Tag: لوک داستانیں

  • مومل جی ماڑی اور اس سے منسوب لوک داستان

    مومل جی ماڑی اور اس سے منسوب لوک داستان

    آج جدید مشینوں، سائنسی آلات اور ٹیکنالوجی کی بدولت ایجاد و دریافت کا سلسلہ پہلے کی نسبت سہل ہوگیا ہے۔ اگرچہ ہزاروں سال پرانے کھنڈرات یا آثار سے ملنے والی مختلف اشیاء اور سامانِ زندگی کی بنیاد پر کسی قدیم دور اور اس وقت کی آبادیوں سے متعلق قیاس آرائی یا حقائق تک پہنچنا تو ممکن ہے، مگر بہت سے قصّے اور داستانیں ایسی ہیں جن پر یقین کرنا مشکل ہے۔ سندھ میں موہن جو دڑو کے آثار کے بارے میں تو آپ سب ہی جانتے ہیں، لیکن شاید بہت سے لوگوں کے لیے مومل جی ماڑی کا نام نیا ہو جو اس دور کا ایک عجیب و غریب محل تھا۔ اس محل سے ایک عشقیہ داستان بھی منسوب ہے جس کے کردار رانو اور مومل ہیں۔

    مومل جی ماڑی کے قدیم آثار سندھ کے مشہور قصبے گھوٹکی سے 11 کلومیٹر مشرق کی طرف جروار روڈ پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ 15 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی یہ ماڑی پہاڑی تودوں پر مشتمل ہے۔ ان تودوں کے 12 ایکڑ رقبے پر کچی پکی اینٹوں کے مکانات اور جھگیوں پر مشتمل گاؤں ہے جب کہ جنوب مغربی سمت میں بقیہ 3 ایکڑ رقبہ غیر آباد ہے۔ اس غیر آباد حصے سے متعلق مقامی لوگوں میں کئی دیو مالائی قصے اور ایسی کہانیاں مشہور ہیں جو سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔ ماڑی کی بات کی جائے تو یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ یہاں کسی دور میں مومل کا محل واقع تھا۔ محل کو سندھی زبان میں ’’ماڑی ‘‘ کہا جاتا ہے، اس لیے یہ مومل کی ماڑی کہلاتا ہے۔

    محققین کا خیال ہے کہ مومل نام کا یہ قلعہ نما محل 590ء میں راجہ رائے سہاسی ثانی کے دور حکومت میں تعمیر ہوا تھا۔ راجہ رائے سہاسی کو تعمیراتی کاموں سے بہت دل چسپی تھی اور اس نے چکنی مٹی سے مومل جی ماڑی کے علاوہ چھ دوسرے محل تعمیر کرائے تھے، جن کے نام اچھ، ماتھیلا، سیورائی، ماڈ، الور اور سیوستان ہیں۔ مومل جی ماڑی کے کھنڈرات اس پہاڑ ی ٹیلے پر ایک عظیم الشان قلعے کی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں۔ اس کے کھنڈرات سے اکثر زیورات اور ظروف و استعمال کی دیگر اشیاء ملتی رہتی ہیں، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کسی زمانے میں یہاں ہم جیسے انسان بستے تھے اور محل یا قلعہ میں بھی کبھی رونق لگی رہی ہو گی۔ سندھ کی مستند تاریخ پر مبنی کتاب تاریخِ معصومی میں اس قلعے کا ذکر ’’ماتھیلہ‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔ اسی مناسبت سے ایک قصبہ میرپور ماتھیلو بھی آباد ہے۔

    مومل جی ماڑی کے آثار کے علاوہ یہاں کی لوک داستان مومل رانو بھی بہت مشہور ہے۔ اس کا تذکرہ آگے آئے گا۔ اگر تاریخ معصومی پر نظر ڈالیں تو اس کے مطابق مسلمان مجاہد محمد بن قاسم ثقفی نے 711ء کے قریب اس علاقے پر قبضہ کیا تھا اور اس وقت کا ہندو راجہ داہر محمد بن قاسم سے مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔

    سندھ میں مومل جی ماڑی سے منسوب داستان کچھ اس طرح ہے کہ امر کوٹ کا راجہ ہمیر سومرو، اپنے خاص مصاحب کے ساتھ دور افتادہ جنگلات میں شکار کھیلا کرتا تھا اور ایک دن اسی طرح‌ شکار کھیلنے میں مصروف تھا کہ اچانک ایک شخص سامنے آگیا، جو انتہائی پریشان حال لگ رہا تھا۔ ان لوگوں نے اس کو کھانا کھلایا اور شکار کے دوران وہ ان کے ساتھ رہا لیکن وہ اس وقت تک ان شکاریوں کی حقیقت نہیں جانتا تھا۔ اس شخص کا نام رانو میندھرو تھا جو نوجوان راجہ ہمیر سومرو کو بہت پسند آیا جس نے بعد میں اسے اپنے خاص مصاحبین میں شامل کرلیا۔ رانو نے بتایا کہ وہ کشمیر کے قریب واقع ایک ریاست کا شہزادہ ہے اور وہ یہاں مومل نامی حسینہ کی شہرت سن کر اس سے شادی کرنے آیا ہے۔ دل چسپ اتفاق یہ کہ خود راجہ ہمیر بھی شہزادی سے شادی کا امیدوار رہ چکا تھا لیکن شہزادی مومل کی کچھ شرائط تھیں جن کو راجہ ہمیر پوری کرنے میں ناکام رہا تھا۔ اس نے نوجوان رانو کو یہ نہیں بتایا بلکہ اسے یقین دلایا کہ وہ مومل تک پہنچنے میں اس کو مدد دیں گے۔ مومل نامی دوشیزہ امر کوٹ کے شمال مشرق میں ’’لودھروا‘‘ نامی قصبے میں ایک پراسرار محل میں اپنی سات بہنوں کے ہم راہ رہتی تھی۔ اس محل کا نام ’’کک محل‘‘ تھا۔ بعض روایات کے مطابق مومل گوجر قوم کے راجہ نند کی بیٹی تھی، جو لودھروا کے علاقے کا حاکم تھا۔ شہزادی مومل کا یہ محل نہایت عجیب و غریب اور پراسرار اس لیے تھا کہ محل کے دروازے پر دونوں اطراف شیروں کے مجسمے تھے جو اس مہارت سے بنائے گئے تھے کہ اصلی نظر آتے تھے۔ ان کے آگے ایک دریا موجزن تھا، جسے پار کرنا ناممکن نظر آتا تھا لیکن یہ بھی حقیقی دریا نہیں تھا اور اس دور کے ہنرمندوں کی مہارت کا شاہکار تھا۔ محل کے اندر داخل ہونے پر صحن میں سات انتہائی دیدہ زیب اور نفیس پلنگ رکھے نظر آتے جن پر قیمتی کپڑے کی چادریں بچھی ہوئی تھیں۔ ساتوں پلنگ ایک جیسے نظر آتے تھے اور ان میں ذرا سا بھی فرق بظاہر آنکھ سے محسوس نہیں‌ ہوتا تھا، لیکن ان میں سے چھ پلنگ کچے سوت سے بُنے ہوئے تھے اور ان کے نیچے گہرے گڑھے کھودے گئے تھے جب کہ ایک پلنگ مضبوط نیواڑ سے بنایا گیا تھا۔ ان چھ پلنگوں پر جیسے ہی کوئی شخص بیٹھتا پلنگ اس کے بوجھ سے ٹوٹ جاتا تھا اور اس پر بیٹھنے والا شخص گڑھے میں گر جاتا۔ بس نیواڑ والا پلنگ ایسا تھا جس کو اگر کوئی پہچان کر بیٹھ جاتا تو وہ محفوظ رہتا۔ یہی وہ پلنگ تھا جس پر مومل اکثر بیٹھا کرتی تھی۔

    مومل شہزادی کے حسن و جمال کی وجہ سے شہزادوں اور امراء کے بیٹوں کے رشتے آنے لگے تھے اور شادی کرنا جیسے آسان نہیں رہا تھا۔ وہ ایک ذہین اور پراعتماد مرد سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ اس نے منادی کروا دی کہ جو شخص میری تمام شرائط پوری کرنے کے بعد میرے محل میں داخل ہو کر‌ یہاں رکھے ہوئے اصل پلنگ پر آکر بیٹھ جائے گا تو میں اس سے شادی کر لوں گی۔ کئی حکم رانوں اور شہزادوں اور امراء نے قسمت آزمائی کی لیکن اکثریت کو محل کے قریب آنے کے بعد خوف محسوس ہونے لگا۔ وہ اس دریا اور شیروں کی حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہے اور ڈر کر نامراد لوٹ گئے۔ چند بہادر ان تمام آزمائشوں سے گزر کر محل کے اندر داخل ہونے میں تو کام یاب رہے لیکن کچے سُوت سے بنے ہوئے پلنگوں پر بیٹھ گئے اور ان کے نیچے بنائے ہوئے گہرے گڑھوں میں جا گرے۔ وہاں سے انھیں‌ نکال کر واپس بھیج دیا گیا۔ امر کوٹ کا راجہ ہمیر سومرو بھی قسمت آزمائی کے لیے گیا، لیکن دریا کی موجیں اور دھاڑتے ہوئے شیروں کو دیکھ کر وہاں سے لوٹ آیا۔

    آخر وہ کشمیری شہزادہ رانو میندھرو راجہ ہمیر اور اس کے ساتھیوں کی راہ نمائی میں اپنا مقدر آزمانے کے لیے محل تک پہنچ گیا۔ وہ ذہین بھی تھا اور بہادر بھی۔ اس نے محل کے سامنے بپھری ہوئی لہروں میں اپنا نیزہ مارا تو جان لیا کہ یہ اصلی دریا نہیں ہے۔ دوسری طرف شیر دکھائی دے رہے تھے۔ رانو دریا کو پار کر کے شیروں کے قریب پہنچا لیکن ان کی جانب سے کوئی نقل و حرکت نہ پا کر وہ نہایت اطمینان کے ساتھ محل میں داخل ہوگیا۔ وہاں اسے ایک ہی جیسےسات پلنگ نظر آئے۔ اس نے ہر پلنگ پر بیٹھنے سے پہلے اپنا نیزہ مار کر انہیں جانچا اور اس طرح وہ اصل پلنگ پر جا کر بیٹھ گیا۔ شہزادی کو خبر دی گئی تو اس نے رانو کو اپنے حضور طلب کیا اور رانو کی وجاہت نے اسے متاثر کیا۔ مومل نے وعدے کے مطابق اس سے بیاہ کر لیا۔

    راجہ ہمیر سومرو کو شہزادہ رانو اور مومل کی شادی کی خبر پہنچی تو وہ رقابت کی آگ میں جلنے لگا۔ رانو جب واپس امر کوٹ آیا تو راجہ ہمیر سومرو نے اسے کہا کہ وہ آئندہ ملنے نہ جائے اور اس پر پہرے دار لگا دیے۔ ایک روز وہ اپنے کمرے میں آیا اور جب اندھیرا گہرا ہوگیا تو کسی طرح نظر بچا کر اپنے تیز رفتار اونٹ پر بیٹھ کر لودھروا کی جانب روانہ ہوا۔ وہاں ساری رات وہ کک محل میں مومل کے ساتھ رہا اور پھر امر کوٹ واپس آگیا۔ کسی کو خبر تک نہ ہوسکی۔ وہ دن کو راجہ ہمیر کے دربار میں امور سلطنت نمٹایا کرتا تھا۔ ایک روز راجہ کے جاسوسوں نے اسے لودھروا کی جانب جاتے ہوئے دیکھ لیا۔ راجہ ہمیر کو اطلاع دی گئی اور جب رانو، مومل سے مل کر واپس آیا تو اسے گرفتار کر کے نظر بند کردیا گیا۔ لیکن چند روز بعد راجہ کو رانو کے ساتھ اپنی دوستی یاد آئی اور اس نے رانو کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے رانو سے وعدہ لیا کہ وہ آئندہ مومل سے ملاقات کے لیے نہیں جائے گا۔ رانو اس وعدہ پر زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا اور یہ سلسلہ پھر کسی طرح شروع ہوگیا۔

    ایک مرتبہ رانو معینہ وقت پر شہزادی مومل سے ملنے کے لیے کک محل نہیں پہنچا تو مومل اس کے فراق میں تڑپنے لگی اور اپنے دل کو تسلی دینے کی خاطر اپنی بہن سومل کو مردانہ لباس پہنا کر اپنے پاس رانو کی جگہ لٹا لیا۔ رات کو کسی پہر رانو وہاں پہنچ گیا، اور دیکھا کہ مومل کے ساتھ کوئی اجنبی شخص سو رہا ہے۔ اندھیرے میں اسے سومل کا چہرہ نظر نہیں آیا اور وہ بدگمان ہوکر وہاں سے چلا گیا لیکن جاتے وقت اپنی چھڑی مومل کے سرہانے چھوڑ گیا۔ صبح جب مومل نیند سے بیدار ہوئی تو اس نے اپنے سرہانے رانو کی چھڑی رکھی ہوئی دیکھی، وہ سمجھ گئی کہ رانو اس سے ملنے آیا تھا لیکن سومل کو اس کے ساتھ محو خواب دیکھ کر بدگمانی میں مبتلا ہو کر چلا گیا ہے، اور اس کا اظہار کرنے کے لیے اپنی چھڑی چھوڑ گیا ہے۔ پھر وہ کئی روز تک اس کا انتظار کرتی رہی اور مجبور ہو کر مومل نے مردانہ بھیس بدلا اور ایک اونٹ پر سوار ہوکر امر کو ٹ پہنچ گئی۔ وہاں ایک سرائے میں ٹھہر کر وہ کئی دنوں تک رانو کو تلاش کرتی رہی۔ ایک جگہ وہ اسے نظر آگیا، مومل نے اسے آواز دی، مسلسل گریہ زاری کی وجہ سے مومل کی آواز خاصی بھرّائی ہوئی تھی، رانو اس کی آواز نہیں پہچان سکا لیکن وہ اسے کوئی اجنبی مرد سمجھ کر اس کے قریب آیا۔ قریب آنے پر جب مومل نے اسے اپنا چہرہ دکھایا تو وہ نفرت سے منہ موڑ کر واپس جانے لگا۔ رانو اس کے قدموں سے لپٹ گئی اور اسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ جو کچھ اس نے کک محل میں دیکھا وہ محض اس کی غلط فہمی تھی، اس کے ساتھ اس کی بہن سومل سو رہی تھی۔

    مومل نے رانو سے اپنی اس غلطی کی معافی بھی مانگی لیکن رانو، مومل سے اس حد تک بدگمان ہوچکا تھا کہ مومل کی رانو کو منانے کی ہر کوشش رائیگاں گئی۔ تب مومل نے دل برداشتہ ہو کر قریب ہی آگ کے جلتے ہوئے الاؤ میں چھلانگ لگا دی اور خود کشی کر لی۔ مومل کے مرنے کے بعد رانو کو اس کی محبت کی سچائی کا یقین آیا تو اس نے بھی اسی الاؤ میں کود کر اپنی جان دے دی۔ یوں تاریخ کے صفحات میں مومل اور رانو کی محبت کی داستان ہمیشہ کے لیے امر ہوگئی۔

    محققین کے مطابق پہاڑی ٹیلوں پر واقع اس محل کا نام مومل رانو کے مرنے کے بعد ’’مومل رانو کی ماڑی‘‘ پڑ گیا تھا جب کہ آج اسے صرف مومل کی ماڑی کہا جاتا ہے۔ اب بھی ملک اور بیرونِ ملک سے آنے والے سیاح ادھر کا رخ کرتے ہیں اور اس محل کے کھنڈرات دیکھنے کے ساتھ یہاں کے لوگوں سے رانو اور مومل کی داستان سننا پسند کرتے ہیں۔

  • سلاس کی تنہائی دور ہو گئی (لوک کہانی)

    سلاس کی تنہائی دور ہو گئی (لوک کہانی)

    سلاس ایک پھرتیلا، چمکیلا اور لچکیلا سانپ تھا۔ گہرے سبز رنگ کا سلاس موزمبیق اور انگولا کے درمیان واقع بہت بڑے جنگل میں رہتا تھا، جہاں کیلے کے درختوں کی بہتا ت تھی۔

    کیلے کے درختوں پر بہت بڑے بڑے پتے تھے۔ یہ کیلے کے درخت ہمارے ایشیائی درختوں سے کہیں بڑے ہوتے ہیں۔ سلاس کے مشاغل میں سے ایک یہ تھا کہ وہ خود کو کسی درخت کے گرد لپیٹ کر دم سادھ لیتا اور یوں لگتا جیسے وہ بھی کسی درخت پر اگی ہوئی بھوری شاخ ہے۔ کبھی وہ اپنے جسم کے بل کھول کر ایک لمبی بھوری رسی کی طرح کسی درخت سے لٹک جاتا اور بندروں کے بچوں کو ناریل کا فٹ بال بنا کر کھیلتے دیکھتا۔ اس کی چمکتی موتیوں جیسی آنکھوں میں انہیں دیکھ کر جوش بھر جاتا۔ اس کی دو شاخہ زبان کبھی اندر اور کبھی باہر لہراتی رہتی۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ بھی بچوں کے ساتھ اس کھیل میں حصہ لے۔ لیکن بچوں کی ماں جب بھی دیکھتی کہ وہ بچوں کے قریب آ رہا ہے تو شور مچا دیتی "بچو فوراً بھاگو، سلاس آ رہا ہے، وہ ڈس لیتا ہے۔ اسی طرح سلاس جب رینگتا ہوا لمبے لمبے بانس کے درختوں کے پاس جاتا جہاں شیر کے بچے چھپا چھپی کا کھیل کھیل رہے ہوتے، تو ان کی ماں سلاس کو دیکھ کر فوراً غراتی اور شور مچا دیتی کہ "خبردار! سلاس آ رہا ہے۔” شیرنی ماں کی یہ آوازیں سن کر بچے فوراً ادھر ادھر چھپ جاتے یا ماں کے ساتھ چمٹ جاتے۔ کئی مرتبہ یہ ہوا کہ سلاس کسی درخت کے تنے پر رینگتا ہوا چڑھا تو طوطوں نے ٹیں ٹیں کر کے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اسی ٹیں ٹیں میں بڑے طوطے اور ان کی بچے اڑ کر دوسرے درختوں کی شاخوں پر جا بیٹھتے۔ بے چارے سلاس کو قطعی سمجھ نہ آتی کہ وہ ان جانوروں کا اعتماد جیتنے کے لئے کیا کرے۔ یقینا وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو ڈسے۔ وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ وہ ہمہ وقت تنہا رہتا ہے، کوئی تو ہو جو اس کے ساتھ کھیلے، جس سے اس کا دل بھی لگ جائے۔ وہ خود کو ہمیشہ تنہا محسوس کرتا تھا۔

    وہ ایک ایسا دن تھا جب گرمی اپنے عروج پر تھی۔ جنگل کے سارے جانور گرمی سے پریشان اور بے حال ہو کر اپنے اپنے گھونسلوں اور بلوں میں دبکے پڑے تھے۔ تمام بندر ایک ناریل کے درخت کے چھاؤں میں سوئے ہوئے تھے۔ سلاس کیلے کے درخت کی ایک شاخ پر لپٹا ہوا نیند کی وادیوں میں کھویا ہوا تھا۔ بڑے مزے کی نیند تھی کیونکہ جنگل اتنا خاموش تھا کہ کسی پتے کے کھڑکھڑانے کی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔ لیکن پھر اچانک سلاس کی آنکھ ایک بہت ہی باریک چیخ سے کھل گئی۔ اسے لگا وہ خواب دیکھ رہا تھا۔ ابھی وہ دوبارہ آنکھیں موندنے ہی لگا تھا کہ اس نے وہی آواز سنی۔ اور یہ آواز اسے کیلے کے درخت کے اوپر سے آ رہی تھی۔ اس نے اپنا چپٹا اور ملائم سر اٹھایا اور اپنی چمکیلی موتیوں جیسی آنکھوں سے اوپر کی جانب گھور کر دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ کیلے کے درخت پر سب سے اوپر جگنو بیٹھا ہوا ہے۔ وہ کھیلنے والے بندروں میں سے سب سے چھوٹا بندر تھا۔ وہ کیلے کے درخت کی پھننگ پر سب سے کمزور شاخ پر سہما ہوا بیٹھا تھا۔ جو اس پر لگے ہوئے کیلوں کے بوجھ سے جھکی جا رہی تھی اور لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے وہ کیلوں اور جگنو کے بوجھ سے ٹوٹ سکتی ہے۔ جگنو بالکل اکیلا تھا اور خوف سے کانپ رہا تھا۔ وہ بار بار زمین کی طرف دیکھتا اور ہر دفعہ گہرائی کو دیکھ کر گھبرا کر آنکھیں بند کر لیتا۔ سلاس نے نہایت حیرانی سے جگنو سے پوچھا "تم اوپر بیٹھے کیا کر رہے ہو۔ تم تو اتنے چھوٹے سے ہو اور تمہیں اتنے بڑے درختوں کی چھتوں تک اتنی اونچائی پر اکیلے نہیں چڑھنا چاہیے۔” جگنو بہت شرمندہ تھا اور سلاس کے ساتھ آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکتا تھا۔ پھر اس نے وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ” دراصل مجھے بہت بھوک لگی ہوئی تھی اور اس درخت پر لگنے والے کیلے پورے افریقہ میں پائے جانے والے کیلوں سے مزے دار ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ سبھی میٹھی نیند سو رہے ہیں تو کیوں نہ میں کچھ کیلے ہی کھا لوں۔ کسی کو پتا بھی نہیں لگے گا۔ مگر….”جگنو نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بات جاری رکھی، کہنے لگا۔ ” میں نے لالچ میں آ کر بہت زیادہ کیلے کھا لئے اور اب میرے پیٹ میں بہت زیادہ درد ہو رہا ہے، میں یہ بھی نہیں جانتا کہ میں اس شاخ سے نیچے کیسے اتر سکتا ہوں۔” یہ سن کر سلاس نے سکون سے جگنو کو کہا، ” فکر نہ کرو جگنو! مجھے کچھ سوچنے دو۔” سلاس نے اپنی دُم کے کونے سے اپنا سَر کھجایا اور کسی گہری سوچ میں گم ہوگیا۔ پھر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے کہا، "میں اس شاخ کے گرد اپنی دم لپیٹا ہوں جس پر تم بیٹھے ہوئے ہو۔ اور پھر تقریباً زمین تک لٹک جاتا ہوں۔ جیسے ایک رسی لٹکتی ہے۔ تم مجھے ایک رسی کی طرح پکڑ کر جھولتے ہوئے زمین پر پہنچ جانا۔” جگنو یہ ترکیب سن کر خوش ہو گیا۔

    سلاس نے حرکت کی اور اپنی دُم کا سرا اس شاخ پر لپیٹ دیا جس پر جگنو بڑی مشکل سے چمٹا ہوا تھا۔ اس نے باقی جسم ایک رسی کی طرح زمین کی طرف لٹکا دیا اور اس کا سَر تقریباً زمین کو چھونے لگا۔ اس نے جگنو سے کہا، "لو اب مجھے پکڑ کر نیچے پھسلتے جاؤ۔” جگنو نے سلاس کی لچکیلی چمکیلی اور پھرتیلی کمر اپنے ننھے گلابی ہاتھوں سے کس کر پکڑ لی اور پھر زوں کی آواز سے پھسلتا ہوا نیچے آگیا۔ اس کے قدم زمین پر ٹکے تو دوڑ کر اپنی ماں کے پاس پہنچ گیا۔ وہ نیند میں‌ تھی۔ ماں نے اسے دیکھا تو سخت ناراضی سے پوچھا، ” تم کہاں غائب تھے؟ اور میں نے تمہیں کتنی دفعہ سمجھایا ہے کہ اکیلے درختوں پر نہ چڑھا کرو ورنہ سلاس تمہیں پکڑ گا۔” جگنو نے ماں کی یہ بات سن کر اسے پورا واقعہ سنایا۔ جگنو بولا، "امی آپ صحیح کہہ رہی ہیں، سلاس نے ہی مجھے ڈھونڈا ہے اور اس نے میری مدد کی ہے، اور مجھے ایک اونچے درخت سے نیچے اتارا ہے۔” ادھر سلاس ابھی اپنے جسم کے بل اس درخت سے کھولنے میں مصروف تھا جس پر جگنو پھنسا ہوا تھا کہ اس کی نظر جگنو کی ماں پر پڑی جو وہاں اس کا شکریہ ادا کرنے آئی تھی۔ وہ سلاس کے پاس آئی اور کہنے لگی، "مجھے بہت افسوس ہے کہ میں تم پر شک کرتی رہی اور تمہیں برا بھلا کہتی رہی۔ لیکن اب مہربانی فرما کر میرے گھر آؤ، میں تمہیں ناریل کا دودھ پینے کو دوں گی۔ اور آج کے بعد تم ہمارے دوست ہو۔”

    سلاس یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ اب اس کی تنہائی دور ہوچکی تھی۔ اس واقعے کے بعد سلاس نے بندر کے بچوں کو جھولا جھلانا اپنا معمول بنا لیا۔ وہ درخت کی شاخوں سے اپنی دُم لپیٹ کر لٹک جاتا اور بندر کے بچے اس کی چکنی اور ملائم جلد پر پھسلتے ہوئے زمین پر آتے اور خوب ہنستے۔ سلاس کچھ ہی عرصہ میں یہ بات بھول چکا تھا کہ کبھی وہ ہر وقت تنہائی کا شکوہ کرتا تھا اور افسردہ رہتا تھا۔

    (افریقی ادب سے ترجمہ شدہ کہانی)

  • پہاڑی کا بھوت (یورپی لوک داستان)

    پہاڑی کا بھوت (یورپی لوک داستان)

    یہ ایک پرانا گاﺅں ہے۔ اس علاقے میں سفر کرنے والوں نے کاٹس کِل کے پہاڑوں کے قدموں میں آباد اس گاﺅں کے مکانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلتے دیکھا ہوگا۔

    ان مکانوں کی ڈھلوان چھتیں درختوں کے درمیان چمکتی ہیں۔ اس گاﺅں کو صدیوں پہلے ہالینڈ سے امریکا آنے والے لوگوں نے آباد کیا تھا۔ بعض مکانوں میں ابھی تک ہالینڈ سے لائی ہوئی پیلے رنگ کی ٹائلیں لگی ہوئی ہیں۔ بعض مکانوں کی چھتوں پر مرغ باد نما لگے ہوئے ہیں اور مکانوں کا طرز تعمیر ہالینڈ کا سا ہے۔ بعض مکانوں کے سامنے کے حصے تکونی چھت والے ہیں۔

    اس گاﺅں کے سب سے پرانے اور خستہ حال مکان میں ایک سیدھا سادہ اور نیک طبیعت کا آدمی رہتا تھا۔ اس کا نام ’رِپ وین وِنکل‘ تھا۔ وہ ایک اچھا پڑوسی اور فرماں بردار شوہر تھا۔ اس کی سیدھی سادی طبیعت کی وجہ سے لوگ اسے بہت پسند کرتے تھے۔

    گاﺅں کے بچے بھی رِپ کو دیکھتے ہی خوشی سے چلانے لگتے۔ رِپ بچوں کے کھیل میں ان کی مدد کرتا، ان کے کھلونے ٹوٹ جاتے تو ان کی مرمت کردیتا، اُنہیں پتنگ اُڑانا اور کنچے کھیلنا سکھاتا اور اُنھیں بھوتوں، جادوگروں اور ریڈ انڈینوں کی کہانیاں سناتا۔ جب وہ گاﺅں سے گزرتا، تو بچے اُسے گھیر لیتے۔ کوئی اس کے کپڑے پکڑ کر لٹک جاتا اور کوئی اس کے کندھے پر چڑھ جاتا۔ بچے اس کے ساتھ شرارتیں بھی کرتے، کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ رِپ انہیں کچھ نہیں کہے گا۔ گاﺅں کے کتے بھی رِپ سے اتنے ہلے ہوئے تھے، کہ وہ اس پر کبھی نہیں بھونکتے تھے۔
    مگر رِپ میں ایک خامی تھی، وہ کوئی ایسا کام نہ کرتا تھا جس سے اسے کچھ آمدنی ہوتی۔ وہ سارا سارا دن مچھلی پکڑنے کی ایک لمبی سی بھاری سی بنسی لیے، کانٹے پر چارا لگائے بیٹھا رہتا، لیکن کوئی مچھلی کانٹے میں تو کیا پھنستی، چارے پر منھ تک نہ مارتی۔ اس پر رِپ کو مچھلیوں سے یا اپنی قسمت سے ذرا شکایت نہ ہوتی۔

    مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کے علاوہ رِپ وین ونکل کندھے پر بندوق رکھے گھنٹوں جنگل میں اور وادیوں میں مارا مارا پھرتا، مگر اسے کوئی شکار نہ ملتا سوائے گلہریوں اور جنگلی کبوتروں کے۔ یہ نہیں تھا کہ وہ محنت سے جی چراتا تھا۔ وہ اپنے پڑوسیوں کی مدد سے کبھی انکار نہ کرتا، چاہے ان کا کام کتنا ہی سخت کیوں نہ ہوتا۔ وہ مکئی سے بھوسہ الگ کرنے اور کھیتوں کی باڑھ بنانے میں ان کی مدد کرتا۔ گاﺅں کی عورتیں بھی رِپ سے چھوٹے موٹے کام کروالیتیں۔

    مختصر یہ کہ رِپ صاحب سب کا کام کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے، سوائے خود اپنے کام کے.. اپنے کھیت میں کام کرنا رِپ کو ناممکن لگتا۔ بلکہ رِپ نے اعلان کردیا تھا کہ خود اس کے کھیت میں کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، کیوں کہ اس کے کھیت کی زمین علاقے میں سب سے خراب ہے اور کھیت میں کام کرتے ہوئے ہر دفعہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ ایک تو کھیت کی باڑھ اکثر ٹوٹتی رہتی۔ اس کی گائے یا تو کھوجاتی یا کھیتوں میں گھس کر فصل کو برباد کردیتی۔ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ اس کے کھیت میں جنگلی گھاس دوسرے کھیتوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے اُگتی ہے اور یہ کہ وہ جب بھی کھیت میں کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے بارش ہونے لگتی ہے۔ اس کے ان بہانوں سے اس کی زمین آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ سے نکلتی گئی اور آخر اس کے پاس زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا ہی رہ گیا، جس پر وہ آلو اور مکئی اگایا کرتا تھا۔

    رِپ وین ونکل کے بچے بھی اس کی طرح پھٹے پرانے کپڑے پہنتے اور اس کی طرح مارے مارے پھرتے، جیسے ان کا کوئی وارث نہ ہو۔ اس کا بیٹا رِپ وین ونکل جونیئر اپنے باپ یعنی رِپ کے پرانے کپڑوں کے ساتھ ان کی عادتوں کو بھی اپناتا جارہا تھا۔

    لیکن رِپ وین ونکل ان لوگوں میں سے تھا، جو اپنی سادہ اور خوش رہنے والی طبیعت کی وجہ سے ہنسی خوشی زندگی گزار لیتے ہیں۔ چاہے اُنہیں روکھی سوکھی کھانے کو ملے یا چُپڑی، ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس وہ کم سے کم محنت کرنا چاہتے ہیں۔ اگر رِپ کو محنت کرکے ایک روپیہ مل سکتا، تو وہ بغیر محنت کیے ایک پیسہ ملنے پر خوش رہتا۔ اگر اسے یونہی چھوڑ دیا جاتا تو وہ ساری زندگی سیٹیاں بجاتے ہوئے اطمینان سے گزار دیتا، مگر اس کی بیوی ڈیم وین ونکل اس کی کاہلی اور بے پروائی پر اسے ہر وقت ڈانٹتی رہتی تھی۔ صبح ہو یا شام، ڈیم وین ونکل کی زبان ہر وقت چلتی رہتی۔ رِپ کے پاس اس کی باتوں کا ایک ہی جواب تھا، اور وہ یہ، کہ رِپ اپنے کندھے اُچکاتا، سر ہلاتا اور آنکھیں اوپر چڑھا لیتا، لیکن منھ سے کچھ نہ کہتا۔ یہ جواب وہ اتنی بار دیتا تھا کہ اب کندھے اُچکانا، سر ہلانا اور آنکھیں چڑھانا اس کی عادت بن گئی تھی، لیکن یہ جواب اس کی بیوی کے غصے کو اور تیز کردیتا اور رِپ اس کے غصے سے بچنے کے لیے گھر سے باہر نکل جاتا۔

    رِپ کی گھر میں سب سے زیادہ اپنے کتے سے بنتی تھی، جس کا نام وولف تھا۔ وولف بھی رِپ کی بیوی سے اتنا ہی ڈرتا تھا، جتنا خود رِپ۔ رِپ کی بیوی وولف کو اکثر غصے سے دیکھتی تھی، کیوں کہ رِپ اور وولف دونوں اکثر ایک ساتھ گھر سے غائب ہوجاتے تھے۔ وولف بڑا بہادر کتا تھا لیکن رِپ کی بیوی کے غصے کے سامنے اس کی ساری بہادری ہوا ہوجاتی تھی۔ گھر سے باہر اور جنگلوں میں وولف کی بہادری دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی لیکن گھر میں گُھستے ہی اس کے اوپر کو اُٹھے ہوئے کان نیچے جھک جاتے، دُم لٹک جاتی یا پچھلی ٹانگوں کے درمیان دب جاتی اور وہ چپ چاپ مسکین بنا رِپ کی بیوی کو دیکھتا رہتا، لیکن اس کے ہاتھ سے جھاڑو کھاتے ہی ٹیاﺅں ٹیاﺅں کرتا گھر سے باہر لپکتا۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رِپ کے لیے زندگی مشکل ہوتی گئی، کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رِپ کی بیوی کا غصہ بڑھتا گیا اور زبان تیز ہوتی گئی۔ ایک عرصے تک رِپ کی بیوی کے غصے سے بچنے اور دل بہلانے کے لیے وقت کا زیادہ حصہ گاﺅں کے ان کاہل اور بے فکرے لوگوں کے ساتھ گزارتا، جو گاﺅں کی چھوٹی سی سرائے کے باہر بینچ پر جمع ہوتے تھے۔ سرائے کی دیوار پر انگلستان کے بادشاہ جارج سوم کی تصویر لگی تھی (اس زمانے میں امریکا پر انگلستان کی حکومت تھی) یہ لوگ وہاں بیٹھے سارا دن گپیں ہانکتے اور ایک دوسرے کو عجیب عجیب بے تکی کہانیاں سناتے رہتے۔ سرائے میں ٹھہرنے والے کسی مسافر کا کوئی پرانا اخبار اگر کہیں کبھی ان کے ہاتھ لگ جاتا تو پھر ان کی باتیں سننے سے تعلق رکھتیں۔ گاﺅں کے اسکول کے استاد ڈیرک وین بمل سے وہ لوگ اخبار پڑھوا کر سنتے اور واقعات پر بحث کرتے جو مہینوں پہلے ہوچکے ہوتے۔

    ان بے فکروں کی ٹولی میں سرائے کے مالک نکولس ویڈر کی راے بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ نکولس ویڈر سارا دن سرائے کے باہر درخت کے سائے میں بیٹھا رہتا اور جیسے جیسے دھوپ آگے بڑھتی، وہ اپنی جگہ بدلتا رہتا، لیکن وہ بولتا کم تھا اور اپنی رائے پائپ کا دھواں اُڑا کر ظاہر کرتا تھا۔ اگر کسی خبر پر اسے ناراضی کا اظہار کرنا ہوتا تو وہ پائپ کے تیز تیز کش لگاتا اور ڈھیر سارا دھواں جھٹکوں سے چھوڑتا اور جب کسی بات پر خوش ہوتا تو بڑے آرام سے کش لیتا اور بڑے سکون سے آہستہ آہستہ دھواں چھوڑتا اور ایسے میں کبھی کبھی منھ سے پائپ ہٹا کر دھوئیں کے مرغولے اپنی ناک کے آس پاس جمع ہونے دیتا اور پھر سر ہلا ہلا کر اشارے سے ہاں کہتا۔

    لیکن اس محفوظ جگہ پر بھی رِپ اپنی بدمزاج بیوی سے ہار جاتا تھا، جو اچانک ان کی محفل کے سکون کو درہم برہم کرکے وہاں موجود تمام لوگوں کو نکھٹو اور کاہل کہتی۔ سرائے کا مالک نکولس ویڈر بھی رِپ کی بیوی کی تیز زبان سے نہ بچ سکتا اور وہ اس سے کہتی کہ تم میرے شوہر کو اپنی طرح کاہل بنا رہے ہو۔

    اب رِپ بے چارہ بالکل ہی مایوس ہوگیا۔ اس کے لیے جان بچانے کا اب ایک ہی طریقہ تھا اور وہ یہ کہ کھیتوں میں محنت کرنے سے بچنے اور بیوی کے غصے سے ڈر کر وہ اپنی بندوق اُٹھا کر اپنے کتے وولف کے ساتھ جنگلوں میں نکل جاتا۔ جنگل میں وہ کبھی کسی درخت کے سائے میں بیٹھ جاتا اور اس کے پاس جو کچھ کھانے کو ہوتا وہ اور وولف مل کر کھاتے۔ وہ وولف سے کہتا کہ ”میرے دوست وولف! میری اور تمہاری زندگی تمہاری مالک نے برباد کردی ہے، مگر فکر نہ کرو، جب تک میں زندہ ہوں تمہیں کسی اور دوست کی ضرورت نہیں۔“ وولف یہ سن کر اپنی دُم ہلانے لگتا اور خوش ہو کر رِپ کی طرف دیکھتا جیسے وہ بھی رِپ سے یہی کہہ رہا ہو۔

    ایک دن رِپ اور وولف اسی طرح گھر سے نکل گئے اور گھومتے گھامتے بے خیالی میں کاٹس کِل کے پہاڑوں کی سب سے اُونچی چوٹی پر جا پہنچے۔ رِپ اپنے پسندیدہ کھیل یعنی گلہریوں کے شکار میں مصروف تھا اور اس کی بندوق سے چلنے والی گولیوں کی آواز پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آتی تو ایسا لگتا کہ دوسری طرف بھی کوئی گولی چلا رہا ہے۔ آخر شام ہوگئی اور رِپ اتنا تھک گیا کہ ایک ہری بھری جگہ دیکھ کر وہیں لیٹ گیا۔ اس کی نظروں کے سامنے نیچے وادی میں گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا۔ ایک طرف عظیم دریا ہڈسن بہہ رہا تھا۔ دوسری طرف ایک کھائی تھی، جس میں نوکیلی چٹانیں نکلی ہوئی تھیں، جو ڈوبتے سورج کی روشنی میں بڑی مشکل سے نظر آرہی تھیں۔ رِپ کچھ دیر یونہی پڑا اس منظر سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ شام گہری ہوچلی تھی۔ پہاڑوں کے سائے لمبے اور دھندلے ہوتے جارہے تھے۔ رِپ نے سوچا گھر پہنچتے پہنچتے بالکل اندھیرا ہوجائے گا۔ آخر وہ ایک گہری سانس لے کر اُٹھا۔ اسے بیوی کے غصے کا اندازہ تھا۔

    رِپ نے جیسے ہی پہاڑ سے نیچے کی طرف چلنا شروع کیا، اسے دور سے آتی ہوئی ایک آواز سنائی دی۔ کوئی اسے پکار رہا تھا: ”رِپ وین ونکل! رِپ وین ونکل!“ رِپ نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھا، لیکن اسے پہاڑی کوے کے سوا کوئی نظر نہ آیا۔ رِپ نے سوچا کہ شاید میرے کان بج رہے ہیں۔ یہ سوچ کر دوبارہ نیچے کی طرف چلا، اسے دوبارہ وہی گونجتی ہوئی آواز سنائی دی۔ ”رِپ وین ونکل! رِپ وین ونکل!“ اسی وقت وولف کی کمر کے بال کھڑے ہوگئے اور ہلکی ہلکی آواز میں غراتے ہوئے رِپ کے قریب دبک گیا۔ وولف نے ڈرتے ڈرتے نیچے کھائی کی طرف دیکھا۔ اب رِپ کو بھی ڈر لگنے لگا اور اس نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا جدھر وولف دیکھ رہا تھا۔ اسے ایک عجیب طرح کا شخص چٹانوں سے آہستہ آہستہ اوپر آتا دکھائی دیا۔ اس شخص کے اوپر بہت سا بوجھ لدا ہوا تھا جس کے نیچے وہ دہرا ہوا جارہا تھا۔ رِپ کو بڑی حیرت ہوئی کہ اس سنسان جگہ پر کون آگیا ہے، لیکن وہ یہ سوچ کر اس کی مدد کو آگے بڑھا کہ ہوسکتا ہے کہ اس کے گاﺅں کا ہی آدمی ہو۔

    اس شخص کے قریب پہنچ کر رِپ کو اس کے عجیب حلیے پر اور بھی حیرت ہونے لگی۔ وہ ایک ٹھگنا اور چوڑا سا بوڑھا آدمی تھا، جس کے گھنگھریالے اور گھنے بال تھے۔ اس کی داڑھی کھچڑی ہوچکی تھی اور کپڑے ایسے تھے، جیسے پرانے زمانے میں ہالینڈ کے لوگ پہنا کرتے تھے۔ اس نے ایک تنگ اور چست سا چمڑے کا کوٹ پہن رکھا تھا۔ اس کی پتلون گھٹنے کے کچھ نیچے تک تھی، جس کے پائنچوں کو ڈوری سے کس لیا گیا تھا۔ اس کی پتلون پر رنگین بٹنوں کی قطاریں ٹنکی ہوئی تھیں اور گھٹنوں کے پاس بہت سارے بٹن لگے تھے۔ اس نے اپنے کندھے پر ایک چھوٹا سا پیپا اُٹھا رکھا تھا، جس میں کوئی مشروب بھرا ہوا تھا۔ اس نے رِپ کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے اس کی مدد چاہ رہا ہو۔ پہلے تو رِپ اس کا حلیہ دیکھ کر جھجکا، لیکن اس کی عادت تھی کہ ہر ایک کی مدد کو فوراً تیار ہوجاتا تھا۔ چنانچہ وہ اس اجنبی کی مدد کے لیے بڑھا۔ دونوں پیپے کو ایک تنگ سے راستے سے گزار کر اوپر لے جانے لگے. وہ جس طرف جارہے تھے، وہاں سے رِپ کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد پانی بہنے کی آواز آتی، جیسے کوئی پہاڑی جھرنا بہہ رہا ہو۔ رِپ نے سوچا کہ یہ شاید اس تیز بارش کی آواز ہے، جو پہاڑی چوٹیوں پر ہوا کرتی ہے۔ وہ جس راستے پر جارہے تھے، وہ دراصل ایک سوکھی ہوئی پہاڑی ندی تھی۔ اس سوکھی ندی میں چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جو چاروں طرف سے اونچی اونچی پہاڑیوں سے گھری ہوئی تھی۔ ان پہاڑیوں کے کناروں پر اونچے اونچے درخت تھے اور ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی بڑے پیالے کی تہہ میں ہیں۔ رِپ نے سر اٹھا کر دیکھا تو اسے آسمان اور بادل ایک دائرے کی شکل میں نظر آئے۔

    سارے راستے رِپ اور اس عجیب حلیے والے اجنبی کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی۔ اگرچہ رِپ سوچتا رہا کہ آخر اس دشوار گزار اور سنسان پہاڑی علاقے میں مشروب سے بھرا ہوا پیپا لے جانے کی کیا تُک ہے؟ اسے یہ سب عجیب لگ رہا تھا لیکن پیالے نما جگہ پر پہنچ کر رِپ کی حیرت اور بڑھ گئی۔ وہاں زمین کے ایک ہموار ٹکڑے پر عجیب و غریب حلیے اور شکلوں والے کچھ اور لوگ جمع تھے اور کنچے کھیل رہے تھے۔ ان کے کپڑوں سے بھی یہی لگتا تھا کہ وہ پرانے زمانے کے ہالینڈ کے رہنے والے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے اس بوڑھے کی طرح تنگ اور چست چمڑے کے کوٹ پہنے ہوئے تھے اور کچھ نے ایسی جیکٹیں پہنی تھیں، جن کی آستینیں کلائی کے پاس تنگ اور کہنی سے اوپر ڈھیلی ڈھالی تھیں۔ اکثر نے بوڑھے کی طرح کی گھٹنے سے کچھ نیچے تک آنے والی پتلونیں پہن رکھی تھیں، جن کے پائنچے ڈوری سے کَسے ہوئے تھے۔ انہیں دیکھ کر ہنسی آتی تھی۔ اکثر نے ا پنے کمر پٹوں میں لمبے لمبے چاقو اَڑس رکھے تھے۔ ان کے چہرے اور ناک نقشہ بھی بہت الگ قسم کا تھا۔ ایک کا چہرہ بہت چوڑا، سر بڑا لیکن آنکھیں چھوٹی چھوٹی تھیں۔ ایک کی ناک اتنی بڑی تھی کہ لگتا تھا پورے چہرے پر صرف ناک ہی ہے۔ اس لمبی چوڑی ناک والے نے بڑی سی کناروں والی سفید ٹوپی پہن رکھی تھی، جس پر کسی پرندے کا سرخ پَر لگا ہوا تھا۔ ان سبھی کی مختلف قسم کی داڑھیاں تھیں۔ ان میں سے ایک سردار اور چہرے سے بڑا تجربہ کار اور دنیا دیکھا ہوا لگتا تھا۔ اس کی ٹوپی درمیان سے اُونچی تھی اور اس نے اُونچی ایڑی کے لمبے لمبے جوتے پہن رکھے تھے، جو اس کے گھٹنوں تک آتے تھے۔ جوتوں پر گلاب کے پھول لگے تھے۔ ان سب لوگوں کو دیکھ کر رِپ کو ہالینڈ کے پرانے باشندوں کی وہ تصویر یاد آگئی، جو اس نے گاﺅں میں پادری کے گھر دیکھی تھی۔

    رِپ کو جو چیز سب سے زیادہ عجیب لگی وہ یہ تھی کہ یہ لوگ اور ان کے حلیے ایسے تھے کہ اُنھیں دیکھ کر ہنسی آتی تھی، لیکن وہ خود بہت سنجیدہ چہرے بنا کر بالکل خاموشی سے بلکہ کسی حد تک اُداسی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہر طرف خاموشی تھی اور اس خاموشی میں صرف ان کنچوں کے لڑھکنے کی آواز آتی تھی جن سے وہ پراسرار اجنبی کھیل رہے تھے۔

    جب رِپ اور اس کے ساتھ چلنے والا اجنبی بوڑھا ان کے پاس پہنچے تو اُنھوں نے اچانک اپنا کھیل بند کردیا اور رِپ کو کچھ ایسی کڑی نظروں سے گھورنے لگے کہ رِپ کا کلیجا اُچھل کر حلق میں آگیا اور اس کے گھٹنے کپکپانے لگے۔ اس بوڑھے نے پیپے میں موجود سارا مشروب پیالوں میں اُنڈیل دیا اور رِپ کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا، جیسے اسے انتظار کرنے کو کہہ رہا ہو۔ رِپ خاموشی سے کھڑا ڈرتا رہا، لرزتا رہا اور انتظار کرتا رہا۔ عجیب شکلوں والے پیالے اٹھا کر مشروب خاموشی سے مزے لے لے کر چڑھا گئے اور دوبارہ اپنے کھیل میں مصروف ہوگئے۔
    اب رِپ کا ڈر کچھ کم ہوا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کی طرف کوئی نہیں دیکھ رہا تو وہ چپکے سے پیالوں کی طرف بڑھا۔ عجیب شکلوں والے اور رِپ کے ساتھ آنے والا بوڑھا سب کے سب کنچے کھیلنے میں لگے تھے۔ رِپ نے ایک پیالا اٹھایا اور مشروب چکھا۔ اسے اس کا ذائقہ بہت اچھا لگا اور وہ پورا پیالا پی گیا۔ اس کا دل دوسرا پیالا پینے کو چاہا اور دوسرے کے بعد تیسرا، تیسرے کے بعد چوتھا۔ ایک کے بعد ایک وہ مشروب کے پیالے چڑھاتا گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد مشروب کے اثر سے اسے نیند آنے لگی۔ اس کی آنکھیں خود ہی بند ہوگئیں اور سر ایک طرف کو جھک گیا۔ رِپ وین ونکل کو گہری نیند نے آلیا تھا۔

    جب رِپ کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو اسی ہری بھری جگہ پر پایا، جہاں اس نے اور وولف نے اجنبی کو پہلی بار دیکھا تھا۔ رِپ نے اپنی آنکھیں مسلیں۔ صبح ہوچکی تھی۔ ہر طرف چمک دار دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ پرندے درختوں اور جھاڑیوں میں پھڑپھڑا رہے تھے۔ عقاب پہاڑوں کی صاف ہوا میں اُونچی اُونچی اڑانیں کر رہے تھے۔ ”یقینا میں ساری رات یہاں نہیں سویا۔“ رِپ نے سوچا۔ اس نے سونے سے پہلے کے واقعات یاد کرنے شروع کردیے۔ ”عجیب بوڑھا، مشروب کا پیپا، خشک پہاڑی ندی، کچھ عجیب شکلوں والے لوگ، مشروب کے پیالے…

    اوہ! اچھا تو یہ شیطانی مشروب ہی تھا، جس نے مجھ پر نیند طاری کردی۔ اب میں اپنی بیوی کو کیا جواب دوں گا کہ میں ساری رات کہاں رہا؟“

    رِپ اپنی بندوق کو اِدھر اُدھر تلاش کرنے لگا لیکن اسے اپنی نئی چمک دار اور صاف ستھری بندوق کی جگہ ایک پرانی بندوق ملی، جس کی نال کو زنگ لگ چکا تھا۔ بندوق کا گھوڑا ٹوٹ کر گر چکا تھا اور لکڑی کے دستے میں کیڑوں نے جگہ جگہ سوراخ کر دیے تھے۔ اب اسے شک ہونے لگا کہ وہ عجیب شکلوں والے لوگ اور بوڑھا سب کے سب بھوت تھے اور اس پہاڑ کے بھوتوں نے اس کے ساتھ چالاکی کی ہے اور اسے نیند لانے والا مشروب پلا کر اس کی بندوق لے اڑے ہیں۔ اس کا کتا وولف بھی غائب تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی گلہری یا پرندے کے پیچھے نکل گیا ہو۔ یہ سوچ کر اس نے وولف کو بلانے کے لیے سیٹی بجائی اور اس کا نام لے کر اسے بلانے لگا، لیکن سب بیکار.. اسے اپنی سیٹی کی گونج سنائی دی، جو پہاڑ سے ٹکرا کر آرہی تھی، مگر کتا نہیں آیا۔

    اب رِپ نے فیصلہ کیا کہ رات کو اس نے جہاں ان عجیب شکلوں والے بھوتوں سے ملاقات کی تھی، وہاں جانا چاہیے اور اگر ان میں سے کوئی مل جائے تو ان سے اپنی نئی بندوق اور کتا واپس مانگنا چاہیے۔ یہ سوچ کر اس نے اُٹھنے کا ارادہ کیا لیکن وہ جیسے ہی اُٹھا اسے محسوس ہوا کہ اس کی ہڈیوں اور جوڑوں میں وہ لچک نہیں رہی اور اسے اُٹھنے اور چلنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اس نے سوچا کہ شاید پہاڑی راستوں پر دیر تک چلتے رہنے اور وزنی پیپا اُٹھانے کی وجہ سے اس کا جسم درد کر رہا ہے۔ آخر وہ کسی نہ کسی طرح رات والی جگہ جانے کے لیے اسی راستے پر پہنچا، لیکن یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جس سوکھی ندی سے وہ اور عجیب بوڑھا رات گزرے تھے، وہاں اب ایک ندی بہہ رہی تھی۔ اس کا پانی پتھروں سے ٹکراتا، جھاگ اُڑاتا، بلبلے بناتا تیزی سے نیچے کی طرف جارہا تھا۔

    اس ندی کے کنارے کنارے چلتا ہوا رِپ آگے بڑھنے لگا۔ کنارے پر گھنی جھاڑیاں، گھاس اور جنگلی بیلیں اُگی ہوئی تھیں۔ رِپ ان بیلوں کو پکڑتا اور جھاڑیوں کا سہارا لیتا کسی نہ کسی طرح اس کھلی جگہ پہنچا، جس کی شکل پیالے جیسی تھی اور جو چاروں طرف سے اُونچی پہاڑیوں سے گھری ہوئی تھی، لیکن اس جگہ اب پہاڑی ندی پورے زور و شور سے بہہ رہی تھی اور اس کا پانی ایک مہیب آواز کے ساتھ نیچے وادی میں گر رہا تھا۔ یہاں پہنچ کر رِپ رُک گیا۔ اس نے اپنے کتے کو بلانے کے لیے پھر سیٹی بجائی اور اسے آواز دی، جس کا جواب پہاڑی کوﺅں کے ایک غول نے دیا۔ ”اب کیا کیا جائے؟“ رِپ سوچنے لگا۔

    صبح کا وقت گزرتا جارہا تھا اور رِپ کو بہت زور کی بھوک لگ رہی تھی۔ آخر اس نے بڑے افسوس کے ساتھ فیصلہ کیا کہ کتے اور بندوق کی تلاش ختم کرکے گھر چلا جائے اور کسی نہ کسی طرح بیوی کا سامنا کیا جائے، کیوں کہ پہاڑوں میں بھوکا مرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس نے اپنا سر جھٹکا، زنگ کھائی بندوق اپنے کندھے سے لٹکائی اور بڑی بے چینی کے ساتھ، بھاری دل لے کر گھر کی طرف چل پڑا۔

    گاﺅں کی طرف جاتے ہوئے اسے راستے میں کئی لوگ ملے، جن میں سے وہ کسی کو بھی نہیں جانتا تھا۔ اس پر اسے حیرت بھی ہوئی، کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ اس علاقے کے ہر آدمی کو وہ پہچانتا ہے۔ اسے ان لوگوں کے کپڑے بھی عجیب طرح کے اور نئے فیشن کے لگے۔ ان لوگوں نے بھی رِپ کو اتنی ہی حیرت سے دیکھا، بلکہ راستے میں جس کسی نے بھی رِپ کو دیکھا، اس نے حیرت سے اپنی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ لیا۔ ان لوگوں کو ایسا کرتا دیکھ کر رِپ نے بھی بے خیالی میں اپنی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھا اور یہ دیکھ کر اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کہ اس کی داڑھی بالشت بھر لمبی ہوچکی ہے۔

    اب وہ گاﺅں کے باہر پہنچ چکا تھا۔ کچھ بچے اس کے پیچھے لگ گئے اور اُنہوں نے اس پر آوازیں کسیں۔ وہ اس کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ گاﺅں کے کتے بھی اس پر بھونکنے لگے۔ ان بچوں اور کتوں میں سے وہ کسی کو بھی نہیں جانتا تھا۔ حالاں کہ گاﺅں کے کتے اور بچے اس سے بہت مانوس تھے۔ اس کے لیے ہر چیز نئی اور عجیب تھی۔ گاﺅں کی صورت بھی بدل چکی تھی۔ گاﺅں نہ صرف پھیل گیا تھا، بلکہ اس کی آبادی بھی زیادہ لگ رہی تھی۔ وہاں کچھ نئے مکان بھی بنے ہوئے تھے، جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ اس کے سب جانے پہچانے مکان غائب ہوچکے تھے۔ مکانوں کے دروازوں پر لوگوں کے نئے اور اجنبی نام لکھے ہوئے تھے۔ گاﺅں میں ہر طرف نئے چہرے نظر آرہے تھے۔ اب رِپ کا سر گھومنے لگا۔ یہ ایک ہی رات میں کیا سے کیا ہوگیا؟ اسے ایسا لگ رہا تھا، جیسے اس پر اور ساری دنیا پر کسی نے جادو کردیا ہے اور جادو کے اثر سے ہر چیز بدل گئی ہے۔ ”لیکن یہ تو وہی گاﺅں ہے، جہاں میں بچپن میں کھیلا کرتا تھا، جہاں میرے باپ دادا رہا کرتے تھے اور جو میں نے صرف ایک دن پہلے چھوڑا تھا۔“ اس نے سوچا، اس نے اِدھر اُدھر دیکھا، سامنے اس کا جانا پہچانا دریائے ہڈسن بہہ رہا تھا۔ دوسری طرف کاٹس کِل کے پہاڑ کھڑے تھے۔ دریا اور پہاڑ تو بالکل ویسے کے ویسے تھے۔ ”پھر کیا میرا سر گھوم رہا ہے؟ شاید رات کے مشروب سے میرا دماغ چل گیا ہے۔“ رِپ نے سوچا۔

    اسے اپنے گھر کا راستہ تلاش کرنے میں بھی مشکل پیش آئی۔ سارا راستہ اس نے خاموشی سے طے کیا اور اپنی بیوی ڈیم وین ونکل کی تیز اور باریک آواز سننے کے انتظار میں رہا، لیکن اس نے اپنے گھر کو تباہ حالت میں پایا۔ اس کے مکان کی چھت گر چکی تھی۔ کھڑکیاں ٹوٹ چکی تھیں اور دروازوں کے پٹ قبضوں سے نکل کر جھول رہے تھے۔ ایک بھوک کا مارا دبلا پتلا کتا، جس کی شکل وولف سے ملتی تھی وہاں لوٹ لگا رہا تھا۔ رِپ نے اس کا نام لے کر اسے پکارا مگر کتے نے بھونک کر دانت نکالے اور آگے بڑھ گیا۔ رِپ کے دل کو یہ دیکھ کر بہت تکلیف پہنچی کہ اس کا کتا بھی اسے نہیں پہچان رہا۔

    رِپ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر میں داخل ہوا، جس کو اس کی بیوی ہمیشہ صاف ستھرا رکھتی تھی۔ گھر خالی اور اجڑا پڑا تھا۔ اس میں رہنے والے اسے بہت پہلے خالی چھوڑ کر جا چکے تھے۔ گھر کی بربادی دیکھ کر رِپ بیوی کا ڈر بھول گیا اور اپنے بچوں اور بیوی کو آوازیں دینے لگا۔ خالی کمروں میں اس کی آواز گونجی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ اب وہ تیزی سے باہر نکلا اور اپنے پرانے اڈے یعنی گاﺅں کی سرائے کی طرف بڑھا، لیکن سرائے کی حالت بھی تباہ تھی۔ سرائے ایک پرانی سی عمارت میں تبدیل ہوچکی تھی، جس میں بڑی بڑی سی کھڑکیاں لگی تھیں۔ کچھ کھڑکیاں ٹوٹ چکی تھیں، جن کی مرمت میں شیشے کے بجائے پرانی ٹوپیاں اور گتے استعمال ہوئے تھے۔ دروازے پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا:

    یونین ہوٹل….مالک: جوناتھن ڈولٹل

    سرائے کے باہر لگا وہ گھنا درخت غائب تھا، جس کے سائے میں سرائے کا پرانا مالک نکولس ویڈر اور دوسرے کاہل بیٹھا کرتے تھے۔ اس کی جگہ ایک ڈنڈا سا کھڑا تھا، جس کے سرے پر ایک جھنڈا لہرا رہا تھا۔ جھنڈے پر بہت سارے ستارے اور پٹیاں بنی ہوئی تھیں۔ رِپ یہ نہیں سمجھ سکا کہ یہ اصل میں امریکا کا جھنڈا تھا اور اب اس کے ملک امریکا پر انگلستان کے بادشاہ کی حکومت نہیں رہی تھی، بلکہ اب اس کا ملک آزاد تھا۔ سرائے کے باہر انگلستان کے بادشاہ جارج سوم کی تصویر کی جگہ پر ایک اور شخص کی تصویر لگی تھی، جس کے نیچے موٹا سا لکھا ہوا تھا: جارج واشنگٹن.

    رِپ کو پتا نہیں تھا کہ اب اس کے ملک پر جارج واشنگٹن راج کررہا ہے۔

    وہاں پر اب بھی بہت سارے بے فکرے جمع تھے، مگر رِپ ان میں سے کسی کو بھی نہیں جانتا تھا۔ لوگوں کا حلیہ ہی بدلا ہوا تھا۔ اب وہاں سکون کے بجائے شور شرابا تھا۔ اس نے نکولس ویڈر کو تلاش کرنے کی کوشش کی، جو وہاں کاہلی سے بیٹھا رہتا تھا، لیکن نکولس ویڈر اب وہاں نہ تھا۔ پھر اس نے اسکول ماسٹر وین بمل کو تلاش کرنا چاہا، جو پرانے اخبار پڑھ کر اُنہیں سنایا کرتا تھا۔ وین بمل بھی اسے نظر نہ آیا۔ اس کی نظر ایک دبلے پتلے سے آدمی پر پڑی، جو بڑے جوش سے تقریر کر رہا تھا۔ اس کے پاس بہت سارے کاغذ تھے۔ اس کی تقریر میں بار بار ایسے الفاظ آتے تھے، جو رِپ کے لیے بالکل انوکھے تھے اور جو اس نے پہلے کبھی نہیں سنے تھے جیسے الیکشن، ووٹ، کانگریس کا ممبر، آزادی، ۶۷۷۱ء کے ہیرو وغیرہ..

    رِپ کی داڑھی اُلجھی ہوئی تھی۔ اس کی بندوق زنگ لگی تھی۔ اس کے کپڑے پرانے اور بھدے تھے اور بچوں اور عورتوں کی فوج اس کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھی۔ رِپ کے اس حلیے نے وہاں موجود لوگوں کی توجہ کھینچ لی۔ وہ سب اس کے گرد جمع ہوگئے اور اسے سر سے پیر تک غور سے دیکھنے لگے۔ مقرر نے بھی اپنی تقریر روک دی اور اسے کھینچ کر ایک طرف لے گیا اور اس سے پوچھا: ”تم نے کس کو ووٹ دیا تھا؟“ رِپ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اسے ووٹ کا مطلب ہی نہیں معلوم تھا۔ رِپ بے وقوفوں کی طرح اس کا منھ تکتا رہا۔ اتنے میں ایک ٹھگنا سا آدمی آگے بڑھا۔ اس نے رِپ کا بازو پکڑ کر کھینچا اور پنجوں کے بل اُچک کر اس کے کان میں بولا: ”تم فیڈرل ہو یا ڈیموکریٹ؟“ رِپ کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آئی۔ (اصل میں یہ دو نام امریکا کی پارٹیوں کے تھے جو اس زمانے میں الیکشن میں حصہ لے رہی تھیں) اسی دوران ایک بوڑھا سا خوش پوش شخص جو اونچی سی لمبی سی ٹوپی لگائے ہوئے تھا، بھیڑ میں سے نکلا اور رِپ کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گیا اور تیز لہجے میں بولا: ”تم الیکشن میں بندوق اور اتنا سارا مجمع لے کر کیوں آئے ہو؟ کیا تمہارا ارادہ گاﺅں میں ہنگامہ اور فساد کرانے کا ہے؟“
    ”اللہ کو مانو! میں ایک غریب اور سیدھا سادہ آدمی ہوں۔ اسی گاﺅں کا رہنے والا ہوں اور بادشاہ جارج کی رعایا میں سے ہوں۔ اللہ ہمارے بادشاہ کو سلامت رکھے۔“ رِپ نے جواب دیا۔ رِپ کا یہ کہنا تھا کہ مجمعے میں ایک شور سا اُٹھا: ”غدار ہے، غدار ہے، جاسوس ہے، مارو، اس کو مارو۔“

    آخر اس اونچی ٹوپی والے بوڑھے نے سب کو بڑی مشکل سے چپ کرایا اور پہلے سے کہیں زیادہ غصے سے رِپ سے کہنے لگا کہ وہ سچ سچ بتادے کہ وہ کون ہے اور یہاں کیوں آیا ہے؟ رِپ نے بڑی مسکینی سے اسے یقین دلایا کہ وہ کسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا، بلکہ وہ یہاں اپنے چند پڑوسیوں کی تلاش میں آیا ہے، جو وہاں سرائے کے پاس ملا کرتے تھے۔

    ”اچھا! کون ہیں تمہارے وہ پڑوسی؟ ان کے نام بتاﺅ؟“ بوڑھے نے کہا۔

    رِپ نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر پوچھا: ”نکولس ویڈر کہاں ہے؟“

    رِپ کی بات سن کر سب خاموش ہوگئے۔ آخر ایک بوڑھے نے ہلکی اور کھوکھلی سی آواز میں کہا: ”نکولس ویڈر؟ اس کے انتقال کو اٹھارہ سال ہوگئے۔ اس کی قبر پر لکڑی کا ایک کتبہ ہوا کرتا تھا، مگر اب تو وہ بھی نہیں رہا۔“

    ”بروم ڈچر کہاں ہے؟“ رِپ نے پوچھا

    ”وہ جنگ شروع ہونے سے پہلے فوج میں بھرتی ہوگیا تھا۔ سنا ہے کہ وہ ایک حملے میں مارا گیا۔ یہ بھی سنا ہے کہ وہ طوفان میں پھنس کر مر گیا۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔ بہرحال وہ کبھی واپس نہیں پلٹا۔“

    ”اچھا اسکول ماسٹر وین بمل کہاں ہے؟“ رِپ نے سوال کیا۔

    ”وہ بھی جنگ لڑنے چلا گیا تھا۔ بڑا زبردست فوجی جرنیل نکلا۔ اب کانگریس میں ہے۔“ رِپ کو جواب ملا۔

    رِپ کو ایسا لگا جیسے اس کا دل رُک کر بند ہوجائے گا۔ اپنے گھر کی تباہی اور اپنے دوستوں سے جدائی کے بعد وہ اپنے آپ کو دنیا میں بالکل اکیلا محسوس کر رہا تھا۔ اس کے ہر سوال کے جواب میں اسے جو کچھ بتایا گیا تھا، وہ اسے ایک پہیلی کی طرح لگ رہا تھا اور پھر وہ تو صرف ایک رات گاﺅں سے باہر رہا تھا۔ اتنے سال کیسے بیت گئے؟ اب اس میں اتنی ہمت نہیں رہی تھی کہ وہ اپنے دوسرے دوستوں کے بارے میں پوچھ سکے، لیکن اس نے رو دینے والی آواز میں یہ ضرور کہا: ”کیا کوئی رِپ وین ونکل کو بھی جانتا ہے؟“

    ”اوہ! رِپ وین ونکل؟“ دو تین آدمی بولے: ”ہاں ہاں، وہ ہے رِپ وین ونکل، ادھر اس درخت کے نیچے بیٹھا ہے۔“ ان میں سے ایک نے اشارہ کیا

    رِپ نے اس کی طرف دیکھا، جہاں اشارہ کیا گیا تھا۔ اسے وہاں ہو بہو اپنی ہی شکل کا ایک شخص بیٹھا نظر آیا۔ اس کی شکل بالکل ویسی ہی تھی، جیسی رِپ کی پہاڑوں پر جانے اور مشروب پینے سے پہلے تھی۔ وہ رِپ کو اپنی ہی طرح غریب اور کاہل لگا۔ اب رِپ کا دماغ پوری طرح گھوم چکا تھا۔ اسے اپنے آپ پر شک ہونے لگا کہ وہ کون ہے؟ وہ سوچنے لگا: ”میں کون ہوں؟ رِپ وین ونکل ہی ہوں یا کوئی اور ہوں، اور وہ شخص کون ہے، جس کا نام لوگ رِپ وین ونکل بتا رہے ہیں اور اس کی شکل بالکل میرے جیسی ہے؟“ اتنے میں خوش پوش بوڑھے نے سختی سے پوچھا: ”تم کون ہو اور تمہارا نام کیا ہے؟“

    ”اللہ بہتر جانتا ہے۔ میں میں نہیں ہوں اور وہ میرا ہم شکل ہے۔ نہیں وہ کوئی اور ہے، جس نے میرا بہروپ بھرا ہوا ہے۔ کل رات میں، میں ہی تھا، لیکن میں پہاڑوں پر سو گیا۔ بھوتوں نے میری نئی بندوق اپنی پرانی بندوق سے بدل لی اور یہاں پر بھی ہر چیز بدلی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ میں خود بھی بدل چکا ہوں۔ میں نہیں بتا سکتا کہ میں کون اور میرا نام کیا ہے۔“

    یہ سن کر مجمعے میں کھڑے لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ وہ پلکیں جھپکا رہے تھے۔ کئی نے حیرت سے سر کھجایا۔ وہ اسے پاگل سمجھنے لگے۔ اتنے میں مجمعے میں کسی نے سرگوشی کی اس کی بندوق لے لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پاگل پن میں کسی کو نقصان پہنچادے۔ یہ سنتے ہی خوش پوش بوڑھا پیچھے ہٹ گیا۔ عین اسی وقت مجمعے کے پیچھے کھڑی ہوئی ایک خوب صورت اور نوجوان لڑکی نے لوگوں کے درمیان سے جھانکنے کی کوشش کی، تاکہ رِپ کی شکل دیکھ سکے۔ اس لڑکی نے اپنی گود میں ایک چھوٹے سے گول مٹول بچے کو اُٹھایا ہوا تھا۔ بچے نے رِپ کی عجیب شکل دیکھ کر رونا شروع کردیا۔ ”چپ ہوجاﺅ، چپ، ڈرو مت۔“ لڑکی نے بچے کو تھپکتے ہوئے کہا۔ ”یہ بوڑھا تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔“

    لڑکی کی آواز تیز اور باریک تھی۔ اس کے بولنے کا انداز اور شکل بھی ایسی تھی کہ رِپ کو اپنی بیوی ڈیم وین ونکل یاد آگئی۔ ”آپ کا نام کیا ہے محترم خاتون؟“ رِپ نے اس سے پوچھا

    ”جوڈتھ۔“ لڑکی نے جواب دیا

    ”اور تمہارے والد کا کیا نام ہے؟“ رِپ نے پوچھا

    ”آہ! میرے والد! ان کا نام رِپ وین ونکل تھا۔ بیس سال پہلے وہ گھر سے اپنی بندوق لے کر کتے کے ساتھ نکلے تھے اور پھر ان کا کوئی پتا نہ چلا۔ ان کا کتا تو گھر واپس آگیا، لیکن ان کا کیا ہوا کچھ نہیں پتا۔ اُنہوں نے خود کو گولی مارلی یا اُنہیں ریڈ انڈین اُٹھا کر لے گئے؟ میں اس وقت بہت چھوٹی تھی۔“

    اب رِپ سمجھ چکا تھا کہ یہ لڑکی کون ہے۔ اس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں پوچھا۔ ”تمہاری ماں کہاں ہے؟“

    ”ان کا بھی انتقال ہوچکا ہے۔“ جوڈتھ نے جواب دیا

    اب رِپ کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا۔ اس نے لڑکی اور اس کے بچے کو پکڑ لیا اور بولا: ”میں تمہارا باپ ہوں۔ میں کبھی جوان رِپ وین ونکل تھا۔ اب میں بوڑھا رِپ وین ونکل ہوں۔ کیا کسی کو بے چارہ رِپ وین ونکل بھی یاد ہے؟“

    یہ سن کر سب لوگ حیران کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ آخر ایک بوڑھی عورت مجمعے سے نکل کر آگے آئی۔ اس نے آگے بڑھ کر رِپ کو غور سے دیکھا اور بولی: ”ہاں ہاں یقیناً یہ رِپ وین ونکل ہی ہے۔ ہمارا پرانا پڑوسی۔ گھر واپسی مبارک ہو۔ مگر تم بیس سال تک کہاں تھے؟“

    رِپ نے ساری بات کہہ سنائی۔ رِپ کی کہانی جلد ہی چاروں طرف پھیل گئی کہ وہ بیس سال تک سوتا رہا تھا اور اس کے پورے بیس سال صرف ایک رات میں گزر گئے۔ لوگوں نے سنا تو دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ اکثر لوگوں نے اس بات پر یقین نہیں کیا۔ آخر کچھ لوگوں نے طے کیا کہ یہ سارا معاملہ ’پیٹروینڈرڈنگ‘ کے سامنے رکھا جائے، جو نہ صرف گاﺅں کا سب سے پرانا باسی تھا، بلکہ اسے گاﺅں کی تاریخ، خاص خاص واقعات اور لوگوں کے قصے زبانی یاد تھے۔ اسے رِپ فوراً ہی یاد آگیا۔ پھر اس نے رِپ پر گزرے ہوئے واقعات سن کر کہا کہ رِپ سچ کہہ رہا ہے۔

    اس نے بتایا: ”میرے دادا پردادا کے زمانے سے یہ بات مشہور ہے کہ کاٹس کِل کے پہاڑوں پر بھوت رہتے ہیں، پیٹر نے یہ بھی بتایا کہ ان پہاڑوں اور گاﺅں کے قریب بہنے والے دریائے ہڈسن کو سب سے پہلے ایک شخص ہنرک ہڈسن نے دریافت کیا تھا۔ اسی لیے اس دریا کا نام ہڈسن رکھا گیا۔ اب ہڈسن کی روح ہر بیس سال بعد کاٹس کِل کے پہاڑوں پر اپنے ساتھیوں کی روحوں کو لے کر دریائے ہڈسن کو دیکھنے آتی ہے۔ ایک دفعہ میرے دادا نے ہڈسن اور اس کے ساتھیوں کی روحوں کو پرانے زمانے کے ہالینڈ کے لوگوں جیسے کپڑے پہنے ان پہاڑوں پر کنچے کھیلتے دیکھا تھا، بلکہ خود میں نے بھی ایک دفعہ پہاڑوں سے آتی ہوئی کنچوں کی آواز سنی تھی۔

    رِپ کی بیٹی جوڈتھ اسے اپنے گھر لے گئی۔ اس کا آرام دہ اور سامان سے بھرا ہوا گھر تھا، جس میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کا شوہر ایک طاقتور اور خوش مزاج کسان تھا۔ رِپ کو یاد آگیا کہ اس کی بیٹی کا شوہر جب چھوٹا بچہ تھا، تو گاﺅں کے دوسرے شریر لڑکوں کے ساتھ وہ بھی رِپ کے کندھوں پر چڑھا کرتا تھا۔ رہا رِپ کا بیٹا رِپ وین ونکل جونیئر، تو وہ وہی شخص نکلا، جس کی شکل رِپ سے ہوبہو ملتی تھی اور جسے دیکھ کر رِپ چکرا گیا تھا کہ یہ رِپ وین ونکل ہے، تو میں کون ہوں۔ اس کی عادتیں بھی رِپ جیسی تھیں اور وہ بھی رِپ کی طرح دوسروں کا کام تو کر دیتا تھا، لیکن خود اپنا کام کرنا اس کے بس میں نہ تھا۔

    اب رِپ نے اپنی ساری پرانی عادتیں اپنالیں لیکن اس کے پرانے دوست سب بوڑھے ہوچکے تھے۔ اس لیے اب اس نے نئی نسل کے لوگوں کو دوست بنایا اور وہ بھی رِپ کو پسند کرنے لگے۔ رِپ پہلے کی طرح سرائے یعنی ہوٹل کے باہر بینچ پر کاہلی سے بیٹھنے لگا۔ اب اس کا شمار گاﺅں کے بزرگوں میں ہوتا تھا اور لوگ اس کی عزت کرتے تھے۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ اس کے پہاڑوں پر جانے کے بعد بڑی تبدیلیاں ہوگئی تھیں۔ اس کے جانے کے بعد ایک جنگ بھی ہوئی تھی، جس کے بعد اس کے ملک پر انگلستان کی حکومت نہیں رہی بلکہ اس کا ملک آزاد ہوگیا اور وہ اب امریکا کا شہری تھا لیکن رِپ کو ان چیزوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ان باتوں سے اسے کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ اب اس کا جہاں دل چاہتا، وہ چلا جاتا، کوئی اسے روکنے والا نہ تھا۔ اسے اب ڈیم وین ونکل کے غصے کا کوئی ڈر نہ تھا لیکن جب بھی کوئی ڈیم وین ونکل کا نام لیتا، وہ اپنی عادت کے مطابق اپنے کندھے اُچکاتا، سرہلاتا اور آنکھیں چڑھاتا جیسا کہ ڈیم کے ڈانٹنے پر کرتا تھا۔

    جو اجنبی ڈولٹل کے یونین ہوٹل آتا، رِپ اسے اپنی کہانی سناتا۔ یہ کہانی اس نے اتنی بار سنائی کہ آس پاس کے لوگوں کو زبانی یاد ہوگئی تھی۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے، جو ہمیشہ رِپ کی کہانی پر شک کرتے اور کہتے کہ رِپ کا دماغ چل گیا ہے لیکن گاﺅں کے پرانے باسی رِپ کی کہانی کو بالکل سچا اور صحیح مانتے تھے، بلکہ آج بھی جب کاٹس کِل کے پہاڑوں پر بادل گرجنے کی آواز آتی ہے تو یہ پرانے باسی کہتے ہیں کہ کاٹس کل کے پہاڑوں پر ہڈسن کی روح اپنے ساتھیوں کے ساتھ کنچے کھیل رہی ہے، اور رِپ کے گاﺅں میں کئی کاہل شوہر ایسے ہیں، کہ جب ان کی بیویاں ان پر غصہ کرتی ہیں اور زندگی اُنہیں دوبھر معلوم ہونے لگتی ہے، تو وہ خواہش کرتے ہیں کہ کاش وہ بھی رِپ وین ونکل کی طرح کاٹس کِل کے پہاڑوں پر جاکر ایسا مشروب پی لیں جو انہیں بیس سال کے لیے سُلا دے۔

    (یورپ کی لوک داستانوں پر مشتمل واشنگٹن ارونگ کی کتاب Rip Van Winkle سے انتخاب، تلخیص و ترجمہ رؤف پاریکھ)

  • لوک داستانوں پر بننے والی فلمیں

    لوک داستانوں پر بننے والی فلمیں

    قدیم داستانیں، حکایات اور لوک کہانیاں ہر زبان کے ادب کا حصّہ ہیں جو کسی خطّے کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور اقوام کے طور طریقوں اور ان کے مشاہیر کا تعارف بھی کرواتی ہیں اور انسان کے صدیوں‌ پر پھیلے ہوئے سفر کو ہمارے سامنے لاتی ہیں۔

    پاکستان کے مختلف علاقوں اور زبانوں میں لوک ادب صدیوں سے عوام النّاس میں مقبول ہے۔ ان میں رومانوی داستانیں اور عشق و محبّت کے لازوال قصّے بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور ان داستانوں کے کردار برصغیر ہی نہیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

    یہ لوک داستانیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہوئی کتابی شکل میں زندہ رہیں جب کہ دورِ جدید میں انھیں ڈراموں اور فلموں کی شکل میں محفوظ کیا گیا اور اس میڈیم کے ذریعے خاص طور پر رومانوی داستانوں کو لازوال شہرت اور مقبولیت ملی۔ یہاں ہم ان مشہورِ زمانہ لوک داستانوں کی بات کر رہے ہیں جن پر فلمیں بنائی گئیں اور یہ کہانیاں بہت مقبول ہیں۔

    پاکستان کی لوک داستانیں
    پنجاب کی مشہورِ زمانہ "ہیر رانجھا” ، "سوہنی مہینوال” ، "مرزا صاحباں” اور "دُلا بھٹی ” کے رومانوی قصے، وادیِ مہران کی "سسی پنوں”، "عمر ماروی”، "نوری جام تماچی” اور "سورٹھ” جیسی داستانوں کو فلم کے پردے پر پیش کیا گیا۔ اسی طرح بلوچستان اور پختونخوا کے علاقوں سے "یوسف خان شیر بانو” ، "آدم خان درخانئی” اور "موسیٰ خان گل مکئی” کی رومانوی کہانیوں پر بھی فلمیں بنیں۔ یہ علاقائی لوک داستانیں ہیں جب کہ اردو زبان میں "انار کلی” اور "شیخ چلی” وغیرہ مشہور کہانیاں ہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ داستانیں حقیقی ہیں یا من گھڑت اور ان کے کردار بھی کسی کے ذہن نے تخلیق کیے تھے۔

    برصغیر میں لوک فلمیں
    برصغیر پاک و ہند میں داستانِ لیلیٰ مجنوں کو 1922ء میں زبردست شہرت ملی کہ اسے فلمایا گیا تھا۔ اردو ادب کی مشہور ترین داستان انار کلی کو اس کے چھے سال بعد پردے پر پیش کیا گیا جس پر ایک ناول لوگ پڑھ چکے تھے۔ تقسیم سے قبل خاموش فلموں کے دور میں پنجاب کی لوک داستانوں میں سے پہلی داستان سسی پنوں 1928ء میں فلمائی گئی۔ پنجاب کی مشہور لوک کہانیوں میں سے پہلی فلم سوہنی مہینوال بھی اسی سال جب کہ اگلے سال مرزا صاحباں اور ہیر رانجھا کو فلمایا گیا۔ ناطق فلموں کا دور آیا تو لاہور میں پہلی پنجابی فلم ہیر رانجھا 1932 میں بنائی گئی۔ تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان میں بھی یہ قصے کہانیاں متعدد بار سنیما پر پیش کیے گئے۔

    1970ء کی دہائی میں پشتو فلموں کے ابتدائی دور میں پہلی فلم یوسف خان شیر بانو ایک لوک داستان تھی جس میں یاسمین خان اور بدرمنیر نے ٹائٹل رول کیے تھے۔ اگلے سال اسی جوڑی کو فلم آدم خان درخانئی میں بھی کاسٹ کیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ پنجاب اور سندھ کی جو مشہور زمانہ لوک کہانیاں سنیما کے پردے پر پیش کی گئیں۔

    ہیر رانجھا
    ہیر رانجھا پاکستانی لوک داستانوں میں سب سے مقبول رہی ہے۔ اسے پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر سید وارث شاہؒ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لوک داستانوں میں یہ واحد رومانوی داستان ہے جس میں دو مشہور کہانیاں ہیں۔ ایک "ہیر اور رانجھا” کی اور دوسری "سہتی اور مراد” کی۔ پاکستان میں صرف پندرہ برس کے دوران اس کہانی کو پانچ بار فلمایا گیا جس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس لازوال داستان پر پہلی بار ہدایت کار نذیر نے 1955 میں ہیر کے نام سے فلم بنائی جس میں سورن لتا اور عنایت حسین بھٹی نے مرکزی کردار کیے تھے۔

    دوسری مرتبہ ہدایت کار ایم جے رانا نے اسی کہانی کے ایک ثانوی کردار یعنی سہتی پر 1957 میں فلم بنائی جس میں مسرت نذیر اور اکمل نے مرکزی کردار کیے تھے۔

    تیسری مرتبہ ہدایت کار جعفر بخاری نے اسی کہانی کو ہیر سیال کے نام سے 1965 میں پیش کیا جس میں فردوس اور اکمل نے مرکزی کردار کیے تھے۔ پانچویں اور آخری فلم ہدایت کار مسعود پرویز کی تھی جسے 1970 میں ہیر رانجھا کے نام سے ایک شاہکار فلم قرار دیا گیا۔ اجمل نے فلم میں "کیدو” کے روپ میں اس کردار کو گویا امر کر دیا۔

    سسی پنوں
    اس کہانی کو پنجاب کے قدیم شاعروں نے بڑے خوب صورت انداز میں منظوم پیش کیا۔ ہاشم شاہ نامی شاعر کا کلام سب سے زیادہ مقبول ہوا جس کو ایک مخصوص دھن میں گایا بھی جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے "سسی پنوں” کی کہانی پر مبنی فلم سسی 1954 میں بنائی گئی جو پہلی گولڈن جوبلی سپرہٹ اردو فلم بن گئی۔ ہدایت کار داؤد چاند کی اس یادگار فلم میں پاکستان کی پہلی سپراسٹار ہیروئن صبیحہ خانم نے "سسی” کا ٹائٹل رول کیا جب کہ ہیرو سدھیر "پنوں” کے کردار میں سامنے آئے تھے۔

    تقسیم کے بعد اسی نام سے فلم سندھی زبان میں بھی بنائی گئی۔ یہ 1958 کی بات ہے جب کہ باقی تین فلمیں پنجابی زبان میں تھیں جن میں 1968 میں ایک فلم، دوسری 1972 اور پھر 2004 میں بنائی گئی۔

    سوہنی مہینوال
    پنجاب کی مشہور لوک داستان "سوہنی مہینوال” پر ہدایت کار ایم جے رانا کی اردو فلم سوہنی 1955 میں ریلیز ہوئی جس میں صبیحہ خانم اور سدھیر نے مرکزی کردار نبھائے۔ اس مقبولِ عام کہانی کو ہدایت کار ولی صاحب نے دوسری بار سوہنی کمہارن کے نام سے 1960 میں بنایا جس میں بہار اور اسلم پرویز نے شائقین کو اپنی اداکاری سے محظوظ کیا۔ 1973 میں اسی داستان پر نیم مزاحیہ فلم بنائی گئی جب کہ چوتھی بار ہدایت کار رضا میر نے ممتاز اور یوسف خان کو فلم سوہنی مہینوال میں مرکزی کردار سونپے اور یہ 1976 میں ریلیز ہوئی۔ اسے 2004 میں بھی فلمایا گیا لیکن یہ اتفاق ہے کہ سوہنی مہینوال کی کوئی بھی فلمی پیشکش بڑی کام یابی سے محروم رہی۔

    تقسیم سے قبل بھی سوہنی مہینوال کی کہانی کو پانچ مرتبہ فلمایا گیا تھا۔ اور یہ اس دور میں ہندوستان کے تینوں بڑے فلمی مراکز بمبئی، کلکتہ اور لاہور میں الگ الگ بنائی گئی تھی۔

    مرزا صاحباں
    پاکستان کی لوک داستانوں میں "مرزا صاحباں” کا قصہ بڑا مشہور ہوا جسے
    پاکستان میں پہلی بار ہدایت کار داؤد چاند نے اردو زبان میں اسی نام سے پیش کیا تھا۔ 1956 کی اس فلم میں مسرت نذیر اور سدھیر نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ دوسری مرتبہ ہدایت کار مسعود پرویز نے اور
    اسی کہانی پر 1982ء میں بھی فلمایا گیا۔ تقسیم سے قبل "مرزا صاحباں” کی کہانی کو پانچ بار فلم بند کیا گیا تھا۔

    بدیسی لوک داستانیں
    پاکستان کی لوک داستانوں کے علاوہ دوسرے خطے کی داستانوں اور بدیسی لوک کہانیوں کو بھی فلمی پردے پر پیش کیا گیا جن میں خاص طور پر فارسی اور عربی داستانیں اور کہانیاں شامل ہیں۔ عربی ادب سے "لیلیٰ مجنوں” ، "وامق عذرا” اور "الف لیلہ” وغیرہ کی داستانیں اور فارسی ادب سے "شیریں فرہاد” اور "گل بکاؤلی” جیسی داستانیں اور کہانیاں بھی اردو میں ترجمہ ہوئیں اور ان پر پاکستان میں فلمیں بنائی گئیں۔

  • لوک داستانوں کے مشہور کرداروں کا تعلق کن شہروں سے تھا؟

    لوک داستانوں کے مشہور کرداروں کا تعلق کن شہروں سے تھا؟

    پاکستان کی لوک داستانوں کے ان چند کرداروں کا نام اور ان سے منسوب داستانیں آپ نے بھی سنی اور پڑھی ہوں گی۔ سسی، ماروی، شیریں اور لیلیٰ جیسے نام نہ صرف ہمارے ہاں عام ہیں بلکہ تاریخ اور ثقافت پر مبنی کتب میں ان افسانوی کرداروں کو مختلف روایات کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ ادب کی بات کی جائے تو نظم و نثر میں بھی لوک داستانوں اوران کے افسانوی کرداروں کو نہایت خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر ڈرامے بھی بنائے گئے جن کو بہت مقبولیت ملی۔

    ان لوک داستانوں کے مرکزی کرداروں کا تعلق کن علاقوں سے تھا، یہ جاننا آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    تاریخ و ثقافت کے مختلف حوالوں اور شاعری میں آپ نے سسی کا ذکر ضرور سنا اور پڑھا ہوگا۔ یہ سندھ اور بلوچستان کی مشہور لوک داستان کا کردار ہے۔ روایت ہے کہ سسی پنوں کی محبت میں جب وہ موڑ آیا جہاں جدائی مقدر بن گئی تو ایک نئی داستان رقم ہوئی۔ سسی اپنے محبوب کی تلاش میں نکل پڑی اور اس راستے میں اس نے سختیوں اور کئی مشکلات کا سامنا کیا۔

    ایک اور مشہور لوک داستان کا کردار ماروی بھی آپ کے ذہن میں ہو گا۔ اس افسانوی کردار کا تعلق سندھ کے صحرائے تھر سے ہے۔ راویات کے مطابق عمر ماروی کی کہانی جس طرح بیان کی جاتی ہے اس میں ماروی کو اپنی مٹی سے پیار اور اس کی پاک دامنی کے باعث یاد کیا جاتا ہے۔

    شیریں اور فرہاد کا نام تو سبھی نے سنا ہے۔ ان دونوں کرداروں سے ایک داستان منسوب ہے، جس پر نثر اور نظم دونوں کی مختلف اصناف میں نہایت خوب صورت انداز میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس افسانوی داستان کے کردار شیریں کا تعلق بلوچستان کے ضلع آواران بتایا جاتا ہے۔