Tag: لوک موسیقی

  • اِکتارہ والے سائیں‌ مرنا کا تذکرہ

    اِکتارہ والے سائیں‌ مرنا کا تذکرہ

    برصغیر پاک و ہند میں قدیم اور روایتی ساز اور ان پر اپنے فن کا جادو جگانے والوں کا تذکرہ اب کتابوں میں لوک موسیقی سے متعلق ابواب تک محدود ہوگیا جب کہ قدیم ساز صرف ایک یادگار کے طور پر میوزیم میں محفوظ ہیں۔ سائیں مرنا کا نام اور ان کا اکتارہ بھی اب عہدِ رفتہ کی ایک خوب صورت یاد بن کر ہمارے ساتھ ہے۔

    لوک موسیقی کی دنیا میں سائیں مرنا اکتارہ سے سماں باندھ دینے کے لیے مشہور تھے۔ انھوں نے پاکستان میں لوک موسیقی اور ساز و آواز کے شائقین کو اپنے فن سے محظوظ کرنے والے سائیں مرنا 1961ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    اکتارہ ایک روایتی ساز تھا جس پر اپنی مہارت سے خوب صورت دھنیں بکھیرنے والے سائیں مرنا نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔ سائیں‌ مرنا کا اصل نام تاج الدّین تھا۔ وہ 1910ء میں امرتسر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ مشہور ہے کہ اکتارہ کو سائیں‌ مرنا نے عشق میں ناکامی کے بعد اپنایا تھا۔ یہ ساز اور اس پر سائیں مرنا کی پُر سوز دھنیں دراصل غمِ‌ جاناں‌ اور ان کی تنہائی کو دور کرنے کا ذریعہ تھیں۔ وہ ایسے سازندے تھے جس نے اکتارہ میں اختراعات بھی کیں اور اسے وچتر وینا کی طرح بجانے لگے۔ اکتارہ بجانے میں ان کو جو کمال حاصل ہوا وہ بہت کم فن کاروں کو نصیب ہوتا ہے۔

    سائیں مرنا کی شہرت کا سبب بنا تھا ریڈیو۔ اس سے قبل وہ گلی کوچوں، میلوں ٹھیلوں اور مزارات پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ 1946ء میں سائیں‌ مرنا کو لاہور میں ریڈیو پر پہلی مرتبہ اکتارہ بجانے کے لیے بلایا گیا۔ انھیں محمود نظامی نے یہ موقع دیا تھا اور اس طرح سائیں مرنا کا فن دنیا کے سامنے آیا۔ سائیں‌ مرنا اکثر لاہور میں مزارات خصوصاً حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر اکتارا بجاتے نظر آتے تھے۔ لوگ ان کے گرد جمع ہوتے اور اکتارہ سے پھوٹنے والی مسحور کن موسیقی سے دل بہلاتے، یہ لوگ اس فن کار کو خوش ہوکر کچھ پیسے دے دیتے تھے اور یوں سائیں مرنا کا گزر بسر ہوتا تھا۔

    کسی نے نظامی صاحب سے سائیں مرنا کا ذکر کیا تو وہ انھیں ریڈیو تک لے آئے۔ اس زمانے میں ریڈیو تفریح کا واحد ذریعہ ہوتا تھا اور ملک بھر میں ریڈیو پروگرام بہت شوق سے سنے جاتے تھے۔ سامعین نے سائیں مرنا کو بہت پسند کیا، اس وقت ریڈیو پر آج کا آرٹسٹ کے نام سے نظامی صاحب نے موسیقی کا ایک پروگرام شروع کیا تھا جس میں‌ ہر مرتبہ کسی گلوکار، موسیقار یا لوک فن کار کو مدعو کیا جاتا تھا۔ انھوں نے سائیں مرنا کو بھی اس پروگرام میں بلایا، مقررہ دن پر پروگرام کا وقت قریب آرہا تھا، لیکن سائیں مرنا ریڈیو اسٹیشن نہیں‌ پہنچے تھے۔ پروڈیوسر نے وقت دیکھا تو گھبرا گیا۔ اس نے نظامی صاحب کو جا کر بتایا اور وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے کیوں کہ سائیں مرنا کا کوئی ایک ٹھکانہ نہیں‌ تھا۔ انھیں‌ کہاں‌ ڈھونڈتے اور پروگرام کے لیے پکڑ کر لاتے۔ انھوں نے کسی اور فن کار کو بلا کر پروگرام نشر کر دیا۔ دو دن بعد سائیں مرنا ریڈیو اسٹیشن پہنچ گئے اور ظاہر ہے کہ اسٹیشن ڈائریکٹر نے انھیں‌ سخت باتیں‌ کہہ دیں۔ اس ڈانٹ ڈپٹ نے سائیں کو آزردہ کردیا اور وہ بھی وہاں دوبارہ نہ آنے کا عہد کر کے پلٹ گئے۔ نظامی صاحب نے بعد میں انھیں‌ کسی طرح منا لیا تھا مگر یہ بھی سچ تھا کہ وہ ایک فقیر منش اور سیدھے سادے انسان تھے اور یہ سمجھنا ان کے لیے مشکل تھا کہ وقت مقررہ پر پروگرام کی ریکارڈنگ یا اس کا نشر ہونا کتنا ضروری ہوتا ہے۔

    لوک فن کار سائیں مرنا کو جڑانوالہ، ضلع فیصل آباد کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔ سائیں مرنا کی موت کے ساتھ ہی گویا اکتارہ کے وجود سے پھوٹنے والی ترنگ بھی ہمیشہ کے لیے روٹھ گئی۔

  • الغوزہ نواز مصری خان جمالی کی برسی

    الغوزہ نواز مصری خان جمالی کی برسی

    مصری خان جمالی پاکستان کی لوک موسیقی کی روایت کو زندہ رکھنے اور مقامی ساز الغوزہ کے ذریعے دل نواز دھنیں بکھیرنے کے لیے ملک اور بیرونِ ملک بھی پہچانے جاتے تھے۔

    وہ اپنے وقت کے مقبول سازندے تھے جو 1980ء میں آج ہی کے دن خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آج مصری خان جمالی کا یومِ وفات ہے۔

    1921ء میں سندھ کے مشہور شہر جیکب آباد کے علاقے روجھان جمالی میں پیدا ہونے والے مصری خان جمالی نے نواب شاہ میں‌ آلاتِ موسیقی بنانے کا کاروبار شروع کیا اور اپنے کاروبار اور اسی کام کے دوران انھیں اس مقامی طور پر بنائے جانے والے ساز میں وہ کشش محسوس ہوئی جس نے نوجوانی ہی میں انھیں دھن ساز مشہور کردیا۔ وہ اس ساز کو بجانے میں مہارت حاصل کرتے چلے گئے اور مقامی لوگوں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ اسی شہرت نے ایک دن انھیں‌ ریڈیو اسٹیشن تک پہنچا دیا۔

    الغوزہ بانسری نما وہ ساز تھا جسے بجاتے ہوئے اس کا ماہر دل موہ لینے والی دھنیں بکھیرتا ہے۔ آج جدید آلاتِ موسیقی اور سازوں کے ساتھ ساتھ طرزِ گائیکی بھی بدل گیا ہے۔ کئی روایتی ساز مٹ چکے ہیں جب کہ لوک موسیقی میں لوگوں کی دل چسپی بھی کم ہی نظر آتی ہے، اسی طرح پاک و ہند کا یہ مقبول ساز الغوزہ بھی اب ماضی بن چکا ہے اور اس کے ماہر سازندے اب دنیا میں نہیں‌ رہے۔

    مصری خان جمالی کو ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا اور انھیں بیرونِ ملک بھی پہچان ملی۔

    مصری خان جمالی نے اپنی دھنوں‌ سے سامعین کو محظوظ کرتے ہوئے لوک موسیقی اور اس مقامی ساز کے ذریعے اپنی ثقافت کو فروغ دیا۔ 1979ء میں‌ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    انھیں نواب شاہ کے قبرستان حاجی نصیر میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • بوریندو اور چَنگ کہاں گئے؟

    بوریندو اور چَنگ کہاں گئے؟

    لوک گیت، موسیقار اور مختلف سازوں کے ماہر کسی بھی خطے کی ثقافت اور اس کی پہچان ہوتے ہیں۔

    برصغیر میں بھی کلاسیکی اور لوک موسیقی کے ساتھ مختلف ساز ثقافتی رنگا رنگی بڑھاتے رہے ہیں۔ تاہم بدقسمتی سے پاکستان میں یہ شعبہ سرپرستی سے محروم رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے کئی میٹھے گیتوں، سازوں اور فن کاروں کو کھو دیا اور یہ فن اگلی نسل کو بھی منتقل نہیں ہو سکا۔

    ہم یہاں ان سازوں کا ذکر کررہے ہیں جو اب شاذ ہی نظر آتے ہیں۔ صدیوں تک اس سر زمین پر لوک گیتوں کے میٹھے بول، سریلی آوازیں سنائی دیتی رہی ہیں اور انسانی ہاتھوں کے تیار کردہ مختلف سازوں سے پھوٹتے سُروں نے سماعتوں کو اپنے سحر میں مبتلا رکھا ہے، لیکن اب یہ سلسلہ دَم توڑتا جارہا ہے۔

    بوریندو اور چَنگ کس نے دیکھا ہے؟

    سارنگی اور ڈھولکی آنے والے دنوں میں شاید کہیں کھو جائیں۔ پکھاوج، نقارے، تنبورہ، اکتارا، رانتی اور چپڑی سے کون واقف ہے؟

    ان سازوں کے ساتھ سندھی، پنجابی، سرائیکی، مارواڑی اور دوسری زبانوں میں گیت شاید کبھی روز سنائی دیتے تھے۔ خاص طور پر مضافات اور دیہات میں یہ سلسلہ جاری رہتا تھا جہاں زندگی اتنی تیز رفتار نہ تھی جیسی اب ہے۔ ایک بیٹھک، اوطاق ہوتی تھی جہاں اکٹھے ہونے والے لوک گیتوں سے بہلتے، ان مقامی سازوں کو بجانے کا طریقہ سیکھتے اور اس کے ماہروں سے یہ فن نئی نسل کو منتقل ہوتا تھا، مگر یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔

    رانتی، سارنگی کی طرح کا ایک ساز ہوتا ہے جس کی تیاری میں گھوڑے کی دُم کے بال اور ناریل کا خول بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح چپڑی دو چھوٹی چپٹی لکڑیوں کو ملا کر مخصوص انداز میں بجایا جانے والا ساز ہے۔ مذکورہ ساز تو اب رہے ہی نہیں، لیکن چند دہائی قبل تک خوشی کی تقریبات میں بجائی جانے والی ڈفلی، ڈھول، شہنائی اور گھڑا بھی ماضی کا قصہ بنتے جارہے ہیں۔

    پاکستان میں ایسے روایتی سازوں کے ماہر اب بہت کم رہ گئے ہیں جب کہ لوک موسیقی کے مخصوص سازوں کی تیاری کا کام بھی ختم ہو چکا ہے۔