Tag: لنک روڈ زیادتی کیس

  • لنک روڈ زیادتی کیس، پولیس کے سینئر افسروں کو ہر ضلع میں روزانہ 2 گھنٹے رات کو گشت کرنے کا حکم

    لنک روڈ زیادتی کیس، پولیس کے سینئر افسروں کو ہر ضلع میں روزانہ 2 گھنٹے رات کو گشت کرنے کا حکم

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے پولیس کے سینئر افسروں کو ہر ضلع میں روزانہ دو گھنٹے رات کو گشت کرنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ریمارکس میں کہا صوبے کے لوگوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے میاں آصف محمود اور ندیم سرور ایڈووکیٹ کی جانب سے لنک روڈ اجتماعی زیادتی معاملے کی جوڈیشل انکواٸری کرانے کی درخواستوں پر سماعت کی۔

    ڈی آئی جی لیگل جواد ڈوگر رپورٹ سمیت عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس لاہور نے پوچھا کہ بتائیں سینئر پولیس افسرا ن کس طریقے کے تحت گشت کریں گے ؟ رات 11 سے ایک بجے ہر ضلع میں ایک سینئر افسر روڈ پر ہونا چاہئے ، پولیس کا ڈسٹرکٹ پٹرولنگ سسٹم ناکارہ ہو چکا ہے۔

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا اگر وہ چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنی عدالت میں کام نہ کریں تو ماتحت عدلیہ سے کام نہیں لے سکتے، بتایا جاٸے آئی جی کتنے دن اور کس کس وقت گشت کرے گا۔

    پولیس افسر نے بتایا کہ نظام پہلے ہی موجود ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ واٸر لیس پر افسر بتاتا ہے کہ فلاں چوک میں ڈیوٹی پر ہے جب کہ وہ افسر گھر بیٹھاکھانا کھا رہا ہوتا ہے، صوبے کے لوگوں کی سیکیورٹی چاہیے ۔

    جسٹس محمد قاسم خان کا کہنا تھا کہ حکومت آئین کے تحت شہریوں کے تحفظ کی پابند ہے. وکلا اس نکتے پر معاونت کریں کہ اگر سرکاری پراپرٹی پر قتل ہو جاٸے تو کیا حکومت کو دیت کی رقم دینی چاہیے ۔

    عدالت نے فریقین کے وکلاء کو آئندہ سماعت پر بحث کیلئے طلب کرلئے اور کہا وکلا معاونت کریں سرکار کی جانب سے دیت دینے کاقانون کیاکہتاہے، بعد ازاں لنک روڈخاتون زیادتی کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔

  • لنک روڈ زیادتی کیس : ملزمان کا گینگ  4 افراد پر مشتمل ہونے کا انکشاف

    لنک روڈ زیادتی کیس : ملزمان کا گینگ 4 افراد پر مشتمل ہونے کا انکشاف

    لاہور : لنک روڈ زیادتی کیس : ملزمان کا گینگ 3نہیں 4 افراد پر مشتمل ہونے کا انکشاف سامنے آیا، گینگ میں عابد علی، شفقت،اقبال بالا مستری اورعلی شیر شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق لنک روڈ زیادتی کیس کےحوالے سے مزید انکشافات سامنے آئے ، پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کا گینگ 3نہیں 4افراد پر مشتمل ہے، گینگ عابد علی، شفقت،اقبال بالا مستری اورعلی شیر پر مشتمل تھا۔

    پولیس نے بتایا کہ ایک ماہ قبل ملزمان نے شیخوپورہ تھانہ فیکٹری ایریا میں ڈکیتی کی، عابد علی اورعلی شیرگرفتار ہو گئے جبکہ شفقت فرارہوگیا، علی شیر جیل میں ہے، ملزم عابد کورٹ سےضمانت پر رہا ہو ا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم اقبال عرف بالا مستری کرول گھاٹی کارہائشی تھا، ملزمان زیادہ تر ڈکیتی کی وارداتیں شیخوپورہ میں کرتے تھے، عابد اور علی شیر کی گرفتاری کے بعد ملزمان نے واداتیں لاہور میں کرنے کا منصوبہ بنایا۔

    پولیس نے مزید بتایا کہ اقبال بالا مستری نے گینگ کو کرول گھاٹی کے قریب ڈکیتی کا مشورہ دیا اور شفقت اور عابد کو کرول گھاٹی بلایا، شفقت اور عابد کرول گھاٹی پہنچ گئے مگر اقبال آنے سے انکار کیا، واردات کے دوران عابد نے پہلے خاتون سےزیادتی کی۔

    حکام کا کہنا تھا کہ عابد سیریل ریپسٹ ہے ،شریک جرم شفقت پہلے زیادتی کے کیس میں ملوث نہیں، وقوعےکی رات عابدنےشفقت کوبھی زیادتی کرنے کا کہا جس پر اس نے انکارکیا، عابد کی جان سے مارنے کی دھمکی پرشفقت نےبھی زیادتی کی۔

    پولیس نے کہا کہ ڈولفن فورس پہنچی توشفقت اورعابد جائے حادثہ کے قریب ہی موجود تھے، ملزمان ڈولفن فورس کی فائرنگ سن کرجنگل میں چھپ گئے، شفقت نے بتایا کہ وہ 2گھنٹےجنگل میں چھپے رہے، وقوعے کے بعد دونوں ملزم قلعہ ستار شاہ عابد کی رہائش گاہ پہنچے۔

    انکشافات میں بتایا گیا کہ غازی کوٹ میں عابد نے کچھ عرصہ قبل 2مرلہ کا گھر خریدرکھاتھا ، شفقت اگلی صبح دیپالپور چلا گیا جہاں وہ برف خانے میں کام کرتا تھا، آئندہ روزمیڈیا پر خبر دیکھنے کے بعد عابد گھر سے فرارہوگیا، شفقت نے بھی کام پر جانا چھوڑ دیا اور اپنی بہن کے گھرجابیٹھا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم شفقت کی بہن کواس کے جرم کا علم نہیں تھا، پولیس نے ملزم شفقت کو اس کی بہن کے گھر سے گرفتار کرلیا ہے۔

  • خاتون زیادتی کیس :ملزم شفقت کا  6روزہ جسمانی ریمانڈ  منظور ، مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل

    خاتون زیادتی کیس :ملزم شفقت کا 6روزہ جسمانی ریمانڈ منظور ، مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل

    لاہور : لنک روڈزیادتی کیس میں عدالت نے گرفتار ملزم شفقت کا 6روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا جبکہ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرلیں ہیں ، ملزم شفقت ڈکیتی اورزیادتی کے جرم کا اعتراف کر چکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لنک روڈزیادتی کیس میں ملزم شفقت کو چہرے پر کپڑا ڈھانپ کر سخت سیکیورٹی میں ایڈیشنل سیشن جج مصباح خان کی عدالت میں پیش کیا گیا ، ملزم شفقت کو اےٹی سی میں جج نہ ہونےپرسیشن کورٹ میں پیش کیا، پولیس نے عدالت سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

    جس پر عدالت نے ملزم شفقت کا6روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا جبکہ زیادتی کیس میں پولیس نے دہشت گردی کی دفعات شامل کرلیں۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ شفقت نےعابدعلی سے ملکرخاتون سےدوران ڈکیتی زیادتی کی تھی، شفقت کی باضابطہ گرفتاری ڈال دی گئی جبکہ شفقت ڈکیتی اورزیادتی کےجرم کااعتراف کرچکا ہے۔

    گذشتہ روز گوجرپورہ زیادتی کیس میں گرفتاری دینے والے ملزم وقارالحسن کی نشاندہی پرمرکزی ملزم عابد کےدوست شفقت کوگرفتارکرلیاگیا تھا ،ملزم شفقت نے خاتون سےزیادتی کا اعتراف کرتے ہوئے بیان میں کہا تھا کہ نوستمبر کووہ اورعابد ڈکیتی کی غرض سے کار کے پاس گئے۔۔پہلےخاتون سےلوٹ مار کی،  پھرزیادتی کا نشانہ بنایا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم شفقت نےعابد کےساتھ مل کرگیارہ وارداتیں کیں، شفقت اورعابد پنجاب کے مختلف گینگز کے ساتھ منسلک ہیں تاہم مرکزی ملزم عابد تاحال فرار ہے۔

    مزید پڑھیں : گجرپورہ زیادتی کیس، گرفتار ملزم شفقت کے سنسنی خیز انکشافات

    ذرائع کےمطابق ملزم شفقت کاخاندان پہلے بھی جرائم میں ملوث رہا جبکہ شفقت کا والد اللہ دتہ بھی پولیس حراست میں ہے، شفقت کی گرفتاری کے بعدکیس کےمرکزی ملزم عابد پربھی گھیراتنگ ہوگیا ، پولیس عابدکی تلاش میں جگہ جگہ چھاپےمار رہی ہے جبکہ والداوردوبھائیوں سےتفتیش کررہی ہے۔

    ذرائع کے مطابق گرفتارشفقت فورٹ عباس کےنواحی گائوں164سیون آرکارہائشی تھا ، شفقت کےوالداللہ دتہ،چچا اوراس کےبھائی جرائم پیشہ لوگ تھے جبکہ شفقت کاچھوٹابھائی بابربھی ڈکیتی کی سزامیں جیل کاٹ رہاہے، شفقت کےبھائی بابرپرتھانہ فقیروالی میں مقدمہ درج ہے اور شفقت کاوالداللہ دتہ بھی جرائم کی وجہ سے زیرحراست رہا ہے۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ گرفتارملزم شفقت کےبھائی بابرعلی پر 2019میں ڈکیتی کامقدمہ درج کیاگیاتھا، دوران واردات بابرعلی کی ٹانگ پرگولی لگی تھی فرار ہوگیا تھا ، بابرعلی کیساتھ مقدمےمیں عابدعلی شریک جرم تھا۔

    خیال رہے مقدمے میں نامزد ایک اورملزم اوروقارکے برادرنسبتی عباس نےبھی گرفتاری دی ، ملزم وقار کا کہنا تھا کہ عباس مرکزی ملزم عابد کا ساتھی ہے تاہم عباس نے صحت جرم سے انکارکردیا تھا۔

  • لنک روڈ زیادتی کیس : لاہور ہائی کورٹ کا  واقعہ میں ملوث ملزموں کی فوری گرفتاری کا حکم

    لنک روڈ زیادتی کیس : لاہور ہائی کورٹ کا واقعہ میں ملوث ملزموں کی فوری گرفتاری کا حکم

    لاہور : چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے لنک روڈ زیادتی واقعہ میں ملوث ملزموں کی فوری گرفتاری کا حکم دیتے ہوٸے قرار دیا کہ کوئی ماروائے عدالت کام نہ ہو جبکہ عدالت میں سی سی پی او نے اپنے بیان پر معذرت کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہورہائی کورٹ میں لنک روڈزیادتی کیس کی جوڈیشل انکوائری کی درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ محمدقاسم خان نے درخواست پر سماعت کی۔

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ قانون کےمطابق حکومت چاہےتوجوڈیشل انکوائری کراسکتی ہے، قانون پڑھ لیں،بتائیں کہ کس قانون کےتحت یہ حکم جاری کریں، صرف خبرچھپوانے کےلیے درخواستیں دائرنہ کی جائیں۔

    سرکاری وکیل نے بتایا کہ ایف آئی آردرج ہے،انویسٹی گیشن ہورہی ہے،جس پر چیف جسٹس محمدقاسم خان کا کہنا تھا کہ سی سی پی او نے وہ جملہ بولا جس پر پوری کابینہ سے معافی مانگنی چاہیے، یہ کیا انویسٹی گیشن ہے، سی سی پی او مظلوم خاتون کوغلط کہہ رہاہے، بہت سےوزرا نے عجیب وغریب بیانات دیے ، پتہ نہیں انویسٹی گیشن ہو رہی ہے یا ڈرامہ بازی ہے۔

    عدالت نے کہا کہ حکومتی مشیر اور وزیرقانون موقع پرجاکر تصویریں بنارہےہیں، کیاوزیرقانون انویسٹی گیشن افسرہےجووہاں تصویریں بنارہےہیں، یہ تصویریں بعدمیں سوشل میڈیا پرڈال کردکھاتےہیں بڑاکام کیا۔

    چیف جسٹس محمد قاسم خان نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی کا نوٹیفکیشن ، تازہ رپورٹ اور سی سی پی او لاہور کو بھی طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ سی سی پی او نے جوبیان دیا اس پر کیا کارروائی ہوئی؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ سی سی پی او کے بیان پرانکوائری ہورہی ہے؟ سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ پورے معاملے کی انکوائری ہو رہی ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ معاملے پر سخت ایکشن ہونا چاہیے تھا تاکہ قوم کی بیٹیوں کو حوصلہ ہوتا، آپ سب کو بلا لیں پھر دیکھتے ہیں معاملے کو۔

    سی سی پی اولاہور عمر شیخ عدالت میں پیش ہوئے ، چیف جسٹس نے کہا کمیٹی بنانے کا اختیار کس کے پاس ہے ،قانون میں واضح ہے، ہر چیز ایک قانون کے تحت ہوتی ہے ، کمیٹی کمیٹی نہ کھیلا جائے، تین دن میں رپورٹ آنی تھی کیا ہوا، آپ ابھی رپورٹ منگوائیں کہ اب تک کیاہوا ہے، سمجھ نہیں آتی ، معاشرہ رول آف لاکے بغیر نہیں چل سکتا ، کابینہ فیصلہ کرتی کہ پولیس کو اب کیسے کام کرنا ہے ، کمیٹی میں ماہرلوگ شامل کئے جاتےہیں تاکہ شفاف تفتیش ہوسکے۔

    سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ سی سی پی او سے وضاحت طلب کی گئی ہے ،نوٹس جاری کیا گیا کہ متاثرہ خاتون سےمتعلق ایسا بیان کیوں دیا ، جواب آنے کے بعد متعلقہ اتھارٹی کے پاس معاملہ بھیجا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا آئی جی پنجاب نے لکھا کارروائی ہوگی مگریہ نہیں بتایاکس قانون کےتحت، آئی جی نےنہیں بتایا سی سی پی او نےکون سےقانون کی خلاف ورزی کی، سرکاری وکیل نے بتایا سی سی پی او لاہور کا عمل مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔

    جسٹس محمدقاسم خان کا کہنا تھا کہ یہ ایسے شخص کی رپورٹ ہے جس نے پورے صوبےمیں قانون نافذکرناہے ، لگتا ہے گونگلووں سے مٹی جھاڑی گئی ہے۔

    سی سی پی اولاہور نے بیان میں کہا کہ 9 تاریخ کی رات کویہ واقعہ پیش آیا، جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا وہاں پولیس تعینات نہیں تھیں ، پچھلے کچھ سالوں سے زیادہ موٹر ویزبنی ہیں وسائل اورنفر ی کم ہے ، یہ ذمہ داری ان حکومتوں کی ہے انہوں نے فیصلہ کرناتھا ،رنگ روڈ تک ہمارادائرہ اختیار ہے اس کے بعد ہماری ذمہ داری نہیں تھی، اداروں میں کھچاؤاور ہم آہنگی نہ ہونے سےصورتحال بہتر نہیں ہوئی، مجھ پر الزام لگتا ہے کہ میں نے بیان دیا حالانکہ 15 پر کال کرنا چاہیےتھا۔

    چیف جسٹس نے کہا بچی توخوفزدہ تھی مگر موٹر وے انتظامیہ نے کیوں 15پرکال نہیں کی، سی سی پی او نے بتایا کہ یہ ہمارے نظام کی کمزوری ہے۔

    سرکاری وکیل نے واقعےپر قائم کمیٹی کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کمیٹی کمیٹی کھیلنا بند کیا جائے ۔

    چیف جسٹس نے سی سی پی او کو شوکاز دینے کے معاملے پر آٸی جی کی رپورٹ پر قرار دیا کہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے والی بات ہے، جس شخص کیخلاف کاروائی کی جارہی ہے اس کو بتایا تو جائے اس نے کیا خلاف ورزی کی ہے۔

    سی سی پی او نے تفتیش کی تفصیلات سے آگاہ کیااور اعتراف کیا کہ موٹروے پر سکیورٹی نہیں تھی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پولیس کوئی جواز پیش کر کے اپنی ذمہ داری سے مبرا نہیں ہے ۔

    سماعت کے دوران درخواست گزار نے سانحہ ساہیوال کا حوالہ دیا توچیف جسٹس نے کہا کہ سانحہ ساہیوال کی بات نہ کریں اس میں فیملی بے گناہ تھی لیکن اس میں کئی تلخ حقیقتیں تھیں ۔

    سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے کہا کہ دو تین دن میں سب کھل کر سامنے آجائے گا جبکہ سی سی پی او نے اپنے بیان پر معافی مانگی اور کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں ۔

    چیف جسٹس نے کہا رات کو سفر کرنے کے معاملے پر پولیس اپنی ذمہ داری سے مبرا نہیں ہو سکتی ، قانون کے مطابق سب کچھ ہونا چاہیے کوئی بات ماورائے قانون نہیں ہونی چاہیے، اب وہ وقت آگیا ہے کہ کسی کو معافی نہیں ملے گی سب کو پکڑیں گے۔

  • لنک روڈ زیادتی کیس : ایک اور ملزم نے گرفتاری دے دی

    لنک روڈ زیادتی کیس : ایک اور ملزم نے گرفتاری دے دی

    لاہور : لنک روڈ زیادتی کیس میں ایک اور ملزم نے گرفتاری دے دی تاہم جرم ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں بے گناہ ہوں،خود کو پولیس کے سامنے پیش کر رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گجرپورہ ریپ کیس سلجھنےکےبجائےمزیدالجھ گیا اور ملزمان تک پہنچانےکےدعوؤں میں سےہوانکلنے لگی، کیس کے ملزم وقارکے برادرنسبی عباس نے بھی شیخوپورہ میں پولیس کو گرفتاری دے دی۔

    عباس نے ویڈیو بیان میں جرم ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں بے گناہ ہوں،خودکوپولیس کےسامنےپیش کر رہا ہے،امیدہے پولیس ناجائزنہیں کرے گی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ عباس زیادتی کیس کےمرکزی ملزم عابد کیساتھ رابطےمیں تھا جبکہ وقار نے گزشتہ روز عباس کو زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد کا ساتھی قرار دیاتھا۔

    مزید پڑھیں : لنک روڈ زیادتی کیس: گرفتار وقار الحسن کا دوران حراست اہم انکشاف

    گذشتہ روز گجرپورہ میں خاتون سے اجتماعی زیادتی کیس میں اہم ملزم وقار الحسن نے از خود کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) دفتر میں پیش ہو کر گرفتاری دی تھی تاہم ملزم نے صحتِ جرم سے انکار کیا تھا۔

    بعد ازاں وقار الحسن کا ڈی این اے سیمپل لے لیا گیا تھا، جسے متاثرہ خاتون کے ڈی این اے سے میچ کیا جائے گا، وقار الحسن کے واقعے میں ملوث ہونے کا حتمی فیصلہ رپورٹ پر ہوگا۔

    وقارالحسن نے دوران حراست مزیداہم انکشافات کرنے ہوئے بتایا تھا کہ مرکزی ملزم عابدشفقت نامی شخص کیساتھ وارداتیں کرتارہا،شفقت بہاولنگر کا رہائشی اورعابدکادوست ہے۔

    دوسری جانب گوجرپورہ سےملحقہ گاؤں پرچھاپےکےدوران مرکزی ملزم عابد اپنی بیوی سمیت فرارہونےمیں کامیاب ہوگیاتھا۔۔پولیس نےگھرسے ملنےوالی عابدکی بیٹی کوتحویل میں لےکرچائلڈ پروٹیکشن بیورو کےحوالےکردیاہے، پولیس کےمطابق ملزم عابدکے والداوردو بھائیوں سے تفتیش جاری ہے۔

  • لنک روڈ زیادتی کیس:  گرفتار وقار الحسن کا  دوران حراست اہم انکشاف

    لنک روڈ زیادتی کیس: گرفتار وقار الحسن کا دوران حراست اہم انکشاف

    لاہور : لنک روڈ زیادتی کیس میں گرفتار وقار الحسن نے دوران حراست اہم انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ مرکزی ملزم عابد شفقت نامی شخص کیساتھ وارداتیں کرتا رہا۔

    تفصیلات کے مطابق گجر پورہ ریپ کیس کا مرکزی ملزم عابد تو پولیس کی گرفت میں نہ آسکے مگراس کیس میں ایک اورنام سامنےآگیا، گرفتاروقارالحسن نےانکشاف کیا کہ مرکزی ملزم عابد شفقت نامی شخص کیساتھ وارداتیں کرتارہاہے، شفقت بہاولنگر کا رہائشی اورعابد کا دوست ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ سی آئی اے نے ٹیمیں بہاولنگر ، لاہور ،شیخوپورہ روانہ کردیں، ڈی این اے رپور ٹ آنے کے بعد حتمی فیصلہ ہوگا،مرکزی ملزم عابد کے بہنوئی اور رشتے دار کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

    پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں وقار واقعےمیں ملوث نہیں پایاگیا تاہم گوجرپورہ سےملحقہ گاؤں پرچھاپےکےدوران مرکزی ملزم عابد اپنی بیوی سمیت فرارہونےمیں کامیاب ہوگیا تھا جبکہ پولیس نےگھرسے ملنے والی عابدکی بیٹی کوتحویل میں لے کر چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالےکردیا گیا ہے۔

    پولیس کےمطابق ملزم عابدکےوالد اور دو بھائیوں سےتفتیش جاری ہے، ذرائع کےمطابق ملزم وقارالحسن نےپولیس کوبتایاکہ جس سم کی بنیادپراسےملزم قراردیاگیاوہ اس کے سالے عباس کے استعمال میں تھی۔

    گذشتہ روز گجرپورہ میں خاتون سے اجتماعی زیادتی کیس میں اہم ملزم وقار الحسن نے از خود کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) دفتر میں پیش ہو کر گرفتاری دی تھی تاہم ملزم نے صحتِ جرم سے انکار کیا تھا۔

    بعد ازاں وقار الحسن کا ڈی این اے سیمپل لے لیا گیا تھا، جسے متاثرہ خاتون کے ڈی این اے سے میچ کیا جائے گا، وقار الحسن کے واقعے میں ملوث ہونے کا حتمی فیصلہ رپورٹ پر ہوگا۔

  • لنک روڈ  زیادتی  کیس :  جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے درخواست دائر

    لنک روڈ زیادتی کیس : جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے درخواست دائر

    لاہور : لنک روڈ زیادتی کیس پر جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے درخواست دائر کردی گئی ، جس میں کہا ایسے واقعات کو روکنے میں پولیس ڈیپارٹمنٹ ناکام ہوگیا ہے، وزیراعظم کو جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں لنک روڈ زیادتی کیس پر جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے درخواست دائر کردی گئی، درخواست ایڈووکیٹ میاں آصف محمود کی طرف سے دائر کی گئی۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ لاہور پولیس شہریوں کے جان, مال و عزت کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے، لاہور میں 2 ماہ میں 73 ریپ کیس سامنے آئے، جن میں چھوٹی عمر کے بچے بچیاں بھی شکار ہوئے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ پولیس اور استغاثہ کی غفلت کی وجہ سے مجرموں کو سزائیں نہ مل سکیں اور انکے حوصلے بلند ہوٸے ، ایسے واقعات کو روکنے میں پولیس ڈیپارٹمنٹ ناکام ہوگیا ہے. ایسے تمام واقعات پر وزیراعظم کو جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیا جاٸے جبکہ سی سی پی او لاہور کے خلاف غیر ذمہ دارانہ بیانات پر ایکشن لیا جائے۔

    یاد رہے ڈاکووں نے موٹروے پر بچوں کے سامنے ماں کو اجتماعی زیادتی کانشانہ بنایا، خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ لاہور سے گوجرانوالہ جا رہی تھی،  خاتون کے مطابق گجرپورہ کے قریب گاڑی میں پٹرول ختم ہوا تو گاڑی سڑک کنارے کھڑی کی،  اسی دوران ڈاکو آ گئے ، جو لوٹ مار کے بعد زبردستی جنگل میں لے گئے اور بچوں کے سامنے زیادتی کرتے رہے۔

    ملزمان نے جاتے ہوئے ایک لاکھ روپے نقدی، سونے کے زیورات اور اے ٹی ایم کارڈز بھی چھین لیے۔