Tag: لوک فنکار

  • عالم لوہار:‌ بانکے سجیلے لوک فن کار کا تذکرہ

    عالم لوہار:‌ بانکے سجیلے لوک فن کار کا تذکرہ

    برصغیر پاک و ہند میں لوک موسیقی اور مقامی سازوں کے ساتھ اپنے فن کا جادو جگا کر یہاں مقبول ہونے والے فن کاروں میں کئی ایسے بھی ہیں جنھیں ان کے فن کی بدولت دنیا بھر میں شہرت ملی اور انھوں نے بیرونِ ملک اپنے ملک کا نام بھی روشن کیا۔ عالم لوہار انہی میں سے ایک ہیں، لیکن ان کی پہچان ایک ایسے بانکے سجیلے فن کار کے طور پر بنی جس نے چمٹے کو بطور ساز استعمال کرتے ہوئے اپنی خداداد صلاحیتوں اور ہنر کو آزمایا اور شہرت پائی۔

    عالم لوہار کی انفرادیت ان کی خاص ثقافتی پہچان کے ساتھ ان کے ہاتھوں میں‌ سُر بکھیرتا اور نغمگی کا احساس دلاتا ایک چمٹا تھا جس کے ذریعے انھوں نے بڑی مہارت سے موسیقی بکھیری۔ وہ پاکستان کے ایسے لوک فن کار تھے جن کا تعلق پنجاب کی دھرتی سے تھا۔ پنجاب جو کئی لوک داستانوں اور اپنی ثفاقت کی وجہ سے مشہور ہے، اس مٹی پر جنم لینے والے عالم لوہار کی آواز میں بہت سے گیت امر ہوگئے۔ مارچ 1928ء میں گجرات میں‌ پیدا ہونے والے عالم لوہار کو قصہ خوانی اور داستان گوئی میں کمال حاصل تھا۔ ناقدینِ فن کہتے ہیں کہ عالم لوہار نے لوک داستانوں کو اس دردمندی، ذوق و شوق اور سچائی کے ساتھ گایا کہ سننے والوں کے دلوں میں اترتی گئیں۔ انھوں نے جو گیت گائے ان میں پیار محبت کا درس اور نصیحت ملتی ہے اور ان کی آواز میں‌ لوک موسیقی ایک خوب صورت پیغام بن کر سماعتوں کو معطر کرتی ہے۔

    عالم لوہار بچپن ہی سے خوش الحان تھے اور شروع ہی سے گانے کا شوق تھا۔ پنجاب کا خاص کلچر ہمیشہ سے موضوعِ بحث رہا ہے جس میں بیٹھکوں اور نجی محافل میں قصّے کہانیاں، حکایات، گیت اور کافیاں سن کر لوگ اپنا دل بہلاتے تھے۔ عالم لوہار اپنی منفرد آواز میں لوک داستانوں کو لے اور تال کے ساتھ انہی بیٹھکوں میں دوسروں کو سنایا کرتے تھے۔ یہ اس دور میں لوگوں کی تفریحِ طبع کا بہترین ذریعہ تھا جب کہ میلے ٹھیلے، اکھاڑے اور تھیٹر بھی اس دور میں بہت مقبول تھے۔ عالم لوہار نے اپنے علاقہ کے لوگوں کو اپنا مداح بنا لیا تھا اور پھر وہ میلے ٹھیلوں اور تھیٹر کے لیے بھی پرفارم کرنے لگے۔ اس وقت ان کے ہم عصروں میں عنایت حسین بھٹی، بالی جٹی، طفیل نیازی، عاشق جٹ اور حامد علی بیلا وغیرہ کے تھیڑ پنجاب کے طول و عرض میں خاصی شہرت رکھتے تھے اور لوگ ان کو بہت شوق سے سنتے تھے۔ عالم لوہار نے داستان امیر حمزہ، مرزا صاحباں، داستانِ ہیر رانجھا اور سسی پنوں کے علاوہ جگنی اور مختلف گیت بھی گائے جن میں سے کچھ پنجابی فلموں کا بھی حصہ بنے تاہم ان کی گائی ہوئی جگنی ان کی وجہِ شناخت بنی اور اسے ہر جگہ سراہا گیا۔ عالم لوہار کے فرزند عارف لوہار نے بھی اسی فن کو اپنایا اور شہرت حاصل کی۔

    عالم لوہار کے ایک ساتھی فضل کریم قسائی ان کا ساتھ نبھاتے تھے اور وہ الغوزہ بجاتے تھے۔ عالم لوہار اور ان کا ساتھ ہمیشہ قائم رہا۔ عالم لوہار نے زندگی کے آخری ایام میں وطن تھیٹر کے ساتھ زیادہ کام کیا اور پرفارمنس سے لوک موسیقی کے دیوانوں کو محظوظ کرتے رہے۔ عالم لوہار اکثر اپنے گیتوں کی دھنیں بھی خود ہی بناتے تھے۔ ان کا معروف گیت ’’واجاں ماریاں بلایا کئی وار میں، کسے نے میری گل نہ سنی‘‘ انہی کا لکھا ہوا تھا اور اس کی دھن بھی عالم لوہار نے بنائی تھی۔ ان کی آواز میں ’’دل والا روگ نئیں کسے نوں سنائی دا، اپنیاں سوچا وچ آپ مر جائی دا‘‘ نے بھی مقبولیت حاصل کی۔ عارفانہ کلام میں ’’ساری رات تڑف دیا لنگھ جاندی، درداں دے مارے نئی سونداے، جیڑی رات نوں سوہنا چن نہ چڑھے، اس رات نوں تارے نئی سوندے‘‘ نے عالم لوہار کو بہت شہرت دی۔

    گلوکار عالم لوہار کی شناخت ان کے شانوں تک لٹکے بال، اور کڑھائی والے کرتے ہوا کرتے تھے جس میں ان کی چھب ہی نرالی ہوتی۔ اس کے ساتھ چمٹا جسے انھوں نے بطور ساز استعمال کیا کچھ اس خوبصورتی سے ان کی شان بڑھاتا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔

    عالم لوہار 3 جولائی 1979ء کو مانگا منڈی کے قریب ٹریفک حادثے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ پنجاب کا یہ عظیم لوک فن کار لالہ موسیٰ میں ابدی نیند سو رہا ہے۔ عالم لوہار کو حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • الغوزہ نواز مصری خان جمالی کی برسی

    الغوزہ نواز مصری خان جمالی کی برسی

    مصری خان جمالی پاکستان کی لوک موسیقی کی روایت کو زندہ رکھنے اور مقامی ساز الغوزہ کے ذریعے دل نواز دھنیں بکھیرنے کے لیے ملک اور بیرونِ ملک بھی پہچانے جاتے تھے۔

    وہ اپنے وقت کے مقبول سازندے تھے جو 1980ء میں آج ہی کے دن خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آج مصری خان جمالی کا یومِ وفات ہے۔

    1921ء میں سندھ کے مشہور شہر جیکب آباد کے علاقے روجھان جمالی میں پیدا ہونے والے مصری خان جمالی نے نواب شاہ میں‌ آلاتِ موسیقی بنانے کا کاروبار شروع کیا اور اپنے کاروبار اور اسی کام کے دوران انھیں اس مقامی طور پر بنائے جانے والے ساز میں وہ کشش محسوس ہوئی جس نے نوجوانی ہی میں انھیں دھن ساز مشہور کردیا۔ وہ اس ساز کو بجانے میں مہارت حاصل کرتے چلے گئے اور مقامی لوگوں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ اسی شہرت نے ایک دن انھیں‌ ریڈیو اسٹیشن تک پہنچا دیا۔

    الغوزہ بانسری نما وہ ساز تھا جسے بجاتے ہوئے اس کا ماہر دل موہ لینے والی دھنیں بکھیرتا ہے۔ آج جدید آلاتِ موسیقی اور سازوں کے ساتھ ساتھ طرزِ گائیکی بھی بدل گیا ہے۔ کئی روایتی ساز مٹ چکے ہیں جب کہ لوک موسیقی میں لوگوں کی دل چسپی بھی کم ہی نظر آتی ہے، اسی طرح پاک و ہند کا یہ مقبول ساز الغوزہ بھی اب ماضی بن چکا ہے اور اس کے ماہر سازندے اب دنیا میں نہیں‌ رہے۔

    مصری خان جمالی کو ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا اور انھیں بیرونِ ملک بھی پہچان ملی۔

    مصری خان جمالی نے اپنی دھنوں‌ سے سامعین کو محظوظ کرتے ہوئے لوک موسیقی اور اس مقامی ساز کے ذریعے اپنی ثقافت کو فروغ دیا۔ 1979ء میں‌ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    انھیں نواب شاہ کے قبرستان حاجی نصیر میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: طفیل نیازی لوک گائیکی اور موسیقی میں پاکستان کی پہچان تھے

    یومِ وفات: طفیل نیازی لوک گائیکی اور موسیقی میں پاکستان کی پہچان تھے

    طفیل نیازی پاکستان کے معروف لوک گلوکار تھے جو 1990ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    وہ 1926ء میں ضلع جالندھر کے گاؤں مڈیراں میں پیدا ہوئے تھے۔ طفیل نیازی نوٹنکیوں میں شرکت کرکے مقامی لوگوں میں مشہور ہوئے اور پھر سسی پنوں، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال جیسے کلاسیکی ڈراموں میں انھوں نے ہیرو کا کردار ادا کرکے اپنے فن کی داد پائی۔

    انھوں نے اپنے فن کو ایک سنگیت گروپ تشکیل دے کر باقاعدہ جاری رکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور مختلف مقامات اور تقریبات میں گانے بجانے کے ذریعے شرکا کو محظوظ کرنے لگے۔ انھیں‌ عوامی سطح پر پذیرائی ملتی رہی اور وہ آگے بڑھنے کی جستجو میں رہے۔

    قیام پاکستان کے بعد طفیل نیازی ملتان چلے آئے اور بعد میں لاہور میں سکونت پذیر ہوئے۔

    26 نومبر 1964ء کو پاکستان ٹیلی وژن کی افتتاحی نشریات کا آغاز ہوا تو ملک میں ان کا مشہور گانا ’’لائی بے قدراں نال یاری‘‘ سنا گیا اور وہ ناظرین و سامعین میں متعارف ہوئے۔ 70ء کی دہائی میں طفیل نیازی لوک ورثہ کے ادارے سے وابستہ ہوئے اور ٹیلی وژن کے مشہور پروگرام لوک تماشا میں گانے بھی گائے اور دوسروں کے گانوں کی دھنیں بھی ترتیب دیں۔

    1983ء میں حکومتِ پاکستان نے اس لوک فن کار کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • معروف لوک گلوکار الن فقیر کی برسی

    معروف لوک گلوکار الن فقیر کی برسی

    آج پاکستان کے نام ور لوک فن کار الن فقیر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 4 جولائی 2000ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    الن فقیرکا اصل نام علی بخش تھا۔ ان کا سنِ پیدائش 1932ء بتایا جاتا ہے۔ الن فقیر کا تعلق سندھ کے علاقے مانجھند، ضلع دادو سے تھا۔ ان کے والد دھمالی فقیر مشہور ساز شہنائی بجانے کے حوالے سے معروف تھے۔ یوں الن فقیر لوک گیت اور موسیقی سے شروع ہی سے مانوس ہوگئے۔ وہ سریلی آوازیں سنتے، مقامی سازوں کو دیکھتے اور انھیں‌ تھامنے اور بجانے کے فن کو سمجھتے ہوئے بڑے ہوئے تھے۔ اس ماحول نے ان کے اندر سوز و گداز پیدا کیا اور ایک وقت آیا کہ انھوں نے لوک فن کار کی حیثیت سے نام و مقام پیدا کیا۔

    الن فقیر کو سندھی شاعری کی مشہور صنف وائی گانے میں مہارت حاصل تھی۔ مقامی سطح پر اپنے فن کام مظاہرہ کرنے والے الن فقیر ریڈیو پاکستان اور اس کے بعد پاکستان ٹیلی وژن تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب رہے اور یوں‌ انھیں ملک بھر میں‌ شہرت حاصل ہوئی۔

    وہ اپنی گائیکی کے مخصوص انداز کی وجہ سے ہر خاص و عام میں مقبول تھے۔ پرفارمنس کے دوران سندھ کے روایتی ملبوس کے ساتھ ان کا منفرد اور والہانہ انداز حاضرین و ناظرین کی توجہ حاصل کرلیتا تھا۔ گائیکی کے دوران الن فقیر کا مخصوص رقص، جھومنا اور مست و سرشاری کا عالم اپنی مثال آپ تھا۔

    سندھ کے عظیم شاعروں کا کلام گانے والے الن فقیر کا نام "تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا، اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا” اور "اتنے بڑے جیون ساگر میں تُو نے پاکستان دیا” جیسے گیتوں کی بدولت فن کی دنیا میں امر ہو گیا۔

    1987ء میں حکومتِ پاکستان نے الن فقیر کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی جب کہ 1999ء میں پاکستان ٹیلی وژن نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ عطا کیا تھا۔ الن فقیر جامشورو میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • سندھ کے معروف لوک گلوکار محمد یوسف کی برسی

    سندھ کے معروف لوک گلوکار محمد یوسف کی برسی

    محمد یوسف سندھ دھرتی کے معروف لوک گلوکار تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 14 فروری 1997ء کو وفات پاگئے تھے۔ محمد یوسف کا تعلق جس گھرانے سے تھا، اس میں‌ ان کے علاوہ بھی موسیقار اور گلوکار کی حیثیت سے متعدد شخصیات نے نام و مرتبہ حاصل کیا۔ خود محمد یوسف کے والد لونگ خان بھی لوک گائیکی میں‌ معروف اور استاد مشہور ہوئے۔

    محمد یوسف حیدر آباد سندھ میں‌ 14 جنوری 1940ء کو پیدا ہوئے۔ والد کے علاوہ ان کے خاندان میں‌ موسیقی اور گائیکی کے حوالے سے استاد زوار بسنت بہت مشہور تھے۔ محمد یوسف بھی اس فن میں‌ دل چسپی لینے لگے اور موسیقی کی تربیت گوالیار گھرانے کے مشہور موسیقار استاد امید علی خان اور استاد منظور علی خان سے حاصل کی۔

    وہ سندھی غزل اور ہر خاص و عام میں‌ مقبول صنف کافی گانے کے لیے مشہور ہوئے۔ انھوں‌ نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام بھی گایا اور عوامی مقبولیت کے ساتھ اپنی گائیکی پر متعدد اعزازات بھی حاصل کیے۔

    محمد یوسف کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی عطا کیا گیا تھا۔ سندھ کے اس معروف لوک گلوکار کو ان کی وفات کے بعد کوٹری، ضلع دادو میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • موسیقار لوک گلوکار استاد جمن کا یومِ وفات

    موسیقار لوک گلوکار استاد جمن کا یومِ وفات

    محمد جمن پاکستان کے نام وَر لوک فن کار تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔ 24 جنوری 1990ء کو کراچی میں‌ انتقال کرجانے والے اس لوک گلوکار اور موسیقار کا تعلق بلوچستان سے تھا۔

    محمد جمن 10 اکتوبر 1935ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد زمین دار تھے، مگر شعر و موسیقی سے شغف رکھتے تھے۔ محمد جمن کے نانا بھی مقامی ساز طنبورہ بجانے پر دسترس رکھتے تھے۔ یوں محمد جمن کو ایسا ماحول ملا تھا جس میں فطری طور پر ان کی طبیعت موسیقی پر مائل ہوئی اور بعد میں انھوں نے گلوکاری کے فن میں‌ نام و مقام بنایا۔

    ابتدائی زمانے میں‌ محمد جمن نے طنبورہ بجایا اور ساتھ ہی گلوکاری بھی کرنے لگے۔ ان کی آواز اور انداز ان کی وجہِ شہرت بنا اور اس میدان میں ان کے کمال اور فن میں مہارت نے انھیں‌ استاد جمن کہلوایا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد انھیں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہونے کا موقع ملا اور یوں ان کی پہچان کا سفر بھی شروع ہوا۔ محمد جمن پہلے کراچی اور پھر حیدرآباد اسٹیشن سے اپنی آواز کا جادو جگانے لگے۔

    ریڈیو پاکستان، حیدرآباد سے وابستگی کے دوران انھیں‌ موسیقی ترتیب دینے کا بھی موقع ملا۔ محمد جمن کے شاگردوں میں روبینہ قریشی، زیب النسا، زرینہ بلوچ اور محمد یوسف کے نام سرفہرست ہیں۔

    محمد جمن کے گائے ہوئے کئی لوک گیت اور صوفیانہ کلام آج بھی نہایت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ ان کی آواز میں‌ صوفیانہ کلام سننے والوں پر خاص رقّت اور جذب و وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

    حکومت پاکستان نے 1980ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ محمد جمن کراچی میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • بلوچی زبان کے لیجنڈ فن کار کا کراچی میں انتقال

    بلوچی زبان کے لیجنڈ فن کار کا کراچی میں انتقال

    کراچی: بلوچی زبان کے لیجنڈ گلو کار ناکو سبزل سامگی کراچی میں انتقال کر گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق لوک گیتوں کی صنف زہیروک کے ماسٹر ناکو سبزل طویل علالت کے بعد کراچی میں گزشتہ روز انتقال کر گئے۔

    بلوچی زبان کے معروف گلوکار سامگی کراچی کے نجی اسپتال میں زیر علاج تھے، انھیں اکتوبر کے آخری دنوں میں ایک نجی میوزک آرگنائزیشن نے طبیعت زیادہ ناساز ہونے پر علاج کے لیے کراچی منتقل کیا تھا۔

    پنجگور سے تعلق رکھنے والے گلوکار سبزل سامگی کی نماز جنازہ آج صبح 11 بجے سامی میں ادا کی جائے گی۔

    سبزل سامگی بلوچی زبان کے لیجنڈ فن کار سمجھے جاتے تھے، وہ لوک گائیکی کی صنف ’زہیروک‘ کے ماسٹر تھے، بڑی تعداد میں لوگ ناکو سبزل کی گائیگی اور فن کے معترف تھے، ان کے پروگرامز میں ایران، کراچی، کوئٹہ، خاران ،گوادر، پنجگور، پسنی اور دیگر علاقوں سے شایقین انھیں سننے آتے تھے۔

    گزشتہ ماہ کے آخری دنوں میں ان کی طبیعت شدید خراب ہوئی، ان کے گلوکار بیٹے شاہمیر سبزل کا کہنا تھا کہ ان کے والد چیسٹ انفیکشن میں مبتلا ہیں۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ اس لیجنڈ گلوکار کے علاج کے لیے گھر والوں کے پاس رقم بھی میسر نہیں تھی، کراچی منتقلی پر ان کے علاج کے اخراجات کے لیے لوگوں سے امداد کی اپیل بھی کی گئی تھی۔

    سبزل سامگی نے موسیقی کو اپنی زندگی کے کم و بیش 50 سال دیے، بلوچی میوزک میں اپنی آواز کا جادو جگانے والے ناکو سبزل سامگی کے آخری البم کا دو سال قبل اعلان سامنے آیا تھا، جو کہ 20 برس بعد آنے والا ان کا کوئی البم تھا، یہ البم بلوچی زبان کے معروف شعرا عطا شاد، مبارک قاضی، بشیر بیدار اور منشی نصیر آبسری کی شاعری پر مشتمل تھا۔

  • چمٹے سے دھنیں‌ بکھیرنے والے عالم لوہار

    چمٹے سے دھنیں‌ بکھیرنے والے عالم لوہار

    برصغیر پاک و ہند میں‌ مقامی سازوں کے ساتھ موسیقی اور گلوکاری کے میدان میں نام کمانے والوں‌ میں لوک فن کاروں کو بہت اہمیت اور مقام حاصل ہے۔

    پاکستان میں چمٹے سے منفرد دھنیں بکھیرنے اور اپنی آواز کا جادو جگانے والوں میں‌ عالم لوہار کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا جنھیں‌ ہم سے بچھڑے ہوئے 41 برس بیت چکے ہیں۔ آج اس عظیم لوک فن کار کی برسی ہے۔

    عالم لوہار کا تعلق گجرات کے نواحی علاقے سے تھا جہاں انھوں نے 1928 میں‌ آنکھ کھولی۔ وہ کم عمری ہی سے گلوکاری کی طرف متوجہ ہوچکے تھے اور جب "چمٹا” ان کے ہاتھ میں آیا تو جیسے لے اور تان کو نئی ترنگ مل گئی۔ عالم لوہار وہ منفرد اور باکمال فن کار تھے جنھوں نے چمٹے کو آلہ موسیقی کے طور پر متعارف کروایا اور یہی ان کی پہچان اور وجہِ شہرت بن گیا ۔

    اس لوک فن کار نے یوں تو کئی گیت گائے لیکن ’ہیر وارث شاہ‘ کے کلام نے انھیں شہرت کی نئی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ان کا گایا ہوا جُگنی اس قدر مشہور ہوا کہ مداح آج بھی اس کے سحر سے باہر نہیں‌ نکل سکے۔

    ریڈیو پاکستان، ٹیلی ویژن پر اپنی آواز کا جادو جگانے کے علاوہ عالم لوہار مختلف تھیٹریکل کمپنیوں کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے اور بے پناہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ تین جولائی 1979 کو ایک حادثے میں اس لوک گلوکار کی زندگی کا چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔