Tag: لندن

  • آکسفورڈ یونیورسٹی: طلبا کامن روم سے ملکہ برطانیہ کی تصویر ہٹانے پر متفق

    آکسفورڈ یونیورسٹی: طلبا کامن روم سے ملکہ برطانیہ کی تصویر ہٹانے پر متفق

    لندن: دنیا کی معروف جامعہ، آکسفورڈ یونیورسٹی کے طلبا نے کالج کے کامن روم سے ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کی تصویر ہٹانے کے لیے ووٹ دے دیا، آکسفورڈ کالج کے صدر نے طلبا کے ووٹ دینے کے حق کی حمایت کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کے میڈلن کالج میں گریجویشن کے طلبا کے کامن روم کی دیوار پر لگے ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوم کے پورٹریٹ ہٹانے کے معاملے پر ووٹنگ ہوئی جس میں طلبا کی اکثریت نے اسے ہٹانے کے حق میں ووٹ دے دیا۔

    طلبا کا مؤقف ہے کہ ملکہ کی تصویر نوآبادیاتی دور کی یادگار اور استعمار کی علامت ہے۔

    تصویر ہٹانے کے مخالف بعض طلبا کا کہنا ہے کہ ملکہ کی تصویر برطانیہ کی ثقافت کی نمائندگی کرتی ہے جس کا سب کو احترام کرنا چاہیئے۔

    آکسفورڈ کالج کے صدر نے طلبا کے ووٹ کے حق کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلے کو طلبا کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔

    طلبا کی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ملکہ کی تصویر کی جگہ کسی متاثر کن شخصیت کی تصویر لگائی جائے گی جبکہ آئندہ کسی شاہی خاندان کے فرد کی تصویر لگانے سے قبل ووٹنگ کی جائے گی۔

    دوسری جانب برطانوی وزیر تعلیم گیون ولیمسن نے اس اقدام کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔

  • کرونا ویکسین پر سب سے زیادہ بھروسہ کرنے والا ملک کون سا ہے؟

    کرونا ویکسین پر سب سے زیادہ بھروسہ کرنے والا ملک کون سا ہے؟

    لندن: دنیا بھر میں کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسی نیشن جاری ہے، حال ہی میں کیے جانے والے ایک سروے سے پتہ چلا کہ برطانیہ ان ویکسینز پر سب سے زیادہ بھروسہ کرنے والا ملک ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر میں برطانیہ کووڈ ویکسین پر سب سے زیادہ اعتماد کرنے والا ملک ہے، 15 ممالک کے لوگوں سے کیے گئے ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ کووڈ ویکسینز پر سب سے زیادہ اعتماد برطانیہ میں کیا جاتا ہے۔

    برطانیہ میں 10 میں سے 9 افراد نے کہا کہ وہ ویکسین پر بھروسہ کرتے ہیں، اس حوالے سے اسرائیل دوسرے نمبر پر رہا جہاں 83 فیصد افراد نے ویکسینز پر اعتماد کا اظہار کیا۔

    جاپان میں ویکسین پر اعتماد کی شرح کم ترین سطح 47 فیصد پر پائی گئی۔

    امپیریئل کالج لندن کی ٹیم جو نومبر سے ویکسین کے بارے میں لوگوں کے رویوں پر نظر رکھے ہوئے ہے، کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ ویکسینز پر اعتماد بڑھانے کے لیے اب بھی کام کرنا باقی ہے۔

    یہ سروے یوگوو کے تعاون سے کیا گیا جس میں 68 ہزار سے زائد افراد شامل تھے۔ ان ممالک میں جہاں ابھی تک ویکسین وسیع پیمانے پر دستیاب نہیں تھی، وہاں حفاظت سے متعلق خدشات کا بھی انکشاف ہوا۔

    ویکسین نہ رکھنے کی سب سے عام وجہ اس کے لیے اہل نہ ہونا تھا۔ برطانیہ اور اسرائیل ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے آج تک اپنے شہریوں کو ویکسین کی زیادہ سے زیادہ خوراکیں دیں۔

    سروے کے مطابق جاپان میں ویکسی نیشن کی مہم دیر سے شروع ہوئی اور رسد کی قلت اور تنظیمی مشکلات کی وجہ سے رکاوٹ ہوئی، سروے میں جن دیگر تشویش آمیز ممکنات پر روشنی ڈالی گئی ان میں ویکسین کے ممکنہ مضر اثرات اور حفاظت پر تحفظات شامل تھے۔

    اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ مختلف ممالک میں صحت کے حکام پر اعتماد مختلف ہے۔

    امپیریل کالج لندن کی پروجیکٹ لیڈر سارہ جونز نے کہا کہ ہمارے سروے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ کرونا وائرس ویکسین کی حفاظت اور اس کی تاثیر کے بارے میں عوام کو یقین دلانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ لوگوں نے جو خدشات اٹھائے ہیں حکومتوں کی جانب سے انہیں دور کرنے کے لیے بروقت اقدامات کیے جائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ سروے کے اعداد و شمار سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ کووڈ 19 کے لیے مختلف ویکسینز پر مختلف انداز میں بھروسہ کرتے ہیں۔

  • پرنس ہیری نے نئے انکشافات کر دیے

    پرنس ہیری نے نئے انکشافات کر دیے

    لندن: شاہی خاندان سے دست بردار شہزادہ ہیری نے انکشاف کیا ہے کہ والدہ کے انتقال کے بعد وہ شراب اور منشیات کی لت میں مبتلا ہو گئے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق دماغی صحت سے متعلق دستاویزی سیریز کے لیے پرنس ہیری نے اوپرا ونفرے کو انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے عمر کی 20 ویں دہائی کے آخر اور 30 ویں دہائی کے اوائل میں شاہی زندگی کے دباؤ سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے کثرت سے شراب نوشی کی، اور منشیات کا استعمال کیا، اس کے ساتھ ان پر بے چینی اور گھبراہٹ کے حملے ہوتے رہے۔

    والدہ کے انتقال اور اپنی دماغی صحت کے حوالے سے اوپرا ونفرے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا والدہ کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، انھیں اس پر شدید غصہ تھا، جب کہ ان کی موت کے چند برسوں بعد تک آس پاس لوگ ان کی موت پر تبادلہ خیال کرتے رہتے تھے۔ واضح رہے کہ 1997 میں لیڈی ڈیانا کے موت کے وقت شہزادہ ہیری کی عمر 12 سال تھی۔

    پرنس ہیری نے بتایا کہ والدہ کی وفات کے بعد شاہی خاندان نے انھیں مکمل نظر انداز کیا، بلوغت کی عمر میں بھی ان پر شدید گھبراہٹ اور بے چینی کے حملے ہوتے رہے، 28 سے 32 سال کے درمیان کا عرصہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا۔

    انھوں نے کہا کہ میگھن سے تعلقات منظر عام پر آتے ہی ٹیبلائڈ پریس کی جانب سے ان کا تعاقب اور ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، اور تسلسل کے ساتھ ان کی تصاویر شائع کی جاتی رہیں، سوشل میڈیا اور اخبارات نے ان پر حملے کیے، اور اس دوران خاندان کی جانب سے بہت تھوڑی حمایت ملی۔

    پرنس ہیری نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ خاندان کے افراد میری مدد کریں گے، لیکن میں نے اس صورت حال میں خود کو بے بس پایا، ہم نے چار برس تک کوشش کی کہ برطانیہ میں رہ کر ہی اپنے فرائض سر انجام دیں، لیکن شاہی کردار میری دماغی صحت کو تباہ کر رہا تھا اس لیے میں نے اس سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا۔

  • پاکستانی نژاد برطانوی شہری صادق خان ایک بار پھر لندن کے میئر منتخب

    پاکستانی نژاد برطانوی شہری صادق خان ایک بار پھر لندن کے میئر منتخب

    لندن: پاکستانی نژاد برطانوی شہری صادق خان ایک بار پھر لندن کے میئر منتخب ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی دارالحکومت لندن کے شہریوں نے ایک بار پھر صادق خان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مئیر منتخب کر لیا ہے، صادق خان اگلے 3 سال لندن کے مئیر رہیں گے۔

    صادق خان نے حکومتی جماعت کے امیدوار شان بیلی کو شکست دی، اس سے قبل صادق خان 2016 میں مئیر آف لندن منتخب ہوئے تھے، کرونا وبا کے باعث بلدیاتی الیکشن ایک سال کی تاخیر سے ہوئے۔

    صادق خان نے میڈیا گفتگو میں کہا میں تمام ووٹرز کا شکریہ ادا کرتا ہوں، لندن کے ہر شہری کا میئر ہوں، میں ایک امیگرنٹ کا بیٹا اور ورکنگ کلاس سے ہوں، میرا وعدہ ہے کہ مختلف قومیتوں کو قریب لاؤں گا۔

    انھوں نے کہا کرونا وبا کو ہم سب مل کر شکست دے سکتے ہیں، وبا کے بعد کے لندن کے مستقبل کو روشن بنائیں گے۔

    ادھر ویسٹ مڈلینڈ میئر کے انتخابات کے نتائج کا اعلان بھی ہو گیا ہے، ٹوری پارٹی کے اینڈی اسٹریٹ دوبارہ میئر منتخب ہو گئے۔

  • لندن منی لانڈرنگ کا گڑھ بن گیا، میئر لندن اور اپوزیشن لیڈر کا اظہار تشویش

    لندن منی لانڈرنگ کا گڑھ بن گیا، میئر لندن اور اپوزیشن لیڈر کا اظہار تشویش

    لندن: برطانوی دارالحکومت منی لانڈرنگ کا گڑھ بن گیا ہے، جس پر میئر لندن اور اپوزیشن لیڈر نے اظہار تشویش کیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق برطانوی اپوزیشن لیڈر کیئر اسٹارمر اور میئر آف لندن صادق خان نے ترقی پذیر ممالک سے کرپشن کا پیسہ برطانیہ منتقل ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

    میئر لندن صادق خان کا کہنا ہے غیر قانونی پیسوں سے لندن میں جائیدادیں خریدی جاتی ہیں اور دنیا بھر سے کالا دھن لندن لا کر سفید کیا جاتا ہے، کافی سالوں سے لندن منی لانڈرنگ کا کیپٹل بنا ہوا ہے۔

    میئر لندن صادق خان نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہمیں فکر ہے کہ کافی سالوں سے لندن منی لانڈرنگ کا کیپٹل ہے، غیر قانونی طریقے سے کمائے پیسے لندن منتقل کیے جاتے ہیں، میں لابنگ کر رہا ہوں کہ حکومت لندن کو منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔

    میئر لندن صادق خان اور اپویشن لیڈر کیئر روڈنی اسٹارمر

    میئر کا کہنا تھا دنیا بھر سے کالا دھن لندن لا کر سفید کیا جا رہا ہے، لندن کے بینک، کاروبار، پراپرٹیز میں غیر قانونی پیسہ لگایا جاتا ہے، پولیس محنتی ہے مگر قانون میں بہت سارے سقم ہیں، حکومت پر زور دوں گا کہ قانون میں موجود سقم دور کریں۔

    صادق خان نے کہا کئی ملٹی ملینرز غیر قانونی پیسہ لندن میں انویسٹ کر رہے ہیں، میں نہیں چاہتا کہ لندن غیر قانونی کاموں کے لیے استعمال ہوتا رہے، اگر آپ نے جائز طریقے سے پیسہ کمایا ہے تو ضرور لندن میں لگائیں۔

    برطانوی اپوزیشن لیڈر کیئر روڈنی اسٹارمر نے کہا کہ منی لانڈرنگ روکنے کی لیے پولیسنگ میں بہتری ضروری ہے، کرپشن کو روکنا انتہائی ضروری ہے، ہم کرپشن اور منی لانڈرنگ روکنے میں کردار ادا کریں گے۔

  • جنگلی حیات کے تحفظ کا جنون: جب شہزادہ فلپ نے شیر کا شکار کیا

    جنگلی حیات کے تحفظ کا جنون: جب شہزادہ فلپ نے شیر کا شکار کیا

    لندن: ملکہ برطانیہ کے شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ فلپ گزشتہ روز 99 برس کی عمر میں چل بسے، شہزادہ فلپ نے ساری عمر ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے دیوانہ وار کام کیا۔

    گزشتہ روز شاہی خاندان کو سوگوار چھوڑ جانے والے شہزادہ فلپ فطرت سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور انہیں اس کی حفاظت کا جنون تھا۔

    انہوں نے تحفظ ماحولیات اور جنگلی حیات کے لیے اس وقت بات کی جب کسی کا دھیان اس طرف نہیں تھا، شہزادے نے دنیا بھر کے دورے کیے جن کا مقصد دنیا کو وہاں ہونے والی ماحولیاتی آلودگی، درختوں کی کٹائی اور شکار کی وجہ سے جانوروں کو لاحق خطرات کی طرف متوجہ کرنا تھا۔

    شہزادے نے ہمیشہ دنیا بھر میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنسز میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں تحفظ ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کی افریقہ میں ہاتھیوں کو کھانا کھلاتی، چین میں پانڈا کے ساتھ وقت گزارتی اور انٹارکٹیکا میں پانی کی بلی کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی تصاویر جنگلی حیات سے ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    سنہ 1961 میں جب ماحولیات کی عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) قائم کی گئی تو شہزادہ فلپ کو اس کا پہلا صدر بنایا گیا۔ اس تنظیم کے ساتھ انہوں نے دنیا بھر میں دورے کیے اور جنگلی حیات اور ماحول کے تحفظ کا شعور اجاگر کیا۔

    لیکن اسی سال ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا، شہزادہ فلپ نے ملکہ برطانیہ کے ساتھ نیپال کا دورہ کیا جہاں دونوں نے ہاتھیوں پر بیٹھ کر گینڈے اور شیر کے شکار میں حصہ لیا۔

    اسی سال موسم گرما میں شاہی جوڑے نے بھارت کا دورہ بھی کیا جہاں شہزادہ فلپ نے ایک ٹائیگر کا شکار کیا، ٹائیگر کے مردہ جسم کے ساتھ فخریہ کھڑے ان کی تصویر نے دنیا بھر میں ہنگامہ کھڑا کردیا۔

    دنیا جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں ان کے قول و فعل کے تضاد پر چیخ اٹھی، لیکن اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے اس کی وضاحت یوں کی کہ ان کے خیال میں جانوروں کا شکار کرنا دراصل اس جانور کا وجود قائم رکھنا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جب آپ کسی جانور کا شکار کرتے ہیں تو آپ چاہتے ہیں کہ اگلے سال ان کی تعداد میں اضافہ ہو، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسان اپنی فصل کو کاٹ ڈالے تاکہ وہ اگلے سال دوبارہ اگے، ہاں لیکن وہ اس فصل کو مکمل طور پر تباہ نہیں کرے گا جو کہ خود اس کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    ان کی یہ توجیہہ کسی حد تک اس لیے بھی قابل قبول خیال کی گئی کیونکہ اس وقت ٹائیگر آج کی طرح معدومی کے خطرے کا شکار نہیں تھا، اور اس کی تعداد مستحکم تھی۔

    بعد ازاں برطانیہ میں لومڑی کے شکار پر پابندی کی بحث چلی تو شہزادے نے شکار کرنے والوں کا دفاع کیا، اس پر بھی تحفظ ماحولیات کے لیے کام کرنے والے افراد اور ادارے ان سے خاصے ناراض ہوئے۔

    شہزادہ فلپ 1982 میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کی صدارت کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے، لیکن وہ ذاتی طور پر طویل عرصے تک ادارے کی کئی مہمات کا حصہ بنے رہے۔ وہ پانڈا کو بچانے کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی مہم میں ایک سرگرم رکن کے طور پر کام کرتے رہے۔

    علاوہ ازیں انہوں نے سمندری آلودگی اور ضرورت سے زیادہ ماہی گیری کے خلاف مہمات کی بھی بھرپور حمایت کی اور مختلف مواقع پر اس پر بات کرتے نظر آئے۔

    اپنے ایک انٹرویو میں آنجہانی شہزادے نے کہا تھا، ’یہ ایک بہت خوبصورت بات ہے کہ ہماری زمین پر مختلف نوع کی حیات موجود ہے اور سب ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر ہم انسانوں کے پاس دوسری حیات کو زندگی بخشنے یا ان کی جان لینے، انہیں معدوم کرنے یا انہیں بچا لینے کی طاقت ہے، تو ہمیں کوئی بھی کام کرنے سے قبل اخلاقی حس کو کام میں لانا چاہیئے‘۔

  • لندن میں چاقو بردار کا حملہ، نوجوان نے خاندان کو بچانے کے لیے جان قربان کردی

    لندن میں چاقو بردار کا حملہ، نوجوان نے خاندان کو بچانے کے لیے جان قربان کردی

    لندن: برطانیہ میں 18 سالہ نوجوان چاقو بردار کو اپنے خاندان پر حملہ آور دیکھ کر ان کی ڈھال بن گیا اور اپنی جان گنوا دی، افسوسناک واقعے کے بعد علاقے میں دکھ کی لہر دوڑ گئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی دارالحکومت لندن میں گھر کے سامنے تیز دھار آلے سے قتل ہونے والا 18 سالہ مسلمان نوجوان اپنی فیملی کا تحفظ کرتے ہوئے حملہ آوروں کا نشانہ بنا۔

    قانون کے پہلے سال کا طالب علم حسین چوہدری بدھ کے روز اس وقت حملے کا نشانہ بنا جب 2 چاقو برداروں نے گھر کے سامنے ان کی والدہ سے سامان چھیننے کی کوشش کی۔

    حسین آگے بڑھے تو ان کی گردن پر وار کیا گیا جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کی والدہ اور بھائی بھی زخمی ہوئے تھے۔

    حسین چوہدری کی بہن عافیہ احمد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ میرا چھوٹا بھائی اسی طرح سے دنیا چھوڑ گیا جیسے دنیا میں آیا تھا، وہ میری ماں کی بانہوں کے جھولے میں تھا، وہ اپنے خاندان کو بچاتے ہوئے دنیا سے گیا۔

    پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ حسین کو 2 افراد نے قتل کیا، ایک عینی شاہد نے لندن کے ایک اخبار کو بتایا کہ ان میں سے ایک نے اس کی گردن پر وار کیا، جس پر ان کی والدہ چلانے لگیں۔

    حسین چوہدری کے نام پر کئی فنڈریزنگ مہمات بھی شروع ہو چکی ہیں جن میں اسلامک سوسائٹی اور لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقین اسٹڈیز بھی شامل ہیں جہاں وہ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

    اسلامک سوسائٹی کے صدر محمد عارف نے ایک اخبار کو بتایا کہ اب تک 32 ہزار پاؤنڈز جمع ہو چکے ہیں جو توقع سے بڑھ کر ہیں، اسی طرح ایک اور فنڈریزنگ مہم میں فیملی کے لیے ابھی تک 11 ہزار پاؤنڈز جمع ہو چکے ہیں جنہیں مسجد کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    لندن میٹرو پولیٹن پولیس کے ڈیٹیکٹو چیف انسپکٹر پیری بنٹن نے علاقے کے مکینوں اور حملے کے وقت وہاں سے گزرنے والے افراد سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈیش بورڈ اور دروازوں کے کیمروں کی ویڈیوز چیک کریں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ایک نوجوان نے افسوسناک واقعے میں اپنی جان کھو دی ہے اور میں اس مشکل وقت میں ان کی فیملی کے غم میں شریک ہوں۔

  • برطانیہ: خاتون کی جسمانی باقیات برآمد، پولیس افسر حراست میں

    برطانیہ: خاتون کی جسمانی باقیات برآمد، پولیس افسر حراست میں

    لندن: برطانوی علاقے کینٹ سے انسانی جسم کی باقیات دریافت ہوئی ہیں، برطانوی پولیس کے مطابق مذکورہ خاتون کئی روز سے لاپتہ تھیں اور ان کی گمشدگی کے الزام میں ایک پولیس افسر زیر تفتیش ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ کینٹ کے علاقے سے ملنے والی جسمانی باقیات سارہ ایورڈ کی ہیں جو چند روز قبل اپنے گھر جاتے ہوئے لاپتہ ہوئی تھیں۔

    پولیس کے مطابق 33 سالہ سارہ ایورڈ 3 مارچ کو جنوبی لندن سے اپنے گھر برکسٹن جاتے ہوئے لاپتہ ہوئی تھیں، پولیس نے سارہ کی تلاش کے لیے 750 گھر وں میں جا کر معلومات حاصل کیں جبکہ 120 افراد نے فون کر کے معلومات دیں۔

    سارہ کی گمشدگی کے الزام میں ایک پولیس افسر کو گرفتار کیا گیا تھا، پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار پولیس افسر 3 مارچ کی شب اپنی ڈیوٹی پر نہیں تھا۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق ملزم کی معاونت کے الزام میں ایک عورت کو بھی حراست میں لیا گیا تھا جو اب ضمانت پر ہے۔

    اب کینٹ کے علاقے میں ایک خاتون کی جسمانی باقیات دریافت ہوئی ہیں اور فرانزک کے بعد تصدیق ہوئی کہ یہ سارہ ہی ہیں۔

    پولیس، گرفتار پولیس افسر کے علاوہ دیگر خطوط پر بھی معاملے کی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے۔

  • مفت کھانا مانگنے پر سوشل میڈیا اسٹار کی بے عزتی

    مفت کھانا مانگنے پر سوشل میڈیا اسٹار کی بے عزتی

    ایک برطانوی سوشل میڈیا انفلوئنسر کو اس وقت سخت خفت کا سامنا کرنا پڑا جب مفت کھانے کے بدلے ریستوران کی تشہیر کی پیشکش کرنے پر ریستوران انتظامیہ نے انہیں پولیس اسٹیشن کا راستہ دکھا دیا۔

    لندن سے تعلق رکھنے والے انفلوئنسر کرسٹوفر جیسی اپنے انسٹاگرام پر 50 ہزار فالوورز رکھتے ہیں اور اکثر و بیشتر مختلف کمپنیوں کی تشہیر کرتے رہتے ہیں۔

    کچھ دن قبل انہوں نے فور لیگز نامی ایک ریستوران کو اپنے مطلوبہ کھانے کے بارے میں بتاتے ہوئے پیشکش کی کہ وہ ان کی تشہیر اپنے سوشل میڈیا پر کریں گے۔

    ریستوران کی جانب سے ان کی پیشکش پر رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے ایک ایڈریس بتایا گیا کہ وہ وہاں سے اپنے پارسل پک کرلیں۔

    کرسٹوفر جب مطلوبہ مقام پر پہنچے تو ریستوران کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ سامنے موجود پولیس اسٹیشن میں چلے جائیں اور خود کو ہاسپٹیلٹی انڈسٹری کے خلاف جرم کا مرتکب قرار دے کر رپورٹ کریں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Four Legs (@fourlegs_ldn)

    بعد ازاں اس ریستوران نے کرسٹوفر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے اسکرین شاٹس بھی اپنے سوشل میڈیا پر شیئر کردیے۔

    انفلوئنسر نے ریستوران انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں یہ پیشکش پسند نہیں آئی تھی تو وہ اس سے انکار کرسکتے تھے۔

  • انٹارکٹیکا میں برطانوی بیس کے قریب لندن جتنا بڑا برف کا ٹکڑا ٹوٹ کر علیحدہ (ویڈیو)

    انٹارکٹیکا میں برطانوی بیس کے قریب لندن جتنا بڑا برف کا ٹکڑا ٹوٹ کر علیحدہ (ویڈیو)

    لندن: انٹارکٹیکا میں برطانوی بیس کے قریب تقریباً لندن کے سائز جتنا بڑا آئس برگ ٹوٹ کر علیحدہ ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق انٹارکٹیکا میں برطانوی ریسرچ سینٹر کے قریب نیویارک شہر کے رقبے سے بھی بڑا برفانی تودہ ٹوٹ کر علیحدہ ہو گیا۔

    اس آئس برگ کی جسامت اکثر یورپی شہروں سے بڑی ہے، آئس برگ کی پیمائش 1270 مربع کلو میٹر (490 اسکوائر میل) ہے، اور یہ 150 میٹر موٹی کالوِنگ نامی ’برنٹ آئس شیلف‘ سے ٹوٹا ہے۔

    سائنس دانوں نے 10 سال قبل اس مقام پر دراڑ پڑنے سے متعلق آگاہ کیا تھا، اور انھیں توقع تھی کہ یہاں سے برف کا ایک بہت بڑا ٹکڑا ٹوٹ کر الگ ہوگا۔

    برطانوی انٹارکٹک سروے کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈَیم جَین فرانسس کا کہنا تھا کہ بَیس میں ہماری ٹیمیں برسوں سے برنٹ آئس شیلف سے برف کے ٹکڑے کے ٹوٹنے کے لیے تیار تھی، اور گزشتہ برس نومبر میں یہاں ایک بڑے حصہ ٹوٹنا شروع ہو گیا تھا۔

    بَیس کے آپریشنز ڈائریکٹر سائمن گیرڈ کا کہنا تھا کہ حفاظتی وجوہ پر تحقیقاتی اسٹیشن 4 سال قبل ہی اندرون ملک منتقل کر دیا گیا تھا، اور یہ ایک دانش مندانہ فیصلہ تھا۔

    واضح رہے کہ انٹارکٹیکا سے آئس برگز قدرتی طور پر ٹوٹ کر سمندر میں گرتے رہتے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ عمل تیز ہو گیا ہے، تاہم سائنس دانوں نے کہا ہے کہ اس کیس میں وجہ موسمیاتی تبدیلیاں نہیں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹکڑا آئندہ ہفتوں یا مہینوں میں حرکت کر کے اپنے مقام سے دور ہو سکتا ہے، یا آس پاس سرکتا ہوا یہیں پر برنٹ آئس شیلف کے قریب ہی رہے گا۔