Tag: لاہور ہائی کورٹ

  • بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جائے، لاہور ہائی کورٹ

    بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جائے، لاہور ہائی کورٹ

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے اسموگ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ یہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کا معاملہ ہے، معاملے کو سنجیدہ لیا جائے، بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں نامزد چیف جسٹس مامون رشید شیخ نے اسموگ،ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے سماعت کے دوران اسموگ کے تدارک کے حوالے سے اقدامات کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔

    لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کا معاملہ ہے، معاملے کو سنجیدہ لیا جائے، بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کیا جائے۔

    عدالت نے ریمارکس دیے کہ ماحول دوست گاڑیوں کی ٹیکنالوجی پرعملدرآمد کے لیے کیا اقدامات کیے گئے، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی جا رہی۔

    لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ناقص پیٹرول کی فروخت میں ملوث افراد کے خلاف کیا کارروائی کی گئی، عدالت نے شور، دھواں اور ناقص پٹرول کا معاملہ سب کمیٹی کے سامنے رکھنے کا حکم دیا۔

    سرکاری وکیل نے کہا کہ پلاسٹک، ربڑ جلانے کی روک تھام کا نیا قانون لایا جا رہا ہے، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا درختوں کی جیو ٹیگنگ ممکن ہے، جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسا ممکن ہے۔

    بعدازاں عدالت نے اسموگ کے تدارک کے حوالے سے اقدامات کی تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔

  • پی آئی سی حملہ، وکلا اور ڈاکٹرز کی 8 رکنی کمیٹی تشکیل

    پی آئی سی حملہ، وکلا اور ڈاکٹرز کی 8 رکنی کمیٹی تشکیل

    لاہور: پی آئی سی حملے کا معاملہ حل کرنے کے لیے لاہور ہائیکورٹ نے وکلا اور ڈاکٹرز کی 8 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق کمیٹی تنازع پر مذاکرات کرکے معاملہ حل کرے گی، کمیٹی میں وکلا اور ڈاکٹرز کے 4،4 نمائندے شامل ہوں گے، کمیٹی مذاکرات کرکے سفارشات عدالت میں پیش کرے گی، عدالت کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں کیس کا فیصلہ کرے گی۔

    ہائیکورٹ کے حکم پر وکلا نے مصالحتی کمیٹی کے لیے چار نام پیش کردئیے۔ جن میں حفیظ الرحمن چوہدری، پیرمسعودچشتی، شاہ نواز اسماعیل اور اصغرگل کا نام شامل ہے۔ جبکہ ڈاکٹرز کی جانب سے مشاورت کے بعد نام عدالت میں پیش کیے جائیں گے۔

    لاہور ہائی کورٹ میں گرفتار وکلا کی رہائی اور گھروں پر چھاپوں کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس مظاہرعلی نقوی اور جسٹس سردار احمد نعیم نے سماعت کی، چیف سیکریٹری پنجاب اور سیکریٹری داخلہ اور آئی جی پنجاب عدالت میں پیش ہوئے۔

    لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران عدالت کی برہمی پر آئی جی پنجاب عارف نواز نے صفائی پیش کی کہ پولیس قانون کے مطابق کارروائی کررہی ہے، تفتیش کو طے شدہ معیار کے مطابق کیا جارہا ہے، کسی گروہ کو پولیس نے ٹارگٹ نہیں کیا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ اسپتال پر حملہ بدقسمتی ہے، ملک میں کسی ایڈونچر کی گنجائش نہیں، گرفتار وکلا کے چہرے ڈھانپ کرپیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جو ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔

    آئی جی پنجاب نے موقف اختیار کیا کہ جو افراد موقع سے پکڑے گئے صرف ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ عدالت نے کہا جس نے کیا اسے خمیازہ بھگتنا چاہئے جس نے نہیں کیا اسے کیوں تنگ کیا گیا؟ وکلا 6میل کا فاصلہ طے کرکے گئے پولیس نے پہلےایکشن کیوں نہیں لیا؟

    عارف نواز نے کہا کہ پولیس نے جگہ جگہ روکا مگر اس وقت وکلا بھی پرامن رہے۔ جس پر عدالت نے سوال کیا کہ کیا پی آئی سی کے سامنے پولیس نے جانے کی اجازت دی تھی؟ آئی جی نے جواب دیا پولیس نے ایسی کوئی اجازت نہیں دی۔

    پی آئی سی واقعہ، 2 رکنی بینچ نے سماعت سے معذرت کرلی

    عدالت کا برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پولیس نے وکلا کو اسپتال جاکر احتجاج سے کیوں نہیں روکا؟ اسپتال تو ایسی جگہ ہے جہاں مریضوں پر عبادت بھی ساقط ہوجاتی ہے، دل کے مریضوں کے سامنے تو اونچی آواز اور سانس بھی نہیں لی جاسکتی، پولیس اپنی ناکامی تسلیم کرے۔

    دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا پولیس نے وکلا کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس چلائی۔ جس پر عدالت نے کہا وکلا نے اسپتال پر حملہ اور پولیس نے آنسو گیس چلائی تو قوم پر کیا احسان کیا؟ کیا وہاں آنسوگیس کا استعمال ہونا چاہیے تھا؟

    سیکریٹری داخلہ پنجاب کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں تین افراد جان سے گئے، لواحقین کو فی کس10لاکھ روپے دئیے گئے۔ عدالت نے کہا 10لاکھ بہت کم ہیں آج کے دور میں اتنے پیسوں کا کیا بنتا ہے؟

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں لاہور میں وکلا نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر دھاوا بول دیا تھا، اس دوران وکلا نے صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان پر شدید تشدد کیا اور اسپتال میں توڑ پھوڑ کی۔ جس کے بعد پولیس نے لاہور بار کونسل کے صدر سمیت 15 وکلا کو گرفتار کیا تھا۔ حملے کے خلاف دو مختلف ایف آئی آرز درج کرائی گئی تھیں جن میں ڈھائی سو وکلا کو نامزد کیا گیا ہے۔

  • پی آئی سی میں جو کچھ ہوا وہاں جانے والوں نے سب کا منہ کالا کیا: عدالت

    پی آئی سی میں جو کچھ ہوا وہاں جانے والوں نے سب کا منہ کالا کیا: عدالت

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ میں گرفتار وکلا کی رہائی اور گھروں پر چھاپوں کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی سی میں جو کچھ ہوا وہاں جانے والوں نے سب کامنہ کالا کیا، وکلا اپنے حقوق کے لیے کیوں نہیں کھڑے ہوئے؟

    تفصیلات کے مطابق پی آئی سی حملے سے متعلق وکلا کی گرفتاریوں کے خلاف درخواست پر ہائیکورٹ کا تیسرا بینچ تشکیل دیا گیا ہے، چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس سردار شمیم نے نیا بینچ تشکیل دیا، 2رکنی بینچ میں جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس سرداراحمد نعیم شامل ہیں۔

    دوران سماعت ملک بھر کی بار ایسویسی ایشنز نے پی آئی سی واقعہ پر عدالت کے سامنے معافی مانگ لی۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وکلا کو اسپتال جانے کی ضرورت کیا تھی؟ معاملات ایک دو دن میں یہاں تک نہیں پہنچے، جنہوں نے کلنک کا ٹیکہ لگایا وہ 2فیصد ہیں، 2فیصد نے 100فیصد وکلا کو یرغمال بنا رکھا ہے۔

    عدالت نے کہا کہ ایسے وکلا کے خلاف بار نے کیوں کارروائی نہیں کی؟ 2 فیصد وکلا کے عمل پر ہائیکورٹ کا کوئی جج ان کا کیس سننے کو تیار نہیں، وکلا ڈیڑھ گھنٹے سڑکوں پر رہے انتظامیہ نے روکنے کی کوشش کیوں نہ کی؟

    پی آئی سی واقعہ، 2 رکنی بینچ نے سماعت سے معذرت کرلی

    وکیل اعظم نذیر تارڈ کا کہنا تھا کہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بار کی مکمل ناکامی ہے، وکلا کے اندرونی احتساب کا عمل سخت کیا جائے گا، پی آئی سی میں جو کچھ ہوا تمام بار ایسوسی ایشنز نے مذمت کی، وقوعہ میں 100 سے کم وکلا تھے مگر پولیس تمام وکلا کو تنگ کر رہی ہے، گرفتار وکلا کو قانونی امداد فراہم نہیں کرنے دی گئی۔

    جس پر عدالت نے کہا کہ ہائیکورٹ کو سنجیدہ خطرہ ہے، وکلا چھوٹے چھوٹے گروپ میں رہیں، ایک جگہ زیادہ وکلا اکٹھے نہ ہوں، یہ خطرہ ججوں کے لیے بھی ویسا ہی ہے۔ سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو فیصلے پر عمل درآمد کی ہدایت کی۔

    لاہورہائی کورٹ نے چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری اور آئی جی کو طلب کرلیا، عدالت نے پی آئی سی کے سربراہ کو بھی طلب کیا ہے۔ خیال رہے کہ جسٹس علی باقرنجفی کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے کیس واپس بھجوا دیا تھا جس کے بعد نئی بینچ تشکیل دی گئی۔

  • نواز شریف کی پہلی میڈیکل رپورٹ ہائی کورٹ میں جمع

    نواز شریف کی پہلی میڈیکل رپورٹ ہائی کورٹ میں جمع

    لاہور : سابق وزیراعظم نواز شریف کی پہلی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرادی گئی ، جس میں کہا گیا میاں نواز شریف کی بیماری کی تشخیص کی جا رہی ہے، وہ علاج کی غرض سے لندن میں مقیم ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق میاں نواز شریف کی صحت کے متعلق پہلی رپورٹ ہائی کورٹ میں جمع کروا دی گئی ، رپورٹ ان کے وکیل امجد پرویز نے ایڈیشنل رجسٹرار آفس میں جمع کروائی، پیش کی گئی رپورٹ پاکستانی ہائی کمیشن سے تصدیق شدہ ہے۔

    برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن سے تصدیق شدہ سابق وزیراعظم کی میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا کہ نوازشریف کو متعدد بیماریوں کا سامناہے، نواز شریف کو بظاہر آئی ٹی پی کی بیماری ہے، پلیٹ لیٹس کنٹرول میں نہ آئے تو جسم میں زہریلے مواد کی تشخیص کیلئے ٹاکسیکالوجی اسکریننگ کی جائے گی۔

    مزید پڑھیں : نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ کل جمع کرانے کی ہدایت

    رپورٹ میں بتایا گیا فالج سے بچاؤ کیلئے دماغ کو خون منتقل کرنے والی شریان کا علاج زیر غور ہے، حتمی تشخیص تک ڈاکٹروں کی زیرنگرانی رہنا ہوگا، ڈاکٹروں نے نوازشریف کو دن میں دو بار واک کا مشورہ دیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ان کے پلیٹ لیٹس مستحکم کرنے کے لیےعلاج جاری ہے، محفوظ علاج کے لیے 50 ہزارسے ڈیڑھ لاکھ پلیٹ لیٹس ہونے چاہئیں ، بائی پاس کے بعد نوازشریف کی طبیعت بہتر ہے مگر شریانوں میں مسائل ہیں، نوازشریف کے دل کی ایم آر آئی بھی ہو رہی ہے۔

    گذشتہ روز نوازشریف کے وکیل امجد پرویز کی جانب سے میڈیکل رپورٹ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی تاہم عدالتی وقت ختم ہونے پر رپورٹ وصول نہ کی جاسکی تھی، جس کے بعد ہائی کورٹ آفس نے رپورٹ کل جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

    خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف 19 نومبر سے علاج کی غرض سے لندن میں مقیم ہیں جہاں ان کے مسلسل ٹیسٹ اور طبی معائنہ کیا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں: نواز شریف کے دماغ کو خون پہنچانے والی شریان 88 فیصد بند

    یاد رہے نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کا کہنا تھا  کہ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کا مسئلہ بے قابو ہے، انہیں دل، شوگر اور شریانوں کی بیماری لاحق ہیں۔

    اس سے قبل ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے دماغ کو خون پہنچانے والی شریان 88 فیصد بند ہے، ڈاکٹرز نے امریکا میں علاج کی تجویز دی ہے، ڈاکٹرز شوگر ان کی مقدار اور پلیٹ لیٹس کے توازن کو اعتدال میں لانے کی کوشش کررہے ہیں تاہم پلیٹ لیٹس کی مقدار میں مسلسل کمی کی وجوہات اب تک معلوم نہیں ہوسکیں۔

  • نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ کل جمع کرانے کی ہدایت

    نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ کل جمع کرانے کی ہدایت

    لاہور: نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ عدالتی وقت ختم ہونے پروصول نہ کی جاسکی، ہائی کورٹ آفس نے رپورٹ کل جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق نوازشریف کے وکیل امجد پرویز کی جانب سے میڈیکل رپورٹ لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی تاہم عدالتی وقت ختم ہونے پر رپورٹ وصول نہ کی جاسکی۔ ہائی کورٹ آفس نے رپورٹ کل جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔

    سابق وزیراعظم کی صحت پر رپورٹ برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن سے تصدیق شدہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ نوازشریف کے پلیٹ لیٹس مستحکم کرنے کے لیےعلاج جاری ہے، محفوظ علاج کے لیے 50 ہزارسے ڈیڑھ لاکھ پلیٹ لیٹس ہونے چاہئیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف کو دل میں خون کی شریانوں میں مسائل کا بھی سامنا ہے، بائی پاس کے بعد نوازشریف کی طبیعت بہتر ہے مگر شریانوں میں مسائل ہیں، نوازشریف کے دل کی ایم آر آئی بھی ہو رہی ہے۔

    میڈیکل رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نوازشریف کو دن میں 2 مرتبہ واک بھی کرنی چاہیے، نوازشریف کے مرض کی مکمل تشخیص کا عمل بھی جاری ہے۔

  • لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف آئین شکنی کیس پر اہم سوالات اٹھا دئیے

    لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف آئین شکنی کیس پر اہم سوالات اٹھا دئیے

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف آئین شکنی کیس پر اہم سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کیا ایمرجنسی لگانا اور آئین توڑنا دو الگ چیزیں نہیں ہیں؟ عدالت نے کہا تین چار سینئر ججز کہہ چکے ہیں کہ یہ ایمرجنسی ہے آئین شکنی نہیں، کیا وفاقی حکومت اس کمپلینٹ کو واپس نہیں لے سکتی؟ کیونکہ جو سپر اسٹرکچر بنایا اس کی بنیاد ہی غلط تھی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف آئین شکنی کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے خلاف سماعت ہوئی، لاہور ہائی کورٹ نے ٹرائل کی شفافیت پر سوال اٹھا دئیے۔

    عدالت نے وکلا سے استفسار کیا کہ کیا ایمرجنسی لگانا اور آئین توڑنا دو الگ چیزیں نہیں ہیں؟ کیا تین نومبر دو ہزار سات کو حکومت بھی نہیں تھی اور آئین بھی نہیں تھا؟آرٹیکل چھ کہاں لاگو ہوتا ہے ؟

    پرویز مشرف کے وکیل نے دلائل میں کہا ان کے موکل کے خلاف کیس سابق وزیراعظم نواز شریف کے حکم پر شروع کیا گیا ،نواز شریف حکومت پرویز مشرف نے ختم کی تھی، اس لئے کیس کو شروع کرنے میں نواز شریف کی ذاتی رنجش شامل تھی۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے مقدمے کا ریکارڈ جمع کروایا گیا، فاضل جج نے سوال کیا کہ کیا یہ معاملہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے سامنے رکھا گیا؟ تو سابق صدر کے وکیل کا کہنا تھا یہ معاملہ پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں لایا گیا ، خصوصی عدالت کی تشکیل قانونی طریقہ کار کے برعکس ہے۔

    عدالت نے کہا پھر یہ سارا کیس چل کس طرح رہا ہے ؟ کیا وفاقی حکومت اس کمپلینٹ کو واپس نہیں لے سکتی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کیس حتمی مراحل میں ہے،اب کمپلینٹ واپس نہیں لی جاسکتی۔

    عدالت نے حکم دیا آپ سیکریٹری داخلہ کے سامنے یہ سارا معاملہ رکھیں، تین چار سینئر ججز کہہ چکے ہیں یہ ایمرجنسی ہے آئین شکنی نہیں ، آپ نے جو سپر اسٹرکچر بنایا اس کی بنیاد ہی غلط تھی ۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سیکریٹری داخلہ سے ہدایات کے لئے مہلت کی استدعا کی جس پر مزید کارروائی سترہ دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دونوں جے آئی ٹیز کی رپورٹس پیش کرنے کا حکم

    سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دونوں جے آئی ٹیز کی رپورٹس پیش کرنے کا حکم

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاون کی نئی جے آئی ٹی کو کام سے روکنے کے حکم امتناعی میں توسیع کردی اور دونوں جے آئی ٹیز کی رپورٹس پیش کرنے کا حکم دے دیا اور کہا آخری موقع دے رہے ہیں، ریکارڈ پیش نہ کیا تو ذمے دار افسران کو طلب کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد قاسم خان کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی جےآئی ٹی کےخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

    سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے نئی جے آئی ٹی بنانے کے حوالے سے کابینہ کی منظوری کا ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کردی، عدالت نے جے آئی ٹی کی تشکیل کیلئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھجوائی گئی سفارشات کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔

    عدالت نے کہا کہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ عدلیہ کمزور نہیں ہے، دستاویزات پیش نہ کرنے پر چیف سیکرٹری سمیت دیگر افسروں کو طلب کیا جائے گا۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو ریکارڈ پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی اور بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر تبادلوں کی وجہ سے ریکارڈ دستیاب نہیں ہوسکا، عدالت متعلقہ ریکارڈ فراہم کرنے کیلئے مہلت دے۔

    عدالت آئندہ سماعت پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دونوں جے آئی ٹیزکی رپورٹ پیش کرنے اور جے آئی ٹی بنانے کے حوالے سے کابینہ کی منظوری کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا آخری موقع دے رہے ہیں ریکارڈ پیش نہ کیا تو ذمے دار افسران کو طلب کریں گے۔

    عدالت نے سرکاری وکیل کی استدعا پر درخواستوں کی سماعت 14 جنوری تک ملتوی کردی۔

    مزید پڑھیں : سانحہ ماڈل ٹاؤن، عدالت نے نئی جے آئی ٹی کو تحقیقات سے روک دیا

    یاد رہے رواں سال مارچ میں لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاون کی نئی جے آئی ٹی کو تحقیقات سے روکتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب کا نوٹی فکیشن معطل کردیا تھا  اور پنجاب حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔

    خیال رہےجی آئی ٹی کی تفتیش پر پرعدم اطمینان کے بعد 19 نومبر 2018 کو سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کے لیے 5 رکنی لارجر بنچ تشکیل دینے کا حکم جاری کیا تھا۔حکومت کی جانب سے 5 دسمبر تک نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی یقین دہانی کے بعد سپریم کورٹ نے درخواست نمٹا دی تھی۔

    قبل ازیں سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں نامزد ملزم نوازشریف، شہبازشریف ، حمزہ شہباز، راناثناءاللہ، دانیال عزیز، پرویز رشید اور خواجہ آصف سمیت دیگر 139 ملزمان کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ بعد ازاں 3 جنوری 2019 کو محکمہ داخلہ پنجاب نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نئی جے آئی ٹی تشکیل دی جس کی سربراہی  آئی جی موٹر ویز اے ڈی خواجہ کو دی گئی تھی۔

    واضح رہے کہ جون 2014 میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع منہاج القرآن کے مرکزی دفتر اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر بیرئیر ہٹانے کے لیے خونی آپریشن کیا گیا تھا، جس میں خواتین سمیت 14 افراد جاں بحق جب کہ 90 افراد زخمی ہو گئے تھے۔

  • نوازشریف کے بھتیجے نے ہائی کورٹ میں  درخواست ضمانت دائر کر دی

    نوازشریف کے بھتیجے نے ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کر دی

    لاہور: چوہدری شوگر مل کیس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بھتیجے یوسف عباس نے ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے بھتیجے یوسف عباس نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کر دی۔ عدالت میں دائر درخواست میں چیرمین نیب، ڈی جی نیب کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ شریف فیملی ایک کاروباری خاندان ہے اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہے، نیب نے چوہدری شوگر مل منی لانڈرنگ انکوائری میں گرفتار کیا جبکہ چوہدری شوگر مل سمیت شریف فیملی کے دیگر کاروبار پر پاناما جے آئی ٹی نے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جس میں کوئی ثبوت نہیں ملا۔

    یوسف عباس کے مطابق نیب کی حراست میں 48 دن جسمانی ریمانڈ پر رہا لیکن شواہد پیش نہیں کیے گیے، نیب نے 410 ملین کیمنی لانڈرنگ کا الزام لگایا جبکہ اس کا تمام ریکارڈ موجود ہے، تمام رقم بینکنگ چینل سے پاکستان آئی اور اس پر ٹیکس بھی دیا۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نیب نے بے بنیاد الزامات لگائے، لہذا عدالت درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دے۔

    چوہدری شوگر ملز کیس ، نواز شریف اور مریم نواز کو حاضری سے استثنیٰ مل گیا

    یاد رہے کہ 22 نومبر کو احتساب عدالت نے چوہدری شوگر ملز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو حاضری سے استثنیٰ دیتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر کو ریفرنس جلد دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

  • رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت پر سماعت 4 دسمبر تک ملتوی

    رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت پر سماعت 4 دسمبر تک ملتوی

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران اے این ایف سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس چوہدری مشتاق احمد نے رانا ثنا اللہ کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت کی۔ رانا ثنا اللہ کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت کے خلاف تنقید کرنے پرمنشیات اسمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر تاخیر سے درج کی گئی جو مقدمے کو مشکوک ثابت کرتی ہے، ایف آئی آر میں 21 کلوگرام ہیروئن اسمگلنگ کا لکھا گیا، بعد میں منشیات کا وزن 15 کلو گرام ظاہر کیا گیا۔

    رانا ثنا اللہ نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ گرفتاری سے قبل گرفتاری کے خدشے کا اظہار کیا تھا، بے بنیاد مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ منشیات اسمگلنگ کے مقدمے میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔

    بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت پر سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے اے این ایف سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔

    رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت کیس کا 2 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری

    یاد رہے کہ رواں ماہ 9 نومبر کو انسداد منشیات کی خصوصی عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ جو مواد پیش کیا گیا اس سے رانا ثنا اللہ کا جرم سے بظاہر واسطہ نظر آتا ہے، ایسی کوئی وجہ نہیں جس کی بنیاد پر فوری ان کو ضمانت دی جائے۔

  • نابینا افراد کو معذور نہیں لکھا جائے گا، عدالت کا بڑا فیصلہ

    نابینا افراد کو معذور نہیں لکھا جائے گا، عدالت کا بڑا فیصلہ

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے نابینا افراد کو معذور لکھنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نابینا افراد کو اسپیشل پرسن لکھا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے نابینا افراد کو معذور لکھنے پر پابندی عائد کر دی۔ عدالت نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ نابینا افراد کو اسپیشل پرسن لکھا جائے۔

    عدالت نے نابینا افراد کے لیے ملازمتوں کے کوٹے پرعمل نہ ہونے کے خلاف درخواست پر نوٹس لیتے ہوئے حکومت پنجاب سمیت فریقین سے 4 دسمبرکو جواب طلب کرلیا۔

    لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اب دیکھنا پڑے گا معاملات سڑکوں پر حل ہوں گے یا عدالتوں میں؟ ایسے معاملات کے حل کے لیے اب لکیرکھینچنی پڑے گی، سڑکوں کی بندش سےعام شہریوں کے بنیادی حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں۔

    واضح رہے کہ بینائی سے محروم افراد کا اپنے مطالبات کے حق میں مال روڈ پر دھرنا 12ویں روز بھی جاری ہے، دھرنے میں شریک افراد کا کہنا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک وہ واپس نہیں جائیں گے۔

    بینائی سے محروم افراد کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی، اسکیل اپ گریڈیشن، معذور کوٹے پر نوکریوں اور دیگر مطالبات کے حق میں مال روڈ پر سراپا احتجاج ہیں۔