Tag: لوک ادب

  • دیہاتی اور لومڑی

    دیہاتی اور لومڑی

    ایک دیہاتی اپنی لاٹھی میں ایک گٹھری باندھے ہوئے گانے گاتا سنسان سڑک پر چلا جارہا تھا۔ سڑک کے کنارے دور دور تک جنگل پھیلا ہوا تھا اور کئی جانوروں کے بولنے کی آوازیں سڑک تک آرہی تھیں۔

    تھوڑی دور چل کر دیہاتی نے دیکھا کہ ایک بڑا سا لوہے کا پنجرہ سڑک کے کنارے رکھا ہے اور اس پنجرے میں ایک شیر بند ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا اور پنجرے کے پاس آگیا۔

    اندر بند شیر نے جب اس کو دیکھا تو رونی صورت بنا کر بولا۔ ’’بھیا تم بہت اچھّے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ دیکھو مجھے کسی نے اس پنجرے میں بند کر دیا ہے اگر تم کھول دو گے تو بہت مہربانی ہوگی۔‘‘

    دیہاتی آدمی ڈر رہا تھا مگر اپنی تعریف سن کر اور قریب آگیا۔ تب شیر نے اس کی اور تعریف کرنا شروع کر دی۔ ’’بھیّا تم تو بہت ہی اچھے اور خوب صورت آدمی ہو۔ یہاں بہت سے لوگ گزرے مگر کوئی مجھے اتنا اچّھا نہیں لگا۔ تم قریب آؤ اور پنجرے پر لگی زنجیر کھول دو۔ میں بہت پیاسا ہوں۔ دو دن سے یہیں بند ہوں۔‘‘

    اس آدمی کو بہت ترس آیا اور اس نے آگے بڑھ کر پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔

    شیر دہاڑ مار کر باہر آگیا اور دیہاتی پر جھپٹا۔ اس نے کہا۔ ’’ارے میں نے ہی تم کو کھولا اور مجھ ہی کو کھا نے جارہے ہو؟‘‘

    شیر ہنس کر بولا۔ ’’ اس دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو پاس لگے ہوئے پیڑ سے پوچھ لو۔‘‘

    دیہاتی نے پیڑ سے کہا۔ ’’بھیّا پیڑ! میں راستے پر جارہا تھا، شیر پنجرے میں بند تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے کھول دو اور میں نے کھول دیا۔اب یہ مجھ ہی کو کھا نا چاہتا ہے۔‘‘

    پیڑ نے جواب دیا۔ ’’اسِ دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ میرے پھل کھاتے ہیں اور میرے سائے میں اپنی تھکن مٹاتے ہیں مگر جب ضرورت پڑتی ہے تو مجھے کاٹ کر جلا بھی دیتے ہیں۔ مجھ پر ترس نہیں کھاتے۔‘‘

    شیر یہ سن کر پھر دیہاتی پر جھپٹا۔ اس نے کہا۔ ’’رکو ابھی کسی اور سے پوچھ لیتے ہیں۔‘‘اس نے راستے سے پوچھا۔

    ’’بھائی راستے! دیکھو کتنی غلط بات ہے کہ شیر کو پنجرے سے میں نے نکالا اور وہ مجھ ہی کو کھانا چاہتا ہے۔‘‘

    راستے نے کہا۔’’ہاں بھائی! کیا کریں، دنیا ایسی ہی ہے۔ مجھ پر چل کر لوگ منزل تک پہنچتے ہیں، میں ان کو تھکن میں آرام دینے کے لیے اپنے اوپر سلا لیتا ہوں۔ مگر جب ان کو مٹی کی ضرورت ہوتی ہے تو میرے سینے پر زخم ڈال کر مجھے کھود ڈالتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ میں نے کبھی آرام دیا تھا۔‘‘

    شیر یہ بات سن کر پھر جھپٹا۔ دیہاتی سہم کر ایک قدم پیچھے ہٹا۔ تب وہاں ایک لومڑی گھومتی نظر آئی۔ دیہاتی اس کی طرف لپکا اور بولا۔ ’’دیکھو یہاں کیا غضب ہورہا ہے۔‘‘لومڑی اطمینان سے ٹہلتی ہوئی قریب آئی اور پوچھا۔’’کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہو۔‘‘

    ’’دیہاتی نے کہا کہ میں راستے سے جارہا تھا، شیر پنجرے میں تھا اور پنجرہ بند تھا۔ اس نے میری بہت تعریف کی اور کہا کہ پیاسا ہوں مجھے کھول دو، اور جب میں نے اسے کھولا تو یہ مجھے کھانے کر جھپٹ رہا ہے۔ یہ تو کوئی انصاف نہیں اور جب ہم نے پیڑ سے پوچھا تو وہ کہہ رہا ہے کہ یہی صحیح ہے اور جب راستے سے پوچھا تو اس نے بھی کہا کہ شیر کا فیصلہ ٹھیک ہے۔ اب بتاؤ میں کیا کروں؟‘‘

    شیر کھڑا یہ سب باتیں سن کر یہی سوچ رہا تھا کہ دیہاتی کی بات ختم ہو تو اسے کھا کر اپنی بھوک مٹاؤں۔

    لومڑی بولی۔ ’’اچّھا میں سمجھ گئی، تم پنجرے میں بند تھے اور پیڑ آیا اور اس نے تم کو۔‘‘

    ’’ارے نہیں۔ میں نہیں شیر بند تھا۔‘‘دیہاتی نے سمجھایا۔

    ’’اچّھا۔‘‘ لومڑی نے سر ہلایا اور پھر بولی۔ ’’شیر بند تھا اور راستے نے شیر کو کھول دیا تو تم کیوں پریشان ہو؟‘‘

    ’’ ارے نہیں۔ راستے نے نہیں، میں نے اس کو پنجرے سے۔‘‘دیہاتی الجھ گیا تھا۔

    ’’بھئی میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا، کون بند تھا، کس نے کھولا، کیا ہُوا پھر سے بتاؤ۔‘‘ لومڑی نے کہا۔

    ادھر شیر نے سوچا یوں تو بہت وقت بر باد ہو رہا ہے۔ اس نے لومڑی کو سمجھانے کی غرض سے اپنی طرف متوجہ کیا اور بولا۔ ’’دیکھو! میں پنجرے میں۔۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پنجرے کی طرف گیا اور اندر گھس گیا اور لومڑی کو سمجھایا کہ وہ یوں اندر بند تھا اور۔۔۔‘‘

    لومڑی تیزی سے چند قدم اگے بڑھی اور پنجرے کا دروازہ بند کر کے زنجیر چڑھا دی۔ آخر اس کے بڑے اور اس کے خاندان کے کئی لوگوں کو بھی تو شیر نے اپنا شکار بنایا تھا۔ آج اسے بدلہ چکانے کا موقع مل رہا تھا۔ چالاک تو وہ مشہور تھی ہی اور آج پھر ایک انسان کے سامنے اپنی چالاکی اور ذہانت منوا لی۔

    اس مڑ کر دیہاتی سے کہا۔ اب تم اپنے راستے جاؤ۔ ہر ایک مدد کے لائق نہیں ہوتا۔

    دیہاتی کی جان میں‌ جان آئی۔ اس نے اپنی لاٹھی اٹھائی اوراحسان مندی سے لومڑی کو دیکھتا ہوا اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔

    (ایک لوک کہانی)

  • ماہیا: پنجاب کی مقبول ترین صنفِ سخن

    ماہیا: پنجاب کی مقبول ترین صنفِ سخن

    اردو اور مقامی زبانوں میں بھی تخلیق ہونے والا ادب یوں تو ہمارے تمدن، تہذیب اور ثقافت کو اجاگر کرتا ہے، مگر لوک ادب میں اس کا خاص رنگ جھلکتا ہے۔

    لوک ادب میں کسی بھی علاقائی رہن سہن، تہذیب و تمدن اور ثقافت کی نہایت خوب صورت مثالیں ملتی ہیں۔ اسی میں شاعری بھی شامل ہے جس کی مختلف اصناف داستانوں، افسانوی شخصیات کے تذکروں سے آراستہ ہیں۔ ماہیا ایک ایسی ہی صنف ہے جسے ہم سرزمین پنجاب کے مقبول ترین عوامی گیت کہہ سکتے ہیں۔ اس صنفِ سخن کا تعلق لوک روایات سے ہے۔

    ماہیا، دراصل ماہی سے تشکیل پایا ہے۔ اردو زبان میں ماہی سے مراد محبوب ہے۔ تاہم بعض محققین کے نزدیک یہ لفظ بھینس چرانے والے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور بعد میں مجازاً پیارے اور محبوب کے لیے بولا جانے لگا۔ مقامی شعرا نے پنجاب کے حسن، محبت کی داستانوں اور انسانی جذبات کو اس صنفِ سخن میں نہایت خوب صورتی سے سمیٹا ہے۔

    ماہیا وہ کلام ہے جس میں تین مصرعوں میں شاعر اپنی بات کہتا ہے۔ اس صنف کا پہلا اور تیسرا مصرع ہم وزن جب کہ درمیانی مصرع کے دو حروف پہلے اور آخری مصرع کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں۔ پنجاب کی اس مقبول صنف نے اردو زبان اور شعرا کو بھی متاثر کیا اور فلموں اور ریڈیو میں اردو ماہیے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ بنیادی طور پر گائی جانے والی صنف ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے دُھن، ردھم اور آوازوں کو اہمیت دی گئی۔

    ماہیے میں خطۂ پنجاب کی خوب صورتی، دل کشی، یہاں کی تہذیب و اقدار اور ثقافت کو مدنظر رکھا گیا، مگر اردو شعرا نے بھی اس طرف توجہ دی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اردو زبان کے تخلیق کاروں نے اسے مقامی ادب سے نکال کراس کی اہمیت بڑھا دی۔ اردو زبان میں اسی طرح تین مصرعوں کی ہائیکو اور ثلاثی جیسی اصناف بھی موجود ہیں جن کے شعری لوازم جدا ہیں۔

    ماہیے کے حوالے سے اردو شعرا کا نام لیا جائے تو قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی سے پہلے ہمت رائے شرما اور قتیل شفائی کے ماہیے فلموں میں گائے گئے۔ اس حوالے اختر شیرانی، چراغ حسن حسرت جیسے مشہور شعرا کا نام بھی لیا جاتا ہے۔

    ماہیا پنجاب کی مقبول صنفِ سخن ہے اور ادبی محافل اور خاص تقاریب میں ضرور سنے جاتے ہیں اور سب ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں پنجاب کے دیہات کی خوب صورت زندگی اور دل رُبا داستانوں سے لازوال کرداروں کو سمیٹا گیا ہے۔ اردو زبان میں اس صنفِ سخن میں یہ مشہور گیت پیشِ خدمت ہے۔

    ساون میں پڑے جھولے
    تم بھول گئے ہم کو
    ہم تم کو نہیں بھولے