Tag: لولی ووڈ

  • سپر اسٹارز جنھوں‌ نے پاکستانی فلموں‌ میں‌ ڈبل کردار نبھائے

    سپر اسٹارز جنھوں‌ نے پاکستانی فلموں‌ میں‌ ڈبل کردار نبھائے

    پاکستانی فلموں کے سپراسٹارز اور مشہور فن کاروں‌ نے ڈبل رول ہی نہیں‌‌ بیک وقت تین اور چار کردار بھی نبھائے اور فلم بینوں‌ نے انھیں‌ بے حد سراہا۔ ان میں اداکار اور اداکارائیں‌ دونو‌ں ہی شامل ہیں، لیکن یہاں‌ ہم صرف اُن چند اداکاروں کا تذکرہ کررہے ہیں‌ جو مختلف فلموں میں ڈبل رول ادا کر کے شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہے۔

    محمد علی کو پاکستانی فلم انڈسٹری کے سپر اسٹار کا درجہ حاصل ہے۔ اپنے وقت کے اس اداکار نے کئی فلموں‌ میں‌ یادگار کردار نبھائے اور خوب شہرت حاصل کی۔ محمد علی نے فلم’’راجا جانی، آنسو بن گئے موتی‘‘ اور ’’میرا گھر میری جنت‘‘ نامی جیسی کام یاب فلموں میں‌ ڈبل کردار نبھائے اور ہر روپ میں‌ انھوں‌ نے اپنی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کیا۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے ایک اور سپراسٹار ندیم ہیں جنھوں نے پانچ دہائیوں تک فلمی دنیا پر راج کیا۔ اداکار ندیم نے بھی متعدد فلموں میں ڈبل کردار ادا کیے اور سنیما بینوں‌ سے خوب داد وصول کی۔ فلم ’’ہم دونوں‘‘اور’’ سنگ دل‘‘ میں انھیں‌ ڈبل کردار نبھانے کا موقع ملا تو انھوں‌ نے بھی اسے غنیمت جانا اور کمال پرفارمنس دی۔ ’’جلتے سورج کے نیچے‘‘ وہ فلم تھی جس میں‌ ندیم نے دو نہیں‌ بہ یک وقت تین کردار نبھائے اور فلم بینوں کے دل جیتے۔

    چاکلیٹی ہیرو یعنی وحید مراد نے فلم ’’ہل اسٹیشن، مستانہ ماہی اور ناگ منی‘‘ میں ڈبل کردار نبھائے جنھیں‌ شائقین نے بے حد پسند کیا۔

    بات ہو بھولی بھالی صورت والے اداکار کمال کی تو جہاں فلم انڈسٹری ان کے فنِ اداکاری کی معترف ہے، وہیں پاکستانی سنیما انھیں‌ ایک ہدایت کار اور فلم ساز کے طور پر بھی یاد رکھے گا۔ سید کمال نے ’ہم دونوں‘‘ اور ’’گھر داماد‘‘ میں ڈبل کردار ادا کیے تھے۔

    مشہور اداکار شاہد نے دو یا تین نہیں‌ بیک وقت چار روپ دھارے اور شائقین کو اپنی اداکاری سے محظوظ کیا۔ اس فلم کا نام ’’بہت خُوب‘‘ تھا جس میں‌ انھیں چار مختلف کردار نبھانے کا موقع ملا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت میں مصطفیٰ قریشی اپنے مخصوص انداز اور مکالموں کی ادائیگی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں‌ نے ’’جیوا‘‘ اور ’’بارود کی چھاؤں‘‘ نامی فلموں‌ میں‌ ڈبل کردار نبھائے تھے۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے مشہور اداکار منور ظریف کو ’’نمک حرام‘‘ میں ڈبل کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔

  • مقبول ترین گیتوں‌ کے خالق تسلیم فاضلی کی برسی آج منائی جارہی ہے

    مقبول ترین گیتوں‌ کے خالق تسلیم فاضلی کی برسی آج منائی جارہی ہے

    تسلیم فاضلی کا شمار ان فلمی گیت نگاروں میں ہوتا ہے جو کم عمری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بنیاد پر انڈسٹری میں نام اور مقام حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ 17 اگست 1982 کو پاکستان کی فلمی صنعت کے اس خوب صورت نغمہ نگار کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ آج تسلیم فاضلی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    تسلیم فاضلی کا اصل نام اظہار انور تھا۔ وہ 1947 میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ادبی گھرانے سے تھا اور والد دعا ڈبائیوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔

    تسلیم فاضلی نے فلم عاشق کے نغمات لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر یہ سلسلہ اس دور کی کام یاب ترین فلموں تک پھیل گیا۔ ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، من کی جیت، شمع، دامن اور چنگاری، آئینہ اور دیگر متعدد فلموں کے لیے انھوں‌ نے خوب صورت شاعری کی۔ فلم شبانہ، آئینہ اور بندش کے گیتوں پر تسلیم فاضلی کو نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    تسلیم فاضلی نے اپنی شہرت کے عروج پر پاکستان کی معروف اداکارہ نشو سے شادی کی تھی۔

    تسلیم فاضلی نے سادہ اور عام فہم انداز میں‌ دل کو چھو لینے والے گیت تخلیق کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ فلم زینت کے لیے ان کی فلمی غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
    پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے

    تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا ایک گیت ’’دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا‘‘ آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے اور اسی گیت کی شہرت نے اس شاعر پر جیسے فلموں کی برسات کردی تھی، لاہور کی فلم انڈسٹری میں ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ تسلیم فاضلی صفِ اول کے نغمہ نگاروں میں شامل ہوگئے تھے۔ ان کے چند گیت کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

    یہ دنیا رہے نہ رہے میرے ہمدم
    ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
    ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا
    مجھے دل سے نہ بھلانا
    کسی مہرباں نے آکے مری زندگی سجا دی

    تسلیم فاضلی کے انتقال سے پاکستان فلم انڈسٹری ایک خوب صورت نغمہ نگار سے محروم ہوگئی مگر اپنے دل کش گیتوں‌ کی وجہ سے وہ آج بھی دلوں‌ میں‌ زندہ ہیں۔