Tag: لاہور ہائی کورٹ

  • توشہ خانے کے تحائف کی نیلامی روکنے کا حکم ،  وفاقی حکومت سے جواب طلب

    توشہ خانے کے تحائف کی نیلامی روکنے کا حکم ، وفاقی حکومت سے جواب طلب

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے توشہ خانے کے تحائف کی نیلامی کا عمل روک دیا اور وفاقی حکومت سے 9 دسمبر تک جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کے سرکاری تحائف کی خفیہ نیلامی روکنےکی درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاسم خان نےعدنان پراچہ ایڈووکیٹ کی درخواست پرسماعت کی۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ رولز کےتحت نیلامی کی کارروائی عمل لائی جارہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا اندھا بانٹےریوڑیاں اپنوں میں ،یہ تو مثال بن گئی، نیلامی کیلئے اشتہار دیا گیا یا نہیں، یا صرف افسران کو خطوط لکھے گئے، یہ طریقہ کار واضح طور پر آئین کی خلاف ورزی ہے۔

    لاہور ہائی کورٹ نے توشہ خانے کے تحائف کی نیلامی کا عمل روکتے ہوئے وفاقی حکومت سے 9 دسمبر تک جواب طلب کرلیا اور اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔

    یاد رہے لاہور ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کے سرکاری تحائف کی خفیہ نیلامی روکنے کیلئے درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ صدرمملکت، وزیراعظم، وزرا ء اوراعلی حکام کو سرکاری دوروں پر ملنے والے تحائف توشہ خانہ میںجمع ہوتے ہیں، توشہ خانہ کے سرکاری تحائف کوقانونی جواز کے بغیر خفیہ نیلام کیا جارہا ہے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ خفیہ نیلامی میں شمولیت کیلئے عوام الناس کی بجائے صرف سرکاری افسروں کو خطوط لکھے گئے ہیں، استدعا ہے کہ پچیس نومبرکوہونے والی غیرقانونی خفیہ نیلامی کوروکنے کاحکم دیا جائے ۔

  • موٹر وے زیادتی کیس: ملزمان اور مدعیہ کی تصاویر اور ویڈیو چلانے پر پابندی عائد

    موٹر وے زیادتی کیس: ملزمان اور مدعیہ کی تصاویر اور ویڈیو چلانے پر پابندی عائد

    لاہور: ہائی کورٹ نے موٹر وے زیادتی کیس میں ملزم عابد ملہی، شریک ملزم اور مدعیہ کی تصاویر اور ویڈیو چلانے پر پابندی عائد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے موٹر وے زیادتی کیس کی کوریج پر پابندی کے خلاف تحریری حکم نامہ جاری کردیا ، چیف جسٹس لاہور ہاٸی کورٹ محمد قاسم خان نے تین صفحات پر مشتمل تحریری حکم جاری کیا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ موٹروے خاتون زیادتی کیس کے ملزم عابد ملہی، شریک ملزم اور مدعیہ کی تصاویر اور ویڈیو چلانے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔

    عدالت نے ملزمان کی گرفتاری سے متعلق وزرا اور مشیروں کی پریس کانفرنس کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

    فیصلے مین خاتون زیادتی کیس کی رپورٹنگ پر پابندی عائد کرنے سے متعلق ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا اور کہا کہ اے ٹی سی کے جج نے پابندی عاٸد کرتے وقت پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ کا خیال نہیں رکھا، اے ٹی سی نے پیمرا کو پرنٹ اور سوشل میڈیا پر کوریج روکنے کا حکم دیا جو اس کا داٸرہ اختیار ہی نہیں آتا۔

    عدالت نے قرار دیا کہ پیمرا عدالتی حکم پر من وعن عملدرآمد کروائے، بعد ازاں عدالت نے کارروائی ایک ہفتے تک ملتوی کر دی۔

  • لاہور ہائی کورٹ نے پی ڈی ایم  کے جلسے رکوانے کی درخواست مسترد کردی

    لاہور ہائی کورٹ نے پی ڈی ایم کے جلسے رکوانے کی درخواست مسترد کردی

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے پی ڈی ایم کے جلسے اور اسمبلی سیشنز رکوانے کے لئے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مسعود عابد نقوی نے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سلمان کاظمی کی پی ڈی ایم کے جلسے اور اسمبلی سیشنز رکوانے کی درخواست پر سماعت کی، جس میں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام کو فریق بنایا گیا۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کیسے عدالت میں آ گئے، کس بنیاد پر آپ کہتے ہیں کہ جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کی جاٸے۔

    درخواست گزار کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ میں پہلے بھی کورونا سے متعلق کیسز آ چکے ہیں، ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں جلسے کرنے جارہی ہیں، جو کرونا پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔

    عدالت نے قرار دیا کہ جلسے کروانا اور ایس او پیز پر عملدرآمد کروانا حکومت کا کام ہے، عدالت پالیسی معاملات میں کیسے مداخلت کر سکتی ہے، دلائل کے بعد عدالت نے درخواست نا قابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دی۔

  • دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کا جرمانہ 200 سے بڑھا کر 2 ہزار روپے کرنے کا حکم

    دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کا جرمانہ 200 سے بڑھا کر 2 ہزار روپے کرنے کا حکم

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے اسموگ پربروقت قابو پانے کیلئے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کا جرمانہ 200 سے بڑھا کر 2 ہزار روپے کرنے اور گاڑیوں کو 3دن تک بند کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے اسموگ پر بروقت قابو نہ پانے کی خلاف کیس کی سماعت کی، فوکل پرسن سید کمال حیدر نے ماحولیاتی کمیشن کی سفارشات عدالت میں جمع کروائیں۔

    ماحولیاتی کمیشن نے سفارش کی ہے کہ لاہور میں تمام ماڈل روڈز پر چنگ چی رکشے کو بند کیا جائے، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے لیے جرمانہ 200 سے بڑھا کر 2 ہزار روپے کیا جائے۔

    سفارشات میں کہا گیا کہ فنانس ڈیپارٹمنٹ 6 سال سے زیر التوا موٹر وہیکل بل جلد کابینہ میں پیش کرے اور فضا کو خراب کرنے والی گاڑیوں کو 3 دن تک بند کر دیا جائے۔

    عدالت نے سفارشات منظور کرتے ہوٸے حکم دیا کہ گاڑیوں کا جرمانہ دو ہزار اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو تین دن کے لیے بند کر دیا جاٸے جبکہ محکمہ داخلہ کو 6سال سے زیر التوا موٹر وہیکل بل جلد کابینہ میں پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

    درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ ہر سال سموگ خطرناک صورتحال اختیار کر رہاہے جس سے عوام میں سانس اور دیگر بیماریاں پھیل رہی ہیں، حکومت پورا سال سموگ کے تدارک کے لیے کام نہیں کرتی جس کی وجہ سے سموگ بڑھتی جارہی ہے لہذا عدالت سموگ کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات کا حکم دے۔

  • شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں پیر تک توسیع

    شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں پیر تک توسیع

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی ضمانت میں پیر تک توسیع کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں میاں شہباز شریف کی منی لانڈرنگ کیس میں عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے درخواست ضمانت پر سماعت کی۔شہباز شریف عدالت میں پیش ہوئے۔

    اپوزیشن لیڈر کے وکیل نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے مشیر اعلان کر رہے ہیں کہ ہم شہباز شریف کو جیل میں ڈال کر نشان عبرت بنائیں گے۔ یہ طے کر کے بیٹھے ہیں کہ شہباز شریف جیل جانے کے لیے اپنے کپڑے ساتھ لائیں۔

    امجد پرویز نے کہا کہ نیب پہلے دن سے شہباز شریف کو گرفتار کرنے کا دماغ بنا چکا ہے، جب ریفرنس فائل ہو چکا ہے تو پھر گرفتاری کی کیا ضرورت ہے؟

    قائد حزب اختلاف کے وکیل نے کہا کہ شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں، ان کی آئینی ذمہ داریاں ہیں، شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا جسے عدالت نے کالعدم قرار دیا۔

    شہباز شریف نے عدالت میں بیان دیا کہ جس دن سنا تھا کہ کورونا کی وجہ سے فلائٹس بند ہو رہی ہیں،آخری فلاٸٹ تھی جس کے ذریعے ملک واپس آیا اور نیب کی کارروائی کا سامنا کیا۔

    بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں شہباز شریف کی عبوری ضمانت میں 28 ستمبر تک توسیع کر دی۔

  • لنک روڈ زیادتی کیس، پولیس کے سینئر افسروں کو ہر ضلع میں روزانہ 2 گھنٹے رات کو گشت کرنے کا حکم

    لنک روڈ زیادتی کیس، پولیس کے سینئر افسروں کو ہر ضلع میں روزانہ 2 گھنٹے رات کو گشت کرنے کا حکم

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے پولیس کے سینئر افسروں کو ہر ضلع میں روزانہ دو گھنٹے رات کو گشت کرنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ریمارکس میں کہا صوبے کے لوگوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے میاں آصف محمود اور ندیم سرور ایڈووکیٹ کی جانب سے لنک روڈ اجتماعی زیادتی معاملے کی جوڈیشل انکواٸری کرانے کی درخواستوں پر سماعت کی۔

    ڈی آئی جی لیگل جواد ڈوگر رپورٹ سمیت عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس لاہور نے پوچھا کہ بتائیں سینئر پولیس افسرا ن کس طریقے کے تحت گشت کریں گے ؟ رات 11 سے ایک بجے ہر ضلع میں ایک سینئر افسر روڈ پر ہونا چاہئے ، پولیس کا ڈسٹرکٹ پٹرولنگ سسٹم ناکارہ ہو چکا ہے۔

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا اگر وہ چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنی عدالت میں کام نہ کریں تو ماتحت عدلیہ سے کام نہیں لے سکتے، بتایا جاٸے آئی جی کتنے دن اور کس کس وقت گشت کرے گا۔

    پولیس افسر نے بتایا کہ نظام پہلے ہی موجود ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ واٸر لیس پر افسر بتاتا ہے کہ فلاں چوک میں ڈیوٹی پر ہے جب کہ وہ افسر گھر بیٹھاکھانا کھا رہا ہوتا ہے، صوبے کے لوگوں کی سیکیورٹی چاہیے ۔

    جسٹس محمد قاسم خان کا کہنا تھا کہ حکومت آئین کے تحت شہریوں کے تحفظ کی پابند ہے. وکلا اس نکتے پر معاونت کریں کہ اگر سرکاری پراپرٹی پر قتل ہو جاٸے تو کیا حکومت کو دیت کی رقم دینی چاہیے ۔

    عدالت نے فریقین کے وکلاء کو آئندہ سماعت پر بحث کیلئے طلب کرلئے اور کہا وکلا معاونت کریں سرکار کی جانب سے دیت دینے کاقانون کیاکہتاہے، بعد ازاں لنک روڈخاتون زیادتی کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔

  • لنک روڈ زیادتی کیس : لاہور ہائی کورٹ کا  واقعہ میں ملوث ملزموں کی فوری گرفتاری کا حکم

    لنک روڈ زیادتی کیس : لاہور ہائی کورٹ کا واقعہ میں ملوث ملزموں کی فوری گرفتاری کا حکم

    لاہور : چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے لنک روڈ زیادتی واقعہ میں ملوث ملزموں کی فوری گرفتاری کا حکم دیتے ہوٸے قرار دیا کہ کوئی ماروائے عدالت کام نہ ہو جبکہ عدالت میں سی سی پی او نے اپنے بیان پر معذرت کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہورہائی کورٹ میں لنک روڈزیادتی کیس کی جوڈیشل انکوائری کی درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ محمدقاسم خان نے درخواست پر سماعت کی۔

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ قانون کےمطابق حکومت چاہےتوجوڈیشل انکوائری کراسکتی ہے، قانون پڑھ لیں،بتائیں کہ کس قانون کےتحت یہ حکم جاری کریں، صرف خبرچھپوانے کےلیے درخواستیں دائرنہ کی جائیں۔

    سرکاری وکیل نے بتایا کہ ایف آئی آردرج ہے،انویسٹی گیشن ہورہی ہے،جس پر چیف جسٹس محمدقاسم خان کا کہنا تھا کہ سی سی پی او نے وہ جملہ بولا جس پر پوری کابینہ سے معافی مانگنی چاہیے، یہ کیا انویسٹی گیشن ہے، سی سی پی او مظلوم خاتون کوغلط کہہ رہاہے، بہت سےوزرا نے عجیب وغریب بیانات دیے ، پتہ نہیں انویسٹی گیشن ہو رہی ہے یا ڈرامہ بازی ہے۔

    عدالت نے کہا کہ حکومتی مشیر اور وزیرقانون موقع پرجاکر تصویریں بنارہےہیں، کیاوزیرقانون انویسٹی گیشن افسرہےجووہاں تصویریں بنارہےہیں، یہ تصویریں بعدمیں سوشل میڈیا پرڈال کردکھاتےہیں بڑاکام کیا۔

    چیف جسٹس محمد قاسم خان نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی کا نوٹیفکیشن ، تازہ رپورٹ اور سی سی پی او لاہور کو بھی طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ سی سی پی او نے جوبیان دیا اس پر کیا کارروائی ہوئی؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ سی سی پی او کے بیان پرانکوائری ہورہی ہے؟ سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ پورے معاملے کی انکوائری ہو رہی ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ معاملے پر سخت ایکشن ہونا چاہیے تھا تاکہ قوم کی بیٹیوں کو حوصلہ ہوتا، آپ سب کو بلا لیں پھر دیکھتے ہیں معاملے کو۔

    سی سی پی اولاہور عمر شیخ عدالت میں پیش ہوئے ، چیف جسٹس نے کہا کمیٹی بنانے کا اختیار کس کے پاس ہے ،قانون میں واضح ہے، ہر چیز ایک قانون کے تحت ہوتی ہے ، کمیٹی کمیٹی نہ کھیلا جائے، تین دن میں رپورٹ آنی تھی کیا ہوا، آپ ابھی رپورٹ منگوائیں کہ اب تک کیاہوا ہے، سمجھ نہیں آتی ، معاشرہ رول آف لاکے بغیر نہیں چل سکتا ، کابینہ فیصلہ کرتی کہ پولیس کو اب کیسے کام کرنا ہے ، کمیٹی میں ماہرلوگ شامل کئے جاتےہیں تاکہ شفاف تفتیش ہوسکے۔

    سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ سی سی پی او سے وضاحت طلب کی گئی ہے ،نوٹس جاری کیا گیا کہ متاثرہ خاتون سےمتعلق ایسا بیان کیوں دیا ، جواب آنے کے بعد متعلقہ اتھارٹی کے پاس معاملہ بھیجا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا آئی جی پنجاب نے لکھا کارروائی ہوگی مگریہ نہیں بتایاکس قانون کےتحت، آئی جی نےنہیں بتایا سی سی پی او نےکون سےقانون کی خلاف ورزی کی، سرکاری وکیل نے بتایا سی سی پی او لاہور کا عمل مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔

    جسٹس محمدقاسم خان کا کہنا تھا کہ یہ ایسے شخص کی رپورٹ ہے جس نے پورے صوبےمیں قانون نافذکرناہے ، لگتا ہے گونگلووں سے مٹی جھاڑی گئی ہے۔

    سی سی پی اولاہور نے بیان میں کہا کہ 9 تاریخ کی رات کویہ واقعہ پیش آیا، جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا وہاں پولیس تعینات نہیں تھیں ، پچھلے کچھ سالوں سے زیادہ موٹر ویزبنی ہیں وسائل اورنفر ی کم ہے ، یہ ذمہ داری ان حکومتوں کی ہے انہوں نے فیصلہ کرناتھا ،رنگ روڈ تک ہمارادائرہ اختیار ہے اس کے بعد ہماری ذمہ داری نہیں تھی، اداروں میں کھچاؤاور ہم آہنگی نہ ہونے سےصورتحال بہتر نہیں ہوئی، مجھ پر الزام لگتا ہے کہ میں نے بیان دیا حالانکہ 15 پر کال کرنا چاہیےتھا۔

    چیف جسٹس نے کہا بچی توخوفزدہ تھی مگر موٹر وے انتظامیہ نے کیوں 15پرکال نہیں کی، سی سی پی او نے بتایا کہ یہ ہمارے نظام کی کمزوری ہے۔

    سرکاری وکیل نے واقعےپر قائم کمیٹی کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کمیٹی کمیٹی کھیلنا بند کیا جائے ۔

    چیف جسٹس نے سی سی پی او کو شوکاز دینے کے معاملے پر آٸی جی کی رپورٹ پر قرار دیا کہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے والی بات ہے، جس شخص کیخلاف کاروائی کی جارہی ہے اس کو بتایا تو جائے اس نے کیا خلاف ورزی کی ہے۔

    سی سی پی او نے تفتیش کی تفصیلات سے آگاہ کیااور اعتراف کیا کہ موٹروے پر سکیورٹی نہیں تھی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پولیس کوئی جواز پیش کر کے اپنی ذمہ داری سے مبرا نہیں ہے ۔

    سماعت کے دوران درخواست گزار نے سانحہ ساہیوال کا حوالہ دیا توچیف جسٹس نے کہا کہ سانحہ ساہیوال کی بات نہ کریں اس میں فیملی بے گناہ تھی لیکن اس میں کئی تلخ حقیقتیں تھیں ۔

    سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے کہا کہ دو تین دن میں سب کھل کر سامنے آجائے گا جبکہ سی سی پی او نے اپنے بیان پر معافی مانگی اور کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں ۔

    چیف جسٹس نے کہا رات کو سفر کرنے کے معاملے پر پولیس اپنی ذمہ داری سے مبرا نہیں ہو سکتی ، قانون کے مطابق سب کچھ ہونا چاہیے کوئی بات ماورائے قانون نہیں ہونی چاہیے، اب وہ وقت آگیا ہے کہ کسی کو معافی نہیں ملے گی سب کو پکڑیں گے۔

  • لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب کے تبادلے کیخلاف درخواست پر اعتراض ختم کردیا

    لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب کے تبادلے کیخلاف درخواست پر اعتراض ختم کردیا

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب کے تبادلے کیخلاف درخواست پر اعتراض ختم کر دیا، جسٹس محمد قاسم خان نے ریمارکس دیئے کہ میں کریز میں رہنے والا انسان ہوں، قانونی حدود سے باہر نہیں نکلتا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس محمد قاسم خان نے مسلم لیگ نون کے رکن پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کی آٸی جی پنجاب کے تبادلے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا کسی اتھارٹی سے بنیادی حقوق کی رٹ میں تبادلے کے متعلق پوچھا جا سکتا ہے ،بظاہر آپ کو موجودہ درخواست بنیادی حقوق کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی ۔

    عدالت نے قرار دیا کہ ان کیلئے یہ کیس نہیں ہر کیس اہم ہے اس معاملے پر فیصلہ ایک راستہ کھول دے گا اور کل کو بے شمار لوگ اس فیصلے کی روشنی میں عدالت میں آ جاٸیں گے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سول سرونٹ کے علاوہ کوٸی کسی تبادلے میں متاثرہ فریق ہو سکتا ہے اور کیا کسی افسر کے تبادلے سے کسی شہری کا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے۔

    درخواست گزار ملک احمد خان نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیتے ہوٸے کہا کہ پولیس آرڈر کی موجودگی میں چھ آٸی جیز کا تبادلہ ہوا، حکومت کو پولیس آرڈر کی کوٸی پرواہ نہیں ہے میں پبلک سیفٹی کمیٹی کا ممبر ہوں جو اس تبادلے سے متاثرہ ہے۔

    سرکاری وکیل نے درخواست کی مخالفت کی درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں، صرف وہی شخص متاثرہ ہے جس کا تبادلہ ہوا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آٸی جی پنجاب کے تبادلے اور سی سی پی او لاہور کے تقرر کیخلاف درخواست پر اعتراض ختم کر دیا اور حکم دیا کہ کیس کو سماعت کے لیے لگایا جاٸے ۔

    ہاٸی کورٹ آفس نے درخواست پر ناقابل سماعت ہونے کا اعتراض عاٸد کیا تھا۔

  • لاہور ہائی کورٹ کا نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو نوٹس جاری

    لاہور ہائی کورٹ کا نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو نوٹس جاری

    لاہور: نارووال شکرگڑھ روڈ تعمیر نہ کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق نارووال شکرگڑھ روڈ تعمیر نہ کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ڈی جی نیب سے اسفسار کیا کہ ماتحت شعبے میں ڈیزائنگ کا شعبہ ہے جو ایسے معاملہ چیک کرسکے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم ایسے معاملات میں یو ای ٹی سے مشاورت کرتے ہیں۔

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ سڑک کی تعمیر کے وقت مناسب ڈیزائن نہیں بنایا گیا،جن لوگوں نے دانستہ ایسا کیا کیا ان پر دباؤ تھا؟کیا اس طرح سڑک کی تعمیر مناسب تھی۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں سماعت کے دوران بتایا کہ روڈ تعمیر کرنا نیشنل ہائی وے کا کام ہے۔عدالت نے ڈی جی نیب کو جامع رپورٹ دینے کے لیے 4 ہفتےکی مہلت دے دی۔

    بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 29 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

  • لاہور ہائی کورٹ کا ماتحت عدلیہ سے متعلق اہم فیصلہ

    لاہور ہائی کورٹ کا ماتحت عدلیہ سے متعلق اہم فیصلہ

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے ماتحت عدلیہ کے ججوں کو بیانات خود قلمبند کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے  ماتحت عدلیہ کے ججز کو ضابطہ فوجداری  کے تحت ملزمان کے بیانات خود قلمبند کرنے کا حکم دے دیا۔

    جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمر قید کے ملزم محمد قاسم کی سزا کے خلاف اپیل پر تحریری فیصلہ جاری کیا۔

    عدالت نے ملزم محمد قاسم کے خلاف قتل کے مقدمہ کا ٹرائل دوبارہ کرنے کا حکم دے دیا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ فوجداری مقدمات کے ٹرائل کے دوران ملزموں کے بیانات ججز خود قلمبند کریں۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ضابطہ فوجداری کے تحت ملزموں سے الزامات سے متعلق خود سوال کریں۔عمومی طور پر ٹرائل عدالتوں کے جج ملزموں کے بیانات ریکارڈ نہیں کرتے اور بیانات کا جائزہ بھی نہیں لیتے۔پراسیکیوٹرز یا مدعی مقدمہ کے وکلاء ملزموں کے وکلاء کو سوالنامہ دیتے تھے۔

    لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بیان ریکارڈ کرنے کا معاملہ خالصتاََ عدالت اور ملزم کے درمیان ہوتا ہے، بیان قلمبند کیے جانے کے دوران کسی لیگل ایڈوائزر کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔