Tag: لاہور ہائی کورٹ

  • اپنے ہاتھ یا جسم کے ذریعے اپنی بقاء کیلئے مزدوری کرنے والا شخص ورکر یا مزدور ہے، عدالتی فیصلہ

    اپنے ہاتھ یا جسم کے ذریعے اپنی بقاء کیلئے مزدوری کرنے والا شخص ورکر یا مزدور ہے، عدالتی فیصلہ

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے کارکن اور مزدور کی تعریف طے کر دی، جسٹس فرخ عرفان خان نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اپنے ہاتھ یا جسم کے ذریعے اپنی بقاء کیلئے مزدوری کرنے والا شخص ورکر یا مزدور ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فرخ عرفان خان نے محمد اشرف کی درخواست پر فیصلہ سنایا، جس میں لکھا گیا کہ اپنے ہاتھ یا جسم کے ذریعے اپنی بقاء کیلئے مزدوری کرنے والا شخص ورکر یا مزدور ہے، ایسا شخص جو کاروبار کر رہا ہو، آجر ہو، وہ ورکر یا کارکن نہیں کہلا سکتا۔

    عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ فرنیچر کا کاروبار کرنے والے امیدوار نے بلدیاتی انتخابات میں خود کو ورکر ظاہر کیا، ورکرز کو بلدیاتی انتخابات میں سیٹ دینے کا مقصد ان کو نمائندگی دینا ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی ورکر کلاس استطاعت نہیں رکھتی، ورکرز کو کم آمدنی کی بناء پر بلدیاتی انتخابات میں نمائندگی دی جاتی ہے۔

    عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اگر ایک کاروباری شخص، ورکرز کی نشست پر کامیاب ہو گا تو نمائندگی کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا، کسی کاروباری شخص کا ورکر کی نشست پر منتخب ہونا نا صرف ورکر کے حق پر ڈاکہ ہے بلکہ قانون کے ساتھ بھی فراڈ ہے۔

  • چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش

    لاہور :  لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش  کردی جبکہ  حکومت  کو جوڈیشل کمیشن سےمتعلق ایک ہفتےمیں آگاہ  کرنے  اور عینی شاہدین کوطلب کرکے بیانات ریکارڈ کرنےکا بھی حکم دیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے سانحہ ساہیوال پرجوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستوں پرسماعت کی، سماعت میں چیف جسٹس نے کہا حکومت چاہے توسیشن جج سےانکوائری کراسکتےہیں۔

    عدالت نے عینی شاہدین کو طلب کرکے بیانات ریکارڈ کرنے اور ایک ہفتے میں حکومت کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق آگاہ کرنے کا بھی حکم دیا۔

    سرکاری وکیل نے بتایا کہ سانحہ ساہیوال کےتمام ملزمان جسمانی ریمانڈپرہیں، جس پر عدالت نے استفسار کیا وقوعہ کی تاریخ بتائیں، یہ ہوا میں لکھتے ہیں سب کچھ ہورہاہے لیکن کاغذمیں کچھ نہیں ہوتا، جس پر سرکاری وکیل نے کہا اے ایس آئی محمد عباس کابیان ریکارڈ کیا۔

    حکومت چاہےتوسیشن جج سےانکوائری کراسکتےہیں، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ

    چیف جسٹس نے جلیل کے وکیل سے استفسار کیا آپ کاکوئی گواہ موجودہے؟ جس پر وکیل جلیل نے بتایا عمیرخلیل ہمارااہم گواہ ہے، ابھی اس کابیان جمع کرارہے ہیں، تو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا آج ہی عمیر کا بیان ریکارڈ کرائیں۔

    وفاق کے وکیل نے کہا وزیراعظم نے پنجاب حکومت سے سانحے پر رپورٹ مانگی ہے، اے اے جی نے بتایا متاثرہ فریقین نے جوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے استدعا نہیں کی، جس پر عدالت نے کہا یہ بتائیں ضروری ہے کوئی متاثرہ فریق ہی درخواست دے؟

    اے اے جی نے کہا ضروری نہیں جوڈیشل کمیشن کیلئے متاثرہ فریق درخواست دے، جس پر چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا کہنا تھا موقع کے جو بھی گواہ ہیں جے آئی ٹی کو دیں، سرکاری وکیل نے بتایا جے آئی ٹی جائے وقوعہ کا با ربار دورہ کررہی ہے۔

    عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کن کے بیانات ریکارڈ کئےگئے ہیں؟ چشم دیدگواہان کے بیانات سے متعلق بتائیں، تو سرکاری وکیل کا کہنا تھا ابھی تک چشم دیدگواہ کا بیان ریکارڈ نہیں ہوا۔

    چیف جسٹس نے خلیل کے وکیل سےاستفسار کیا عینی شاہدین کے نام دیں، آپ ان پر بھروسہ کریں گے تو کیس خراب ہوجائے گا، جس پر سرکاری وکیل نے کہا سی سی ٹی وی فوٹیج اورخول لیب بھجوادیئےہیں۔

    مزید پڑھیں : سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب

    چیف جسٹس نے جلیل کے وکیل سے مکالمے میں کہا آپ کہیں تو جوڈیشل انکوائری کا حکم دے سکتے ہیں، جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کوآپ کیس کا حصہ نہیں بناسکیں گے، مجسٹریٹ سے جوڈیشل انکوائری کی جائے تو وہ کیس کاحصہ بن سکےگا۔

    جے آئی ٹی عینی شاہدین کو فون کرکے بلائے اور بیانات ریکارڈ کرے

    جلیل کے وکیل نےجوڈیشل انکوائری کیلئےمہلت دینےکی استدعاکردی جبکہ ذیشان کے وکیل نے موقع کےگواہ 3افراد کی فہرست پیش کی ، جس پر عدالت نے حکم دیا جے آئی ٹی عینی شاہدین کو فون کرکے بلائے اور بیانات ریکارڈ کرے۔

    یاد رہے4 فروری کو ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کر لی، عدالت نے آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ طلب کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گے، معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

  • سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن نہ بنانے کا اقدام عدالت میں چیلنج

    سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن نہ بنانے کا اقدام عدالت میں چیلنج

    لاہور :مقتول ذیشان کے بھائی نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن نہ بنانے کا اقدام عدالت میں چیلنج کردیا اور استدعاکی اس کا بھائی ذیشان بے گناہ تھا، قاتلوں کو سخت سزا دی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق مقتول خلیل کے ورثا کے بعد سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ہاتھوں قتل کئے گئے ذیشان کے بھائی نے بھی لاہور ہائی کورٹ میں سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن تشکیل نہ دینے کا اقدام کیخلاف اپیل دائر کردی۔

    درخواست گزار احتشام نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ میرے بھائی کو دہشت گرد قرار دیاگیا، میرا بھائی دہشت گردنہیں شریف انسان تھا، ہمیں کسی امداد کی ضرورت نہیں، صرف انصاف چاہیئے۔

    ذیشان کے بھائی نے عدالت سے استدعا کی اس کے بھائی ذیشان کے قاتلوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے سخت سزا دی جائے اور سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔

    یاد رہے چند روز قبل سانحہ ساہیوال میں قتل ہونے والے خلیل کے بھائی نے لاہور ہائی کورٹ سے درخواست دائر کی تھی ، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ پنجاب حکومت کی جے آئی ٹی کالعدم قرار دیتے ہوئے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔

    مزید پڑھیں : سانحہ ساہیوال، جے آئی ٹی کالعدم قرار دے کر جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے: ہائی کورٹ میں‌ درخواست دائر

    بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن کے فوری قیام کا مطالبہ مسترد کردیا تھا۔

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور  خاتون سمیت  4 افراد مارے گئے  تھے، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔

    واقعے پر ملک بھر سے شدید ردعمل آیا، جس پر وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

    جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

  • سانحہ ساہیوال پر  جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب

    سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب

    لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ساہیوال میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کر لی، عدالت نے آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ طلب کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گے۔

    تفصہلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار شمیم خان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔

    جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ عدالت نے تفتیشی رپورٹ اور آئی جی پنجاب کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا، عدالت نے قرار دیا کہ جب آئی جی پنجاب کو بلایا تو وہ کیوں پیش نہیں ہوئے؟ حکم دیا تھا کہ آئندہ ساہیوال کی طرح پولیس مقابلہ نہیں ہو گا۔

    سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صوبے بھر کے آر پی اوز کو اس حوالے سے ہدایات جاری کر دی ہیں، جس پر عدالت نے حکم دیا کہ ہمیں وہ تحریری نوٹیفیکیشن دیا جائے جو عدالتی احکامات کے بعد جاری ہوا۔

    بتایا جائے کون سے افسر نے اہلکاروں کو اس آپریشن کا حکم دیا تھا، عدالت کا استفسار

    سرکاری وکیل عدالت کو مزید آگاہ کیا کہ خلیل کے بھائی کو بار بار بلایا مگر وہ شامل تفتیش نہیں ہو رہے جبکہ جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور گواہان کی شہادتوں سے تفتیش آگے بڑھ رہی ہے۔

    عدالت نے قرار دیا کہ ایسی سی سی ٹی وی فوٹیج کا کیا فائدہ جس میں ملزمان کی نشاندہی نہ ہو، بتایا جائے کون سے افسر نے اہلکاروں کو اس آپریشن کا حکم دیا تھا۔

    درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایس پی جواد قمر نے آپریشن کا حکم دیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا ان سے پوچھیں کہ انہوں نے کس کس کو آپریشن کے لیے بھجوایا تھا، جس پر سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایس پی جواد قمر کو معطل کیا جا چکا ہے۔

    آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ طلب

    عدالت نے آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ طلب کر تے ہوئے ریمارکس دیے ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گے۔

    سرکاری وکیل نے کہا خلیل کے بھائی کو بار بار بلایا مگر وہ شامل تفتیش نہیں ہو رہے، خلیل کے بھائی جلیل کے وکیل نے کہا کہ یہ کیس شناخت پریڈ کا نہیں ہے،جس پر عدالت نے جے آئی ٹی کو مدعیوں اور گواہوں کی جانب سے پیش کی جانے والی ہر طرح کی شہادتوں کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دیتے ہوئے کارکردگی رپورٹ طلب کر لی ہے۔

    وکیل شہبازبخاری نے بتایا سی ٹی ڈی افسران دھمکیاں دے رہےہیں اورہراساں کررہےہیں، خلیل کے ورثا پر دباؤ ڈال کر بیانات تبدیل کرائےگئے، ہراساں کیے جانےکی وجہ سے مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔

    ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گےچیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ

    عدالت نے مدعی سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس جو شواہد تھے تو کیوں نہیں دیئے تاکہ ملزمان کی شناخت ہو سکتی، مدعی شہادتیں لائیں، اگر جے آئی ٹی نہیں لیتی تو عدالت میں جمع کروائیں۔

    سرکاری وکیل نے کہا کہ جن اہلکاروں نے آپریشن کیا وہ گرفتار ہیں، جس پر عدالت نے قرار دیا کہ ہمیں وہ ریکارڈ دیا جائے جس میں سی ٹی ڈی کے اعلی افسر نے آپریشن کی اجازت دی۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے وارننگ دی کہ اگر ریکارڈ میں ردو بدل کیا گیا تو آپ سب نتائج کے ذمہ دار ہوں گے، ایف آئی آر میں پانچ اہلکار نامزد ہیں جبکہ مدعی کہتے ہیں وہ 16 اہلکار تھے۔

    عدالت نے کیس کی سماعت 7 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کر تے وہوئے کہا معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے، بعد ازاں سماعت سات فروری تک ملتوی کر دی۔

    گذشتہ سماعت میں عدالت نے حکم دیا تھا کہ آئی جی پنجاب آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کے سربراہ کے ہمراہ پیش ہو کر رپورٹ جمع کروائیں اور وقوعہ کے تمام گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے اورانہیں تحفظ فراہم کرنے کی بھی ہدایت کردی تھی۔

  • حمزہ شہبازشریف لندن روانہ ہوگئے

    حمزہ شہبازشریف لندن روانہ ہوگئے

    لاہور: پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہبازشریف لندن روانہ ہوگئے، وہ براستہ دوحا لندن پہنچیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہبازشریف قطرایئرویز کی پرواز 629 کے ذریعہ لندن روانہ ہوگئے۔ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کو بیرون ملک روانگی سے متعلق آگاہ کیا۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہبازطے شدہ شیڈول کے مطابق 13 فروری کو واپس وطن پہنچیں گے۔

    حمزہ شہباز شریف نے اپنا نام بلیک لسٹ میں شامل ہونے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پرعدالت نے ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم جاری کیا تھا۔

    لاہور ہائی کورٹ میں حمزہ شہبازکے وکیل اعظم نذیرتارڑ نے یقین دہائی کرائی تھی کہ ان کے موکل 10 دنوں میں واپس پاکستان آجائیں گے۔

    حمزہ شہباز شریف کو 10دن کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی

    عدالت نے حمزہ شہباز کی درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا تھا۔ بعد ازاں وفاقی وزارت داخلہ نے حمزہ شہباز کا نام بلیک لسٹ سے نکال دیا تھا۔

    واضح رہے کہ 11 جنوری 2019 کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے چنیوٹ میں رمضان شوگر ملز کیس کا ریفرنس مکمل کرکے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو ملزم نامزد کیا تھا، چیئرمین نیب کی منظوری کے بعد ریفرنس عدالت میں دائر کیا جائے گا۔

  • کیبن کریوکےاوقات کارمیں تبدیلی،  پی آئی اے حکام اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کو نوٹس جاری

    کیبن کریوکےاوقات کارمیں تبدیلی، پی آئی اے حکام اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کو نوٹس جاری

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے قومی ایئرلائن کے کیبن کریو کے اوقات کار میں تبدیلی کے خلاف درخواست پر پی آئی اے حکام اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں قومی ایئرلائن کے کیبن کریو کے اوقات کارمیں تبدیلی کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی ، درخواست پاکستان ایئرلائن کیبن کریوایسوسی ایشن کی جانب سے دی گئی ہے۔

    جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ کیبن کریو کے اوقات کار 12 سے 16 گھنٹے بڑھانا خلاف قانون ہے، کیبن کریو کے اوقات کار میں اضافہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

    درخواست میں کہا گیا اوقات کار میں 4 گھنٹوں کے اضافے سے ملازمین کی نجی زندگی متاثر ہو گی، مسافروں اور کیبن کریو کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہوں گے۔

    دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت نئے اوقات کار سے متعلق پی آئی اے انتظامیہ کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دے اور مقدمے کے حتمی فیصلے تک نوٹیفیکیشن سے متعلق حکم امتناعی جاری کرے۔

    جس پر عدالت نے پی آئی اے حکام اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔

    مزید پڑھیں : پی آئی اے : کیبن کریو کے ڈیوٹی اوقات کارسولہ گھنٹے کر دیئے گئے

    یاد رہے چند روز قبل پی آئی اے انتظامیہ نے کیبن کریو کے ڈیوٹی اوقات کار میں اضافہ کردیا تھا اور ڈیوٹی کے اوقات کار بارہ گھنٹے سے بڑھا کر16گھنٹے کر دئیے گئے تھے، نظر ثانی شدہ اوقات کار میں کیبن کریو کے لئے اسپیشل الاؤنسز اور مالی فوائد دئیے جانے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔

    اس حوالے سے صدر کیبن کریو ایسوسی ایشن نصراللہ آفریدی کا کہنا تھا فلائٹ ڈیوٹی ٹائم لمیٹیشن میں اضافہ ایوی ایشن قوانین کی خلاف ورزی ہوگی، ایوی ایشن قوانین اور اور طبی ماہرین کے مطابق 12 گھنٹے سے زائد کام نہیں کرسکتے۔

    جبکہ ترجمان پی آئی اے نے کہا تھا کہ16گھنٹے فلائٹ ڈیوٹی ٹائم لیمیٹیشن سی اے اے قوانین کے مطابق ہے، نئے روسٹر سے اخراجات میں بچت اور کارکردگی بہتر ہوگی۔

  • چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا تمام سول اپیلوں اور نظرثانی درخواستوں کو3 ماہ میں نمٹانے کا حکم

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا تمام سول اپیلوں اور نظرثانی درخواستوں کو3 ماہ میں نمٹانے کا حکم

    لاہور : چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار محمد شمیم خان نے تمام سول اپیلوں اور نظرثانی درخواستوں کو3 ماہ میں نمٹانے کا حکم دے دیا اور 15 دن کے بعد کارکردگی رپورٹس بھیجنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار محمد شمیم خان نے30 ستمبر 2018 تک دائر تمام سول اپیلوں اور نظرثانی درخواستوں پر 30 اپریل تک فیصلے کرنے کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے کہا پنجاب بھر میں اس وقت 33 سو سے زائد سول رویژنز اور اپیلیں زیر التواء ہیں۔

    جسٹس سردار محمد شمیم خان نے صوبے بھر کے ایڈیشنل سیشن ججز کو کیسز کا قانون کے مطابق جلد فیصلے کرنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ ہائی کورٹ کو ہر پندرہ روز بعد کارکردگی رپورٹس بھیجی جائیں۔

    یاد رہے چند روز قبل چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے معمولی جرائم کے مقدمات 3ماہ میں نمٹانے کا حکم دیتے ہوئے ہر ہفتے کی رپورٹس سیشن ججز کو بھیجنے کی ہدایت کردی تھی۔

    مزید پڑھیں : چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا معمولی جرائم کے مقدمات 3ماہ میں نمٹانے کا حکم

    انھوں نے جہلم، راجن پور اور شیخوپورہ کی عدالتوں کی کارکردگی کوسراہتے ہوئے بتایا ان عدالتوں میں 10 ستمبرتک دائرمعمولی جرائم کےمقدمات کے فیصلے ہو چکے ہیں۔

    خیال رہے یاد رہے یکم جنوری کو لاہور ہائی کورٹ محمد انوار الحق کے ریٹائر ہونے کے بعد نئے چیف جسٹس سردار محمد شمیم خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، گورنر پنجاب چوہدری سرور نے ان سے حلف لیا تھا۔

    جسٹس سردار شمیم خان 31 دسمبر 2019 تک لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہیں گے۔

  • چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لئے 2رکنی بنچ تشکیل دے دیا

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لئے 2رکنی بنچ تشکیل دے دیا

    لاہور : سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لئے لاہور ہائی کورٹ کا دو رکنی بنچ تشکیل دے دیا گیا ، بنچ 4 فروری کو سماعت کرے گا، عدالت نے آئی جی پنجاب کو آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کے سربراہ کے ہمراہ پیش ہو کر رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لیےدو رکنی بنچ تشکیل دے دیا، صفدر شاہین پیرزادہ اور دیگر کی درخواست پر سماعت چار فروری کو ہوگی۔

    بینچ میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سردارشمیم احمداورجسٹس صداقت علی خان شامل ہیں۔

    گذشتہ روز عدالت نے حکم دیا تھا کہ آئی جی پنجاب آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کے سربراہ کے ہمراہ پیش ہو کر رپورٹ جمع کروائیں اور وقوعہ کے تمام گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے اورانہیں تحفظ فراہم کرنے کی بھی ہدایت کردی تھی۔

    مزید پڑھیں : آئی جی پنجاب آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کے سربراہ کے ہمراہ پیش ہو کر رپورٹ جمع کروائیں، عدالت

    آئی جی پنجاب کی جانب سے سانحہ ساہیوال کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی ہے، اس میں آئی جی پنجاب نے تسلیم کیا کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس کے تحت سی ٹی ڈی اہلکاروں نے فائرنگ کی۔

    چیف جسٹس سردار شمیم پر مشتمل سنگل بنچ نے سماعت کرتے ہوئے حکم دیا کہ آئی جی پنجاب جے آئی ٹی کے ممبران کو تمام شواہد مکمل کر کے رپورٹ مرتب کرنے کا حکم دیں۔

    دوران سماعت میں درخواست گزار وکیل صفدر شاہین پیرزادہ نے کہا تھا کہ سولہ کی بجائے چھ پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا، پولیس عینی شاہدین کے بیانات قلمبند نہیں کر رہی۔

    جس پر آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کا کہنا تھا جے آئی ٹی کی ابتدائی تفتیش کی روشنی میں ملزموں کو گرفتار کر لیا گیا اور غفلت برتنے پر سی ٹی ڈی کے افسران کو معطل کر دیا گیا، جے آئی ٹی کی تفتیش مکمل ہوتے ہی ملزموں کا چالان عدالت میں بھجوا دیا جائےگا۔

    چیف جسٹس نے پنجاب بھر کے ڈی پی اوز کو ایسے واقعات دہرانےسے روکتے ہوئے پولیس مقابلوں کی تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دیا۔

    واضح رہے 19 جنوری 2018 کو جی ٹی روڈ پر ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے۔

    بعد ازاں ساہیوال واقعے پر وزیراعظم نے نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تحقیقات کرکے واقعے کے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جبکہ وزیراعظم کی ہدایت پر فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا اور محکمہ داخلہ پنجاب نے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنا دی۔

    جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

  • وزیر اعظم عمران خان کی نااہلی کیس  کی جلد سماعت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

    وزیر اعظم عمران خان کی نااہلی کیس کی جلد سماعت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ میں وزیر اعظم عمران خان کی نااہلی کیس کی جلد سماعت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عمران خان نے ملکی سالمیت کے خلاف اقدامات کیے ہیں، عدالت ان کو عہدے کے لیے نااہل قرار دے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس شمس محمود مرزا نے وزیر اعظم عمران خان کی نااہلی کیس کے معاملے پر لائرز فاؤنڈیشن کی درخواست پر سماعت کی۔

    درخواست گزار کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ نواز شریف کے دور حکومت میں عمران خان نے سول نافرمانی کے لیے لوگوں کو اکسایا ہے، عمران خان نے عوام کو ٹیکس نہ دینے اور بیرون ملک سے رقوم نہ بھیجنے پر اکسایا۔

    دائر درخواست میں کہا گیا عمران خان نے حامیوں سمیت پارلیمنٹ کی بلڈنگ پر دھاوا بولا اور اور گیٹ توڑے، عمران خان نے ملکی سالمیت کے خلاف اقدامات کیے ہیں۔

    درخواست گزار نے استدعا ہے کہ عدالت وزیر اعظم عمران خان کو عہدے کے لیے نااہل قرار دے، اہم نوعیت کا معاملہ ہے اس لئے عدالت کیس کی جلد سماعت کرے۔

    بعد ازاں عدالت نے کیس کی جلد سماعت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

    مزید پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کی درخواست مسترد کردی

    یاد رہے چند روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کی درخواست مسترد کردی تھی اور وارننگ دی کہ آئندہ ایسی درخواست آئی تو جرمانہ بھی کریں گے۔

    درخواست گزار کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ وزیراعظم عمران خان نے کاغذات نامزدگی میں اپنی بیٹی کو ظاہر نہیں کیا، انہوں نے اپنی بیٹی ٹیریان سے متعلق جھوٹ بولا لہذا وہ صادق و امین نہیں رہے۔

    خیال رہے قومی اسمبلی سے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد 18 اگست 2018 کو عمران خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا ، صدر مملکت ممنون حسین نے حلف لیا تھا۔

    بطور منتخب وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ سب سے پہلے احتساب ہوگا، قوم کا مستقبل برباد کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے، کسی ڈاکو کو این آر او نہیں ملے گا، مجھے کسی ڈکٹیٹر نے نہیں پالا، اپنے پیروں پر یہاں پہنچا ہوں۔ کرکٹ کی 250 سالہ تاریخ کا واحد کپتان ہوں جو نیوٹرل امپائر لایا۔

    واضح رہے کہ25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے واضح اکثریت حاصل کی تھی۔

  • اگر مستقبل میں بسنت منانی ہے، تو حکومت تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرے: لاہور ہائی کورٹ

    اگر مستقبل میں بسنت منانی ہے، تو حکومت تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرے: لاہور ہائی کورٹ

    لاہور: ہائی کورٹ نے بسنت سے متعلق کیس میں واضح کیا ہے کہ اگر مستقبل میں‌ بسنت منانی ہے، تو حکومت کو تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہوں گی.

    تفصیلات کے مطابق ہائی کورٹ نے بسنت کے خلاف درخواستیں نمٹا دیں، جسٹس شکیل الرحمان خان نے درخواستوں کی سماعت کی  تھی.

    دوران سماعت درخواست گزار صفدر شاہین پیرزادہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر آج تک عمل نہیں ہوا، جو توہین عدالت ہے، سپریم کورٹ بسنت کے حوالے سے گائیڈ لائن دے چکی ہے۔

    درخواست گزار شیراز ذکاء نے کہا کہ پتنگ بازی کے خلاف ایکٹ بن گیا، مگر رولز نہیں بنے، بسنت خونی کھیل ہے، پابندی کے باوجود اجازت دی جارہی ہے، عدالت بسنت پر پابندی کے قانون اور عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دے.

    پنجاب حکومت کی جانب سے جواب داخل کروایا گیا، اس موقع پر سرکاری وکیل نے کہا کہ صوبائی یا ضلعی حکومتیں بسنت نہیں منا رہی، پتنگ بازی پر مکمل پابندی ہے.

    مزید پڑھیں: کیا لاہور کے آسمان پر پتنگیں رنگ بکھیریں گی؟

    عدالت نے سوال کیا کہ اگر پابندی ہے، تو خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، کیا کہیں یہ ڈیٹا موجود ہے کہ پتنگ بازی پر آج تک کتنوں کے خلاف کارروائی ہوئی، اس بات کا کیوں انتظار کیا جاتا ہے کہ انسانی جانوں کا ضیاع ہو، تب پابندی پر عمل درآمد ہو گا.

    عدالت نے کہا کہ حکومت نے بسنت نہ منانے کے حوالے سے واضح موقف اختیار کیا ہے، اگر مستقبل میں بسنت منانی ہوئی. تو حکومت تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرے گی.