لندن (6 اگست 2025): کرکٹ کی جنم بھومی لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں دوران میچ لومڑی گھس آئی خود بھی دوڑی اور انتظامیہ کی بھی دوڑیں لگوا دیں۔
لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں دی ہنڈرڈ ٹورنامنٹ میں لندن اسپرٹ اور اوول انونسیبلز کا میچ جاری تھا کہ شائقین کو گراؤنڈ میں ایک نیا تماشہ اس وقت دیکھنے کو ملا، جب ایک لومڑی بن بلائے مہمان کی طرح گراؤنڈ میں داخل ہو گئی۔
لومڑی کی آمد کے باعث میچ کچھ دیر کے لیے روکنا پڑا۔ اس دوران لومڑی پورے میدان میں خود بھی دوڑتی رہی اور ساتھ گراؤنڈ انتظامیہ کی بھی دوڑیں لگوا دیں۔
میچ دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم میں 26 ہزار تماشائی موجود تھے جو میچ کو بھول کر اس سارے منظر نامے سے بہت محظوظ ہوئے اور پہلی بار لارڈز میں لومڑی کو دیکھ کر خوب شور مچاتے اور تالیاں بجاتے رہے۔
کچھ دیر تک گراؤنڈ میں دوڑنے بھاگنے کے بعد لومڑی خود ہی باہر نکل گئی۔
سوشل میڈیا پر بھی یہ ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے اور صارفین لومڑی کو وائلڈ وزیٹرز قرار دے رہے ہیں۔
واشنگٹن: امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں ایک لومڑی میں ریبیز کی تصدیق ہوگئی، اس لومڑی نے رکن کانگریس سمیت 9 افراد کو کاٹا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق واشنگٹن میں کانگریس کی ایک رکن سمیت 9 افراد کو کاٹنے والی لومڑی میں باؤلے پن کے وائرس (ریبیز) کی تصدیق ہوئی ہے۔
محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ خلیوں کے نمونوں کے لیبارٹری تجزیے میں لومڑی میں ریبیز کی موجودگی ثابت ہوگئی ہے۔
امریکی محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ امریکا میں ہر سال انسانوں کو اس وائرس کے لاحق ہونے کے اوسطاً 1 سے 3 واقعات پیش آتے ہیں۔
ریبیز وائرس کے منتقل ہونے کی عام وجہ کسی جانور کا اس طرح کاٹنا ہے کہ انسانی جلد میں چھید ہو جائے۔
سنہ 2009 سے 2019 کے درمیان سامنے آںے والے 25 کیسز میں سے زیادہ تر میں لوگوں کو چمگادڑوں، کتوں اور ریکونز (خرسکوں) سے یہ وائرس منتقل ہوا، تاہم ان واقعات میں لومڑی کا ذکر کہیں نہیں تھا۔
واشگنٹن میں موجود ڈی سی ہیلتھ کا کہنا ہے کہ ہمارا شعبہ ان سب لوگوں سے رابطہ کر رہا ہے جنہیں لومڑی نے کاٹا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لومڑی میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق کے لیے نمونے لیے گئے ہیں لیکن اس سے پہلے لومڑی کو انتہائی احتیاط سے بے ہوش کیا گیا۔
اس لومڑی کے حملے کا نشانہ بننے والوں میں کانگریس کی رکن ایمی بیرا بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی تصویر بھی شیئر کی تھی جس میں لومڑی کے کاٹے کا نشان واضح تھا۔
لومڑی کے کاٹنے کے بعد ایمی بیرا کو ٹیٹنس اور باؤلے پن سے حفاظت کے لیے ویکسین لینا پڑی، سات دیگر افراد کے علاوہ اس لومڑی نے ایک صحافی کو بھی نشانہ بنایا اور ان کی ایڑھی کو پیچھے سے کاٹا۔
کراچی: شہرقائد کے علاقے لانڈھی میں انوکھا واقعہ پیش آیا، رہائشی مکان میں لومڑی کے گھسنے سے افرا تفری مچ گئی۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق لومڑی کے گھر میں گھسنے سے ہر طرف ہنگامہ مچ گیا، اہل خانہ جانور کو دیکھ کر خوف زدہ ہوگئے اور فوری طور پر قریبی فائر اسٹیشین سے رابطہ کیا۔
فائر بریگیڈ ٹیم نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے لومڑی کو قابو کرکے پنجرے میں بند کردیا۔ اس کارروائی کے دوران لومڑی کے حملے سے ایک فائر مین زخمی بھی ہوا جسے طبی امداد فراہم کی گئی۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں لومڑی کی کئی قسمیں پائی جاتی ہیں، مختلف نسل کے اس جانور کو تیز رفتار اور پھرتیلے جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے جو مختصر وقت میں طویل فاصلہ طے کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ بھارت میں جنگلی چیتوں اور ہاتھیوں کا رہائشی علاقوں پر حملہ کرنا اب معمول بن چکا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو نے صارفین میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی جس میں ایک ڈلیوری بوائے پارسل سے چھیڑ چھاڑ کرنے پر ایک معصوم بے زبان لومڑی کو بری طرح تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔
یہ پریشان کن ویڈیو لندن کی معلوم ہوتی ہے، ویڈیو میں دو افراد معلوم موجود ہوتے ہیں جن میں سے ایک ویڈیو بنا رہا ہے۔
دونوں افراد ایک کوریئر وین کے ساتھ موجود ہیں جس کا دروازہ کھلنے پر کچھ پارسلز گاڑی سے باہر آ گرے ہیں، اور اسی وقت ایک لومڑی کہیں سے ان پارسلز کے قریب آجاتی ہے۔
اپنے پارسلز کے قریب لومڑی کو دیکھ کر دونوں افراد پریشانی کا شکار ہیں اور اسے ڈرا کر بھگانے کی کوشش کرتے ہیں تاہم لومڑی اپنے ساتھ ایک پارسل لے جانے میں کامیاب رہتی ہے۔
لیکن چند قدم چل کر ہی پارسل اس کے منہ سے چھوٹ کر گر پڑتا ہے، اس دوران وین ڈرائیور اس کے سر پر پہنچ جاتا ہے اور ہاکی اسٹک سے اس پر زور دار وار کرتا ہے۔
ڈرائیور کی اس وحشیانہ حرکت سے معصوم بے زبان لومڑی بری طرح قلابازی کھاتی اور زخمی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوگئی جس کے بعد صارفین نے ویڈیو میں موجود افراد کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور شدید غصے کا اظہار کیا۔
خیال رہے کہ برطانیہ میں لومڑیوں کی آبادی میں اضافہ ہوچکا ہے اور ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ کے شہروں میں، جنگلوں سے زیادہ لومڑیاں موجود ہیں۔
اس کی وجہ خوراک کی عدم دستیابی ہے، خوراک کی تلاش میں لومڑیاں شہروں اور مصروف سڑکوں پر آجاتی ہیں اور مختلف حادثات کا شکار ہوجاتی ہیں۔
سرد علاقوں میں پائی جانے والی برفانی لومڑی کے ننھے منے بچے اپنے والدین کے زیر نگرانی اپنے بھٹ سے نکل آئے، ان بچوں کو اگر زندہ رہنا ہے تو آپس میں لڑ کر اپنی طاقت میں اضاف کرنا ہوگا۔
برفانی لومڑی آرکٹک، الاسکا، کینیڈا، گرین لینڈ، روس، اور اسکینڈے نیوین ممالک کے برفانی حصوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ سفید، بھورے اور سیاہ رنگ کی ہوتی ہیں۔
یہ لومڑی اپنے نرم و ملائم فر کی وجہ سے بے حد مشہور ہے اور اکثر اوقات ان لومڑیوں کو فر کے حصول کے لیے شکار کیا جاتا ہے جس کی داستان نہایت لرزہ خیز ہے۔
لومڑی کے ننھے بچوں کی جسامت بلی کے جتنی ہوتی ہے، یہ بچے آپس میں لڑنے کا کھیل کھیلتے ہیں جس سے ایک تو ان کی طاقت اور قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے، دوسرا یہ تعین کرتا ہے کہ کون زیادہ طاقتور ہے جو بڑا ہو کر غول کی سربراہی کرے گا۔
اس دوران نر لومڑی ان کی نگرانی کرتا ہے جبکہ مادہ لومڑی خوراک کی تلاش میں نکلتی ہے، یہ زیادہ تر پہاڑوں کے آس پاس اڑنے والے پرندوں کا شکار کرتی ہے۔
سردیوں کے موسم میں ان لومڑیوں کو شکار کے لیے خاصے مشکل مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، چونکہ ان لومڑیوں کی زندگی کا انحصار لڑائی بھڑائی اور شکار پر ہے لہٰذا ننھے بچے بچپن سے ہی اس کی تربیت پانا شروع کردیتے ہیں۔
پیرس : فرانسیسی شہر برٹنی میں سینکڑوں مرغیوں نے پنجرے میں گھسنے والی شکاری لومڑی کو تشدد کے بعد ہلاک کردیا۔
تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں شکاری لومڑی ہو یابھیڑیا شکار ہمیشہ کمزور ہی بنتا ہے، لیکن تمام کمزور اگر یکجا ہوجائیں تو مل کرشکاری کا بھی شکار کرسکتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ فرانس کے شمال مغربی شہر برٹنی میں واقع مرغیوں کے فارم میں ہوا ،جہاں مرغیوں نے مل کر لومڑی کو ہلاک کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ بھوکی لومڑی مرغیوں کے فارم میں داخل ہوئی تو فارم کا دروازہ خودکار طریقے سے بند ہوگیا اور لومڑی فارم میں موجود 3 ہزار مرغیوں کے درمیان قید ہوگئی۔
پولڑی فارم کے سربراہ پاسکل ڈینئیل کا کہنا ہے کہ مرغیوں نے مشترکا طور پر پولڑی فارم میں گھسنے والی لومڑی پر چونچوں سے حملہ کرکے موقع پر ہی ہلاک کردیا۔
پاسکل ڈینئیل کا کہنا ہے کہ اگلے روز صبح میں فارم میں داخل ہوا تو پولڑی فارم کے کونے سے لومڑی کی لاش برآمد ہوئی، مرغیوں نے لومڑی کی گردن پر جان لیوا وار کیے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ پانچ ایکٹر کے رقبے پر محیط پولٹری فارم میں 6 ہزار مرغیاں رکھنے کی گنجائش ہے۔
خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ پولڑی فارم کا دروازہ بند ہوا تو پانچ سے چھ ماہ عمر کی لومڑی اندر ہی قید ہوگئی اور مرغیوں کی بڑی تعداد دیکھ پر گھبرا گئی۔
لومڑی اپنی چالاکی و عیاری کے لیے بے حد مشہور ہے، جب بھی عیاری کی مثال دینی ہو تو لومڑی کا نام لیا جاتا ہے۔
تاہم شکلاً لومڑی نہایت بھولی بھالی سی نظر آتی ہے۔ خصوصاً لومڑی کی ایک نسل برفانی یا سفید لومڑی تو نہایت ہی خوبصورت، نرم و ملائم گھنے بالوں کی حامل اور معصوم سی لگتی ہے۔
یہ لومڑی برفانی علاقوں کی رہنے والی ہے۔ برفیلی زمین پر یہ اپنے سفید بالوں کی وجہ سے خود کو باآسانی چھپا لیتی ہے اور یوں شکار ہونے سے محفوظ رہتی ہے۔
یہ اپنے نرم و ملائم فر کی وجہ سے بھی بے حد مشہور ہے اور اکثر اوقات ان لومڑیوں کو فر کے حصول کے لیے شکار کیا جاتا ہے جس کی داستان نہایت لرزہ خیز ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں یہ خوبصورت سی لومڑی برفانی علاقوں میں اپنا شکار کیسے کرتی ہے؟
برف کے نیچے مختلف آبی و زمینی حیات موجود ہوتے ہیں جو اس لومڑی کی خوراک ہوتے ہیں، انہیں ڈھونڈنے کے لیے اسے بے حد محنت کرنی پڑتی ہے۔
وہ پہلے اندازہ لگاتی ہے کہ برف کے کس حصے کے نیچے شکار موجود ہوسکتا ہے۔
یہ آپ کو کون سا جانور لگتا ہے؟ شاید اسے کوئی بیماری ہے، بیمار سا لگ رہا ہے، آنکھوں میں بھی بے بسی کے تاثرات ہیں۔
یہ جانور برفانی لومڑی یا آرکٹک فاکس کہلاتا ہے۔ کیا آپ اس کی اصل تصاویر دیکھنا چاہیں گے؟ ذرا دیکھیئے۔
اور اب اس بیمار لومڑی کی مکمل حالت ملاحظہ فرمائیں۔
کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اس معصوم اور بے ضرر جانور کی یہ حالت کس نے اور کیوں کی؟ یقیناً جاننا چاہیں گے۔
دعا دیجیئے ہماری جدید ٹیکنالوجی اور جدید تعلیم کو، جس نے حضرت انسان کو اپنے فائدے کے لیے جانوروں پر ظلم کے ایسے ایسے طریقے دریافت کروا دیے، کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
دراصل اس لومڑی میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جینیاتی تبدیلیاں کردی گئی ہیں، چنانچہ اس کے جسم پر موجود فر میں اضافہ ہوگیا جو عمر کے ساتھ ساتھ مزید جاری ہے۔
اس اضافی فر نے ایک طرف تو اس جانور کو بد ہیئت بنا دیا، دوسری جانب اسے بے انتہا جسمانی تکلیف میں بھی مبتلا کردیا۔ غیر فطری تبدیلیوں سے گزرنے والی حیات یقیناً کسی صورت صحت مند نہیں رہ سکتی۔
یہ کام یورپی ملک فن لینڈ میں سر انجام دیا گیا جہاں اس نرم فر کی خرید و فروخت نہایت منافع بخش صنعت ہے اور ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
جانوروں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیمنے چھپ کر ان کی ویڈیو بنائی جس کے بعد یہ لرزہ خیز ظلم سامنے آیا۔
فن لینڈ یورپ میں فر کا سب سے بڑا پیداوار کنندہ ہے اور سنہ 2014 میں اس فر کے حصول کے لیے 18 لاکھ سے زائد لومڑیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
گو کہ مختلف ممالک میں مختلف تنظیمیں فر کی مصنوعات خصوصاً لباسوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان خوبصورت لومڑیوں کا قتل عام رکوانے کی کوششیں کر رہی ہیں، تاہم یورپ کے کئی ممالک میں یہ کام قانونی یا غیر قانونی طور پر جاری ہے۔
برطانیہ میں سنہ 2010 میں ان لومڑیوں کی اس ظالمانہ فارمنگ پر پابندی عائد کردی گئی، تاہم بیرون ملک سے فر کی درآمد تاحال جاری ہے۔
تنظیم کے مطابق ایک عام آرکٹک لومڑی جو 3 سے 4 کلو وزنی ہوتی ہے، جینیاتی تبدیلی کے بعد اضافی فر کی وجہ سے 20 کلو وزنی ہوجاتی ہے۔
یہ لومڑی اس قدر وزن اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی، چنانچہ اسے سانس لینے اور دیکھنے میں تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے نازک پاؤں بھی اس کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہوجاتے ہیں جس کے باعث یہ بہت کم اپنی جگہ سے حرکت کر پاتی ہے۔
جینیاتی تبدیلیوں کرنے کے بعد لومڑی کی 3 سال تک اذیت ناک پرورش کرنے کے بعد بجلی کے کرنٹ کے ذریعے اس کے منہ یا بڑی آنت کے نچلے حصے (جہاں سے فضلے کا اخراج ہوتا ہے) سے ایک ہی جھٹکے میں سارا فر کھینچ لیا جاتا ہے تاکہ فر بے داغ رہے اور اس پر کوئی خراش نہ آئے۔
اس لرزہ خیز اور درد ناک ظلم کی داستان سننے کے بعد کیا آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرمندگی تو محسوس نہیں ہو رہی؟
موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گوبل وارمنگ جہاں انسانوں کے لیے خطرہ ہیں وہیں جنگلی حیات کو بھی اس سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ جنگلی حیات کی کئی نسلوں کو ان عوامل کے باعث معدومی کا خدشہ ہے، تاہم امریکا میں ایک معدومی کے خطرے کا شکار لومڑی خطرے کی زد سے باہر آچکی ہے۔
اس بات کا اعلان امریکا کے فش اینڈ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے کیا۔ حکام کے مطابق کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی اس قسم کو، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، اگلے عشرے تک معدومی کا 50 فیصد خطرہ تھا اور اسے خطرے سے دو چار نسل کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔
حکام کے مطابق یہ بحالی امریکا کے ’خطرے کا شکار جانوروں کی حفاظت کے ایکٹ‘ کی 43 سالہ تاریخ کا پہلا ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل اتنی تیزی سے کوئی اور ممالیہ جانور خود کو خطرے کی زد سے باہر نہیں نکال پایا۔
واضح رہے یہ لومڑی نوے کی دہائی میں ’کینن ڈسٹمپر‘ نامی بیماری کے باعث اپنی 90 فیصد سے زائد نسل کھو چکی تھی۔ کینن ڈسٹمپر کتوں اور لومڑیوں کو لگنے والی ایک بیماری ہے جس کا تاحال کوئی خاص سبب معلوم نہیں کیا جاسکا ہے۔
حکام کے مطابق ان لومڑیوں کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں میں اضافے اور ویکسینیشن کے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے۔ ان لومڑیوں کو سؤر کی جانب سے بھی شکار کا خطرہ تھا جس کا حل ماہرین نے یوں نکالا کہ سؤروں کو اس علاقہ سے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا۔
یاد رہے کہ ماہرین متنبہ کر چکے ہیں کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔ اس سے قبل کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والےایک چوہے کی نسل بھی معدوم ہوچکی ہے جس کی گزشتہ ماہ باقاعدہ طور پر تصدیق کی جاچکی ہے۔