Tag: لوک ادب

  • تین گڑیاں (لوک کہانی)

    تین گڑیاں (لوک کہانی)

    فارس کا سلطان بڑا دانا مشہور تھا۔ اسے مسئلے سلجھانے کرنے، پہلیاں بوجھنے اور معمّے حل کرنے کا بھی شوق تھا۔ ایک دن اسے کسی کا بھیجا ہوا تحفہ ملا۔ بھیجنے والا سلطان کے لیے اجنبی تھا۔

    سلطان نے تحفے کو کھولا، اُس میں سے ایک ڈبہ نکلا۔ ڈبے کے اندر لکڑی کی تین خوبصورت گڑیاں نظر آئیں جنہیں بڑے سلیقے سے تراشا گیا تھا۔ اس نے ایک ایک کر کے تینوں گڑیوں کو اٹھایا اور ہر ایک کی کاری گری کی خوب تعریف کی۔ اس کا دھیان ڈبہ پر گیا جہاں ایک جملہ تحریر تھا: ’’ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتائیے۔‘‘

    ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتانا سلطان کے لیے ایک چیلنج بن گیا۔ اس نے پہلی گڑیا کو اٹھایا اور اس کا مشاہدہ کرنے لگا۔ گڑیا کا چہرہ خوبصورت تھا اور وہ ریشم کے چمکیلے کپڑوں میں ملبوس تھی۔ پھر اس نے دوسری گڑیا کو اٹھایا۔ وہ بھی پہلی گڑیا جیسی ہی تھی اور تیسری بھی ویسی ہی تھی۔ پھر سلطان نے گڑیا کا نئے سرے سے مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ وہ سب ظاہراََ یکساں تھیں لیکن سلطان نے سوچا شاید تینوں میں سے آنے والی بُو مختلف ہو۔ چنانچہ اس نے تینوں گڑیوں کو باری باری سونگھ کر دیکھا۔ تینوں میں سے صندل کی خوشبو آرہی تھی جس سے اس کا سانس معطّر ہوگیا۔ صندل کی لکڑی سے انھیں بڑی نفاست سے بنایا گیا تھا۔

    سلطان نے سوچا شاید یہ اندر سے کھوکھلی ہوں۔ انھیں کان کے پاس لے جا کر ہلانا شروع کیا لیکن تینوں گڑیاں ٹھوس تھیں اور تینوں ہم وزن بھی تھیں۔ سلطان نے دربار بلایا۔ دربار میں سلطان بڑا ہی متذبذب نظر آرہا تھا۔ لوگ اسے دیکھ کر حیران تھے۔ اس نے دربار کے سامنے اعلان کیا کہ جو تم میں سے جو دانا ہو وہ آگے آئے۔ جس نے زندگی بھر کتابیں‌ پڑھی ہوں وہ بھی آگے آئے۔ ایک اسکالر اور ایک قصّہ گو سلطان کے حکم پر سامنے آئے۔

    سب سے پہلے اسکالر نے گڑیوں کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ اس نے انھیں سونگھا، ان کا وزن کیا اور انھیں ہلایا اور کچھ فرق معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی طور بھی کوئی فرق نہ پاسکا۔ وہ دروازے کے پاس گیا اور الگ الگ زاویوں سے انھیں دیکھنا شروع کیا۔ پھر اس نے گڑیوں کو ہاتھ میں اٹھایا اور ان پر جادو ٹونے کی طرح ہاتھ ہلانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اکتا گیا اور گڑیوں کو میز پر رکھ کر وہاں سے ہٹ گیا اور اپنی ناکامی کا اعتراف کیا۔

    اب سلطان نے قصّہ گو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’کیا تم گڑیوں کے درمیان کوئی فرق شناخت کر سکتے ہو!‘‘ قصّہ گو نے پہلی گڑیا اٹھائی اور بڑی احتیاط سے اس گڑیا کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ پھر اچانک اسے نہ جانے کیا خیال آیا۔ وہ آگے کی طرف بڑھا اور سلطان کی داڑھی کا ایک بال نوچ لیا۔ اس بال کو اس نے گڑیا کے کان میں ڈالا۔ وہ بال گڑیا کے کان میں چلا گیا اور غائب ہو گیا۔ قصّہ گو نے کہا، ’’ یہ گڑیا اس اسکالر کی طرح ہے جو سب کچھ سنتا ہے اور اپنے اندر رکھ لیتا ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ سلطان اسے روکتا پھر قصّہ گو نے آگے بڑھ کر بڑی جرأت کی اور اس کی داڑھی کا دوسرا بال نوچ لیا۔ سلطان کچھ نہ بولا۔ اس پر تو گڑیوں کا راز جاننے کا بھوت سوار تھا۔ اس نے دوسری گڑیا کے کان میں بال ڈالا۔ دھیرے دھیرے بال اس کے کان میں چلا گیا اور دوسرے کان سے نکلا۔سلطان یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔

    اب قصّہ گو نے کہا ’’یہ گڑیا احمق جیسی ہے جو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ سلطان اسے روک پاتا اس نے سلطان کی ٹھوڑی سے تیسرا بال توڑ لیا۔ پھر اس نے داڑھی کے بال کو تیسری گڑیا کے کان میں ڈالا۔ بال اندر چلا گیا۔سلطان غور سے دیکھنے لگا کہ اس بار بال کا دوسرا سرا کہاں سے باہر آئے گا۔ بال گڑیا کے منھ سے باہر آیا۔ لیکن جب بال باہر آیا تو وہ کافی مڑا ہو اتھا۔

    اب قصّہ گو نے کہا، ’’یہ گڑیا قصّہ گو کی طرح ہے۔ وہ جو کچھ سنتا ہے اسے وہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ سنا دیتا ہے۔ ہر قصّہ گو کہانی میں تھوڑی سی تبدیلی اس لیے کرتا ہے تا کہ وہ اس کا اپنا شاہکار لگے۔‘

    (فارسی ادب سے انتخاب)

  • جگنوؤں بھری تھیلی (تبّت کے لوک ادب سے ایک کہانی)

    جگنوؤں بھری تھیلی (تبّت کے لوک ادب سے ایک کہانی)

    تبّت کی ہر وادی برف سے ڈھک گئی تھی۔ راتیں سیاہ تھیں اور لمبی لیکن سفید برف اس سیاہی میں عجیب سا منظر بنا دیتی۔ دور ایک وادی میں، جو کہ چار پہاڑوں کے عقب میں تھی، بانس کی ایک کٹیا کھڑی تھی۔ یہ بوڑھے بانگو کا کاشانہ ہے۔

    جھونپڑی کے دروازے پر لکڑی کا ایک تختہ بطور آڑ رکھا ہوا تھا اور اس کی چھت کی اطراف ترچھی تھیں تا کہ برف کے گولے گرتے ہی پھسل جائیں اور وزن سے بانس نہ ٹوٹیں۔ جھونپڑی کوئی بیس۔۔۔۔پچیس فٹ لمبی اور اتنی ہی چوڑی تھی۔اندر دو چارپائیاں تھیں اور ایک اپلوں کی انگیٹھی جس کی حرارت اس جان لیوا سردی میں بانس کی اس کٹیا کو ایک اگلو سا بنا دیتی اور مکین جاڑے کی شدت سے محفوظ رہتے۔ ایک طرف کھونٹی سے پرانی لالٹین لٹک رہی تھی جس کی لَو سے اندر بمشکل ہی روشن ہوتا تھا۔ جھونپڑی کے دروازے پر قبائلی زبان میں خوش آمدید اور مہمان نوازی کی دعوت کے بارے کچھ الفاظ لکھے تھے اور دائیں جانب ہی گھاس کے ایک ڈھیر کے پاس تین دنبیاں اور ایک یاک کھڑا تھا۔

    جب موسم خوش گوار ہوتا تھا تو بانگو اپنے مویشی باہر لے جاتا اور رات خوبانی کے درختوں کے ساتھ باندھ دیتا لیکن آج کل موسم اتنا سرد تھا کہ وہ بے زبان روحیں کھلی فضا میں اس کی شدت کی تاب نہ لا سکتی تھیں۔ بانگو کی بیوی اون کی پوشاک بنتی رہتی اور ہر ڈورے کے ختم ہوتے ہی دوسرا نکال کر دھاگے جوڑ دیتی۔ اس سنسان اور سرد وادی کے مکین جوڑے کے دو بچّے تھے۔ ان میں لوگیس بڑی تھی نو سال کی اور لوشی پانچ برس کا تھا۔ بانگو شادی سے پہلے دو میل دور اپنے گاؤں میں رہتا تھا لیکن شادی کے بعد اس نے خوبانی کا ایک باغ اگایا اور بانس کی یہ رہائش تیار کر کے اپنے گھر والوں کو یہاں لے آیا۔ بانگو خود تو بوڑھا ہو رہا تھا لیکن اس کی بیوی نوجوان تھی۔ وہ دو بچّوں کی ماں ہوتے ہوئے بھی جب کبھی سردی سے ٹھٹھرتی اور اپنی ہتھیلیاں انگیٹھی پر گھماتی تو ایک نوجوان لڑکی ہی لگتی۔ لمبی اندھیری راتوں میں لالٹین کا شعلہ بھی سردی سے مدھم پڑجاتا اور اس کے گول شیشے پر جمنے والی نمی اس منظر کو اور دھندلا دیتی۔

    بانگو ہر دو ہفتے بعد گاؤں جا کر تیل لے کر آتا۔ لیکن اس بار لگتا تھا کہ وہ برف باری میں جانے سے کترا رہا ہے۔ لالٹین کا شعلہ ہر گزرتی شب اور مدھم ہوتا جا رہا تھا۔

    لوشی ہر وقت سرمئی دنبی کے پاس ہی بیٹھا رہتا بلکہ اپنا کھانا اور دودھ بھی اس کے پاس ہی لے جاتا۔ بانگو نے جب سے اسے بتایا تھا کہ یہ دنبی کچھ دنوں میں بچہ جننے والی ہے تب سے اس کے دماغ میں صرف ایک ہی منظر سمایا تھا، دنبی کا معصوم بچّہ جس کے بال موم کی طرح ملائم اور نرم ہوں گے اور، وہ اپنی ماں سے چمٹ کر دودھ پیے گا۔ لوشی اس دنبی کا منہ پکڑ کر سہلاتا اور اس کے کان کے پاس سرگوشی کرتا:”اس بار سب سے پہلے تمہارا بچّہ میں دیکھوں گا، اچھی دنبی! اگر میں سو گیا تو تم بچّہ نہ جننا، جب میں جاگا تم تب ہی اپنا بچّہ پیدا کرنا۔ نہیں تو میں تم سے کبھی نہیں بولوں گا۔” دنبی کی آنکھیں حیرت سے لوشی کو تکتی رہتیں۔ بانگو کی بیوی نے دنبی کے پیٹ پر دولائی باندھ دی تھی۔ بانگو کو امید تھی کہ دو، تین دن میں دنبی بچّہ جنے گی لیکن اسے یہ اندیشہ تھا کہ لالٹین بجھ جائے گی اور اندھیری رات میں روشنی کا انتظام مشکل ہو جائے گا۔لوشی اپنی بہن سے بہت پیار کرتا تھا اور برف باری سے پہلے وہ دونوں باہر وادی میں کھیلتے، تتلیاں، جگنو اور چڑیاں پکڑتے اور انہیں گھر لے آتے۔ لوشی نے اپنے ڈبّے میں مینا کا بچّہ ڈال رکھا تھا، جس کو وہ دن میں کئی بار دیکھتا اور پھر ڈبّے میں ڈال دیتا۔

    اس رات لالٹین کا ٹمٹماتا شعلہ مکمل طور پر بجھ گیا اور جھونپڑی میں پوری طرح اندھیرا چھا گیا۔ بستروں کے پاس انگیٹھی کی آگ سے ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی۔ لوشی اس رات سونے کی کوشش میں نہ تھا۔ اس کے دل میں بار بار یہ خیال آتا کہ اگر وہ سو گیا تو پھر صبح، دن چڑھے ہی اٹھے گا، اور اگر تب تک دنبی نے بچّہ دے دیا تو وہ اسے سب سے پہلے کیسے دیکھے گا، اس کے ماں باپ تو صبح سویرے ہی جاگ جاتے ہیں۔ آدھی رات کو اس نے لوگیس کی رضائی ہلا کر اسے اپنا اندیشہ بتایا۔

    بانگو کل سے گاؤں گیا ہوا تھا کیونکہ وہ مکھن اور اونی چغے بیچ کر کچھ چیزیں خرید کر لانا چاہتا تھا اور لالٹین کے لیے تیل بھی۔ لوشی دنبی کے پاس جانا چاہتا تھا لیکن اندھیرے میں وہ اپنے بستر سے نہ اٹھا۔ اندھیری جھونپڑی میں حاملہ دنبی دوسرے مویشیوں سے الگ بیٹھی تھی۔ اچانک اس کی آنکھوں میں چمک کی ایک لہر دوڑی، اس نے اپنا پیٹ اٹھایا اور پھر اس کا موٹا وجود چند لمحوں میں ہلکا ہو گیا۔ ننھا اونی ریشم کا گولا ماں کی ٹانگوں سے لپٹا ہوا تھا۔ دنبی زمین پر بیٹھ گئی اور اپنے جگر کے ٹکڑے کا لمس لینے لگی۔

    لوگیس نے لوشی کو کچھ کہے بغیر اپنی چارپائی کے نیچے ہاتھ ڈال کر ایک تھیلی نکالی، جس میں اس نے تین ، چار دن پہلے کافی جگنو بند کر دیے تھے۔ لوشی حیرت سے اپنی بہن کی تھیلی کو دیکھ رہا تھا۔ لوگیس چپکے سے اٹھی اور لالٹین اتار کر انگیٹھی کے پاس لے آئی۔ اس نے لوشی کو اشارہ کیا، وہ دونوں بہن بھائی لالٹین کو کھولنے لگے۔ لوگیس نے جگنوؤں سے بھری تھیلی لوشی کو پکڑاتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی وہ لالٹین کا شیشہ سرکائے، وہ تھیلی شیشے میں پلٹ دے۔ باہر کہر بھری ہوا چل رہی ہے۔ ان کی ماں لحاف اوڑھے نیند کی وادیوں میں گم ہے۔ لوگیس نے شیشہ اٹھاتے ہی لوشی کو بلایا تو اس نے فوراً تھیلی کا منہ پھیلا کر شیشے میں پلٹ دی۔لوگیس نے فورا ہی شیشے کو گھما کر بند کیا اور دامن سے نمی کی تہہ کو صاف کر دیا۔ ایک لمحے میں لالٹین کا شیشہ ہلکا سا روشن ہوا۔دسیوں جگنوؤں نے اتنی روشنی ضرور کر دی تھی کہ وہ جانوروں کے پاس چلے جاتے۔

    لوشی لالٹین اٹھا کر دنبی کے پاس آیا تو خوشی سے لوگیس کو آوازیں دینے لگا۔ اس نے ننھے میمنے کو چوما، وہ سفید اور ملائم تھا، نازک اور کوسا کوسا۔ لوشی سوچ رہا تھا کہ میمنا بھی برف کی طرح سفید ہے لیکن برف تو بڑی ٹھنڈی ہوتی ہے اور یہ میمنا بڑا گرم ہے۔ لوشی بار بار میمنے کو چومتا اور اس کے گرم وجود پر ہاتھ پھیرتا۔ اس نے دنبی کے سَر کے پاس جا کر کہا: "اچھی دنبی! تمہارا شکریہ”۔ لالٹین کی مدھم روشنی میں لوشی دنبی کے پاس بیٹھا خوشی منا رہا تھا جب کہ شیشے میں کئی ننھے شعلے دَم توڑ رہے تھے۔

  • لوک داستانوں پر بننے والی فلمیں

    لوک داستانوں پر بننے والی فلمیں

    قدیم داستانیں، حکایات اور لوک کہانیاں ہر زبان کے ادب کا حصّہ ہیں جو کسی خطّے کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور اقوام کے طور طریقوں اور ان کے مشاہیر کا تعارف بھی کرواتی ہیں اور انسان کے صدیوں‌ پر پھیلے ہوئے سفر کو ہمارے سامنے لاتی ہیں۔

    پاکستان کے مختلف علاقوں اور زبانوں میں لوک ادب صدیوں سے عوام النّاس میں مقبول ہے۔ ان میں رومانوی داستانیں اور عشق و محبّت کے لازوال قصّے بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور ان داستانوں کے کردار برصغیر ہی نہیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

    یہ لوک داستانیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہوئی کتابی شکل میں زندہ رہیں جب کہ دورِ جدید میں انھیں ڈراموں اور فلموں کی شکل میں محفوظ کیا گیا اور اس میڈیم کے ذریعے خاص طور پر رومانوی داستانوں کو لازوال شہرت اور مقبولیت ملی۔ یہاں ہم ان مشہورِ زمانہ لوک داستانوں کی بات کر رہے ہیں جن پر فلمیں بنائی گئیں اور یہ کہانیاں بہت مقبول ہیں۔

    پاکستان کی لوک داستانیں
    پنجاب کی مشہورِ زمانہ "ہیر رانجھا” ، "سوہنی مہینوال” ، "مرزا صاحباں” اور "دُلا بھٹی ” کے رومانوی قصے، وادیِ مہران کی "سسی پنوں”، "عمر ماروی”، "نوری جام تماچی” اور "سورٹھ” جیسی داستانوں کو فلم کے پردے پر پیش کیا گیا۔ اسی طرح بلوچستان اور پختونخوا کے علاقوں سے "یوسف خان شیر بانو” ، "آدم خان درخانئی” اور "موسیٰ خان گل مکئی” کی رومانوی کہانیوں پر بھی فلمیں بنیں۔ یہ علاقائی لوک داستانیں ہیں جب کہ اردو زبان میں "انار کلی” اور "شیخ چلی” وغیرہ مشہور کہانیاں ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ داستانیں حقیقی ہیں یا من گھڑت اور ان کے کردار بھی کسی کے ذہن نے تخلیق کیے تھے۔

    برصغیر میں لوک فلمیں
    برصغیر پاک و ہند میں داستانِ لیلیٰ مجنوں کو 1922ء میں زبردست شہرت ملی کہ اسے فلمایا گیا تھا۔ اردو ادب کی مشہور ترین داستان انار کلی کو اس کے چھے سال بعد پردے پر پیش کیا گیا جس پر ایک ناول لوگ پڑھ چکے تھے۔ تقسیم سے قبل خاموش فلموں کے دور میں پنجاب کی لوک داستانوں میں سے پہلی داستان سسی پنوں 1928ء میں فلمائی گئی۔ پنجاب کی مشہور لوک کہانیوں میں سے پہلی فلم سوہنی مہینوال بھی اسی سال جب کہ اگلے سال مرزا صاحباں اور ہیر رانجھا کو فلمایا گیا۔ ناطق فلموں کا دور آیا تو لاہور میں پہلی پنجابی فلم ہیر رانجھا 1932 میں بنائی گئی۔ تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان میں بھی یہ قصے کہانیاں متعدد بار سنیما پر پیش کیے گئے۔

    1970ء کی دہائی میں پشتو فلموں کے ابتدائی دور میں پہلی فلم یوسف خان شیر بانو ایک لوک داستان تھی جس میں یاسمین خان اور بدرمنیر نے ٹائٹل رول کیے تھے۔ اگلے سال اسی جوڑی کو فلم آدم خان درخانئی میں بھی کاسٹ کیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی جو مشہور زمانہ لوک کہانیاں سنیما کے پردے پر پیش کی گئیں۔

    ہیر رانجھا
    ہیر رانجھا پاکستانی لوک داستانوں میں سب سے مقبول رہی ہے۔ اسے پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر سید وارث شاہؒ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لوک داستانوں میں یہ واحد رومانوی داستان ہے جس میں دو مشہور کہانیاں ہیں۔ ایک "ہیر اور رانجھا” کی اور دوسری "سہتی اور مراد” کی۔ پاکستان میں صرف پندرہ برس کے دوران اس کہانی کو پانچ بار فلمایا گیا جس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس لازوال داستان پر پہلی بار ہدایت کار نذیر نے 1955 میں ہیر کے نام سے فلم بنائی جس میں سورن لتا اور عنایت حسین بھٹی نے مرکزی کردار کیے تھے۔

    دوسری مرتبہ ہدایت کار ایم جے رانا نے اسی کہانی کے ایک ثانوی کردار یعنی سہتی پر 1957 میں فلم بنائی جس میں مسرت نذیر اور اکمل نے مرکزی کردار کیے تھے۔

    تیسری مرتبہ ہدایت کار جعفر بخاری نے اسی کہانی کو ہیر سیال کے نام سے 1965 میں پیش کیا جس میں فردوس اور اکمل نے مرکزی کردار کیے تھے۔ پانچویں اور آخری فلم ہدایت کار مسعود پرویز کی تھی جسے 1970 میں ہیر رانجھا کے نام سے ایک شاہکار فلم قرار دیا گیا۔ اجمل نے فلم میں "کیدو” کے روپ میں اس کردار کو گویا امر کر دیا۔

    سسی پنوں
    اس کہانی کو پنجاب کے قدیم شاعروں نے بڑے خوب صورت انداز میں منظوم پیش کیا۔ ہاشم شاہ نامی شاعر کا کلام سب سے زیادہ مقبول ہوا جس کو ایک مخصوص دھن میں گایا بھی جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے "سسی پنوں” کی کہانی پر مبنی فلم سسی 1954 میں بنائی گئی جو پہلی گولڈن جوبلی سپرہٹ اردو فلم بن گئی۔ ہدایت کار داؤد چاند کی اس یادگار فلم میں پاکستان کی پہلی سپراسٹار ہیروئن صبیحہ خانم نے "سسی” کا ٹائٹل رول کیا جب کہ ہیرو سدھیر "پنوں” کے کردار میں سامنے آئے تھے۔

    تقسیم کے بعد اسی نام سے فلم سندھی زبان میں بھی بنائی گئی۔ یہ 1958 کی بات ہے جب کہ باقی تین فلمیں پنجابی زبان میں تھیں جن میں 1968 میں ایک فلم، دوسری 1972 اور پھر 2004 میں بنائی گئی۔

    سوہنی مہینوال
    پنجاب کی مشہور لوک داستان "سوہنی مہینوال” پر ہدایت کار ایم جے رانا کی اردو فلم سوہنی 1955 میں ریلیز ہوئی جس میں صبیحہ خانم اور سدھیر نے مرکزی کردار نبھائے۔ اس مقبولِ عام کہانی کو ہدایت کار ولی صاحب نے دوسری بار سوہنی کمہارن کے نام سے 1960 میں بنایا جس میں بہار اور اسلم پرویز نے شائقین کو اپنی اداکاری سے محظوظ کیا۔ 1973 میں اسی داستان پر نیم مزاحیہ فلم بنائی گئی جب کہ چوتھی بار ہدایت کار رضا میر نے ممتاز اور یوسف خان کو فلم سوہنی مہینوال میں مرکزی کردار سونپے اور یہ 1976 میں ریلیز ہوئی۔ اسے 2004 میں بھی فلمایا گیا لیکن یہ اتفاق ہے کہ سوہنی مہینوال کی کوئی بھی فلمی پیشکش بڑی کام یابی سے محروم رہی۔

    تقسیم سے قبل بھی سوہنی مہینوال کی کہانی کو پانچ مرتبہ فلمایا گیا تھا۔ اور یہ اس دور میں ہندوستان کے تینوں بڑے فلمی مراکز بمبئی، کلکتہ اور لاہور میں الگ الگ بنائی گئی تھی۔

    مرزا صاحباں
    پاکستان کی لوک داستانوں میں "مرزا صاحباں” کا قصہ بڑا مشہور ہوا جسے
    پاکستان میں پہلی بار ہدایت کار داؤد چاند نے اردو زبان میں اسی نام سے پیش کیا تھا۔ 1956 کی اس فلم میں مسرت نذیر اور سدھیر نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ دوسری مرتبہ ہدایت کار مسعود پرویز نے اور
    اسی کہانی پر 1982ء میں بھی فلمایا گیا۔ تقسیم سے قبل "مرزا صاحباں” کی کہانی کو پانچ بار فلم بند کیا گیا تھا۔

    بدیسی لوک داستانیں
    پاکستان کی لوک داستانوں کے علاوہ دوسرے خطے کی داستانوں اور بدیسی لوک کہانیوں کو بھی فلمی پردے پر پیش کیا گیا جن میں خاص طور پر فارسی اور عربی داستانیں اور کہانیاں شامل ہیں۔ عربی ادب سے "لیلیٰ مجنوں” ، "وامق عذرا” اور "الف لیلہ” وغیرہ کی داستانیں اور فارسی ادب سے "شیریں فرہاد” اور "گل بکاؤلی” جیسی داستانیں اور کہانیاں بھی اردو میں ترجمہ ہوئیں اور ان پر پاکستان میں فلمیں بنائی گئیں۔

  • شرط (روسی لوک کہانی)

    شرط (روسی لوک کہانی)

    کسی ملک میں ایک سوداگر رہتا تھا، جس کی تین بیٹیاں تھیں۔ ایک دفعہ سوداگر کو دوسرے ملک میں مال خریدنے کے لیے جانا پڑا تو اس نے اپنی لڑکیوں سے پوچھا، ’’ میں تمہارے لیے کیا تحفہ لاؤں؟‘‘

    بڑی لڑکی نے ایک نئے کوٹ کے لیے فرمائش کی، منجھلی نے بھی کوٹ ہی کو پسند کیا مگر چھوٹی نے کاغذ کا ٹکڑا اٹھا کر اس پر ایک پھول بنا دیا اور کہا،’’ ابا میرے لیے اس طرح کا پھول لانا۔‘‘

    چنانچہ سوداگر اپنے سفر پر چلا گیا اور بہت عرصے تک مختلف ممالک میں گھومتا رہا مگر اسے اس قسم کا پھول نظر نہ آیا۔ جب وہ گھر کی طرف لوٹا تو اسے راستے میں ایک باغ نظر آیا جس کے اندر ایک بڑی عالیشان عمارت بنی ہوئی تھی۔ وہ باغ کے اندر چہل قدمی کی خاطر چلا گیا۔ باغ مختلف قسم کے پھولوں اور درختوں سے بھرا ہوا تھا۔ جا بجا غنچے چٹک رہے تھے۔ ہر پھول خوب صورتی اور حسن میں دوسرے سے بڑھا ہوا تھا۔ اچانک اسے ایک ٹہنی پر وہی پھول نظر آیا جس کی اسے تلاش تھی اس نے دل میں خیال کیا’’ یہاں باغ میں کوئی رکھوالا تو ہے نہیں اس لیے میں بے خوف و خطر پھول توڑ کر اپنی پیاری لڑکی کے لیے لے جاسکتا ہوں۔‘‘

    چنانچہ وہ ٹہنی کی طرف بڑھا اور پھول توڑ لیا۔ پھول کا توڑنا تھا کہ یک لخت آندھی چلنا شروع ہوگئی، رعد گرجنے لگا، طوفان سا برپا ہوگیا اور چند لمحے بعد تین سروں والا سانپ نمودار ہوا اور بلند آواز میں کہنے لگا۔ ’’تم نے میرے باغ میں ایسی حرکت کی کیونکر جرات کی؟۔۔۔۔۔۔ تم نے اس پھول کو کیوں توڑا ہے؟‘‘

    سوداگر تھرتھر کانپنے لگا اور سانپ کے پیروں پر گر کر معافی مانگنے لگا۔ اس پر سانپ کو رحم آگیا اور بولا’’ بہت اچھا۔ میں تمہیں معافی دے سکتا ہوں، مگر صرف ایک شرط پر، وہ یہ کہ گھر جاتے ہی جو شخص تمہیں پہلے ملے اسے میرے حوالے کردینا اور اگر تم نے دھوکا دیا تو خیال رہے کہ میرے انتقام سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ میں تمہیں دنیا کے ہر کونے میں ڈھونڈ لوں گا۔‘‘

    سوداگر نے یہ شرط منظور کرلی اور گھر کی طرف چل پڑا۔ سب سے پہلے اس نے اپنی چھوٹی لڑکی کو کھڑکی میں سے جھانکتے ہوئے دیکھا، جو اسے دیکھ کر دوڑتی ہوئی آئی اور اس سے لپٹ گئی۔ مگر سوداگر بجائے خوش ہونے کے رونے لگا۔

    یہ دیکھ کر اس کی لڑکی نے دریافت کیا۔’’ابا! کیا سبب ہے جو تم رو رہے ہو؟‘‘
    جواب میں سوداگر نے وہ پھول پیش کرتے ہوئے تمام واقعہ بیان کردیا۔ یہ سن کر لڑکی نے اپنے باپ کو تسلی دی’’ ابا کسی قسم کی فکر نہ کرو، شاید خدا کو اسی میں بہتری منظور ہو۔۔۔۔۔۔ مجھے اس سانپ کے پاس لے چلو۔‘‘

    چنانچہ سوداگر اپنی لڑکی کو اس باغ میں چھوڑ کر واپس چلا آیا۔ لڑکی اس باغ والے عالیشان محل میں داخل ہوئی اور دیر تک اس کے مختلف کمروں میں گھومتی رہی۔ کمرے زر و جواہر سے بھرے ہوئے تھے مگر کوئی متنفس موجود نہ تھا۔
    وقت گزرتا گیا۔

    اب جو اس حسین دوشیزہ کو بھوک محسوس ہوئی تو وہ سوچنے لگی۔’’کاش مجھے کچھ بھی کھانے کے لیے مل جائے!‘‘

    یہ خیال کرنا ہی تھا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک میز نمودار ہوئی جس پر انواع و اقسام کے لذیذ کھانے چُنے ہوئے تھے۔ سب لوازم موجود تھے اگر کمی تھی تو صرف چڑیا کے دودھ کی۔ لڑکی نے جی بھر کے کھانا کھایا اور جب ہاتھ اٹھایا تو میز مع طشتریوں کے غائب تھی۔

    جب تاریکی چا گئی تو سوداگر کی لڑکی سونے کے لیے خواب گاہ میں چلی گئی۔ وہ بستر پر لیٹا ہی چاہتی تھی کہ ایک آندھی کے ساتھ تین سروں والا سانپ ظاہر ہوا اور اس سے کہنے لگا۔

    ’’پیاری حسینہ میرا بستر اس دروازے سے باہر لگا دو!‘‘ لڑکی نے سانپ کا پلنگ دروازے کے باہر بچھا دیا اور خود دوسرے بستر پر لیٹ گئی۔

    جب صبح کو بیدار ہوئی تو حسبِ سابق گھر میں کوئی ذی روح موجود نہ تھا مگر جو چیز بھی اس نے طلب کی ایک پراسرار طریق پر حاضر ہوگئی۔ شام کے وقت وہی سانپ اس کے پاس پرواز کرتا ہوا آیا اور اس سے کہنے لگا۔

    ’’پیاری حسینہ میرا بستر اپنے پلنگ کے ساتھ بچھا دو!‘‘ لڑکی نے سانپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنا پلنگ اس کے بستر کے ساتھ بچھا دیا۔ رات گزر گئی اور صبح ہوئی تو حسبِ معمول گھر ویسا ہی سنسان تھا۔

    شام ہوتے ہی سانپ پھر تیسری بار نمودار ہوا اور اس سے کہنے لگا: ’’پیاری حسینہ۔ اب میں تمہارے ساتھ لیٹوں گا۔‘‘ لڑکی پہلے پہل تو ایک سانپ کے ساتھ لیٹنے سے بہت خوف زدہ ہوئی مگر قہر درویش بر جانِ درویش، جی کڑا کر کے اس کے ساتھ سو ہی گئی۔

    صبح بیدار ہوتے وقت سانپ نے لڑکی سے کہا’’ اگر تم یہاں سے اکتا گئی ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ ایک دن کے لئے اپنے باپ سے مل آؤ مگر خیال رہے دیر نہ کرنا۔ اگر تم نے ایک منٹ بھی زیادہ لگا دیا تو میں غم کے مارے مر جاؤں گا۔‘‘
    ’’نہیں آپ متفکر نہ ہوں! میں دیر نہ لگاؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر سوداگر کی لڑکی وہاں سے رخصت ہوئی۔

    محل کے دروازے پر ایک گاڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ اس میں سوار ہوئی اور چشم زدن میں اپنے گھر کے صحن میں پہنچ گئی۔ جب باپ نے اپنی لڑکی کو صحیح و سلامت واپس آتے دیکھا۔ تو بہت خوش ہوا اور اس کی پیشانی کا بوسہ لے کر پوچھنے لگا۔’’میری بچی! تم بچ کر کس طرح آگئی ہو؟۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے خدا تم پر مہربان ہے!‘‘

    ’’ہاں ابا‘‘ یہ کہتے ہوئے لڑکی نے اپنے باپ کو محل کے کمروں میں بکھری ہوئی دولت اور سانپ کی محبت کا تمام حال سنا دیا۔ جب اس کی بہنوں نے یہ واقعہ سنا تو حسد کی آگ میں جل کر رہ گئیں۔ دن لحظہ بہ لحظہ ڈھل رہا تھا۔ سوداگر کی لڑکی نے سانپ کے پاس واپس جانے کی تیاری شروع کر دی اور اپنی بہنوں سے کہا’’ اب مجھے جانا چاہیے۔ کیونکہ مجھے دیر کرنے کا حکم نہیں ہے۔‘‘

    یہ سن کر حاسد بہنوں نے آنکھوں پر پیاز مل مل کر آنسو بہانے شروع کر دیے اور کہنے لگیں’’عزیز بہن ابھی نہ جاؤ۔ کل چلی جانا۔‘‘ یہ دیکھ کر چھوٹیی لڑکی بہت متاثر ہوئی اور ایک دن کے لئے اور ٹھہر گئی۔ دوسرے روز وہ صبح ہی سب کو الوداع کہہ کر وہاں سے روانہ ہوگئی۔ محل پہلے کی طرح بالکل خالی تھا مگر جب وہ باغ کے تالاب کے پاس پہنچی تو اسے سانپ پانی پر تیرتا ہوا نظر آیا۔ اس نے فرقت کی تاب نہ لا کر خود کشی کرلی تھی!

    سوداگر کی لڑکی چلائی۔’’ آہ میرے اللہ! یہ میں نے کیا کر دیا!!‘‘ وہ بہت دیر تک روتی رہی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے سانپ کو تالاب سے باہر نکالا اور اس کا سر چُوم لیا۔

    سر کا چُومنا تھا کہ سانپ کے مردہ جسم میں حرکت ہوئی اور لمحہ بھر میں اس نے خوب صورت جوان کی صورت اختیار کر لی۔ نوجوان نے کہا،’’شکریہ۔ پیاری حسینہ۔ تم نے مجھے بچا لیا۔ میں سانپ نہیں ہوں بلکہ ایک مسحور شاہزادہ ہوں۔‘‘

    وہ دونوں وہاں سے سوداگر کے پاس گئے۔ ان کی شادی ہوگئی اور دونوں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔

    (روسی لوک ادب سے انتخاب)

  • خدا سب کا ایک ہے!

    خدا سب کا ایک ہے!

    پیرس میں ابراہیم نام کا ایک آدمی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ وہ ایک معمولی اوقات کا عیال دار تھا۔ مگر تھا بہت ایمان دار اور سخی۔

    اس کا گھر شہر سے دس میل دور تھا۔ اس کی جھونپڑی کے پاس سے ایک پتلی سی سڑک جاتی تھی۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو مسافر اسی سڑک سے آتے جاتے تھے۔

    رستے میں آرام کرنے کے لئے اور کوئی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو ابراہیم کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا تھا۔ ابراہیم ان کی مناسب خاطر داری کرتا۔ مسافر ہاتھ منہ دھو کر جب ابراہیم کے گھر والوں کے ساتھ کھانے بیٹھتے تو کھانے سے پہلے ابراہیم ایک چھوٹی سی دعا پڑھتا اور خدا کا اس کی مہربانی کے لئے شکریہ ادا کرتا۔ بعد میں باقی سب آدمی بھی اس دعا کو دہراتے۔

    مسافروں کی خدمت کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ لیکن سب کے دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔ زمانے کے پھیر میں پڑ کر ابراہیم غریب ہو گیا۔ اس پر بھی اس نے مسافروں کو کھانا دینا بند نہ کیا۔ وہ اور اس کے بیوی بچّے دن میں ایک بار کھانا کھاتے اورایک وقت کا کھانا بچا کر مسافروں کے لئے رکھ دیتے تھے۔ اس سخاوت سے ابراہیم کو بہت اطمینان ہوتا، لیکن ساتھ ساتھ ہی اسے کچھ غرور ہو گیا اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ میں بہت بڑا ایمان دار ہوں اور میرا ایمان ہی سب سے اونچا ہے۔

    ایک دن دوپہر کو اس کے دروازے پر ایک تھکا ماندہ بوڑھا آیا۔ وہ بہت ہی کمزور تھا۔ اس کی کمر کمان کی طرح جھک گئی تھی اور کمزوری کے باعث اس کے قدم بھی سیدھے نہیں پڑرہے تھے۔ اس نے ابراہیم کا دروازہ کھٹکھٹایا، ابراہیم اسے اندر لے گیا اور آگ کے پاس جا کر بیٹھا دیا۔ کچھ دیرآرام کر کے بوڑھا بولا۔ ’’بیٹا میں بہت دور سے آ رہا ہوں۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ابراہیم نے جلدی سے کھانا تیار کروایا اور جب کھانے کا وقت ہوا تو اپنے قاعدے کے مطابق ابراہیم نے دعا کی۔ اس دعا کو اس کے بیوی بچوں نے اس کے پیچھے کھڑے ہوکر دہرایا۔ابراہیم نے دیکھا وہ بوڑھا چپ چاپ بیٹھا ہے۔ اس پر اس نے بوڑھے سے پوچھا۔’’کیا تم ہمارے مذہب میں یقین نہیں رکھتے؟ تم نے ہمارے ساتھ دعا کیوں نہیں کی۔ ‘‘

    بوڑھا بولا۔ ’’ہم لوگ آ گ کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘ اتنا سن کر ابراہیم غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اس نے کہا۔

    ’’اگر تم ہمارے خدا میں یقین نہیں رکھتے اور ہمارے ساتھ دعا بھی نہیں کرتے تو اسی وقت ہمارے گھر سے باہر نکل جاؤ۔‘‘

    ابراہیم نے اسے کھانا دیئے بغیر ہی گھر سے باہر نکال دیا اور دروازہ بند کرلیا۔ مگر دروازہ بند کرتے ہی کمرے میں اچانک روشنی پھیل گئی اورایک فرشتے نے ظاہر ہو کر کہا۔ ابراہیم یہ تم نے کیا کیا ؟ یہ غریب بوڑھا سو سال کا ہے، خدا نے اتنی عمر تک اس کی دیکھ بھال کی اور ایک تم ہو جو اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھتے ہو اس پر بھی اسے ایک دن کھانا نہیں دے سکے، صرف اس لئے کہ اس کا مذہب تمہارے مذہب سے الگ ہے۔ دنیا میں مذہب چاہے بے شمار ہوں۔ لیکن خدا سب کا سچا خالق ہے اور سب کا وہی ایک مالک ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر فرشتہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ابراہیم کو اپنی غلطی معلوم ہوئی اور وہ بھاگا بھاگا اس بوڑھے کے پاس پہنچا اور اس بوڑھے بزرگ سے معافی مانگی۔ بوڑھے نے اسے معاف کرتے ہوئے کہا۔’بیٹا اب تو تم سمجھ گئے ہوگے کہ خدا سب کا ایک ہے۔‘‘

    یہ سن کر ابراہیم کو بہت تعجب ہوا کیونکہ یہی بات اس سے فرشتے نے بھی کہی تھی۔

    (فرانس کی ایک لوک کہانی جسے اردو میں نیرا سکسینہ نے ڈھالا)

  • پہاڑی پر جلتی آگ

    لوگوں کا کہنا ہے کہ پرانے زمانے میں ادیس ابابا کے شہر میں ارہا نامی ایک نوجوان رہا کرتا تھا۔ وہ لڑکپن میں گاؤں سے شہر چلا آیا تھا۔ اور ایک مال دار تاجر ہسپٹم ہسیائی کے ہاں ملازم ہو گیا تھا۔

    ہسپٹم ہسیائی اتنا مال دار تھا کہ اس نے وہ تمام چیزیں خرید لی تھیں جو دولت خرید سکتی تھی۔ اس کا دل زندگی کی عیاشیوں سے بھر چکا تھا اسی لیے کبھی کبھار وہ اپنی زندگی میں بوریت محسوس کرنے لگتا۔

    ایک سرد رات جب چاروں طرف ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چل رہے تھے ہسپٹم نے ارہا کو حکم دیا کہ وہ آگ جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کر کے لائے۔ جب ارہا آگ جلا چکا تو ہسپٹم گویا ہوا، ایک انسان کتنی سردی برداشت کر سکتا ہے؟ وہ اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک انسان انٹوٹو کی پہاڑی کی چوٹی پر تمام رات بغیر کمبل، کپڑوں اور آگ کے گزارے اور نہ مرے؟

    مجھے خبر نہیں، ارہا بولا، لیکن کیا وہ بے وقوفی کی بات نہ ہوگی؟

    شاید اگر انسان کو اس کا اجر نہ ملے۔ لیکن میں شرط لگانے کے لیے تیار ہوں، مجھے یقین ہے کہ ایک ہمت والا انسان پہاڑی کی چوٹی پر رات بھر کھڑا رہ سکتا ہے لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے میرے پاس شرط لگانے کو کچھ نہیں۔ ہسپٹم بولا، اگر تمہیں یقین ہے کہ انسان ایسا کرسکتا ہے تو میں تمہارے ساتھ شرط لگانے کو تیار ہوں۔ اگر تم ساری رات انٹوٹو کی چوٹی پر بغیر کپڑوں اور آگ کے گزار دو تو میں تمہیں دس ایکڑ زمین، ایک گھر اور مویشی انعام کے طور پر دوں گا۔

    کیا تم مذاق کر رہے ہو یا سنجیدہ ہو؟ ارہا کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں جو وعدہ کرتا ہوں اسے پورا بھی کرتا ہوں۔ ہسپٹم بولا اگر ایسا ہی ہے تو میں کل رات قسمت آزماؤں گا اور پھر ساری عمر آرام کرتا رہوں گا۔

    ارہا وعدہ تو کر بیٹھا لیکن بہت پریشان تھا۔ اسے اپنی جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ پہاڑی کی چوٹی پر رات گزارنا بچوں کا کھیل نہ تھا اور اس سردی میں زندہ رہنا معجزے سے کم نہ تھا۔ ارہا اس شہر میں ایک مردِ جہاندیدہ کو جانتا تھا جو بہت دانا تھا۔ وہ اس دانا مرد سے ملنے گیا۔ بوڑھے شخص نے ارہا کی باتیں اور شرط سنی اور کہنے لگا، میں تمہاری مدد کروں گا۔ انٹوٹو کی پہاڑی سے چند میل دور ایک اونچی چٹان ہے جو انٹوٹو کی پہاڑی کی چوٹی سے نظر آتی ہے۔ کل شام جب سورج غروب ہوگا تو میں اس چٹان پر آگ جلاؤں گا تا کہ تمہیں وہ انٹوٹو کی چوٹی سے نظر آئے۔ تم تمام رات اس آگ کو دیکھتے رہنا اور اس کی گرمی، حرارت اور میرے بارے میں، جو تمہارا دوست ہے، سوچتے رہنا۔ میں تمہاری خاطر آگ کے قریب ساری رات بیٹھا رہوں گا۔ اگر تم سردی اور تاریکی کے باوجود یہ کام کر سکے تو صبح بھی زندہ سلامت پائے جاؤ گے۔

    ارہا نے بڑی گرم جوشی سے اس بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور ہلکے دل سے گھر چلا گیا۔ اگلے دن ہسپٹم نے سہ پہر کو ارہا کو اپنے ملازموں کے ہمراہ انٹوٹو کی چوٹی پر بھیج دیا۔ جونہی رات آئی ارہا نے کپڑے اتار دیے اور پہاڑی کی چوٹی پر ٹھنڈی ہوا میں برہنہ کھڑا ہو گیا۔ وادی کی دوسری طرف ارہا کو وہ آگ نظر آئی جو اس کے بزرگ دوست نے اس کے لیے جلا رکھی تھی۔ وہ آگ تاریکی میں ایک ستارے کی طرح جل رہی تھی۔

    جوں جوں رات گہری ہوتی گئی ٹھنڈک ارہا کے گوشت پوست سے گزرتی ہوئی اس کی ہڈیوں تک پہنچ گئی۔ پہاڑ کی چوٹی برف کی طرح سرد ہو گئی۔ ہر گھنٹہ وہ بے حس ہوتا گیا۔ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ اسے ڈر لگنے لگا کہ وہ سردی سے مر جائے گا لیکن اس نے آگ سے اپنی توجہ نہ ہٹائی اور سوچتا رہا کہ اس کا بزرگ دوست اس کی ہمت بندھا رہا ہے۔

    کبھی کبھار دھند چند لمحوں کے لیے آگ کے شعلے کے آگے آ جاتی لیکن وہ اس وقت تک گھورتا رہتا جب تک دھند چھٹ نہ جاتی اور اسے آگ دوبارہ نظر آنے لگتی۔ ساری رات وہ سردی سے کانپتا، کھانستا اور ٹھٹھرتا رہا لیکن اپنی جگہ پر ثابت قدم رہا۔ جب صبح طلوع ہوئی تو وہ کپڑے پہن کر پہاڑی کی چوٹی سے نیچے اترا۔

    ہسپٹم ارہا کو زندہ دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ اس نے نوکروں سے سوال کیا۔ کیا ارہا ساری رات کپڑوں اور آگ کے بغیر کھڑا رہا؟

    ہاں، سب نوکروں نے مل کر جواب دیا۔ تم بہت دلیر آدمی ہو، ہسپٹم نے ارہا کی عظمت کا اقرار کیا۔

    لیکن یہ بتاؤ کہ تم نے یہ سب کچھ کیا کیسے؟

    میں ساری رات ایک چٹان پر جلتی آگ پر اپنی توجہ مرکوز کیے رہا۔

    کیا کہا تم نے۔ تم آگ کو دیکھتے رہے۔ تم شرط ہار گئے۔ تم اب میرے نوکر ہی رہو گے۔ تمہیں کوئی انعام نہ ملے گا، لیکن وہ آگ تو بہت دور تھی۔ وہ وادی کے دوسری طرف تھی۔ مجھ تک اس کی حرارت بالکل نہیں آئی۔

    نہیں میں کچھ نہیں مانتا، تم شرط ہار گئے۔ تمہیں اس آگ نے زندہ رکھا۔ ارہا بہت رنجیدہ ہوا۔ وہ اپنے بوڑھے دوست کے پاس گیا اور اسے ساری کہانی سنائی۔

    تم یہ معاملہ شہر کے قاضی کے پاس لے جاؤ، بوڑھے دوست نے مشورہ دیا۔
    ارہا شہر کے قاضی کے پاس گیا اور شکایت کی۔ قاضی نے ہسپٹم اور اس کے نوکروں کو عدالت میں طلب کیا۔ جب ہسپٹم نے اپنی کہانی سنائی اور نوکروں نے کہا کہ ارہا دور چٹان پر جلتی آگ کو ساری رات دیکھتا رہا تو قاضی بولا، ارہا تم شرط ہار گئے۔ ہسپٹم نے یہ شرط لگائی تھی کہ تم آگ کے بغیر رات گزارو گے۔

    ارہا ایک دفعہ پھر مایوس ہوا اور اپنے بوڑھے دوست کے پاس مشورہ کرنے گیا اور کہنے لگا کہ اس کی ساری محنت اکارت گئی۔ اس کی قسمت میں ہی نوکروں کی سی زندگی گزارنا ہے۔

    امید کا سہارا نہ چھوڑو، دانا دوست نے کہا۔ شہر کی عدالتوں سے زیادہ تو جنگلوں میں انصاف پایا جاتا ہے۔

    بوڑھا شخص اٹھا اور ہائلو نامی شخص کے پاس پہنچ گیا۔ یہ وہ آدمی تھا جس کے گھر میں وہ لڑکپن میں نوکروں کی طرح کام کیا کرتا تھا۔ اس نے ہائلو کو ارہا کی درد بھری کہانی سنائی اور مدد چاہی۔

    ہائلو بھی ایک دانا انسان تھا۔ اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا، تم فکر نہ کرو میں اس مسئلے کا حل نکالوں گا۔

    چند دن کے بعد ہائلو نے ایک شان دار دعوت کا انتظام کیا اور شہر کے تمام رؤسا کو دعوت دی۔ اس دعوت میں ہسپٹم اور قاضی بھی مدعو تھے۔

    دعوت کے دن سب امیر شاندار لباس میں ملبوس اپنے گھوڑوں اور خچروں پر سوار ہو کر آئے جب کہ ان کے نوکر ان کے پیچھے پیچھے پیدل چل رہے تھے۔ ہسپٹم بھی بیس ملازموں کے ساتھ آیا۔ انہوں نے ہسپٹم کے سر پر ریشمی چھتری تانی ہوئی تھی تاکہ اسے دھوپ کی شدت کا احساس نہ ہو۔ اس کی سواری کے آگے چار نوکر ڈھول بجا کر اس کی آمد کی خبر دے رہے تھے۔

    سب مہمان ریشمی قالینوں پر بیٹھ کر گپیں لگانے لگے۔ باورچی خانے سے لذیذ کھانوں کی خوشبو آنے لگی۔ اس خوشبو نے مہمانوں کی بھوک کو اور تیز کر دیا۔ وقت گزرتا گیا لیکن کھانا نہ آنا تھا نہ آیا۔ صرف کھانے کی خوشبو آتی رہی۔ جب شام ہو گئی تو مہمانوں میں آپس میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ وہ حیران تھے کہ ان کا معزز میزبان اتنی دیر کیوں کر رہا ہے۔

    آخر ایک مہمان نے سب کی طرف سے ہائلو سے پوچھا۔ اے میزبان! تم ایسا کیوں کر رہے ہو۔ ہمیں گھر بلا کر بھوکا رکھ رہے ہو۔

    کیا آپ لوگوں کو کھانے کی خوشبو نہیں آ رہی؟ ہائلو نے حیرانی سے پوچھا۔

    ہاں آرہی ہے، لیکن خوشبو کا کھانے سے کیا تعلق۔ خوشبو میں غذائیت تو نہیں ہوتی۔

    تو کیا ایسی آگ میں تپش ہوتی ہے جو میلوں دور جل رہی ہو۔ اگر ارہا دور سے آگ کو دیکھ کر گرم رہ سکتا ہے تو آپ لوگ بھی باورچی خانے سے آنے والی خوشبو سے غذائیت حاصل کر سکتے ہیں۔

    لوگوں کو ہائلو کا اشارہ سمجھ میں آ گیا۔ قاضی کو اپنے فیصلے پر ندامت ہوئی اور ہسپٹم بھی اپنے کیے پر شرمسار ہوا۔ اس نے ہائلو کا شکریہ ادا کیا اور اعلان کیا کہ ارہا کو زمین، گھر اور مویشی مل جائیں گے۔

    اس فیصلے کے بعد ہائلو نے نوکروں کو حکم دیا اور مہمانوں کے آگے لذیذ کھانے پیش کیے گئے۔

    (مترجم: ڈاکٹر خالد سہیل)

  • صدیوں پرانی داستانوں‌ کے کردار آج بھی ‘زندہ’ ہیں!

    صدیوں پرانی داستانوں‌ کے کردار آج بھی ‘زندہ’ ہیں!

    ساری دنیا کے ادب کی بنیاد لوک ادب ہے۔ لوک گیت اور کہانیاں صدیوں سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔ یہ داستانیں ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی رہی ہیں اور بہت بعد میں‌ انسان نے تحریری شکل میں‌ محفوظ کیا۔ آج ہمارے پاس کئی کتابیں‌ ہیں جن میں دنیا بھر کی قدیم لوک کہانیاں اور ایسی داستانیں محفوظ ہیں جو مختلف ادوار میں‌ مشہور ہوئیں۔

    لوک کہانیاں چاہے مغرب کی ہوں یا مشرق کی، ان سب میں جنوں، بھوتوں اور پریوں کے قصے، خیر اور شر کی کشمکش اور انجام کے علاوہ نیکی اور بدی کے دیوتاؤں کے مابین تصادم کی داستانیں شامل ہیں۔ یہ لوک ادب بچوں کو بالخصوص حق اور سچ کے لیے، برائی سے نفرت اور بدی کی طاقت کو انجام تک پہنچانے کے لیے جان کی بازی لگا دینے والے سورماؤں اور بہادروں سے واقف کراتا ہے۔ ان کہانیوں میں پہاڑوں کی بلندیاں اور سمندر کی گہرائی ان کرداروں کی راہ میں زیادہ دیر حائل نہیں رہتے اور ثابت قدمی اور لگن سے جیت کا پیغام دیتی ہیں۔ ان کتھاؤں کی بنیاد سچائی اور انسان دوستی ہوتی ہے۔

    آج دنیا کے بڑے بڑے شہنشاہوں کے نام اور ان کی عظیم الشان اور وسیع سلطنت کے تذکرے تاریخ کی کتابوں میں بند ہیں، لیکن لوک کہانیوں کے نیک اور رحم دل بادشاہ اور سورما ان گنت لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں جو لوک ادب کا کمال ہے۔کسی بھی علاقے یا ملک کی لوک کہانیوں کو سمجھنے کے لیے اس علاقے کے رسم و رواج، تاریخ و ثقافت، سماج اور مذہب کو سمجھنا پڑتا ہے۔ لوک کہانیوں میں سب سے زیادہ جادوئی، سحر میں جکڑنے والی الف لیلہ ہزار داستان ہے۔ یہ لوک کہانیوں کا سب سے ضخیم ترین مجموعہ ہے۔ عرب دنیا کی الف لیلہ کی ہر کہانی داستان گوئی کا ایک شاہکار ہے اور ہر ملک کی زبان میں‌ ترجمہ ہوکر مقبول ہوئی ہے۔

    الف لیلہ کی پہلی کہانی کا آغاز بادشاہ شہریار اور اس کے بھائی شاہ زمان سے ہوتا ہے۔ اس کا سب سے اہم اور کلیدی کردار ملکہ شہر زاد ہے۔ شہر زاد ہر روز بادشاہ کو ایک نئی کہانی سُنا کر اپنی موت کے آخری فرمان کو ٹالتی ہے۔ اس کی ہر کہانی منفرد نوعیت کی ہوتی ہے۔ ان میں جنوں، بھوتوں، پریوں سمیت ہر شعبے کے لوگوں کا ذکر ہوتا ہے اور یہ سب نہایت دل چسپ اور تحیر خیز ہوتا ہے جو بادشاہ کو گویا اس کے ارادے سے باز رکھتا ہے۔ اسی طرح الہ دین کی کہانی نے جادوئی چراغ کے جن کو اس قدر مقبولیت عطا کی کہ آج تک اس پر کئی فلمیں، ڈرامے اور کارٹون بن چکے ہیں۔ علی بابا کا کردار اور چالیس چوروں کی کہانی بھی ایک خوب صورت ماجرا ہے جسے آج بھی نہایت دل چسپی اور شوق سے پڑھا اور دیکھا جاتا ہے۔ یہ لالچ کے مقابلے میں‌ خیر کی ایک داستان ہے۔

    لوک کہانیاں چھوٹے بچوں یا نوعمروں کے لیے تو دل چسپی کا باعث ہوتی ہی ہیں، لیکن بڑے بوڑھے بھی ان میں‌ کم دل چسپی نہیں‌ لیتے۔ یہ وہ ادب ہے جو ہر معاشرے میں اور ہر طبقہ ہائے سماج میں‌ سب سے زیادہ مقبول ہوتا ہے۔

  • سنہری مچھلی اور آبِ حیات

    سنہری مچھلی اور آبِ حیات

    صدیوں پہلے کی بات ہے ملک اطالیہ میں ایک دریا کے کنارے بسے گاﺅں میں ڈیوڈ اور سیموئیل نامی دو بھائی رہتے تھے جو طاقت ور اور خوبرو تھے، لیکن غریب تھے۔

    اکثر ان کے پاس سوائے اس مچھلی کے، کھانے کو کچھ بھی نہ ہوتا جسے وہ دریا سے پکڑ کر لاتے۔ ایک روز وہ بغیر کچھ کھائے طلوعِ آفتاب کے وقت سے ہی دریا میں‌ ڈور ڈالے بیٹھے تھے۔ دن گزرتا رہا اور یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا اور پھر دریا میں غروب ہونے کو آیا مگر ان کے ہاتھ کچھ نہ لگا۔ وہ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اپنی مچھلی پکڑنے کی ڈور سمیٹیں، گھر جائیں اور سو جائیں کہ بڑے بھائی نے محسوس کیا، اس کی ڈور ہل رہی ہے۔ اور جب انہوں نے اسے باہر کھینچا تو اس کے کانٹے پر ایک ننھی سی سنہری مچھلی اٹکی ہوئی تھی۔

    ”کیا بدبختی ہے۔ اتنی ننھی مُنی سی مچھلی!“ ڈیوڈ چلّایا، ”خیر کچھ نہ ہونے سے تو بہتر ہے، میں اسے روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑوں کے ساتھ ابالوں گا اور ہم رات کے کھانے میں اسے کھائیں گے۔“

    ”اوہ، نہیں مجھے مت مارو!“ مچھلی نے دہائی دی۔ ”میں تمہارے لیے خوش قسمت ثابت ہو سکتی ہوں، واقعی میں ایسا کر سکتی ہوں۔“

    ”تم احمق ہو!“ وہ چلّایا، ”میں نے تمہیں پکڑ لیا ہے، اور میں تمہیں کھاﺅں گا۔“
    لیکن اس کے بھائی سیموئیل کو مچھلی پر ترس آ گیا اور اس کی حمایت میں بولا؛
    ”اِس ننھی سی جان کو زندہ رہنے دو۔ یہ تو ایک لقمے کے برابر بھی نہیں۔ اور ہمیں کیا پتہ کہ وہ ٹھیک ہی کہہ رہی ہو اور ہم اس کی لائی خوش قسمتی کو ٹھکرا رہے ہوں! اسے دریا میں چھوڑ دو۔ یہی مناسب ہے۔“

    مچھلی بولی، ”اگر تم مجھے زندہ رہنے دو گے تو کل صبح تمہیں دریا کے کنارے دو شان دار گھوڑے، جن پر عمدہ اور عروسی کاٹھیاں پڑی ہوں گی ملیں گے اور تم دو سورماﺅں کی طرح مہم جوئی کے لیے دنیا بھر میں جا سکو گے۔“

    ”پیارے بھائی، یہ سب بکواس ہے۔“ ڈیوڈ چھوٹے سے مخاطب ہوا۔ ” ہمارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ مچھلی سچ بول رہی ہے اور اس کی بات پوری ہوگی۔“

    سیموئیل مچھلی کی حمایت میں پھر بولا؛ ”بھائی! اسے زندہ رہنے دو۔ تمہیں پتہ ہی ہے کہ اگر اس نے جھوٹ بولا تو ہم اسے کبھی نہ کبھی دوبارہ بھی پکڑ سکتے ہیں۔ اس کی کہی بات پر ایک بار اعتبار کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔“

    ان کے درمیان دیر تک بحث ہوتی رہی اور آخر کار ڈیوڈ مان گیا اور اس نے مچھلی کو دریا میں واپس ڈال دیا۔ اس رات وہ دونوں کچھ کھائے بغیر ہی سوئے اور رات بھر خوابوں میں انہیں یہی خیال آتا رہا کہ اگلا دن ان کے لیے کیا انہونی لے کر آرہا ہے۔

    وہ سورج کی پہلی کرن پھوٹتے ہی جاگ گئے۔ اور پھر اگلے کچھ ہی منٹوں میں وہ دریا کے کنارے پر موجود تھے۔ وہاں، جیسا کہ ننھی سنہری مچھلی نے کہا تھا، دو زبردست، توانا سفید گھوڑے کھڑے تھے جن پر سجیلی کاٹھیاں پڑی تھیں اور ان پر دو زرہ بکتر اور ان کے نیچے پہننے والے لباس بھی پڑے تھے۔ پاس ہی دو تلواریں، زادِ راہ کے طور پر کچھ چیزیں اور سونے کے سکّوں سے بھرے دو بٹوے بھی تھے۔ یہ سب واقعی ان کے لیے انہونی سے کم نہیں‌ تھا۔

    ”دیکھا بھائی۔“ سیموئیل نے کہا، ”کیا آپ اب شکر گزار نہیں ہیں کہ آپ نے مچھلی کو نہیں کھایا؟ وہ واقعی ہمارے لیے خوش قسمت ثابت ہوئی ہے اور ہم یہ نہیں جانتے کہ ہم کیا بننے والے ہیں۔ اب ہمیں اپنی اپنی مہم پر نکلنا چاہیے۔ اگر آپ ایک راستہ اختیار کریں گے تو میں دوسرے پر جاﺅں گا۔“

    ”ٹھیک ہے۔“ ڈیوڈ نے جواب دیا۔ ”لیکن ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ ہم دونوں زندہ اور صحیح سلامت ہیں۔“

    ”بھائی، کیا آپ سامنے انجیر کا درخت دیکھ رہے ہیں؟“ اس نے کہا، ”ہمیں یہ کرنا ہو گا کہ ہم اس درخت کے پاس آئیں اور اس کے تنے پر تلوار سے ایک گھاﺅ لگائیں۔ اگر اس سے دودھ رِسا تو ہم جان لیں گے کہ ہم ٹھیک ٹھاک ہیں اور خوش حال ہیں لیکن اگر اس میں سے خون نکلا تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ہم میں سے ایک مر چکا یا اس کی جان سخت خطرے میں ہے۔“

    اس کے بعد دونوں بھائیوں نے اپنی اپنی زرہ بکتر پہنی، سونے کے سکّوں سے بھری چرمی تھیلیاں اور تلواریں کمر پر باندھیں، زادِ راہ لادا، ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور پھر گھوڑوں پر بیٹھ کر گاﺅں کے چوراہے تک تو ساتھ ساتھ گئے لیکن پھر ڈیوڈ دائیں طرف مڑ گیا اور سیموئیل نے بائیں کو منہ کیا اور آگے بڑھ گیا۔

    ڈیوڈ گھوڑا دوڑاتا ایک اجنبی مملکت کی سرحد پر جا پہنچا۔ اس نے سرحد پار کی اور خود کو ایک بڑے دریا کے کنارے پایا۔ اس نے دیکھا کہ دریا کے بیچوں بیچ ایک ننھے سے جزیرے پر ایک خوبصورت لڑکی ایک چٹان کے ساتھ زنجیروں میں جکڑی بیٹھی زار و قطار رو رہی تھی۔ ڈیوڈ نے اِدھر اُدھر دیکھا تو اسے ساری زمین ایسے جلی ہوئی دکھائی دی جیسے کسی نے اس پر آگ برسائی ہو؛ جلی ہوئی گھاس، ٹنڈ منڈ سوختہ درخت، یہاں تک کہ آگ کی حدّت اور تپش سے دریا کے کنارے پر موجود ریت بھی پگھلی ہوئی معلوم ہورہی تھی۔

    اس نے لڑکی سے اونچی آواز میں پوچھا؛ ”تم کون ہو اور تمہیں یہاں کس نے باندھ کر رکھا ہوا ہے اور تم رو کیوں رہی ہو۔“

    لڑکی نے روتے ہوئے اسے بتایا؛ ”میں اس ملک کے بادشاہ کی بیٹی ہوں۔ اس دریا میں ایک سات سَروں والا اژدہا رہتا ہے جو اپنے ہر نتھنے سے آگ برساتا ہے۔ اسے اس سے باز رکھنے کے لیے میرے والد کو ہر روز کھانے کے لیے ایک جوان دوشیزہ کی بلی دینی پڑتی ہے۔ اس نے میرے باپ کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ اس ساری مملکت کو جلا کر راکھ کر دے گا۔ یہ سلسلہ عرصے سے جاری ہے اور اب اس ملک میں کوئی جوان لڑکی نہیں بچی، اس لیے میرے والد نے بے بس ہو کر مجھے ہی اس کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ میں اس لیے رو رہی ہوں کہ جیسے ہی اس اژدہے کو بھوک لگی، وہ آئے گا اور مجھے کھا جائے گا۔“

    ”میں کوشش کرتا ہوں کہ وہ تمہیں نہ کھا پائے۔“ ڈیوڈ نے اسے دلاسا دیا۔

    ”نہیں، نہیں، یہاں مت رکو، ورنہ وہ تمہیں بھی ہڑپ کر جائے گا۔“ ، شہزادی تڑپ کر بولی۔

    ”نہیں لڑکی، میں یہیں رہوں گا۔“ ڈیوڈ بولا، ”اور تمہیں بچانے کی کوشش کروں گا۔“

    ”یہ ممکن نہیں ہے۔ اسے آج تک کوئی نہیں مار سکا حالانکہ میرے والد نے یہ اعلان بھی کروایا تھا کہ جو کوئی بھی اسے مارے گا، اس سے میری شادی کر دی جائے گی۔ تم اس خوف ناک بلا کو نہیں جانتے۔ یہ پہلے بھی بہت سے خوبرو جوانوں کو جو میرے ساتھ شادی کے لالچ میں اسے مارنے آئے تھے ہلاک کر چکی ہے۔“

    ”لیکن میں تو تم سے شادی کے لالچ میں یہاں نہیں آیا۔“

    ”ٹھیک ہے لیکن پھر بھی تم یہاں سے چلے جاﺅ تاکہ تم پر کوئی مصیبت نہ آئے۔“

    ”لیکن میں تمہیں یوں مصیبت میں گھرا چھوڑ کر بھی تو نہیں جا سکتا۔ تم مجھے بس اتنا بتاﺅ کہ سات سَروں والا یہ اژدہا کس طرف سے آئے گا؟“

    ”وہ دریا کی پاتال سے اوپر ابھرے گا۔ ویسے اگر تم نے مجھے بچانے کا تہیہ کر ہی لیا ہے تو میرا مشورہ مانو، ایک طرف ہٹ کر اس بڑے پتھر کی اوٹ میں چلے جاﺅ جو تمہارے دائیں ہاتھ ہے۔ جب اژدہا اوپر ابھرے گا تو میں اس سے کہوں گی، ’اے اژدہے تم آج دو انسانوں کو کھا سکتے ہو۔ پہلے تم پتھر کی اوٹ میں چھپے جوان کو کھا لو۔ مجھے تو تم کسی وقت بھی کھا سکتے ہو، کیونکہ میں تو زنجیروں میں بندھی ہوں۔‘ یہ سن کر وہ یقیناً تمہاری طرف لپکے گا۔“

    ڈیوڈ پتھر کی اوٹ میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے دریا میں تلاطم کی آواز سنی۔ اس نے دیکھا کہ ایک بڑی سات سَروں والی بلا اس طرف بڑھی جہاں شہزادی چٹان کے ساتھ بندھی تھی۔ وہ بھوکی تھی اور جلد ہی کچھ کھانا چاہتی تھی۔ شہزادی چلّا کر بولی ”اے اژدہے تم آج دو لوگوں کو کھا سکتے ہو۔ پہلے تم پتھر کی اوٹ میں چھپے جوان کو کھا لو، کہیں وہ بھاگ نہ جائے۔ مجھے تو تم کسی وقت بھی کھا سکتے ہو، کیونکہ میں تو زنجیر میں جکڑی ہوئی ہوں۔“

    یہ سن کر اژدہا منہ کھولے ڈیوڈ کی طرف بڑھا تاکہ ایک ہی بار اسے ہڑپ کر لے۔ ڈیوڈ نے اچھلتے ہوئے میان سے تلوار نکالی اور تب تک اژدہے سے لڑتا رہا جب تک اس نے اس کے ساتوں سر قلم نہ کر لیے۔ اژدہا جب مر گیا تو اس نے شہزادی کو آزاد کیا۔ شہزادی نے اسے کہا؛

    ”اب جب کہ تم نے بلا کو مار دیا اور مجھے بچا بھی لیا ہے تو تم میرے والد کے اعلان کے مطابق میرے خاوند بنو گے۔ چلو محل چلتے ہیں۔“

    ”لیکن میں تو ابھی تم سے شادی نہیں کر سکتا کیونکہ میں نے ابھی دنیا میں اور بھی گھومنا پھرنا ہے۔ لیکن اگر تم میرا سات سال اور سات مہینے تک انتظار کر سکو تو ہماری شادی ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر تب تک میں واپس نہ آﺅں تو تم کسی کے ساتھ بھی شادی کر سکتی ہو۔ میں بلا کی ساتوں زبانیں کاٹ کر ساتھ رکھ لیتا ہوں کہ بھول جانے کی صورت میں، تم انہیں دیکھ کر پہچان لو کہ یہ میں ہی تھا جس نے اژدہے کو ہلاک کیا تھا۔“

    یہ کہہ کر ڈیوڈ نے عفریت کی ساتوں زبانیں کاٹیں، انہیں شہزادی کے دیے دو شالے میں لپیٹا، کاٹھی کے ساتھ لٹکایا، گھوڑے پر سوار ہوا اور وہاں سے روانہ ہو گیا۔

    اسے گئے ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ وہاں بادشاہ کے دیوانِ خاص کا بیٹا پہنچا، شہزادی ابھی اپنے حواس بحال کر رہی تھی۔ اُسے بادشاہ نے یہ دیکھنے کے لیے بھیجا تھا کہ اس کی بیٹی پر کیا بیتی تھی۔ اس نے جب شہزادی کو اپنے سامنے محفوظ اور آزاد پایا جس کے قدموں میں اژدہا مرا پڑا تھا تو اس کے دل کو بدنیتی نے گھیرا اور اس نے شہزادی سے کہا؛ ”تم اپنے والد سے جا کر کہوگی کہ یہ میں ہی ہوں جس نے اژدہے کو مارا اور تمہیں بچایا ہے۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا اور یہیں اژدہے کے ساتھ زمین میں گاڑ دوں گا۔ اور کوئی نہیں جان پائے گا کہ تمہیں اژدہے نے کھایا یا میں نے تمہاری جان لی۔“

    بیچاری شہزادی کیا کرتی؟ اب تو ڈیوڈ سا سورما بھی جا چکا تھا جو اس کی مدد کرتا۔ اسے دیوانِ خاص کے بیٹے کی بات ماننے کے سوا اور کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ اس نے اس کی بات مان لی۔ دیوان خاص کے بیٹے نے بلا کے ساتوں سر کاٹے اور انہیں لیے شہزادی کے ہمراہ بادشاہ کے پاس چلا گیا۔

    بادشاہ اپنی بیٹی کو زندہ دیکھ کر خوش ہوا۔ ملک بھر میں جشن کا سماں بندھا۔ ایک شاہی تقریب میں دیوان خاص کے بیٹے نے سب کو بتایا کہ اس نے کس طرح دریائی بلا کو مارا اور شہزادی کو بچا لیا۔ اس پر بادشاہ نے اعلان کیا کہ وہ اسے اپنا داماد بنا رہا ہے۔

    شہزادی جو ڈیوڈ کی بہادری کی قائل ہو چکی تھی اور اپنا دل بھی اس کو دے بیٹھی تھی اس نے اپنے والد کی منت سماجت کی کہ وہ اس شادی کو سات سال اور سات ماہ کے لیے ملتوی کر دے۔ پہلے تو بادشاہ نہ مانا۔ دیوانِ خاص اور اس کے بیٹے نے بھی بادشاہ سے احتجاج کیا۔ شہزادی بہرحال اپنے موقف پر ڈٹی رہی جس پر بادشاہ نے بیٹی کی بات مان لی۔

    اُدھر ڈیوڈ دنیا بھر کی سیر کرتا کئی اور معرکے سر کرتا رہا اور پھر ایک روز شہزادی کے دیس لوٹا۔ سات سال اور سات مہینے کا عرصہ ختم ہونے میں ایک دن ہی بچا تھا۔ محل میں شادی کی تیاریاں ہو رہیں تھیں۔ وہ بادشاہ کے سامنے گیا اور بولا: ”بادشاہ سلامت! مجھے آپ کی بیٹی کا ہاتھ چاہیے کیونکہ یہ میں ہی ہوں جس نے سات سروں والی دریائی بلا کو مارا تھا۔“

    بادشاہ اس کی بات سن کر غصے میں آیا اور بولا؛ ”تمہارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تم سچ کہہ رہے ہو؟“

    ڈیوڈ نے شہزادی کا دو شالہ کھول کر اس کے سامنے بچھا دیا جس میں سات سکڑی ہوئی زبانیں پڑی تھیں۔ بادشاہ نے بیٹی کی طرف دیکھا۔

    ”میرے پیارے بابا، یہ جوان سچ کہہ رہا ہے۔ اسی نے سات سروں والے اژدہے کو مارا تھا اور اس کی زبانیں کاٹی تھیں۔ کڑھائی والا دو شالہ میرا ہی ہے جو میں نے اسے زبانیں لپیٹنے کے لیے دیا تھا۔ یہی میرا خاوند بننے کے لائق ہے۔ میری یہ بھی التجا ہے کہ آپ دیوانِ خاص کے بیٹے کو بھی معاف کر دیں کہ اس پر شیطان غالب آ گیا تھا اور اس نے جھوٹ بولا تھا۔ میں نے اسی لیے آپ سے شادی ملتوی کروائی تھی کہ اصل سورما نے اسی مدت میں‌ لوٹنے کا وعدہ کیا تھا۔“

    ”اس مکاری کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ میں حکم دیتا ہوں کہ دیوانِ خاص کے بیٹے کا سر فوراً قلم کر دیا جائے۔ میں دیوانِ خاص کو اس کے عہدے سے بھی ہٹاتا ہوں اسے اور اس کے پورے خاندان کو بھی تا حیات پابند ِسلاسل رہنا ہو گا۔“ بادشاہ غضب ناک ہو گیا اور اس کے حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ڈیوڈ کی شادی شہزادی سے ہو گئی۔ یوں ڈیوڈ اس کے ساتھ بادشاہ کے محل کے پاس ہی ایک دوسرے محل میں ہنسی خوشی رہنے لگا۔

    ایک شام ڈیوڈ کھڑکی کے باہر دیکھ رہا تھا کہ اسے شہر سے دور پہاڑ پر ایک تیز روشنی چمکتی دکھائی دی۔

    ”یہ کیسی روشنی ہے؟“ اس نے بیوی سے پوچھا۔ اس کی بیوی نے ایک آہ بھری اور بولی،”اسے مت دیکھیں۔“ ”یہ اس مکان سے نکل رہی ہے جہاں ایک بہت ہی چالاک جادوگرنی رہتی ہے جسے آج تک کوئی بھی مار نہیں سکا۔“

    بہتر ہوتا کہ شہزادی اسے یہ نہ بتاتی کیونکہ اس کے الفاظ نے ڈیوڈ میں پھر سے یہ خواہش جگا دی تھی کہ وہ اپنی بہادری کو اس چالاک جادوگرنی کے خلاف آزمائے۔ اس رات ڈیوڈ کی خواہش اس کے دل و دماغ میں پلتی رہی اور جب صبح ہوئی تو وہ اپنی بیوی کے آنسوﺅں کی پروا نہ کرتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کر اس پہاڑ کی جانب روانہ ہو گیا۔

    فاصلہ اس کے اندازے سے کہیں بڑھ کر تھا۔ وہ اندھیرا ہونے تک پہاڑ کے دامن تک ہی پہنچ پایا۔ قلعہ نما مکان سے نکلنے والی روشنی نے آگے کا راستہ ایسے روشن کر رکھا تھا جیسے آسمان پر چمکتا چاند، رات میں راستے روشن کر دیتا ہے۔ وہ جب قلعے کے دروازے پر پہنچا تو اسے اس کی ہر کھڑکی سے روشنی پھوٹتی نظر آئی جس نے قلعے کے گرد ا گرد ایک شیطانی حصار بنا رکھا تھا۔ وہ اپنی تلوار کی مدد سے اس حصار کو چیرتا اندر داخل ہوا تو سامنے ایک وسیع کمرے میں ایک سیاہ آبنوسی کرسی پر ایک مکروہ بُڑھیا بیٹھی تھی۔ اس کی کرسی سیاہ تو تھی لیکن یہ نیلے شعلوں میں لپٹی ہوئی تھی۔

    ”آگے مت بڑھنا ورنہ میں اپنے سَر کے بالوں میں سے ایک بال توڑوں گی اور تم نیلی آگ کے ہاتھوں پتھر ہو جاﺅ گے۔“ وہ بولی۔

    ”کیا بکواس ہے!“ ڈیوڈ غصّے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، ” خاموش رہ بڑھیا، ایک بال میرا کیا بگاڑ سکتا ہے؟“اس نے کہا۔

    یہ سن کر بڑھیا نے اپنا ایک بال توڑا اور اسے ہوا میں ڈیوڈ کی طرف اچھالا۔ یہ نیلی آگ کے ایک تیر میں بدلا اور ڈیوڈ کی طرف لپکا۔ ڈیوڈ نے اسے اپنی تلوار سے کاٹنا چاہا لیکن اس کی تلوار چُوک گئی اور تیر اس کے کندھے سے ٹکرایا۔ ساتھ ہی اس کا کندھا ٹھنڈی آگ سے سرد ہوا اور پھر اس کے باقی کے اعضا اور جسم بھی وہیں منجمد ہو گیا۔

    یہی لمحہ تھا جب اس کا بھائی سیموئیل، جسے ڈیوڈ برسوں پہلے ایک موڑ پر چھوڑ آیا تھا، اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ اس سوچ میں غلطاں تھا کہ جب سے وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے، ڈیوڈ کیا کرتا رہا ہو گا اور کیا وہ خیریت سے ہے؟

    ”مجھے انجیر کے درخت کے پاس جانا چاہیے۔“ اس نے خود سے کہا، ”اور یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ کہیں وہ کسی مشکل میں گرفتار تو نہیں۔“
    وہ اٹھا، گھوڑے پر سوار ہوا اور صحراﺅں، میدانوں اور جنگلوں سے گزرتا انجیر کے درخت کے پاس پہنچا۔ اس نے اس کے تنے میں تلوار سے ایک گھاﺅ لگایا۔ گھاﺅ کا لگنا تھا کہ درخت سے درد بھرا ایک شور اٹھا اور چیرے سے خون ابل پڑا۔

    ”اوہ، میرا بھائی یا تو مر چکا ہے یا پھر اس کی جان خطرے میں ہے۔“ سیموئل غمگین ہوا اور چلّایا۔” اور کیا میں اس کی جان بر وقت بچا لوں گا؟“ اس نے چھلانگ لگائی، گھوڑے پر سوار ہوا اور گھوڑا سرپٹ دوڑنے لگا۔ کئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ خطِ استوا پار کرکے دنیا کے اس حصے میں داخل ہوا جہاں ایک ملک میں ڈیوڈ رہتا تھا۔ مزید کئی دن کے سفر کے بعد بالآخر وہ اس ملک کے دارلخلافہ میں پہنچ ہی گیا۔ وہ اس عالی شان گھر کے پاس سے گزرا جس میں ڈیوڈ اور اس کی بیوی رہتی تھی۔ وہ بالکونی میں بیٹھی رو رہی تھی کہ اس کی نظر سیموئیل پر پڑی۔ اسے لگا جیسے وہ ڈیوڈ ہو۔ اسے ایسا لگنا ہی تھا کیونکہ ڈیوڈ اور سیموئیل میں اتنی مشابہت تھی کہ اگر وہ دونوں ساتھ ساتھ کھڑے ہوتے تو یہ جاننا آسان نہ ہوتا کہ ان میں سے ڈیوڈ کون ہے اور سیموئیل کون۔ شہزادی کا دل خوشی سے دھڑکنے لگا۔ وہ نیچے اتری اور بولی: ” میری جان، تم بالآخر لوٹ ہی آئے۔ میں مدتوں سے تمہاری یاد میں آنسو بہا رہی ہوں!“

    جب سیموئیل نے یہ سنا تو اس نے خود سے کہا، ” تو یہ وہ جگہ ہے جہاں میرا بھائی رہتا تھا اور یہ عورت میری بھابی ہے۔“ لیکن وہ خاموش رہا اور شہزادی کو یہ ہی سمجھنے دیا کہ وہ اس کا خاوند تھا۔ شہزادی اسے بوڑھے بادشاہ کے پاس لے گئی جس نے اس کی واپسی کے جشن اہتمام کیا۔

    شہزادی جب بھی سیموئیل کے پاس جاتی اور اسے بانہوں میں لے کر اس سے پیار کرنا چاہتی تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے اسے خود سے الگ کر دیتا۔ وہ اس کے اس رویے پر پریشان ہوتی اور اسے سمجھ نہ آتی کہ سیموئیل جسے وہ اپنا خاوند سمجھتی تھی، اسے قریب کیوں نہیں آنے دیتا۔ اسی طرح کئی دن گزر گئے۔ اور پھر ایک روز جب وہ بالکونی میں کھڑا تھا تو اس نے پہاڑ پر وہی چمکتی ہوئی روشنی دیکھی جس کے پیچھے ڈیوڈ گیا تھا۔

    ”یہ روشنی کیسی ہے ؟“، اس نے شہزادی سے پوچھا۔
    ”اوہ، اسے مت دیکھو۔“ وہ چلائی ” کیا تم اس کے ہاتھوں پہلے ہی ایذا نہیں بھگت چکے؟ کیا تم اس بوڑھی چڑیل سے ایک بار اور لڑنا چاہتے ہو؟“ سیموئیل نے اپنی بھابی کے الفاظ پر غور کیا۔ اسے سمجھ آ گئی کہ اس کا بھائی کہاں تھا اور وہ کسی مصیبت میں گرفتار تھا۔ اگلی صبح وہ پَو پھٹنے سے پہلے ہی، جب شہزادی ابھی سو رہی تھی، اٹھا، گھوڑے پر سوار ہوا اورپہاڑ کی طرف چل دیا۔ پہاڑ اس کے اندازے کے برعکس خاصا دور تھا۔ راستے میں اسے ایک بوڑھا بونا ملا جس نے سیموئیل سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔

    اس نے بونے کو اپنی کہانی بتائی اور یہ بھی کہا؛ ”مجھے کسی نہ کسی طرح اپنے بھائی کو بچانا ہے۔ وہ یقیناً اس چالاک بوڑھی جادوگرنی کی کسی چال میں پھنسا ہوا ہے۔“

    ”میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔“ ، بوڑھے بونے نے کہا۔ ” اس جادوگرنی کی ساری طاقت اس کے بالوں میں ہے جیسے سیمسن کے بالوں میں تھی۔ سیمسن تو خیر نیک تھا اور لوگوں کی بھلائی کے لیے اور ظلم کے خلاف اپنی طاقت استعمال کرتا تھا لیکن یہ چڑیل نہایت خبیث اور ظالم ہے اور یہ لوگوں کو ایذا پہنچانے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ اسے اس کے انجام تک پہنچانا ضروری ہے۔ جب تم اس تک پہنچو تو فوراً جھپٹ کر اس کے بال قابو کر لینا اور پھر انہیں کسی طور بھی مت چھوڑنا بلکہ اسے مجبور کرنا کہ وہ تمہیں، تمہارے بھائی کے پاس لے جائے اور اسے اس کی زندگی لوٹائے۔“

    ”لیکن۔۔۔!“ سیموئیل نے کچھ پوچھنا چاہا۔ ”میری بات مت کاٹو اور دھیان سے سنو۔ اس نے یقیناً تمہارے بھائی کو پتھر کر دیا ہو گا۔ وہ ایسا ہی کرتی ہے۔ لیکن اس کے پاس اس کا توڑ بھی ہے۔ اس کے پاس آبِ حیات کی ایک صراحی ہے۔ یہ ہر طرح کے زخم، گھاﺅ ختم کر دیتا ہے اور اس میں اتنی طاقت ہے کہ یہ حق سچ کی خاطر مردوں کو بھی زندہ کر دیتا ہے۔ اور ہاں جب تمہارا بھائی بھلا چنگا ہو جائے تو جادوگرنی کا سَر قلم کرنا نہ بھولنا تاکہ دنیا اس کی بدی سے نجات پا سکے۔“ بونے نے اپنی بات مکمل کی۔

    سیموئیل نے بونے کو اس کے کہے پر عمل کرنے کا یقین دلایا اور اس کا شکریہ بھی ادا کیا۔ وہ پھر سے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا پہاڑ کی چوٹی کی طرف بڑھا اور قلعہ نما مکان کے دروازے پر پہنچا اور نیلی روشنی کے حصار کو اپنی تلوار سے چیرتا، سیڑھیاں پھلانگتا وسیع کمرے میں داخل ہوا۔ خوف ناک بوڑھی جادوگرنی اپنی سیاہ آبنوسی کرسی پر براجمان تھی۔ اس کے چہرے پر ایک چالاک مسکراہٹ آئی اور اپنی طرف بڑھتے سموئیل سے مخاطب ہوئی۔

    ”میں تمہیں اپنے ایک بال کے ذریعے ہی قابو کر کے پتھر کر سکتی ہوں۔“ اور پھر اس نے اپنا ایک بال توڑا اور اس کی طرف اچھالا، وہ نیلی آگ کے تیر میں بدلا اور سیموئیل کی طرف بڑھا۔ وہ جھکا اور اس تیزی سے جادو گرنی کی طرف لپکا کہ تیر دیوار سے ٹکرا کر نیچے گر گیا۔ اتنے میں سیموئیل نے جادوگرنی کو جا لیا اور اس کے بال مٹھی میں جکڑتے ہوئے بولا؛ ”مجھے بتاﺅ تم نے میرے بھائی کے ساتھ کیا کیا ورنہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا۔“

    اب جب وہ جادوگرنی اپنی طاقت کھو بیٹھی تھی تو چالاکی سے مسکرائی اور بولی؛
    ”میں تمہیں تمہارے بھائی کے پاس لے چلتی ہوں لیکن پہلے تم مجھے چھوڑو تو سہی۔ تم نے مجھے بری طرح جکڑ رکھا ہے۔“

    ”تمہیں یوں ہی آگے بڑھنا ہو گا۔“ سیموئیل نے اسے آگے دھکیلتے ہوئے کہا۔
    وہ سیموئیل کو لیے اس بڑے کمرے میں گئی جہاں بہت سارے پتھر کے مجسمے موجود تھے جو پہلے کبھی انسان رہے ہوں گے۔ جادوگرنی نے ایک کی طرف اشارہ کیا۔

    ” وہ رہا تمہارا بھائی۔“ سیموئیل نے مجسموں پر نگاہ دوڑائی اور بولا ”ان میں کوئی بھی میرا بھائی نہیں ہے۔“ جادوگرنی اسے اور مجسموں تک لے گئی اور اسے پھر ورغلانے کی کوشش کی۔ جادوگرنی کی یہ چالاکی اس کے کام نہ آئی اور بالآخر وہ اسے لیے وہاں پہنچی جہاں ڈیوڈ پتھر بنا فرش پر لیٹا تھا۔

    ”ہاں یہ میرا بھائی ہے۔ اب تم مجھے آبِ حیات کی صراحی دو، جس سے یہ پھر سے زندہ ہو سکے۔“ سیموئیل نے اس کے گلے پر تلوار کی نوک چبوتے ہوئے کہا۔
    جادوگرنی نے پاس پڑی ایک الماری کھولی جو بوتلوں اور صراحیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے ان میں سے ایک نکالی اور سیموئیل کو تھما دی۔ وہ اب بھی اس سے مکر کر رہی تھی اور اس نے ایسا کئی بار کیا لیکن جب اس نے یہ دیکھا کہ سیموئیل کسی طور بھی اس کے فریب میں نہیں آ رہا تو اس نے تنگ آ کر اسے آبِ حیات والی صراحی تھما دی۔ اس نے احتیاط سے ایک ہاتھ استعمال کرتے ہوئے صراحی سے چند قطرے اپنے بھائی کے منہ پر چھڑکے اور دوسرے سے جادوگرنی کے بال مضبوطی سے تھامے رکھے۔ جیسے ہی ڈیوڈ کے چہرے پر آبِ حیات کے قطرے گرے وہ زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ سیموئیل نے تلوار کے ایک ہی جھٹکے سے جادوگرنی کا سَر اڑا دیا۔

    ڈیوڈ اٹھا اور اس نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا، ”اوہ، میں کتنا عرصہ سویا رہا۔ میں کہاں ہوں؟“

    ”اس بوڑھی جادوگرنی نے تم پر سحر کر دیا تھا لیکن اب وہ مر چکی ہے، اب تم آزاد ہو۔ ہم اب اُن سب کو جگائیں گے جو اس جادوگرنی کے سحر میں گرفتار ہیں اور یہاں پڑے ہیں۔ پھر ہم یہاں سے چل دیں گے۔“ سیموئیل نے کہا۔

    دونوں بھائیوں نے مل کر باقی مجسموں پر آب ِ حیات چھڑکا۔ یوں وہ سارے سورما جو جادوگرنی کو مارنے آئے تھے پھر سے زندہ ہو گئے۔ وہ ڈیوڈ اور سیموئیل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی راہ پر چل دیے۔ ڈیوڈ نے صراحی جس میں ابھی آبِ حیات موجود تھا، اپنی صدری میں سنبھال لی۔ انہوں نے قلعے میں موجود ہیرے جواہرات سمیٹے اور واپسی کا سفر طے کرنے لگے۔

    راستے میں وہ ایک دوسرے کو اپنا حال سناتے رہے اور جب گھر کے نزدیک پہنچے تو اچانک سیموئیل نے کہا؛ ”بھائی تم بھی عجیب ہو۔ اپنی پیاری سی بیوی اور شان و شوکت والی زندگی کو چھوڑ کر جادوگرنی سے لڑنے گھر سے نکل پڑے۔ اس بیچاری نے تو مجھے اپنا خاوند سمجھ لیا تھا لیکن میں نے اسے کچھ بھی نہ بتایا۔“

    اتنا سن کر ہی ڈیوڈ کو طیش آیا اور اس نے مزید کچھ سنے بِنا تلوار نکالی اور سیموئیل کے سینے میں گھونپ دی۔ سیموئیل گھوڑے سے گِرا اور اس کا جسم گرد میں لپٹ کر دور لڑھک گیا۔

    ڈیوڈ جب گھر پہنچا تو اس کی بیوی بیٹھی رو رہی تھی۔ اسے دیکھ کر وہ کھل اٹھی اور اس کی بانہوں میں سما گئی۔ بادشاہ کو جب اس کی آمد کا پتہ چلا تو اس نے واپسی کی خوشی میں دوپہر کو دعوت کا اہتمام کیا۔ شام میں جب وہ اور اس کی بیوی اپنے کمرے میں تنہا تھے تو شہزادی نے اس سے پوچھا؛

    ”جب تم اپنی پہلی مہم سے واپس آئے تھے تو تم نے کبھی بھی مجھے اپنے نزدیک نہیں آنے دیا تھا۔ میں جب بھی تم سے پیار کرنے کے لیے آگے بڑھتی تو تم کسی نہ کسی بہانے مجھ سے الگ ہو جاتے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ کیا تم اب بھی مجھ سے بے اعتنائی برتو گے؟“ یہ سن کر ڈیوڈ کو دل میں شرمندگی کا احساس ہوا کہ اس نے اپنے بھائی کی پوری بات نہ سنی تھی اور اسے تلوار مار دی تھی۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر رونے لگا۔ پھر اچانک اسے آبِ حیات والی صراحی کا خیال آیا۔ وہ جلدی سے اٹھا، اپنی صدری کی طرف بڑھا، اسے پہنا اور بیوی کو کچھ بتائے بغیر گھوڑے پر سوار اس جگہ جا پہنچا جہاں اس کے بھائی کا لاشا پڑا تھا۔ اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے سیدھا کیا اور تلوار کے گھاﺅ کو دیکھا، صراحی نکالی اور زخم پر آبِ حیات چھڑکا۔ ساتھ ہی اسے ایک آواز سنائی دی۔

    ” میں سیموئیل کا گھاﺅ اس لیے بھر رہا ہوں اور اس لیے اسے زندہ کر رہا ہوں کہ وہ معصوم ہے۔ اور اس سے کوئی خطا نہیں ہوئی تھی۔ تم سے خطا ہوئی۔ تم اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے اور اس کی پوری بات سنے بغیر تم نے اسے مار ڈالا۔ اب تم اس کی سزا تب تک بھگتو گے جب تک زندہ رہو گے۔ تم اسے دوبارہ نہ دیکھ پاﺅ گے۔ تم خط استوا کے اِس پار سرد علاقے میں رہو گے جب کہ وہ اس خط کے اُس پار گرم علاقے میں اپنی باقی کی زندگی جیے گا کیونکہ اس کا دل سچائی، بھلائی اور معصومیت کی حرارت سے لبریز ہے۔“ یہ آواز صراحی میں آبِ حیات سے ابھر رہی تھی۔

    سیموئیل کا گھاﺅ بھر گیا، اس نے آنکھیں کھولیں، ڈیوڈ کو اجنبی نظروں سے دیکھا اور اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا جو پاس ہی گھاس چر رہا تھا۔ ڈیوڈ نے اسے آواز دی لیکن اس نے مڑ کر نہ دیکھا، ڈیوڈ کی آواز کو کسی غیبی طاقت نے اس کے گلے میں ہی گھونٹ دیا تھا، یہ سیموئیل تک پہنچ ہی نہ پائی۔

    سیموئیل گھوڑے پر سوار ہوا اور اس کا رخ اُس راستے کی طرف موڑ دیا جو خطِ استوا کے دوسری طرف دُنیا کے گرم خطوں تک جاتا تھا۔

    (اطالوی لوک ادب سے ماخوذ کہانی)

  • آبِ حیات

    آبِ حیات

    یہ کہانی ماضی قدیم کی ہے جب دنیا میں ملک چاہے چھوٹے تھے یا بڑے، سب میں ہی بادشاہت قائم تھی۔ قیطولونیا (کیٹالونیہ) میں بھی ایک بادشاہ کی حکومت تھی۔ بادشاہ تو بادشاہوں کی طرح امیر تھا ہی لیکن اس کی رعایا دیگر ممالک کی طرح غریب تھی اور ہر کس و ناکس امیر ہونے اور محلوں کے خواب دیکھتا تھا۔

    اسی ملک کے ایک گاﺅں میں تین بھائی اور ایک بہن رہتے تھے۔ بہن کا نام مایا جب کہ اس کے تینوں بڑے بھائی ہومر، آرتھر اور آگسٹس کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہومر سب سے بڑا تھا۔ ان کے ماں باپ ایک خوف ناک سمندری طوفان کی نذر ہو گئے تھے۔ اس طوفان نے اور بھی بہت سے لوگوں کی جان لی تھی۔ یہ چاروں قیطولونیا کے ایک گاﺅں میں ایک چھوٹے سے جھونپڑے میں رہتے تھے۔ ان میں بہت پیار تھا اور وہ ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ وہ جنگلی پھلوں اور خود رو سبزیاں کھا کر گزارا کرتے اور کبھی کبھار خرگوش یا جنگلی مرغ بھی پکڑ لیتے۔

    ایک روز ہومر نے، جس نے ابھی تک کوئی باقاعدہ کام نہ کیا تھا اور وہ بس سورج کو چڑھتے اور ڈھلتے ہی دیکھتا رہتا تھا، نے باقی تینوں سے کہا؛ ”ہم کب تک یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔ چلو ہم مل کر محنت اور لگن سے کوئی کام کریں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم امیر ہو جائیں اور اس قابل ہو سکیں کہ اپنے لیے ایک ایسا محل کھڑا کر لیں جیسے کہ امیروں اور بادشاہوں کے ہوتے ہیں۔“

    مایا، آرتھر اور آگسٹس نے خوشی سے کہا؛ ” بالکل ٹھیک ہے بھیا! ہم سب مل کر اور دل لگا کر کام کریں گے!“
    انہوں نے جی جان سے کام کیا اور وہ بالآخر ایک روز امیر ہو ہی گئے اور اس قابل بھی کہ اپنے لیے ایک خوب صورت محل تعمیر کر سکیں۔ ایک ایسا محل جسے لوگ دور دور سے دیکھنے آتے، اس کے عجائب کو دیکھتے اور کہتے کہ کیا ہی شان دار محل ہے۔ کافی وقت بیت گیا لیکن کوئی بھی اس عجوبے میں کوئی نقص نہ نکال سکا۔ اور پھر ایک روز ایک بڑھیا جو اور بہت سے لوگوں کی طرح محل کے کمروں میں گھوم پھر کر نادر اشیاء دیکھ رہی تھی، اچانک بولی؛ ” یہ بہت ہی شان دار محل ہے لیکن اس میں ایک شے کی کمی ہے!“
    ” اور یہ کمی کیا ہے۔“ اس سے سوال کیا گیا۔
    ” ایک عبادت گاہ۔“ اس نے جواب دیا۔
    ” لیکن اس ملک میں عبادت گاہیں تو بہت سی ہیں، خود اس گاؤں میں پانچ چھے ہیں۔“
    ” ہاں وہ تو ہیں، لیکن وہ مختلف عقیدوں، دھرم اور مذہبوں کے ماننے والوں نے اپنے اپنے لیے مخصوص کر رکھی ہیں۔ ایسی کوئی نہیں ہے، جس میں ہر کوئی جا سکے۔“
    ”ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“
    ” ایسا یوں ہو سکتا ہے کہ اس عبادت گاہ میں کسی بھی عقیدے، دھرم یا مذہب کے حوالے سے کوئی منبر نہ ہو، کوئی قربان گاہ نہ ہو، نہ کوئی بُت ہو اور نہ ہی قبلہ جیسی کوئی سمت ہو۔ یہ بس وسیع و عریض منقش اور روشن کمروں پر مشتمل ایسی عمارت ہو جو اپنے محور پر ہمیشہ گھومتی رہے اور محل کے گرد اُسی طرح چکر لگائے جیسے زمین بیضوی مدار میں سورج کے گرد چکر لگاتی ہے۔ ہر کوئی اس میں جائے اور اپنے من ہی من میں، اپنے عقیدے، دھرم یا مذہب کے مطابق امن و آشتی کے لیے دعا کرے اور باہر آ جائے۔ اور جن کا کوئی عقیدہ، دھرم یا مذہب نہ ہو وہ امن و آشتی کی دعا کے علاوہ حیات کی ابدیت کو بھی سلام پیش کرکے خود میں خوشی محسوس کرتے ہوئے باہر آئیں۔ ”

    چاروں بھائی بہن نے استہفامیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا، لیکن بوڑھی عورت کی بات دل کو لگی تھی۔
    رات میں جب وہ کھانے کی میز پر بیٹھے تو انہوں نے بُڑھیا کی اس تجویز پر خوب بحث و مباحثہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ واقعی ایک ایسی عبادت گاہ جو سب کے لیے ہو، یقیناً اس محل کی عظمت اور شان و شوکت میں ایک بڑے اضافے کا باعث ثابت ہو گی۔ لیکن ان کے پاس اسے تعمیر کرنے کے لیے کافی پیسے نہ تھے۔

    وہ پھر سے محنت کرنے لگے اور دولت جمع کرنے لگے۔ جب کافی دولت جمع ہوگئی تو انہوں نے عبادت گاہ کی عمارت کھڑی کرنی شروع کر دی۔ یہ عمارت اتنی ہی خوب صورت تھی جتنا کہ خود محل تھا۔ بلکہ یہ محل سے بڑی اور سادگی کا مرقع تھی۔ یہ زمین کی طرح گول تھی اور اپنے محور پر ہر وقت گھومتی اور ایک بیضوی مدار میں محل کے گرد چکر لگاتی رہتی۔ دور سے دیکھنے پر ایسے لگتا جیسے دھرتی پر کسی نے ایک بڑا سا متحرک گولہ رکھ دیا ہو۔ رات میں جب اس میں فانوس جلتے تو یہ اور بھی خوب صورت نظارہ پیش کرتی جیسے رنگ برنگی روشنیاں اَزلی گردشوں میں ہوں۔

    عبادت گاہ جب مکمل ہو گئی تو اسے دیکھنے کے لیے لوگ پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں گروہ در گروہ آنے لگے۔ وہ محل کو دیکھتے، عبادت گاہ میں جاتے، دعا کرتے اور اس کے وسیع دالانوں اور باغات میں بیٹھ کر ساتھ لایا ہوا کھانا کھاتے، فنِ تعمیر کے ان دو عجوبوں کی تعریف کرتے اور چاروں بہن بھائیوں کی کاوشوں کو بھی سراہتے کہ انہوں نے کمال خوبی سے ملک بلکہ دنیا میں بسنے والے ہر رنگ، ہر نسل اور ہر عقیدے کے لوگوں کو ایک چھت تلے اکٹھا کر دیا تھا۔

    اور پھر ایک روز ایسے ہوا کہ جب وہ چاروں بہن بھائی اپنے مہمانوں کے ساتھ عبادت گاہ کے بڑے کمرے میں بیٹھے تھے تو ایک بوڑھا سیاح جو اسی کمرے کی اندرونی چھت پر بنے پھول بوٹوں اور پرندوں کو دیکھ رہا تھا، اچانک ان کی طرف مڑا اور بولا؛
    ” زبردست، یہ سب تو بہت ہی زبردست ہے، خوب صورت ہے لیکن ابھی بھی اس میں کچھ کمی ہے۔“
    ”اے بزرگ ، ہمیں بتاﺅ کہ وہ کیا ہے؟“ ہومر نے پوچھا۔
    ” عبادت گاہ میں ان چیزوں کی کمی ہے جو دنیا کے سب لوگوں کے لیے مقدس اور الوہی ہیں۔“ بوڑھے نے جواب دیا۔
    ”اور وہ کیا ہیں ؟“ مایا نے پوچھا۔
    ” آبِ حیات، حیات کا وہ درخت جس کی شاخیں زرّیں ہیں اور ان پر لافانی خوب صورتی و خوش بُو رکھنے والے پھول لگتے ہیں اور زندگی کی لافانیت کا مظہر ہیں۔ ان کے علاوہ ایسے پرندے جو سب انسانوں کی بولیوں پر عبور رکھتے ہیں۔“ بوڑھے نے جواب دیا۔
    ” اور یہ ہمیں کہاں ملیں گے؟“ آرتھر نے پوچھا۔
    ”تمہیں اس کے لیے اُس پہاڑ کو پار اتر کر نیچے تنگ وادی میں جانا ہو گا۔ وہیں ایک کھوہ میں تمہیں اپنی مراد ملے گی۔“ بوڑھے نے دور نظر آنے والے پہاڑ کی طرف اشارہ کیا جو دھند میں لپٹا ہوا تھا۔ یہ کہہ کر بوڑھے نے گردن جھکائی، ان کو الوداع کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ چاروں نے آپس میں مشورہ کیا اور فیصلہ ہوا کہ ہومر ان تینوں الوہی اشیاء کو لینے جائے گا۔

    ” لیکن بھائی اگر کوئی مصیبت تمہاری راہ میں آڑے آئی یا بدی تمہاری راہ میں حائل ہوئی تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا ؟ “ مایا نے کہا۔
    ” ہاں ، تم ٹھیک کہتی ہو۔ اس بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہ تھا۔“
    وہ چاروں اس راہ کی طرف بڑھے جس پر بوڑھا گیا تھا۔ مایا بوڑھے سے مخاطب ہوئی؛
    ” ہمارا سب سے بڑا بھائی آبِ حیات، لافانی پھولوں والے درخت اور پرندوں کے حصول کے لیے جانا چاہتا ہے، جن کے بارے میں آپ نے کہا کہ ان کی عبادت گاہ میں کمی ہے۔ ہم یہ کیسے جانیں گے کہ بدی اس کے آڑے آئی اور وہ کسی مشکل میں گرفتار تو نہیں ہو گیا؟“
    بوڑھے نے مایا کو مسکرا کر دیکھا اور اپنی جیب سے سیاہ رنگ کا ایک چھوٹا سا پتھر نکالا اور بولا؛
    ” اسے انگوٹھی میں جڑوا لو اور اپنے بائیں ہاتھ کی بڑی انگلی میں پہن لو۔ یہ ایک دہکتے شہاب ثاقب کا ٹکڑا ہے جو ہزاروں سال پہلے شط العرب دریا میں گرا اور ٹھنڈا ہو کر سیاہ ہو گیا تھا۔ جب تک یہ سیاہ رہے تو سمجھو سب ٹھیک ہے لیکن جب یہ لال ہو کر دہکنے لگے تو جان لینا تمہارا بھائی کسی مصیبت کا شکار ہو گیا ہے۔“

    انہوں نے بوڑھے کا شکریہ ادا کیا اور واپس لوٹ گئے۔ ہومر نے تیاری کی اور پہاڑ کی جانب چل دیا۔ وہ سات دن کی مسافت طے کر کے پہاڑ کے دامن میں پہنچا۔ وہاں ایک کٹیا میں شمع روشن تھی۔ وہ اس میں داخل ہوا تو سامنے ایک باریش بزرگ بیٹھا تھا۔
    ” اے بزرگ ، کیا آپ مجھے یہ بتا سکتے ہیں کہ پہاڑ پار تنگ وادی تک پہنچنے میں مجھے اور کتنا وقت لگے گا؟“
    ” لیکن تم وہاں کیوں جانا چاہتے ہو؟“ بزرگ نے پوچھا۔
    ” میں آبِ حیات، لافانی پھولوں اور زریں شاخوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرنے کے لیے وہاں جانا چاہتا ہوں۔“ اس نے جواب دیا۔
    ” ان تینوں کو پانے کے لیے بہت سے نوجوان لڑکیاں اور لڑکے یہاں آئے ، میرے پاس رُکے اور آگے گئے۔ لیکن میں نے انہیں واپس لوٹتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اور ایسا ہے کہ تم بھی شاید واپس نہ لوٹو۔ ہاں البتہ اگر تم میرے کہے پر پوری طرح عمل کرو گے تو مراد پا لو گے۔ جھونپڑی کے پیچھے والا راستہ اختیار کرو اور پہاڑ پر چڑھو۔ جب تم اس کی چوٹی کے پاس پہنچو گے تو اسے چھوٹے چھوٹے پتھروں سے ڈھکا پاﺅ گے۔ وہاں رُکنا نہیں اور نہ ہی پتھروں کی طرف دیکھنا، بس چلتے جانا۔ اور پھر ہنسنے اور لعن طعن کرتی آوازیں تمہارا پیچھا کریں گی۔ یہ پتھروں سے اٹھ رہی ہوں گی۔ ان کو نظر انداز کرنا اور مُڑ کر مت دیکھنا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تم بھی پتھر بن جاﺅ گے۔ نظر سیدھ میں رکھنا اور تب تک سامنے کی طرف تکتے رہنا جب تک تم چوٹی کے پار نہ اتر جاﺅ اور یہاں تک کہ تمہیں تنگ وادی نظر نہ آنے لگے۔“ باریش بزرگ نے یہ کہہ کر اپنی بات ختم کی اورچولہے پر دھرے برتنوں سے دال اور چاول نکال کر اسے کھانے کے لیے دیے۔ ہومر نے رات کٹیا میں ہی بسر کی۔

    اگلی صبح وہ بزرگ کے بتائے راستے پر چلتا پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ وہ جب پہاڑ کی چوٹی کے قریب پہنچا تو ویسے ہی پتھر اس کے قدموں تلے آنے لگے جیسا کہ بزرگ نے بتائے تھے۔ وہ جوں جوں آگے بڑھتا رہا اسے اپنے پیچھے سے تمسخر آمیز ہنسی اور لعن طعن کی آوازیں آنے لگیں۔ وہ ان پر دھیان دیے بغیر آگے بڑھتا رہا۔ پہاڑ کی چوٹی بہت قریب تھی اور آوازیں تھیں کہ اونچی سے اونچی ہو رہی تھیں۔ جیسے ہی اس نے چوٹی پھلانگی، آوازوں کا شور اپنی انتہا پر پہنچ چکا تھا۔ صبر کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹا اور اس نے ایک پتھر اٹھایا اور مُڑ کر اپنے پیچھے چھائی دھند جو پتھروں سے ہی اٹھ رہی تھی، میں پھینکا۔ اسی لمحے اس کے بازو اکڑنے لگے اور وہ خود بھی پتھر میں ڈھل گیا۔

    تبھی، محل میں بیٹھی مایا کی نظر اپنی سیاہ پتھر والی انگوٹھی پر پڑی، پتھر آگ کی طرح دہک رہا تھا اور اس کی تپش اس کی انگلی کو جھلسا رہی تھی۔ وہ دوڑتے ہوئے اپنے بھائیوں کے پاس گئی اور انہیں انگوٹھی دکھائی اور چلائی:
    ”ہمارا بڑا بھائی کسی خطرے میں گِھر گیا ہے۔“ پتھر کی دہک کم ہو رہی تھی۔
    آرتھر بولا ” میں جاتا ہوں اور اسے تلاش کرتا ہوں۔“
    وہ بھی اسی سمت میں چلتا گیا جس طرف اس کا بڑا بھائی گیا تھا۔ وہ بھی سات دن کی مسافت طے کرکے پہاڑ کے دامن میں پہنچا۔ کٹیا والے باریش بزرگ سے ملا اور اس سے اپنے بھائی کے بارے میں پوچھا۔
    ” مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ وہ تمہارا بھائی تھا یا نہیں لیکن کچھ روز قبل ایک نوجوان یہاں آیا تھا اور آبِ حیات، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرنے کے لیے پہاڑ کی طرف گیا تھا۔ لیکن وہ واپس نہیں لوٹا۔ لگتا ہے پہاڑ پر چھائے بدی کے جادو نے اپنا کام کر دکھایا۔“
    ” جی وہ میرا ہی بھائی ہے۔ مجھے بتائیں کہ میں اپنے بھائی کو اس بد سحر سے کیسے بچاﺅں اور کیسے تینوں مقدس اشیاء کو حاصل کروں؟“

    باریش بزرگ نے اسے بھی وہی صلاح دی جو اس نے اُس کے بڑے بھائی کو دی تھی لیکن وہ اسے یہ نہ بتا سکا کہ وہ اپنے بھائی کو بد سحر سے کیسے نکالے۔ آرتھر نے بھی ابلے چاول دال کے ساتھ کھائے اور رات اسی کٹیا میں بسر کی۔

    اگلی صبح وہ بھی باریش بزرگ کے بتائے راستے پر آگے بڑھ گیا۔ وہ جب پہاڑ پر پتھروں والے مقام پر پہنچا تو اسے بھی لعن طعن اور تمسخر بھری آوازوں کا سامنا کرنا پڑا جو بلند سے بلند تر ہوئے اس کے کان پھاڑ رہی تھیں۔ اسے ان آوازوں میں اپنے بڑے بھائی کی پکار بھی سنائی دی۔ اس سے نہ رہا گیا اور اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا۔اس کا ایسا کرنا تھا کہ وہ بھی پتھر میں بدل گیا۔

    اِدھر محل میں مایا جو اپنے بھائیوں کے لوٹنے کے دن گن رہی تھی، کو اسی لمحے انگلی میں تپش محسوس ہوئی، اس گھبرا کر اسے دیکھا، انگوٹھی میں جڑا پتھر ایک بار پھر دہک رہا تھا۔ وہ خوف سے چلائی اور آگسٹس کے پاس گئی اور اسے دہکتا پتھر دکھایا۔
    وہ فوراً بول اٹھا: ” مایا تم فکر مت کرو ، میں ان کی مدد کو جاتا ہوں اور ساتھ میں آبِ حیات، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرکے لاتا ہوں۔“ آگسٹس بھی پہاڑ کی سمت چل دیا اور سات روز کی مسافت طے کرتا پہاڑ کے دامن میں اسی کٹیا کے پاس پہنچا جہاں سے گزر کر اس کے دونوں بھائی آگے گئے تھے۔ اس نے باریش بزرگ سے پوچھا ؛
    ” کیا آپ نے پچھلے دنوں میں دو جوان پہاڑ پار جاتے دیکھے تھے؟“
    ”ہاں وہ یہاں میرے پاس رات بھر رکے بھی تھے اور اگلی صبح آگے روانہ ہوئے تھے۔ لیکن تم سے مطلب؟“
    ” وہ میرے بڑے بھائی تھے۔ میں انہی کی تلاش میں، انہیں بچانے اور آبِ حیات، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرنے آیا ہوں۔“

    باریش بزرگ نے اسے بھی دال چاول کھانے کو دیے۔ رات اپنے پاس ٹھہرایا اور اگلی صبح اسے بھی رخصت کرتے ہوئے وہی نصیحت کی ، جو وہ پہلے اس کے بھائیوں کر چکا تھا۔ آگسٹس نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور اس کی بتائی راہ اختیار کی۔ وہ بھی جب پہاڑی راستے پر اوپر چڑھتا ہوا چوٹی کے پاس پہنچا اور ہانپتے ہوئے چال دھیمی کی تو پیچھے سے آوازوں کا شور اٹھا، اس نے پروا نہ کی اور سانس برابر ہونے پر پھر تیزی سے چلنے لگا۔ اب وہ پتھر پھلانگ رہا تھا اور آوازیں تھیں کہ بلند سے بلند تر ہو رہی تھیں۔ ان میں اس کے دونوں بھائیوں کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ یہ آہ و بکا کر رہی تھیں۔ اس سے نہ رہا گیا اور اس نے مڑ کر بھائیوں کو دیکھنا چاہا۔ پیچھے کوئی نہ تھا بس پتھروں سے دھواں اٹھ کر دھند میں بدل رہا تھا۔ اس کے اپنے بدن سے دھواں اٹھا اور وہ لڑھک کر پتھر ہو گیا۔
    اِدھر محل میں مایا، جو کمرے میں بے چینی سے چکر کاٹ رہی تھی ، نے انگوٹھی میں جڑے پتھر کو جب دہکتے ہوئے دیکھا تو یک دم بول اٹھی؛ ” اب میری باری ہے۔ مجھے اپنے بھائیوں کی خاطر اور آبِ حیات ، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کرنے کے لیے یہاں سے نکلنا ہو گا۔“ وہ پہاڑ کی سمت چلی اور چلتی ہی گئی۔ بالآخر وہ بھی کٹیا والے باریش بزرگ کے پاس پہنچی اور اس سے اپنے بھائیوں کے بارے میں پوچھا۔

    بزرگ نے لڑکی کو دال چاول کھانے کو دیے اور اسے یہ بھی بتایا کہ دنیا میں جنت نظیر ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں دال چاول کو اس کے باسی ‘وری بتہ ‘ کہتے ہیں اور یہ کہ وہ وہیں پیدا ہوا تھا۔ لڑکی جب کھا رہی تھی تو بزرگ کی نظر اس کے بائیں ہاتھ پر پڑی۔ اس نے پوچھا؛ ” بیٹی انگوٹھی میں جڑا یہ پتھر تم نے کہاں سے لیا۔“
    لڑکی نے بزرگ کو اپنی غربت سے لے کر امیری تک ، امیری سے لے کر محل تک ، بُڑھیا سے لے کر عبادت گاہ تک اور عبادت گاہ سے لے کر بوڑھے تک کی ساری کہانی سنا ڈالی اور یہ بھی بتایا کہ اسے پتھر اسی بوڑھے نے دیا تھا اور اس نے اسی کے کہنے پر اسے انگوٹھی میں جڑوایا تھا۔ بزرگ اس کی ساری داستان سن کر مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ خاصی معنٰی خیز تھی۔ مایا نے رات کٹیا میں ہی گزاری۔ پو پھٹنے پر بزرگ نے اسے بھی وہی کچھ بتایا جو وہ اس کے بھائیوں کو بتایا تھا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ جب پہاڑ پر اسے اپنے پیچھے سے آوازیں ، خاص طور پر بھائیوں کی آہ و بکا سنائی دے تو وہ اپنی نظریں اپنی انگوٹھی میں لگے پتھر پر مرکوز کر دے اور آگے بڑھتی جائے۔ اور یہ کہ یہ پتھر اس کے دل کو تقویت دے گا اور اسے اپنی راہ یوں صاف نظر آئے گی جیسے شط العرب دریا کا شفاف پانی ہو۔

    مایا شط العرب دریا کا ذکر سن کر چونکی اور اسے وہ بوڑھا یاد آیا جس نے اسے یہ پتھر دیا تھا اور اسے یہ بتایا تھا یہ کیا تھا اور یہ کیونکر ٹھنڈا ہو کر سیاہ ہوا تھا۔ وہ باریش بزرگ سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ اس پتھر کے بارے میں اور کیا جانتے تھے لیکن اپنے بھائیوں کو بچانے اور اپنی منزل تک پہنچنے کی جلدی آڑے آئی اور وہ بزرگ کا شکریہ ادا کر کے کٹیا کی پشت پر موجود پہاڑی راستے کی طرف چل دی۔

    اور پھر جیسے ہی وہ پہاڑ کے اس مقام پر پہنچی جہاں سے آوازوں نے اس کا پیچھا کرنا تھا تو اسے کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ اس کا بایاں ہاتھ جب حرکت کرتا تو اسے لگتا جیسے اس طرف کے پتھر بھی حرکت کر رہے ہوں۔ جب یہ احساس قوی ہوا تو اس نے چال دھیمی کی اور اپنا بایاں ہاتھ گھما کر دائیں طرف کیا اور اسے ہلایا۔ دائیں طرف کے پتھروں میں بھی حرکت پیدا ہونے لگی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان پتھروں میں زندگی قید تھی۔

    وہ پھر سے تیز تیز چلنے لگی اور اس کے پیچھے پیچھے آوازیں آنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ یہ جوں جوں بلند ہوئیں تو اسے ان میں اپنے بھائیوں کی آہ و بکا بھی سنائی دینے لگی۔ اس نے باریش بزرگ کی ہدایت کے مطابق اپنی نظریں انگوٹھی کے پتھر پر مرکوز کر دیں۔ ہر لمحہ اسے پہاڑ کی چوٹی کے قریب لے جاتا گیا اور جیسے ہی اس نے چوٹی پار کی ، شور و غوغے نے اس کو بہرہ کر دیا لیکن اس نے اپنے قدم نہ روکے اور نیچے اترتی چلی گئی۔
    اب اس کے سامنے تنگ وادی تھی اور پھر بالآخر وہ اس کھوہ تک جا پہنچی جہاں نے ایک جھرنا پھوٹ رہا تھا اور اس کے قدموں میں تالاب کے کنارے زریں شاخوں والا تن آور درخت کھڑا تھا۔ اس کی شاخیں پھولوں سے لدی تھیں اور کچھ ڈالیوں پر پرندوں کے کئی جوڑے بیٹھے ایسی زبان بول رہے تھے جو اس کی اپنی تھی۔ اس نے اپنا مشکیزہ جھرنے سے نکلنے والے پانی سے بھرا، درخت کی کچھ ہری شاخیں کاٹیں اور مشکیزے میں ہی ڈال لیں۔ اب مسئلہ پرندوں کے جوڑے کا تھا، اس کے پاس پنجرہ نہ تھا۔ وہ درخت کے نیچے بیٹھ گئی اور سوچنے لگی کہ ایسا کیا کرے کہ پرندوں ایک جوڑا بھی ساتھ لے جا سکے۔ تبھی اس کے کانوں میں پرندوں کی آواز پڑی، ایک بولا؛
    ” کہیں یہ وہ لڑکی تو نہیں جس نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر ایسی عبادت گاہ بنائی ہے جس کے دروازے ہر عقیدے ، دھرم اور مذہب کے لوگوں پر کھلے ہیں اور جو اپنے محور پر اور مدار میں یوں گھومتی ہے جیسے زمین۔“

    ”لگتا ہے یہ وہی ہے کیونکہ اس نے آب ِ حیات سے اپنا مشکیزہ بھرا ہے اور اس نے زریں شاخوں والے اس درخت کی کچھ شاخیں بھی توڑی ہیں اور اب یہ بیٹھی سوچ رہی ہے کہ وہ ہم میں سے ایک جوڑا کیسے پکڑے اور کیونکر ساتھ لے جائے۔“
    دوسرا بولا۔” چلو ، اس کے پاس جا کر پوچھتے ہیں۔“ ، تیسرا بولا۔
    اور پھر بہت سے پرندے درخت کی شاخوں سے نیچے اترے اور مایا کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔
    مایا ، چونکہ ، ان کی باتیں سن چکی تھی اس لیے وہ بولی:
    ” ہاں ہم بہن بھائیوں نے ہی ایسی عباد ت گاہ بنائی ہے۔ اور یہ کہ ایک بزرگ کے مطابق اس میں آب ِ حیات، زریں شاخوں اور لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندوں کی کمی ہے۔ پہلے میرے بھائی یہ کمی پوری کرنے نکلے تھے لیکن بد سحر کا شکار ہو گئے۔ اب میں اس بد سحر سے بچ کر یہاں تک پہنچی ہوں۔“

    یہ سن کر پرندے ایک ایسی زبان میں باتیں کرنے لگے جو مایا کے لیے اجنبی تھی۔ کچھ دیر بعد انہی پرندوں میں سے ایک نوجوان جوڑا آگے بڑھا اور اس کے بالکل قریب آ کر بولا: ” ہم آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ ہم دونوں عبادت گاہ کے کسی ایک جھروکے میں بسیرا کریں گے، اپنی نسل بڑھائیں گے اور پھر مل کر اس عبادت گاہ کے ہر دروازے، ہر منڈیر پر بیٹھ کر اس میں آنے والوں کے لیے ان کی ہی زبان میں چہچہا کر ان کا استقبال کریں گے۔”
    ” چلو اٹھو، اس سے پہلے کہ سورج ڈھلنے لگے، تمہیں یہاں سے نکل جانا چاہیے۔“ پرندوں میں سے ایک جو قدرے بوڑھا لگتا تھا، بولا۔ مایا یہ سن کر کھل اٹھی۔ اس نے مشکیزہ کندھے پر ڈالا اور واپسی کا سفر اختیار کیا۔ پرندوں کا جوان جوڑا اس کے سر پر منڈلاتا ساتھ ساتھ اڑ رہا تھا۔

    واپسی کا راستہ وہی تھا جس پر چل کر وہ آئی تھی۔ وہ اپنے پچھلے سفر کی وجہ سے تھکی ہوئی تھی اس لیے جب وہ دوبارہ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچی تو ہانپنے لگی۔ اس نے مشکیزہ کندھے سے اتار کر نیچے رکھا تو اس میں سے آبِ حیات کے کچھ قطرے باہر گرے۔ جہاں جہاں یہ قطرے گرے، وہاں وہاں کے پتھروں میں جان پڑ گئی اور وہ جوان لڑکوں اور دوشیزاؤں میں بدل گئے۔ مایا کو پتھروں میں قید زندگی کو چھڑانے کا طریقہ سمجھ آ گیا تھا۔ اس نے مشکیزے میں سے چلو میں پانی بھرا اور قطرہ قطرہ کر کے پتھروں پر ڈالنا شروع کر دیا۔ پرندوں کے جوڑے نے جب یہ دیکھا تو وہ بھی نیچے اترے اور چونچوں میں پانی بھر کر دور والے پتھروں پر ڈالنا شروع کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں سارے پتھر زندہ ہو کر جوان لڑکوں اور لڑکیوں میں بدل گئے، ان میں مایا کے تینوں بھائی بھی تھے۔
    اب جوانوں کا ایک جم غفیر تھا جو اس لڑکی کے ساتھ محل کی طرف رواں دواں تھا۔ پہاڑ کے دامن میں باریش بزرگ کی کٹیا بھی آئی۔ مایا اور اس کے بھائی اندر گئے لیکن وہ خالی تھی ، چولہا بھی سرد تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے یہ جھونپڑی مدتوں سے ویران پڑی ہو۔

    محل پہنچ کر مایا نے دیر نہ لگائی۔ وہ فوراً ہی عبادت گاہ کے سامنے والے مرکزی باغ میں گئی۔ زریں شاخوں اور لافانی پھولوں والے درخت کی ٹہنیوں کو مناسب فاصلوں پر لگایا اور انہیں آبِ حیات سے سینچا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ٹہنیاں تناور درختوں میں بدل گئیں اور ان کی زریں شاخیں لافانی خوب صورتی و خوشبو والے پھولوں سے لَد گئیں۔ پرندوں کے جوڑے نے بھی عبادت گاہ کے مرکزی دروازے کے پاس ایک بڑے جھروکے میں اپنا گھونسلہ بنایا اور چونچیں لڑانے لگے۔ مایا نے مشکیزے میں بچا پانی عبادت گاہ سے ملحقہ حوض جس کے نیچے ایک کنواں تھا، میں انڈیل دیا۔

    جلد ہی مایا، محل، عبادت گاہ، آب ِحیات والے حوض ، زریں شاخوں اور لافانی خوب صورتی و خوش بو والے پھولوں سے لدے درختوں اور بولنے والے پرندوں، جو ایک سے کئی جوڑوں تک نسل بڑھا چکے تھے، کی شہرت مملکت قیطولونیا کی سرحدوں سے باہر جا نکلی اور بدیس سے آنے والے سیاحوں کا تانتا بندھ گیا۔ چاروں بہن بھائی شاہی خاندان سے تو نہیں تھے لیکن لوگ انہیں شہزادے اور شہزادی ہی گردانتے اور انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے۔

    پھر ایک روز ایسا ہوا کہ ان عجائب کو دیکھنے کے لیے آنے والوں میں اِک جوان بھی شامل تھا۔ وہ ملحقہ مملکتِ یونان کا ولی عہد تھا۔ اس نے ان بہن بھائیوں کی پوری داستان سن رکھی تھی کہ وہ غربت سے کیسے نکلے اور موجودہ مقام تک کیسے پہنچے، مایا نے کس طرح حوصلہ مندی ، جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف بھائیوں کو بچایا اور آب ِحیات، لافانی پھولوں والے درخت اور بولنے والے پرندے حاصل کیے تھے۔ اس کے دل میں تمنا جاگی کہ وہ ان سے ملے۔

    مایا اور اس کے بھائیوں سے ملاقات کے دوران ولی عہد اپنا دل مایا کو دے بیٹھا۔ واپس جا کر اس نے اپنے والدین کو بتایا اور مایا سے شادی کرنے کی اجازت مانگی اس پر اس کا باپ ، یونان کا بادشاہ بولا؛ ” کیا مایا قیطولونیا کے شاہی خاندان سے ہے؟“
    ” نہیں ،لیکن اس کا گھرانہ شاہی خاندان سے کم بھی نہیں ہے۔“ ولی عہد نے جواب دیا۔
    ”کیا یہ بہن بھائی ہماری طرح دیوتاﺅں اور دیویوں کو مانتے ہیں؟ کیا ان کا خدا بھی زیوس ہے یا وہ رومن لوگوں کی طرح جیوپیٹر کو اپنا خدا مانتے ہیں؟“ ولی عہد کو اس بارے میں کچھ پتہ نہ تھا۔ ہرکارے دوڑائے گئے کہ وہ یہ خبر لا کر دیں کہ بہن بھائیوں کاعقیدہ کیا تھا۔ خبر یہ آئی کہ وہ اصلاً پرومیتھیس کے پیرو کار تھے لیکن جب سے انہوں نے ایک بوڑھی عورت کے کہنے پر کُل جہاں کے لوگوں کے لیے عبادت گاہ بنائی تھی، تب سے وہ فقط پرومیتھیس کے پیروکار ہی نہیں رہے تھے بلکہ اب وہ باقی دنیا میں رائج الوقت تمام عقائد، دھرم اور مذاہب کو برابر جاننے لگے ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ سخت نالاں ہوا۔ اس نے ولی عہد سے کہا؛” پرومیتھیس تو وہ تھا جس نے ان کے خدا زیوس سے آگ چرائی اور غاروں میں رہنے والے انسانوں کو دی اور اس کی پاداش میں زیوس نے اسے کاکیشیا کے پہاڑ پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رنجیروں میں جکڑ کر اس پر ایک عقاب چھوڑ دیا جو ہر روز اس کا کلیجہ کھاتا ہے اور ہمیشہ کھاتا رہے گا۔ تم پرومیتھیس کے پیروکار خاندان میں کیسے شادی کر سکتے ہو؟“ ولی عہد نے باپ کو سمجھانے اور منانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔

    اور پھر ایک رات ولی عہد نے باپ کے نام رقعہ چھوڑا جس میں لکھا تھا کہ اسے ولی عہدی نہیں چاہیے، اسے مایا چاہیے تھی جسے حاصل کرنے کے لیے وہ پرومیتھیس کا پیروکار بننے کے لیے بھی تیار تھا۔ وہ چپکے سے یونان چھوڑ کر قیطولونیا چلا آیا اور سیدھا بہن بھائیوں کے محل پہنچا۔ اس نے ہومر سے مایا کا ہاتھ مانگا۔ ہومر نے مایا سے پوچھا۔ مایا، جسے خود بھی یونان کا شہزادہ پسند آ گیا تھا، نے ہاں کر دی لیکن یہ شرط لگائی کہ ان کی شادی کی رسم اسی عبادت گاہ میں ادا ہو گی جو انہوں نے بنائی تھی جس میں جا کر دعا کرنے اور دوسروں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنے کے لیے کُل عالم کا ہر بندہ بشر آزاد تھا۔

    شہزادے نے مایا کی شرط مان لی۔ زریں شاخوں والے درخت سے لافانی خوب صورتی اور خوش بو رکھنے والے پھولوں سے دو بڑی مالائیں بنائی گئیں۔ شہزادے اور مایا نے عبادت گاہ کے مرکزی بڑے کمرے میں ہوا میں اڑتے عالم گیر خوشی، محبت اور امن و آشتی کے نغمے بکھیرتے ہوئے پرندوں کے سائے تلے ایک دوسرے کو یہ مالائیں پہنائیں۔ اور پھر جب وہ دونوں تالیوں کی گونج میں تقریب میں شامل لوگوں کی طرف مڑے تاکہ سر جھکا کر ان کا شکریہ ادا کر سکیں تو مایا نے دیکھا:

    ایک کونے میں بوڑھی عورت، بوڑھا اور باریش بزرگ کھڑے تھے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔

    (قیطولینی لوک ادب سے ماخوذ)

  • پھولوں کی سیج

    پھولوں کی سیج

    کسی نگر میں ایک راجہ راج کرتا تھا۔ اس کی ایک رانی تھی۔ اس رانی کو کپڑے اور گہنے کا بہت زیادہ شوق تھا۔

    اسے کبھی سونے کا کرن پھول چاہیے، کبھی ہیرے کا ہار تو کبھی موتیوں کی مالا۔ کپڑوں کی تو بات ہی نہ پوچھیے۔ بھاگل پوری ٹسراور ڈھاکے کی ململ اور رات کو سونے کے لیے پھولوں کی سیج۔ پھول بھی کھلے ہوئے نہیں بلکہ ادھ کلیاں جو رات بھر میں آہستہ آہستہ کھلیں۔

    ہر روز نوکر ادھ کھلی کلیاں چُن چُن کر لاتے اور باندی سیج لگاتی۔ اسی طرح اتفاق سے ایک دن ادھ کھلی کلیوں کے ساتھ کچھ کھلی ہوئی کلیاں بھی سیج پر آ گئیں۔ اب تو رانی کو بہت ہی بے چینی ہوئی۔

    رانی کو نیند کہاں؟ کھلی کلیاں چبھ رہی تھیں۔ دیپک دیو (دیا) جو اپنی روشنی پھیلا رہے تھے۔ ان سے نہ رہا گیا۔ وہ بولے، ’’رانی! اگر تمہیں مکان بناتے وقت راج گیروں کو تسلے ڈھو ڈھو کر گارا اور چونا دینا پڑے تو کیا ہو؟ کیا تسلوں کا ڈھونا ان کلیوں سے بھی زیادہ برا لگےگا؟‘‘ رانی نے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ لاجواب ہو گئی۔ راجہ بھی جاگ رہے تھے۔ انہوں نے ساری باتیں سن لیں۔

    راجہ نے رانی سے سوال کیا۔ ’’دیپک دیو کے سوال کی آزماش کر کے دیکھو نا؟ ان کا حکم نہ ماننا اچھا نہیں۔‘‘ رانی راضی ہو گئی۔

    راجہ نے کاٹھ کا ایک کٹہرا بنوایا۔ اس میں رانی کو بند کروا دیا اور پاس بہنے والی ندی میں بہا دیا۔

    وہ کٹہرا بہتے بہتے ایک دوسرے رجواڑے کے کنارے جا لگا۔ وہ راجہ کے بہنوئی کے راج میں تھا۔ گھاٹ والوں نے کٹہرے کو پکڑ کر کنارے لگایا۔ کھولا تو اس میں ایک خوب صورت عورت نکلی۔ رانی کے زیور اور قیمتی کپڑے پہلے ہی اتار لیے گئے تھے۔ وہ معمولی پھٹے چیتھڑے پہنے ہوئے تھی مگر خوب صورت تھی۔ راجہ اسے نہ پہچان سکا اور نہ رانی نے ہی اپنا صحیح پتہ بتایا۔ کیوں کہ دیپک دیو کی بات کا امتحان بھی تو لینا تھا۔

    راجہ کا ایک نیا محل بن رہا تھا۔ اس لیے راجہ کو مزدوروں کی ضرورت تھی۔ اس نے پوچھا۔ ’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘

    رانی نے اپنی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ ’’مکان بنانے میں تسلا ڈھونے کا کام۔‘‘

    راجہ نے اس رانی کو تسلا ڈھونے کے کام پر لگا دیا۔ رانی دن بھر تسلا ڈھوتی اور مزدوری کے تھوڑے پیسوں سے اپنی گزر کرتی۔ دن بھر کی سخت محنت کے بعد جو روکھا سوکھا کھانا ملتا وہ اسے بہت ہی میٹھا اور لذیذ معلوم ہوتا اور رات بھر کھردری چٹائی پر خراٹے لے لے کر خوب سوتی۔ منہ اندھیرے اٹھتی اور نہانے دھونے سے فارغ ہوکر دل میں امنگ اور حوصلے کے ساتھ اپنے کام میں لگ جاتی۔

    اسی طرح رانی کو کام کرتے کرتے بہت دن گزر گئے۔ ایک دفعہ رانی کا خاوند اپنے بہنوئی کے ہاں کسی کام سے آیا۔ خاص کر دل بہلانے کے خیال سے۔ کیوں کہ بغیر رانی کے راجہ کیا؟ اکیلے راج کام میں اس کا جی نہیں لگتا تھا۔ اس طرح راجہ نے رانی کو وہاں اچانک دیکھ لیا۔ دیکھتے ہی راجہ رانی کو پہچان گئے۔ ہاں محنت مزدوری کرنے سے رانی کچھ سانوی سلونی سی ہو گئی تھی اور کچھ موٹی تازی بھی۔ رانی بھی راجہ کو پہچان گئی۔

    پھر راجہ نے پوچھ ہی لیا۔ ’’کہو تسلوں کا ڈھونا تمہیں پسند آیا؟‘‘

    رانی مسکراتی ہوئی بولی۔ ’’کلیاں چبھتی تھیں مگر تسلے نہیں چبھتے۔‘‘

    راجہ کے بہنوئی دونوں کی بات چیت سن کر حیران ہوئے۔ انہوں نے بھید جاننا چاہا۔ راجہ نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ بہنوئی راجہ کی بات سن کر مست ہو گئے۔ انہوں نے رانی کو کام سے سبک دوش کر کے اس کے آرام سے رہنے اور کھانے پینے کا انتظام کر دیا۔

    کچھ دنوں کے بعد رانی سے راجہ نے پوچھا۔’’کہو اب کیا حال ہے۔‘‘

    رانی نے کہا۔ ’’وہ لطف کہاں؟ کاہلی اپنی حکومت قائم کرنی چاہے ہے۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں کلیاں پھر سے چبھنے نہ لگیں۔‘‘راجہ نے اپنی رائے ظاہر کی۔’’تو ایک کام کرو، ہم دونوں مل کر دن بھر مزدوری کیا کریں اور رات کو کلیوں کی سیج پر سوئیں۔‘‘

    رانی نے اپنا تجربہ بتا کر کہا۔’’تو پھر کلیوں کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔ ویسے ہی گہری نیند آجایا کرے گی۔‘‘

    (متھلا، ہندوستان کی ایک لوک کہانی جس میں محنت مشقّت کی اہمیت اور اس کے نتیجے میں‌ ملنے والی حقیقی راحت اور آرام و سکون کو اجاگر کرتی ہے)