Tag: لوک کہانی

  • بد مزاج بڑھیا اور سنہری پرندہ (ایرانی لوک کہانی)

    بد مزاج بڑھیا اور سنہری پرندہ (ایرانی لوک کہانی)

    صدیوں پہلے کسی شہر میں ایک بے اولاد جوڑا رہتا تھا۔ دونوں بوڑھے ہوچکے تھے اور گزر بسر مشکل سے ہوتی تھی، لیکن بڑے میاں کی بیوی اب بھی جوانی کی طرح بد مزاج اور ناشکری ہی تھی۔ اپنے شوہر پر طنز کے تیر برسانا اور کسی نہ کسی بات پر جھگڑا کرنا جیسے اس کا وظیفہ تھا۔

    یہ دونوں غربت کے مارے ہوئے تھے اور انہیں ایک پرانی پن چکی میں رہنا پڑ رہا تھا جس کا ڈھانچا خستہ حال تھا اور بارش ہوتی تو چھٹ ٹپکنے لگتی۔ ایک روز بوڑھے کے ہاتھ بہت ہی خوب صورت سنہری پرندہ لگا اور وہ اسے اپنے ٹھکانے پر لے آیا۔ بڑی بی نے اس پر بھی خوب جھگڑا کیا مگر پھر چپ ہو رہیں۔ اگلے دن بوڑھا جب اس پرندے کے پاس گیا تو حیران رہ گیا۔ وہ انسانوں کی طرح بوڑھے سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا، ’’بڑے میاں! میرے چھوٹے بچّے بھوکے ہوں گے، میں انہیں چوگا کھلاتا ہوں، مہربانی کر کے مجھے چھوڑ دیجیے، میں آپ کو ایک ایسا تحفہ دوں گا کہ اس کی مدد سے جو چاہیں گے وہ ہوجائے گا۔‘‘ بوڑھا یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس سنہری پرندے کو آزاد کرتے ہوئے کہا، میں اپنی زندگی کی تکالیف سے نجات چاہتا ہوں، میری خواہش ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ کسی اچھے گھر میں پرسکون طریقے سے رہوں۔

    سنہری پرندے نے کہا، یہ کون سا مسئلہ ہے۔ آپ دونوں‌ میرے پیچھے آئیے۔ وہ سنہری پرندہ انہیں جنگل میں لے گیا، وہاں درختوں میں گھرا ایک دروازہ دکھائی دیا۔ پرندے نے پروں کے اشارے سے دروازہ کھولا۔ تینوں اندر گئے تو دیکھا کہ اندر ایک بڑا بڑا سجا سجایا حسین کمرہ تھا۔ لمبا چوڑا صحن، جس میں بہت سے پھولدار اور پھل دار درخت پودے لگے ہوئے تھے۔ بڑے کمرے میں شکاریوں کا ایک لباس بھی لٹکا ہوا تھا۔ غرض ضرورت کی ہر چیز گھر میں موجود تھی۔ پرندے نے کہا کہ یہ آپ کا نیا گھر ہے، یہاں آرام سے رہیں۔ اس کے بعد اس نے اپنا ایک پَر انہیں دیا اور کہا کہ جب بھی مجھ سے کوئی کام ہو، اس پر کو ذرا سا جلا دیجیے، میں فوراً حاضر ہوجاؤں گا۔ دونوں نے اس سنہری پرندے کو رخصت کیا اور ہنسی خوشی اس خوب صورت گھر میں رہنے لگے۔ ان کی زندگی اب بدل گئی تھی۔ بڑے میاں روزانہ شکاریوں والا لباس پہن کر جنگل میں جاتے اور کوئی نہ کوئی اچھا شکار مل جاتا، وہ گوشت بھون کر کھاتے اور موج کرتے۔ یہاں کوئی دور تک دکھائی نہ دیتا تھا اور جب چند برس گزرے تو بڑھیا آہستہ آہستہ اکتانے لگی۔ ایک دن اس میں وہی پرانی عورت جیسے گھس آئی ہو۔ خاوند پر برس پڑی، ’’آخر ہم لوگ کب تک اس بیاباں میں رہتے رہیں؟ جنگل کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے بھلا؟ ہم جنگلی ہوتے جا رہے ہیں، جیسے یہ پرندے اور جانور ہمارے دوست، رشتہ دار ہوں۔‘‘ بڑے میاں نے اسے سمجھایا کہ اب تو سکون سے زندگی گزر رہی ہے، تم یہی چاہتی تھیں، اس ٹوٹی چھت والی چکی میں کیا گزرتی تھی؟

    بڑھیا نے کہا، یہ کوئی بات نہیں، انسان کو بہتر سے بہترین کی طرف جانا چاہیے۔ تم کو یاد ہے نا سنہری پرندے کا وہ پَر؟ ابھی اسے جلاؤ اور پرندے کو حاضر کرو تاکہ وہ ہمارا کچھ اور بندوبست کرے۔ بڑے میاں نے تنگ آ کر وہ پَر نکالا، اسے ذرا سا جلایا، چند ہی لمحوں میں سنہری پرندہ آن پہنچا اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے۔

    بوڑھے نے اپنی بیوی کی طرف اشارہ کیا کہ اب اپنی خواہش بتائے۔ وہ عورت پھٹ پڑی، کہنے لگی کہ ہم جنگل میں پڑے ہیں، زندگی کا خاک مزہ ہے، کوئی انسان ہی نہیں جس سے دو گھڑی بات کی جاسکے۔ ہمیں کسی شہر میں لے جاؤ تاکہ ہم شہری زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ سنہری پرندے نے کہا، کوئی مسئلہ نہیں، وہ انہیں ایک شہر میں لے گیا، وہاں پہلے سے زیادہ خوب صورت گھر موجود تھا۔ اس گھر میں نوکر چاکر سب موجود تھے۔ ان کی شہری زندگی شروع ہوگئی۔ کچھ عرصہ یوں گزر گیا، دونوں میاں بیوی مزے کرتے رہے۔ پھر بڑی بی کو لگا کہ یہ زندگی کچھ بھی نہیں، انہیں اختیارات اور طاقت کا مزہ بھی چکھنا چاہیے۔ اس نے اپنے خاوند کو کہا کہ پرندے کو بلا کر اس سے کہو کہ ہمیں شہر کا حاکم بنوا دو، ہمارے پاس تمام اختیارات ہوں، سب پر ہمارا حکم چلے۔ بوڑھے نے پھر سنہری پرندے کو اسی طریقے سے پَر جلا کر بلایا۔ پرندے نے اس بار بھی انکار نہ کیا اور انہیں ایک قلعے میں لے گیا۔ وہاں کے حاکم پر جانے کیا جادو ہوا تھا کہ ان کو دیکھا تو محل میں لے گیا اور اعلان کیا کہ آج سے یہ دونوں یہاں کے حاکم ہیں، سب وزیر، مشیر، درباری اس بوڑھے جوڑے کے سامنے آداب بجا لائے۔ حکومت تو خیر انہوں نے کیا کرنی تھی۔ وزیر ذمہ داریاں سنبھالتا اور سارے مشیر وغیرہ ہی انتظام چلاتے۔ بڑھیا کا کام یہ تھا کہ وہ ملازموں، درباریوں پر حکم چلاتی اور اپنی طاقت اور اختیار سے تسکین پاتی۔ ایک روز کنیزوں نے بڑھیا کو غسل دیا اور بڑی بی دھوپ میں بال سکھانے بیٹھ گئیں کہ اچانک ایک بادل سورج کے سامنے آگیا اور دھوپ کی راہ میں حائل ہوگیا۔ تنک مزاج بڑھیا جھنجھلا گئی۔ اس نے اپنے شوہر کو خوب باتیں سنائیں اور بولی کہ فوری طور پر سنہری پرندے کو بلایا جائے، وہ مزید طاقت حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ ان بادلوں کو سبق سکھا سکے۔ بوڑھے نے یہ سنا تو پریشان ہو کر اسے سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ طاقت کی ہوس ٹھیک نہیں، غیر مشروط، لامحدود اختیارات اور قوت کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ جو میسر ہے، اس پر گزارہ کرو۔ بلکہ یہ سب تو ہمارے لیے اس عمر میں عظیم الشان نعمت سے کم نہیں ہے۔

    یہ سن کر بڑی بی کی تیوریاں چڑھ گئیں۔ تیکھی نظروں سے اس نے خاوند کو دیکھا اور کہا کہ جو بول رہی ہوں وہی کرو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔ تب بوڑھے نے بڑبڑاتے ہوئے سنہری پرندے کو بلایا اور بڑھیا نے اس کے سامنے کہا کہ بادل نے میری دھوپ کا راستہ روکا، میں چاہتی ہوں کہ زمین و آسمان کی ہر چیز پر میرا حکم چلے۔

    یہ جان کر سنہری پرندے نے انہیں اپنے پیچھے پیچھے آنے کو کہا۔ وہ دونوں چل پڑے۔ اچانک آندھیاں چلنے لگیں، اندھیرا چھا گیا، ایسا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ کچھ دیر میں جب وہ دونوں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئے تو پرندے کا کچھ پتا نہ تھا، اور وہ اپنی پرانی، خستہ حال پن چکی میں پہنچ چکے تھے۔ اب تو بڑھیا بہت پچھتائی اور اسے معلوم ہوگیا کہ اس مرتبہ پرندے نے اس کی ناجائز اور فضول فرمائشوں سے تنگ آکر سزا کے طور پر وہیں پہنچا دیا ہے جہاں تکلیفیں اور مشکلات اس کا مقدر تھے۔ اب کیا ہوسکتا تھا، بڑھیا رو دھو کر چپ ہورہی۔ اس نے نہ صرف خود کو تکلیف میں ڈالا بلکہ اپنے ساتھ بوڑھے شوہر کو بھی مشکل میں پھنسا دیا۔ بدمزاجی اور ناشکری کا انجام یہی ہوتا ہے۔

  • سچ کا بیٹا (قدیم لوک کہانی)

    سچ کا بیٹا (قدیم لوک کہانی)

    عرب دنیا اور خاص طور پر ہزاروں سال پہلے کا مصر جداگانہ اور بھرپور تہذیب و ثقافت کا حامل رہا ہے جس کا لوک ادب بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ لوک کہانیاں گویا دھرتی کے سینے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور نگری نگری پھرتے مسافر انھیں آگے پہنچاتے ہیں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب آج کی طرح ذرایع ابلاغ اور طرح طرح کے وسائل انسان کو میسر نہ تھے۔ ہر دور کا لوک ادب اور داستانیں‌ زیادہ تر کوئی پیغام پہنچانے کا ذریعہ بنی ہیں اور یہ انسان کو سیدھے راستے پر چلتے ہوئے برائی سے دور رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔ یہ لوک کہانیاں زندگی کی تلخ و شیریں حقیقتوں کے بطن سے پھوٹتی ہیں۔

    خیر اور شر کی جنگ، سچ اور جھوٹ کا بیان ہمیشہ سے دنیا کے انسانوں‌ کا موضوع رہا ہے۔ یہ ایک ایسی ہی خوب صورت لوک داستان ہے جس میں‌ ہمارے لیے سبق پوشیدہ ہے۔

    یہ جھوٹ اور سچ کی کہانی ہے۔ جھوٹ نے ایک مرتبہ اپنے بھائی سچ کو ایک جال میں پھنسانا چاہا اور اس برے ارادے کی تکمیل کے لیے اس نے اپنا خنجر اپنے بھائی سچ کے پاس امانتاً چھوڑ دیا۔ پھر جھوٹ نے موقع دیکھ کر وہ خنجر چرا لیا اور اپنے بھائی (سچ) کے پاس گیا اور اس سے خنجر طلب کیا تو سچ نے اس کو خنجر کے گم ہوجانے کا بتاتے ہوئے اپنے بھائی (جھوٹ) سے معافی مانگی۔ لیکن جھوٹ نے اس کا عذر قبول نہیں کیا اور دیوتاؤں سے شکایت کی۔ اور دعویٰ کیا کہ اس کا خنجر بہت بڑا ہے، پہاڑ کی اونچائی تک اور اس کی مٹھی ایک درخت کی بلندی تک ہے۔ تو دیوتاؤں نے جھوٹ کو خنجر کے معاوضہ یا بدلہ لینے کی تجویز دی۔ جھوٹ نے اپنے بھائی (سچ) کو اندھا کرنے اور اپنے گھر پر ایک اندھا دربان مقرر کرنے کا کہا۔

    ایک مقررہ مدت تک سچ اپنے بھائی (جھوٹ) کے دروازے پر پہرے دار کے طور پر کھڑا رہا۔ لیکن جھوٹ نے اس میں صبر و تحمل اور استقامت دیکھی تو بہت برہم ہوا۔ وہ اس کی خوبی سے حسد کرنے لگا تھا۔ اس نے اپنے بھائی کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے دو غلاموں کو حکم دیا کہ اسے بھوکے شیر کے پاس پھینک دیں تاکہ وہ اسے کھا جائے۔ لیکن سچ کو غلام پسند کرتے تھے اور انھوں نے جھوٹ کے حکم پر عمل نہ کیا۔ بلکہ اسے جنگل میں چھوڑ کر آگئے اور جھوٹ کو بتایا کہ شیر اسے کھا گیا ہے۔

    سچ جو جنگل میں اکیلا رہ گیا، اسے ایک دن ایک خوبصورت عورت نے دیکھا اور محبت میں گرفتار ہوگئی اور سچ سے شادی کر لی۔ تاہم لوگوں کو خبر نہ ہونے دی بلکہ سچ کو الگ مقام پر رہنے کا پابند کردیا۔ ان کے یہاں ایک صحت مند اور ذہین بیٹا پیدا ہوا، وہ بہادر اور ذہین شہسوار بنا۔ جب وہ بڑا ہوا تو اس نے اپنی ماں سے اپنے باپ کے بارے میں پوچھا۔ اس کی ماں نے بتایا کہ اس کا والد تو وہ اندھا دربان ہے جس کے بارے میں تم نے سن رکھا ہے۔ جب اسے اپنے باپ کی کہانی سمجھ آئی تو اس نے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا، چنانچہ اس نے ایک بیل خرید لیا۔ اور اسے اپنے چچا (جھوٹ) کے چرواہے میں سے ایک کو دے دیا، تاکہ جھوٹ کی بھیڑ بکریوں کے درمیان ایک معمولی رقم کے عوض اس کی پرورش ہو، جب تک کہ چچا (جھوٹ) جو کہیں‌ گیا ہے، اپنے سفر سے واپس آجائے۔

    چونکہ بیل بڑا اور خوبصورت تھا تو جب جھوٹ نے بڑے بیل کو دیکھا تو اسے بہت اچھا لگا، کھانے کے لئے اس نے بیل کو ذبح کر دیا۔ جب سچ کے بیٹے کو اس کا علم ہوا تو اس نے اپنے دیوتاؤں سے شکایت کی اور ان سے کہا: میرے بیل کی طرح کوئی بیل نہیں ہے۔ اس کے سینگ مشرق اور مغرب کے پہاڑ تک پہنچ جاتے تھے۔ دیوتاؤں نے اس پر مبالغہ آرائی اور جھوٹ بولنے کا الزام لگایا، تو سچ کے بیٹے نے دیوتاؤں سے کہا: کیا تم نے پہلے ایک بڑا خنجر دیکھا ہے جو پہاڑ کی اونچائی تک اور اس کی مٹھی ایک درخت کی بلندی تک ہو۔ اور اس نے یوں اپنے چچا (جھوٹ) کو بے نقاب کر دیا۔ اور دیوتاؤں سے عدالت قائم کرنے کی گزارش کی۔ دیوتاؤں کے حکم پر جھوٹ کو سو کوڑے مارے گئے۔ وہ شدید زخمی ہوگیا۔ پھر اس کو اندھا کر دیا گیا اور یہ حکم دیا کہ اب وہ اپنے بھائی (سچ) کا دربان بن جائے۔

    حقیقت یہی ہے کہ جھوٹ ہمیشہ ذلت اٹھائے گا اور وہ سچ پر غالب نہیں آسکتا۔

  • باغ اجاڑنے والی شہزادی (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

    باغ اجاڑنے والی شہزادی (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

    کسی بادشاہ کے محل میں ایک بہت خوب صورت باغ تھا جس کی دیکھ بال کے لیے بہت سے مالی بادشاہ نے مقرّر کر رکھے تھے۔

    لیکن کچھ عرصے سے ایسا ہو رہا تھا کہ روزانہ رات کو کوئی مخلوق باغ میں آتی اور درختوں کی شاخیں توڑ دیتی۔ بادشاه مالیوں سے بڑا ناراض تھا۔ مالی ہر طرح کوشش کر رہے تھے کہ اُن لوگوں کو پکڑا جائے جو باغ کو تباہ کر رہے ہیں۔ آخر بہت کوشش کے بعد مالیوں کو پتا چلا کہ آدھی رات کے قریب تین ہنس، باغ میں آتے ہیں لیکن صبح جب پڑتال کی جاتی تو گھاس پر انسانی پاؤں کے نشان نظر آتے۔

    بادشاہ نے باغ کی رکھوالی کے لیے چوکی دار رکھے۔ لیکن عجیب بات تھی کہ جوں ہی ہنسوں کے آنے کا وقت ہوتا چوکی داروں کو نیند آ جاتی اور اگلی صبح درختوں کی کئی شاخیں ٹوٹی ہوئی ہوتیں۔

    اس بادشاہ کے تین بیٹے تھے۔ بڑے دو بیٹے تو کافی چاق و چوبند تھے لیکن چھوٹا بہت سست اور ڈھیلا سا تھا۔ لوگ اُسے بے وقوف سمجھتے تھے۔

    بادشاہ کے بڑے بیٹے باپ کی پریشانی پر خود بھی پریشان تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح باغ اُجاڑنے والوں کا پتا چل جائے۔ چناں چہ سب سے بڑے شہزادے نے بادشاہ سے کہا: ”ابّا جان، مجھے اجازت دیجیے کہ میں اُن لوگوں کا پتا چلاؤں جو ہمارے باغ کو تباہ کر رہے ہیں۔“

    بادشاہ بولا ”ضرور ضرور۔ تم یہ کام نہیں کرو گے تو اور کون کرے گا۔“

    بڑا شہزادہ شام ہوتے ہیں باغ میں داخل ہوگیا اور بادام کے درخت کے نیچے چھپ کر بیٹھ گیا۔ اُس نے پکّا ارادہ کر لیا تھا کہ وہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی آنکھ بند نہیں کرے گا۔ لیکن عین اُس وقت جب اُسے ہوشیار ہو کر بیٹھنا چاہیے تھا اُس کی آنکھ لگ گئی۔ باغ میں آندھی آئی اور اُس آندھی میں تینوں ہنس اُڑتے ہوئے باغ میں اترے۔

    صبح جب بادشاہ شہزادے کا کارنامہ دیکھنے آیا تو وہ یہ دیکھ کر بہت مایوس ہُوا کہ شہزادہ گہری نیند سویا ہوا ہے، اور اُس درخت کی تین شاخیں ٹوٹی ہوئی ہیں جس کے نیچے وہ لیٹا تھا۔ بادشاہ کو بہت غصّہ آیا۔ وہ ناراض ہو کر بولا: ”اگر تم میرے بیٹے نہ ہوتے تو میں تمہارے کان اور ناک کٹوا کر گدھے پر سوار کر کے، تمام شہر میں گھماتا! دفع ہو جاؤ یہاں سے۔“

    اگلے دن دوسرے شہزادے نے چوروں کو پکڑنے کا ارادہ کیا۔ لیکن اُس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہُوا جو پچھلی رات بڑے شہزادے کے ساتھ ہوا تھا۔

    تیسرے دن سب سے چھوٹے شہزادے نے باغ میں جانے کی اجازت چاہی تو بادشاہ نے کہا ”تم تو بالکل ہی گئے گزرے ہو۔ تمہارے بڑے بھائی جو بہت چالاک اور ہوشیار ہیں، یہ کام نہ کر سکے۔ تم کون سا تیر مار لو گے۔“

    لیکن جب چھوٹے شہزادے نے بہت ضد کی تو بادشاہ نے اجازت دے دی اور وہ شام کو باغ میں داخل ہو گیا۔ وہ یہ سن چکا تھا کہ عین اُس وقت جب ہنس باغ میں داخل ہوتے ہیں، چوکی داروں کو نیند آ جاتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے بھائیوں کی طرح وہ بھی سو جائے۔ اس نے چاقو سے اپنی انگلی پر زخم لگایا اور اُس کے اُوپر تھوڑا سا نمک چھڑک لیا تا کہ درد کی وجہ سے اُسے نیند نہ آئے۔

    اندھیرا چھا گیا۔ پھر چاند اپنی پوری آب و تاب سے نکلا اور تمام باغ چاندنی سے جگمگا اٹھا۔ پھر بہکی بہکی ہوا چلنے لگی جو آہستہ آہستہ بہت تیز ہو گئی۔ شہزادہ سمجھ گیا کہ اب ہنسوں کے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔

    اُس نے آسمان کی طرف دیکھا تو دور فضا میں تین چوٹے چھوٹے دھبّے دکھائی دیے جو دیکھتے ہی دیکھتے بڑے ہوتے گئے اور پھر تین سفید ہنس تیزی لیکن خاموشی سے باغ میں اُترے۔ اُن کے پروں کی آواز بھی سُنائی نہ دی۔

    شہزادہ چوکس ہو گیا اور جلدی سے ایک جھاڑی میں چھپ گیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تینوں ہنسوں نے اپنے پر اُتار کر اُسی جھاڑی کے پاس رکھ دیے جہاں وہ چھپا ہوا تھا۔ اُن پروں کے اندر سے تین خوب صورت لڑکیاں نکل کر گھاس پر ناچنے لگیں۔ اُن کے سنہری بال چاندنی میں بڑے ہی خوب صورت لگ رہے تھے ۔

    شہزادے نے سوچا کہ اگر میں نے پھرتی سے کام نہ لیا تو یہ لڑکیاں جتنی تیزی سے آئی تھیں، اُتنی ہی تیزی سے واپس چلی جائیں گی اور میں ہاتھ ملتا رہ جاؤں گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جاتے وقت یہ کِسی درخت کی ٹہنیاں توڑ جائیں۔ پھر میں ابّا جان کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ لوگ تو پہلے ہی مجھے بے وقوف اور سُست کہتے ہیں۔

    یہ سوچ کر وہ بجلی کی سی تیزی سے جھاڑی میں سے نِکلا اور جھپٹ کر ایک لڑکی کے پَر اُٹھا لیے۔ جتنی تیزی سے اُس نے پَر اُٹھائے اُس سے زیادہ تیزی کے ساتھ باقی دو لڑکیوں نے اپنے پَر اُٹھا کر بازوؤں پر لگائے اور ہنس بن کر اُڑ گئیں۔

    اب ایک ہی لڑکی باقی رہ گئی تھی۔ وہ کانپتی ہوئی شہزادے کے پاس آئی اور ہاتھ جوڑ کر بولی:

    ” خدا کے لیے میرے پَر واپس دے دو۔“

    ”ہرگز نہیں۔“ شہزاده بولا ” پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ کون ہو اور کہاں سے آئی ہو؟“

    لڑکی نے شہزادے کو بتایا ”میں ایک بادشاہ کی لڑکی ہوں جس کی سلطنت یہاں سے بہت دور ہے۔ یہ دونوں لڑکیاں جو ابھی ابھی گئی ہیں، میری بڑی بہنیں ہیں۔ ہمارے اُوپر کسی دشمن نے جادو کر دیا تھا۔ وہ ہمیں مجبور کرتا تھا کہ ہم ہنس کا بھیس بدل کر یہاں آئیں اور اس خوب صورت باغ کے کسی درخت کی ایک ایک شاخ توڑ کر لے جائیں۔“

    شہزادہ بولا ”لیکن اب تو تم ایسا نہیں کر سکو گی۔ اب میں تمہیں اپنے باپ کا خوب صورت باغ ہرگز اجاڑنے نہیں دوں گا۔“

    لڑکی نے کہا ”اب اِس کی ضرورت نہیں رہی۔ جادوگر نے کہا تھا کہ جب تمہارے پَروں کو کِسی اِنسان کا ہاتھ لگے گا تو تمہارے اُوپر سے جادو کا اثر ختم ہو جائے گا۔“

    لڑکی شہزادے سے باتیں کر رہی تھی اور شہزادہ اُسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ لڑکی اتنی خوب صورت تھی کہ شہزادے نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شادی کرے گا تو اِسی لڑکی سے کرے گا۔

    شہزادے نے لڑکی کو اپنے باپ کے محل اور اس کی سلطنت کے قصّے سُنائے، اپنے بھائیوں کے متعلق بتایا اور پھر آخر میں کہا: ”اگر تُم مجھ سے شادی کر لو تو ہماری زندگی بڑی ہی خوش و خرّم گزرے گی۔“

    شہزادی بولی ”افسوس ! ابھی ایسا نہیں ہو سکتا۔“

    ”کیوں؟“ شہزادے نے کہا۔

    ”اس لیے کہ پہلے مُجھے ہنس کی صورت میں واپس اپنے دیس میں پہنچنا ہے۔“

    شہزادہ بولا ” وہ تو تُم اس وقت تک نہیں پہنچ سکتیں جب تک میں تمہارے پَر واپس نہیں کرتا۔“

    ”نہ۔۔۔نہ۔۔۔نہ“ شہزادی بولی ”ایسا ظلم نہ کرنا۔ اس طرح تو ہم ہنسی خوشی زندگی نہ گزار سکیں گے۔ اگر تُم نے مجھ سے زبردستی شادی کی تو جب بھی میرا دل چاہے گا تمہیں اور تمہارے بچّوں کو چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔“

    شہزاده بولا ” تو پھر کوئی ایسا طریقہ بتاؤ کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہ سکو۔“

    شہزادی نے کہا ”اس وقت تو مجھے اپنے گھر جانا ہے۔ اگر تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تو تمہیں مجھے تلاش کرنا پڑے گا۔ میرے باپ کا ملک دنیا کے اُس پار ہے اور اُس کا نام ہے ‘کہکشاں’۔ میں تمہیں اپنے باپ کے محل میں ہی ملوں گی۔ لیکن یہ یاد رکھنا کہ ملک کہکشاں کو جو سڑک جاتی ہے، وہ بہت لمبی اور رُکاوٹوں سے پُر ہے۔ اِس ملک کا راستہ تلاش کرنا اِتنا آسان نہیں ہے۔“

    شہزادے نے کہا ”کوئی اتا پتا تو بتاؤ۔“

    شہزادی بولی ”چاند سے پَرے، سُورج سے بھی پرے اور اس جگہ سے بھی پَرے جہاں سے ہوائیں اور آندھیاں آتی ہیں، میرا ملک ہے۔“

    یہ کہتے ہوئے شہزادی ذرا پیچھے کو ہٹی۔ شہزادہ بے دھیان ہو گیا تھا۔ لڑکی نے جلدی سے اپنے پَر بازوؤں پر لگائےاور پلک جھپکتے میں ہنس بن کر اُڑ گئی۔

    صبح کو بادشاه چھوٹے شہزادے کی خیر خبر لینے آیا تو وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہُوا کہ درختوں کی کوئی شاخ ٹوٹی ہوئی نہیں ہے۔ وہ کام جو سمجھ دار اور تیز طرار بڑے شہزادے نہ کر سکے تھے، چھوٹے اور سست شہزادے نے کر دکھایا تھا۔

    بادشاہ نے شہزادے کی بہت تعریف کی اور اُسے بہت سا انعام دیا ۔ لیکن شہزادہ تو شہزادی کے غم میں اُداس تھا۔ اُس نے بادشاہ سے کہا: ”ابّا جان میں ایک شہزادی کی تلاش میں جا رہا ہوں جس سے میں شادی کروں گا۔“

    بادشاہ نے اُسے روکنے کی بہت کوشش کی، بہت سمجھایا لیکن شہزاده نہ مانا اور سفر پر چل دیا۔ جِس گھوڑے پر وہ سوار تھا، وہ بہت تیز رفتار تھا۔ لیکن شہزادہ اِس قدر بے چین تھا کہ اُسے گھوڑے کی رفتار سُست معلوم ہو رہی تھی۔

    سات روز کے بعد آخر وہ ایسے علاتے سے گزرا جہاں دُور دُور تک آبادی نہ تھی ۔ ہر طرف پتھّر اور چٹانیں تھیں۔ اب اُسے کچھ اُمید ہوئی کہ شاید شہزادی ایسے ہی کسی علاقے میں رہتی ہو گی۔ دن گزرتے گئے اور اُسے پتھّروں چٹانوں اور کھلے آسمان کے علاوہ اور کچھ نظر نہ آیا۔

    وہ اپنے خیالوں میں گُم چلا جا رہا تھا کہ دور، کچھ فاصلے پہ تین جنّ نظر آئے جو خنجر نکالے ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے تیّار تھے۔ شہزاده اُن کے پاس گیا اور دریافت کیا: ”کیا بات ہے؟ کیوں لڑ رہے ہو؟“ اُن میں سے بڑا جِن بولا ”ہم تینوں بھائی ہیں۔ ہمارا باپ ہمارے لیے کچھ جائداد چھوڑ گیا ہے۔ اسی کی تقسیم کے سلسلے میں ہم جھگڑ رہے ہیں۔“

    شہزادے نے پوچھا ”کیا جائداد چھوڑی ہے تمہارے باپ نے؟“

    اس پر جنوں نے اُسے بتایا کہ اُن کا والد جوتوں کا ایک جوڑا چھوڑ گیا ہے اور ان کو پہن کر انسان ایک قدم میں سات میل کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔ ایک چادر ہے جسے اوڑھنے والا دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ ایک ٹوپی ہے جس کے پیچھے ایک پَر لگا ہے۔ اگر ٹوپی کے پَر والا رُخ بدل کر آگے کر دیا جائے تو اِتنے زور کی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے سات توپیں ایک دم داغ دی گئی ہوں۔

    شہزادہ کچھ دیر غور کر کے بولا ”اِن چیزوں کو تقسیم نہ کرو بلکہ تُم میں سے جو سب سے زیادہ اِن کا حق دار ہو وہ تینوں چیزیں لے لے۔ لاؤ یہ مجھے دے دو اور جب میں ایک دو تین کہوں تو تینوں بھاگو۔ وہ جو سامنے پہاڑ نظر آ رہا ہے، اُس کی چوٹی کا پتھّر جو سب سے پہلے اُکھاڑ کر لائے گا وہی خوش قسمت تینوں چیزیں لے لے گا۔“

    جِنوں نے اُس کی یہ تجویز مان لی اور جب اُس نے ایک دو تین کہا تو تینوں دوڑ پڑے۔ جوں ہی اُنہوں نے دوڑنا شروع کیا، شہزادے نے فوراً جوتے پہنے، چادر اوڑھی اور ٹوپی سر پر رکھ کر غائب ہو گیا۔

    اب اُس کا کام آسان ہو گیا تھا۔ اُسے اب گھوڑے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اُس کا ایک قدم سات میل کا تھا۔ وہ چلتا گیا۔ عجیب عجیب علاقے آتے گئے۔ شام تک وہ ایک دلدلی علاقے میں پہنچ گیا۔ اندھیرے کی وجہ سے اب آگے جانا ممکن نہ تھا۔ وہ رات کاٹنے کے لیے وہیں رُک گیا۔

    سونے سے پہلے اُس نے ارد گرد نظر دوڑائی تو دُور جنگل میں روشنی سی نظر آئی۔ وہ اُسی طرف چل دیا۔ یہ روشنی ایک جھونپڑی میں سے آ رہی تھی۔ شہزاده اُسی جھونپڑی میں داخل ہوگیا۔ اندر ایک بڑھیا بیٹھی تھی ۔ شہزادے نے اُس سے جھونپڑی میں ٹھہرنے کی اجازت مانگی تو وہ بولی: ”میں چاند کی ماں ہوں۔ آج وہ آسمان کا سفر جلدی ختم کر کے واپس آ جائے گا۔ اگر اُس کی روشنی تم پر پڑ گئی تو اچھی بات نہ ہوگی۔“

    لیکن شہزادے نے اتنی ضد کی کہ بڑھیا نے مجبور ہو کر اِجازت دے دی۔ شہزادے کی ابھی آنکھ بھی نہ لگی تھی کہ چاند واپس گھر آ گیا اور آتے ہی پوچھنے لگا: ”کون ہو تم؟“

    شہزادہ بولا ” اے چاند، میں مُلک کہکشاں جانا چاہتا ہوں۔ تُم ساری دنیا پر اپنی روشنی کی کِرنیں بکھیرتے ہو۔ مُجھے کہکشاں کا راستہ بتا دو۔“

    چاند بولا ”کہکشاں کو جانے والا راستہ یہاں سے بہت دُور ہے۔ تمہیں ابھی ایک دِن اور ایک رات اور چلنا ہو گا ۔ پھر کسی جگہ کوئی ملے تو اس سے پوچھنا۔“

    شہزاده چلتا گیا۔ شام کے قریب وہ پھر ایک جنگل میں پہنچا۔ یہاں بھی اُسے ایک جھونپڑی نظر آئی۔ وہ جھوپڑی میں داخل ہوا۔ جھونپڑی میں ایک بڑھیا بیٹھی تھی۔ اُس نے بڑھیا سے رات گزارنے کی اجازت چاہی تو وہ بولی: ”میں سُورج کی ماں ہوں ۔ میرا بیٹا اب واپس گھر آنے والا ہے۔ اگر اُس نے تمہیں دیکھ لیا تو اچھّا نہ ہو گا۔“

    لیکن شہزادے نے ضد کی تو اُس بڑھیا نے بھی اُسے رات بسر کرنے کی اجازت دے دی۔ تھوڑی دیر بعد سُورج آ گیا اور اُس نے شہزادے سے وہی سوال کیا: ”کون ہو تُم اور یہاں کیا لینے آئے ہو؟“

    شہزادہ بولا ” اے سورج ، میں مُلک کہکشاں جانا چاہتا ہوں۔ تُم نے ضرور یہ ملک دیکھا ہو گا۔ مجھے اُس کا راستہ بتا دو۔“

    سُورج نے کہا ”میں نے یہ ملک کبھی نہیں دیکھا۔ یہ اِتنی دور ہے کہ چاند اور سورج کی روشنی وہاں نہیں پہنچتی۔ تم ابھی اور آگے جاؤ۔ پھر کِسی سے راستہ پوچھنا۔“

    شہزادہ بے حد اُداس ہو گیا۔ وہ بہت تھک چکا تھا لیکن شہزادی کی یاد اُس کے دِل سے نہ جاتی تھی۔ وہ پھر آگے چل دیا۔ رات کو اُسے ایک بڑھیا ملی۔ یہ بڑھیا پہلی دو بڑھیوں سے زیادہ رحم دل تھی ۔ اُس نے شہزادے کو بتایا ”میری سات بیٹیاں ہیں، اور یہ ساتوں وہ ہوائیں ہیں جو دنیا میں گھومتی پھرتی ہیں ۔ تُم ذرا انتظار کرو۔ شاید اُن میں سے کسی کو کہکشاں کا پتا معلوم ہو۔“

    تھوڑی دیر کے بعد بڑھیا کی بیٹیاں گھر میں داخل ہوئیں تو شہزادے نے اُن سے کہا: ”اے ہواؤ، تم ساری دنیا میں گھومتی پھرتی ہو۔ مجھے کہکشاں نامی ملک کا پتا تو بتاؤ۔“

    لیکن اُن میں سے کوئی بھی شہزادے کی مدد نہ کر سکی۔ اب تو شہزادے کا دل ٹوٹ گیا اور وہ رونے لگا۔ بڑھیا نے اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو بولی: ”حوصلہ نہ ہارو۔ ابھی تو میری چھ بیٹیاں ہی آئی ہیں۔ ساتویں جو سب سے زیادہ تیز ہے اور جسے طوفان کہتے ہیں، ابھی آنے والی ہے۔ ذرا انتظار کرو، شاید وہ کچھ بتا سکے۔“

    اِتنے میں بڑھیا کی ساتویں بیٹی بھی آ گئی۔ جوں ہی وہ جھونپڑی میں داخل ہوئی، شہزادے نے اُس سے کہا: ”خدا کے لیے مجھے ملک کہکشاں کا پتا بتا دو؟“

    ہوا بولی ”میں تو وہیں سے آ رہی ہوں۔ وہ اِتنی دور ہے کہ تمہارا وہاں پہنچنا بہت مشکل ہے۔

    لیکن پہلے مجھے یہ تو بتاؤ تم وہاں کیوں جانا چاہتے ہو؟“

    شہزادے نے ساری کہانی سنائی تو ہوا افسوس کرتے ہوئے بولی :”اگر تم وہاں پہنچ بھی گئے تو کوئی فائده نہ ہو گا۔ اُس شہزادی کی تو کل دوپہر کو شادی ہو رہی ہے۔ میں آج سارا دن محل کی چھت پر شہزادی کی شادی کے کپڑے سکھاتی رہی ہوں۔“

    شہزادہ بولا: ”تم چاہو تو میری مدد کر سکتی ہو۔ شہزادی کی شادی کے تمام کپڑے اڑا کر کیچڑ میں پھینک دو۔ اِس طرح شادی رک جائے گی۔“

    ہوا نے کہا ”یہ تو میں کر سکتی ہوں۔ لیکن تم بھی میرے ساتھ چلو۔ اگر میں شادی رکوانے ہیں کامیاب ہو گئی تو پھر تمہیں وہاں موجود ہونا چاہیے۔ شہزادی اِس شادی سے خُوش نہیں، میں نے دیکھا تھا، وہ بہت اُداس تھی۔“

    ہوا نے شہزادے کو اپنے ساتھ اڑانا چاہا تو وہ ہنس پڑا اور بولا ” میرے بوٹ دیکھے ہیں تُم نے۔ میرا ایک قدم سات ميل کا ہے۔ تم میری فکر نہ کرو۔“

    اور واقعی ایسا ہی ہُوا۔ شہزادہ ہوا سے میلوں آگے تھا، اور ہوا کو اُس کا ساتھ دینے کے لیے بہت تیز چلنا پڑ رہا تھا۔

    آخر تنگ آ کر ہُوا نے کہا۔ ”دیکھو شہزادے، تم شاید یہ نہیں جانتے کہ اگر میں زیادہ تیز چلوں تو دنیا میں تباہی آ جاتی ہے، درخت جڑوں سے اُکھڑ جاتے ہیں، فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، مکانات گِر جاتے ہیں۔ اِس لیے بہتر یہ ہے کہ ذرا آہستہ چلو۔“

    اب اُن کی رفتار پہلے سے کچھ کم ہوگئی تھی، وہ ایک بہت بڑے صحرا سے گزر رہے تھے۔ ہر طرف ریت کے تودے اُڑتے پھرتے تھے۔ اس سے آگے ایسا علاقہ آیا جہاں دھند چھائی ہوئی تھی۔ ایسے پہاڑ آ گئے جن پر صدیوں سے برف جمی ہوئی تھی۔ پہاڑوں کا یہی سلسلہ مُلک کہکشاں کی سرحد تھی۔

    اِن پہاڑوں کو عبور کرتے ہی وہ محل نظر آنے لگا جہاں شہزادی کی شادی کی تیّاریاں ہو رہی تھیں۔ ہوا نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اِتنے زور سے چلی کے تمام جھنڈیاں، جھاڑ، فانوس اور قناتیں ٹوٹ پھوٹ گئیں ۔ شادی کے کپڑے اُڑ اُڑ کر دور پانی اور کیچڑ میں جا گِرے۔ ہر طرف آفت سی مچ گئی اور شادی ملتوی کر دی گئی۔

    شہزادے نے جادو کی چادر اوڑھ لی۔ اب اُسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ اُس کمرے میں گیا جہاں شہزادی اداس اور غمگین بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ شہزاده اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اُس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ وہ کمرے میں پڑی ہوئی میز پر بیٹھ گیا۔ اُسے سخت بھوک لگی تھی۔

    خوش قسمتی سے میز پر ایک کیک اور چھری پڑی تھی اور ٹھنڈے پانی کی ایک بوتل بھی رکھی تھی۔ اس نے کیک کاٹ کر کھانا شروع کیا اور بوتل کو منہ لگا کر پانی پیا۔ وہ یہ دیکھ کر بڑا حیران ہُوا کہ کاٹنے کے باوجود کیک ویسے کا ویسا ہی رہا۔ پانی پینے کے بعد بھی بوتل اُسی طرح بھری رہی۔

    جب اُس کا پیٹ بھر گیا تو وہ اطمینان سے شہزادی کے پاس آیا اور بولا ”حضور، میں آ گیا ہوں۔“

    شہزادی اتنے قریب ایک مردانہ آواز سُن کر ڈر کے چیخی تو محل کا چوکی دار بھاگا آیا۔ شہزادے نے اپنی ٹوپی کا رخ بدل لیا اور پَر والا حصّہ سامنے کر لیا۔ ایک دم محل توپوں کی آواز سے گونج اُٹھا۔ تمام چوکی دار اور محافظ بھاگے چلے آئے۔ بادشاہ اور ملکہ بھی آ گئے۔ بادشاه نے کہا:

    ”تم جو کوئی بھی ہو، ہمیں بتاؤ کہ کیا چاہتے ہو؟“

    شہزاده بولا ” میں شہزادی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“

    شہزادی نے بادشاہ سے کہا کہ یہ شخص، جو دِکھائی نہیں دیتا، جِنوں کے ملک کا شہزادہ ہے۔ اگر آپ نے اِس کے ساتھ شادی نہ کی تو یہ آپ کے ملک کو تباہ کر دے گا۔

    بادشاه ڈر گیا اور اُس نے اپنے وزیروں سے مشورہ کر کے شہزادے کی بات مان لی۔ شہزادی اور شہزادے کی شادی بڑی دھُوم دھام سے کر دی گئی۔ تین دن خُوب جشن رہا۔ شادی کی تمام رسمیں پوری ہوئیں لیکن اِس دوران میں شہزادے نے چادر اوڑھے رکھی اور سب کی نظروں سے اوجھل رہا۔ چوتھے دِن شہزادے نے دیوار پر لٹکی ہوئی ایک تلوار اتاری، اُس کے دستے پر پہلے اپنا نام لکھا، پھر لکھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔

    یہ سب کچھ لکھ کر اُس نے تلوار دیوار پر لگا دی۔ پھر جادو کے بوٹ پہنے، کیک اور پانی کی بوتل ساتھ لی اور واپس چل کھڑا ہوا۔ راستے میں ایک ایسا ملک آیا جہاں قحط پڑا ہُوا تھا۔ لوگ اِتنے کمزور ہو گئے تھے کہ اُن کی ہڈّیاں نِکل آئی تھیں اور وہ ہڈیوں کے پنجر نظر آتے تھے۔ شہزادے نے جادو کا کیک اُنہیں دے دیا۔ لوگ کھاتے گئے لیکن کیک ویسے کا ویسا ہی رہا۔ اس کے بدلے میں اُس نے لوگوں سے وعدہ لیا کہ اگر کبھی کوئی شہزادی اپنے بچّے کے ساتھ اِدھر سے گزرے تو وہ اُس کی خوب آؤ بھگت کریں اور پھر اُسے اگلے ملک کی سرحد پر چھوڑ آئیں۔

    اِس کے بعد شہزادہ ایک ایسے ملک میں داخل ہُوا جہاں برسوں سے بارش نہ ہوئی تھی، کنویں اور دریا سب سوکھ گئے تھے۔ لوگ پانی کی بوند کو ترس رہے تھے اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر رہے تھے۔ شہزادے نے پانی کی بوتل اُن لوگوں کو دے دی۔ اُنہوں نے خوب جی بھر کے پانی پیا، لیکن بوتل ویسی کی ویسی ہی رہی ۔ یہاں بھی اُس نے لوگوں سے وعدہ لیا کہ اگر کبھی کوئی شہزادی اپنے لڑکے کے ساتھ اِدھر سے گزرے تو اُن کی پوری مدد کریں اور اگلے مُلک کی سرحد تک چھوڑ آئیں۔

    اُدھر شہزادے کے جانے کے بعد شہزادی بُہت اداس ہو گئی تھی۔ اُس کا کِسی کام میں دِل نہ لگتا تھا۔ اگلے موسمِ بہار میں اُس کے ہاں ایک خوب صورت شہزاده پيدا ہوا۔ وہ بہت ہی حسین تھا۔ سنہرے بال، نیلی آنکھیں اور گلابی رنگت۔ لڑکا بڑا ہوکر نہایت تَن درست نکلا۔ جب وہ چھ سال کا ہُوا تو ایک دِن اُس نے ماں سے ضد کی کہ دیوار پر لٹکی ہوئی تلوار اُسے دِکھائی جائے۔ شہزادی نے تلوار اُتاری تو اُس کی نظر تلوار کے دستے پر لکھی ہوئی تحریر پر پڑ گئی۔

    یہ دیکھ کر اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا کہ شہزادہ اپنا پورا پتا تلوار کے دستے پر لکھ گیا ہے۔ یہ تو وہی شہزاده تھا جِس کے باپ کے باغ میں شہزادی ہنس بن کر جایا کرتی تھی۔

    شہزادی نے اپنے لڑکے سے کہا ”چلو بیٹا اب ہم تمہارے بابا کی تلاش میں نِکلتے ہیں۔“ اگلے ہی دِن وہ روانہ ہو گئی۔ اُس کے ساتھ ایک فوجی دستہ، بے شمار نوکر چاکر اور سامان سے لدی ہوئی گاڑیاں تھیں۔

    جب وہ اُس ملک میں پہنچے جہاں کے لوگوں کو شہزادے نے کیک دیا تھا تو اُنہیں شہزادے سے کیا ہوا وعدہ یاد آ گیا اور اُنہوں نے شہزادی اور اُس کے بیٹے کا شان دار استقبال کیا۔ پھر وہ شہزادی اور اُس کے ساتھیوں کو دوسرے ملک کی سرحد تک چھوڑ آئے۔

    یہ ملک وہ تھا جس کے باشندوں کو شہزادے نے پانی کی بوتل دی تھی ۔ یہاں بھی شہزادی اور اُس کے ساتھیوں کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔ یہ لوگ بھی شہزادی کو اگلے ملک کی سرحد تک حفاظت سے پہنچا آئے۔ ایک دِن کا سفر کرنے کے بعد شہزادی شہزادے کے شہر کے نزدیک پہنچ گئی لیکن وہ شہر میں داخل نہیں ہوئی بلکہ اُس سے کچھ فاصلے پر ایک کھلے میدان میں رُک گئی۔

    میدان میں خیمے لگا دیے گئے، قالین بچھا دیے گئے اور تمام قیمتی اور خوب صورت سامان اور جو شہزادی ساتھ لائی تھی، سجا دیا گیا ۔ پھر شہزادی نے بادشاہ کو پیغام بھجوایا کہ میں مُلک کہکشاں کی شہزادی ہوں اور آپ کی بہو بننا چاہتی ہوں۔ مہربانی فرما کر اپنے بیٹوں کو باری باری میرے پاس بھیجیے تا کہ میں اُن میں سے ایک کو چُن لوں۔

    سب سے پہلے بڑا شہزاده بن سنور کر نِکلا اور گھوڑے پر سوار ہو کر شہزادی سے ملنے گیا۔ شہزادی کے بیٹے نے پُوچھا:

    ”امّی، کیا یہ میرے ابّو ہیں؟“

    شہزادی بولی ”نہیں بیٹے۔ یہ تمہارے ابّو نہیں ہیں۔“

    بڑا شہزادہ واپس چلا گیا تو دوسرا شہزادہ قسمت آزمانے آیا۔ اُسے دیکھ کر بھی لڑکے نے وہی سوال کیا۔ شہزادی نے جواب دیا کہ بیٹے، یہ بھی تمہارے ابّو نہیں ہیں۔

    سب سے آخر میں چھوٹا شہزادہ گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا۔ شہزادی نے خیمے کے اندر ہی سے پہچان لیا اور لڑکے کو بتایا کہ بیٹا یہی تمہارے ابّو ہیں۔

    لڑکا بھاگ کر خیمے سے باہر نِکلا اور اپنے باپ سے لپٹ گیا۔ خوشی کے مارے شہزادی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ تینوں دیر تک باتیں کرتے رہے، اور جب ایک دوسرے کو سارا قصّہ سُنا چُکے تو شہزاده اُن کو لے کر اپنے محل میں آ گیا۔ اُس کے بھائی یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ یہ سُست اور نالائق لڑکا شہزادی کو کیسے پسند آ گیا۔ لیکن اُنہیں کیا پتا تھا کہ شہزادی کو حاصل کرنے کے لیے اُس نے کیسی کیسی مصیبتیں برداشت کی تھیں۔

    شہزادی اور شہزادہ وہاں زیادہ دِنوں نہیں رکے، فوراً ہی کہکشاں کی طرف چل پڑے جہاں شہزادے نے بہت عرصے تک حکومت کی اور شاید آج بھی وہاں اُسی کی نسل حکومت کر رہی ہو۔ لیکن ہمیں اِس بات کا ٹھیک پتا نہیں چل سکتا کیوں کہ کہکشاں تک جانا آسان نہیں۔ وہاں تو وہی پہنچ سکتا ہے جو پہلے چاند اور سورج کے پاس سے گزرے ۔ پھر کچھ ہواؤں سے راستہ پوچھنے کے بعد ساتویں ہوا کے ساتھ ایسے جوتے پہن کر سفر کرے جو ایک قدم میں سات میل کا فاصلہ طے کرتے ہوں۔ پھر ویران صحراؤں اور برفانی پہاڑوں میں سے گزرے۔ تب کہیں جا کر اُسے پتا چلے گا کہ کیا ملک کہکشاں پر آج بھی اُسی شہزادے کی نسل حکومت کرتی ہے۔

    (پولینڈ کی دل چسپ لوک کہانی، مترجم سیف الدّین حُسام)

  • عظیم کاری گر (یونانی کی لوک کہانی)

    عظیم کاری گر (یونانی کی لوک کہانی)

    صدیوں پہلے یونان کے شہر ایتھنز میں ڈیڈیلس نامی ایک شخص رہتا تھا جو لکڑی، پتھر اور دھاتوں کے کام میں اتنا ماہر تھا کہ دور دور سے لوگ اس کے پاس مختلف قسم کا سامان بنوانے کے لیے آتے تھے۔ وہ ایک شان دار اور نہایت باکمال کاری گر تھا۔

    اسی نے لوگوں کو بتایا کہ مضبوط اور خوب صورت مکان کیسے بنائے جاتے ہیں، دروازے مضبوط اور عالی شان کیسے بنتے ہیں اور ستونوں کے سہارے چھت کیسے بنائی جاتی ہے۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے چیزوں کو گوند سے جوڑنا سیکھا تھا۔ اس نے بہت سی چیزیں ایجاد کی تھیں۔ اسے یونان کے مشہور ترین موجد اور عظیم فن کار ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔

    ڈیڈیلس کا ایک یتیم بھتیجا تھا جس کا نام پرڈکس تھا۔ ڈیڈیلس نے اسے ساتھ کام کرنے کے لیے رکھ لیا تھا۔ اس طرح وہ ڈیڈیلس کا شاگرد بھی تھا۔ پرڈکس اتنا ذہین تھا کہ تیزی سے کام سیکھتا گیا اور کچھ عرصہ میں اپنے چچا سے زیادہ ماہر ہوگیا۔ اسے جنگل، پہاڑ اور سمندر بہت پسند تھے۔ وہ اکثر ان مقامات پر چہل قدمی کرتا اور یہاں نظر آنے والی اشیاء سے کچھ ایجاد کرنے کی کوشش کرتا۔ ایک دن ساحل پر اس نے ایک بڑی مچھلی کی ریڑھ کی ہڈی اٹھائی اور اس سے آری ایجاد کی۔ پرندوں کو درختوں کے تنوں میں سوراخ کرتے دیکھ اس نے چھینی بنائی اور اسے استعمال کرنے کا طریقہ بھی سیکھا۔ پھر اس نے کمہار کا پہیہ ایجاد کیا جس پر مٹی کے برتن بنائے جاتے ہیں۔ اس نے کانٹے والے قطب نما کے علاوہ کم عمری میں کئی دل چسپ اور مفید چیزیں ایجاد کر لیں۔

    پرڈکس کی مہارت دیکھ کر ڈیڈیلس کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔ اس نے سوچا کہ اگر یہ لڑکا اسی طرح کام سیکھتا رہا اور ایجادات کرتا رہا تو یہ ایک دن مجھ سے بڑا آدمی بن جائے گا اور دنیا مجھے نہیں بلکہ اسے یاد رکھے گی۔ بس پھر کیا تھا، دن بہ دن ڈیڈیلس کے دل میں پرڈکس کے لیے نفرت پروان چڑھتی گئی۔

    ڈیڈیلس، ایتھنز کے نوجوان بادشاہ ایجیئس کے لیے پتھر کا ایک عالیشان محل بنا رہا تھا جس میں اس نے ایتھینا (یونانی دیوی) کا ایک خوبصورت مندر بھی بنایا تھا۔ یہ محل شہر کے وسط میں ایک بڑی چٹان پر تعمیر کیا جارہا تھا۔ اس کی تزئین و آرائش کا کام ڈیڈیلس اور پرڈکس مل کر کررہے تھے۔ ایک دن ڈیڈیلس کے ذہن میں اچانک ایک ترکیب آئی۔

    ایک صبح جب دونوں ایتھینا کے مندر کی بیرونی دیواروں پر نقاشی کر رہے تھے تو ڈیڈیلس نے بھتیجے کو دیوار کے ایک تنگ حصے پر جانے کے لیے کہا جس کے نیچے انتہائی پتھریلی چٹانیں تھیں۔ پرڈکس نے سوچا کہ وہ دبلا پتلا ہے اور تنگ حصے پر باآسانی کھڑا ہو کر نقاشی کرسکتا ہے لہٰذا وہ وہاں پہنچ گیا۔ تبھی ڈیڈیلس نے ایک ہتھوڑی اس کی جانب بڑھائی اور کہا کہ دیوار کی سطح ہموار کر دو۔ پرڈکس نے جیسے ہی وزنی ہتھوڑی اٹھائی، اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور سہارے کے لیے بنائی گئی پتلی پٹی سے اس کا پاؤں پھسل گیا۔ ایتھینا جو بظاہر مجسمہ مگر درحقیقت دیوی تھی، کو پرڈکس کا یہ انجام منظور نہیں تھا، لہٰذا پرڈکس کے چٹان پر گرنے سے قبل ہی ایتھینا نے اسے ایک تیتر میں بدل دیا جو ہوا میں اُڑتا ہوا جنگل اور پہاڑوں کی جانب نکل گیا۔ اس طرح پرڈکس کی جان بچ گئی۔ جنگلوں اور پہاڑوں سے عشق کرنے والا اب انہی مقامات کا باسی بن گیا۔ یونانی آج بھی کہتے ہیں کہ موسم گرما میں جب پھول کھلتے ہیں اور ہوائیں چلتی ہیں تو پرڈکس کی میٹھی آوازیں جنگل میں سنائی دیتی ہیں۔

    جب ایتھنز کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ڈیڈیلس نے اپنے بھتیجے کے ساتھ کس قدر گھناؤنا فعل انجام دیا ہے تو ان کے دل میں اس کے خلاف غم و غصہ بھر گیا۔ پرڈکس ایک محبت کرنے والا لڑکا تھا جسے پورا شہر پسند کرتا تھا مگر اپنے بد اخلاق چچا (جسے صرف خود سے محبت تھی) کے سبب وہ ان کے درمیان سے غائب ہوگیا تھا۔ سبھی چاہتے تھے کہ ڈیڈیلس کو سزائے موت دی جائے لیکن جب انہیں یاد آیا کہ اس نے ان کے گھروں کو خوب صورت اور ان کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے کیا کچھ کیا ہے تو انہوں نے اسے زندہ رہنے دیا مگر ایتھنز سے نکال دیا۔

    بندرگاہ پر ایک بحری جہاز لنگر انداز تھا جس کا سفر چند منٹوں بعد ہی شروع ہونے والا تھا۔ اس جہاز میں ڈیڈیلس اپنے تمام قیمتی آلات اور اپنے جوان بیٹے اِیکروس کے ساتھ سوار ہوگیا۔ جہاز سمندر کی لہروں پر آہستہ آہستہ جنوب کی طرف بڑھتا رہا۔ آخر کار کریٹ نامی مشہور جزیرے پر پہنچ گیا۔ وہاں اترتے ہی لوگوں میں بات پھیل گئی کہ ایتھنز کا مشہور کاری گر ڈیڈیلس ان کی سرزمین پر آیا ہے۔ کریٹ کے بادشاہ نے پہلے ہی اس کی غیر معمولی مہارت کے قصے سن رکھے تھے۔ اس نے ڈیڈیلس کا والہانہ استقبال کیا اور اسے اپنا ایک محل بطور رہائش پیش کر دیا۔ بادشاہ نے وعدہ کیا کہ اگر وہ یہاں کے لوگوں کی زندگیاں آسان بنانے کے لیے اچھا کام کرے تو اسے مالا مال کر دیا جائے گا۔

    کریٹ کے بادشاہ کا نام مائنوز تھا۔ اس کے دادا کا نام بھی مائنوز تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کے دادا ’’یوروپا‘‘ (یونانی دیوی) کے بیٹے تھے۔ یوروپا ایک نوجوان شہزادی تھی جو ایک سفید بیل پر بیٹھ کر ایشیاء سے کریٹ آئی تھی۔ براعظم یورپ اسی سے موسوم ہے۔ دادا مائنوز کو مردوں میں عقلمند ترین خیال کیا جاتا تھا۔ وہ اتنا عقلمند تھا کہ زیوس (یونانی دیوتا) نے اسے دنیا کے ججوں میں سے ایک مقرر کیا تھا۔ نوجوان مائنوز بھی اپنے دادا ہی کی طرح عقلمند تھا۔ وہ بہادر اور دور اندیش بھی تھا۔ اس کے بحری جہاز دنیا کے ہر حصے میں تھے جہاں سے بے شمار دولت کریٹ کی سرزمین پر آتی تھی۔ ڈیڈیلس نے بادشاہ مائنوز کے لیے سنگ مرمر کے فرش اور گرینائٹ کے ستونوں والا سب سے شان دار محل بنایا۔ محل میں ایسے سنہری مجسمے نصب کئے جو بات کرسکتے تھے۔ اس محل سے خوبصورت دنیا میں کوئی دوسری عمارت نہیں تھی۔

    ہر سال بادشاہ مائنوز، یوروپا کی کریٹ آمد اور اس شہر کی بنیاد رکھنے کی یاد میں ایک دیوتاؤں کو ایک بیل کی قربانی پیش کرتا تھا لیکن اس سال مائنوز نے بیل قربان نہیں کیا۔ یہ بات پوسائڈن (یونانی اسے قربانی کا دیوتا کہتے ہیں) کو سخت ناگوار گزری۔ اس نے مائنوز کو سزا دینے کے لیے اس کی بیوی پاسیفائی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ ایک بیل سے شادی کر لے۔ بس پھر پاسیفائی پر عجیب پاگل پن سوار ہوگیا۔ مائنوز کے لاکھ سمجھانے کے بعد وہ نہ مانی اور اس نے ڈیڈیلس سے خفیہ ملاقات کرکے گزارش کی کہ وہ اس کے لیے ایک ایسا بیل تیار کرے جس سے وہ شادی کرسکے مگر یہ بات مائنوز کو معلوم نہ پڑے۔ ڈیڈیلس حکم کا غلام تھا۔ اس نے ملکہ پاسیفائی کے لیے ایک بیل تیار کردیا۔ پاسیفائی نے چھپ کر اس سے شادی کرلی۔ کچھ عرصہ بعد جب مائنوز کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ طیش میں آگیا۔ اس دوران پاسیفائی نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اگر مائنوز کو ڈیڈیلس سے شان دار عمارتوں کی غرض نہ ہوتی تو وہ اسی وقت اسے موت کے گھاٹ اتار دیتا۔

    اس کے علاوہ مائنوز کو اپنے نوزائیدہ بیٹے ’’مینی تور‘‘ کے لیے ایک ایسی عمارت بنوانی تھی جس میں وہ اسے قید کرسکے۔ مینی تور ایک وحشی درندہ تھا۔ چند عرصے ہی میں اس کا ڈیل ڈول کافی بڑھ گیا تھا۔ وہ تیزی سے تندرست ہوتا جارہا تھا۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں آج تک اس جیسا خطرناک انسان کوئی نہیں پیدا ہوا۔ اس کا جسم ایک آدمی کا تھا لیکن چہرہ اور سر جنگلی بیل جیسا تھا۔ اس کی گرج نے پوری مملکت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ تقریباً ہر روز وہ کسی نہ کسی انسان کو پکڑ کر کھا جاتا تھا۔

    بادشاہ نے ڈیڈیلس سے کہا ’’اس عفریت کے ذمہ دار تم ہو۔ یہ میرا بیٹا ہے۔ میں اسے قتل نہیں کرواسکتا لیکن تم اپنی حکمت سے اس پر قابو پاسکتے ہو۔‘‘

    ’’میں اس کے لیے ایک ایسا محل بناؤں گا کہ وہ اس میں سے کبھی نکل نہیں سکے گا۔‘‘ ڈیڈیلس نے کہا۔

    چنانچہ ڈیڈیلس نے اپنے ماہر کاری گروں کو اکٹھا کیا اور کریٹ کے نوسوس شہر میں ایک محل بنانے کا آغاز کیا جس میں بے شمار کمرے اور اتنے چکر دار راستے تھے کہ جو بھی اس میں جاتا، اسے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔ اس کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد مینی تور کو اس محل میں داخل کردیا گیا۔ جلد ہی وہ محل کی بھول بھلیوں میں کھو گیا۔ لیکن اس کی خوف ناک گرج کی آواز دن رات سنی جا سکتی تھی۔ وہ اس بھول بھلیاں سے نکلنے کی بے کار کوششوں میں دن رات دندناتا پھرتا تھا۔

    اس کے بعد بادشاہ نے ڈیڈیلس کو طلب کیا۔ ’’تم نے اپنی مہارت سے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔ میں تمہار احترام کرتا ہوں لیکن تم نے مجھے اور میری بیوی کو دھوکہ دیا، اور اب تم ہمیشہ کے لیے میرے غلام رہو گے۔‘‘

    پھر بادشاہ نے شہر کے دروازوں پر محافظوں کا سخت پہرہ لگا دیا کہ ڈیڈیلس اور اس کے بیٹے اِیکروس کو شہر سے نکلنے نہ دیا جائے۔ بندرگاہ کی نگرانی بڑھا دی گئی۔ بادشاہ نے کریٹ جیسے عظیم جزیرے میں دنیا کے سب سے ماہر اور شان دار فن کار کو قیدی بنا لیا تھا۔ ڈیڈیلس ہمیشہ یہی سوچتا رہتا کہ وہ اپنی آزادی کیسے حاصل کرے۔

    ایک دن اس نے اپنے بیٹے ایکروس سے کہا کہ ’’میری اب تک کی تمام ایجادات دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے تھی۔ مگر اب میں اپنی خوشی کے لیے ایک نایاب چیز ایجاد کروں گا۔‘‘
    چنانچہ دن بھر وہ بادشاہ کے لیے کام کرتا اور رات میں اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کر کے موم بتی کی روشنی میں چھپ کر محنت کرتا رہتا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ عظیم فن کار اپنے لئے کیا بنارہا ہے۔

    دن اور سال گزرتے چلے گئے، اور ڈیڈیلس نے اپنے لیے پَروں کا ایک مضبوط جوڑا تیار کرلیا۔ یہ پَر کندھوں پر چڑھائے جاسکتے تھے۔ اس نے ایک جوڑا ایکروس کے لیے بھی بنایا تھا۔ آدھی رات کو جب کریٹ کے تمام لوگ سو رہے ہوتے تو ڈیڈیلس اور ایکروس پروں کو پہن کر پرواز کی مشق کرتے۔ ابتداء میں وہ زیادہ دور تک نہیں اڑان بھر پاتے تھے مگر انہیں اتنا یقین ہوگیا تھا کہ وہ ان پروں کی مدد سے لمبی پرواز کرسکتے ہیں۔ بس تھوڑی مشق کی ضرورت ہے۔ یہ مشق ہر رات کی جاتی۔ ایک صبح بادشاہ مائنوز کے بیدار ہونے سے پہلے ہی دونوں نے پَر پہنے اور ہوا میں چھلانگ لگا دی۔ لوگوں نے ڈیڈیلس اور ایکروس کو پرندوں کی طرح ہوا میں اڑتے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ان کی پرواز تیز تھی۔ مہینوں کی مشق رنگ لائی تھی۔ کوئی بھی انہیں نہیں روک سکا۔ وہ دونوں پرندوں کی طرح آرام سے اڑتے ہوئے سسلی کی طرف بڑھنے لگے جو وہاں سے سیکڑوں میل دور تھا۔

    کچھ دیر تک سب ٹھیک رہا۔ سمندر کی بپھرتی لہروں پر دو افراد جرأت مندی سے پرواز کررہے تھے۔ دوپہر ہوگئی اور سورج سر پر آگیا۔ ڈیڈیلس نے پیچھے پلٹ کر ایکروس کو دیکھا اور کہا ’’سورج کی تمازت بڑھ رہی ہے۔ سورج کے قریب مت جاؤ بلکہ لہروں سے تھوڑا اوپر پرواز کرو۔ جیسا میں کررہا ہوں، ویسا کرو۔ ‘‘ مگر نوجوان ایکروس کو اپنی پرواز پر ناز تھا۔ وہ بڑی مہارت سے اڑ رہا تھا۔ جب اس نے سورج کی طرف دیکھا تو اس نے سوچا کہ نیلے آسمان کی بلندی پر اڑنے میں بہت لطف آئے گا۔

    اس نے سوچا، ’’مجھے تھوڑا اور اوپر جانا چاہئے تاکہ میں دیکھ سکوں کہ سورج کہاں طلوع اور کہاں غروب ہوتا ہے۔ ‘‘ چنانچہ اس کی پرواز بلند ہوتی گئی۔ آگے اڑتے باپ ڈیڈیلس نے نہیں دیکھا کہ اس کا بیٹا پیچھے کیا کر رہا ہے۔ جوں جوں ایکروس سورج کے قریب جارہا تھا، اس کی تپش اسے اپنے چہرے پر محسوس ہورہی تھی۔ تبھی اسے احساس ہوا کہ وہ اُڑ نہیں پا رہا ہے بلکہ آہستہ آہستہ نیچے گر رہا ہے۔ چند لمحوں کے بعد اس نے اپنے آپ کو ہوا میں گرتا محسوس کیا۔ اس کے کندھوں سے پنکھ ڈھیلے ہوگئے تھے۔ اس نے چیخ کر باپ کو پکارا مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔

    ڈیڈیلس کو اس کی آواز سنائی دی تو اس نے پلٹ کر دیکھا اور اپنے بیٹے ایکروس کو لہروں میں گرتے اور پھر ڈوبتے دیکھا۔ یہ وہی منظر تھا جب اس نے برسوں پہلے اپنے بھتیجے پرڈکس کو سازش کر کے بلندی سے گرایا تھا۔ گہرے سمندر کی طاقتور لہروں نے ایکروس کو ڈبو دیا۔ ماہر اور عظیم کاری گر اپنے بیٹے کو سمندر کے غضب سے نہیں بچا سکا۔ وہ سوگوار اور نم آنکھوں سے لہروں کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے سسلی تک تنہا پرواز کی۔ ڈیڈیلس نے دن رات محنت کر کے پرندوں کے پَر جمع کئے تھے جنہیں گوند سے چپکا کر اس نے پرندوں جیسے بڑے بڑے پَر بنائے تھے۔ جب ایکروس کی پرواز بلند ہوئی تو سورج کی تپش سے گوند پگھلنے لگا اور ایک ایک کرکے سارے پَر گرنے لگے، اس طرح ایکروس سمندر میں ڈوب گیا۔

    سسلی کے لوگ بتاتے ہیں کہ ڈیڈیلس کئی سال تک زندہ رہا مگر اس نے کریٹ کی بھول بھلیاں اور پروں کے بعد کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں بنائی۔ جس سمندر میں ایکروس ڈوبا تھا، آج اسے ایکارین سمندر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    (ایک دل چسپ یونانی لوک کہانی جسے کئی مصنّفین نے اپنے انداز میں بیان کیا ہے اور اردو سمیت متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا جاچکا ہے)

  • گھڑ سوار(چین کی قدیم حکایت)

    گھڑ سوار(چین کی قدیم حکایت)

    ایک بوڑھے آدمی کا نام چُنگ لَنگ تھا، مطلب “چٹانوں کا ماہر”، اور اس کی پہاڑوں میں چھوٹی سی جائیداد تھی۔

    ایک روز اس کے گھوڑوں میں سے ایک گم ہو گیا۔ اس کے ہمسائے آئے اور اس کے ساتھ بدقسمتی کی وجہ سے پیش آنے والے اس واقعے پر افسوس کرنے لگے۔

    اس بوڑھے نے لیکن پوچھا، “تم نے یہ کیسے جانا کہ یہ بدقسمتی ہے؟” پھر چند روز بعد وہ گھوڑا واپس آ گیا اور اپنے ساتھ جنگلی گھوڑوں کی ایک بڑی ٹکڑی بھی لے آیا۔ ہمسائے پھر آ گئے اور اسے اتنی اچھی قسمت پر مبارک باد دینے لگے۔ اس پر پہاڑوں میں رہنے والے بوڑھے نے پھر پوچھا، “تم نے یہ کیسے جانا کہ یہ خوش قسمتی ہے۔”

    اب چونکہ گھوڑے کافی زیادہ ہو گئے تھے، تو بوڑھے آدمی کے بیٹے کو گھڑ سواری کا شوق ہوا۔ ایک دن اسی شوق کی تکمیل میں وہ اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھا۔ ہمسائے پھر آ گئے کہ اس بوڑھے سے افسوس کا اظہار کر سکیں۔ اس مرتبہ بھی اس نے ان سے یہی پوچھا، “تم نے یہ کیسے جانا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے؟”

    اگلے برس “ریاستی لٹھ برداروں” کا کمیشن پہاڑوں میں آیا تاکہ توانا مردوں کو بادشاہ کی پیدل فوج کے سپاہیوں اور شاہی پالکیاں اٹھانے والوں کے طور پر بھرتی کر کے ساتھ لے جا سکے۔ انہوں نے بوڑھے کے بیٹے کو، جس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ ابھی ٹھیک نہیں ہوئی تھی، اپنے ساتھ نہ لے جانے کا فیصلہ کیا۔ چُنگ لَنگ یہ دیکھ کر مسکرا دیا۔

    (ہَرمن ہَیسے کی ایک تصنیف سے ماخوذ، مترجم مقبول ملک)

  • تین گڑیاں (لوک کہانی)

    تین گڑیاں (لوک کہانی)

    فارس کا سلطان بڑا دانا مشہور تھا۔ اسے مسئلے سلجھانے کرنے، پہلیاں بوجھنے اور معمّے حل کرنے کا بھی شوق تھا۔ ایک دن اسے کسی کا بھیجا ہوا تحفہ ملا۔ بھیجنے والا سلطان کے لیے اجنبی تھا۔

    سلطان نے تحفے کو کھولا، اُس میں سے ایک ڈبہ نکلا۔ ڈبے کے اندر لکڑی کی تین خوبصورت گڑیاں نظر آئیں جنہیں بڑے سلیقے سے تراشا گیا تھا۔ اس نے ایک ایک کر کے تینوں گڑیوں کو اٹھایا اور ہر ایک کی کاری گری کی خوب تعریف کی۔ اس کا دھیان ڈبہ پر گیا جہاں ایک جملہ تحریر تھا: ’’ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتائیے۔‘‘

    ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتانا سلطان کے لیے ایک چیلنج بن گیا۔ اس نے پہلی گڑیا کو اٹھایا اور اس کا مشاہدہ کرنے لگا۔ گڑیا کا چہرہ خوبصورت تھا اور وہ ریشم کے چمکیلے کپڑوں میں ملبوس تھی۔ پھر اس نے دوسری گڑیا کو اٹھایا۔ وہ بھی پہلی گڑیا جیسی ہی تھی اور تیسری بھی ویسی ہی تھی۔ پھر سلطان نے گڑیا کا نئے سرے سے مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ وہ سب ظاہراََ یکساں تھیں لیکن سلطان نے سوچا شاید تینوں میں سے آنے والی بُو مختلف ہو۔ چنانچہ اس نے تینوں گڑیوں کو باری باری سونگھ کر دیکھا۔ تینوں میں سے صندل کی خوشبو آرہی تھی جس سے اس کا سانس معطّر ہوگیا۔ صندل کی لکڑی سے انھیں بڑی نفاست سے بنایا گیا تھا۔

    سلطان نے سوچا شاید یہ اندر سے کھوکھلی ہوں۔ انھیں کان کے پاس لے جا کر ہلانا شروع کیا لیکن تینوں گڑیاں ٹھوس تھیں اور تینوں ہم وزن بھی تھیں۔ سلطان نے دربار بلایا۔ دربار میں سلطان بڑا ہی متذبذب نظر آرہا تھا۔ لوگ اسے دیکھ کر حیران تھے۔ اس نے دربار کے سامنے اعلان کیا کہ جو تم میں سے جو دانا ہو وہ آگے آئے۔ جس نے زندگی بھر کتابیں‌ پڑھی ہوں وہ بھی آگے آئے۔ ایک اسکالر اور ایک قصّہ گو سلطان کے حکم پر سامنے آئے۔

    سب سے پہلے اسکالر نے گڑیوں کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ اس نے انھیں سونگھا، ان کا وزن کیا اور انھیں ہلایا اور کچھ فرق معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی طور بھی کوئی فرق نہ پاسکا۔ وہ دروازے کے پاس گیا اور الگ الگ زاویوں سے انھیں دیکھنا شروع کیا۔ پھر اس نے گڑیوں کو ہاتھ میں اٹھایا اور ان پر جادو ٹونے کی طرح ہاتھ ہلانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اکتا گیا اور گڑیوں کو میز پر رکھ کر وہاں سے ہٹ گیا اور اپنی ناکامی کا اعتراف کیا۔

    اب سلطان نے قصّہ گو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’کیا تم گڑیوں کے درمیان کوئی فرق شناخت کر سکتے ہو!‘‘ قصّہ گو نے پہلی گڑیا اٹھائی اور بڑی احتیاط سے اس گڑیا کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ پھر اچانک اسے نہ جانے کیا خیال آیا۔ وہ آگے کی طرف بڑھا اور سلطان کی داڑھی کا ایک بال نوچ لیا۔ اس بال کو اس نے گڑیا کے کان میں ڈالا۔ وہ بال گڑیا کے کان میں چلا گیا اور غائب ہو گیا۔ قصّہ گو نے کہا، ’’ یہ گڑیا اس اسکالر کی طرح ہے جو سب کچھ سنتا ہے اور اپنے اندر رکھ لیتا ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ سلطان اسے روکتا پھر قصّہ گو نے آگے بڑھ کر بڑی جرأت کی اور اس کی داڑھی کا دوسرا بال نوچ لیا۔ سلطان کچھ نہ بولا۔ اس پر تو گڑیوں کا راز جاننے کا بھوت سوار تھا۔ اس نے دوسری گڑیا کے کان میں بال ڈالا۔ دھیرے دھیرے بال اس کے کان میں چلا گیا اور دوسرے کان سے نکلا۔سلطان یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔

    اب قصّہ گو نے کہا ’’یہ گڑیا احمق جیسی ہے جو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔‘‘ اس سے پہلے کہ سلطان اسے روک پاتا اس نے سلطان کی ٹھوڑی سے تیسرا بال توڑ لیا۔ پھر اس نے داڑھی کے بال کو تیسری گڑیا کے کان میں ڈالا۔ بال اندر چلا گیا۔سلطان غور سے دیکھنے لگا کہ اس بار بال کا دوسرا سرا کہاں سے باہر آئے گا۔ بال گڑیا کے منھ سے باہر آیا۔ لیکن جب بال باہر آیا تو وہ کافی مڑا ہو اتھا۔

    اب قصّہ گو نے کہا، ’’یہ گڑیا قصّہ گو کی طرح ہے۔ وہ جو کچھ سنتا ہے اسے وہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ سنا دیتا ہے۔ ہر قصّہ گو کہانی میں تھوڑی سی تبدیلی اس لیے کرتا ہے تا کہ وہ اس کا اپنا شاہکار لگے۔‘

    (فارسی ادب سے انتخاب)

  • شوربے کا پتھر (لوک کہانی)

    شوربے کا پتھر (لوک کہانی)

    ‎ایک فوجی لڑائی کے میدان سے چھٹی لے کر اپنے گھر واپس جا رہا تھا۔ راستے میں وہ ایک گاؤں کے قریب سے گزرا۔ ‎ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، جب کہ سپاہی شدید بھوکا تھا۔

    وہ گاؤں کے سرے پر ایک مکان کے سامنے رک گیا اور کچھ کھانے کے لیے مانگا۔ گھر والوں نے کہا کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے، لہٰذا وہ آگے بڑھ گیا۔

    وہ دوسرے گھر پر رُکا اور وہی سوال دہرایا۔ یہاں بھی گھر والوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے، اگر ذرا ٹھہر کر آؤ تو شاید کوئی انتظام ہو جائے۔

    ‎تب سپاہی نے سوال کیا ”تمھارے پاس ہنڈیا تو موجود ہے؟“ ‎گھر والوں نے کہا، ”بے شک! ہمارے پاس ہنڈیا موجود ہے۔“

    ‎پھر اس نے معلوم کیا ”تمھارے ہاں پانی بھی ہو گا۔“

    ”ہاں، پانی جتنا چاہو لے لو۔“ اسے جواب ملا۔ ‎سپاہی بولا، ”ہنڈیا کو پانی سے بھرو اور چولھے پر چڑھا دو۔ میرے پاس شوربہ تیار کرنے کا پتھر موجود ہے۔ بس ابھی کام بن جائے گا۔“

    ‎”کیا کہا؟“ ان میں سے ایک شخص نے تعجب سے پوچھا ”شوربہ بنانے کا پتھر! وہ کیا چیز ہے؟“

    ‎”بس ایک خاص قسم کا پتھر ہے، جسے پانی میں ڈال لینے سے مزے دار شوربہ تیار ہوجاتا ہے۔“

    ‎وہ سب لوگ، اس عجیب و غریب چیز کو دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے۔ گھر کی مالکہ نے ایک بڑی ہنڈیا کو پانی سے بھرا۔ وہ عام سا پتھر تھا جیسے اکثر سڑکوں پر اِدھر اُدھر پڑے نظر آتے ہیں۔ وہ پتھر اس نے ہنڈیا میں ڈال دیا اور کہا ”بس اب اسے اُبلنے دو۔ پھر دیکھو کہ کیا بنتا ہے۔“ ‎لہٰذا وہ سب چولھے کے آس پاس بیٹھ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب پانی گرم ہوکر ابلنے لگتا ہے اور کیسا شوربہ تیار ہوتا ہے۔

    ‎سپاہی نے کہا ”تمھارے پاس نمک تو ضرور ہوگا۔ مٹھی بھر نمک اس میں ڈال دو۔“

    ‎عورت نے کہا ”بہت اچھا۔“ اور یہ کہہ کر وہ نمک کا ڈبہ اٹھا لائی۔ سپاہی نے خود ہی ایک مٹھی بھر کر نمک پانی میں ڈال دیا۔ پھر سب لوگ انتظار کرنے لگے۔ ‎پھر سپاہی نے کہا ”اگر چند گاجریں ہوں تو شوربے کا ذائقہ اچھا ہو جائے گا۔“

    ‎”ہاں۔“ عورت بولی۔ ”گاجریں تو ہمارے ہی کھیت میں اگتی ہیں۔“ اور یہ کہہ کر اس نے چند گاجریں ٹوکری میں سے نکالیں۔ دراصل سپاہی نے ترکاریوں سے بھری ہوئی ٹوکری دیکھ لی تھی جس میں گاجریں بھی رکھی ہوئی تھیں۔
    ‎پانی میں گاجریں ڈال دینے کے بعد سپاہی نے اپنی بہادری کے قصّے بیان کرنے شروع کیے اور ایک دم رک کر پوچھا ”تمھارے پاس آلو بھی تو ہوں گے؟“

    ‎گھر کی مالکہ بولی ”ہاں! آلو بھی ہیں۔“ تو پھر اس میں ڈال دو شوربہ تھوڑا گاڑھا ہو جائے گا۔ ‎عورت نے آلو چھیل کر ہنڈیا میں ڈال دیے۔ ‎سپاہی نے کہا ”اگر ذائقے کو زیادہ لطیف بنانا ہو تو پیاز بھی کتر کر ملا دو۔“

    ‎کسان نے اپنے چھوٹے لڑکے سے کہا ”بیٹا! ذرا پڑوسی کے گھر جاؤ اور تھوڑی سی پیاز مانگ لاؤ۔ وہ بھی کبھی کبھی ہمارے گھر سے لے لیتے ہیں۔“ بچّہ بھاگ کر پڑوسی کے گھر گیا اور پیاز مانگ لایا۔ پس اُنہوں نے پیاز چھیلی اور کتر کر پانی میں ڈال دی۔ ‎پھر کچھ لطیفے سنائے گئے۔ انتظار کا وقت گزرتا ہوا محسوس نہیں ہوا تو سپاہی نے بڑی حسرت سے کہا، ”لڑائی کے میدان میں کرم کلہ نہیں ملتا۔ اپنے وطن سے روانہ ہونے کے بعد سے اب تک میں نے کرم کلے کی شکل بھی نہیں دیکھی۔“

    ‎”ارے منّے“ گھر کی مالکہ نے اپنے لڑکے سے کہا ”بھاگ کر کھیت میں جاؤ۔ دو چار ابھی باقی ہیں۔ ایک کرم کلہ لے آؤ۔“

    ‎”بس اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔“ سپاہی نے اطمینان دلایا اور واقعی ہنڈیا میں سے خوب بھاپ اٹھنے لگی۔ ‎عین اسی وقت کسان کا بڑا بیٹا شکار پر سے واپس آیا۔ وہ ایک خرگوش مار کر ساتھ لایا تھا۔ سپاہی نے خوش ہو کر کہا ”واہ واہ! کیا کہنے، یہ تو سونے پر سہاگے کا کام دے گا۔ بہت اچھے موقع پر آیا ہے۔“

    ‎نوجوان شکاری نے ہنڈیا کی طرف دیکھ کر ناک کو حرکت دی اور سر کھجا کر کہا ”معلوم ہوتا ہے کہ مزیدار شوربہ تیار ہو رہا ہے۔“

    ‎”ہاں! اس کی ماں نے فوراً اسے آگاہ کیا۔ اس سپاہی کے پاس ایک عجیب و غریب پتھر تھا۔ ہم اُسے ابال کر شوربہ بنا رہے ہیں۔ تم اچھے موقع پر آئے ہو۔ ایک پیالہ تم بھی پی لو گے۔“

    ‎اس دوران میں جلدی جلدی خرگوش کی کھال اتار کر اور اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکٹر ے کر کے فوراً ہنڈیا میں ڈال دیے۔ کچھ دیر بعد ہنڈیا سنسانے لگی اور پھر تیزی سے بھاپ نکلنے لگی۔ اور جب شکاری لڑکا اپنے کپڑے بدل کر اور ہاتھ منہ دھو کر واپس آیا تو شوربہ تیار ہوگیا تھا۔ سارے گھر میں اس کی خوشبو پھیل رہی تھی۔

    ‎وہ شوربہ سب گھر والوں کے لئے کافی تھا کیونکہ ہنڈیا اوپر تک بھری ہوئی تھی۔ سپاہی، کسان، اس کی بیوی، بڑا لڑکا، لڑکی، چھوٹا لڑکا اور لڑکی۔ سب پیالے بھر کر بیٹھ گئے۔ سب سے پہلے کسان نے شوربے سے چسکی لی۔ اُس نے خوش ہو کر کہا”بھئی واقعی! بہت مزے دار ہے، ایسا شوربہ تو ہم نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں پیا۔“

    ‎بیوی نے بھی ایک گھونٹ پی کر ہاں میں ہاں ملائی اور کہا ”یہ عجیب قسم کا پتھر ہے۔ شوربہ کتنا مزے دار ہوگیا ہے۔ ہم اس کا ذائقہ کبھی نہیں بھولیں گے۔“

    ‎سپاہی بولا ”کمال کی بات ہے، یہ پتّھر کبھی گھل کر ختم نہیں ہوتا۔ آج والی ترکیب پر جب بھی عمل کیا جائے گا تو اتنا ہی خوش ذائقہ شوربہ تیار ہوسکتا ہے۔

    اپنا حصّہ ختم کر لینے کے بعد سپاہی نے رخصت چاہی اور خدا حافظ کہتے ہوئے اس نے شوربے کا پتھر گھر کی مالکہ ہی کو تحفے کے طور پر دے دیا اور کہا ”یہ تمھاری مہمان نوازی کا صلہ ہے۔ اسے اپنے پاس ہی رکھو اور جب بھی چاہو اسی ترکیب سے شوربہ تیار کر لیا کرو۔“

    ‎تازہ دَم ہو کر سپاہی نے اپنی راہ لی۔ خوش قسمتی سے تھوڑے سے فاصلے پر ویسا ہی ایک اور پتّھر سڑک پر پڑا ہوا مل گیا۔ سپاہی نے اٹھا کر اپنے جھولے میں رکھ لیا کہ شاید گھر پہنچنے سے پہلے کسی اور گاؤں میں وہ کام آجائے اور اس کی بہ دولت مزے دار شوربہ نصیب ہوجائے۔

    (بیلجیئم کی ایک لوک کہانی کا اردو ترجمہ)

  • انار اور مچھلی (ایران کی لوک کہانی)

    انار اور مچھلی (ایران کی لوک کہانی)

    ایک ندی تھی اور اس کے کنارے انار کا ایک درخت۔ درخت پر کچھ انار لگے ہوئے تھے اور ندی میں کچھ مچھلیاں بھی دُمیں ہلاتی رہتی تھیں۔

    زمین کے نیچے سے درخت کی جڑیں ندی میں پاؤں پھیلانے لگی تھیں۔ مچھلیوں نے کئی بار اناروں سے کہا تھا کہ ہمارے گھر میں ٹانگیں نہ پھیلائیے لیکن انہوں نے سنی ان سنی کر دی تھی۔ مچھلیوں نے طے کر لیا کہ درخت کی جڑیں چبا ڈالی جائیں۔ مچھلیوں نے جڑیں چبانا شروع کر دیا۔

    اناروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ اب کی بار مچھلیوں نے سنی ان سنی کر دی۔ اناروں نے سخت دھمکیاں دیں۔ مچھلیوں نے کہا: جو کرنا ہے، کر لیجیے۔ اناروں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا اور ان میں سے ایک انار نے خود کو ایک مچھلی پر گرا لیا۔ مچھلی کا سر پھٹ گیا۔ خون بہنے لگا۔ ساری ندی سرخ ہو گئی۔

    مچھلیوں نے انار کو پکڑ کے باندھ لیا۔ اناروں نے احتجاج کیا کہ تمہیں ہمارے ساتھی کو گرفتار کر لینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ آخر ہم ایک ملک میں رہتے ہیں، جس کا کوئی قانون ہے، قاضی ہے۔ ایک مچھلی نے کہا: تمہیں کس نے حق دیا تھا کہ ہمارے گھر میں ٹانگیں پھیلاؤ؟ ایک انار کہنے لگا: پانی صرف تمہارا تھوڑی ہے؟ ہمارا بھی تو ہے۔ یہ ندی تمہاری پیدائش سے پہلے کی موجود ہے اور ہم بھی اسی وقت سے موجود ہیں۔ مچھلیاں کہتی رہیں کہ تم اناروں نے زیادتی کی ہے۔ تم نے ہماری ساتھی بے چاری کا سر پھوڑ دیا ہے۔

    بات کسی طرف نہ لگی اور ان میں تُو تکار بڑھ گئی۔ آخر کار قاضی کے پاس پیش ہونا طے پایا۔ سر پھٹی مچھلی اور ہاتھ بندھا انار قاضی کے ہاں جا پہنچے۔ قاضی کے پاس کئی اور مدعی اور ملزم بھی جمع تھے۔ انہیں دیکھتے ہی قاضی کی رال ٹپکنے لگی اور اس نے کہا: آئیے آئیے، کہیے کیا مسئلہ ہے؟ دونوں نے اسے ماجرا کہہ سنایا۔ قاضی نے کہا : آپ ذرا انتظار کر لیجیے، میں پہلے دوسروں کے معاملے نمٹا لوں۔

    انار اور ننھی مچھلی ایک کونے میں کھڑے ہو کر لگے انتظار کرنے۔ قاضی کام ختم کر کے ان کے پاس آیا۔ اس نے دونوں کے منہ ماتھے پر ہاتھ پھیرا۔ بہت دلاسا دیا اور پھر اپنی بیوی کو آواز دے کر کہا: بیگم! توے پر خوب گھی ڈال کر چولھے پر چڑھا دو، دوپہر کو ہم مچھلی کھائیں گے۔ اور ہاں سنو! یہ انار بھی لے جاؤ، اس کا رس مچھلی پر چھڑکیں گے تو اور ہی مزہ آئے گا۔ انار اور مچھلی کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کھسر پھسر کی کہ دیکھو تو ہم کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ انہوں نے قاضی کی بیگم کی بہتیری منت سماجت کی کہ ہمیں ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہیں، ہمیں جانے دیجیے مگر بیگم نے کہا: فیصلہ تو قاضی ہی کا چلتا ہے۔ مجھے تو اس پر عمل کرنا ہے اور بس۔ یہ کہہ کر اس نے مچھلی کی کھال اتاری اور اسے توے پر چڑھا دیا۔ مچھلی بے چاری تڑپتی پھڑکتی رہی۔ پھر اس نے انار کو پکڑ کر اس کا رس نکالا اور تلی ہوئی مچھلی پر چھڑک دیا۔ قاضی اور اس کے بیوی بچوں نے خوب ڈٹ کر کھانا کھایا۔

    خبر اناروں اور مچھلیوں تک بھی پہنچ گئی۔ وہ دکھ اور درد میں ڈوب گئے اور انہوں نے دونوں کا سوگ منایا۔ سوگ کے دنوں ہی میں وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ قاضی اگر باہر کا ہوا تو ان کے لیے کبھی کچھ نہیں کرے گا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے معاہدہ کر لیا کہ ایک دوسرے کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کیا کریں گے۔

    (کتاب سفید پرندہ سے منتخب کردہ کہانی)

  • خدا سب کا ایک ہے!

    خدا سب کا ایک ہے!

    پیرس میں ابراہیم نام کا ایک آدمی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ وہ ایک معمولی اوقات کا عیال دار تھا۔ مگر تھا بہت ایمان دار اور سخی۔

    اس کا گھر شہر سے دس میل دور تھا۔ اس کی جھونپڑی کے پاس سے ایک پتلی سی سڑک جاتی تھی۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو مسافر اسی سڑک سے آتے جاتے تھے۔

    رستے میں آرام کرنے کے لئے اور کوئی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو ابراہیم کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا تھا۔ ابراہیم ان کی مناسب خاطر داری کرتا۔ مسافر ہاتھ منہ دھو کر جب ابراہیم کے گھر والوں کے ساتھ کھانے بیٹھتے تو کھانے سے پہلے ابراہیم ایک چھوٹی سی دعا پڑھتا اور خدا کا اس کی مہربانی کے لئے شکریہ ادا کرتا۔ بعد میں باقی سب آدمی بھی اس دعا کو دہراتے۔

    مسافروں کی خدمت کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ لیکن سب کے دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔ زمانے کے پھیر میں پڑ کر ابراہیم غریب ہو گیا۔ اس پر بھی اس نے مسافروں کو کھانا دینا بند نہ کیا۔ وہ اور اس کے بیوی بچّے دن میں ایک بار کھانا کھاتے اورایک وقت کا کھانا بچا کر مسافروں کے لئے رکھ دیتے تھے۔ اس سخاوت سے ابراہیم کو بہت اطمینان ہوتا، لیکن ساتھ ساتھ ہی اسے کچھ غرور ہو گیا اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ میں بہت بڑا ایمان دار ہوں اور میرا ایمان ہی سب سے اونچا ہے۔

    ایک دن دوپہر کو اس کے دروازے پر ایک تھکا ماندہ بوڑھا آیا۔ وہ بہت ہی کمزور تھا۔ اس کی کمر کمان کی طرح جھک گئی تھی اور کمزوری کے باعث اس کے قدم بھی سیدھے نہیں پڑرہے تھے۔ اس نے ابراہیم کا دروازہ کھٹکھٹایا، ابراہیم اسے اندر لے گیا اور آگ کے پاس جا کر بیٹھا دیا۔ کچھ دیرآرام کر کے بوڑھا بولا۔ ’’بیٹا میں بہت دور سے آ رہا ہوں۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ابراہیم نے جلدی سے کھانا تیار کروایا اور جب کھانے کا وقت ہوا تو اپنے قاعدے کے مطابق ابراہیم نے دعا کی۔ اس دعا کو اس کے بیوی بچوں نے اس کے پیچھے کھڑے ہوکر دہرایا۔ابراہیم نے دیکھا وہ بوڑھا چپ چاپ بیٹھا ہے۔ اس پر اس نے بوڑھے سے پوچھا۔’’کیا تم ہمارے مذہب میں یقین نہیں رکھتے؟ تم نے ہمارے ساتھ دعا کیوں نہیں کی۔ ‘‘

    بوڑھا بولا۔ ’’ہم لوگ آ گ کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘ اتنا سن کر ابراہیم غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اس نے کہا۔

    ’’اگر تم ہمارے خدا میں یقین نہیں رکھتے اور ہمارے ساتھ دعا بھی نہیں کرتے تو اسی وقت ہمارے گھر سے باہر نکل جاؤ۔‘‘

    ابراہیم نے اسے کھانا دیئے بغیر ہی گھر سے باہر نکال دیا اور دروازہ بند کرلیا۔ مگر دروازہ بند کرتے ہی کمرے میں اچانک روشنی پھیل گئی اورایک فرشتے نے ظاہر ہو کر کہا۔ ابراہیم یہ تم نے کیا کیا ؟ یہ غریب بوڑھا سو سال کا ہے، خدا نے اتنی عمر تک اس کی دیکھ بھال کی اور ایک تم ہو جو اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھتے ہو اس پر بھی اسے ایک دن کھانا نہیں دے سکے، صرف اس لئے کہ اس کا مذہب تمہارے مذہب سے الگ ہے۔ دنیا میں مذہب چاہے بے شمار ہوں۔ لیکن خدا سب کا سچا خالق ہے اور سب کا وہی ایک مالک ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر فرشتہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ابراہیم کو اپنی غلطی معلوم ہوئی اور وہ بھاگا بھاگا اس بوڑھے کے پاس پہنچا اور اس بوڑھے بزرگ سے معافی مانگی۔ بوڑھے نے اسے معاف کرتے ہوئے کہا۔’بیٹا اب تو تم سمجھ گئے ہوگے کہ خدا سب کا ایک ہے۔‘‘

    یہ سن کر ابراہیم کو بہت تعجب ہوا کیونکہ یہی بات اس سے فرشتے نے بھی کہی تھی۔

    (فرانس کی ایک لوک کہانی جسے اردو میں نیرا سکسینہ نے ڈھالا)

  • قسمت کی ماری (لوک داستان)

    ایک بادشاہ تھا۔ تھا تو منصف اور عادل پر اس میں ایک عادت بد تھی۔ اسے بیٹی سے بہت نفرت تھی۔

    اللہ کی قدرت کہ اس کے ہاں پہلے بیٹا پیدا ہوا۔ اسے اپنا بیٹا بہت عزیز تھا۔ بہت ناز و نعم اور لاڈ پیار سے اس کی پرورش ہو رہی تھی۔ چند سال بعد ملکہ پھر امید سے ہوئی۔ ولادت کے دن قریب تھے۔ لیکن بادشاہ سلامت کو کسی دوسرے بادشاہ کی دعوت پر ملک سے باہر جانا پڑا۔ جانے سے پہلے بادشاہ نے ملکہ کو حکم دیا کہ میں کہیں باہر جا رہا ہوں، اگر میرے آنے سے پہلے ولادت ہوئی، لڑکا ہوا تو ٹھیک لیکن اگر لڑکی ہوئی تو اسے ہلاک کر دینا۔

    بادشاہ چلا گیا۔ چند ہفتے بعد اس کے ہاں لڑکی کی ولادت ہوئی۔ اولاد ماں کو بہت پیاری ہوتی ہے۔ ملکہ رونے لگی کہ اے اللہ! اب میں کیا کروں؟ ولادت کے وقت ایک دائی موجود تھی جو ملکہ کی حالت زار دیکھ رہی تھی۔ اللہ نے اس کے دل میں رحم پیدا کیا۔ اس نے ملکہ سے کہا۔ "اے ملکہ! آپ دل چھوٹا مت کیجیے۔ میں یہاں سے سب کے سامنے بچّی کو ہلاک کرنے کے بہانے لے جاؤں گی۔ پر میں یہاں سے اسے اپنے گھر میں لے جا کر پالوں گی۔ اگر آپ کسی طرح سے بچّی کے لیے خرچ وغیرہ بھیجتی رہیں گی تو آپ کی بچّی خوش حال اور آسودہ ہو گی، وگرنہ مجھ غریب کو جو نصیب ہوگی، اس سے اسے بھی پالنے کی کوشش کروں گی۔” ملکہ نے کچھ سونا چاندی، زیور وغیرہ بچّی کے واسطے تھما دیے۔ بچّی کو اس کے حوالے کیا۔ محل میں یہ بات پھیلائی گئی کہ دائی نے بچّی کو لے جا کر ہلاک کر دیا ہے۔ جب کہ دائی نے شہزادی کو اپنے گھر لا کر پورے ناز و نعم سے اس کی پرورش شروع کر دی۔

    جب بادشاہ سفر سے واپس آیا تو اسے یہی احوال سنایا گیا۔ بادشاہ اپنی بد عادتی کے باعث خوش ہوا۔ ادھر دائی نے لوگوں کے سامنے شہزادی کو اپنی نواسی ظاہر کیا۔ کبھی کبھار بادشاہ سے چھپ چھپا کے شہزادی کو لاتی اور اپنی بیٹی کو دیکھ کر ملکہ کی مامتا کو کچھ قرار ملتا اور وہ دائی کو سونا چاندی اپنے بیٹی کی نگہداشت کے واسطے دے دیا کرتی۔ چوں کہ شہزادی کی پرورش اچھے طریقے سے ہو رہی تھی۔ اس لیے خوب قد کاٹھ نکالا۔ خوب صورت تھی ہی اس لیے جوان ہوتے ہی دنیا کے سامنے شہزادی نہ ہوتے ہوئے بھی شہزادیوں کی طرح نظر آنے لگی۔

    ایک دن بادشاہ کی سواری شہر سے گزر رہی تھی۔ اسی وقت شہزادی اور دائی بھی اسی راستے سے گزر رہی تھی۔ بادشاہ کی نظر شہزادی پر پڑی۔ پوچھا "یہ کون ہے؟” وزیر نے کہا "یہ اس بیچاری عورت کی نواسی ہے۔” بادشاہ نے حکم دیا "مجھے یہ بہت پسند آئی ہے۔ کل اس کے گھر میرے لیے رشتہ لے کر جانا۔” دوسرے دن وزیر، وکیل وغیرہ دائی کے گھر بادشاہ کے لیے اس کی نواسی کا ہاتھ مانگنے گئے۔ اب دائی کے اوسان خطا ہو گئے کہ کیا کروں؟ اس نے کہا "میں ایک غریب ہوں۔ میری نواسی بادشاہ کے لائق نہیں اور نہ ہی بادشاہ کا کسی غریب سے رشتہ جوڑنا صحیح ہے۔ اس لیے دوبارہ اس سلسلے میں میرے گھر مت آئیے گا۔” سب نے دائی کو بہت منت سماجت کی، لالچ، دھونس دھمکی دی، لیکن دائی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ تب بادشاہ نے حکم دیا کہ دائی کو پکڑ کے خوب سزا دو تاکہ وہ رشتے کے لیے مان جائے۔

    سپاہی دائی کو پکڑ کر بادشاہ کے سامنے لائے اور انہوں نے اسے خوب پیٹنا شروع کیا۔ سپاہیوں نے دائی کو کپڑے کی طرح نچوڑ کے رکھ دیا۔ بیچاری پہلے سے ہی دو ہڈیوں پر تھی، اتنی مار برداشت نہ کرسکی اور بادشاہ کے سامنے چیخ پڑی۔” بادشاہ سلامت! یہ کوئی اور نہیں بلکہ آپ کی بیٹی ہے۔ میں نے اسے ہلاک کرنے کے بجائے لے جا کر اپنے گھر میں اس کی پرورش کی ہے۔”

    اب بادشاہ کو احساس ہوا کہ وہ کیا غلطی کرنے جا رہا تھا۔ خدا نے اسے گناہِ عظیم سے بچایا۔ وہ اور زیادہ غصّے میں آگیا۔ اپنے بیٹے یعنی شہزادے کو بلا کر حکم دیا کہ اپنی بہن کو جنگل میں لے جا کر قتل کر دے اور اس کی آنکھیں نکال کر اور گردن کا خون لا کر مجھے دکھا دے تاکہ مجھے یقین ہو جائے۔”

    شہزادہ کو کسی صورت یہ گوارہ نہ ہوا اگرچہ اسے اپنی بہن کے متعلق اب معلوم ہوا تھا۔ لیکن اسے پتا تھا کہ اس نے اسے قتل نہیں کیا تو بادشاہ دونوں کو ہلاک کر دے گا۔ مجبور ہو کر اپنی بہن کو ساتھ لے کر جنگل کی طرف چل پڑا۔ جب دونوں جنگل پہنچ گئے تو بھائی کی محبت بہن کے لیے جوش میں آ گئی۔ بہن سے کہا کہ "میں تمہیں یہیں چھوڑے دیتا ہوں آگے تمہاری قسمت کہ تمہیں درندے کھا جائیں یا تم بچ کر کہیں اور نکل جاؤ۔” دونوں بھائی بہن ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو پڑے۔ شہزادی آنسو بہاتے ہوئے گھنے جنگل کی طرف جانے لگی۔ آخری بار پلٹ کر بھائی کو دیکھا اور جنگل میں گھس گئی۔

    اس کے بعد شہزادے نے ادھر ادھر سے ڈھونڈ کر ایک ہرن کا شکار کیا۔ اس کی گردن کا خون نکالا اور آنکھیں نکال کر لے جا کر بادشاہ کو دکھا دیں۔ بادشاہ نے آئینہ منگوایا۔ اس میں ان آنکھوں کو اور اپنی آنکھوں کو غور سے دیکھا۔ جب اس کو یقین ہو گیا کہ آنکھوں کا رنگ ایک ہی ہے تب اسے تسلی ہوئی۔

    ملکہ نے کسی طور شہزادے کو بلا کر اس سے بیٹی کے متعلق پوچھا۔ شہزادے نے ماں کے سامنے سارا احوال گوش گزار کر دیا۔ ملکہ نے منہ آسمان کی طرف کر کے ہاتھ اوپر اٹھائے اور بیٹی کے لیے دعا مانگی کہ اے اللہ! تو میری بیٹی کی حفاظت کر۔ اسے اپنے امان میں رکھ اور اسے کسی اچھی جگہ پار لگا۔”

    اب آگے شہزادی کا قصہ سنیے۔ شہزادی جنگل میں رہنے لگی اور بھوک مٹانے کے لیے جنگلی پھل، پھول، بوٹے کھا کر اپنا وقت گزارنے لگی۔ اس دوران بہت سا وقت گزر گیا۔ ایک دن کسی اور ملک کا بادشاہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسی جنگل سے گزر رہا تھا۔ شہزادی کے کانوں میں کسی گھوڑے کے قدموں کی آہٹ پڑی تو جلدی جلدی کسی گھنے درخت پہ چڑھ گئی، اتفاقاً بادشاہ بھی آ کے اسی درخت کے نیچے ٹھہر گیا۔ درخت گھنا اور سایہ دار تھا۔ ایک طرف اپنے گھوڑے کو باندھا، اور درخت کے سائے میں کپڑا بچھا کر تھوڑی دیر سستانے کی خاطر لیٹ گیا۔ چونکہ اس کا منہ آسمان کی طرف تھا اور وہ اپنے خیالوں میں گم تھا، اس کی نظر درخت کے گھنے پتّوں میں پوشیدہ کسی ہیئت پر پڑی۔ وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور بلند آواز سے کہنے لگا، تم جو بھی ہو، اپنے آپ کو ظاہر کرو۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔”

    اس پر شہزادی نے کہا۔” اے مسافر ! میں ایک لاچار لڑکی ہوں۔ اور کسی نہ کسی طریقے سے درخت سے اتر گئی۔ جب بادشاہ نے شہزادی کو دیکھا تو پورے دل و جان سے فریفتہ ہو گیا۔ جھٹ شہزادی سے کہا۔” میں ایک بادشاہ ہوں۔ اگر تم برا نہ مانو تو میں تم سے شادی کر کے تمہیں اپنی ملکہ بنانا چاہتا ہوں۔” اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ شہزادی نے ہامی بھری۔ وہ بھی ایک ایسا بندہ چاہتی تھی جو اسے عزّت دے۔ بادشاہ خوشی خوشی شہزادی کو لے کر اپنے ملک روانہ ہو گیا۔ اپنے ملک پہنچتے ہی بادشاہ پہلے وزیر کے گھر جا پہنچا اور اس سے کہا۔ "ایسا سمجھو کہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔ میں کل رشتہ مانگنے آؤں گا۔ اور شادی بیاہ رچا کر اپنی امانت یہاں سے اپنے محل لے جاؤں گا۔” وزیر نے آداب بجا کر کہا۔” بادشاہ سلامت، آپ پوری طرح سے تسلی رکھیے۔ یہ آپ کی امانت ہے اور میری بیٹی۔ جب آپ کا دل چاہے، اسے بیاہ کر لے جائیے۔” بادشاہ شہزادی کو وزیر کے گھر چھوڑ آیا۔

    اگلے دن وکیل، قاضی بادشاہ کا رشتہ لے کر وزیر کے گھر آ پہنچے۔ وزیر نے رشتہ کے لیے ہاں کر دی۔ جلد ہی شہزادی کو بیاہ کر اپنے محل لایا۔ بادشاہ اور شہزادی شادی سے بہت خوش تھے۔

    اس دوران بادشاہ نے شہزادی سے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھا تھا۔ چند سال بعد اس کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ بادشاہ بہت خوش تھا۔ اس نے شہزادی سے جو اب ملکہ بن گئی تھی، پوچھا۔” اب جب کہ اللہ نے ہم دونوں کو اولادِ نرینہ سے نوازا ہے، تم اب ایک بیٹے کی ماں بن گئی ہو، مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو؟ کسی کی بیٹی ہو؟ اور کس جگہ سے تمہارا تعلق ہے؟”
    شہزادی نے کسی طریقے سے بادشاہ کو ٹال دیا۔ ماہ و سال گزرتے چلے گئے۔ بادشاہ کے ہاں دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی۔ بادشاہ نے وہی سوال دہرایا۔ شہزادی نے پھر بادشاہ کو ٹال دیا۔ آخرکار ان کے ہاں جب تیسرے بیٹے کی ولادت ہوئی تو اس موقع پر بادشاہ نے شہزادی کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا۔ آخر کار شہزادی مان گئی اور بادشاہ کو حقیقت بتائی۔

    بادشاہ نے جب شہزادی کی دکھ بھری کہانی سنی تو اس سے کہا۔” اپنے آپ کو تیار کرو۔ میں تمہیں تمہارے ماں باپ کے گھر لے جاؤں گا۔” شہزادی نے بہت منت سماجت کی کہ مجھے میرے ظالم باپ کے سامنے مت لے جاؤ۔ وہ مجھے قتل کر دے گا۔ لیکن بادشاہ نہیں مانا۔ آخر کار وہ مجبور ہو کر اپنے ماں باپ کے گھر جانے کے لیے تیار ہو گئی۔

    بادشاہ نے پورے جاہ و جلال اور طمطراق سے ایک بڑے لشکر کے ساتھ شہزادی اور تینوں بیٹوں کو بھیجا لیکن خود سلطنت کے ضروری کاموں کی وجہ سے رک گیا۔ اپنے وزیر، وکیل اور قاضی کو شہزادی کے ساتھ کر دیا اور کہا کہ میں پہلی، دوسری یا تیسری منزل پر تم لوگوں سے آ کر ملوں گا۔ سب روانہ ہو گئے۔ شام ہوتے ہوتے انہوں نے پہلے منزل پر پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔

    خادموں نے شہزادی کا خیمہ ایستادہ کیا۔ تب شہزادی نے دیکھا کہ وزیر کا خیمہ بھی اس کے خیمے کے بالکل قریب کھڑا کیا گیا۔ شہزادی نے وزیر کو بلا کر اس سے پوچھا۔” اے وزیر! تم جانتے ہو کہ میں ایک بادشاہ کی بیٹی اور ایک بادشاہ کی بیوی ہوں۔ تم اپنا خیمہ یہاں سے دور لگوا دو۔” وزیر نے کہا۔” ملکہ صاحبہ! بادشاہ نے ہمیں آپ کی حفاظت کی خاطر آپ کے ساتھ روانہ کیا ہے۔ اگر آپ یا آپ کے بچّوں کو کچھ ہو گیا تو میں بادشاہ کو کیا جواب دوں گا۔” وزیر نہیں مانا۔ خیمے لگ گئے۔ رات ہو گئی تھی۔ تھکے ہارے لوگ سو گئے۔ وزیر کے دل میں کھوٹ تھا۔ آدھی رات کو شہزادی کے خیمے میں داخل ہو گیا۔ شہزادی آہٹ پا کر جاگ گئی۔ دیکھا کہ وزیر ہے تو اسے للکار کر باہر نکلنے کو کہا۔ لیکن وزیر آگے بڑھنے لگا۔ جب شہزادی نے دیکھا کہ وزیر کسی صورت نہیں مان رہا تو اس نے اپنے بڑے بیٹے کو وزیر کے سامنے کیا کہ تمہیں اس بچّے کے سر کی قسم اس طرح مت کرو۔ لیکن بد کردار وزیر آگے بڑھا اور تلوار نکال کر ایک ہی وار سے بچّے کا سر دھڑ سے الگ کردیا۔ شہزادی نے وزیر سے کہا۔”میں ایک پاک عورت ہوں۔ اس وقت بھی وضو میں ہوں۔ مجھے اتنا موقع دو کہ میں اپنے وضو کو توڑ کر آ جاتی ہوں تب تمہارا جو دل چاہے، وہ کرو۔”

    وزیر نے کہا۔” جاؤ اور جلدی آ جانا۔” شہزادی بھاگتی ہوئی وہاں سے دور ایک بڑے جھاڑی کے پیچھے چھپ گئی۔ وزیر کچھ دیر بعد اسے ڈھونڈنے نکل گیا۔ لیکن ناکام رہا۔ صبح ہونے والی تھی، تب وہ دوبارہ شہزادی کے خیمے میں داخل ہوا۔ بچّے کی لاش کہیں دور لے جاکر دفن کی اور اپنے خیمے میں گھس گیا۔

    صبح بہت دیر کے بعد شہزادی اپنے خیمے میں داخل ہو گئی۔ اپنے مقتول بیٹے کو نہ پا کر رونے لگی۔ لشکر دوبارہ روانہ ہو گیا۔ چلتے چلتے شام تک دوسری منزل پر جا پہنچے۔

    خادموں نے شہزادی کا خیمہ ایستادہ کرنا شروع کیا۔ شہزادی نے دیکھا کہ وزیر نے آج اپنا خیمہ بہت دور کھڑا کروایا ہے۔ لیکن خدام وکیل کا خیمہ قریب کھڑا کررہے ہیں۔ شہزادی نے وکیل کو بلوایا اور کہا تم اپنا خیمہ ہٹوا دو۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔” وکیل نے کہا۔” اے ملکہ! بادشاہ سلامت نے مجھے آپ کے ساز و سامان کی حفاظت کے لیے آپ کے ہمراہ کیا ہے اور تاکید کی ہے۔ اگر آپ کو یا آپ کے سامان کو کچھ ہو گیا تو میں بادشاہ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔” شہزادی چپ ہوگئی۔ مگر وزیر کے ہاتھوں مار کھا چکی تھی۔ اس لیے رات کو پورے ہوش و حواس میں تھی۔ آدھی رات کو اس نے قدموں کی آہٹ سنی۔ جب دیکھا کہ آنے والا وکیل ہے تو اسے للکارا۔ لیکن بدکردار وکیل کہاں ٹلنے والا تھا۔ شہزادی نے اپنے دوسرے بیٹے کو اس کے سامنے کیا اور اسے دہائی دی۔ لیکن وکیل نے بھی تلوار سے وار کر کے اس کے دوسرے بیٹے کا سر تن سے جدا کر دیا۔ شہزادی نے بیچارگی سے کہا۔” میں پاک و صاف اور وضو سے ہوں۔ مجھے کچھ وقت دے تاکہ میں خود کو ناپاک کر دوں۔ اس کے بعد جو تمہارا دل چاہے، کرو۔” وکیل نے اسے جانے دیا ۔ شہزادی خیمے سے نکل گئی۔

    آج بھی شہزادی میں جتنی ہمّت تھی، نکل بھاگی۔ اور آخر کار تھک ہار کر ایک بڑے جھاڑی کے پیچھے چھپ گئی۔ وکیل نے اسے بہت ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ وکیل جلدی جلدی واپس آیا۔ مرے ہوئے بچّے کو اٹھا کر کہیں دور دفن کیا اور اپنے خیمے میں جا کر سوتا بن گیا۔

    جب صبح پو پھٹی تو شہزادی اپنے خیمے میں داخل ہو گئی۔ دیکھا کہ دوسرے بیٹے کی لاش بھی نہیں ہے۔ سمجھ گئی کہ بدکردار وکیل نے اسے ٹھکانے لگا دیا ہے۔ بیچاری کس پر اعتبار کرتی، اس لیے چپ رہی۔ لشکر پھر شہزادی کے باپ بادشاہ کے ملک کی طرف روانہ ہو گیا۔ آج شہزادی اکیلی ایک بیٹے کے ساتھ غموں کا انبار لیے اونٹ پر سوار تھی۔ جب تیسرے منزل پر پڑاؤ ڈالا گیا تو آج وزیر اور وکیل نے اپنے خیمے شہزادی کے خیمہ سے بہت دور کھڑا کروا دیے تھے۔ وہ شرمندہ شرمندہ شہزادی کے سامنے آ ہی نہیں رہے تھے۔ حیران و پریشان تھے کہ جب بادشاہ کو پتا چلے گا تو اسے کیا جواب دیں گے؟

    آج جیسے ہی شہزادی کا خیمہ کھڑا کر دیا گیا تو دیکھا کہ قاضی اپنا خیمہ اس کے خیمے کے سامنے ایستادہ کر وا رہا ہے۔ شہزادی نے اسے بھی بہتیرا سمجھایا لیکن قاضی بد ذات بھی ٹلنے والوں میں سے نہیں تھا۔ جب رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تو دیکھا کہ قاضی بھی خراماں خراماں خیمے میں داخل ہو رہا ہے۔ شہزادی نے دیکھا کہ یہ بھی نہیں ٹلنے والا تو اس خیال سے کہ شاید اس کے دل میں رحم پیدا ہو جائے، اپنے تیسرے سب سے چھوٹے بیٹے کو اس کے سامنے کر دیا۔ اس کی دہائی دی۔ قاضی بدبخت کو بھی رحم نہ آیا اور معصوم بچّے کا سر قلم کر دیا۔ شہزادی نے اسے بھی یہی کہا کہ میں وضو سے ہوں۔ مجھے موقع دو تاکہ اپنا وضو توڑ دوں۔ قاضی نے بھی اسے جانے دیا۔

    جیسے ہی شہزادی باہر نکلی، جدھر منہ اٹھا، بھاگ نکلی۔ بھاگتے بھاگتے اچانک اس نے دیکھا کہ آگے ایک بہت بڑا دریا بہہ رہا تھا۔ اس کے دل میں دھواں بھر گیا، اپنے معصوم بچّے یاد آئے۔ اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کہ اگر بادشاہ نے پوچھا کہ بچے کدھر ہیں تو میں اسے کیا جواب دوں گی؟ اس سے بہتر ہے کہ خود کو اس دریا کے حوالے کر دوں۔ یہ فیصلہ کر کے اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ پُر شور دریا اسے چکر دے کر کہیں کا کہیں پہنچا کے دوسری طرف نکال لے گیا۔ دوسری طرف چھ فقیر جو کہ بھائی تھے، اپنے کپڑے دریا پر دھونے کے لائے تھے۔ جب دیکھا کہ دریا میں کوئی عورت بہتی ہوئی آ رہی ہے تو پکڑ کر باہر نکال لائے۔

    اب شہزادی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ فقیروں میں سے ہر ایک یہی کہہ رہا تھا کہ یہ میری ہے۔ آخر صلاح یہی ٹھہری کہ اسے باپ کے پاس لے جائیں گے۔ وہ جس کا کہے، یہ عورت اسی کی ہے۔ وہ شہزادی کو اپنے باپ کے پاس لے گئے۔ ان کا باپ ایک زیرک اور عقل مند انسان تھا۔ دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ کسی شہنشاہ گھرانے کی عورت ہے۔ میرا کوئی بھی بیٹا اس کے لائق نہیں۔ اسی وجہ سے اس نے اپنے بیٹوں کو سمجھایا۔” اے میرے بیٹے! تم چھ بھائی ہو۔ تمہاری کوئی بہن نہیں ہے۔ اسے اپنی بہن بنا لو۔ تم چھ بھائی اور ساتویں تمہاری یہ بہن۔ اس کی خوب نگہداشت کرو۔ اس کی برکت سے تم سب سرخرو رہو گے۔” باپ کے فیصلے سے فقیر بہت خوش ہو گئے اور اپنے سے بڑھ کر شہزادی کا خیال رکھنے لگے۔

    جب بادشاہ چوتھے دن آ کر لشکر سے ملا تو دیکھا وزیر، وکیل اور قاضی اس سے کترا رہے تھے۔ اس کے سامنے شرمسار سے تھے۔ پوچھا میرے بیوی بچے کہاں ہیں؟ تینوں نے یک زبان ہو کر کہا۔” ملکہ تو ایک ڈائن تھی۔ تینوں بچّوں کو کھا کر خود بھاگ نکلی۔”

    بادشاہ حیران و پریشان ہو گیا کہ یہ کیا بات ہو گئی۔ وہ ان تینوں پر شک میں پڑ گیا۔ لیکن کہا کہ بعد میں دیکھتے ہیں۔ ابھی جس طرف جا رہے ہیں، وہاں جا کے فیصلہ کریں گے کہ آگے کیا کرنا ہے۔ بادشاہ اپنے دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ جا کر اپنے ظالم سسر بادشاہ کو دیکھوں اور اس سے پوچھوں کہ اسے کیوں بیٹیوں سے اتنی نفرت ہے؟ اس کے ظلم و ستم کی وجہ سے اس کی بیٹی ڈائن بن گئی اور اپنے بچّوں تک کو کھا گئی۔ چلتے چلتے انہوں نے ایک بڑے دریا کو پل کے ذریعے پار کیا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔

    ادھر شہزادی فقیروں کی بہن بن کر رہنے لگی۔ اسے ادھر ادھر سے سن گن مل گئی اور سمجھ گئی کہ اپنے باپ بادشاہ کے ملک میں پہنچ گئی ہے۔ اسے پتا تھا کہ اس کے باپ کو قصہ سننے کا بہت شوق ہے۔ اس نے اپنے فقیر بھائیوں سے کہا کہ جا کر بادشاہ کو بتا دو کہ ہماری بہن ایک قصہ گو ہے۔ کیا وہ اسے شاہی قصہ گو کے طور پر ملازمت دے گا یا نہیں۔ فقیروں نے بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل کر کے اس کو یہ گوش گزار دیا کہ ہماری ایک بہن ہے جو بہت اچھی قصہ گو ہے۔ اگر اسے پسند ہو تو اسے قصہ سنوانے کے لیے لے کر دربار میں‌ آئیں۔ بادشاہ نے انہیں اجازت دے دی اور کہا کہ اگر اس کے قصے پسند آئے تو وہ اسے شاہی قصہ گو رکھ دیں گے۔

    شام کو فقیر شہزادی کو لے کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے۔ شہزادی نقاب میں تھی اور درمیان میں بھی پردہ حائل تھا۔ اس نے بادشاہ کے لیے ایک قصہ سنایا جو بادشاہ کو بہت پسند آیا۔ اس نے خوش ہو کر فقیروں کو بہت سا انعام و اکرام دیا۔ فقیر انعام و اکرام لے کر بہن کے ہمراہ واپس گھر آئے۔ وہ پہلے ہی بھیک مانگنے سے بیزار تھے اس لیے بہت خوش تھے۔

    شہزادی ہر رات آ کر بادشاہ کو ایک نیا قصہ سناتی۔ بادشاہ سے داد اور انعام و اکرام پا کر واپس اپنے فقیر بھائیوں کے ساتھ گھر لوٹ آتی۔ فقیروں کی جان بھی بھیک مانگنے سے چھوٹ گئی۔ایک رات جب وہ آئی تو دیکھا کہ آج تو اس کا شوہر بادشاہ، وزیر، وکیل، قاضی وغیرہ بھی اس کے باپ بادشاہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ شہزادی نے سوچا آج تو قصہ مزہ کرے گا۔

    شہزادی آج بھی ہر روز کی طرح نقاب میں تھی۔ پردے کے دوسری طرف آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور اپنے باپ بادشاہ سے کہا۔ "بادشاہ سلامت! آج میں ایک بہت خاص داستان سنانے والی ہوں۔ اگر کسی کو کوئی حاجت درپیش ہے تو ابھی سے اٹھ کر رفع حاجت پوری کرے۔ داستان کے درمیان کسی کو اٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی اٹھ گیا تو میں داستان سنانا بند کروں گی اور آئندہ کے لیے بھی کوئی قصہ سنانے نہیں آؤں گی۔” بادشاہ نے سب کو حکم دیا۔ سب نے اقرار کیا کہ وہ داستان کے درمیان نہیں اٹھیں گے۔

    شہزادی نے داستان سنانا شروع کی۔” ایک ظالم بادشاہ تھا۔ اسے اپنے گھر میں بیٹی کی پیدائش پسند نہیں تھی۔ جب اس کے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی تو اپنے بیوی کو اسے مارنے کا حکم دیا۔ اس کے بیوی نے دائی کے ذریعے اپنی بیٹی کو بچا کر اس کی پرورش کی۔ ایک دن اس لڑکی پر بادشاہ کی نظر پڑی جو اب جوان ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے اس بوڑھی دائی کے گھر اپنے لیے رشتہ بھیجا لیکن دائی نے تسلیم نہیں کیا۔ بادشاہ نے اس پر ظلم و ستم ڈھائے تب دائی نے بتایا کہ وہ لڑکی اسی بادشاہ کی بیٹی ہے۔”

    بادشاہ حیران ہوا کہ یہ تو میرا قصہ ہے جو یہ خاتون سنا رہی ہے۔ بادشاہ نے بہت سے ہیرے جواہرات شہزادی کی طرف پھینک کر کہا کہ دیکھنا داستان کو بند مت کرنا۔ شہزادی نے ہیرے جواہرات فقیروں کی طرف پھینک دیے جو اسے پا کر بہت خوش ہوئے۔

    شہزادی نے داستان جاری رکھی کہ کس طرح‌ بادشاہ نے بیٹی کو اپنے بیٹے کے حوالے کر کے کہا کہ اسے جنگل میں لے جا کر قتل کر دے اور آگے کیا کچھ ہوا۔

    بادشاہ عمرِ رفتہ کے باعث اب بوڑھا ہو گیا تھا۔ اسے پہلے ہی سے اپنے بیٹی کے ساتھ کیے گئے ظلم و ستم سے بہت پشیمانی اور پچھتاوا تھا۔ جب اسے داستان کے ذریعے اپنی بیٹی کے متعلق پتا چلا اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ شہزادے کو بھی احساس ہوا کہ یہ تو میری بہن کا قصہ ہے۔ اس نے بے چین ہو کر کچھ اور ہیرے جواہرات شہزادی کے طرف پھینک دیے اور کہا کہ داستان جاری رکھنا، روکنا مت۔ فقیر بھائیوں کے تو اتنے انعامات دیکھ کر باچھیں کِھل اٹھیں۔ شہزادی نے داستان جاری رکھی اور بتایا کہ "ایک دن ایک بادشاہ کا گزر اسی جنگل سے ہوا۔ لڑکی کو دیکھا اور اسے اپنے ساتھ اپنے ملک لے جا کر اس سے بیاہ رچایا۔”
    شہزادی کا شوہر بادشاہ جو پہلے بڑی دل چسپی اور انہماک سے داستان سن رہا تھا، چونک پڑا کہ یہ تو میرا اور میری بیوی کا قصہ لگ رہا ہے۔ اس نے بھی بہت سے ہیرے جواہرات نکال کر شہزادی کی طرف پھینک دیے اور کہا کہ دیکھنا داستان آخر تک سنانا۔ مجھے اس داستان کو پورا سننا ہے۔ فقیر بھائیوں کے تو پیر خوشی سے زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔

    شہزادی نے داستان جاری رکھی۔ "بادشاہ نے اس لڑکی سے شادی کی۔ اس سے اسے تین بیٹے ہوئے۔ ایک دن بادشاہ نے اسے ان کے بیٹوں کے ساتھ اپنے وزیر، وکیل اور قاضی کے ہمراہ اس کے سسرال روانہ کیا۔” اب وزیر، وکیل اور قاضی کے اوسان خطا ہو گئے اور ایک دوسرے کی طرف سراسیمگی سے دیکھنے لگے کہ یہ تو ہمارا قصہ ہے۔ بادشاہ نے کچھ اور ہیرے جواہرات شہزادی کی طرف پھینک دیے۔ فقیر بھائیوں کی خوشی کا تو ٹھکانہ ہی نہ رہا تھا۔

    "پہلی منزل پر بادشاہ کا وزیر ناپاک ارادے سے اس کی طرف بڑھا اور اسے بدی کے لیے تنگ کیا۔ اس کے بڑے بیٹے کا سر تن سے جدا کیا۔ لیکن لڑکی کسی طرح اپنی عزّت بچا کے بھاگ نکلی۔” وزیر منمنایا۔” مجھے بہت زور کا پیشاب لگا ہے۔ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔” بادشاہ نے اسے ڈانٹ دیا۔” خاموشی سے بیٹھ بد ذات کہیں کے۔ اسی وقت تمہیں کیوں پیشاب آ رہا ہے؟” وزیر چپ کر کے بیٹھ گیا۔

    "دوسری منزل پر اسی طرح وکیل نے بھی اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ لڑکی کو بدی کے لیے تنگ کیا اور اپنے ناپاک عزائم پورا کرنے کے لیے اس کے دوسرے بیٹے کا سر تن سے جدا کرنے سے بھی باز نہ آیا۔ پاک دامن لڑکی نے یہاں بھی اپنی عزّت بچائی اور بھاگ کر کہیں چھپ گئی۔” اب وکیل ہکلایا۔” بادشاہ سلامت! مجھے زور کی حاجت پیش آئی ہے۔ بس میں یوں گیا اور یوں آیا۔” بادشاہ نے وکیل پر آنکھیں نکالیں۔” بس کر بد ذات، اور خاموشی سے بیٹھ۔ جب حقیقت ظاہر ہو رہی ہے تو تم لوگوں کو حاجت پیش آ رہی ہے۔” وکیل بھی خاموشی سے بیٹھ گیا۔

    "تیسری منزل پر قاضی بھی اللہ رسول کو بھول کر بدی کے لیے لڑکی کو تنگ کرنے لگا اور اس ظالم نے اس کے تیسرے بیٹے کا سر قلم کردیا۔ لڑکی بھاگ کر ایک بڑے دریا میں کود گئی۔” یہ سن کر قاضی نے بھی کوئی بہانہ بنانے کی کوشش کی لیکن بادشاہ نے اسے بھی ڈانٹ کر چپ کرا دیا۔

    "دریا نے لڑکی کو کہیں دور لے جا کر دوسری طرف پھینک دیا جہاں اسے چھ فقیروں نے دیکھا اور اسے دریا سے نکالا۔” اب فقیر بھائیوں کی گھگھی بندھ گئی کہ ہو نہ ہو یہ ہماری بہن کا قصہ ہے۔ وہ بھی چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔ "فقیر اس لڑکی کو اپنے باپ کے پاس لے گئے۔ اس کے عقل مند باپ نے اس لڑکی کو ان چھ بھائیوں کی بہن بنا دیا۔”

    اس کے باپ بادشاہ کے آنکھوں سے جھل جھل آنسو بہہ رہے تھے۔ دونوں بادشاہوں نے ہیرے جواہرات کے ڈھیر ان کے سامنے لگا دیے کہ خدارا داستان کو جاری رکھو۔

    "لڑکی کو کسی طرح پتا چلا کہ یہ اس کے باپ بادشاہ کا ملک ہے۔ اسے پتا تھا کہ اس کے باپ کو داستان سننے کا بہت شوق ہے۔ اس نے اپنے بھائیوں کے ذریعے بادشاہ کو کہلوا بھیجا کہ اگر اسے منظور ہو تو آ کے اسے داستان سنائے۔” یہاں پہنچ کر اس کے باپ بادشاہ کا دل چُور چُور ہو گیا۔ وہ ایک فریاد مار کر اٹھ کھڑا ہو گیا۔ شہزادی نے بھی اپنے چہرے سے نقاب اٹھا دی تو اس کے شوہر بادشاہ نے بھی شہزادی کو پہچان لیا۔ باپ، بیٹی کو اور شوہر بیوی کو پا کر بے طرح خوش ہو گئے۔

    دونوں نے وزیر، وکیل اور قاضی کو پکڑا۔ ان سے کہا کہ بول کیسی سزا چاہیے۔ چار چڑی چابک یا چار بٹور (یہ براہوی زبان میں دو سخت سزاؤں کے نام ہیں) انہوں نے کہا کہ چار بٹور۔ بادشاہ نے بارہ گھوڑے منگوائے۔ ہر ایک کے ہاتھ پیر چار گھوڑوں سے چار اطراف میں باندھ کر انہیں چار مخالف سمت میں دوڑا دیا۔ جن سے ان کے جسم ٹکڑوں میں بٹ گئے۔ اس طرح ان بد ذاتوں کو ان کے کیے کی سزا ملی اور شہزادی کا باپ اپنی بیٹی اور اس کا شوہر اپنی بیوی کو پا کر بہت خوش ہوئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (براہوی لوک داستان، محقق: سوسن براہوی)