Tag: لت

  • کیا انسٹاگرام نشے کی طرح اپنا عادی بناتا ہے؟

    کیا انسٹاگرام نشے کی طرح اپنا عادی بناتا ہے؟

    فوٹو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام آج کل نوجوانوں کی پسندیدہ ایپ ہے، انسٹاگرام کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ ایپ ہرگز کسی نشے یا لت کی طرح نہیں ہے۔

    فوٹو شیئرنگ ایپلی کیشن انسٹاگرام کے سربراہ ایڈم موسری نے ایپ پر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسٹاگرام نہ تو نو عمر افراد کے لیے نقصان دہ ہے اور نہ ہی وہ نشے کی طرح ہے کہ لوگ اس کے عادی ہوجائیں گے۔

    ایڈم موسری نے امریکی کانگریس کے سامنے پیشی کے موقع پر اپنے بیان میں انسٹاگرام کے حوالے سے کی جانے والی تمام تحقیقات کو مسترد کرتے ہوئے ستمبر 2021 میں وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کو بھی حقائق سے بالاتر قرار دیا۔

    انہوں نے کہا کہ انسٹاگرام کے ڈیسک ٹاپ ورژن پر اکاؤنٹ بناتے وقت کچھ خامیاں ضرور ہیں مگر یہ بلکل غلط ہے کہ انسٹاگرام ایک نشے کی طرح ہے جو کم عمر افراد اور خصوصی طور پر لڑکیوں کو اپنا عادی بنا رہا ہے۔

    ایڈم نے دعویٰ کیا کہ انسٹاگرام نے 13 سے 17 سال کی عمر اور خاص طور پر لڑکیوں کے لیے ایپلی کیشن کو محفوظ بنانے کے لیے تمام اقدامات کیے ہیں اور حتیٰ الامکان کوشش کی جاتی ہے کہ نو عمر افراد کو کوئی غلط مواد دیکھنے کو نہ ملے۔

    انہوں نے کہا کہ انہیں وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ پر یقین نہیں جو یہ بتاتی ہے کہ انسٹا گرام ایک نشے کی طرح ہے جو کم عمر افراد اور خاص طور پر لڑکیوں کو ایپ کے استعمال کا عادی بنا رہا ہے۔

    ایڈم موسری کا کہنا تھا کہ 2022 کے وسط میں انسٹاگرام پر کرونولاجیکل فیڈ بھی متعارف کروائی جائے گی، جس سے ہر شخص کو اپنی فیڈ پر اپنی پسند کی چیزیں دیکھنے کا آپشن ملے گا۔

    انہوں نے کہا کہ اس وقت انسٹاگرام کا الگورتھم ہر شخص کے پروفائل اور اس کی سرچ ہسٹری، پسند و ناپسند کی چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ملتی جلتی پوسٹس فیڈ پر دکھاتا ہے، تاہم 2022 میں مذکورہ سلسلہ تبدیل کردیا جائے گا۔

    خیال رہے کہ رواں برس ستمبر میں وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ انسٹاگرام کی ایک اندرونی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسٹاگرام نوجوانوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مذکورہ تحقیق کے نتائج 2019 میں کمپنی کو پیش کیے گئے تھے جن میں دریافت کیا گیا کہ انسٹاگرام استعمال کرنے والی ہر 3 میں سے ایک نوجوان لڑکی کو باڈی امیج ایشو کا سامنا ہوتا ہے۔

  • ڈیجیٹل دور میں کچھ نہ کرنے کا فن

    ڈیجیٹل دور میں کچھ نہ کرنے کا فن

    کیا آج کل کے دور میں جب ہر شخص کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے جسے ہر چند منٹ بعد کھول کر چیک کیا جاتا ہے، ’کچھ نہ کرنا‘ ممکن ہے؟ بظاہر ایسا مشکل تو ہے، لیکن ناممکن نہیں۔

    ایک امریکی مصنفہ جینی اوڈیل کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں کچھ وقت ایسا ضرور نکالنا چاہیئے جس میں کچھ بھی نہ کیا جائے۔

    جینی ’ڈوئنگ نتھنگ‘ نامی کتاب کی مصنفہ ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ہم ہر وقت اپنے اسمارٹ فون پر مختلف خبروں اور لوگوں سے جڑے رہتے ہیں۔ ہر چند منٹ بعد ہمیں کوئی پیغام موصول ہوتا ہے اور ہم چاہے اسے پسند کریں یا نہ کریں، ہم اس کا جواب دیتے ہیں اور اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

    ان کا ماننا ہے کہ ان سب سے ڈس کنیکٹ ہونا اور رابطہ منقطع کرنا ضروری ہے۔ ’ڈس کنیکٹ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں سے رابطہ ختم کرلیا جائے، یا ہر لمحہ آتی خبروں سے مکمل طور پر لاتعلق ہوا جائے۔ لیکن کچھ وقت کے لیے ان چیزوں کو ایک طرف رکھ کر ’کچھ نہ کرنا‘ ضروری ہے‘۔

    لیکن جینی کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ خود کو اس سب سے ڈس کنیکٹ کرسکے، ’ڈس کنیکٹ ہونے کی صلاحیت ایک پرتعیش سہولت بنتی جارہی ہے‘۔

    دراصل جینی کا اشارہ اس ٹیکنالوجی کے نشہ آور اثرات کی جانب ہے۔

    ماہرین اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ جدید دور کی یہ اشیا لوگوں کو ڈیجیٹل نشے کا شکار بنا رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اسمارٹ فون کی ڈیجیٹل لت دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہے جیسے کوکین یا کوئی اور نشہ کرتا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ ڈیجیٹل لت کا شکار افراد خصوصاً بچے جب اپنی لت پوری کرتے ہیں تو ان کا دماغ جسم کو راحت اور خوشی پہنچانے والے ڈوپامائن عناصر خارج کرتا ہے۔

    اس کے برعکس جب اس لت سے دور رہا جائے تو طبیعت میں بیزاری، اداسی اور بوریت پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض افراد اس لت کے پورا نہ ہونے کی صورت میں چڑچڑاہٹ، ڈپریشن، بے چینی اور شدت پسندی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس لت سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کی جائے تو ایسی کیا شے ہے جس میں دماغ کو مصروف رکھا جائے؟

    جینی کے مطابق اس کا حل جسمانی سرگرمی ہے۔ ’گھر سے باہر نکلیں، کھلی فضا میں سانس لیں، لوگوں سے ملیں، آس پاس کی اشیا کا جائزہ لیں۔ اور اگر آپ کے نزدیک کوئی پرفضا مقام یا پارک ہے تو آپ سے زیادہ خوش قسمت انسان آج کے دور میں کوئی نہیں‘۔

    باہر نکل کر لوگوں سے (سوشل میڈیا پر نہیں، حقیقی دنیا میں) ملیں، ان سے باتیں کریں، ان کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس لت پر قابو پانے کے لیے فطرت کے درمیان وقت گزارنا بہترین علاج ہے، لیکن تیز رفتار اور بے ہنگم ترقی نے ہمیں کنکریٹ کے جنگلوں کا تحفہ دے کر قدرتی جنگل ہم سے چھین لیے۔ لہٰذا روزانہ نہ سہی لیکن ہفتے میں ایک دن ضرور کسی پرفضا مقام پر، پارک میں، ساحل سمندر پر یا درختوں کے بیچ گزارا جائے۔

    ’اور اگر یہ سب ناممکن ہے تو اپنے گھر کے کھلے حصے میں لیٹ کر آسمان کو تکیں، بادلوں کو دیکھیں، سورج کو ڈھلتا اور چاند کو ابھرتا ہوا محسوس کریں اور تارے گنیں‘، جینی کہتی ہیں۔

    آپ جینی کے اس خیال سے کتنے متفق ہیں؟

  • اسمارٹ فون بچوں کو ’نشے‘ کا عادی بنانے کا سبب

    اسمارٹ فون بچوں کو ’نشے‘ کا عادی بنانے کا سبب

    ماہرین نے خوفناک انکشاف کیا ہے کہ جدید دور کی اشیا جیسے اسمارٹ فون اور ٹیبلیٹ وغیرہ ہمارے بچوں کو اپنی لت کا شکار کر رہی ہیں اور یہ دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہیں جیسے افیون یا کوئی اور نشہ آور شے کرتی ہے۔

    امریکا میں ماہرین نفسیات کے ایک گروہ نے اپنے پاس آنے والے مریضوں کے امراض کی بنیاد پر ایک آگاہی مہم کا آغاز کیا اور اس کے تحت چند اخبارت میں کچھ رہنما مضامین شائع کروائے۔

    ان ماہرین کے مطابق پچھلے کچھ عرصے سے ان کے پاس ایسے والدین کی آمد بڑھ چکی ہے جو اپنے بچوں کے رویے تبدیل ہونے سے پریشان تھے اور جاننا چاہتے تھے کہ ایسا کیوں ہوا اور اس سے اب کیسے بچا جائے۔

    ماہرین نے جب ان بچوں کی روزمرہ عادات کا جائزہ لیا تو انہیں علم ہوا کہ اسمارٹ فونز ان بچوں کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے جو ان کی جسمانی و نفسیاتی صحت پر بھیانک اثرات مرتب کر رہا ہے۔

    ان ماہرین کے مطابق بعض والدین خود بھی اس بات سے آگاہ تھے کہ جب سے ان کے بچوں نے اسمارٹ فون استعمال کرنا شروع کیا ہے تب سے ان کے رویوں اور عادات میں منفی تبدیلیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ البتہ کچھ والدین کو اس کا علم نہیں تھا اور وہ اس بات کو ماننے سے انکاری تھے کہ اسمارٹ فون ان کے بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔

    ایک خوفناک مثال

    نیویارک کی رہائشی ایک والدہ سوزین کا کہنا تھا کہ اس کا 6 سالہ بیٹا ایک زندہ دل اور خوش مزاج بچہ تھا جو کھیلوں اور پڑھائی میں بھرپور دلچسپی لیتا تھا۔ پھر اسے اس کی ساتویں سالگرہ پر انہوں نے آئی پیڈ تحفہ میں دیا اور یہیں سے خرابی کا آغاز ہوا۔

    سوزین کے مطابق انہوں نے یہ تحفہ اسے اس لیے دیا تاکہ وہ اپنی تعلیم کے لیے دنیا بھر کی ریسرچ سے استفادہ کرسکے۔ ساتھ ساتھ وہ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہو اور اس کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہو۔

    kids-3

    شروع میں ایسا ہی ہوا، انہوں نے دیکھا کہ ان کے بچے کی تعلیمی کارکردگی میں اضافہ ہوگیا اور گفتگو کے دوران وہ دنیا بھر میں ہونے والی مختلف سرگرمیوں کے بارے میں بات چیت کرنے لگا، لیکن پھر آہستہ آہستہ صورتحال تبدیل ہوتی گئی۔

    اب انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت خاموشی سے آئی پیڈ کے ساتھ گزارنے لگا۔ اس کے رویے میں تبدیلی آتی گئی۔ جس وقت آئی پیڈ اس کے پاس نہ ہوتا وہ گم صم رہتا۔ پڑھائی اور کھیلوں سے بھی اس کی دلچسپی ختم ہونے لگی۔

    مزید پڑھیں: فیس بک کا زیادہ استعمال بچوں کو بدتمیز بنانے کا سبب

    سوزین کا کہنا تھا کہ ایک دن رات کے وقت وہ یہ سوچ کر اس کے کمرے میں گئیں کہ وہ سورہا ہوگا، لیکن وہ جاگ رہا تھا اور اپنے آئی پیڈ پر جانوروں کو قتل کرنے والے ایک کھیل میں مشغول تھا۔ لیکن خوفناک بات یہ تھی کہ وہ دنیا سے بے خبر آنکھیں پھاڑے، کسی حد تک ایب نارمل انداز میں اسکرین کو گھور رہا تھا اور جیسے ایک ٹرانس میں محسوس ہورہا تھا۔ سوزین کو اسے متوجہ کرنے کے لیے کئی دفعہ زور سے ہلانا پڑا تب وہ بری طرح چونک اٹھا۔

    سوزین کے مطابق اس صورتحال سے وہ بے حد خوفزدہ ہوگئیں اور اگلے ہی دن اسے ماہر نفسیات کے پاس لے آئیں۔

    جدید دور کی ایجاد لت کیسے؟

    سوزین جیسے کئی اور والدین بھی تھے جنہوں نے کم و بیش اسی صورتحال سے گھبرا کر ماہرین نفسیات سے رجوع کیا۔ بعض والدین نے بتایا کہ اسمارٹ فونز میں موجود گیمز بچوں کے اعصاب پر اس قدر حاوی ہوچکے ہیں کہ وہ خواب میں بھی انہیں ہی دیکھتے ہیں اور صبح اٹھ کر بتاتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں کتنے دشمنوں کو مار گرایا۔

    ماہرین نفسیات نے جب اس سلسلے میں دیگر ماہرین سے رجوع کیا اور مزید تحقیق کی تو ان پر انکشاف ہوا کہ جدید دور کی یہ اشیا بچوں کو ڈیجیٹل نشے کا شکار بنا رہی ہیں۔

    ماہرین نے خوفناک انکشاف کیا کہ یہ ڈیجیٹل لت دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہے جیسے کوکین یا کوئی اور نشہ کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں:  ڈیجیٹل دور میں ڈیجیٹل بیماریوں کو خوش آمدید کہیئے

    طبی بنیادوں پر کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا کہ اس لت کا شکار بچے جب اپنی لت پوری کرتے ہیں تو ان کا دماغ جسم کو راحت اور خوشی پہنچانے والے ڈوپامائن عناصر خارج کرتا ہے۔

    اس کے برعکس جب بچے اپنی اس لت سے دور رہتے ہیں تو وہ بیزار، اداس اور بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض بچے چڑچڑاہٹ، ڈپریشن، بے چینی اور شدت پسندی کا شکار بھی ہوگئے۔

    ماہرین نے یہ بھی دیکھا کہ جو بچے اسمارٹ فونز پر مختلف گیم کھیلنے کی لت کا شکار ہوگئے وہ حقیقی دنیا سے کٹ سے گئے اور ہر وقت ایک تصوراتی دنیا میں مگن رہنے لگے۔ یہ مسئلہ نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی دیکھا گیا۔

    ماہرین نے کہا کہ یہ تمام علامتیں وہی ہیں جو ایک ہیروئن، افیون یا کسی اور نشے کا شکار شخص کی ہوتی ہیں۔ انہوں نے اسے ڈیجیٹل فارمیکا (فارمیکا یونانی زبان میں نشہ آور شے کو کہا جاتا ہے) کا نام دیا۔

    بچوں کو کیسے بچایا جائے؟

    دنیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایجاد کی گئی یہ اشیا کس قدر مضر ثابت ہوسکتی ہیں، شاید اس کا اندازہ خود ان کے خالقوں کو بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیو جابز اپنے بچوں کو ایک ٹیکنالوجی سے دور رکھنے والا والد تھا۔ سیلیکون ویلی کے سرکردہ افراد اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں جہاں ٹیکنالوجی کا استعمال کم ہوتا ہے۔

    یہی حال امیزون کے خالق جیف بیزوس اور وکی پیڈیا کے خالق جمی ویلس کا بھی ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو ایسے اسکولوں میں داخل کروایا جہاں  ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہونے کے برابر تھا۔

    ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں ہر 3 میں سے ایک بچہ بولنے سے قبل ہی اسمارٹ فون کے استعمال سے واقف ہوجاتا ہے۔

    تو پھر آخر بچوں کو اس نشے سے کیسے بچایا جائے؟

    مزید پڑھیں: بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ رکھنے کے اقدامات

    مزید پڑھیں: اپنے بچوں کو اغوا ہونے سے محفوظ رکھیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نشے کے شکار افراد کی طرح ایسے افراد اور بچوں کی زندگی سے بھی ٹیکنالوجی کو بالکل خارج کردیا جائے۔ اسمارٹ فونز، کپیوٹر حتیٰ کہ ٹی وی کو بھی ممنوعہ بنادیا جائے۔

    آج کل کے دور میں یہ ایک نا ممکن بات تو ہے مگر بچوں کو بچانے کا واحد حل یہی ہے۔

    kids-2

    ماہرین نے مزید تجاویز دیں کہ بچوں کو 12 سال کی عمر سے قبل کسی قسم کی ٹیکنالوجی سے متعارف نہ کروایا جائے۔

    بچپن سے ہی بچوں کو کتابوں اور روایتی کھلونوں سے مصروف رکھا جائے۔

    انہیں باہر جا کر جسمانی حرکت والے کھیل جیسے کرکٹ اور فٹبال یا سائیکل چلانے کی ترغیب دی جائے۔

    مزید پڑھیں: باغبانی کے بچوں پر مفید اثرات

    قدرتی اشیا جیسے سبزہ زار، پھولوں، درختوں، سمندر اور ہواؤں سے روشناس کروایا جائے اور ان کی خوبصورتی اور اہمیت بتائی جائے۔

    مزید پڑھیں: سبزہ زار بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    گھر کے اندر انہیں گفتگو میں مصروف رکھا جائے۔ ان سے روزمرہ کی مصروفیات، اسکول، دوستوں اور کھیلوں کے بارے میں باتیں کی جائیں۔

    گھر میں تمام افراد مل کر کھانا کھائیں اور اس دوران موبائل فونز کو دور رکھیں۔

    جدید ٹیکنالوجی کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔

    ٹی وی دیکھتے ہوئے والدین میں سے کوئی ایک بچوں کے پاس رہے اور انہیں مثبت پروگرامز جیسے کارٹون، معلوماتی پروگرامز اور کھیلوں کے میچ وغیرہ دیکھنے کی جانب راغب کیا جائے۔ ایسا اسی صورت ہوگا جب والدین خود یہ پروگرامز دیکھیں گے۔

    بچوں کو کہانی سناتے ہوئے انہیں تصوراتی دنیا میں بھیجنے سے گریز کریں۔ انہیں حقیقی زندگی کی کہانیاں اور قصے سنائیں۔

    یاد رکھیں کہ جب بچے تنہا اور بوریت کا شکار ہوتے ہیں تو وہ یہ جانے بغیر کہ کیا چیز ان کے لیے نقصان دہ ہے اور کیا فائدہ مند، کسی بھی چیز کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں اور اس کے عادی بن سکتے ہیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور انہیں بھرپور وقت دیں۔

  • معاوضہ کی پیشکش تمباکو نوشی چھوڑنے میں مددگار

    معاوضہ کی پیشکش تمباکو نوشی چھوڑنے میں مددگار

    جنیوا: تمباکو نوشی ایک ایسی لت ہے جسے چھوڑنا بہت مشکل ہے۔ لیکن ایک چیز ایسی ہے جو چین اسموکر کو بھی سگریٹ چھوڑنے پر مجبور کرسکتی ہے اور وہ سگریٹ چھوڑنے کے عوض معاوضہ ہے۔

    سوئٹزر لینڈ کے ایک تحقیقاتی ادارے کی جانب سے ایک سروے منعقد کیا گیا جس میں جائزہ لیا گیا کہ وہ کون سی ترغیبات ہیں جو سگریٹ نوشی کے عادی افراد کو اس لت کو چھوڑنے پر مجبور کرسکتی ہیں۔ سروے میں رشتوں، سماجی تعلقات اور کیریئر کی بہتری اور سگریٹ نوشی کے تعلق سے متعلق سوالات کیے گئے۔

    ماہرین نے دیکھا کہ وہ افراد جو مالی طور پر کمزور تھے جب انہیں سگریٹ چھوڑنے کے عوض پیسہ دینے کی پیشکش کی گئی تو وہ بخوشی سگریٹ چھوڑنے پر راضی ہوگئے۔ یہی نہیں انہوں نے اس کے لیے کوشش بھی کی اور مقررہ مدت میں وہ اپنی اس لت کو جزوی یا مکمل طور پر ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

    smoking-2

    ان افراد کو سگریٹ نوشی کے کیریئر، صحت اور سماجی تعلقات پر منفی اثرات کے بارے میں آگاہ کیا گیا جس پر ان افراد نے سگریٹ چھوڑنے کا عزم ضرور کیا لیکن وہ عملی طور پر اس میں ناکام رہے۔

    اس کے برعکس معاوضہ کی پیشکش کو انہوں نے سنجیدگی سے لیا اور دن بھر میں سگریٹ پینے کی تعداد کم کردی۔

    واضح رہے کہ تمباکو نوشی دنیا بھر میں ہر سال 60 لاکھ افراد کی جانیں لے لیتی ہے۔ عالمی ماہرین صحت کے مطابق تمباکو نوشی دنیا بھر میں ہائی بلڈ پریشر کے بعد اموات کی دوسری بڑی وجہ ہے۔