Tag: لندن پولیس

  • لندن پولیس نے پی ٹی آئی ورکر کو حراست میں لے لیا

    لندن پولیس نے پی ٹی آئی ورکر کو حراست میں لے لیا

    لندن پولیس نے پی ٹی آئی ورکر گلفام حسین کیانی کو حراست میں لے لیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پی ٹی آئی ورکر گلفام حسین کو شریف برادران کو دھمکیاں دینے کے الزام میں حراست میں لیا ہے، گلفام نے وزیراعظم شہباز شریف، نواز شریف اور دیگر افراد کو جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔

    گلفام حسین نے آرمی چیف کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور دھمکیاں دیں، اس نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو تباہ کرنے کی بھی دھمکی دی۔

    ملزم نے ایون فیلڈ اور شہباز شریف کے فلیٹ کے سامنے ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیں، گلفام حسین نے شہباز شریف اور نواز شریف کو لندن کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی دھمکی دی۔

    برطانیہ میں لیگی رہنما خرم بٹ نے ویڈیوز کے شواہد اکٹھے کرکے پولیس کو جمع کرواے، خرم بٹ کا کہنا ہے کہ پولیس نے شواہد کی بنیاد پر گلفام کو ایون فیلڈ کے گیٹ پر لاتیں مارتے ہوئے گرفتار کیا ہے۔

    پولیس نے ایون فیلڈ کے سامنے سے ایک شخص کی گرفتاری کی تصدیق کردی۔

    خرم بٹ کا کہنا ہے کہ میری شکایت پر یہ گرفتاری عمل میں آئی ہے، پولیس کو بتایا تھا کہ گلفام شریف فیملی کے ممبرز کو جان سے مارنا چاہتا ہے۔

    دوسری جانب ذرائع گلفام حسین کا کہنا ہے کہ ان کا فون بند ہے اور کوئی رابطہ نہیں ہورہا، اس نے کبھی قانون ہاتھ میں نہیں لیا، وہ صرف احتجاج کرتا ہے، گرفتاری سیاسی ہے۔

  • لندن میں بم کی اطلاع، پولیس کو متعدد کنٹرولڈ دھماکے کیوں کرنے پڑے؟

    لندن میں بم کی اطلاع، پولیس کو متعدد کنٹرولڈ دھماکے کیوں کرنے پڑے؟

    لندن: مشتبہ گاڑی میں بم کی اطلاع کے بعد حکام کی دوڑیں لگ گئیں، ریجنٹ اسٹریٹ کو عوام کے لیے فوری طور پر بند کردیا گیا۔

    اے آر وائی کے مطابق برطانوی پولیس نے بتایا کہ ریجنٹ اسٹریٹ کومشتبہ گاڑی کی وجہ سے بند کردیا گیا ہے، پولیس نے سڑک بند کرکے گاڑی کا گھیراؤ کرلیا جبکہ بم ڈسپوزل اسکواڈ کو بھی طلب کرلیا گیا ہے۔

    مشتبہ گاڑی اور بم کی دھمکی کے بعد ہنگامی صورتحال کے پیش نظر ریجنٹ اسٹریٹ پر کاروباری مراکز خالی کرا لیے گئے ہیں،

    پولیس نے بتایا کہ ریجنٹ اسٹریٹ پر بم کی دھمکی کے بعد پولیس کی جانب سے متعدد کنٹرولڈ دھماکے کیے گئے، پولیس کے مطابق کنٹرولڈ دھماکے احتیاطی تدبیر کے طور پر کیے گئے ہیں۔

  • لندن پولیس نے قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر حملہ کیس کی انکوائری بند کر دی

    لندن پولیس نے قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر حملہ کیس کی انکوائری بند کر دی

    لندن : لندن پولیس نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر حملہ کیس کی انکوائری ناکافی شواہد کے باعث بند کر دی اور کہا موجودہ شواہد پر عدالت میں جرم ثابت نہیں کرواسکیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق لندن پولیس نے سابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ پرحملےکی تفتیش ختم کردی،ذرائع نے بتایا کہ کراؤن پراسیکیوشن سروس نے کیس کو عدالت لے جانے سے معذرت کی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ سی پی ایس نے پولیس کو بتایا موجودہ شواہد پر عدالت میں جرم ثابت نہیں کرواسکیں گے۔

    پاکستان ہائی کمیشن لندن نے پولیس کو واقعےکی شکایت درج کرائی تھی تاہم سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی مقدمےمیں مدعی نہیں بنے تھے۔

    ذرائع نے کہا کہ پولیس نےواقعےمیں ملوث افرادکوواچ لسٹ میں ڈال رکھاہے، پولیس نے واقعے میں ملوث کسی بھی شخص کا انٹرویونہیں کیا، ہائی کمیشن نے حکومت پاکستان کی ہدایت پر شکایت درج کروائی تھی۔

    مزید پڑھیں : لندن میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر حملے کے معاملے پر اہم پیشرفت

    یاد رہے لندن میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے سابق چیف جسٹس کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تھی ، یہاں تک کہ اس کی کھڑکیوں کو توڑنے کی بھی کوشش کی، انہوں نے قاضی عیسیٰ کی گاڑی دیکھ کر نعرے لگائے اور اس کے ساتھ دوڑ پڑے۔

    بعد ازاں وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی لندن میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس کی گاڑی پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو حملہ آوروں کی شناخت کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کی تھی۔

    خیال رہے کہ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ قاضی فائز عیسیٰ پر حملے کی باقاعدہ شکایت کسی کا نام لیے بغیر دائر کی تھی۔

  • لندن پولیس اب ذہنی مسائل پر ہنگامی کال وصول نہیں کرے گی

    لندن پولیس اب ذہنی مسائل پر ہنگامی کال وصول نہیں کرے گی

    لندن پولیس نے اعلان کیا ہے کہ پولیس آئندہ کسی ذہنی صحت کے واقع پر ہنگامی کال وصول نہیں کرے گی۔

    پولیس کمشنر کے مطابق 31 اگست کے بعد ہر قسم کی ذہنی صحت ایمرجسنی کال لینے پر پابندی ہو گی۔

    میٹ پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ لندن پولیس میڈیکل پروفیشنل نہیں کہ ذہنی صحت کی ہنگامی کالز پر حاضر ہو جائے، یہ وقت جرائم سے نمٹنے پر لگانے سے اہلِ لندن کو بہت فائدہ اور سکون ہو گا۔

    میٹ پولیس نے کہا کہ لندن کی میٹروپولیٹن پولیس صرف ذہنی صحت سے متعلق کالوں کو سنے گی جہاں "زندگی کو فوری خطرہ” ہو۔

  • لندن پولیس ہیڈ کوراٹر کے باہر عوام نے سیب کیوں رکھے؟

    لندن : دنیا بھر میں لوگ احتجاج کرنے کے مختلف انداز اختیار کرتے ہیں جس میں وہ اپنے حقوق اور مطالبات منوانے کیلئے متعلقہ حکام کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔

    ایک ایسا ہی احتجاجی مظاہرہ لندن کے پولیس ہیڈ کواٹر کے سامنے کیا گیا جس میں مظاہرین نے انوکھا طریقہ استعمال کیا، اس احتجاج میں پولیس کی ناقص کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز لندن میں میٹروپولیٹن پولیس کی نیو اسکاٹ لینڈ یارڈ کی عمارت کے باہر ’ریفیوج‘ نامی سماجی تنظیم کی جانب سے 1 ہزار 71 بوسیدہ اور خراب سیب رکھے گئے۔

    اس احتجاج کا مقصد جنسی جرائم اور گھریلو زیادتی کے مقدمات کی تحقیقات میں سست روی کا مظاہرہ کرنے والے پولیس افسران اور عملے کو تنقید کا نشانہ بنانا تھا۔

    نیو اسکاٹ لینڈ یارڈ کی عمارت کے باہر رکھے گئے سیبوں کے اسٹال کے ساتھ ایک بورڈ بھی آویزاں کیا گیا جس پر تحریر تھا کہ 1071 خراب سیب، اور مزید کتنے؟”

    یہ مظاہرہ لندن پولیس کے ایک حاضر سروس افسر کی جانب سے گزشتہ دنوں کیے گئے اس بیان کے بعد کیا گیا ہے جس میں اس نے خواتین کے ساتھ عصمت دری کے 24 واقعات کا اعتراف کیا۔

    اس خبر نے پورے برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا، جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیلا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد میں کافی حد تک کمی پائی گئی۔

    اس حوالے سے ’ریفیوج‘کی سی ای او روتھ ڈیوسن نے کہا کہ یہ واقعہ ہماری پولیس کے پورے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی بدسلوکی کے مرتکب افسران کو اتنے عرصے تک ان کے عہدوں پر رہنے کی اجازت کیسے دی گئی؟

    عوام کے اس مظاہرے کے بعد عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے کیلئے پولیس حکام کا کہنا تھا کہ 1,071 افسران اور عملہ پر مشتمل ادارہ جنسی اور گھریلو بدسلوکی کے معاملات کی تحقیقات میں مصروف ہے جس کے بعد سیکڑوں ملازمین کو برطرف بھی کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں : خواتین سے زیادتی، برطانوی پولیس افسر کے اعترافی بیان نے ہلچل مچادی

    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں برطانیہ میں میٹرو پولیٹن پولیس کے سابق افسر نے اپنی 18 سالہ ملازمت کے دوران 80سے زائد جنسی جرائم میں 24 خواتین کے ساتھ جنسی ذیادتی کی وارداتوں کا اعتراف کیا تھا۔

    رپورٹ کے مطابق 48 سالہ پولیس افسر ڈیوڈ کیرک نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس نے 2003 سے 2020 کے دوران 49 مختلف جرائم کا ارتکاب کیا جن میں 24 ریپ کے کیسز بھی شامل ہیں۔

  • لندن : خواتین پر کریک ڈاؤن، لندن پولیس کیخلاف سخت تنقید

    لندن : خواتین پر کریک ڈاؤن، لندن پولیس کیخلاف سخت تنقید

    لندن : خاتون کے اغواء اور قتل کے الزام میں گرفتار ہونے والی ایک برطانوی پولیس افسر کو پہلی مرتبہ عدالت میں پیش کردیا گیا جبکہ ہزاروں افراد نے واقعے کے خلاف احتجاج بھی کیا۔

    لندن میں اغواء اور قتل کی جانے والی لڑکی کی یاد منانے والی خواتین پر پولیس کی جانب سے کئے گئے کریک ڈاؤن کے بعد پولیس حکام کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    احتجاج کے سلسلے میں جمع ہونے والی خواتین کو کورونا وائرس کے باعث پابندیوں کے باوجود جمع ہونے پر ان کے ساتھ پولیس نے انتہائی سخت رویہ اختیار کیا۔

    خواتین مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے خواتین کے ساتھ زور زبردستی کی، جس پر مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی، پولیس نے کئی خواتین کو حراست میں لے لیا۔

    واقعے کی اطلاع ملنے پر وزیرِ داخلہ پریتی پٹیل نے معاملے کی رپورٹ طلب کرلی جبکہ لندن کے میئر صادق خان نے بھی پولیس سے وضاحت طلب کرلی ہے۔

    یاد رہے کہ 33سالہ مارکیٹنگ منیجر سارہ 3 مارچ کو گھر لوٹتے ہوئے لاپتا ہوگئی تھی۔ 48سالہ برطانوی پولیس افسر وین کوزنز پر سارہ ایورارڈ کو اغوا اور قتل کرنے کا الزام ہے، سارہ کی گمشدگی کے الزام میں گرفتار پولیس افسر سے پوچھ گچھ بھی جاری ہے۔

    ملزمہ ویسٹ مجسٹریٹس کورٹ میں پیشی ہوئی، جس کا ریمانڈ دے دیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملزمہ کی معاونت کے الزام میں ایک عورت کو بھی حراست میں لیا گیا تھا جو اب ضمانت پر ہے۔

  • نواز شریف کی لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی، لندن پولیس نے تفصیلات مانگ لیں

    نواز شریف کی لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی، لندن پولیس نے تفصیلات مانگ لیں

    لندن: سابق وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی جانب سے لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی پر لندن پولیس نے تفصیلات مانگ لی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایک ٹویٹر صارف نے لندن میٹرو پولیٹن پولیس کو متوجہ کیا ہے کہ نواز شریف نے لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔

    ریڈیئنٹ نامی ٹویٹر صارف کی جانب سے میٹرو پولیٹن پولیس کو متوجہ کرنے پر پولیس نے مذکورہ صارف سے اس واقعے کی تفصیلات مانگ لیں۔

    ٹویٹر صارف نے نواز شریف کی ہائیڈ پارک میں واک والی ویڈیو کی طرف توجہ دلائی تھی، صارف نے لکھا کہ نواز شریف نے 6 افراد اور ماسک کی پابندی کی خلاف ورزی کی ہے۔

    نواز شریف کی وطن واپسی: پاکستان اور برطانیہ کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطے جاری

    صارف نے پولیس کو پیغام بھیج کر تفصیلات مہیا کر دیں، جس پر میٹرو پولیٹن پولیس نے صارف کو جواب دیا کہ مقامی پولیس کو اس سلسلے میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ یہ معاملہ ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطے ہو رہے ہیں، اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان کے مشیر اور ماہر قانون ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ ایکسٹرڈیشن پر متعلقہ حکام سے رابطے جلد منظر عام پر آ جائیں گے۔

    دوسری طرف برطانیہ میں کرونا وائرس کی روک تھام کے سلسلے میں نئی حکمت عملی کے تحت پابندیوں کے تین درجات متعارف کرا دیے گئے، جن میں ’میڈیم، ہائی اور ویری ہائی‘ شامل ہیں۔

  • قاتل کون؟ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیشی افسر کی ذہانت پر سوال اٹھ گئے

    قاتل کون؟ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیشی افسر کی ذہانت پر سوال اٹھ گئے

    یہ 1860 کی بات ہے، اسکاٹ لینڈ پولیس نے ایک ایسے قتل کی تفتیش شروع کی جس نے افسران کو گویا چکرا کے رکھ دیا۔

    مسٹر کینٹ نے پولیس کو رپورٹ کی تھی کہ ان کا چار سالہ بچّہ گھر سے غائب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے گھر میں ہر جگہ تلاش کرلیا ہے، مگر اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

    بعد میں بچے کی لاش گھر کے احاطے سے باہر بنائے گئے ایک ٹائلٹ سے برآمد ہوئی۔ اس معصوم کا گلا کٹا ہوا تھا جب کہ قاتل نے سینے میں چُھرا بھی گھونپا تھا۔

    مسٹر کینٹ سے تفتیش کے دوران پولیس کو معلوم ہوا کہ انھوں نے صبح بچے کو بستر پر نہ پاکر ہر جگہ تلاش کیا اور ناکامی کے بعد پولیس کو اس کی اطلاع دی تھی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں‌ صبح بیدار ہونے کے بعد گھر سے باہر جانے والا ایک دروازہ بھی کُھلا ملا تھا۔

    پولیس نے دروازے سے متعلق مسٹر کانٹ کی بات کو اہمیت ضرور دی تھی، لیکن انھیں شک تھا کہ قاتل باہر سے نہیں آیا بلکہ گھر کا کوئی فرد ہی ہے۔

    جائے وقوع سے شواہد اکٹھا کرنے کے بعد تفتیش شروع ہوئی جس میں کانٹ فیملی اور گھر کے ملازمین سبھی کو شامل کیا گیا۔

    اس خاندان کے بارے میں ابتدائی معلومات سے پولیس کے اس خیال کو تقویت مل رہی تھی کہ قاتل گھر کا ہی فرد ہے۔
    کنبے کے سربراہ مسٹر کانٹ نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی جو چار بچوں کی ماں تھی، اس کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے چار بچوں کے علاوہ اس گھر میں مسٹر کانٹ اپنی دوسری بیوی اور اس سے پیدا ہونے والے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

    قاتل کو پکڑنے کے لیے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیشی محکمے کے افسر جیک وِچر کا انتخاب کیا گیا۔ وہ ایک قابل اور ذہین افسر سمجھے جاتے تھے اور اس سے قبل کئی پیچیدہ اور پُراسرار کیسوں کو نمٹا چکے تھے۔

    اس تفتیشی افسر کا خیال تھا کہ یہ قتل بچے کی سولہ سالہ سوتیلی بہن نے کیا ہے۔ وہ اسے عدالت تک لے آیا، لیکن ثابت نہیں کرسکا کہ وہی اُس بچے کی قاتل ہے۔ یوں مقتول کی سوتیلی بہن بری ہو گئی۔

    یہ اس زمانے کا مشہور کیس تھا اور اس ناکامی نے وِچر کی قابل اور ذہین افسر جیسی شہرت کو بھی مشکوک کردیا۔ اسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اخبارات نے اس کے خلاف لکھنا شروع کر دیا اور اپنے ڈپارٹمنٹ کے حاسدین کی جانب سے بھی اس کی مخالفت زوروں پر تھی۔

    تاہم پانچ سال بعد سب کو وَچر کی ذہانت کا اعتراف کرنا پڑا، کیوں‌ کہ اسی لڑکی نے ایک پادری کے ساتھ پولیس اسٹیشن پہنچ کر اعترافِ جرم کر لیا تھا۔ اس اعتراف پر اسے بیس سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    رہائی کے بعد وہ آسٹریلیا چلی گئی جہاں نرسنگ کی تربیت حاصل کی اور باقی زندگی جذام کے مریضوں کی دیکھ بھال اور خدمت کرتے ہوئے گزاری۔

    اسکاٹ لینڈ کی تاریخ کے اسی مشہور قتل پر برطانوی مصنفہ کیٹ سمرسکیل نے ایک کہانی بُنی جو لندن میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہے۔

    1965 میں پیدا ہونے والی سمرسکیل نے صحافت کی تعلیم مکمل کرکے ٹیلی گراف میں آرٹ اور ادب کے صفحے کی ادارت کی اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    انھوں نے ”دی سسپِیشنز آف مسٹر وِچر“ کے نام سے کتاب لکھی جو پُرتجسس واقعات اور مہم جوئی سے متعلق ہی نہیں تھی بلکہ اس میں اُس دور کے طرزِ زندگی اور معاشرتی حالات کا احاطہ بھی کیا گیا تھا۔ بعد میں ان کی یہ کہانی ٹیلی ویژن پر ڈرامائی شکل میں پیش کی گئی۔

    کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب نہ صرف انیسویں صدی کے سنسنی خیز کیس کی تفصیلات سامنے لاتی ہے بلکہ اس دور کے سماج کی اور ایک خاندان کی ذاتی زندگی کی خوب صورت عکاسی ہے اور یہ کتاب برطانوی ادب میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔

  • بانی ایم کیو ایم  کا تفتیش کے دوران لندن پولیس کوجواب دینے سے انکار

    بانی ایم کیو ایم کا تفتیش کے دوران لندن پولیس کوجواب دینے سے انکار

    لندن : بانی ایم کیوایم نےتفتیش میں پولیس کوجواب دینے سے انکارکردیا، پولیس بانی ایم کیوایم کوبغیرفردجرم عائدکئے 4روز تک رکھ سکتی ہے، ان کی رہائی یا فرد جرم کا فیصلہ آج ہونے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گرفتار بانی ایم کیوایم سدرن پولیس اسٹیشن میں موجود ہیں ، جہاں ان سے 2گھنٹے تک تفتیش کی گئی ، تفتیش کاسیشن رات 10 سے 12 بجے تک جاری رہا۔

    بانی ایم کیوایم نےتفتیش میں پولیس کوجواب دینےسےانکارکردیا، انھوں نے تفتیش میں صرف نام، تاریخ پیدائش اور پتہ بتایا۔

    لندن پولیس نےبانی متحدہ کوبتایاآپ کےپاس نوکمنٹس کاآپشن ہے، بانی متحدہ کوکہاگیا کہ نوکمنٹس کہناعدالت میں خلاف بھی جاسکتاہے جبکہ بانی ایم کیوایم کے وکیل نے انہیں نو کمنٹس کہنے کا مشورہ دیا تھا۔

    بانی متحدہ نے تفتیش شروع ہونے کے 2گھنٹے بعد سینےمیں دردکی شکایت کی ، لندن پولیس نے سینے میں دردکی شکایت پر تفتیش روک دی، جس کے بعد بانی ایم کیوایم سےتفتیش کاعمل دوبارہ ایک گھنٹےسےشروع ہے۔

    بانی ایم کیوایم کوگرفتارہوئے 28گھنٹےگزرچکےہیں، پولیس نے ان پراب تک فردجرم عائدنہیں کی، پولیس بانی ایم کیوایم کو بغیر فرد جرم عائد کئے 4 روز تک رکھ سکتی ہے۔

    بانی متحدہ کی 24 گھنٹے کےلئے حراست کا وقت پورا ہونے کے بعد انہیں مزید 12 حراست میں رکھنے کے لیے درخواست ساؤتھ ورک پولیس اسٹیشن کے سپرنٹنڈنٹ نے دی تھی۔

    بانی ایم کیوایم کی رہائی یافردجرم کافیصلہ آج ہونے کا امکان ہے۔

    مزید پڑھیں : بانی ایم کیو ایم لندن میں گرفتار، اسکاٹ لینڈیارڈ کی تصدیق

    یاد رہے کہ گزشتہ روز   اسکاٹ لینڈ یارڈنےصبح سویرے بانی ایم کیو ایم کےگھرچھاپہ مار کرانھیں گرفتار کیا تھا، ان پرنفرت انگیز تقریر سے تشدد پر اکسانے کے الزامات ہیں۔

    اسکاٹ لینڈ یارڈ نے بیان میں کہا تھا  ایم کیو ایم کےایک شخص کو نفرت انگیزتقریروں پرگرفتارکیا گیا،  چھاپے میں پندرہ پولیس اہلکاروں نےحصہ لیا، پولیس نےگھنٹوں رہائش گاہ کی تلاشی لی، اس دوران افسرپاکستانی حکام سےبھی رابطےمیں رہے،  بعد میں اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم ایم کیو ایم سیکرٹریٹ بھی پہنچی اور وہاں موجود ریکارڈ کی چھان بین کی۔

    بانی ایم کیوایم کوپولیس نے کرائم ایکٹ 2007 کے تحت گرفتار کیا اور ان کی گرفتاری دفعہ44کے تحت عمل میں آئی، دفعہ44ملزم تقریر سے عوام کو اشتعال دلانےکی کوشش پر لاگوہوتا ہے۔

    واضح رہے  22 اگست  2016 میں بانی ایم کیو ایم نے  لندن سے بذریعہ ٹیلیفونک خطاب کے دوران ریاست مخالف تقریرکی تھی،  ان کی تقریر کے بعد اے آر وائی  سمیت مختلف ٹی وی چینلزپرحملہ کیا گیا تھا۔

  • لندن: پولیس کی غلط فہمی نے نوبیاہتا جوڑے کی جان لے لی

    لندن: پولیس کی غلط فہمی نے نوبیاہتا جوڑے کی جان لے لی

    لندن: برطانوی پولیس کی نااہلی سے نوبیاہتا جوڑا شادی کے  10 منٹ بعد ہی حادثے میں ہلاک ہوگیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق 19 سالہ پیٹرک اور 18 سالہ شونا شادی کے بعد گھر سے باہر نکلے تو پولیس مشکوک گاڑی سمجھ کر ان کا پیچھا کرنے لگی، جوڑے نے گاڑی دوڑانا چاہی تو آگے جاتے ہی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی۔

    اسپتال انتظامیہ کے مطابق پیٹرک اور شونا کو تشویش ناک حالت میں اسپتال لایا گیا تھا جہاں دونوں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔

    پیٹرک اور شونا کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ نوجوان جوڑے کی چند لمحے قبل ہی شادی ہوئی تھی دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے۔

    مزید پڑھیں: لندن پولیس نے دہشت گردی میں ملوث 3 افراد گرفتارکرلیے

    اہل خانہ کے مطابق پیٹرک ایک اچھا شخص تھا اور وہ ویلنٹائن ڈے میں شونا کی چھوٹی بہن سینا میری کی سالگرہ میں شرکت کے لیے آرہے تھے کہ پولیس کی غفلت کے سبب ہلاک ہوگئے۔

    پولیس کے مطابق گزشتہ رات 9 بجے کے قریب پولیس افسران ایک رینالٹ پرانی گاڑی کا تعاقب کررہے تھے شبے کی بنیاد پر ان کا پیچھا کیا گیا جس کی سبب حادثہ رونما ہوا۔

    لندن پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے، ہر زاوئیے سے تحقیقات کی جائیں گی، شواہد اکٹھے کرلیے گئے ہیں، سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منگوائی گئی ہے پولیس اہل کاروں کی نااہلی ثابت ہوئی تو ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔