نہیں ہوسکتا، ہوتا ہے تو منڈی بہاء الدّین، بستی چھپڑاں والا یا چک 420 چلا جائے۔

    جے ایس سنت سنگھ قرآن مجید چھاپتے تھے۔ ان کی دکان میں جوتے اتار کر جانا پڑتا تھا۔احمد راہی کا مجموعہ "ترنجن” چھپا تو کرشن نے پنجابی میں مبارک باد کا خط لکھا اور کہا کہ پنجابی رسالہ نکلنا چاہیے، وہ بھی پنجابی میں لکھیں گے۔ کرشن لاہور میں بھگت سنگھ کی سوشلسٹ پارٹی کے رکن اور بھنگیوں کی انجمن کے صدر بھی بنے۔

    راجندر سنگھ بیدی کہتے تھے عشق کے لیے لاہور سے بہتر دنیا میں کوئی اور جگہ نہیں۔ وہ بچپن میں قتل ہوتا دیکھ کر گونگے ہوگئے تھے۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ ایک انقلابی پارٹی کے بچوں کے شعبے بال سبھا کے رکن بنے تو ان کو ایک انگریز کے قتل کا مشن دے دیا گیا لیکن ان سے ہو نہیں سکا۔ بیدی نے ادبی زندگی کا آغاز محسن لاہوری کے نام سے کیا۔ ڈاک خانے میں کلرک ہوئے تو کام کے دوران کہانیاں لکھتے رہتے۔ ایک بار رقم وصول کیے بغیر منی آرڈر بک کر دیا۔ شام کو حساب کیا تو تنخواہ جتنے پیسے شارٹ تھے۔

    ایڈریس نوٹ کر کے اس دن منی آرڈر کرنے والے ہر شخص کے گھر گئے۔ مطلوبہ شخص ملا تو اس نے کہا، سردار جی آپ کے سارا دن بارہ بجے رہتے ہیں۔ منٹو نے ایک افسانے میں ڈاک خانے میں مہریں لگانے کی طرف اشارہ کر کے بیدی پر چوٹ کی تو بیدی اور دیندر ستھیارتھی نے افسانے میں منٹو کا ریکارڈ لگا دیا۔

    کنہیا لال کپور پیدا تو سمندری میں ہوئے تھے، پڑھنے لاہور آئے۔ قد بہت لمبا تھا، داخلے کے انٹرویو کے لیے پرنسپل پطرس بخاری کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے پوچھا، اتنے ہی لمبے ہیں یا آج خاص اہتمام کرکے آئے ہیں؟ بعد میں وہ پطرس کے چہیتے شاگرد بن گئے۔ بالآخر جب لاہور چھوڑنا پڑا تو کپور کو بھارتی پنجاب کے چھوٹے سے قصبے موگا میں پناہ ملی جہاں کے لینڈ اسکیپ میں ریت اور سرکنڈے نمایاں تھے۔ لوگ کہتے آپ مشہور آدمی ہیں، اس ویرانے سے کسی بڑے شہر کیوں نہیں چلے جاتے تو کہتے، جب تک ہندوستان لاہور کا ثانی پیدا نہیں کرتا، میرے لیے یہاں کے تمام شہر اور قصبے ایک جیسے ہیں۔

    کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، کنہیا لال کپور تینوں لاہور کی ادبی زندگی میں سرگرم رہے، تینوں کی پہلی کتابیں لاہور سے چھپیں۔ تینوں لاہور کی یاد میں تڑپتے رہے، تینوں لاہور کو پھر دیکھنے کی حسرت لیے چل بسے۔

    (محمودُ الحسن کی کتاب "لاہور: شہرِ پُرکمال” سے)

  • پنکھا قلی اور لاہور میں بجلی کی فراہمی کا آغاز!

    پنکھا قلی اور لاہور میں بجلی کی فراہمی کا آغاز!

    جولائی 1912ء میں لاہور میں پہلی مرتبہ بجلی کی آمد ہوئی۔ بجلی کی ایک کمپنی لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے نام سے قائم کی گئی تھی۔ اس کمپنی کے چیئرمین لاہور کے مشہور و معروف صنعت کار لالہ ہرکشن لال تھے۔

    روزنامہ پیسہ اخبار میں 25 جولائی 1912ء کو شائع شدہ ایک خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر لوئیس ڈین (Louis Dane) نے لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے برقی طاقت کے اسٹیشن کو اپنے ”دستِ مبارک“ سے کھولنا منظور فرمایا تھا۔

    نومبر 1912ء میں کمپنی کی برقی طاقت کی بہم رسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور گول باغ میں ایک افتتاحی تقریب منعقد ہوئی اور لوئیس ڈین کے ہاتھوں یہ رسم انجام دی گئی۔

    لاہور الیکٹرک کمپنی، دہلی میں قائم شدہ بجلی کمپنی کی نسبت لوگوں سے زیادہ رقم وصول کرتی تھی۔ دوسرے یہ کہ لوکل گورنمنٹ کو بجلی جس ریٹ پر مہیا کی جاتی تھی عوام کو اس سے مہنگی بجلی فروخت کی جاتی تھی۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ سرکاری دفاتر کو چار آنے فی یونٹ اور پبلک کو چھ آنے اور آٹھ آنے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فروخت کی جاتی تھی جو نہ صرف پبلک سے زیادتی بلکہ اصولِ تجارت کے بھی خلاف تھا۔ اس ضمن میں روزنامہ پیسہ اخبار کی دلیل یہ تھی کہ لاہور الیکٹرک کمپنی ایک تو بینک سے قرض لے کر اپنا کام چلا رہی ہے۔ دوّم اس کمپنی کا سات لاکھ روپے کا مجوزہ سرمایہ ہے جس میں سے کمپنی نے صرف سوا لاکھ روپے کے حصص عوام کو فروخت کیے ہیں۔ اخبار نے کمپنی سے کہا کہ اگر وہ عوام کا اعتماد چاہتی ہے تو اسے لازم ہے کہ وہ عوام کو مناسب قیمت پر بجلی فروخت کرے۔

    1921ء میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے چیئرمین کے عہدے پر لالہ ہرکشن لال کی جگہ لالہ ملک راج بھلّہ فائز تھے اور 9 ستمبر کو وہی اس عہدے پر فائز تھے، جب کمپنی نے بجلی کا نرخ بڑھانے کا فیصلہ کر لیا کیوں کہ موجودہ نرخ 1912ء میں مقرر کیا گیا تھا اور موجودہ گرانی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس نرخ میں اضافہ کر دینا ضروری تھا۔

    کمپنی کا مؤقف یہ تھا کہ مزدوری کی شرح میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ دوّم آج کل ”پنکھے قلی“ کی اجرت ڈھائی سو فیصد بڑھ گئی ہے اور معمولی سرسوں اور مٹی کے تیل کی قیمت بھی دو سو فیصدی بڑھ گئی ہے۔ اس لیے بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔

    ”پنکھے قلی“ کون تھے؟ یہ ایک بہت دل چسپ کہانی ہے۔ ہندوستان بھر میں گرمی کے موسم میں کمرے کی چھت پر ایک لکڑی کے تختے پر جھالر نما کپڑا لگا ہوتا تھا، جس میں ایک رسی نیچے لٹک رہی ہوتی تھی۔ اس رسی کو کھینچ کر آگے پیچھے کرنے سے کمرے میں ہوا آتی تھی۔ ہندوستان میں انگریز سپاہیوں کے لیے بارکوں میں اس قسم کے پنکھے لگے ہوا کرتے تھے اور پنکھا کھینچنے والے ہندوستانی مزدور انگریز سپاہیوں کو پنکھا جھلتے اور ان کے مزاج کو ٹھنڈا رکھتے تھے۔ اس ضمن میں بے شمار واقعات ایسے پیش آیا کرتے تھے کہ اگر کوئی ہندوستانی مزدور گرمی کے سبب سو جاتا اور پنکھا چلنا بند ہو جاتا تو گورے سپاہی مزدور کو گولی مار دیتے تھے۔

    جون 1921ء میں روزنامہ زمین دار نے لاہور میں الیکٹرک کمپنی کی کار گزاری سے تنگ آ کر ”لاہور میں بجلی کا انتظام“ کے زیرِ عنوان اپنے ایک اداریے میں لکھا تھا، ”خدا جانے آج کل لاہور کے کارخانۂ برق میں کیا بدانتظامی ہے کہ دن بھر کبھی پنکھے بند ہو جاتے ہیں، کبھی چلنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گھنٹوں برقی رو منقطع رہتی ہے اور آج کل شدید گرمی میں سخت مصیبت کا سامنا ہوتا ہے۔

    سب سے زیادہ مشکل ان مطابع کو پیش آتی ہے جو برقی طاقت سے چلتے ہیں۔ زمیندار کے دفتر میں بھی برقی پنکھوں اور برقی روشنی کا انتظام ہے جہاں برقی رو بند ہو جاتی ہے وہیں سب کام رک جاتے ہیں۔ اِدھر اخبار کی طباعت رک جاتی ہے اُدھر دفتر میں عملۂ ادارت و انتظام گرمی کی شدت کی وجہ سے کام نہیں کر سکتا اور پاؤں سے سَر تک پسینہ پڑا بہتا ہے۔ کارخانے کے منتظمین کو چاہیے کہ اپنے فرائض کی طرف مزید توجہ کریں۔

    آج کل گرمی کی بہت گرم بازاری ہے۔ ایسی حالت میں برقی رو کا چند منٹ کے لیے رک جانا بھی قیامت ہے۔ لاہور میں شہر کے اندر بجلی کا استعمال اتنا زیادہ نہیں جتنا شہر سے باہر ہے اور تمام سرکاری و غیر سرکاری دفاتر، انگریز ہندوستانی حکام و شرفا کے مکانات، مطابع اور جرائد کے دفاتر اور کاروباری دکانیں اور کمپنیاں زیادہ تر شہر کے باہر ہی واقع ہیں۔ برقی رو کے رک جانے سے تمام شہر میں چیخ پکار مچ جاتی ہے اور گرمی کی شدت اپنی طاقت آزماتی ہے۔

    امید ہے کہ کارخانۂ برق کے کار پرداز اس تکلیف و بے قاعدگی کا فوری انسداد کریں گے اور عوام و خواص کے آرام و آسائش کے علاوہ اپنے کاروباری مفاد کو بھی نقصان سے محفوظ رکھیں گے۔“

    (معروف تاریخ دان احمد سعید کی کتاب سے اقتباس)

  • "لاہور لاہور ہی تھا!”

    "لاہور لاہور ہی تھا!”

    "پہننے اوڑھنے، کھانے پینے، لکھنے پڑھنے اور دوسری کئی باتوں میں لاہور والوں کا اپنا ایک الگ رنگ رہا ہے۔

    یہاں کی پنجابی بول چال کا انداز بھی اس خطّے کے دوسرے شہروں سے مختلف تھا۔ اردو تحریر و تقریر میں بھی یہاں کے پڑھے لکھے طبقے نے اپنا ایک مخصوص آہنگ اختیار کیا۔

    شروع شروع میں دلّی اور لکھنؤ والے اس پر ہنستے مگر بعد میں اس کا لوہا مانا گیا۔ اس شہر کی زندگی کو پنجابی مزاج کی خوبیوں اور خامیوں نے ایک خاص سانچے میں ڈھالا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے بازاروں، گھروں اور محفلوں میں ہمیں ایک خاص فضا ملتی ہے۔ اسی طرح جیسے دلّی، لکھنؤ، کلکتہ، مدراس اور حیدرآباد کا اپنا ایک خاص ماحول ہے۔

    یہاں کے نوجوان ملک بھر میں اپنی زندہ دلی کی وجہ سے مشہور تھے اور انھوں نے زندگی کے بہت سے شعبوں میں اپنے آپ کو ممتاز کیا۔ اس میں شک نہیں کہ بیسویں صدی میں اس شہر کے رہنے والوں نے ہندوستان کے نام کو چار چاند لگائے۔ اقبال جیسا شاعر، چغتائی جیسا مصوّر، گاما جیسا پہلوان، عطاء اللہ بخاری جیسا خطیب، لاجپت رائے جیسا سیاست دان اور بھگت سنگھ جیسا انقلابی۔ یہ سب لاہور اور اس کی ہمہ رنگ زندگی سے وابستہ تھے۔ اس لیے کہنے والے اب بھی کہتے ہیں کہ "لاہور لاہور ہی تھا۔”

    دلّی میں اب تک ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو پرانے لاہور کو، اس کے گلی کوچوں، عمارتوں اور ان میں رہنے والوں کو یاد کرتے ہیں۔ یہ لوگ ترستے ہیں کہ زندگی میں ایک بار پھر سے اپنے شہر کی جھلک دیکھ آئیں، مگر اب انھیں سرحد پار کرنے کی اجازت مل گئی تو کیا وہ اس لاہور کو دیکھ سکیں گے جسے وہ 1947ء میں چھوڑ آئے تھے؟”

    (معروف ادیب اور مترجم سوم آنند کی کتاب ‘باتیں لاہور کی’ سے اقتباس)

  • لاہور کا جغرافیہ

    لاہور کا جغرافیہ

    تمہید
    تمہید کے طور پر صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ لاہور کو دریافت ہوئے اب بہت عرصہ گزر چکا ہے، اس لیے دلائل و براہین سے اس کے وجود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ کہنے کی اب ضرور نہیں کہ کُرے کو دائیں سے بائیں گھمائیے۔ حتیٰ کہ ہندوستان کا ملک آپ کے سامنے آ کر ٹھہر جائے پھر فلاں طول البلد اور فلاں عرض البلد کے مقامِ انقطاع پر لاہور کا نام تلاش کیجیے۔ جہاں یہ نام کُرے پر مرقوم ہو، وہی لاہور کا محل وقوع ہے۔ اس ساری تحقیقات کو مختصر مگر جامع الفاظ میں بزرگ یوں بیان کرتے ہیں کہ لاہور، لاہور ہی ہے، اگر اس پتے سے آپ کو لاہور نہیں مل سکتا، تو آپ کی تعلیم ناقص اور آپ کی دہانت فاتر ہے۔

    محل وقوع
    ایک دو غلط فہمیاں البتہ ضرور رفع کرنا چاہتا ہوں۔ لاہور پنجاب میں واقع ہے۔ لیکن پنجاب اب پنج آب نہیں رہا۔ اس پانچ دریاؤں کی سرزمین میں اب صرف چار دریا بہتے ہیں۔ اور جو نصف دریا ہے، وہ تو اب بہنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ اسی کو اصطلاح میں راوی ضعیف کہتے ہیں۔ ملنے کا پتہ یہ ہے کہ شہر کے قریب دو پل بنے ہیں۔ ان کے نیچے ریت میں دریا لیٹا رہتا ہے۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے، اس لیے یہ بتانا بھی مشکل ہے کہ شہر دریا کے دائیں کنارے پر واقع ہے یا بائیں کنارے پر۔ لاہور تک پہنچنے کے کئی رستے ہیں۔ لیکن دو ان میں سے بہت مشہور ہیں۔ ایک پشاور سے آتا ہے اور دوسرا دہلی سے۔ وسط ایشیا کے حملہ آور پشاور کے راستے اور یو۔ پی کے رستے وارد ہوتے ہیں۔ اول الذکر اہل سیف کہلاتے ہیں اور غزنوی یا غوری تخلص کرتے ہیں مؤخر الذکر اہل زبان کہلاتے ہیں۔ یہ بھی تخلص کرتے ہیں، اور اس میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔

    حدود اربعہ
    کہتے ہیں، کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اس کو منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے۔ اور روزبروز واقع تر ہو رہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے، کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہو گا۔ جس کا دار الخلافہ پنجاب ہو گا۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے، جس کے ہر حصے پر ورم نمودار ہو رہا ہے، لیکن ہر ورم مواد فاسد سے بھرا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے۔ جو اس کے جسم کو لاحق ہے۔

    آب و ہوا
    لاہور کی آب و ہوا کے متعلق طرح طرح کی روایات مشہور ہیں، جو تقریباً سب کی سب غلط ہیں، حقیقت یہ ہے کہ لاہور کے باشندوں نے حال ہی میں یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اور شہروں کی طرح ہمیں بھی آب و ہوا دی جائے، میونسپلٹی بڑی بحث و تمحیص کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ اس ترقی کے دور میں جب کہ دنیا میں کئی ممالک کو ہوم رول مل رہا ہے اور لوگوں میں بیداری کے آثار پیدا ہو رہے ہیں، اہل لاہور کی یہ خواہش ناجائز نہیں۔ بلکہ ہمدردانہ غور و خوض کی مستحق ہے۔

    لیکن بدقسمتی سے کمیٹی کے پاس ہوا کی قلت تھی، اس لیے لوگوں کو ہدایت کی گئی کہ مفادِ عامہ کے پیش نظر اہل شہر ہوا کا بیجا استعمال نہ کریں، بلکہ جہاں تک ہو سکے کفایت شعاری سے کام لیں۔ چناں‌ چہ اب لاہور میں عام ضروریات کے لیے ہوا کے بجائے گرد اور خاص خاص حالات میں دھواں استعمال کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے جا بجا دھوئیں اور گرد کے مہیا کرنے لیے مرکز کھول دیے ہیں۔ جہاں یہ مرکبات مفت تقسیم کیے جاتے ہیں۔ امید کی جاتی ہے، کہ اس سے نہایت تسلی بخش نتائج برآمد ہوں گے۔

    بہم رسائی آب کے لیے ایک اسکیم عرصے سے کمیٹی کے زیر غور ہے۔ یہ اسکیم نظام سقے کے وقت سے چلی آتی ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ نظام سقے کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے اہم مسودات بعض تو تلف ہو چکے ہیں اور جو باقی ہیں ان کے پڑھنے میں بہت دقت پیش آ رہی ہے اس لیے ممکن ہے تحقیق و تدقیق میں چند سال اور لگ جائیں، عارضی طور پر پانی کا یہ انتظام کیا گیا ہے کہ فی الحال بارش کے پانی کو حتی الوسع شہر سے باہر نکلنے نہیں دیتے۔ اس میں کمیٹی کو بہت کام یابی حاصل ہوئی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں ہر محلے کا اپنا ایک دریا ہو گا جس میں رفتہ رفتہ مچھلیاں پیدا ہوں گی اور ہر مچھلی کے پیٹ میں کمیٹی کی ایک انگوٹھی ہو گی جو رائے دہندگی کے موقع پر ہر رائے دہندہ پہن کر آئے گا۔

    اردو ادب میں‌ فکاہیہ اور طنز و مزاح کے حوالے سے مشہور پطرس بخاری کے مضمون سے انتخاب

  • دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا!

    دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا!

    دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا۔ جب جی چاہا منہ اٹھایا اور چل پڑے۔ کھانے دانے سے فارغ ہو کر رات کو فرنٹیر میل میں سوار ہوئے اور سو گئے۔

    آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ گاڑی لاہور پر کھڑی ہے۔ سال میں کئی کئی پھیرے لاہور کے ہوجاتے تھے۔ لاہور ادیبوں کی منڈی تھا۔

    سر سید نے انھیں زندہ دلانِ پنجاب کہا اور واقعی یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس خطے میں زندگی ابلتی ہے اور گنگناتی گاتی پھرتی ہے۔ کتنا خلوص تھا یہاں کے لوگوں میں اور کتنی محبت۔ ٹوٹ کر ملتے، ہاتھوں ہاتھ لیتے اور سر آنکھوں پر بٹھاتے۔

    ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔ ان میں تیر میر نہیں آئی تھی۔

    ادیب اور شاعر نرے ادیب اور شاعر ہی تھے۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ آرٹسٹ کا مذہب تو آرٹ ہی ہوتا ہے۔ اب کی مجھے خبر نہیں، یہ کوئی سترہ اٹھارہ سال ادھر کی باتیں۔ اب تو زمین آسمان ہی بدل گئے تو بھلا ادب و شعر کی قدریں کیوں نہ بدلی ہوں گی؟ خیر، کچھ ہو گا۔ یہ وقت اس بحث میں پڑنے کا نہیں۔

    ہاں تو اچھے وقت تھے، اچھے لوگ تھے۔ ان سے مل کر جی خوش ہوتا تھا، ایک بار ملے، دوبارہ ملنے کی ہوس۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے بعض کے ساتھ برسوں یک جائی رہی اور جی نہیں بھرا۔ بلکہ ان سے بے ملے چین نہیں پڑتا تھا۔

    بے غرض ملتے، جی کھول کر ملتے۔ اجلی طبیعتیں تھیں۔ بعض دفعہ بڑی ناگوار باتیں بھی ہو جاتیں، مگر کیا مجال جو آنکھ پر ذرا بھی میل آجائے۔ تم نے ہمیں کہہ لیا، ہم نے تمھیں کہہ لیا، ایلو، دل صاف ہو گئے۔ اچھے لوگوں میں یہی ہوتا ہے۔ زمانہ سدا ایک سا نہیں رہتا۔ جب تک بندھن بندھا ہوا ہے، بندھا ہوا ہے، جب ٹوٹا ساری تیلیاں بکھر گئیں۔ جو دم گزر جائے غنیمت ہے۔ اب وہ دن جب بھی یاد آتے ہیں تو دل پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے۔ یہی کیا کم عذاب تھا کہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے، اب سناؤنی سننے کو کہاں سے پتھر کا دل لاؤں۔

    بڈھے مرے، انھیں تو مرنا ہی تھا۔ میر ناصر علی مرے، ناصر نذیر فراق مرے، میر باقر علی داستان گو مرے، علامہ راشد الخیری مرے، مولانا عنایت اللہ مرے، کس کس کو گناؤں۔ ایک ہو تو بتاؤں۔

    شاہد احمد دہلوی کی باتیں اور یادیں، ان کی کتاب گنجینہ گوہر سے انتخاب

  • لاہور شہر کے لئے بڑا اعزاز ،  دنیا کے تخلیقی شہروں میں شامل

    لاہور شہر کے لئے بڑا اعزاز ، دنیا کے تخلیقی شہروں میں شامل

    لاہور : زندہ دلان شہر لاہور کو دنیا کے تخلیقی شہروں میں شامل کرلیا گیا ، یونیسکو کے ڈائریکٹرجنرل کا کہنا ہے کہ لاہورمیں ادب کی پھلتی پھولتی روایات اور شہر کی تاریخی عمارتیں اورثقافت کی وجہ سے یہ تخلیقی شہرہے۔

    تفصیلات کے مطابق زندہ دلان شہر لاہور کو بڑا اعزاز مل گیا ، یونیسکو نے لاہور کو دنیا کے تخلیقی شہروں میں شامل کرلیا، عالمی ثقافتی ورثے کی تنظیم یونیسکو نے لاہور کو ادب کے درجے میں شامل کیا۔

    یونیسکوکے ڈائریکٹرجنرل اوڈرے ازولے کے مطابق لاہور میں ادب کی پھلتی پھولتی روایات اورشہر کی تاریخی عمارتیں اورثقافت کی وجہ سے یہ تخلیقی شہر ہے، اس کیٹیگری میں دنیا بھر کے چھیاسٹھ شہر شامل ہیں۔

    آدرے آزولے کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں یہ شہر ثقافت کو اپنی حکمت عملی کا ایک ستون بناتے ہیں اور یہ سیاسی اور معاشرتی جدت کے حق میں ہیں جو نوجوان نسل کے لئے انتہائی اہم ہے۔ ان نئے شہروں کے اعلان کے بعد اب یونیسکو کے تخلیقی شہروں کے نیٹ ورک کی کل تعداد 246 ہوگئی ہے۔

    انھوں نے مزید کہا وہ شہر جو اس نیٹ ورک کا حصہ بنتے ہیں تمام براعظموں اور خطوں سے مختلف آمدنی اور آبادی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ وہ مشترکہ مشن کے حصول کیلئے مل کر کام کرتے ہیں تاکہ پائیدار ترقی کے لئے اقوام متحدہ کے 2030 کے ایجنڈے اور اہداف کو حاصل کیا جاسکے۔

    دوسری جانب کمشنر کا کہنا ہے کہ لاہور یونیسکو کریٹیو سٹی نیٹ ورک میں شامل ہوا ، لاہور پہلا شہر ہے جس کو عالمی سطح پر اعزاز ملاہے، رواں سال یونیسکو کریٹیو سٹی میں لاہور سمیت 66 شہروں کو شامل کیا گیا، ہمیں دعوت ملی تھی جس کے بعد ہم نے درخواست دی۔

    یاد رہے رواں سال جولائی میں پاکستان تاریخی شالا مارباغ کو خطرناک عمارتوں میں شامل ہونے سے بچانے میں کام یاب ہو گیا تھا اور عالمی ورثہ کمیٹی نے پاکستان کا مؤقف تسلیم کرلیا تھا۔

    واضح رہے کہ یونیسکو اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے جو عالمی سطح پر تعلیم، سائنس اور ثقافت سے متعلق معاملات دیکھتا ہے۔