Tag: لندن

  • براڈ شیٹ نے ہمیں 20 ہزار پاؤنڈز ادا کیے: حسین نواز کا دعویٰ

    براڈ شیٹ نے ہمیں 20 ہزار پاؤنڈز ادا کیے: حسین نواز کا دعویٰ

    لندن: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے صاحب زادے حسین نواز نے دعویٰ کیا ہے کہ براڈ شیٹ نے ہمیں 20 ہزار پاؤنڈز ادا کیے، جو پچاس لاکھ روپے کے قریب بنتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق لندن میں مقیم حسین نواز نے ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا ہے کہ براڈ شیٹ کمپنی نے انھیں بیس ہزار پاؤنڈز ادا کیے تھے، اور ہم اس سے زیادہ پیسے بھی طلب کر سکتے تھے، لیکن وکلا کے کہنے پر سیٹلمنٹ کی پیش کش قبول کی۔

    حسین نواز نے کہا براڈ شیٹ نے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کا فیصلہ درخواست سے منسلک کیا تھا، اور یہ کہا تھا کہ اس فیصلے کی رو سے یہ حکومت پاکستان کی پراپرٹیز ہیں، لہٰذا انھیں ضبط کر کے انھیں فروخت کر کے حکومت پاکستان کی طرف سے انھیں ادائیگی کی جائے، درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایون فیلڈ فلیٹس حکومت پاکستان کی پراپرٹی ہے۔

    براڈ شیٹ کمیشن کے سربراہ نے جیمرز والی گاڑی حکومت کو واپس کر دی

    انھوں نے کہا کہ اس سے قبل کہ براڈ شیٹ کو عدالت میں حقائق کا سامنا کرنا پڑتا، براڈ شیٹ عدالت جانے سے 15 دن پہلے بھاگ گئی۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں شریف فیملی کا دعویٰ ہے کہ درخواست کے ساتھ براڈ شیٹ نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کا معاملہ اٹیچ کیا تھا، تاہم یہ درخواست عدالت سے واپس لینے پر لیگل فیس کے اخراجات کی مد میں براڈ شیٹ کو رقم ادا کرنی پڑی۔

    حسین نواز نے کہا کہ حکومت پاکستان اس سارے معاملے میں فریق تھی، تو شہزاد اکبر نے کیوں نہیں کہا کہ یہ جائیدادیں ہماری ہو چکی ہیں، انھیں ضبط کر کے ادائیگی انھی سے کی جائے، لیکن سچ یہ ہے کہ شہزاد اکبر کے پاس صرف الزامات ہیں اور کچھ نہیں۔

    انھوں نے کہا جب یہ بات کسی آزاد جوڈیشل فورم پر جاتی ہے تو وہاں پر ان کی قلعی کھل جاتی ہے، شہزاد اکبر کی بات کا جواب نہیں دیتا، ڈھونگ رچاتے رہتے ہیں، اور چیزوں کو توڑ مروڑ کر بیان کرتے ہیں، براڈ شیٹ یا حکومت سچی ہوتی تو فلیٹ ضبط کرا لیتی۔

    حسین نواز نے یہ بھی کہا کہ ڈیوڈ روز، براڈ شیٹ کا معاملہ الجھ کرگندا ہو چکا، انڈیپنڈنٹ کمیشن کے ذریعے تحقیقات ہونی چاہیئں، واٹس ایپ جے آئی ٹی جیسی تحقیقات نہیں۔

  • رضا کاروں کو کرونا وائرس سے متاثر کرنے کی تحقیق کی منظوری

    رضا کاروں کو کرونا وائرس سے متاثر کرنے کی تحقیق کی منظوری

    لندن: برطانوی حکومت نے ایک ایسی تحقیق کی منظوری دے دی ہے جس میں رضا کاروں کو کرونا وائرس سے متاثر کیا جائے گا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق برطانوی حکومت کی جانب سے ہیومن چیلنج ٹرائلز شروع کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے جس کے بعد ماہرین کو 18 سے 30 سال کے 90 صحت مند رضا کاروں کی تلاش ہے۔

    ٹرائلز کے دوران 90 صحت مند رضا کاروں کو کرونا وائرس کی معمولی مقدار سے دانستہ متاثر کیا جائے گا جس کے بعد وائرس کے خلاف جسم کے مدافعتی ردعمل اور وائرس کے اپنے مدافعتی نظام کا جائزہ لیا جائے گا۔

    برطانوی حکومت اس کے لیے 33.6 ملین پاؤنڈز خرچ کر رہی ہے۔ منصوبے میں حکومت کی ویکسین ٹاسک فورس، امپیریل کالج لندن، رائل فری لندن این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ اور کمپنی ایچ ویوو شراکت دار ہیں۔

    ہیومن چیلنج ٹرائلز میں عام طور پر رضا کاروں کو کسی وائرس سے متاثر کر کے ویکسین کی آزمائش کی جاتی ہے اور پھر کئی ماہ تک ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔

    کچھ ماہرین کی جانب سے رضا کاروں کو کرونا وائرس سے متاثر کرنے کے حوالے سے اعتراضات کیے گئے ہیں اور اس کے اخلاقی پہلو پر سوال اٹھایا گیا ہے کیونکہ ابھی کرونا وائرس کا کوئی حتمی علاج نہیں ہے۔

    البتہ کافی افراد اس کے حق میں بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ نوجوان اور صحت مند افراد میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے خطرات ویسے بھی کم ہوتے ہیں اور اس طرح کے ٹرائلز کے فوائد معاشرے کے لیے بہت ضروری ہیں جس سے اس کے علاج میں مدد ملے گی۔

  • وبا کے دوران بے تحاشہ منافع کمانے والی کمپنیوں پر نئے ٹیکس لگانے کا فیصلہ

    وبا کے دوران بے تحاشہ منافع کمانے والی کمپنیوں پر نئے ٹیکس لگانے کا فیصلہ

    لندن: کرونا وائرس کی وبا کے دوران دنیا بھر کی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا تاہم کچھ کمپنیاں ایسی بھی رہیں جنہوں نے اس وقت کے دوران بے تحاشہ منافع کمایا، برطانیہ میں ایسی کمپنیوں پر نیا ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ نے ایسی ٹیکنیکل اور ریٹیلر کمپنیوں پر مزید ٹیکس لگانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جنہوں نے کرونا وائرس کے دنوں میں ضرورت سے زیادہ منافع حاصل کیا ہے۔

    برطانوی حکومت نے کمپنیوں کو آن لائن سیلز ٹیکس کے معاملے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے طلب کیا ہے، اس کے علاوہ ضرورت سے زیادہ منافع پر بھی ٹیکس لگانے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا جارہا ہے۔

    بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر خزانہ رشی سونک 3 مارچ کو ہونے والے بجٹ اعلان میں یہ ٹیکس لاگو کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، اس سے قبل ٹیکس پروگرام میں توسیع اور کاروباری اداروں کے لیے تعاون پر توجہ دی جائے گی۔

    اس کے بجائے سال کی دوسری ششماہی میں اس ٹیکس کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی منظر عام پر آ سکتی ہے۔

    وزیر خزانہ نے وعدہ کیا ہے کہ کرونا وبا کے خاتمے کے بعد معیشت کی بحالی شروع ہونے سے مالی استحکام کی پائیدار بنیاد پر رکھیں گے۔

  • برطانیہ: کرونا ویکسینیشن کا ہولو کاسٹ سے موزانہ کرنے پر 2 افراد گرفتار

    برطانیہ: کرونا ویکسینیشن کا ہولو کاسٹ سے موزانہ کرنے پر 2 افراد گرفتار

    لندن: برطانیہ میں کرونا وائرس ویکسی نیشن کا ہولو کاسٹ سے موزانہ کرنے پر 2 افراد کو گرفتار کرلیا گیا، برطانیہ میں بڑے پیمانے پر کرونا ویکسی نیشن جاری ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق برطانوی پولیس نے جمعرات کو کرونا ویکسین کا موازنہ ہولو کاسٹ سے کر کے پمفلٹ تقسیم کرنے پر 2 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

    برطانوی پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں افراد کے بارے میں شبہ ہے کہ انہوں نے ایسے پمفلٹ تقسیم کیے جن میں کرونا ویکسین کا موازنہ ہولوکاسٹ سے کیا گیا تھا۔

    پکڑے جانے والے افراد میں سے ایک کی عمر 37 جبکہ دوسرے کی عمر 73 سال ہے، دونوں پر جنوری کے آخر میں جنوبی لندن میں کتابچے تقسیم کرنے کا الزام ہے۔

    برطانیہ ان دنوں ویکسی نیشن کا ایک بڑا پروگرام شروع کرنے جا رہا ہے جبکہ 1 کروڑ سے زائد افراد کو ویکسین کی ابتدائی خوراک دے دی گئی ہے۔

    دوسری جانب دارالحکومت میں ویکسین کے مخالفین کی جانب سے احتجاج بھی ہوتے رہے ہیں جبکہ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ ویکیسن یا کرونا وائرس کے حوالے سے سازشی نظریات پر یقین کرتے ہیں۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ان دونوں افراد کو پہلے بھی گرفتار کیا گیا تھا۔

    73 سالہ شخص کو بے بنیاد اطلاعات پھیلا کر لوگوں میں پریشانی پیدا کرنے کے شبہ میں پکڑا گیا جبکہ 37 سالہ شخص کو پبلک آرڈر آفنس کے تحت گرفتار کیا گیا تھا تاہم مارچ کے آغاز میں ان دونوں کو پولیس کی ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔

  • لندن میں 300 افراد کی پارٹی، پولیس کا چھاپا

    لندن میں 300 افراد کی پارٹی، پولیس کا چھاپا

    لندن: برطانیہ جہاں ایک طرف کرونا وائرس کے نئے اسٹرین کے تیز رفتار پھیلاؤ سے نبرد آزما ہے وہاں دوسری طرف غیر ذمہ داری کے ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں جو پوری دنیا میں خبروں کی زینت بن رہے ہیں۔

    ایئرپورٹ واقعے کے بعد اب پولیس نے ایک پارٹی پر چھاپا مارا جس میں 300 افراد اکھٹے ہو گئے تھے، پولیس کے چھاپے پر شائقین پارٹی سے بھاگ نکلے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے غیر قانونی پارٹی پر 15 ہزار پاؤنڈز کا جرمانہ کر دیا ہے، پولیس نے رات ڈیڑھ بجے پارٹی پر چھاپا مارا تھا، جس پر منتظمین نے اندر سے تالے لگا دیے تھے۔

    پولیس نے چھاپے کے دوران 78جرمانے کیے، تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی، میٹرو پولیٹن پولیس کا کہنا ہے کہ اس چھاپے کے دوران ڈاگ یونٹ اور ہیلی کاپٹر بھی چھاپا ٹیم میں شامل تھے۔

    چیف سپرنٹنڈنٹ رائے سمتھ نے پارٹی پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ پارٹی صحت عامہ قوانین کی خلاف ورزی ہے، غیر قانونی پارٹی سے افسران کو اپنی صحت خطرے میں ڈالنا پڑی۔

    واضح رہے کہ ہیتھرو ایئر پورٹ پر بھی مسافروں کا بے پناہ رش دکھائی دے رہا ہے اور سوشل ڈسٹینسنگ کی خلاف ورزی جاری ہے، افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایئر پورٹ اور ہوم آفس اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ہیتھرو ایئر پورٹ پر رش کی تصاویر بھی وائرل ہو چکی ہیں۔

    ایئرپورٹ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہ بارڈر فورس کی ذمہ داری ہے کہ سماجی فاصلہ یقینی بنائے، اگر ہم ایک جہاز کے مسافروں کی فاصلے کے ساتھ قطار لگائیں تو یہ ایک کلو میٹر لمبی ہوگی۔

    اس صورت حال پر اپوزیشن رہنماؤں نے حکومت پر تنقید کی ہے کہ حکومت کے پاس کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے، ایئر پورٹ کے مناظر تشویش ناک ہے، صورت حال کو کنٹرول کیا جائے۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے تشویشناک انکشاف

    کرونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے تشویشناک انکشاف

    لندن: برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے، برطانیہ میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پاکستان سمیت کئی ممالک میں پہنچ چکی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم پرانی اقسام کے مقابلے میں بہت زیادہ تیزی سے پھیلنے والی ہے۔

    امپریئل کالج لندن کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اس نئی قسم بی 117 کے نتیجے میں کووڈ کیسز ری پروڈکشن یا آر نمبر 0.4 سے 0.7 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

    عام طور پر کسی وبائی مرض کے بنیادی ری پروڈکشن نمبر کے لیے ایک اعشاری نظام آر او ویلیو کی مدد لی جاتی ہے، یعنی اس ویلیو سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی مرض کا شکار فرد مزید کتنے لوگوں کو بیمار کرسکتا ہے۔

    خسرے کا آر او نمبر 12 سے 18 ہے جبکہ 2002 اور 2003 میں سارس کی وبا کو آر او 3 نمبر دیا گیا تھا، اس وقت برطانیہ میں کووڈ کا آر نمبر 1.1 سے 1.3 کے درمیان ہے اور کیسز میں کمی لانے کے لیے اسے ایک سے کم کرنا ضروری ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ کہ وائرس کی دونوں اقسام کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے، یہ بہت بڑا فرق ہے کہ وائرس کی یہ قسم کتنی آسانی سے پھیل سکتی ہے، یہ وبا کے آغاز کے بعد سے وائرس میں آنے والی سب سے سنجیدہ تبدیلی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اس نئی قسم کے پھیلاؤ کی شرح میں نومبر میں برطانیہ کے لاک ڈاؤن کے دوران 3 گنا اضافہ ہوا، حالانکہ سابقہ ورژن کے کیسز میں ایک تہائی کمی آئی۔

    برطانیہ میں حالیہ دنوں کے دوران کرونا وائرس کے کیسز کی شرح میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ابتدائی تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس 20 سال سے کم عمر نوجوانوں خصوصاً اسکول جانے کی عمر کے بچوں میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے۔

    مگر اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ نئی قسم ہر عمر کے گروپس میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔

    محققین کے مطابق ابتدائی ڈیٹا کی ایک ممکنہ وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ نومبر کے لاک ڈاؤن کے دوران تعلیمی ادارے کھلے ہوئے تھے جبکہ بالغ آبادی کی سرگرمیوں پر پابندیاں تھیں، مگر اب ہم نے ہر عمر کے افراد میں اس نئی قسم کے کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھا ہے۔

    تحقیق میں جو چونکا دینے والی بات دریافت کی گئی وہ یہ تھی کہ نومبر میں برطانیہ میں لاک ڈاؤن لوگوں کے لیے ضرور سخت تھا مگر اس سے وائرس کی نئی قسم کا پھیلاؤ رک نہیں سکا۔

    حالانکہ ان پابندیوں کے نتیجے میں وائرس کی سابقہ اقسام کے کیسز کی شرح میں ایک تہائی کمی آئی، مگر نئی قسم کے کیسز کی شرح 3 گنا بڑھ گئی۔

    ابھی اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ جاننا ممکن ہوسکے کہ یہ نئی قسم اتنی تیزی سے کیسے پھیل رہی ہے مگر ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت دستیاب کووڈ ویکسینز اس کے خلاف بھی مؤثر ثابت ہوں گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی اس نئی قسم میں 14 میوٹیشنز موجود ہیں، جن میں سے 7 اسپائیک پروٹین میں ہوئیں۔

    یہ وہی پروٹین ہے جو وائرس کو انسانی خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے اور اتنی بڑی تعداد میں تبدیلیاں دنیا بھر میں گردش کرنے والے اس وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کافی نمایاں ہیں۔

  • کووڈ 19 کی معمولی علامات والے مریضوں کے حوالے سے حوصلہ افزا تحقیق

    کووڈ 19 کی معمولی علامات والے مریضوں کے حوالے سے حوصلہ افزا تحقیق

    لندن: برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد میں صحت یاب ہوجانے کے بعد اس کے خلاف مزاحمت کئی ماہ تک برقرار رہتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانوی ماہرین نے ایسے شواہد دریافت کیے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 سے معمولی حد تک بیمار ہونے والے یا بغیر علامات والے مریضوں میں اس بیماری کے خلاف مدافعت کئی ماہ تک برقرار رہتی ہے۔

    امپرئیل کالج لندن، لندن کالج یونیورسٹی اور کوئین میری یونیورسٹی کی اس تحقیق میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 136 ہیلتھ ورکرز کا جائزہ لیا گیا جن مین کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی اور بیماری کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    طبی جریدے جرنل سائنس امیونولوجی میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 89 فیصد افراد میں بیماری کے 16 سے 18 ہفتوں بعد بھی کرونا وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں۔

    اس تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بیشتر مریضوں میں ایسے ٹی سیلز بھی موجود تھے جو وائرس کے متعدد مختلف حصوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ کچھ افراد میں ٹی سیلز امیونٹی تو تھی مگر اینٹی باڈیز موجود نہیں تھیں، جبکہ کچھ میں اس کا الٹ دیکھنے میں آیا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ طبی ورکرز میں کووڈ 19 کے حوالے سے تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بیماری کے 4 ماہ بعد بھی 90 فیصد افراد میں وائرس کو بلاک کرنے والی اینٹی باڈیز ہوتی ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ حوصلہ افزا پہلو یہ تھا کہ 66 فیصد افراد میں تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی شرح کافی زیادہ تھی اور اس کے ساتھ ٹی سیلز بھی تھے جو وائرس کے مختلف حصوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

    محققین نے اسے امید افزا پہلو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی کرونا وائرس سے متاثر ہوتا ہے، تو قوی امکان ہے کہ اس کے اندر اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز جیسے تحفظ فراہم کرنے والے عناصر بھی بن جائیں گے، جو ممکنہ طور پر اگلی بار وائرس کا سامنا ہونے پر تحفظ فراہم کریں گے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگرچہ تحفظ فراہم کرنے والا اینٹی باڈی ردعمل عموماً ٹی سیلز کے ردعمل پر حرکت میں آتا ہے، مگر 50 فیصد سے زائد مریضوں میں مختلف اینٹی باڈی اور ٹی سیل ردعمل دیکھنے میں آیا۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کہ ٹی سیلز کا ردعمل ان افراد میں زیادہ بہتر تھا جن میں کووڈ 19 کی علامات سامنے آئی ہوں، جبکہ بغیر علامات والے مریضوں میں کمزور ٹی سیل مدافعت دیکھنے میں آئی، مگر ان میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈی کی سطح علامات والے مریضوں جیسی ہی تھی۔

  • موٹاپے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    موٹاپے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    لندن: برطانوی ماہرین کی حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کسی شخص میں موٹاپے کا شکار رہنے کا دورانیہ امراض قلب اور میٹابولک امراض میں مبتلا ہونے کے خطرے میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

    برطانیہ کی لوفبرو یونیورسٹی کی حال ہی میں کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ موٹاپا کسی فرد کی صحت کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے مگر ہر ایک میں مختلف جان لیوا امراض کا خطرہ یکساں نہیں ہوتا۔

    تحقیق میں محققین نے اس حوالے سے جائزہ لیا کہ موٹاپے کی مدت یعنی کچھ ماہ، سال یا دہائیوں سے صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اس مقصد کے لیے انہوں نے 10 سے 40 سال کی عمر کے 20 ہزار سے زائد افراد پر ہونے والی 3 تحقیقی رپورٹس کا ڈیٹا اکٹھا کیا جس میں جسمانی وزن، بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور بلڈ شوگر میں اضافے کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ کسی فرد میں موٹاپے کا طویل عرصہ اس میں جان لیوا امراض کے خطرے کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی وزن کو کنٹرول رکھنا کتنا ضروری ہے، تاہم اگر کوئی موٹاپے کا شکار ہوجاتا ہے تو جسمانی وزن میں جلد کمی لا کر جان لیوا امراض کا خطرہ کم کرنا ممکن ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اگر کسی فرد کا جسمانی وزن بڑھ جاتا ہے اور وہ اسے وہاں پر ہی روک لیتا ہے تو بھی اس میں ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، یعنی صحت مند جسمانی وزن کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔

    محققین کے مطابق خطرے کی گھنٹی اس وقت بجتی ہے جب جسمانی وزن میں اضافہ مسلسل ہوتا چلا جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وزن بڑھنے سے روکنے کے لیے پروٹین سے بھرپور ناشتا، میٹھے مشروبات اور فروٹ جوسز سے گریز، جسمانی وزن میں کمی لانے میں مددگار غذاﺅں کا استعمال، چائے یا کافی کا استعمال کم کرنا اور اچھی نیند لینا معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

  • بریگزٹ مذاکرات کا نتیجہ: مذاکرات کار مشل بارنیئر کا ٹویٹر پر اہم پیغام

    بریگزٹ مذاکرات کا نتیجہ: مذاکرات کار مشل بارنیئر کا ٹویٹر پر اہم پیغام

    لندن: برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین بریگزٹ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان تجارت اور مستقبل کے تعلقات کو شکل دینے والے معاہدے بریگزٹ سے متعلق مذاکرات میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔

    اس سلسلے میں آج برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور یورپی یونین کمیشن کے سربراہ اُرسلا وون دی لیین موجودہ پیش رفت پر اپنے جائزے پیش کریں گے۔

    بریگزٹ کے مذاکرات کار مشل بارنیئر نے ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں لندن میں ایک ہفتے سے جاری وسیع سطح کے مذاکرات کے حوالے سے بتایا کہ فریقین میں منصفانہ تقسیم، گورننس اور فشریز کے معاملات میں نمایاں اختلاف کے سبب مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔

    مشل بارنیئر نے کہا کہ بریگزٹ امور کے مذاکرات کار ڈیو فراسٹ کے ساتھ وہ فی الوقت مذاکرات کے سلسلے کو روکنے پر رضامند ہو گئے ہیں، مذاکرات سے متعلق اب حکام بالا کو بریفنگ دی جائے گی۔

    یاد رہے کہ یورپی یونین سے 31 جنوری 2020 سے علیحدگی اختیار کرنے والے برطانیہ اور یونین کے مابین تجارتی اور دو طرفہ تعلقات پر وسیع پیمانے پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔

    ان مذاکرات کے دوران اگر کسی نتیجے تک نہ پہنچا گیا تو فریقین تجارتی تعلقات کو 31 دسمبر کے بعد عالمی تجارتی تنظیم کے اصولوں کے مطابق سر انجام دیں گے۔

  • نواز شریف کی والدہ لندن میں انتقال کر گئیں

    نواز شریف کی والدہ لندن میں انتقال کر گئیں

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی والدہ بیگم شمیم اختر 93 برس کی عمر میں لندن میں انتقال کر گئیں، وزیر اعظم عمران خان نے نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل عطا تارڑ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں بتایا کہ میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کی والدہ محترمہ وفات پا گئی ہیں۔

    سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کی والدہ شمیم اختر 93 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملیں، انتقال کے وقت وہ بیٹے نواز شریف کے ساتھ لندن میں تھیں۔

    پشاور میں موجود مریم نواز کو جلسہ گاہ میں دادی کے انتقال کی خبر دے دی گئی ہے۔

    بیگم شمیم اختر 9 مارچ سنہ 1927 کو لاہور میں پیدا ہوئی تھیں، ان کی شادی میاں شریف سے ہوئی جن سے ان کے 3 بیٹے عباس شریف، نواز شریف اور شہباز شریف تھے۔

    وزیر اعظم عمران خان نے نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ کےا نتقال پر تعزیت کا اظہار کیا اور کہا کہ اللہ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔

    تاحال ان کی نماز جنازہ اور تدفین سے متعلق کوئی تفصیلات موصول نہیں ہوئیں۔