Tag: لندن

  • وزیراعظم شہباز شریف مصر کا دورہ مکمل کر کے لندن روانہ

    وزیراعظم شہباز شریف مصر کا دورہ مکمل کر کے لندن روانہ

    وزیراعظم شہباز شریف مصر کا دورہ مکمل کر کے نجی دورے پر لندن روانہ ہو گئے۔

    ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف لندن میں نوازشریف سے ملاقات کیلئے پہنچ رہے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف لندن میں 2 روز قیام کریں گے، جہاں نوازشریف سے ملاقات میں اہم فیصلے کیے جائیں گے۔

    واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کوپ 27 کانفرنس میں شرکت کیلئے مصر کے شہر شرم الشیخ پہنچے تھے۔

  • آکسفورڈ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں لال بیگوں کی بھرمار، پریشان طلبا کی دھمکی

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں لال بیگوں کی بھرمار، پریشان طلبا کی دھمکی

    لندن: دنیا کی معروف ترین درسگاہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک عمارت میں لال بیگوں کی بھرمار ہوگئی جس کے بعد طلبا نے کرایہ نہ دینے کی دھمکی دے دی۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایکسیٹر کالج میں طلبا کے لیے مختص رہائشی حصے میں کاکروچز کی بھرمار ہوگئی، طلبا کے کمرے اور کچن میں لال بیگوں نے دھاوا بول دیا۔

    طلبا کا کہنا ہے کہ چند روز قبل ہاسٹل کی پہلی اور دوسری منزل کے کچن کو مرمت کا عذر بتا کر بند کردیا گیا جس کے بعد اب تیسری منزل کا کچن تقریباً 90 افراد استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

    بعد ازاں تیسری منزل پر مقیم ایک طالب علم نے اپنے کمرے میں چند لال بیگ دیکھے تو اس نے انتظامیہ کو مطلع کیا، جس کے بعد انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ پہلی اور دوسری منزل کو کاکروچز سے چھٹکارا پانے کے لیے ہی بند کیا گیا ہے اور وہاں کھڑکیوں، روشن دانوں اور دیگر مقامات کی صفائی ستھرائی کا کام کیا جارہا ہے۔

    لیکن اس کے بعد تیسری منزل پر بھی لال بیگ پھیلتے چلے گئے اور جلد ہی کچھ رہائشی کمروں اور کچن میں ان کی بھرمار ہوگئی۔

    صورتحال خراب ہوجانے کے بعد طلبا نے دھمکی دی ہے کہ اگر فوری طور پر ان کاکروچز سے چھٹکارا نہ پایا گیا تو وہ بیٹلز (آکسفورڈ میں رہائش اور کھانے کے لیے ادا کی جانے والی رقم کی اصطلاح) دینا بند کردیں گے۔

    ہاسٹل انتظامیہ نے طلبا سے تحمل سے کام لینے کی گزارش کی اور اس دوران انہیں تاکید کہ وہ اپنے استعمال شدہ ڈسٹ بنز کو بار بار خالی کریں، کچرا جمع نہ ہونے دیں اور رات کو کھانے کی اشیا کھلی نہ چھوڑیں۔

    انتظامیہ نے طلبا کو یونیورسٹی کے ایک کیفے میں کھانے پر 60 فیصد رعایت کی بھی پیشکش کی تاکہ انہیں کم سے کم کچن استعمال کرنا پڑے۔

    تاہم طلبا نے ہاسٹل انتظامیہ کے اقدامات کو ناکافی جان کر براہ راست کالج کی انتظامیہ سے رجوع کرلیا اور انہیں بھی بتا دیا کہ صورتحال یونہی رہی تو وہ ہاسٹل کا کرایہ دینا بند کردیں گے۔

    طلبا نے کہا کہ یونیورسٹی کے مرکزی کیفے میں کھانے پر 60 فیصد رعایت ناکافی ہے اور یہ بھی مطالبہ کیا کہ ان کے کرایوں میں کمی کی جائے۔

    طلبا کی شکایت پر کالج انتظامیہ کو بھی معاملے میں کودنا پڑا، انتظامیہ کی جانب سے کچھ طلبا کو ہاسٹل سے کسی اور جگہ منتقل کرنے کی پیشکش کی گئی۔

    بعد ازاں کالج انتظامیہ نے ایک بیان بھی جاری کیا جس میں کہا گیا کہ وہ کالج کی ایک (رہائشی) عمارت میں کاکروچز کی موجودگی کے لیے معذرت خواہ ہیں، اس سلسلے میں متعلقہ عملے کو طلب کیا گیا ہے جو فیومیگیشن سمیت دیگر اقدامات کر رہے ہیں۔

  • برطانیہ میں پرانے نوٹ تبدیل کروانے کی ہدایت

    برطانیہ میں پرانے نوٹ تبدیل کروانے کی ہدایت

    لندن: برطانیہ میں 20 اور 50 پاؤنڈز کے نوٹ تبدیل کروانے کی آخری تاریخ 30 ستمبر ہے، برطانیہ میں جلد نئے بادشاہ کی تصویر والے نوٹ بھی جاری کردیے جائیں گے۔

    برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ کرنسی نوٹ تبدیل کروانے کی آخری تاریخ تک عوام پرانے کاغذی نوٹ استعمال کرلیں یا بینکوں اور ڈاک خانوں میں جمع کروا دیں۔

    بینک آف انگلینڈ نے گزشتہ سال نئے پولیمر ورژن کے نوٹ جاری کیے تھے، زیر گردش 20 اور 50 پاؤنڈ کے نوٹوں کی اکثریت نئے نوٹوں سے بدل دی گئی ہے۔

    بینک آف انگلینڈ کے مطابق جعلسازی سے بچنے اور زیادہ پائیداری کے لیے نئے پولیمر نوٹ جاری کیے گئے تھے، اس سے قبل 5 اور 10 کے پولیمر کرنسی نوٹ بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔

  • موسلادھار بارش نے لندن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا

    موسلادھار بارش نے لندن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا

    لندن: موسلادھار بارش نے لندن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، شمالی لندن کی سڑکیں پانی میں ڈوب گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق گرج چمک اور طوفانی سیلاب نے جنوبی انگلینڈ کے کچھ حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس سے وسطی لندن کے بڑے علاقوں میں سیلاب آ گیا ہے۔

    میٹ آفس کی جانب سے کینٹ کے لیے پیلے رنگ کے طوفان کی وارننگ جاری ہے، جس کا مطلب ہے مزید سیلاب، سفر میں خلل اور بجلی کی کٹوتی کا خطرہ۔

    لندن کا وکٹوریہ اسٹیشن بھی جزوی طور پر زیر آب آ گیا ہے، طوفانی بارش کے سیلابی ریلے میں بہنے کی وجہ سے کئی ٹیوب اسٹیشنز کو بند کر دیا گیا ہے۔

    برطانیہ بھر میں طوفانی بارشوں سے بجلی اور ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے، ماحولیاتی ایجنسی نے پورے لندن میں سیلاب کے 17 الرٹ جاری کر دیے ہیں، کچھ علاقوں میں 100 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی۔

    محکمہ موسمیات کی جانب سے جنوب مشرقی انگلینڈ اور ساؤتھ ویلز میں طوفان کی یلو اور امبر دونوں وارننگ جاری کی تھیں۔

    محکمہ موسمیات کے پیشن گوئی کرنے والے ڈین سوری نے کہا: "جون کے بعد سے کچھ جنوبی مقامات پر کوئی قابل ذکر بارش نہیں ہوئی، ان علاقوں کی مٹی سورج کی وجہ سے پک چکی ہے اور سورج نے اسے سخت تقریباً ناقابل تسخیر سطحوں میں تبدیل کر دیا ہے۔

    ڈین سوری کے مطابق ان علاقوں میں ہونے والی کوئی بھی بارش مٹی کو بھگونے کے قابل نہیں ہوگی، صرف یہ ہوگا کہ اس سے مٹی اور دیگر سخت سطحیں دھل جائیں گی، جس سے کچھ علاقوں میں سیلابی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

  • خاتون نے دھوپ میں انڈہ تل لیا، ویڈیو وائرل

    خاتون نے دھوپ میں انڈہ تل لیا، ویڈیو وائرل

    لندن: برطانیہ کے 40 ڈگری درجہ حرارت پر ایک خاتون نے تیز دھوپ میں انڈہ فرائی کرلیا، ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہی ہے۔

    برطانیہ اور یورپی ممالک کے شہریوں کو آج کل شدید گرمی کا سامنا ہے، اس گرم موسم میں ایک برطانوی خاتون نے 40 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں اپنے باغ میں ایک فرائی پین پر انڈہ تلنے کی کوشش کی ہے۔

    جارجیا لیوی نے خالی فرائی پین کو ایک پتھر کے اوپر سورج کی روشنی میں ایک گھنٹے کے لیے چھوڑ دیا تھا، ایک گھنٹے بعد فرائی پین میں گھی ڈال کر انڈہ تلا گیا تو کافی حد تک کامیابی حاصل ہوئی۔

    اس کی ویڈیو جارجیا لیوی نے انسٹا گرام پر بھی شیئر کی۔

    لائبریری آف کانگریس کے مطابق انڈے کو پکانے کے لیے 70 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے، مگر شدید گرمی میں بھی ایسی کوشش کی جاسکتی ہے البتہ فرش پر زیادہ کامیابی کا امکان نہیں ہوتا۔

  • نوجوانوں نے دریائے ٹیمز میں چھلانگیں لگا کر نہر لاہور کی یاد تازہ کر دی

    نوجوانوں نے دریائے ٹیمز میں چھلانگیں لگا کر نہر لاہور کی یاد تازہ کر دی

    لندن: گرمی سے بے حال لندن میں نوجوانوں نے دریائے ٹیمز میں چھلانگیں لگا کر نہر لاہور کی یاد تازہ کر دی، اس سلسلے میں ٹک ٹاک کی ایک دل چسپ ویڈیو بھی سامنے آ گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یورپ میں شدید گرمی کی لہر سے ٹھنڈے سمجھے جانے والے ممالک میں قیامت خیز مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، پرتگال اور اسپین میں 1700 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

    برطانیہ میں دو روز کی شدید گرمی کے بعد اب موسم خوش گوار ہوگیا ہے، گزشتہ روز درجہ حرارت 26 ڈگری تھا، جب کہ منگل کے روز پارہ 40 ڈگری سے اوپر جانے کی وجہ سے ریلوے نظام بھی بحال نہیں ہو سکا تھا۔

    لندن میں منچلے دریاے ٹیمز میں نہا کر گرمی سے مقابلہ کرتے رہے، کئی منچلوں نے قلابازیاں لگا کر کرتب بھی دکھائے اور مشہور لندن برج سے دریا میں چھلانگیں لگائیں، جس سے لاہور کینال میں نوجوانوں کے نہانے کی یاد تازہ ہو گئی۔

    یورپ میں شدید گرمی کی لہر، پرتگال اور اسپین میں 1700 سے زائد افراد ہلاک

    تاہم، رچمنڈ کونسل کے رہنما گیرتھ رابرٹس نے گزشتہ روز ہیمپٹن میں ٹیمز میں ایک نوجوان لڑکے کے ڈوب کر مرنے کے الم ناک واقعے کے بعد دریا میں چھلانگ لگانے کے خطرات کے بارے میں انتباہ بھی جاری کیا۔

  • برطانیہ میں ہیٹ ویو الرٹ جاری

    برطانیہ میں ہیٹ ویو الرٹ جاری

    لندن: برطانیہ میں ہیٹ ویو الرٹ جاری کردیا گیا، ملک کے بیشتر حصوں میں گرم موسم کا نیا ریکارڈ بن سکتا ہے، محکمہ موسمیات کے مطابق برطانیہ میں سخت گرمی کی لہر اگلے ہفتے کے اوائل تک جاری رہے گی۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق برطانیہ میں رواں ہفتے شدید گرمی کی لہر اور ہیٹ ویو کی وارننگ جاری کی گئی ہے جس کے دوران انگلینڈ اور ویلز کے بڑے حصوں میں درجہ حرارت 30 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

    پیر کو محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ جنوبی اور وسطیٰ انگلینڈ اور ویلز میں رواں ہفتے کے بیشتر حصے میں موسم شدید گرم رہے گا جبکہ منگل کو جنوب مشرقی انگلینڈ میں درجہ حرارت 33 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جانے کا امکان ہے۔

    تاہم انگلینڈ کا موسم اسپین اور پرتگال کے درجہ حرارت اور ہیٹ ویو سے پھر بھی کئی ڈگری کم ہوگا جہاں پارہ 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر جاتا رہا ہے۔

    محکمہ موسمیات کی ڈپٹی چیف میٹرولوجسٹ ربیکا شیرون نے بتایا کہ برطانیہ میں سخت گرمی کی لہر اگلے ہفتے کے اوائل تک جاری رہے گی۔

    انہوں نے کہا کہ آئندہ اتوار اور پیر تک جنوب مشرقی انگلینڈ میں درجہ حرارت 35 ڈگری سے زیادہ رہنے کا امکان ہے تاہم اس حوالے سے مکمل یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

    ان کا کہنا تھا کہ دوسری جگہوں پر، انگلینڈ اور ویلز میں درجہ حرارت کافی حد تک 32 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو سکتا ہے، اور مزید شمال میں اوسطاً سے زیادہ 20 سینٹی گریڈ تک ہو سکتا ہے۔

    25 جولائی 2019 کو مشرقی انگلینڈ کے کیمبرج بوٹینک گارڈن میں برطانیہ کا سب سے زیادہ درجہ حرارت 38.7 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا، شیرون کا کہنا ہے کہ ماہرین موسمیات اس ریکارڈ کے ٹوٹنے کو خارج از امکان نہیں سمجھتے تاہم فی الوقت یہ صرف ایک امکان ہی ہے۔

    شدید گرمی کی وارننگ کو امبر یا گہرے زرد رنگ کے طور پر درجہ بندی میں رکھا گیا ہے جو حد درجہ 3 میں سے دوسرے نمبر پر ہے، اس شدت کی گرمی روزمرہ کی زندگی اور لوگوں کی صحت پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

    میٹ آفس نیشنل کلائمٹ انفارمیشن سینٹر کے سربراہ مارک میکارتھی نے بتایا کہ یورپ بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید حدت میں اضافہ برطانیہ میں گرم موسم کے نئے ریکارڈ کے امکانات کو بڑھا رہا ہے۔

  • لندن: ریلوے نظام درہم برہم، 30 سال بعد بڑی ہڑتال

    لندن: ریلوے نظام درہم برہم، 30 سال بعد بڑی ہڑتال

    لندن: برطانوی دارالحکومت میں 30 سال کے عرصے میں ریلوے کی سب سے بڑی ہڑتال شروع ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق لندن میں آج منگل سے ریل اور ٹیوب ہڑتالوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے، جس سے دونوں نیٹ ورکس مفلوج ہو سکتے ہیں۔

    تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے اور برطرفیوں پر ریلوے ورکرز نے آج سے ہڑتال کا اعلان کیا ہے، یہ ہڑتالیں آج، جمعرات 23 جون اور ہفتے 25 جون کو ہوں گی، اور 13 ٹرینوں کے 40 ہزار سے زائد ورکرز ہڑتالوں میں شریک ہوں گے۔

    ہڑتال کے دنوں میں معمول کی 20 ہزار سروسز کی بجائے صرف ساڑے چار ہزار سروسز دستیاب ہوں گی، برطانوی میڈیا کے مطابق 6 روز کے لیے لاکھوں افراد کو سفر میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔

    ٹرینیں بند ہونے سے سڑکوں پر ٹریفک بھی جام ہو سکتا ہے، دوسری طرف یونین اور ریلوے حکام کے درمیان ہڑتال ختم کرانے کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔

    یونین آر ایم ٹی کے جنرل سکریٹری مک لنچ کا کہنا تھا کہ ریل نیٹ ورکس میں ہزاروں ملازمتیں ختم کی جا رہی ہیں اور کارکنوں کو مہنگائی کی شرح سے کم تنخواہیں مل رہی ہیں۔ انھوں نے کہا ان مسائل کی وجہ یہ ہے کہ ٹوری حکومت کی طرف سے ٹرانسپورٹ سسٹمز سے 4 بلین پاؤنڈ فنڈز، نیشنل ریل سے 2 بلین پاؤنڈ اور ٹرانسپورٹ فار لندن سے 2 ارب پاؤنڈ فنڈز کی کٹوتی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

  • کھدائی کے دوران قدیم تاریخی مقام دریافت

    کھدائی کے دوران قدیم تاریخی مقام دریافت

    برطانیہ میں تعمیراتی کام کے دوران آثار قدیمہ ظاہر ہوگئے جس نے لوگوں کو حیران کردیا۔

    برطانوی جزائر آؤٹر ہیبرائڈز میں آبی انجینیئرز کی جانب سے نئے پائپوں کی تنصیب کے لیے کی گئی کھدائی میں قرون وسطیٰ کی ایک نایاب جگہ دریافت ہوئی ہے۔

    یہ جگہ، جس کے متعلق خیال کیا جارہا ہے کہ 500 سال قبل بھیڑوں کو پالنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی، لوئس کے جزیرے میں گریس کے قریب اسکاٹش ملازمین نے دریافت کی۔

    جگہ سے گڑھے، پتھر کی چیزیں اور کچھ 100 ٹکڑے برتنوں کے ساتھ کوڈ اور ہیڈوک نامی مچھلیوں اور دیگر غیر شناخت شدہ جانوروں کی بڑی ہڈیاں دریافت ہوئیں۔

    اس جگہ کی تاریخ کا تعین چودہویں اور سولہویں صدی کے درمیان کیا جارہا ہے۔

    یہ عرصہ اس دور پر محیط ہے جب ان جزائر پر حکمرانی کرنے والے لارڈز کی سلطنت اختتام کو پہنچی اور جان مکڈونلڈ دوم کی آبائی زمینیں اور خطابات اسکاٹ لینڈ کے جیمز چہارم کی جانب سے 1493 میں ضبط کر لیے گئے۔

    ماہر آثار قدیمہ الیسٹیئر ریس کا کہنا تھا کہ دریافتوں نے جزیرے پر گزارے گئے دور کے متعلق سمجھنے میں مدد دی۔

    ریس نے کہا کہ ہمارے پاس مغربی جزائر کے متعلق قرون وسطی کے بہت قلیل شواہد تھے، ایک وجہ عمارتوں کی ساخت ہوسکتی ہے اور ممکنہ طور پر ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بعد کے بلیک ہاؤس بستیوں نے ابتدائی شواہد کو مبہم کردیا ہو۔

  • پاکستان کے فیصلے کب تک لندن میں ہوتے رہیں گے؟

    پاکستان کے فیصلے کب تک لندن میں ہوتے رہیں گے؟

    لندن برطانیہ کا خوبصورت شہر ہے لیکن پاکستانی جب لندن کا نام سنتے ہیں تو ان کی نظروں کے سامنے پاکستان کی سیاست اور سیاستدان آجاتے ہیں۔ یہ شہر جو ہر دور میں کسی نہ کسی طور پاکستان کی سیاست میں اہم رہا ہے آج پھر اہمیت اختیار کرگیا ہے کیونکہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سمیت ان دنوں کابینہ اراکین کی بڑی تعداد کے ہمراہ لندن میں موجود ہیں اور وہاں زیرعلاج عدالت سے سزا یافتہ سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملک چلانے کیلیے صلاح ومشورے کررہے ہیں۔

    بلاگ تحریر کیے جانے تک کی اطلاعات کے مطابق اب تک کی اس اعلیٰ سطحی مشاورت میں الیکشن کے حوالے سے ن لیگ میں واضح اختلاف رائے کے باوجود اسمبلی مدت پورے ہونے کے بعد ہی الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں عمران خان سمیت کسی بھی "دوسرے” دباؤ کو قبول نہ کرنے کا موقف اپنایا گیا ہے۔ اسی اجلاس میں ملک کی معاشی حالات کی بہتری کیلیے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کرکے اچھی ڈیل لانے کی ہدایت کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو مفتاح اسماعیل کی رہنمائی کرنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے تاہم انہیں اس حوالے سے براہ راست میڈیا پر آکر بات کرنے سے گریز کرنے کی بھی ہدایت دی گئی ہے۔

    پاکستان کی سیاست اور لندن

    یہ تو تھا موجودہ حکومت کی لندن یاترا کا تازہ ترین احوال لیکن آئیے آج ہم پاکستان اور لندن کے اس گہرے سیاسی رشتے پر نظر دوڑاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کبھی لندن پلان تو کبھی میثاق جمہوریت، پاکستانی سیاستدانوں کی جلاوطنی ہو یا تفریح و نجی دوروں کے نام پر جوق درجوق لندن یاترا، جس سے پاکستانی قوم کو لگنے لگا ہے کہ ہماری سیاسی رگوں میں لندن خون کی طرح رچ بس گیا ہے، لندن سے پاکستان میں اتنے پلان بنے تو کیا کبھی پاکستان کیلیے کوئی راحت کا سامان بھی ہوا ہے۔

    پاکستان اور بھارت (متحدہ ہندوستان) چونکہ طویل عرصے تک برطانیہ کی کالونی رہے ہیں اس لیے بھی لندن کی ایک اہمیت دونوں ممالک کیلیے مسلمہ رہی ہے۔ نئی نسل کیلیے شاید یہ انکشاف ہو لیکن تاریخ کے طالبعلم جانتے ہیں کہ لندن کی اہمیت قیام پاکستان سے قبل بھی مانی جاتی رہی ہے اور قیام پاکستان کے حوالے سے گول میز کانفرنس لندن میں ہی ہوئی، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک برطانیہ یہاں راج کرتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی لندن کی پاکستانی سیاست میں اہمیت اور حیثیت قائم رہی اور مختلف ادوار میں پاکستان کے صف اول کے سیاسی رہنما لندن کا رخ کرتے رہے، کئی پلان یہاں بنے، کچھ پر عملدرآمد ہوا تو کچھ ہوا میں تحلیل ہوگئے تاہم جب جب سیاستدان لندن میں جمع ہوتے ہیں تو اس کے اثرات پاکستان میں محسوس کیے جاتے رہے ہیں اور لندن میں ہونے والے فیصلے پاکستان کی سیاست میں بعض اوقات بڑی تبدیلی کا موجب ثابت ہوئے ہیں تاہم اب تک ہونے والے لندن پلان پاکستان میں حکومتوں کے جوڑ توڑ کے حوالے سے تو اہم رہے لیکن پاکستان میں استحکام اور ترقی وخوشحالی کے حوالے سے لندن کا کردار کبھی بھی مثالی نہیں رہا ہے۔

    پاکستان کی سیاست اور لندن

    بینظیر بھٹو، نواز شریف اور بانی متحدہ سمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے برسوں جلاوطنی کی زندگی وہاں گزاری تو اکثر ہمارے سیاسی رہنما بظاہر علاج، بچوں کی تعلیم اور کاربوبار کے بہانے لندن کا رخ کرتے رہے ہیں لیکن وہاں پہنچ کر انہیں پاکستان میں جمہوریت اور ملک کے مستقبل کی فکر لاحق ہوجاتی ہے تاہم ان کا مطمع نظر ہمیشہ اپنا اقتدار ہی ہوتا ہے اس وقت بھی پاکستان میں کئی صف اول کے رہنماؤں کے گھر ہیں کئی تسلیم کرتے تو کئی انکار ہیں لیکن سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ لندن پاکستان کی سیاست کیلیے اہم حیثت رکھتا ہے۔

    اس حوالے سے تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت لندن بیٹھ کر اہم فیصلے اس لیے بھی کرنا پسند کرتی آئی ہے کہ ایک تو وہاں کھل کر بات کرنا اور اسے پوشیدہ رکھنا آسان ہوتا ہے دوسرا وہاں کسی "دباؤ” کا بظاہر خطرہ نہیں ہوتا۔

    پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے اور حالیہ دور کے تناظر میں دیکھا جائے تو لندن کو سیاسی حوالے سے اصل مقبولیت بانی متحدہ اور بینظیر بھٹو کی ازخود جلا وطنی اور نواز شریف کے مشرف حکومت سے معاہدے کے تحت پہلے سعودی عرب اور پھر لندن قیام سے ملی۔

    1992 میں اس وقت مہاجر قومی موومنٹ کیخلاف فوجی آپریشن کے آغاز سے قبل بانی ایم کیو ایم نے علاج کی غرض سے لندن روانگی اختیار کی جو بعد ازاں ازخود جلاوطنی میں تبدیل ہوئی اور پھر گزشتہ دہائی میں انہیں وہاں کی شہریت بھی مل گئی بانی متحدہ نے 1992 سے اگست 2017 تک لندن سے کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کی شہری سیاست کو چلایا اور اپنے انداز میں چلایا اور ایسے چلایا کہ کم وبیش 25 سال تک ایم کیو ایم کے تمام سیاسی فیصلے وہیں سے ہوتے رہے، کس حکومت میں رہنا ہے، کس سے جانا ہے، کب احتجاج کرنا ہے، کب عوامی ردعمل دینا ہے یہ سب لندن میں ہی طے ہوتا ہے جس پر عملدرآمد یہاں موجود ایم کیو ایم کی قیادت کراتی تھی خیر اب تو یہ ماضی ہوچکا اگر 22 اگست 2017 کا کراچی پریس کلب والا واقعہ نہ ہوتا تو شاید یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہوتا۔

    بینظیر بھٹو جو 90 کی دہائی کے آخر میں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں حکومت کی سیاسی انتقامی کارروائی کا نشانہ بننے سے بچنے کیلیے لندن روانہ ہوئیں اور خودساختہ جلاوطنی اختیار کی انہوں نے بھی وہاں سے اپنی پارٹی کی قیادت سنبھالی اور تقریباً نو سال تک یہ جلاوطنی برقرار رہی۔

    نواز شریف بھی مشرف سے معاہدہ کرکے گئے تو سعودی عرب مگر وہاں سے پھر انہوں نے لندن کی اڑان بھری ساتھ میں انکے شہباز شریف اور دیگر اہلخانہ بھی تھے اور پھر وہاں سے انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ لندن کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ ماضی کے بدترین حریف اور ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے کے روادار گردانے جانے والے بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو ایک ساتھ بٹھادیا اور میثاق جمہوریت وجود میں آئی گوکہ یہ

    میثاق اس وقت تک ہی رہی جب تک یہ دونوں لندن میں رہے، بینظیر تو وطن واپسی کے بعد شہادت کے رتبے پر فائز ہوکر سیاست میں امر ہوگئیں تاہم بعد میں نواز شریف اور زرداری اس میثاق جمہوریت پر اس کی اصل روح کے مطابق قائم نہ رہ سکے اگر رہتے تو آج ملک اس صورتحال سے دوچار نہ ہوتا۔

    پاکستان کی سیاست میں لندن کا کردار نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کے بعد ختم نہیں ہوا بلکہ پھر اس شہر کا نام سازشوں کے تانے بانے بنے جانے والے شہر میں ہونے لگا مشرف مخالف تحریک کا آغاز تو میثاق جمہوریت کے ساتھ ہی ہوگیا تھا تاہم سابق صدر کی جانب سے چوہدری افتخار کو چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب سے ہٹائے جانے کے بیک جنبش قلم فیصلے کے بعد مشرف مخالف تحریک کو جلا اسی شہر نارسا نے بخشی۔

    پاکستان کی سیاست اور لندن

    مشرف حکومت کے خاتمے اور بینظیر کی شہادت کے فوری بعد ہمدردی کے ووٹ سے آنے والی زرداری حکومت کیخلاف میمو گیٹ اسکینڈل کی شروعات بھی لندن سے ہی ہوئی جس کے بعد شریف برادران کو ہمت ہوئی اور وہ کالے کوٹ پہن کر پاکستان کی عدالت عظمیٰ پہنچ گئے، بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی آج غیر ملکی سازش کا نعرہ بلند کرنے والے عمران خان نے جب نواز شریف کے حکومت کے خلاف 2014 میں طویل دھرنا دیا تو اس وقت بھی ایک اہم بیٹھک لندن میں ہی ہوئی جس میں عمران خان، چوہدری برادران، چوہدری سرور اور طاہرالقادری کی خفیہ ملاقاتیں میڈیا کی زینت بنیں۔

    عدالت سے نااہلی کی سزا پاکر تیسری بار قبل از وقت اقتدار سے محروم ہونے والے نواز شریف نے کچھ وقت تو پاکستان میں جیسے تیسے گزار لیا لیکن عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی اچانک ان کی بیماریاں بڑھتی چلی گئیں اور ایسی بڑھیں کہ اسپتالوں کے کارکردگی اور صلاحیت کے بارے میں اپنے دور اقتدار میں بلند بانگ دعوے کرنے والے نواز شریف کی طبی حالت اتنی دگرگوں ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے واضح کہہ دیا کہ ان کا علاج پاکستان نہیں بلکہ صرف لندن میں ہی ممکن ہے اس دوران نواز شریف کے پلیٹ لیٹس خطرناک حد تک گرگئے اور ملک سمیت حکمرانوں کو بھی میاں صاحب کی حالت پر تشویش ہونے لگی بالآخر وہ 50 روپے کے اسٹامپ پیپر پر اپنے بھائی اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی ضمانت پر اپنے پسندیدہ ملک لندن سدھار گئے اور یہاں سے وہیل چیئر پر جہاز میں سوار ہونے والے بڑے میاں صاحب کو لندن کی آب و ہوا ایسی راس آئی کہ انہوں نے چہل قدمی اور کیفے ٹیریا جاکر چائے اور کافی پینا شروع کردی اور اب حال ہی میں شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد مسلم لیگ ن کے اہم رہنما نے ایک ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ پاکستان کے اسپتال اور ڈاکٹر اتنی ترقی کرگئے ہیں کہ اب نواز شریف کا علاج ملک میں بھی ہوسکتا ہے اس لیے وہ جلد وطن واپس آرہے ہیں۔

    اقتدار کے حصول اور کسی کو گرانے اور کسی کو سر پر بٹھانے کیلیے بھاگ دوڑ کی اس ساری مشقت میں پاکستانی سیاستدانوں کے بارے میں اب عمومی رائے یہ بن چکی ہے کہ ہمارے سیاست دان پہلے اقتدار کے حصول اور پھر اپنی کرسی بچانے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ اگر قیام پاکستان سے لیکر آج تک کی تاریخ کو پڑھا جائے تو قائداعظم کے بعد ابھی تک کوئی ایسا سیاستدان نہیں گزرا جس پر کبھی مالی بدعنوانی یا اقربا پروری اور دھاندلی جیسے الزامات نہ لگے ہوں۔ جیسا کے بلاگ کے آغاز میں کہا گیا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت مشاورت کیلیے لندن میں موجود ہے جس میں حکومت چلانے اور عوام کی قسمت کے فیصلے کیے گئے ہیں لیکن وفاقی وزیر اطلاعات سمیت ن لیگی رہنماؤں کی اکثریت اسے نجی دورہ بھی کہہ رہی ہے تو قوم یہ جاننے میں حق بجانب ہے کہ کیا حکمران عوام کو انسان سمجھتے ہیں یا اپنی نجی ملکیت جن کی قسمت کا فیصلہ وہ اپنے نجی دوروں میں کرتے ہیں، ساتھ ہی یہ بھی سوال ان کے ذہنوں میں گردش کرتا ہے کہ آخر کب تک پاکستان کے مقدر کے فیصلے غیر ملکوں میں ہوتے رہیں گے۔ پاکستانی سیاست میں کھیل تماشوں کا یہ سلسلہ کب تک دراز رہتا ہے اس حوالے سے موجودہ حالات دیکھ کر تو مستقبل قریب میں اس حوالے سے کوئی امید نظر نہیں آرہی۔