Tag: لوک کہانیاں

  • مجبور لکڑہارا (جرمنی کی لوک کہانی)

    مجبور لکڑہارا (جرمنی کی لوک کہانی)

    ایک چھوٹے سے گاؤں میں کوئی غریب لکڑہارا ایک جھونپڑی میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے بڑے بیٹے کا نام ہینسل اور بیٹی کا نام گریٹل تھا جو دراصل اس کی پہلی بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد لکڑہارے نے دوسری شادی کر لی تھی۔

    لوک کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    لکڑہارا دن بھر جنگل میں لکڑیاں کاٹتا اور پھر ان کو بازار لے جا کر بیچ دیتا۔ اس سے جو کچھ نقدی ملتی، اس سے گھر کا خرچ چلاتا، لیکن اس کی آمدنی اتنی کم تھی کہ اکثر اس کنبے کو ایک وقت کی روٹی ہی میسر آتی۔ اس کی بیوی، جو بچوں کی سوتیلی ماں تھی، ایک سخت جان اور خود غرض عورت تھی۔

    ایک رات، جب گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا، لکڑہارے کی بیوی نے اس سے کہا، "ہمارے پاس اتنا کھانا نہیں کہ سب کا پیٹ بھر سکے۔ ہمیں بچوں کو جنگل میں چھوڑ آنا چاہیے تاکہ ان کی ذمہ داری ختم ہو اور ہم دونوں اپنا پیٹ بھر سکیں۔ یہ وہاں کسی طرح کچھ کھا پی کر جی ہی لیں گے۔” لکڑہارا اپنے بچوں سے بہت محبت کرتا تھا، اس نے انکار کر دیا، لیکن اس نے طرح طرح کی باتیں بنا کر اور طعنے دے کر اپنے شوہر کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر ہی دیا۔

    اتفاق سے جس رات لکڑہارے کو اس کی بیوی نے اس ظلم اور گھناؤںے کام کے لیے بھوک کا خوف دلاتے ہوئے قائل کیا، ہینسل کسی وجہ سے سو نہیں سکا تھا۔ وہ ایک ہوشیار اور بہادر لڑکا تھا۔ اس رات خاموشی سے زمین پر لیٹے ہوئے ہینسل نے اپنی سوتیلی ماں کا منصوبہ سن لیا تھا۔ پہلے تو وہ گھبرایا مگر پھر اپنے ذہن کو اس کا حل تلاش کرنے کے لیے دوڑانے لگا اور پھر مطمئن ہو کر سو گیا۔ اگلی صبح، سوتیلی ماں نے بچوں سے کہا کہ کچھ دیر بعد وہ سب جنگل میں لکڑیاں کاٹنے چلیں گے۔ اس نے ہینسل اور گریٹل کو کھانے کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی دیا۔ اب ہینسل نے گریٹل کو ساتھ لیا اور جھونپڑی سے باہر نکل گیا، اور تھوڑی ہی دیر میں لوٹ آیا۔

    بچوں نے دیکھا کہ والدین جیسے انہی کے منتظر تھے۔ وہ ہینسل اور گریٹل کو لے کر جنگل کی طرف بڑھنے لگے۔ جنگل شروع ہوا تو ہینسل اپنی جیب سے وہ مخصوص قسم کے پتھر راستے میں گراتا ہوا جانے لگا، جو اس نے صبح کنویں کے قریب ایک عمارت کے کھنڈر سے جمع کیے تھے۔ یہ عام پتھر نہیں تھے بلکہ چاند کی روشنی میں‌ ایک خاص چمک پیدا کرتے تھے۔ وہ یہ پتھر نشانی کے طور پر گرا رہا تھا تاکہ راستہ پہچان سکے۔ گھنے درختوں کے درمیان پہنچ کر سوتیلی ماں نے بچوں سے کہا کہ وہ ایک جگہ بیٹھ جائیں، ہم دونوں ذرا آگے لکڑیاں کاٹنے جا رہے ہیں اور جلد لوٹ آئیں گے، لیکن کافی دیر گزر گئی اور وہ نہیں لوٹے۔ وہ دونوں منصوبہ کے مطابق بچوں کو چھوڑ کر گھر واپس چلے گئے تھے۔

    ادھر دن ڈھلنے کو تھا اور اب انھیں بھوک بھی ستا رہی تھی۔ گریٹل رونے لگی۔ ہینسل نے اسے دلاسہ دیا اور کہا، "چاند نکلنے کا انتظار کرو۔” جب چاندنی پھیلی تو ہینسل کے گرائے ہوئے پتھر چمکنے لگے۔ دونوں بہن بھائی ان کو دیکھتے ہوئے جنگل سے نکل کر گھر واپس پہنچ گئے۔ لکڑہارا انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوا، لیکن سوتیلی ماں غصے سے بھر گئی۔

    کچھ دن عافیت سے گزر گئے مگر پھر وہی کھانے پینے کا مسئلہ اور گھر میں فاقے کی نوبت آن پڑی۔ تب، سوتیلی ماں نے دوبارہ لکڑہارے کو مجبور کیا کہ بچوں کو جنگل میں چھوڑ آتے ہیں۔ اس مرتبہ انھوں نے بچوں کو پہلے سے نہیں بتایا۔ یوں ہینسل رات کو پتھر جمع نہ کر سکا۔ صبح اچانک ہی ان کو سوتیلی ماں نے کسی بہانے سے جنگل جانے کا بتایا۔ وہ سب جنگل کی طرف چل دیے۔ اتفاق سے گھر میں روٹی کے چند ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ ہینسل نے آنکھ بچا کر وہ اپنی جیب میں ٹھونس لیے۔ راستے میں وہ روٹی کے ٹکڑوں کو گراتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس مرتبہ بھی والدین نے وہی کیا، لیکن جب شام ڈھلی تو ہینسل کو واپسی کی فکر ہوئی۔ وہ اپنی بہن کا ہاتھ تھام کر اندازے سے آگے بڑھنے لگا اور دونوں زمین پر غور سے نشانی ڈھونڈنے لگے، لیکن وہ ٹکڑے تو پرندوں نے کھا لیے تھے۔ دونوں بہن بھائی جنگل میں بھوک اور تھکاوٹ سے نڈھال، تین روز تک بھٹکتے رہے۔ اچانک انھیں ایک جھونپڑی نظر آئی، جو مٹھائی، کیک، اور چاکلیٹ سے بنی تھی۔ یہ عجیب و غریب گھر دیکھ کر وہ حیران تو ہوئے مگر بھوک کی شدت کے باعث انھوں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر جھونپڑی کو نوچ کر سب چیزیں کھانا شروع کردیں۔ اچانک دروازہ کھلا، اور ایک بوڑھی عورت باہر نکلی۔ وہ نہایت چالاک جادوگرنی تھی۔ اس نے میٹھی آواز میں کہا، "آؤ بچو، اندر آؤ، تمھیں اور بہت کچھ کھانے کو دوں گی۔”

    جادوگرنی نے دھوکے سے ان کو اندر بلا لیا اور ہینسل کو ایک پنجرے میں بند کر دیا۔ اسے گریٹل بہت پیاری لگی۔ اس نے گریٹل کو اپنی خادمہ بنا لیا۔ جادوگرنی نے گریٹل سے کہا کہ وہ ہینسل کے لیے بہت سا کھانا پکائے تاکہ وہ موٹا ہو جائے اور پھر وہ اسے بھون کر کھا سکے۔ جادوگرنی کی آنکھیں کمزور تھیں، اس لیے وہ ہر روز ہینسل کی انگلیاں چھو کر دیکھتی کہ وہ موٹا ہوا یا نہیں۔ ہینسل نے پنجرے میں رہتے ہوئے اس کی کمزوری کو بھانپ لیا تھا۔ ادھر وہ اپنی بہن سے موقع پاکر اشاروں اشاروں میں باتیں کرتا رہتا تھا۔ وہ یہی منصوبہ بناتے تھے کہ یہاں سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ ایک روز اس نے جادوگرنی کے کھانے سے بچی ہوئی ایک ہڈی کی طرف اشارہ کیا اور گریٹل نے نظر بچا بھائی کو وہ ہڈی تھما دی۔ اب ہینسل نے ہوشیاری سے اپنی انگلی کی جگہ وہ ہڈی جادوگرنی کے چھونے کے لیے آگے بڑھا دی، جسے وہ ظالم ہینسل کی انگلی سمجھی۔ دو تین ہفتوں تک ہینسل اس کے ساتھ یہی کرتا رہا اور جادوگرنی سمجھتی رہی کہ وہ موٹا ہوگیا ہے۔

    آخر کار، جادوگرنی نے گریٹل سے کہا کہ وہ تنور تیار کرے، کیونکہ وہ ہینسل کو بھون کر کھانا چاہتی ہے۔ گریٹل نے معصومیت سے پوچھا، "تنور کو دہکانے کے لیے کیا کروں، مجھے کبھی اس کا تجربہ نہیں‌ ہوا۔ میری مدد کریں۔” جادوگرنی اس کی باتوں میں آگئی۔ اس نے تنور کے اندر جھانک کر اسے سمجھانے کی کوشش کی اور عین اس لمحے جب وہ تنور میں‌ جھانک رہی تھی، گریٹل نے جادوگرنی کو دھکا دیا، اور وہ تنور میں سر کے بل جا گری۔ گریٹل نے قریب پڑا ہوا لکڑی کا موٹا سا ڈنڈا اٹھایا اور جادوگرنی کی کمر پر برساتی چلی گئی۔ اس کے ہاتھ اسی وقت رکے جب گریٹل نے پنجرے سے آواز لگائی کہ وہ اسے باہر نکالے۔

    گریٹل نے ہینسل کو پنجرے سے آزاد کیا جس نے باہر آتے ہی سب سے پہلے تنور کو دہکا دیا تاکہ جادوگرنی کا قصہ تمام ہوجائے۔ اب انھوں نے جھونپڑی کو کھنگالا تو وہاں کافی مقدار میں سونا اور کئی قیمتی چیزیں ملیں۔ دونوں نے ایک بڑی سی چادر میں وہ سب مال جمع کیا اور اسے پیٹھ پر لاد کر وہاں سے نکل گئے۔ کسی طرح دونوں اس جنگل سے باہر نکلنے میں بھی کام یاب ہوگئے۔ آخر کار وہ اپنے گھر پہنچے۔ معلوم ہوا کہ ان کی سوتیلی ماں مر چکی ہے، اور لکڑہارا اپنے بچوں کے ساتھ ناروا سلوک پر پچھتا رہا ہے۔ وہ انھیں دیکھ کر خوشی سے نہال ہوگیا۔ بچوں نے اپنے باپ کو جادوگرنی کی کٹیا سے لوٹا ہوا وہ خزانہ دیا جس سے ان کے باپ نے زمین خریدی اور کھیتی باڑی شروع کی۔ انھوں نے ایک اچھا سا گھر بنوایا اور خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔

    (یہ مشہور جرمن لوک کہانی کا اردو ترجمہ ہے لیکن اس میں کہانی کے مزاج اور تفصیلات کو برقرار رکھتے ہوئے کئی ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جو اگرچہ اصل کہانی کا حصہ نہیں مگر اسے پُرلطف اور دل چسپ ضرور بناتی ہیں)

  • کیا آدمی سب کو خوش رکھ سکتا ہے؟ (چینی حکایت)

    کیا آدمی سب کو خوش رکھ سکتا ہے؟ (چینی حکایت)

    مختلف ممالک کی لوک داستانیں، حکایات یا سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کا شوق رکھنے والے قارئین نے شاید کبھی غور کیا ہو کہ بالخصوص حکایات نہ صرف مختصر ہوتی ہیں بلکہ مکالمہ کے بجائے ان میں زیادہ تر بیانیہ انداز اپنایا جاتا ہے۔ یہ اسی طرز کی ایک چینی حکایت ہے، جس میں زندگی کی ایک بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ ایسی حقیقت جس کا ہم میں سے اکثر لوگوں کو کبھی نہ کبھی تجربہ ضرور ہوا ہو گا۔

    قارئین نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا ہے کہ حکایتوں میں حالات و واقعات اور ان کا پس منظر بھی پڑھنے کو نہیں ملتا جس کے باعث شاید ان میں وہ لطف اور دل کشی نہیں محسوس ہوتی جو ایک کہانی یا داستان کا حصّہ ہوسکتی ہے، مگر کوئی حکایت جو رمز یا حقیقیت اجاگر کرتی ہے اور ان سے جو سبق ملتا ہے، وہ ہماری سوچ کو بدلنے اور شخصیت کو سنوارنے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    حکایت ملاحظہ کیجیے:

    یہ دراصل ایک گفتگو ہے جو شہزادہ چِن، جس نے بعد ازاں تاجِ سلطنت پہنا اور اس کے مشیر ژو، جو وقت گزرنے پر وزیرِ اعظم کے مرتبے پر فائز ہوا، کے درمیان ہوئی۔

    سبق آموز، نصیحت آمیز اور دل چسپ حکایات اور کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے

    شہزادے نے ژو سے دریافت کیا۔ “میرے تمام مشیروں میں تم سب سے زیادہ ذہین و فطین ہو، پھر بھی لوگ پیٹھ پیچھے تمہیں کثرت سے تنقید کا نشانہ کیوں بناتے ہیں؟”

    یہ سوال ایک طرح سے ژو کے فہم و تدبر کا امتحان بھی تھا۔ ژو نے مدبرانہ انداز میں جواب کچھ یوں دیا:

    “جب بہار میں بارش برستی ہے تو کسان اسے رحمت جان کر خوش ہوتے ہیں کہ ان کی کھیتیاں سیراب ہوئیں، لیکن مسافر اسی بارش کو زحمت گردانتے ہیں کہ راہیں کیچڑ سے بھر جاتی ہیں۔ جب خزاں کی راتوں میں چاندنی پورے جوبن پر ہوتی ہے تو نازنین عورتیں اس کی چمک سے لطف اٹھاتی ہیں، مگر چور اسی روشنی کو کوستے ہیں کہ وہ ان کے (دوسروں کی نظروں سے) چھپنے کے راستے بے نقاب کر دیتی ہے۔

    جب قدرتِ کاملہ خود سب کو راضی نہیں کر سکتی، تو پھر ایک بندۂ دربار سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں؟”

    (مترجم و حوالہ نامعلوم)

  • بے زبان کا خوف (حکایت)

    بے زبان کا خوف (حکایت)

    اگرچہ سینہ بہ سینہ اور قدیم کتابوں سے لی گئی اکثر کہانیوں کے مصنّف اور حکایتوں‌ کے اصل وطن کا علم ہمیں نہیں‌ ہے، مگر یہ عقل و شعور اور آگاہی کا خزانہ ہیں۔ یہ ایک ایسی ہی حکایت ہے۔

    آپ نے بھی ایسی کہانیاں‌ اور قصّے پڑھے ہوں گے جو بہت دل چسپ ہوتے ہیں اور ان میں‌ ہمارے لیے کوئی سبق بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہاں‌ ہم قارئین کی دل چسپی اور توجہ کے لیے جو حکایت نقل کررہے ہیں‌، اسے عربی ادب سے ماخوذ بتایا جاتا ہے۔

    کسی بستی کے لوگ جھوٹ بولنے کے عادی تھے اور مقدمات میں سچ بات کہنے کے بجائے عدالت کے سامنے جھوٹی گواہی دینے اور مکر جانے کے لیے مشہور تھے۔

    اس بستی کے ایک مرد و عورت نے نکاح کرلیا جس کا کھل کر اعلان تو نہیں‌ کیا مگر نکاح شریعت کے مطابق تھا۔ یہ نکاح قاضی اور گواہوں کی موجودگی میں انجام پایا تھا۔

    کچھ عرصے بعد میاں بیوی میں ناچاقی ہوگئی اور شوہر نے بیوی کو گھر سے نکال دیا، اور اسے تمام حقوق سے بھی محروم کر دیا۔ خاتون نے قاضی سے رجوع کیا اور اس کے روبرو کہا کہ شوہر نے گھر سے نکال دیا ہے۔

    قاضی نے کچھ سوالات پوچھے اور تفصیل جاننے کے بعد کہا، تمہارے اس نکاح کی تو کسی کو خبر ہی نہیں۔ خاتون بولی، جناب ہمارا نکاح شریعت کے عین مطابق ہوا تھا مگر کسی وجہ سے ہم نے اس کو عام نہیں‌ کیا۔

    قاضی نے پوچھا: کیا تمھارے پاس اس نکاح کا کوئی گواہ ہے؟

    خاتون نے کہا، جی قاضی صاحب! دو گواہ بھی تھے، ان ہی کی موجودگی میں یہ نکاح ہوا تھا۔ قاضی نے عورت کے کہنے پر اس کے سابق شوہر اور ان گواہوں کو طلب کرلیا جن کا نام اور پتہ عورت نے بتایا تھا۔ مگر شوہر نے بھری عدالت میں خاتون کو پہچاننے سے انکار کردیا جب کہ گواہوں‌ نے بھی جھوٹ کا سہارا لیا وار کہا کہ وہ اس عورت کے نکاح کی تقریب میں شریک نہ تھے۔ انھوں نے بیک زبان ہور یہ تک کہہ دیا کہ ہم نے تو آج سے پہلے اس خاتون کو کبھی دیکھا تک نہیں۔

    قاضی صاحب نے ان کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے خاتون سے پوچھا۔ کیا تمہارے شوہر کے گھر پر کتّے ہیں؟

    خاتون نے کہا جی ہاں۔

    قاضی نے خاتون سے پوچھا۔ کیا آپ ان بے زبانوں کی گواہی کو قبول کریں گی؟

    خاتون نے کچھ سوچ کر کہا، جی قاضی صاحب مجھے ان کی گواہی اور فیصلہ قبول ہوگا۔ اس پر قاضی نے حکم دیا کہ خاتون کو اس شخص کے گھر لے جایا جائے۔ اگر وہ کتّے اس خاتون کو دیکھ کر بھونکنے لگیں تو یہ عورت جھوٹی ہے۔ اور اگر وہ اسے دیکھ کر خوش ہوں اور اس کا استقبال کریں تو مجھے خبر کرو۔ یہ حکم جاری ہوا تو قاضی اور عدالت میں موجود لوگوں نے اس عورت کے شوہر اور گواہوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ ان کے چہروں پر خوف نمایاں‌ تھا اور وہ اپنا جھوٹ پکڑے جانے کی وجہ سے پریشان نظر آنے لگے تھے۔

    تب قاضی کی آواز کمرۂ عدالت میں گونجی کہ فیصلہ تو ہوچکا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔ کیا ضرورت ہے کہ وقت برباد کیا جائے اور انصاف میں تاخیر ہو۔ اس کے ساتھ ہی قاضی نے سپاہیوں کو حکم جاری کیا کہ طلاق دینے والے اور نکاح کے گواہوں کو گرفتار کیا جائے اور جھوٹ بولنے اور ایک عورت کی حق تلفی کی سزا کے طور پر کوڑے لگائے جائیں۔

    قاضی نے اپنے مشاہدے میں لکھا، وہ بدترین بستیاں ہوتی ہیں جن میں منصف کو انسانوں کے بجائے عقل و شعور سے عاری اور بے زبان جانوروں کی گواہی پر فیصلہ سنانا پڑتا ہے۔”

  • بہرام بادشاہ اور شہر بانو (لوک کہانی)

    بہرام بادشاہ اور شہر بانو (لوک کہانی)

    پرانے وقتوں میں بہرام نامی ایک بادشاہ گزرا ہے۔ وہ بہت خوبصورت، نیک سیرت، رحم دل اور انصاف پسند تھا۔ اس کے دور میں عوام خوش حال تھے۔ لیکن ایک بات بہت عجیب تھی کہ بادشاہ کبھی اپنے محل سے باہر نہیں نکلتا تھا اور کسی نے کبھی اس کی صورت نہیں دیکھی تھی۔ ملک کے تمام حکومتی امور اس کا وزیر سر انجام دیا کرتا تھا۔ اس کی رعایا کے علاوہ قرب و جوار میں رہنے والے جنات بھی اس کی صورت دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ سب کی بڑی آرزو تھی کہ وہ بادشاہ کا دیدار کریں‌ لیکن اس سے محروم تھے۔

    ایک دیو جس کا نام سفید دیو تھا وہ دن رات بادشاہ کو دیکھنے کی ترکیبیں سوچتا رہتا۔ ایک دن دل میں یہ ٹھان کر کہ بادشاہ کو دیکھ کر رہوں گا وہ محل کی طرف چل پڑا اور دروازے پر کر پہنچ کر ملازمت کی درخواست کی۔ اسے خدمت گاروں میں رکھ لیا گیا۔ کافی عرصہ گزر گیا لیکن بادشاہ کو پھر بھی نہ دیکھ سکا۔ اس کے ذاتی کمرہ تک تو اس معمولی خدمت گار کو رسائی تھی ہی نہیں اور اس کی کوئی صورت نظر بھی نہیں آتی تھی۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ بادشاہ کے پاس صرف اس کا وزیر بلا روک ٹوک جا سکتا تھا۔

    ایک دن اسے سوجھی کہ کیوں نہ وزیر کی کھال میں گھس کر اندر داخل ہوا جائے۔ چنانچہ اگلے دن وزیر جب بادشاہ کو سلام کرنے کی غرض سے آیا تو وہ اس کی کھال میں داخل ہو گیا۔ بادشاہ کے خاص کمرے کے دروازے پر پہنچا تو خدام نے با آواز بلند وزیر کی آمد کی اطلاع دی۔ اجازت ملنے پر وزیر کمرے میں داخل ہوا اور بادشاہ کو سلام کرکے اپنی مخصوص نشست پر جا بیٹھا۔ بادشاہ اور وزیر امور سلطنت پر گفتگو کرتے رہے۔ باتوں باتوں میں وزیر نے عرض کی بادشاہ سلامت رعایا آپ کو ایک نظر دیکھنے کی بے حد متمنی ہے۔بہت سے لوگ تو آپ کو دیکھنے کی حسرت دل میں لئے اس جہان سے رخصت ہو چکے ہیں۔آپ اپنی رعایا کی یہ آرزو پوری فرما دیجیے۔ بادشاہ نے کہا مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میری رعایا مجھے اس قدر چاہتی ہے۔ کل صبح ہم شکار کے لئے نکلیں گے اور ہمارے ساتھ تمام امراء اور خاص ملازمین بھی ہمرکاب ہوں گے۔ وزیر باہر نکلا تو بادشاہ کا حکم تمام متعلقہ لوگوں تک اس تاکید کے ساتھ پہنچا دیا کہ صبح وقت مقررہ پر سب لوگ تیار رہیں۔

    سفید دیو وزیر کی کھال سے نکل کر شکار گاہ کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنے آپ کو ایک نہایت خوبصورت سفید گھوڑے کے روپ میں ڈھال لیا جس پر سنہری زین کسی ہوئی تھی اور اس کی باگیں بھی سنہری تھیں۔ سفید دیو نے رات اسی شکل میں وہیں گزار دی۔

    اگلی صبح بادشاہ پورے تام جھام کے ساتھ اپنے محل سے نکلا۔ راستے کے دونوں طرف رعایا بیتاب نظروں سے اپنے بادشاہ کو ایک نظر دیکھنے کے لیے قطار اندر قطار کھڑی تھی۔ بادشاہ لوگوں کے نعروں کا جواب دیتا ہوا اپنے مصاحبوں کے جلو میں شکار گاہ کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

    بادشاہ کے آگے آگے چلنے والے مددگار شکاری جب شکار گاہ کے قریب پہنچے تو سنہری زین اور سنہرے لگاموں والے خوبصورت سفید کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انھیں‌ یہ بہت پراسرار لگا تھا اور وہ بادشاہ کے پاس واپس گئے اور اس پراسرار گھوڑے کے بارے میں بتایا۔ بادشاہ بھی اشتیاق میں گھوڑے کو ایڑھ لگا کر وہاں جا پہنچا۔ اس نے اپنے وزیر سے کہا کہ جاؤ اس گھوڑے کی سواری کر کے دکھاؤ۔ وزیر نے عرض کیا حضور یہ گھوڑا آپ کے شایان شان ہے اور لگتا ہے کہ صرف آپ ہی کی سواری کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ بادشاہ اپنے گھوڑے سے اتر ا اور بسم اﷲ پڑھ کر سفید گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ بادشاہ اپنے وزیر اور مصاحبوں کو واپسی کا حکم دے کر مڑ گیا۔ بادشاہ نے جب محسوس کیا کہ اس کی رانوں تلے ایک شاندار سواری ہے تو اسے ایڑھ لگا دی۔ گھوڑا اتنا تیز رفتار تھا کہ اس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پیچھے آنے والے اس کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکے۔

    ایک جگہ پہنچ کر گھوڑا اپنی اصلی یعنی سفید دیو کی شکل میں آ گیا اور بادشاہ کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر آسمان کی طرف اڑ گیا۔ ایک بہت خوبصورت مکان میں پہنچ کر دیو نے بادشاہ بہرام کو کندھے سے اتارا۔ عزت کے ساتھ ایک عالیشان مسند پر بٹھایا اور سلام کر کے عرض کیا۔ آج میری دلی آرزو پوری ہوئی اور میں نے آپ کو دیکھ لیا۔ اب میں چاہتا ہوں آپ میرا بیٹا بن کر یہیں رہیں۔ آج سے آپ میری تمام دولت کے مالک ہیں۔ بادشاہ دیو کے آگے بے بس تھا اس لئے خاموشی سے اس کی ہر بات مان لی۔ وہ اب سفید دیو کی تحویل میں تھا۔ دیو اس سے روز ملتا اور نہایت محبت، شفقت اور عزت سے پیش آتا۔ کئی پریوں کو اس کی خدمت پر مامور کر دیا گیا تھا۔ وہ ان کے ساتھ باغات کی سیر کو جاتا تھا۔

    ادھر جب بادشاہ اپنے محل واپس نہ پہنچا اور کئی روز گزر گئے تو امرائے دربار نے رو پیٹ کر وزیر کو اپنا بادشاہ چن لیا اور عنان حکومت اس کے ہاتھوں میں سونپ دی۔ دن یونہی گزرتے رہے۔ ایک دن سفید دیو کو اپنے بھائی کی طرف سے اس کے بیٹے کی شادی میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ وہ بہرام بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر بولا کہ وہ کچھ دنوں کو اپنے بھتیجے کی شادی میں شریک ہونے جا رہا ہے۔ پریاں موجود ہیں جو آپ کا پورا خیال رکھیں گی۔ پریوں‌ کو سفید دیو نے جاتے ہوئے کہا کہ ایک بات کا خیال رکھنا کہ جس باغ کا دروازہ بند ہے اسے کبھی نہ کھولنا۔

    اگلے روز بہرام پریوں کے ساتھ گھومتا ہوا جب بند دروازے والے باغ تک پہنچا تو پریوں کو اس کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔ پریوں نے کہا کہ ہمیں یہ دروازہ کھولنے کا حکم نہیں ہے۔بادشاہ بہرام نے بہت اصرار کیا لیکن وہ نہیں مانیں۔ دراصل وہ باغ سفید دیو نے ایک نہایت حسین و جمیل پری شہر بانو کے لیے بنایا تھا۔ شہر بانو اس باغ میں ایک طرح سے قید تھی۔دیو اس کی محبت میں گرفتار تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن شہر بانو رضا مند نہیں تھی۔ اس بات سے دیو سخت ناخوش اور نالاں تھا۔ بادشاہ بہرام نے اگلے روز پھر دروازہ کھولنے کی ضد کی۔ اس نے پریوں سے کہا کہ اگر آج تم نے دروازہ نہ کھولا تو میں اپنی جان لے لوں گا۔ پریاں یہ سوچ کر ڈر گئیں کہ اگر یہ مرگیا تو سفید دیو ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔چنانچہ انہوں نے باغ کادروازہ کھول دیا۔ بہرام جب باغ میں داخل ہوا تو اس کی خوبصورتی دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ باغ کیا تھا جنت کا ٹکڑا تھا۔ وہاں ایک بید کا درخت تھا جس سے آنسوؤں کی طرح خوشبودار پانی نکل کر تالاب کو معطر کر رہا تھا۔ اس روز بہرام گھوم گھام کر اپنے کمرے میں واپس آ گیا۔ اگلی صبح پھر اس باغ میں چلا گیا اور تالاب کے قریب ایک جھاڑی میں گڑھا کھود کر اس میں چھپ گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے دیکھا کہ سات کبوترآکر بید کے درخت پر بیٹھ گئے۔ تھوڑا سستا لئے تو اس میں سے ایک بولا آؤ شہر بانو کی آمد سے پہلے تالاب میں ڈبکی لگالیں۔ یہ کبوتر اصل میں پریاں تھیں اور شہر بانو کی خدمت پر مامور تھیں۔ تالاب میں ڈبکی لگا کر وہ ساتوں اڑ گئیں اور کچھ ہی دیر بعد شہر بانو کو اپنے جھرمٹ میں لا کر تالاب کے کنارے ایک پلنگ پر بٹھا دیا۔ شہربانونے آتے ہی آدم بو آدم بو چلانا شروع کردیا اور حکم دیا کہ کوئی آدم زاد باغ میں گھس آیا ہے فوراً اسے ڈھونڈھ کر لاؤ۔ پریوں نے بہت تلاش کیا لیکن کوئی نہ ملا۔

    شہر بانو کا ملکوتی حسن دیکھ کر بادشاہ بہرام اس کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔ اب وہ اسے حاصل کرنے کا خواہاں تھا۔ اس نے گائے کے گوبر سے بنے اپلوں کو جلایا اور شہر بانو کے وہ کپڑے اٹھا کر انہیں دھونی دینے لگا جو اس نے تالاب میں‌ نہانے کے لیے جاتے وقت اتارے تھے۔ پریاں یہ دیکھ کر غائب ہو گئیں اور شہر بانو اپنی برہنگی کی وجہ سے تالاب میں رہ گئی۔ اس نے منت سماجت کرتے ہوئے کہا تم جو بھی ہو میرا لباس مجھے واپس کر دو۔ بہرام نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن پھر شہر بانو نے منت کی اور پھر ایک پری نے کہا تو بہرام نے دھونی لگے ہوئے کپڑے اس کی طرف اچھال دیے۔ پری نے کپڑے پہن لئے لیکن کپڑوں میں اپلوں کی دھونی کی وجہ اس کی اڑنے کی طاقت ختم ہو گئی تھی۔ یہ سب دراصل بادشاہ جانتا تھا اور ایک منصوبے کے تحت ایسا کیا تھا۔ اب اس نے تالاب میں‌ موجود شہر بانو کا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے گھر لے آیا۔ وہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔

    ادھر سفید دیو اپنے بھتیجے کی شادی میں شرکت کے بعد واپس آگیا اور شہزادہ بہرام کو سلام کرنے چلا گیا۔ دیو کی آواز سن کر دونوں بہت گھبرائے۔ بہرام نے ڈر کر شہر بانو کو چھپا لیا۔ دیو مزاج پرسی کے بعد واپس چلا گیا۔ اگلے روز جب دیو حاضر ہوا اور بہرام کو خاموش اور افسردہ پایا تو پوچھا تو اس نے سب کچھ بتا دیا اور یہ سن کر سفید دیو کو غصہ تو بہت آیا کیونکہ وہ خود بھی شہر بانو کو چاہتا تھا۔ لیکن بہرام کو بیٹا بنا چکا تھا اس لیے اسے معاف کردیا اور دونوں کا نکاح کروا دیا۔

    کافی عرصہ بیت گیا۔ ایک روز شہزادہ بہرام نے ایک بھیانک خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ کہ اس کے ملک میں عنان حکومت ایک شہنائی بجانے والے میراثی کے ہاتھوں میں آ چکی ہے جو اس کی بیوی اور بچوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ اس نے شہربانو کو یہ بتایا اور دونوں نے سفید دیو کی خدمت میں حاضر ہو کر اس سے زمین پر جانے کی اجازت طلب کی جو فوراً مل گئی۔ دیو نے اپنا ایک بال اسے دیا اور کہا جب میری ضرورت ہو تو اسے آگ دکھا دینا میں مدد کو حاضر ہو جاؤں گا۔ بہرام اور شہر بانو ایک گھنٹے کے بعد ملک کی سرحد پر پہنچ گئے۔ عین سرحد پر انہیں ایک چھوٹا سا مکان نظر آیا۔ دروازے پر دستک دی تو ایک بوڑھا آدمی باہر نکلا اور بات کرنے پر دونوں کو گھر کے اندر لے گیا۔ اندر پہنچ کر اس نے شہزادہ بہرام کو پہچان لیا کیوں کہ وہ اس کا اتالیق تھا۔ وہ اتالیق کے کہنے پر چند روز اس کے گھر رک گیا اور ایک روز ملک کا وہی حکمران جسے بہرام کی جگہ بادشاہ مقرر کیا گیا تھا شکار کے لئے ادھر آنکلا۔ جب وہ بوڑھے کے مکان کے قریب سے گزرا تو اس کی نظر کھڑکی میں بیٹھی شہر بانو پر پڑ گئی جس کے حسن نے اس کی آنکھوں کو خیرہ کر کے رکھ دیا۔ اس نے اپنے دو پیادوں کو حکم دیا کہ گھر کے اندر جاؤ اور وہاں جو عورت ہے اس سے کہو کہ ملک کا بادشاہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ دونوں پیادے جب گھر میں داخل ہوئے تو شہر بانو کی خوبصورتی دیکھ کر بیہوش ہو گئے۔ کافی دیر تک جب وہ باہر نہیں آئے تو اس نے شادی کے پیغام کے ساتھ دو اور پیادے اندر بھیجے۔ پیادوں نے بادشاہ کا پیغام شہر بانو کو پہنچایا تو اس نے جواب دیا میں شادی شدہ ہوں تمہارے بادشاہ سے شادی نہیں کر سکتی۔ بادشاہ کو جب یہ جواب ملا تو اس نے حکم دیا کہ اسے زبردستی اٹھا لاؤ۔ لیکن وہ جادوئی لباس پہن کر بوڑھے اتالیق کو اپنا پیغام دے کر پرواز کرگئی۔

    بوڑھے اتالیق نے شہر بانو کا پیغام سن لیا اور شہزادہ بہرام کو بتانے دوڑا۔ یہ جان کر بہرام نے آگ جلائی اور سفید دیو کا دیا ہوا بال اس میں پھینک دیا۔ دیو فوراً حاضر ہو گیا اور بادشاہ کے پیادوں اور تمام لشکری کو ہڑپ کر گیا۔

    اب بہرام نے محل کا رخ کیا اور سب اسے دیکھ کر حیران ہوگئے۔ اس نے بوڑھے اتالیق کو قائم مقام بادشاہ مقرر کیا رعایا کو نصیحت کی کہ میرے واپس آنے تک ان کی اطاعت تم پر فرض ہے۔ میں اپنی بیوی شہر بانو کو لینے شہر شاسکن جا رہا ہوں۔ لیکن یہاں ایک مصیبت یہ تھی کہ وہ اس شہر شاسکن کا راستہ نہیں‌ جانتا تھا اور پھر سفید دیو کے ایک ساتھی نے مدد کی تو وہ اس نئے سفر پر روانہ ہوسکا جہاں شہر بانو اس کی منتظر تھی۔ بہرام اور شہر بانو دوبارہ اپنے ملک پہنچے تو رعایا نے پورے جوش و خروش کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ بادشاہ کی حیثیت سے بہرام نے بوڑھے اتالیق کو اپنا وزیر مقرر کر لیا اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (ہنزہ کی لوک کہانی کا انگریزی سے ترجمہ اور تلخیص)

  • اشرفیوں والا صندوق

    اشرفیوں والا صندوق

    ایک زمین دار تھا، بہت امیر۔ گاؤں کی ساری اچھّی اور زرخیز زمینیں اس کی ملکیت تھیں۔ ان زمینوں کے سرے پر ایک ٹکڑا ایسی بنجر زمین کا تھا جس میں کچھ پیدا نہ ہوتا تھا۔ زمیں دار نے سوچا، اس زمین سے کوئی فائدہ تو ہوتا نہیں، کیوں نہ اسے کسی غریب کسان کو دے کر اس پر احسان جتایا جائے۔ اگر اس کی محنت سے زمین اچھّی ہو گئی اور فصل دینے لگی تو پھر واپس لے لوں گا۔

    زمین دار کے پاس بہت سے کسان کام کرتے تھے۔ ان میں سے اس نے ایک ایسا کسان چنا جس کے متعلق اسے یقین تھا کہ اگر کبھی زمین واپس لینی پڑے تو چپ چاپ واپس کر دے گا۔ زمیں دار نے کسان کو بلایا اور کہا ”میں اپنی زمین کا وہ ٹکڑا جو ٹیلے کے پاس ہے، تمہیں دیتا ہوں۔ میرا اس سے اب کوئی تعلّق نہیں۔ تم محنت کر کے اسے ٹھیک کرو۔ اس میں تم جو بھی فصل اگاؤ گے، وہ تمہاری ہو گی۔“ کسان نے زمیں دار کا شکریہ ادا کیا اور اگلے ہی دن زمین پر کام شروع کر دیا۔

    اس نے ایک ہفتے لگاتار محنت کر کے زمین میں سے کنکر، پتھر اور گھاس پھونس صاف کیا اور پھر اس میں ہل چلانا شروع کیا۔ لیکن ایک جگہ ہل کسی چیز میں اٹک گیا۔ اس نے ہل روک لیا اور اس چیز کو نکالنے کے لیے اس جگہ زور سے پھاؤڑا مارا۔ جوں ہی پھاؤڑا زمین پر لگا، ایسی آواز آئی جیسے لوہا لوہے سے ٹکراتا ہے۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ زمین کے اندر لوہے کا کیا کام! اس نے پھاؤڑا پھینک دیا اور بیلچے سے آہستہ آہستہ زمین پر سے مٹّی ہٹانے لگا۔

    کوئی فٹ بھر مٹّی ہٹانے کے بعد اس نے ہاتھ سے چھو کر دیکھا تو یوں محسوس ہوا جیسے لوہے کا صندوق ہے۔ اس نے جلدی جلدی مٹّی ہٹائی۔ واقعی وہ صندوق تھا۔ اب تو اس کی دلچسپی بڑھ گئی۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ دور دور تک کوئی نہ تھا۔ اس نے صندوق کے چاروں طرف کی مٹّی کھودی اور پورے زور سے صندوق کو ہلایا۔ لیکن وہ اتنا بھاری تھا کہ ذرا بھی نہ ہلا۔ اس میں ایک موٹا سا تالا پڑا ہوا تھا۔ کسان نے پھاؤڑا تالے پر مارا تو وہ ٹوٹ گیا۔ اس نے جلدی جلدی ڈھکن اٹھایا۔ مارے حیرت کے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ صندوق میں سونے کی اشرفیاں بھری ہوئی تھیں۔ کسان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے اشرفیوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ واقعی سونے کی اشرفیاں تھیں۔ اس نے پھر ایک بار ادھر ادھر دیکھا۔ آس پاس کوئی نہ تھا۔ اس نے ایک اشرفی اٹھا کر جیب میں ڈالی، صندوق کو بند کیا اس کے اوپر مٹّی ڈال کر زمین برابر کر دی۔ آدمی سمجھدار تھا۔ اس نے سوچا اگر جلد بازی سے کام کیا تو ساری دولت ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ وہ چپ چاپ ہل چلاتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ سوچتا رہا کے اس صندوق کو یہاں سے لے جانے میں کس سے مدد لے۔

    آخر وہ اس فیصلے پر پہنچا کہ سوائے بیوی کے اور کسی کو یہ راز نہ بتانا چاہیے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اس کی بیوی پیٹ کی بہت ہلکی تھی۔ وہ جب بھی اپنی بیوی کو کوئی راز کی بات بتاتا، وہ سارے گاؤں میں اسے پھیلا دیتی۔

    سوچ سوچ کر کسان نے اس کا بھی حل ڈھونڈ لیا. وہ شہر گیا اور ایک سنار کے ہاتھ اشرفی فروخت کی۔ سنار نے اسے اتنے روپے دیے کہ اس کی جیبیں بھر گئیں۔ اب وہ پکوڑوں کی دکان پر گیا اور ایک من پکوڑے خریدے۔ پکوڑے لے کر وہ اپنے کھیت میں گیا اور سارے کھیت میں پکوڑے بکھیر دیے۔ اس کے بعد وہ پھر شہر گیا اور بازار سے دو سو سموسے، ایک جھاڑو اور چار کبوتر خریدے۔ پھر ایک مزدور سے یہ سب چیزیں اٹھوا کر گھر آ گیا۔ لیکن گھر میں داخل نہ ہوا، بلکہ پچھلی دیوار سے چھت پر چڑھ کر سارا سامان رسّی میں باندھ کر اوپر کھینچ لیا۔ اس کی بیوی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔

    اَب کسان نے ساری چھت اور منڈیروں پر پکوڑے بکھیر دیے۔ پھر سیڑھیوں پر پکوڑے بکھیرتا ہوا نیچے آیا اور جھاڑو اور کبوتر ایک کمرے میں چھپا دیے۔
    اسے دیکھتے ہی اس کی بیوی کہنے لگی ”تم کو تو بس گھر کی کچھ پروا ہی نہیں ہے۔ اس بے کار زمین پر سارا دن وقت ضائع کرتے رہتے ہو۔ میں پوچھتی ہوں، کیا ہم ہمیشہ یوں ہی بھوکے رہیں گے؟ اس زمین کو چھوڑو۔ کوئی اور کام کرو، جس سے چار پیسے ہاتھ آئیں؟“

    کسان بولا، ” اری نیک بخت، ذرا صبر تو کر۔ مجھے سانس تو لینے دے۔ تھکا ہارا آ رہا ہوں، اور تو نے اوپر سے باتیں بنانا شروع کر دیں۔ لا، کچھ کھانے کو دے۔“
    بیوی بولی ”کھانے کو کیا دوں ؟ گھر میں کچھ تھا ہی نہیں جو پکاتی۔ ہمسایوں کے ہاں پوچھتی ہوں۔ شاید ان کے پاس کچھ فالتو بچ رہا ہو۔“

    یہ کہہ کر وہ چھت پر جانے کے لیے سیڑھی پر چڑهی تو پکوڑے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ چھت پر پہنچی تو وہاں بھی ہر طرف پکوڑے پڑے تھے۔ وہ وہیں سے چلائی ” ارے۔۔۔! ارے۔۔۔! ادھر آؤ۔“ کسان نے کہا ”کیا ہے؟“

    بیوی بولی ”دیکھو، آج ہمارے گھر پکوڑوں کی بارش ہوئی ہے۔ ذرا اوپر تو آؤ۔۔۔۔“
    کسان اوپر جا کر بولا ”واقعی۔ یہ تو کمال ہو گیا۔ انہیں اکٹھا کر لو۔ ایک ہفتہ آرام سے کھائیں گے۔“

    جب وہ پکوڑے کھا رہے تھے تو کسان نے کہا ”میں تمہیں ایک خوش خبری سناتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ بات تمہارے سوا کسی اور کو معلوم نہ ہو۔“ بیوی بولی ” تم پوری تسلّی رکھو۔ میں کسی سے ذکر نہ کروں گی۔“ اس پر کسان نے بیوی کو صندوق والی بات بتا دی۔ لیکن پکوڑوں، سموسوں، جھاڑو اور کبوتروں کے بارے میں کچھ نہ بتایا۔ اتنی دولت کا خیال کر کے کسان کی بیوی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہ بولی ”چلو، ابھی اٹھا لاتے ہیں وہ صندوق۔“

    کسان بولا ”کیسی باتیں کر رہی ہو۔ رات تو ہو لینے دو۔“ اندھیرا ہوا تو دونوں گھر سے باہر نکلے۔ کسان نے کہا ” پہلے تم جاؤ۔ میں تھوڑی دیر بعد آؤں گا۔“ بیوی چلی گئی تو کسان نے جلدی جلدی کبوتروں کو ذبح کیا اور ان کے خون میں جھاڑو کو خوب تر کر لیا۔ پھر بھاگ کر بیوی سے آملا۔

    دونوں زمین کی طرف جا رہے تھے کہ کسان نے چپکے سے جھاڑی ہلائی، جس سے خون کے چھینٹے اڑ کر اس کی بیوی کے کپڑوں پر پڑے۔ بیوی نے کپڑے دیکھے تو بولی: ”ارے آسمان تو بالکل صاف ہے۔ تارے نکلے ہوئے ہیں۔ یہ بارش کہاں سے ہوئی ہے؟“

    کسان بولا ”صاف موسم میں بارش ہو تو پانی کے بجائے خون برستا ہے۔“ یوں ہی باتیں کرتے ہوئے وہ اپنی زمین پر پہنچ گئے۔ کھیت میں قدم رکھتے ہی کسان کی بیوی چلّائی:
    ” ارے ارے یہ دیکھو! یہ تو سموسوں کی بارش ہوئی ہے!“ یہ کہہ کر اس نے سموسے اٹھا اٹھا کر کھانے شروع کر دیے۔ اس کے بعد دونوں نے اشرفیوں کا صندوق نکالا اور خاموشی سے گھر کی طرف چل دیے۔ راستے میں زمین دار کی حویلی پڑتی تھی۔ کسان اور اس کی بیوی حویلی کے پاس سے گزرے تو حویلی کے چوکی دار کے کراہنے کی آواز آئی۔ کسان جانتا تھا کہ چوکی دار کافی عرصے سے بیمار ہے۔ بیوی نے پوچھا:

    ”یہ کون رو رہا ہے؟“ کسان بولا ”سنا ہے ایک جن زمیندار کو اٹھا کر لے گیا ہے۔ اسی لیے اس کے بیوی بچّے رو رہے ہیں۔“ گھر پہنچ کر کسان نے زمین کھودی اور بیوی کی مدد سے اشرفیوں والا صندوق اس میں دبا دیا۔ صبح اٹھتے ہی کسان کی بیوی نے کسان سے مطالبہ شروع کر دیا کہ اسے اچھے اچھے کپڑے اور زیورات بنانے کے لیے کچھ اشرفیاں دے۔ لیکن کسان ڈرتا تھا کہ اگر اس طرح انہوں نے روپیہ خرچ کیا تو لوگ سوچیں گے کہ ان کے پاس اچانک اتنی دولت کہاں سے آ گئی۔ دوسرے وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیوی فضول دولت اڑانی شروع کر دے۔ اس نے اشرفیاں دینے سے انکار کر دیا۔

    بیوی اپنی عادت کے مطابق شوہر سے خوب لڑی اور پھر ناراض ہو کر پڑوس میں جا بیٹھی۔ کسان نے زمین میں سے صندوق نکالا اور صحن کے کونے میں نیا گڑھا کھود کر اس میں دفن کر دیا۔ شام کو کسان کی بیوی واپس آئی اور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر بعد ہمسائے کی بیوی آئی اور کسان کی بیوی نے اس سے کہا ”بہن میں تمہیں ایک بات بتاتی ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تم اس کا ذکر کسی اور سے نہ کرنا۔“

    ہمسائی نے اسے یقین دلایا کہ وہ کسی سے نہ کہے گی تو کسان کی بیوی نے اسے اشرفیوں والے صندوق کی بات بتا دی۔ عورتوں کے پیٹ میں کوئی بات نہیں ٹھہرتی۔ ہمسائی نے وہ بات کسی اور کو بتا دی، اور یوں ہوتے ہوتے یہ بات تمام گاؤں میں پھیل گئی۔ زمیندار کے کان میں بھی اس کی بھنک پڑ گئی۔

    زمیندار غصّے سے بپھرا ہوا کسان کے گھر آیا اور بولا”تو بہت دھوکے باز اور بے ایمان ہے۔ میں نے تیری غربت کا خیال کر کے تجھے زمین دی۔ اس زمین میں سے اشرفیوں کا صندوق نکلا تو تجھے چاہیے تھا کہ فوراً میرے حوالے کر دیتا۔ کہاں ہے وہ صندوق؟“

    کسان پہلے تو گھبرایا لیکن پھر گھبراہٹ پر قابو پاکر کہا ”حضور، میری کیا مجال کہ اتنی بڑی دولت ہاتھ آتی اور میں آپ سے چھپاتا۔ ایسی تو کوئی بات نہیں۔“

    زمین دار گرج کر بولا ”سارا گاؤں اس بات کو جانتا ہے۔ تیری بیوی نے سب کو بتا دیا ہے۔ وہ خود تیرے ساتھ وه صندوق اٹھا کر لائی ہے۔ زیاده چالاکی مت کر۔ جلدی بتا، کہاں ہے وہ صندوق؟“

    کسان نے زمیندار کے آگے ہاتھ جوڑ تے ہوئے کہا ”حضور یہ بڑی جھوٹی عورت ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ ہمیشہ مجھ سے لڑتی رہتی ہے۔ یہ بات بھی اس نے مجھے بدنام کرنے کے لیے گھڑی ہے۔“

    کسان کی بیوی، جو اب تک چپ بیٹھی تھی ایک دم برس پڑی ”کیوں جھوٹ بولتے ہو۔ اس دن مجھے ساتھ لے کر نہیں گئے تھے؟“

    کسان نے کہا ”کس دن کی بات کر رہی ہو؟“

    بیوی بولی ” جس دن شام کو پکوڑوں کی اور رات کو سموسوں کی بارش ہوئی تھی۔“

    کسان کی بیوی کی یہ بات سن کر زمیندار نے سوچا کہ کہیں ا،س عورت کا دماغ تو نہیں چل گیا۔ کبھی پکوڑوں اور سموسموں کی بارش بھی ہوئی ہے!

    کسان اپنی اسکیم کی کامیابی بہت خوش تھا۔ اس نے بیوی سے کہا ”اور کیا ہوا تھا اس دن؟“

    بیوی بولی ”خون کی بارش ہوئی تھی۔ اور کیا ہونا تھا۔“

    زمیندار نے کسان سے کہا ”کیسی باتیں کر رہی ہے تیری بیوی۔ خون کی بارش تو ہم نے نہ کبھی سنی نہ دیکھی۔“

    کسان نے کہا ” یہ ہمیشہ ایسے ہی بَک بَک کرتی رہتی ہے۔“ پھر اس نے اپنی بیوی سے کہا ”کچھ اور یاد ہو تو وہ بھی بتاؤ۔۔۔۔“

    ” ہاں ہاں“ بیوی بولی ”اس دن ایک جن زمیندار صاحب کو اٹھا کر لے گیا تھا اور حویلی میں لوگ رو رہے تھے۔۔۔“

    یہ سنتے ہی زمیندار کو غصّہ آ گیا۔ اس نے اپنے ملازموں سے کہا ” اس چڑیل کی خوب مرمت کرو۔ کسی جن کی جرأت ہے کہ مجھے اٹھا کر لے جائے۔ اس کم بخت نے جھوٹ بول کر غریب کسان کو ناحق بدنام کیا۔۔۔“

    کسان کی بیوی بولی ”حضور، آپ اس کی باتوں میں نہ آئیں۔ میں آپ کو وہ جگہ دکھاتی ہوں جہاں ہم نے صندوق دبایا تھا۔۔۔“

    زمیندار کے حکم سے ملازموں نے وہ جگہ کھودی جہاں کسان کی بیوی کے مطابق اشرفیوں کا صندوق دبایا گیا تھا۔ لیکن وہاں سے کچھ بھی نہ نکلا۔

    اب تو زمیندار کو یقین ہو گیا کہ اس عورت کے دماغ میں ضرور کوئی خرابی ہے۔ وہ غصّے سے پیر پٹختا ہوا چلا گیا۔

    کسان نے بیوی سے کہا ”اب کیا خیال ہے ؟ اور بتاؤ لوگوں کو یہ بات اور خوب جوتے کھاؤ۔“

    بیوی اپنے کیے پر بہت شرمندہ تھی۔ اس نے شوہر سے معافی مانگی اور آئندہ کبھی گھر کی بات کسی کو نہ بتائی۔ کچھ عرصے بعد وہ دونوں گاؤں چھوڑ کر شہر چلے گئے اور وہاں ہنسی خوشی رہنے لگے۔

    (یورپی ادب سے ماخوذ اس کہانی کے مترجم سیف الدّین حُسام ہیں)

  • باغ اجاڑنے والی شہزادی (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

    باغ اجاڑنے والی شہزادی (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

    کسی بادشاہ کے محل میں ایک بہت خوب صورت باغ تھا جس کی دیکھ بال کے لیے بہت سے مالی بادشاہ نے مقرّر کر رکھے تھے۔

    لیکن کچھ عرصے سے ایسا ہو رہا تھا کہ روزانہ رات کو کوئی مخلوق باغ میں آتی اور درختوں کی شاخیں توڑ دیتی۔ بادشاه مالیوں سے بڑا ناراض تھا۔ مالی ہر طرح کوشش کر رہے تھے کہ اُن لوگوں کو پکڑا جائے جو باغ کو تباہ کر رہے ہیں۔ آخر بہت کوشش کے بعد مالیوں کو پتا چلا کہ آدھی رات کے قریب تین ہنس، باغ میں آتے ہیں لیکن صبح جب پڑتال کی جاتی تو گھاس پر انسانی پاؤں کے نشان نظر آتے۔

    بادشاہ نے باغ کی رکھوالی کے لیے چوکی دار رکھے۔ لیکن عجیب بات تھی کہ جوں ہی ہنسوں کے آنے کا وقت ہوتا چوکی داروں کو نیند آ جاتی اور اگلی صبح درختوں کی کئی شاخیں ٹوٹی ہوئی ہوتیں۔

    اس بادشاہ کے تین بیٹے تھے۔ بڑے دو بیٹے تو کافی چاق و چوبند تھے لیکن چھوٹا بہت سست اور ڈھیلا سا تھا۔ لوگ اُسے بے وقوف سمجھتے تھے۔

    بادشاہ کے بڑے بیٹے باپ کی پریشانی پر خود بھی پریشان تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح باغ اُجاڑنے والوں کا پتا چل جائے۔ چناں چہ سب سے بڑے شہزادے نے بادشاہ سے کہا: ”ابّا جان، مجھے اجازت دیجیے کہ میں اُن لوگوں کا پتا چلاؤں جو ہمارے باغ کو تباہ کر رہے ہیں۔“

    بادشاہ بولا ”ضرور ضرور۔ تم یہ کام نہیں کرو گے تو اور کون کرے گا۔“

    بڑا شہزادہ شام ہوتے ہیں باغ میں داخل ہوگیا اور بادام کے درخت کے نیچے چھپ کر بیٹھ گیا۔ اُس نے پکّا ارادہ کر لیا تھا کہ وہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی آنکھ بند نہیں کرے گا۔ لیکن عین اُس وقت جب اُسے ہوشیار ہو کر بیٹھنا چاہیے تھا اُس کی آنکھ لگ گئی۔ باغ میں آندھی آئی اور اُس آندھی میں تینوں ہنس اُڑتے ہوئے باغ میں اترے۔

    صبح جب بادشاہ شہزادے کا کارنامہ دیکھنے آیا تو وہ یہ دیکھ کر بہت مایوس ہُوا کہ شہزادہ گہری نیند سویا ہوا ہے، اور اُس درخت کی تین شاخیں ٹوٹی ہوئی ہیں جس کے نیچے وہ لیٹا تھا۔ بادشاہ کو بہت غصّہ آیا۔ وہ ناراض ہو کر بولا: ”اگر تم میرے بیٹے نہ ہوتے تو میں تمہارے کان اور ناک کٹوا کر گدھے پر سوار کر کے، تمام شہر میں گھماتا! دفع ہو جاؤ یہاں سے۔“

    اگلے دن دوسرے شہزادے نے چوروں کو پکڑنے کا ارادہ کیا۔ لیکن اُس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہُوا جو پچھلی رات بڑے شہزادے کے ساتھ ہوا تھا۔

    تیسرے دن سب سے چھوٹے شہزادے نے باغ میں جانے کی اجازت چاہی تو بادشاہ نے کہا ”تم تو بالکل ہی گئے گزرے ہو۔ تمہارے بڑے بھائی جو بہت چالاک اور ہوشیار ہیں، یہ کام نہ کر سکے۔ تم کون سا تیر مار لو گے۔“

    لیکن جب چھوٹے شہزادے نے بہت ضد کی تو بادشاہ نے اجازت دے دی اور وہ شام کو باغ میں داخل ہو گیا۔ وہ یہ سن چکا تھا کہ عین اُس وقت جب ہنس باغ میں داخل ہوتے ہیں، چوکی داروں کو نیند آ جاتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے بھائیوں کی طرح وہ بھی سو جائے۔ اس نے چاقو سے اپنی انگلی پر زخم لگایا اور اُس کے اُوپر تھوڑا سا نمک چھڑک لیا تا کہ درد کی وجہ سے اُسے نیند نہ آئے۔

    اندھیرا چھا گیا۔ پھر چاند اپنی پوری آب و تاب سے نکلا اور تمام باغ چاندنی سے جگمگا اٹھا۔ پھر بہکی بہکی ہوا چلنے لگی جو آہستہ آہستہ بہت تیز ہو گئی۔ شہزادہ سمجھ گیا کہ اب ہنسوں کے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔

    اُس نے آسمان کی طرف دیکھا تو دور فضا میں تین چوٹے چھوٹے دھبّے دکھائی دیے جو دیکھتے ہی دیکھتے بڑے ہوتے گئے اور پھر تین سفید ہنس تیزی لیکن خاموشی سے باغ میں اُترے۔ اُن کے پروں کی آواز بھی سُنائی نہ دی۔

    شہزادہ چوکس ہو گیا اور جلدی سے ایک جھاڑی میں چھپ گیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تینوں ہنسوں نے اپنے پر اُتار کر اُسی جھاڑی کے پاس رکھ دیے جہاں وہ چھپا ہوا تھا۔ اُن پروں کے اندر سے تین خوب صورت لڑکیاں نکل کر گھاس پر ناچنے لگیں۔ اُن کے سنہری بال چاندنی میں بڑے ہی خوب صورت لگ رہے تھے ۔

    شہزادے نے سوچا کہ اگر میں نے پھرتی سے کام نہ لیا تو یہ لڑکیاں جتنی تیزی سے آئی تھیں، اُتنی ہی تیزی سے واپس چلی جائیں گی اور میں ہاتھ ملتا رہ جاؤں گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جاتے وقت یہ کِسی درخت کی ٹہنیاں توڑ جائیں۔ پھر میں ابّا جان کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ لوگ تو پہلے ہی مجھے بے وقوف اور سُست کہتے ہیں۔

    یہ سوچ کر وہ بجلی کی سی تیزی سے جھاڑی میں سے نِکلا اور جھپٹ کر ایک لڑکی کے پَر اُٹھا لیے۔ جتنی تیزی سے اُس نے پَر اُٹھائے اُس سے زیادہ تیزی کے ساتھ باقی دو لڑکیوں نے اپنے پَر اُٹھا کر بازوؤں پر لگائے اور ہنس بن کر اُڑ گئیں۔

    اب ایک ہی لڑکی باقی رہ گئی تھی۔ وہ کانپتی ہوئی شہزادے کے پاس آئی اور ہاتھ جوڑ کر بولی:

    ” خدا کے لیے میرے پَر واپس دے دو۔“

    ”ہرگز نہیں۔“ شہزاده بولا ” پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ کون ہو اور کہاں سے آئی ہو؟“

    لڑکی نے شہزادے کو بتایا ”میں ایک بادشاہ کی لڑکی ہوں جس کی سلطنت یہاں سے بہت دور ہے۔ یہ دونوں لڑکیاں جو ابھی ابھی گئی ہیں، میری بڑی بہنیں ہیں۔ ہمارے اُوپر کسی دشمن نے جادو کر دیا تھا۔ وہ ہمیں مجبور کرتا تھا کہ ہم ہنس کا بھیس بدل کر یہاں آئیں اور اس خوب صورت باغ کے کسی درخت کی ایک ایک شاخ توڑ کر لے جائیں۔“

    شہزادہ بولا ”لیکن اب تو تم ایسا نہیں کر سکو گی۔ اب میں تمہیں اپنے باپ کا خوب صورت باغ ہرگز اجاڑنے نہیں دوں گا۔“

    لڑکی نے کہا ”اب اِس کی ضرورت نہیں رہی۔ جادوگر نے کہا تھا کہ جب تمہارے پَروں کو کِسی اِنسان کا ہاتھ لگے گا تو تمہارے اُوپر سے جادو کا اثر ختم ہو جائے گا۔“

    لڑکی شہزادے سے باتیں کر رہی تھی اور شہزادہ اُسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ لڑکی اتنی خوب صورت تھی کہ شہزادے نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شادی کرے گا تو اِسی لڑکی سے کرے گا۔

    شہزادے نے لڑکی کو اپنے باپ کے محل اور اس کی سلطنت کے قصّے سُنائے، اپنے بھائیوں کے متعلق بتایا اور پھر آخر میں کہا: ”اگر تُم مجھ سے شادی کر لو تو ہماری زندگی بڑی ہی خوش و خرّم گزرے گی۔“

    شہزادی بولی ”افسوس ! ابھی ایسا نہیں ہو سکتا۔“

    ”کیوں؟“ شہزادے نے کہا۔

    ”اس لیے کہ پہلے مُجھے ہنس کی صورت میں واپس اپنے دیس میں پہنچنا ہے۔“

    شہزادہ بولا ” وہ تو تُم اس وقت تک نہیں پہنچ سکتیں جب تک میں تمہارے پَر واپس نہیں کرتا۔“

    ”نہ۔۔۔نہ۔۔۔نہ“ شہزادی بولی ”ایسا ظلم نہ کرنا۔ اس طرح تو ہم ہنسی خوشی زندگی نہ گزار سکیں گے۔ اگر تُم نے مجھ سے زبردستی شادی کی تو جب بھی میرا دل چاہے گا تمہیں اور تمہارے بچّوں کو چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔“

    شہزاده بولا ” تو پھر کوئی ایسا طریقہ بتاؤ کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہ سکو۔“

    شہزادی نے کہا ”اس وقت تو مجھے اپنے گھر جانا ہے۔ اگر تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تو تمہیں مجھے تلاش کرنا پڑے گا۔ میرے باپ کا ملک دنیا کے اُس پار ہے اور اُس کا نام ہے ‘کہکشاں’۔ میں تمہیں اپنے باپ کے محل میں ہی ملوں گی۔ لیکن یہ یاد رکھنا کہ ملک کہکشاں کو جو سڑک جاتی ہے، وہ بہت لمبی اور رُکاوٹوں سے پُر ہے۔ اِس ملک کا راستہ تلاش کرنا اِتنا آسان نہیں ہے۔“

    شہزادے نے کہا ”کوئی اتا پتا تو بتاؤ۔“

    شہزادی بولی ”چاند سے پَرے، سُورج سے بھی پرے اور اس جگہ سے بھی پَرے جہاں سے ہوائیں اور آندھیاں آتی ہیں، میرا ملک ہے۔“

    یہ کہتے ہوئے شہزادی ذرا پیچھے کو ہٹی۔ شہزادہ بے دھیان ہو گیا تھا۔ لڑکی نے جلدی سے اپنے پَر بازوؤں پر لگائےاور پلک جھپکتے میں ہنس بن کر اُڑ گئی۔

    صبح کو بادشاه چھوٹے شہزادے کی خیر خبر لینے آیا تو وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہُوا کہ درختوں کی کوئی شاخ ٹوٹی ہوئی نہیں ہے۔ وہ کام جو سمجھ دار اور تیز طرار بڑے شہزادے نہ کر سکے تھے، چھوٹے اور سست شہزادے نے کر دکھایا تھا۔

    بادشاہ نے شہزادے کی بہت تعریف کی اور اُسے بہت سا انعام دیا ۔ لیکن شہزادہ تو شہزادی کے غم میں اُداس تھا۔ اُس نے بادشاہ سے کہا: ”ابّا جان میں ایک شہزادی کی تلاش میں جا رہا ہوں جس سے میں شادی کروں گا۔“

    بادشاہ نے اُسے روکنے کی بہت کوشش کی، بہت سمجھایا لیکن شہزاده نہ مانا اور سفر پر چل دیا۔ جِس گھوڑے پر وہ سوار تھا، وہ بہت تیز رفتار تھا۔ لیکن شہزادہ اِس قدر بے چین تھا کہ اُسے گھوڑے کی رفتار سُست معلوم ہو رہی تھی۔

    سات روز کے بعد آخر وہ ایسے علاتے سے گزرا جہاں دُور دُور تک آبادی نہ تھی ۔ ہر طرف پتھّر اور چٹانیں تھیں۔ اب اُسے کچھ اُمید ہوئی کہ شاید شہزادی ایسے ہی کسی علاقے میں رہتی ہو گی۔ دن گزرتے گئے اور اُسے پتھّروں چٹانوں اور کھلے آسمان کے علاوہ اور کچھ نظر نہ آیا۔

    وہ اپنے خیالوں میں گُم چلا جا رہا تھا کہ دور، کچھ فاصلے پہ تین جنّ نظر آئے جو خنجر نکالے ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے تیّار تھے۔ شہزاده اُن کے پاس گیا اور دریافت کیا: ”کیا بات ہے؟ کیوں لڑ رہے ہو؟“ اُن میں سے بڑا جِن بولا ”ہم تینوں بھائی ہیں۔ ہمارا باپ ہمارے لیے کچھ جائداد چھوڑ گیا ہے۔ اسی کی تقسیم کے سلسلے میں ہم جھگڑ رہے ہیں۔“

    شہزادے نے پوچھا ”کیا جائداد چھوڑی ہے تمہارے باپ نے؟“

    اس پر جنوں نے اُسے بتایا کہ اُن کا والد جوتوں کا ایک جوڑا چھوڑ گیا ہے اور ان کو پہن کر انسان ایک قدم میں سات میل کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔ ایک چادر ہے جسے اوڑھنے والا دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ ایک ٹوپی ہے جس کے پیچھے ایک پَر لگا ہے۔ اگر ٹوپی کے پَر والا رُخ بدل کر آگے کر دیا جائے تو اِتنے زور کی آواز پیدا ہوتی ہے جیسے سات توپیں ایک دم داغ دی گئی ہوں۔

    شہزادہ کچھ دیر غور کر کے بولا ”اِن چیزوں کو تقسیم نہ کرو بلکہ تُم میں سے جو سب سے زیادہ اِن کا حق دار ہو وہ تینوں چیزیں لے لے۔ لاؤ یہ مجھے دے دو اور جب میں ایک دو تین کہوں تو تینوں بھاگو۔ وہ جو سامنے پہاڑ نظر آ رہا ہے، اُس کی چوٹی کا پتھّر جو سب سے پہلے اُکھاڑ کر لائے گا وہی خوش قسمت تینوں چیزیں لے لے گا۔“

    جِنوں نے اُس کی یہ تجویز مان لی اور جب اُس نے ایک دو تین کہا تو تینوں دوڑ پڑے۔ جوں ہی اُنہوں نے دوڑنا شروع کیا، شہزادے نے فوراً جوتے پہنے، چادر اوڑھی اور ٹوپی سر پر رکھ کر غائب ہو گیا۔

    اب اُس کا کام آسان ہو گیا تھا۔ اُسے اب گھوڑے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اُس کا ایک قدم سات میل کا تھا۔ وہ چلتا گیا۔ عجیب عجیب علاقے آتے گئے۔ شام تک وہ ایک دلدلی علاقے میں پہنچ گیا۔ اندھیرے کی وجہ سے اب آگے جانا ممکن نہ تھا۔ وہ رات کاٹنے کے لیے وہیں رُک گیا۔

    سونے سے پہلے اُس نے ارد گرد نظر دوڑائی تو دُور جنگل میں روشنی سی نظر آئی۔ وہ اُسی طرف چل دیا۔ یہ روشنی ایک جھونپڑی میں سے آ رہی تھی۔ شہزاده اُسی جھونپڑی میں داخل ہوگیا۔ اندر ایک بڑھیا بیٹھی تھی ۔ شہزادے نے اُس سے جھونپڑی میں ٹھہرنے کی اجازت مانگی تو وہ بولی: ”میں چاند کی ماں ہوں۔ آج وہ آسمان کا سفر جلدی ختم کر کے واپس آ جائے گا۔ اگر اُس کی روشنی تم پر پڑ گئی تو اچھی بات نہ ہوگی۔“

    لیکن شہزادے نے اتنی ضد کی کہ بڑھیا نے مجبور ہو کر اِجازت دے دی۔ شہزادے کی ابھی آنکھ بھی نہ لگی تھی کہ چاند واپس گھر آ گیا اور آتے ہی پوچھنے لگا: ”کون ہو تم؟“

    شہزادہ بولا ” اے چاند، میں مُلک کہکشاں جانا چاہتا ہوں۔ تُم ساری دنیا پر اپنی روشنی کی کِرنیں بکھیرتے ہو۔ مُجھے کہکشاں کا راستہ بتا دو۔“

    چاند بولا ”کہکشاں کو جانے والا راستہ یہاں سے بہت دُور ہے۔ تمہیں ابھی ایک دِن اور ایک رات اور چلنا ہو گا ۔ پھر کسی جگہ کوئی ملے تو اس سے پوچھنا۔“

    شہزاده چلتا گیا۔ شام کے قریب وہ پھر ایک جنگل میں پہنچا۔ یہاں بھی اُسے ایک جھونپڑی نظر آئی۔ وہ جھوپڑی میں داخل ہوا۔ جھونپڑی میں ایک بڑھیا بیٹھی تھی۔ اُس نے بڑھیا سے رات گزارنے کی اجازت چاہی تو وہ بولی: ”میں سُورج کی ماں ہوں ۔ میرا بیٹا اب واپس گھر آنے والا ہے۔ اگر اُس نے تمہیں دیکھ لیا تو اچھّا نہ ہو گا۔“

    لیکن شہزادے نے ضد کی تو اُس بڑھیا نے بھی اُسے رات بسر کرنے کی اجازت دے دی۔ تھوڑی دیر بعد سُورج آ گیا اور اُس نے شہزادے سے وہی سوال کیا: ”کون ہو تُم اور یہاں کیا لینے آئے ہو؟“

    شہزادہ بولا ” اے سورج ، میں مُلک کہکشاں جانا چاہتا ہوں۔ تُم نے ضرور یہ ملک دیکھا ہو گا۔ مجھے اُس کا راستہ بتا دو۔“

    سُورج نے کہا ”میں نے یہ ملک کبھی نہیں دیکھا۔ یہ اِتنی دور ہے کہ چاند اور سورج کی روشنی وہاں نہیں پہنچتی۔ تم ابھی اور آگے جاؤ۔ پھر کِسی سے راستہ پوچھنا۔“

    شہزادہ بے حد اُداس ہو گیا۔ وہ بہت تھک چکا تھا لیکن شہزادی کی یاد اُس کے دِل سے نہ جاتی تھی۔ وہ پھر آگے چل دیا۔ رات کو اُسے ایک بڑھیا ملی۔ یہ بڑھیا پہلی دو بڑھیوں سے زیادہ رحم دل تھی ۔ اُس نے شہزادے کو بتایا ”میری سات بیٹیاں ہیں، اور یہ ساتوں وہ ہوائیں ہیں جو دنیا میں گھومتی پھرتی ہیں ۔ تُم ذرا انتظار کرو۔ شاید اُن میں سے کسی کو کہکشاں کا پتا معلوم ہو۔“

    تھوڑی دیر کے بعد بڑھیا کی بیٹیاں گھر میں داخل ہوئیں تو شہزادے نے اُن سے کہا: ”اے ہواؤ، تم ساری دنیا میں گھومتی پھرتی ہو۔ مجھے کہکشاں نامی ملک کا پتا تو بتاؤ۔“

    لیکن اُن میں سے کوئی بھی شہزادے کی مدد نہ کر سکی۔ اب تو شہزادے کا دل ٹوٹ گیا اور وہ رونے لگا۔ بڑھیا نے اُس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو بولی: ”حوصلہ نہ ہارو۔ ابھی تو میری چھ بیٹیاں ہی آئی ہیں۔ ساتویں جو سب سے زیادہ تیز ہے اور جسے طوفان کہتے ہیں، ابھی آنے والی ہے۔ ذرا انتظار کرو، شاید وہ کچھ بتا سکے۔“

    اِتنے میں بڑھیا کی ساتویں بیٹی بھی آ گئی۔ جوں ہی وہ جھونپڑی میں داخل ہوئی، شہزادے نے اُس سے کہا: ”خدا کے لیے مجھے ملک کہکشاں کا پتا بتا دو؟“

    ہوا بولی ”میں تو وہیں سے آ رہی ہوں۔ وہ اِتنی دور ہے کہ تمہارا وہاں پہنچنا بہت مشکل ہے۔

    لیکن پہلے مجھے یہ تو بتاؤ تم وہاں کیوں جانا چاہتے ہو؟“

    شہزادے نے ساری کہانی سنائی تو ہوا افسوس کرتے ہوئے بولی :”اگر تم وہاں پہنچ بھی گئے تو کوئی فائده نہ ہو گا۔ اُس شہزادی کی تو کل دوپہر کو شادی ہو رہی ہے۔ میں آج سارا دن محل کی چھت پر شہزادی کی شادی کے کپڑے سکھاتی رہی ہوں۔“

    شہزادہ بولا: ”تم چاہو تو میری مدد کر سکتی ہو۔ شہزادی کی شادی کے تمام کپڑے اڑا کر کیچڑ میں پھینک دو۔ اِس طرح شادی رک جائے گی۔“

    ہوا نے کہا ”یہ تو میں کر سکتی ہوں۔ لیکن تم بھی میرے ساتھ چلو۔ اگر میں شادی رکوانے ہیں کامیاب ہو گئی تو پھر تمہیں وہاں موجود ہونا چاہیے۔ شہزادی اِس شادی سے خُوش نہیں، میں نے دیکھا تھا، وہ بہت اُداس تھی۔“

    ہوا نے شہزادے کو اپنے ساتھ اڑانا چاہا تو وہ ہنس پڑا اور بولا ” میرے بوٹ دیکھے ہیں تُم نے۔ میرا ایک قدم سات ميل کا ہے۔ تم میری فکر نہ کرو۔“

    اور واقعی ایسا ہی ہُوا۔ شہزادہ ہوا سے میلوں آگے تھا، اور ہوا کو اُس کا ساتھ دینے کے لیے بہت تیز چلنا پڑ رہا تھا۔

    آخر تنگ آ کر ہُوا نے کہا۔ ”دیکھو شہزادے، تم شاید یہ نہیں جانتے کہ اگر میں زیادہ تیز چلوں تو دنیا میں تباہی آ جاتی ہے، درخت جڑوں سے اُکھڑ جاتے ہیں، فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، مکانات گِر جاتے ہیں۔ اِس لیے بہتر یہ ہے کہ ذرا آہستہ چلو۔“

    اب اُن کی رفتار پہلے سے کچھ کم ہوگئی تھی، وہ ایک بہت بڑے صحرا سے گزر رہے تھے۔ ہر طرف ریت کے تودے اُڑتے پھرتے تھے۔ اس سے آگے ایسا علاقہ آیا جہاں دھند چھائی ہوئی تھی۔ ایسے پہاڑ آ گئے جن پر صدیوں سے برف جمی ہوئی تھی۔ پہاڑوں کا یہی سلسلہ مُلک کہکشاں کی سرحد تھی۔

    اِن پہاڑوں کو عبور کرتے ہی وہ محل نظر آنے لگا جہاں شہزادی کی شادی کی تیّاریاں ہو رہی تھیں۔ ہوا نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اِتنے زور سے چلی کے تمام جھنڈیاں، جھاڑ، فانوس اور قناتیں ٹوٹ پھوٹ گئیں ۔ شادی کے کپڑے اُڑ اُڑ کر دور پانی اور کیچڑ میں جا گِرے۔ ہر طرف آفت سی مچ گئی اور شادی ملتوی کر دی گئی۔

    شہزادے نے جادو کی چادر اوڑھ لی۔ اب اُسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ اُس کمرے میں گیا جہاں شہزادی اداس اور غمگین بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ شہزاده اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اُس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ وہ کمرے میں پڑی ہوئی میز پر بیٹھ گیا۔ اُسے سخت بھوک لگی تھی۔

    خوش قسمتی سے میز پر ایک کیک اور چھری پڑی تھی اور ٹھنڈے پانی کی ایک بوتل بھی رکھی تھی۔ اس نے کیک کاٹ کر کھانا شروع کیا اور بوتل کو منہ لگا کر پانی پیا۔ وہ یہ دیکھ کر بڑا حیران ہُوا کہ کاٹنے کے باوجود کیک ویسے کا ویسا ہی رہا۔ پانی پینے کے بعد بھی بوتل اُسی طرح بھری رہی۔

    جب اُس کا پیٹ بھر گیا تو وہ اطمینان سے شہزادی کے پاس آیا اور بولا ”حضور، میں آ گیا ہوں۔“

    شہزادی اتنے قریب ایک مردانہ آواز سُن کر ڈر کے چیخی تو محل کا چوکی دار بھاگا آیا۔ شہزادے نے اپنی ٹوپی کا رخ بدل لیا اور پَر والا حصّہ سامنے کر لیا۔ ایک دم محل توپوں کی آواز سے گونج اُٹھا۔ تمام چوکی دار اور محافظ بھاگے چلے آئے۔ بادشاہ اور ملکہ بھی آ گئے۔ بادشاه نے کہا:

    ”تم جو کوئی بھی ہو، ہمیں بتاؤ کہ کیا چاہتے ہو؟“

    شہزاده بولا ” میں شہزادی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“

    شہزادی نے بادشاہ سے کہا کہ یہ شخص، جو دِکھائی نہیں دیتا، جِنوں کے ملک کا شہزادہ ہے۔ اگر آپ نے اِس کے ساتھ شادی نہ کی تو یہ آپ کے ملک کو تباہ کر دے گا۔

    بادشاه ڈر گیا اور اُس نے اپنے وزیروں سے مشورہ کر کے شہزادے کی بات مان لی۔ شہزادی اور شہزادے کی شادی بڑی دھُوم دھام سے کر دی گئی۔ تین دن خُوب جشن رہا۔ شادی کی تمام رسمیں پوری ہوئیں لیکن اِس دوران میں شہزادے نے چادر اوڑھے رکھی اور سب کی نظروں سے اوجھل رہا۔ چوتھے دِن شہزادے نے دیوار پر لٹکی ہوئی ایک تلوار اتاری، اُس کے دستے پر پہلے اپنا نام لکھا، پھر لکھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔

    یہ سب کچھ لکھ کر اُس نے تلوار دیوار پر لگا دی۔ پھر جادو کے بوٹ پہنے، کیک اور پانی کی بوتل ساتھ لی اور واپس چل کھڑا ہوا۔ راستے میں ایک ایسا ملک آیا جہاں قحط پڑا ہُوا تھا۔ لوگ اِتنے کمزور ہو گئے تھے کہ اُن کی ہڈّیاں نِکل آئی تھیں اور وہ ہڈیوں کے پنجر نظر آتے تھے۔ شہزادے نے جادو کا کیک اُنہیں دے دیا۔ لوگ کھاتے گئے لیکن کیک ویسے کا ویسا ہی رہا۔ اس کے بدلے میں اُس نے لوگوں سے وعدہ لیا کہ اگر کبھی کوئی شہزادی اپنے بچّے کے ساتھ اِدھر سے گزرے تو وہ اُس کی خوب آؤ بھگت کریں اور پھر اُسے اگلے ملک کی سرحد پر چھوڑ آئیں۔

    اِس کے بعد شہزادہ ایک ایسے ملک میں داخل ہُوا جہاں برسوں سے بارش نہ ہوئی تھی، کنویں اور دریا سب سوکھ گئے تھے۔ لوگ پانی کی بوند کو ترس رہے تھے اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر رہے تھے۔ شہزادے نے پانی کی بوتل اُن لوگوں کو دے دی۔ اُنہوں نے خوب جی بھر کے پانی پیا، لیکن بوتل ویسی کی ویسی ہی رہی ۔ یہاں بھی اُس نے لوگوں سے وعدہ لیا کہ اگر کبھی کوئی شہزادی اپنے لڑکے کے ساتھ اِدھر سے گزرے تو اُن کی پوری مدد کریں اور اگلے مُلک کی سرحد تک چھوڑ آئیں۔

    اُدھر شہزادے کے جانے کے بعد شہزادی بُہت اداس ہو گئی تھی۔ اُس کا کِسی کام میں دِل نہ لگتا تھا۔ اگلے موسمِ بہار میں اُس کے ہاں ایک خوب صورت شہزاده پيدا ہوا۔ وہ بہت ہی حسین تھا۔ سنہرے بال، نیلی آنکھیں اور گلابی رنگت۔ لڑکا بڑا ہوکر نہایت تَن درست نکلا۔ جب وہ چھ سال کا ہُوا تو ایک دِن اُس نے ماں سے ضد کی کہ دیوار پر لٹکی ہوئی تلوار اُسے دِکھائی جائے۔ شہزادی نے تلوار اُتاری تو اُس کی نظر تلوار کے دستے پر لکھی ہوئی تحریر پر پڑ گئی۔

    یہ دیکھ کر اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا کہ شہزادہ اپنا پورا پتا تلوار کے دستے پر لکھ گیا ہے۔ یہ تو وہی شہزاده تھا جِس کے باپ کے باغ میں شہزادی ہنس بن کر جایا کرتی تھی۔

    شہزادی نے اپنے لڑکے سے کہا ”چلو بیٹا اب ہم تمہارے بابا کی تلاش میں نِکلتے ہیں۔“ اگلے ہی دِن وہ روانہ ہو گئی۔ اُس کے ساتھ ایک فوجی دستہ، بے شمار نوکر چاکر اور سامان سے لدی ہوئی گاڑیاں تھیں۔

    جب وہ اُس ملک میں پہنچے جہاں کے لوگوں کو شہزادے نے کیک دیا تھا تو اُنہیں شہزادے سے کیا ہوا وعدہ یاد آ گیا اور اُنہوں نے شہزادی اور اُس کے بیٹے کا شان دار استقبال کیا۔ پھر وہ شہزادی اور اُس کے ساتھیوں کو دوسرے ملک کی سرحد تک چھوڑ آئے۔

    یہ ملک وہ تھا جس کے باشندوں کو شہزادے نے پانی کی بوتل دی تھی ۔ یہاں بھی شہزادی اور اُس کے ساتھیوں کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔ یہ لوگ بھی شہزادی کو اگلے ملک کی سرحد تک حفاظت سے پہنچا آئے۔ ایک دِن کا سفر کرنے کے بعد شہزادی شہزادے کے شہر کے نزدیک پہنچ گئی لیکن وہ شہر میں داخل نہیں ہوئی بلکہ اُس سے کچھ فاصلے پر ایک کھلے میدان میں رُک گئی۔

    میدان میں خیمے لگا دیے گئے، قالین بچھا دیے گئے اور تمام قیمتی اور خوب صورت سامان اور جو شہزادی ساتھ لائی تھی، سجا دیا گیا ۔ پھر شہزادی نے بادشاہ کو پیغام بھجوایا کہ میں مُلک کہکشاں کی شہزادی ہوں اور آپ کی بہو بننا چاہتی ہوں۔ مہربانی فرما کر اپنے بیٹوں کو باری باری میرے پاس بھیجیے تا کہ میں اُن میں سے ایک کو چُن لوں۔

    سب سے پہلے بڑا شہزاده بن سنور کر نِکلا اور گھوڑے پر سوار ہو کر شہزادی سے ملنے گیا۔ شہزادی کے بیٹے نے پُوچھا:

    ”امّی، کیا یہ میرے ابّو ہیں؟“

    شہزادی بولی ”نہیں بیٹے۔ یہ تمہارے ابّو نہیں ہیں۔“

    بڑا شہزادہ واپس چلا گیا تو دوسرا شہزادہ قسمت آزمانے آیا۔ اُسے دیکھ کر بھی لڑکے نے وہی سوال کیا۔ شہزادی نے جواب دیا کہ بیٹے، یہ بھی تمہارے ابّو نہیں ہیں۔

    سب سے آخر میں چھوٹا شہزادہ گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا۔ شہزادی نے خیمے کے اندر ہی سے پہچان لیا اور لڑکے کو بتایا کہ بیٹا یہی تمہارے ابّو ہیں۔

    لڑکا بھاگ کر خیمے سے باہر نِکلا اور اپنے باپ سے لپٹ گیا۔ خوشی کے مارے شہزادی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ تینوں دیر تک باتیں کرتے رہے، اور جب ایک دوسرے کو سارا قصّہ سُنا چُکے تو شہزاده اُن کو لے کر اپنے محل میں آ گیا۔ اُس کے بھائی یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ یہ سُست اور نالائق لڑکا شہزادی کو کیسے پسند آ گیا۔ لیکن اُنہیں کیا پتا تھا کہ شہزادی کو حاصل کرنے کے لیے اُس نے کیسی کیسی مصیبتیں برداشت کی تھیں۔

    شہزادی اور شہزادہ وہاں زیادہ دِنوں نہیں رکے، فوراً ہی کہکشاں کی طرف چل پڑے جہاں شہزادے نے بہت عرصے تک حکومت کی اور شاید آج بھی وہاں اُسی کی نسل حکومت کر رہی ہو۔ لیکن ہمیں اِس بات کا ٹھیک پتا نہیں چل سکتا کیوں کہ کہکشاں تک جانا آسان نہیں۔ وہاں تو وہی پہنچ سکتا ہے جو پہلے چاند اور سورج کے پاس سے گزرے ۔ پھر کچھ ہواؤں سے راستہ پوچھنے کے بعد ساتویں ہوا کے ساتھ ایسے جوتے پہن کر سفر کرے جو ایک قدم میں سات میل کا فاصلہ طے کرتے ہوں۔ پھر ویران صحراؤں اور برفانی پہاڑوں میں سے گزرے۔ تب کہیں جا کر اُسے پتا چلے گا کہ کیا ملک کہکشاں پر آج بھی اُسی شہزادے کی نسل حکومت کرتی ہے۔

    (پولینڈ کی دل چسپ لوک کہانی، مترجم سیف الدّین حُسام)

  • چوتھا کہاں گیا؟ (ملایا کی لوک کہانی)

    چوتھا کہاں گیا؟ (ملایا کی لوک کہانی)

    چار دیہاتی ایک قریبی دریا پر مچھلیاں شکار کرنے گئے۔ وہ صبح سے سہ پہر تک مچھلیاں پکڑتے رہے۔ جب بہت ساری مچھلیاں پکڑ لیں تو ان کو بانس میں پرو کر اپنے اپنے کندھے سے لٹکا لیا اور گھر کی طرف چل دیے۔ چاروں بہت خوش تھے۔

    ایک نے کہا، "آج کا دن تو بہت اچھا رہا۔ ہماری بیویاں اتنی ساری مچھلیاں دیکھ کر بہت خوش ہوں گی۔”

    دوسرے نے کہا، ” ہاں، اور ہم سب کے گھر والے خوب مزے لے کر مچھلیاں کھائیں گے۔” باقی دو دیہاتی کچھ نہیں بولے اور ان کی باتوں پر صرف سَر ہلا دیا۔ ابھی وہ تھوڑی دور گئے تھے کہ ان میں سے ایک اچانک رک گیا۔ وہ کچھ دیر سر جھکائے سوچتا رہا اور پھر عجیب عجیب سی نظروں سے دوسروں کو دیکھنے لگا۔

    اس کے ساتھیوں میں سے ایک نے پوچھا، "کیا ہوا؟”

    اس کے منہ سے نکلا، "چوتھا کہاں گیا؟”

    باقی سب نے ایک آواز ہو کر پوچھا، "کیا مطلب؟”

    وہ بولا "بھئی دیکھو! صبح جب ہم گھر سے آئے تھے تو چار تھے۔ اب ہم صرف تین ہیں۔ چوتھا کہاں گیا؟”
    اس بات پر سب حیران ہو گئے۔ اب دوسرے نے گننا شروع کیا، "ایک، دو، تین۔” اس نے خود کو چھوڑ کر باقی کو گنا اور بول اٹھا، "ارے واقعی چوتھا کہاں گیا؟” ان دونوں کو پریشان دیکھ کر باقی دو دیہاتیوں نے بھی باری باری سب کو گنا اور چونکہ ہر دیہاتی خود کو نہیں گنتا تھا، اس لیے ان چاروں کو یقین ہوگیا کہ وہ واقعی تین رہ گئے ہیں اور ان میں سے ایک غائب ہے۔ اب تو ان کی پریشانی بڑھ گئی۔ وہ سوچنے لگے چوتھا اگر غائب ہوا تو کیسے، وہ سب تو ساتھ ہی تھے۔

    آخر ان میں سے ایک چیخا، "ہو نہ ہو، وہ بے وقوف ابھی تک مچھلیاں پکڑ رہا ہو گا۔”

    اس کی یہ بات سب کے دل کو لگی۔ وہ دریا کی طرف بھاگے، مگر دریا کے کنارے پر تو کوئی بھی نہ تھا۔ انہیں بڑی مایوسی ہوئی۔ ایک روہانسا ہو کر بولا، "آخر اسے ہوا کیا؟ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟”

    ایک دور کی کوڑی لایا، "ہو سکتا ہے وہ دریا میں گر گیا ہو۔ آؤ دیکھیں ورنہ اس کی بیوی ہمارا نجانے کیا حشر کرے۔”

    وہ ادھر ادھر ڈھونڈتے رہے مگر وہ نہ ملنا تھا نہ ملا، البتہ ایک مکّار اور کام چور آدمی ان کو مل گیا۔ وہ کافی دیر سے چھپ کر ان کی حرکتیں دیکھ رہا تھا اور سمجھ گیا تھا کہ یہ سب بیوقوف اور گاؤدی ہیں۔ اس نے ان سے مچھلیاں ٹھگنے کی ٹھانی۔

    وہ اچانک ان کے سامنے آ کر بولا، "شام بخیر دوستو! کیسے ہو؟”

    ان میں سے ایک بولا، "ہم بڑی مصیبت میں ہیں۔”

    وہ بناوٹ سے بولا، "ارے! کیا ہو گیا؟”

    ان میں‌ سے ایک دہیاتی نے سارا ماجرا اس کے سامنے رکھا کہ ہم چاروں دوست گھر سے شکار کو آئے تھے، مگر ہمارا چوتھا ساتھی غائب ہوگیا ہے۔ وہ چالاک شخص دل ہی دل میں ان پر ہنس رہا تھا مگر بناوٹی لہجے میں فکر مندی ظاہر کرتے ہوئے بولا، "ادھر ادھر دیکھا بھی ہے؟”

    چاروں افسردہ ہو کر بولے، "ہاں بڑا تلاش کیا، مگر وہ مل ہی نہیں رہا۔” "اب ہم اس کی بیوی سے کیا کہیں گے۔ وہ تو ہماری جان کو آ جائے گی۔ ہے بھی بڑی لڑاکا۔”

    مکّار اور کام چور آدمی نے مصنوعی حیرت سے یہ سب باتیں سنیں۔ کچھ دیر یونہی سامنے گھورتا رہا، پھر اچانک لرزنے لگا اور گھٹنوں کے بل گر پڑا۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ چاروں اس کی حالت دیکھ کر اور بھی ڈر گئے۔ وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولا، تم کہہ رہے تھے کہ تم چار تھے۔”

    "ہاں ہم چار تھے۔”

    "دریا پر تم چاروں نے مچھلیاں پکڑیں؟”

    "ہاں ہم چاروں نے مچھلیاں پکڑیں۔”

    "لیکن اب صرف تین رہ گئے ہو۔” وہ بظاہر لرزتا ہوا مگر اندر سے اپنی ہنسی ضبط کرتا ہوا بولا۔

    چاروں نے ایک آواز ہو کر کہا، "ہاں ہم صرف تین رہ گئے ہیں۔”

    وہ آدمی بولا، "اوہ میرے الله!”

    وہ چاروں لرز گئے، "کیا ہوا؟”

    وہ بری طرح کانپنے لگا اور بولا، "مجھے ڈر لگ رہا ہے۔”

    وہ بے وقوفوں کی طرح بولے، "ڈر تو ہمیں بھی لگ رہا ہے، مگر کس بات سے یہ معلوم نہیں۔”

    مکّار شخص کانپتے ہوئے بولا، "میں بتاتا ہوں کہ مجھے ڈر کیوں لگ رہا ہے۔ وہ چوتھا اسی لیے غائب ہے کہ وہ تمہارا دوست تھا ہی نہیں۔”

    چاروں کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں۔ وہ بولے، "پھر کون تھا وہ؟”

    مکّار آدمی بولا، "وہ؟ وہ تو جنّ تھا۔ وہ جن تھا جنّ۔۔۔۔”

    یہ کہہ کر وہ گاؤں کی طرف بھاگ نکلا۔ ان چاروں احمقوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر انہوں نے اپنا اپنی مچھلیاں وہیں پھینک دیں اور خود بھی یہی چیختے ہوئے بھاگ نکلے، "وہ جنّ تھا جنّ۔”

    وہ ایسے بھاگے کہ مڑ کر یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ کام چور آدمی جو ان سے پہلے بھاگ نکلا تھا، کدھر ہے۔ وہ تو ایک پیر کے پیچھے چھپ گیا تھا اور ان بے وقوفوں کے بھاگتے ہی پیڑ کی اوٹ سے نکل کر ان کی مچھلیاں جمع کرنے لگا۔ وہ ان بے وقوفوں‌ کی شکار کی ہوئی مچھلیاں اپنے گھر لے گیا۔

    اس مکّار اور کام چور شخص کی بیوی اس سے بڑی تنگ تھی۔ وہ کوئی کام دھندا نہیں‌ کرتا تھا اور دن بھر گھر سے باہر گھومتا پھرتا رہتا تھا۔ اس کی بیوی محنت مزدوری کرکے کسی طرح کنبے کا پیٹ بھرنے پر مجبور تھی۔ آج اس عورت نے سوچ رکھا تھا کہ آتے ہی اس کام چور کی خبر لوں گی، لیکن کام چور کی قسمت اچھی تھی۔

    اپنے شوہر کو دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں، کیوں کہ وہ ڈھیر ساری مچھلی لے کر آیا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے بولا، "صبح سے اب تک دریا پر مچھلیاں پکڑتا رہا، بہت تھک گیا ہوں۔ اب تم جلدی سے ایک بڑی مچھلی پکا کر مجھے کھلا دو، بہت بھوک لگ رہی ہے۔ باقی کو اس طرح رکھ دو کہ وہ خراب نہ ہوں۔”

    "ہاں، ہاں، کیوں نہیں‌، اتنی محنت تم نے کی ہے، میرا فرض بنتا ہے کہ تم کو مزیدار سالن بنا کر دوں، آج تو کمال ہی ہوگیا۔” بیوی نے کہا اور چولھے کی طرف بڑھ گئی۔ کام چور چارپائی پر لیٹ گیا اور آنکھیں موند لیں۔ وہ دل ہی دل میں ان بے وقوفوں پر ہنس رہا تھا اور اپنی بیوی کو دھوکا دینے پر خوش بھی تھا۔

    سچ ہے کاہل اور کام چور آدمی سے غیر ہی نہیں اپنے بھی نہیں‌ بچ پاتے اور وہ سب کو یکساں طور پر دھوکا دیتا ہے۔

    (ملایا کی یہ لوک کہانی بچّوں کے ماہ نامہ ‘نونہال’ میں‌ 1988ء میں شایع ہوئی تھی جس کے مترجم اشرف نوشاہی ہیں)

  • عظیم کاری گر (یونانی کی لوک کہانی)

    عظیم کاری گر (یونانی کی لوک کہانی)

    صدیوں پہلے یونان کے شہر ایتھنز میں ڈیڈیلس نامی ایک شخص رہتا تھا جو لکڑی، پتھر اور دھاتوں کے کام میں اتنا ماہر تھا کہ دور دور سے لوگ اس کے پاس مختلف قسم کا سامان بنوانے کے لیے آتے تھے۔ وہ ایک شان دار اور نہایت باکمال کاری گر تھا۔

    اسی نے لوگوں کو بتایا کہ مضبوط اور خوب صورت مکان کیسے بنائے جاتے ہیں، دروازے مضبوط اور عالی شان کیسے بنتے ہیں اور ستونوں کے سہارے چھت کیسے بنائی جاتی ہے۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے چیزوں کو گوند سے جوڑنا سیکھا تھا۔ اس نے بہت سی چیزیں ایجاد کی تھیں۔ اسے یونان کے مشہور ترین موجد اور عظیم فن کار ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔

    ڈیڈیلس کا ایک یتیم بھتیجا تھا جس کا نام پرڈکس تھا۔ ڈیڈیلس نے اسے ساتھ کام کرنے کے لیے رکھ لیا تھا۔ اس طرح وہ ڈیڈیلس کا شاگرد بھی تھا۔ پرڈکس اتنا ذہین تھا کہ تیزی سے کام سیکھتا گیا اور کچھ عرصہ میں اپنے چچا سے زیادہ ماہر ہوگیا۔ اسے جنگل، پہاڑ اور سمندر بہت پسند تھے۔ وہ اکثر ان مقامات پر چہل قدمی کرتا اور یہاں نظر آنے والی اشیاء سے کچھ ایجاد کرنے کی کوشش کرتا۔ ایک دن ساحل پر اس نے ایک بڑی مچھلی کی ریڑھ کی ہڈی اٹھائی اور اس سے آری ایجاد کی۔ پرندوں کو درختوں کے تنوں میں سوراخ کرتے دیکھ اس نے چھینی بنائی اور اسے استعمال کرنے کا طریقہ بھی سیکھا۔ پھر اس نے کمہار کا پہیہ ایجاد کیا جس پر مٹی کے برتن بنائے جاتے ہیں۔ اس نے کانٹے والے قطب نما کے علاوہ کم عمری میں کئی دل چسپ اور مفید چیزیں ایجاد کر لیں۔

    پرڈکس کی مہارت دیکھ کر ڈیڈیلس کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔ اس نے سوچا کہ اگر یہ لڑکا اسی طرح کام سیکھتا رہا اور ایجادات کرتا رہا تو یہ ایک دن مجھ سے بڑا آدمی بن جائے گا اور دنیا مجھے نہیں بلکہ اسے یاد رکھے گی۔ بس پھر کیا تھا، دن بہ دن ڈیڈیلس کے دل میں پرڈکس کے لیے نفرت پروان چڑھتی گئی۔

    ڈیڈیلس، ایتھنز کے نوجوان بادشاہ ایجیئس کے لیے پتھر کا ایک عالیشان محل بنا رہا تھا جس میں اس نے ایتھینا (یونانی دیوی) کا ایک خوبصورت مندر بھی بنایا تھا۔ یہ محل شہر کے وسط میں ایک بڑی چٹان پر تعمیر کیا جارہا تھا۔ اس کی تزئین و آرائش کا کام ڈیڈیلس اور پرڈکس مل کر کررہے تھے۔ ایک دن ڈیڈیلس کے ذہن میں اچانک ایک ترکیب آئی۔

    ایک صبح جب دونوں ایتھینا کے مندر کی بیرونی دیواروں پر نقاشی کر رہے تھے تو ڈیڈیلس نے بھتیجے کو دیوار کے ایک تنگ حصے پر جانے کے لیے کہا جس کے نیچے انتہائی پتھریلی چٹانیں تھیں۔ پرڈکس نے سوچا کہ وہ دبلا پتلا ہے اور تنگ حصے پر باآسانی کھڑا ہو کر نقاشی کرسکتا ہے لہٰذا وہ وہاں پہنچ گیا۔ تبھی ڈیڈیلس نے ایک ہتھوڑی اس کی جانب بڑھائی اور کہا کہ دیوار کی سطح ہموار کر دو۔ پرڈکس نے جیسے ہی وزنی ہتھوڑی اٹھائی، اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور سہارے کے لیے بنائی گئی پتلی پٹی سے اس کا پاؤں پھسل گیا۔ ایتھینا جو بظاہر مجسمہ مگر درحقیقت دیوی تھی، کو پرڈکس کا یہ انجام منظور نہیں تھا، لہٰذا پرڈکس کے چٹان پر گرنے سے قبل ہی ایتھینا نے اسے ایک تیتر میں بدل دیا جو ہوا میں اُڑتا ہوا جنگل اور پہاڑوں کی جانب نکل گیا۔ اس طرح پرڈکس کی جان بچ گئی۔ جنگلوں اور پہاڑوں سے عشق کرنے والا اب انہی مقامات کا باسی بن گیا۔ یونانی آج بھی کہتے ہیں کہ موسم گرما میں جب پھول کھلتے ہیں اور ہوائیں چلتی ہیں تو پرڈکس کی میٹھی آوازیں جنگل میں سنائی دیتی ہیں۔

    جب ایتھنز کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ڈیڈیلس نے اپنے بھتیجے کے ساتھ کس قدر گھناؤنا فعل انجام دیا ہے تو ان کے دل میں اس کے خلاف غم و غصہ بھر گیا۔ پرڈکس ایک محبت کرنے والا لڑکا تھا جسے پورا شہر پسند کرتا تھا مگر اپنے بد اخلاق چچا (جسے صرف خود سے محبت تھی) کے سبب وہ ان کے درمیان سے غائب ہوگیا تھا۔ سبھی چاہتے تھے کہ ڈیڈیلس کو سزائے موت دی جائے لیکن جب انہیں یاد آیا کہ اس نے ان کے گھروں کو خوب صورت اور ان کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے کیا کچھ کیا ہے تو انہوں نے اسے زندہ رہنے دیا مگر ایتھنز سے نکال دیا۔

    بندرگاہ پر ایک بحری جہاز لنگر انداز تھا جس کا سفر چند منٹوں بعد ہی شروع ہونے والا تھا۔ اس جہاز میں ڈیڈیلس اپنے تمام قیمتی آلات اور اپنے جوان بیٹے اِیکروس کے ساتھ سوار ہوگیا۔ جہاز سمندر کی لہروں پر آہستہ آہستہ جنوب کی طرف بڑھتا رہا۔ آخر کار کریٹ نامی مشہور جزیرے پر پہنچ گیا۔ وہاں اترتے ہی لوگوں میں بات پھیل گئی کہ ایتھنز کا مشہور کاری گر ڈیڈیلس ان کی سرزمین پر آیا ہے۔ کریٹ کے بادشاہ نے پہلے ہی اس کی غیر معمولی مہارت کے قصے سن رکھے تھے۔ اس نے ڈیڈیلس کا والہانہ استقبال کیا اور اسے اپنا ایک محل بطور رہائش پیش کر دیا۔ بادشاہ نے وعدہ کیا کہ اگر وہ یہاں کے لوگوں کی زندگیاں آسان بنانے کے لیے اچھا کام کرے تو اسے مالا مال کر دیا جائے گا۔

    کریٹ کے بادشاہ کا نام مائنوز تھا۔ اس کے دادا کا نام بھی مائنوز تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کے دادا ’’یوروپا‘‘ (یونانی دیوی) کے بیٹے تھے۔ یوروپا ایک نوجوان شہزادی تھی جو ایک سفید بیل پر بیٹھ کر ایشیاء سے کریٹ آئی تھی۔ براعظم یورپ اسی سے موسوم ہے۔ دادا مائنوز کو مردوں میں عقلمند ترین خیال کیا جاتا تھا۔ وہ اتنا عقلمند تھا کہ زیوس (یونانی دیوتا) نے اسے دنیا کے ججوں میں سے ایک مقرر کیا تھا۔ نوجوان مائنوز بھی اپنے دادا ہی کی طرح عقلمند تھا۔ وہ بہادر اور دور اندیش بھی تھا۔ اس کے بحری جہاز دنیا کے ہر حصے میں تھے جہاں سے بے شمار دولت کریٹ کی سرزمین پر آتی تھی۔ ڈیڈیلس نے بادشاہ مائنوز کے لیے سنگ مرمر کے فرش اور گرینائٹ کے ستونوں والا سب سے شان دار محل بنایا۔ محل میں ایسے سنہری مجسمے نصب کئے جو بات کرسکتے تھے۔ اس محل سے خوبصورت دنیا میں کوئی دوسری عمارت نہیں تھی۔

    ہر سال بادشاہ مائنوز، یوروپا کی کریٹ آمد اور اس شہر کی بنیاد رکھنے کی یاد میں ایک دیوتاؤں کو ایک بیل کی قربانی پیش کرتا تھا لیکن اس سال مائنوز نے بیل قربان نہیں کیا۔ یہ بات پوسائڈن (یونانی اسے قربانی کا دیوتا کہتے ہیں) کو سخت ناگوار گزری۔ اس نے مائنوز کو سزا دینے کے لیے اس کی بیوی پاسیفائی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ ایک بیل سے شادی کر لے۔ بس پھر پاسیفائی پر عجیب پاگل پن سوار ہوگیا۔ مائنوز کے لاکھ سمجھانے کے بعد وہ نہ مانی اور اس نے ڈیڈیلس سے خفیہ ملاقات کرکے گزارش کی کہ وہ اس کے لیے ایک ایسا بیل تیار کرے جس سے وہ شادی کرسکے مگر یہ بات مائنوز کو معلوم نہ پڑے۔ ڈیڈیلس حکم کا غلام تھا۔ اس نے ملکہ پاسیفائی کے لیے ایک بیل تیار کردیا۔ پاسیفائی نے چھپ کر اس سے شادی کرلی۔ کچھ عرصہ بعد جب مائنوز کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ طیش میں آگیا۔ اس دوران پاسیفائی نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اگر مائنوز کو ڈیڈیلس سے شان دار عمارتوں کی غرض نہ ہوتی تو وہ اسی وقت اسے موت کے گھاٹ اتار دیتا۔

    اس کے علاوہ مائنوز کو اپنے نوزائیدہ بیٹے ’’مینی تور‘‘ کے لیے ایک ایسی عمارت بنوانی تھی جس میں وہ اسے قید کرسکے۔ مینی تور ایک وحشی درندہ تھا۔ چند عرصے ہی میں اس کا ڈیل ڈول کافی بڑھ گیا تھا۔ وہ تیزی سے تندرست ہوتا جارہا تھا۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں آج تک اس جیسا خطرناک انسان کوئی نہیں پیدا ہوا۔ اس کا جسم ایک آدمی کا تھا لیکن چہرہ اور سر جنگلی بیل جیسا تھا۔ اس کی گرج نے پوری مملکت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ تقریباً ہر روز وہ کسی نہ کسی انسان کو پکڑ کر کھا جاتا تھا۔

    بادشاہ نے ڈیڈیلس سے کہا ’’اس عفریت کے ذمہ دار تم ہو۔ یہ میرا بیٹا ہے۔ میں اسے قتل نہیں کرواسکتا لیکن تم اپنی حکمت سے اس پر قابو پاسکتے ہو۔‘‘

    ’’میں اس کے لیے ایک ایسا محل بناؤں گا کہ وہ اس میں سے کبھی نکل نہیں سکے گا۔‘‘ ڈیڈیلس نے کہا۔

    چنانچہ ڈیڈیلس نے اپنے ماہر کاری گروں کو اکٹھا کیا اور کریٹ کے نوسوس شہر میں ایک محل بنانے کا آغاز کیا جس میں بے شمار کمرے اور اتنے چکر دار راستے تھے کہ جو بھی اس میں جاتا، اسے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔ اس کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد مینی تور کو اس محل میں داخل کردیا گیا۔ جلد ہی وہ محل کی بھول بھلیوں میں کھو گیا۔ لیکن اس کی خوف ناک گرج کی آواز دن رات سنی جا سکتی تھی۔ وہ اس بھول بھلیاں سے نکلنے کی بے کار کوششوں میں دن رات دندناتا پھرتا تھا۔

    اس کے بعد بادشاہ نے ڈیڈیلس کو طلب کیا۔ ’’تم نے اپنی مہارت سے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔ میں تمہار احترام کرتا ہوں لیکن تم نے مجھے اور میری بیوی کو دھوکہ دیا، اور اب تم ہمیشہ کے لیے میرے غلام رہو گے۔‘‘

    پھر بادشاہ نے شہر کے دروازوں پر محافظوں کا سخت پہرہ لگا دیا کہ ڈیڈیلس اور اس کے بیٹے اِیکروس کو شہر سے نکلنے نہ دیا جائے۔ بندرگاہ کی نگرانی بڑھا دی گئی۔ بادشاہ نے کریٹ جیسے عظیم جزیرے میں دنیا کے سب سے ماہر اور شان دار فن کار کو قیدی بنا لیا تھا۔ ڈیڈیلس ہمیشہ یہی سوچتا رہتا کہ وہ اپنی آزادی کیسے حاصل کرے۔

    ایک دن اس نے اپنے بیٹے ایکروس سے کہا کہ ’’میری اب تک کی تمام ایجادات دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے تھی۔ مگر اب میں اپنی خوشی کے لیے ایک نایاب چیز ایجاد کروں گا۔‘‘
    چنانچہ دن بھر وہ بادشاہ کے لیے کام کرتا اور رات میں اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کر کے موم بتی کی روشنی میں چھپ کر محنت کرتا رہتا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ عظیم فن کار اپنے لئے کیا بنارہا ہے۔

    دن اور سال گزرتے چلے گئے، اور ڈیڈیلس نے اپنے لیے پَروں کا ایک مضبوط جوڑا تیار کرلیا۔ یہ پَر کندھوں پر چڑھائے جاسکتے تھے۔ اس نے ایک جوڑا ایکروس کے لیے بھی بنایا تھا۔ آدھی رات کو جب کریٹ کے تمام لوگ سو رہے ہوتے تو ڈیڈیلس اور ایکروس پروں کو پہن کر پرواز کی مشق کرتے۔ ابتداء میں وہ زیادہ دور تک نہیں اڑان بھر پاتے تھے مگر انہیں اتنا یقین ہوگیا تھا کہ وہ ان پروں کی مدد سے لمبی پرواز کرسکتے ہیں۔ بس تھوڑی مشق کی ضرورت ہے۔ یہ مشق ہر رات کی جاتی۔ ایک صبح بادشاہ مائنوز کے بیدار ہونے سے پہلے ہی دونوں نے پَر پہنے اور ہوا میں چھلانگ لگا دی۔ لوگوں نے ڈیڈیلس اور ایکروس کو پرندوں کی طرح ہوا میں اڑتے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ان کی پرواز تیز تھی۔ مہینوں کی مشق رنگ لائی تھی۔ کوئی بھی انہیں نہیں روک سکا۔ وہ دونوں پرندوں کی طرح آرام سے اڑتے ہوئے سسلی کی طرف بڑھنے لگے جو وہاں سے سیکڑوں میل دور تھا۔

    کچھ دیر تک سب ٹھیک رہا۔ سمندر کی بپھرتی لہروں پر دو افراد جرأت مندی سے پرواز کررہے تھے۔ دوپہر ہوگئی اور سورج سر پر آگیا۔ ڈیڈیلس نے پیچھے پلٹ کر ایکروس کو دیکھا اور کہا ’’سورج کی تمازت بڑھ رہی ہے۔ سورج کے قریب مت جاؤ بلکہ لہروں سے تھوڑا اوپر پرواز کرو۔ جیسا میں کررہا ہوں، ویسا کرو۔ ‘‘ مگر نوجوان ایکروس کو اپنی پرواز پر ناز تھا۔ وہ بڑی مہارت سے اڑ رہا تھا۔ جب اس نے سورج کی طرف دیکھا تو اس نے سوچا کہ نیلے آسمان کی بلندی پر اڑنے میں بہت لطف آئے گا۔

    اس نے سوچا، ’’مجھے تھوڑا اور اوپر جانا چاہئے تاکہ میں دیکھ سکوں کہ سورج کہاں طلوع اور کہاں غروب ہوتا ہے۔ ‘‘ چنانچہ اس کی پرواز بلند ہوتی گئی۔ آگے اڑتے باپ ڈیڈیلس نے نہیں دیکھا کہ اس کا بیٹا پیچھے کیا کر رہا ہے۔ جوں جوں ایکروس سورج کے قریب جارہا تھا، اس کی تپش اسے اپنے چہرے پر محسوس ہورہی تھی۔ تبھی اسے احساس ہوا کہ وہ اُڑ نہیں پا رہا ہے بلکہ آہستہ آہستہ نیچے گر رہا ہے۔ چند لمحوں کے بعد اس نے اپنے آپ کو ہوا میں گرتا محسوس کیا۔ اس کے کندھوں سے پنکھ ڈھیلے ہوگئے تھے۔ اس نے چیخ کر باپ کو پکارا مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔

    ڈیڈیلس کو اس کی آواز سنائی دی تو اس نے پلٹ کر دیکھا اور اپنے بیٹے ایکروس کو لہروں میں گرتے اور پھر ڈوبتے دیکھا۔ یہ وہی منظر تھا جب اس نے برسوں پہلے اپنے بھتیجے پرڈکس کو سازش کر کے بلندی سے گرایا تھا۔ گہرے سمندر کی طاقتور لہروں نے ایکروس کو ڈبو دیا۔ ماہر اور عظیم کاری گر اپنے بیٹے کو سمندر کے غضب سے نہیں بچا سکا۔ وہ سوگوار اور نم آنکھوں سے لہروں کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے سسلی تک تنہا پرواز کی۔ ڈیڈیلس نے دن رات محنت کر کے پرندوں کے پَر جمع کئے تھے جنہیں گوند سے چپکا کر اس نے پرندوں جیسے بڑے بڑے پَر بنائے تھے۔ جب ایکروس کی پرواز بلند ہوئی تو سورج کی تپش سے گوند پگھلنے لگا اور ایک ایک کرکے سارے پَر گرنے لگے، اس طرح ایکروس سمندر میں ڈوب گیا۔

    سسلی کے لوگ بتاتے ہیں کہ ڈیڈیلس کئی سال تک زندہ رہا مگر اس نے کریٹ کی بھول بھلیاں اور پروں کے بعد کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں بنائی۔ جس سمندر میں ایکروس ڈوبا تھا، آج اسے ایکارین سمندر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    (ایک دل چسپ یونانی لوک کہانی جسے کئی مصنّفین نے اپنے انداز میں بیان کیا ہے اور اردو سمیت متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا جاچکا ہے)

  • جگنوؤں بھری تھیلی (تبّت کے لوک ادب سے ایک کہانی)

    جگنوؤں بھری تھیلی (تبّت کے لوک ادب سے ایک کہانی)

    تبّت کی ہر وادی برف سے ڈھک گئی تھی۔ راتیں سیاہ تھیں اور لمبی لیکن سفید برف اس سیاہی میں عجیب سا منظر بنا دیتی۔ دور ایک وادی میں، جو کہ چار پہاڑوں کے عقب میں تھی، بانس کی ایک کٹیا کھڑی تھی۔ یہ بوڑھے بانگو کا کاشانہ ہے۔

    جھونپڑی کے دروازے پر لکڑی کا ایک تختہ بطور آڑ رکھا ہوا تھا اور اس کی چھت کی اطراف ترچھی تھیں تا کہ برف کے گولے گرتے ہی پھسل جائیں اور وزن سے بانس نہ ٹوٹیں۔ جھونپڑی کوئی بیس۔۔۔۔پچیس فٹ لمبی اور اتنی ہی چوڑی تھی۔اندر دو چارپائیاں تھیں اور ایک اپلوں کی انگیٹھی جس کی حرارت اس جان لیوا سردی میں بانس کی اس کٹیا کو ایک اگلو سا بنا دیتی اور مکین جاڑے کی شدت سے محفوظ رہتے۔ ایک طرف کھونٹی سے پرانی لالٹین لٹک رہی تھی جس کی لَو سے اندر بمشکل ہی روشن ہوتا تھا۔ جھونپڑی کے دروازے پر قبائلی زبان میں خوش آمدید اور مہمان نوازی کی دعوت کے بارے کچھ الفاظ لکھے تھے اور دائیں جانب ہی گھاس کے ایک ڈھیر کے پاس تین دنبیاں اور ایک یاک کھڑا تھا۔

    جب موسم خوش گوار ہوتا تھا تو بانگو اپنے مویشی باہر لے جاتا اور رات خوبانی کے درختوں کے ساتھ باندھ دیتا لیکن آج کل موسم اتنا سرد تھا کہ وہ بے زبان روحیں کھلی فضا میں اس کی شدت کی تاب نہ لا سکتی تھیں۔ بانگو کی بیوی اون کی پوشاک بنتی رہتی اور ہر ڈورے کے ختم ہوتے ہی دوسرا نکال کر دھاگے جوڑ دیتی۔ اس سنسان اور سرد وادی کے مکین جوڑے کے دو بچّے تھے۔ ان میں لوگیس بڑی تھی نو سال کی اور لوشی پانچ برس کا تھا۔ بانگو شادی سے پہلے دو میل دور اپنے گاؤں میں رہتا تھا لیکن شادی کے بعد اس نے خوبانی کا ایک باغ اگایا اور بانس کی یہ رہائش تیار کر کے اپنے گھر والوں کو یہاں لے آیا۔ بانگو خود تو بوڑھا ہو رہا تھا لیکن اس کی بیوی نوجوان تھی۔ وہ دو بچّوں کی ماں ہوتے ہوئے بھی جب کبھی سردی سے ٹھٹھرتی اور اپنی ہتھیلیاں انگیٹھی پر گھماتی تو ایک نوجوان لڑکی ہی لگتی۔ لمبی اندھیری راتوں میں لالٹین کا شعلہ بھی سردی سے مدھم پڑجاتا اور اس کے گول شیشے پر جمنے والی نمی اس منظر کو اور دھندلا دیتی۔

    بانگو ہر دو ہفتے بعد گاؤں جا کر تیل لے کر آتا۔ لیکن اس بار لگتا تھا کہ وہ برف باری میں جانے سے کترا رہا ہے۔ لالٹین کا شعلہ ہر گزرتی شب اور مدھم ہوتا جا رہا تھا۔

    لوشی ہر وقت سرمئی دنبی کے پاس ہی بیٹھا رہتا بلکہ اپنا کھانا اور دودھ بھی اس کے پاس ہی لے جاتا۔ بانگو نے جب سے اسے بتایا تھا کہ یہ دنبی کچھ دنوں میں بچہ جننے والی ہے تب سے اس کے دماغ میں صرف ایک ہی منظر سمایا تھا، دنبی کا معصوم بچّہ جس کے بال موم کی طرح ملائم اور نرم ہوں گے اور، وہ اپنی ماں سے چمٹ کر دودھ پیے گا۔ لوشی اس دنبی کا منہ پکڑ کر سہلاتا اور اس کے کان کے پاس سرگوشی کرتا:”اس بار سب سے پہلے تمہارا بچّہ میں دیکھوں گا، اچھی دنبی! اگر میں سو گیا تو تم بچّہ نہ جننا، جب میں جاگا تم تب ہی اپنا بچّہ پیدا کرنا۔ نہیں تو میں تم سے کبھی نہیں بولوں گا۔” دنبی کی آنکھیں حیرت سے لوشی کو تکتی رہتیں۔ بانگو کی بیوی نے دنبی کے پیٹ پر دولائی باندھ دی تھی۔ بانگو کو امید تھی کہ دو، تین دن میں دنبی بچّہ جنے گی لیکن اسے یہ اندیشہ تھا کہ لالٹین بجھ جائے گی اور اندھیری رات میں روشنی کا انتظام مشکل ہو جائے گا۔لوشی اپنی بہن سے بہت پیار کرتا تھا اور برف باری سے پہلے وہ دونوں باہر وادی میں کھیلتے، تتلیاں، جگنو اور چڑیاں پکڑتے اور انہیں گھر لے آتے۔ لوشی نے اپنے ڈبّے میں مینا کا بچّہ ڈال رکھا تھا، جس کو وہ دن میں کئی بار دیکھتا اور پھر ڈبّے میں ڈال دیتا۔

    اس رات لالٹین کا ٹمٹماتا شعلہ مکمل طور پر بجھ گیا اور جھونپڑی میں پوری طرح اندھیرا چھا گیا۔ بستروں کے پاس انگیٹھی کی آگ سے ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی۔ لوشی اس رات سونے کی کوشش میں نہ تھا۔ اس کے دل میں بار بار یہ خیال آتا کہ اگر وہ سو گیا تو پھر صبح، دن چڑھے ہی اٹھے گا، اور اگر تب تک دنبی نے بچّہ دے دیا تو وہ اسے سب سے پہلے کیسے دیکھے گا، اس کے ماں باپ تو صبح سویرے ہی جاگ جاتے ہیں۔ آدھی رات کو اس نے لوگیس کی رضائی ہلا کر اسے اپنا اندیشہ بتایا۔

    بانگو کل سے گاؤں گیا ہوا تھا کیونکہ وہ مکھن اور اونی چغے بیچ کر کچھ چیزیں خرید کر لانا چاہتا تھا اور لالٹین کے لیے تیل بھی۔ لوشی دنبی کے پاس جانا چاہتا تھا لیکن اندھیرے میں وہ اپنے بستر سے نہ اٹھا۔ اندھیری جھونپڑی میں حاملہ دنبی دوسرے مویشیوں سے الگ بیٹھی تھی۔ اچانک اس کی آنکھوں میں چمک کی ایک لہر دوڑی، اس نے اپنا پیٹ اٹھایا اور پھر اس کا موٹا وجود چند لمحوں میں ہلکا ہو گیا۔ ننھا اونی ریشم کا گولا ماں کی ٹانگوں سے لپٹا ہوا تھا۔ دنبی زمین پر بیٹھ گئی اور اپنے جگر کے ٹکڑے کا لمس لینے لگی۔

    لوگیس نے لوشی کو کچھ کہے بغیر اپنی چارپائی کے نیچے ہاتھ ڈال کر ایک تھیلی نکالی، جس میں اس نے تین ، چار دن پہلے کافی جگنو بند کر دیے تھے۔ لوشی حیرت سے اپنی بہن کی تھیلی کو دیکھ رہا تھا۔ لوگیس چپکے سے اٹھی اور لالٹین اتار کر انگیٹھی کے پاس لے آئی۔ اس نے لوشی کو اشارہ کیا، وہ دونوں بہن بھائی لالٹین کو کھولنے لگے۔ لوگیس نے جگنوؤں سے بھری تھیلی لوشی کو پکڑاتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی وہ لالٹین کا شیشہ سرکائے، وہ تھیلی شیشے میں پلٹ دے۔ باہر کہر بھری ہوا چل رہی ہے۔ ان کی ماں لحاف اوڑھے نیند کی وادیوں میں گم ہے۔ لوگیس نے شیشہ اٹھاتے ہی لوشی کو بلایا تو اس نے فوراً تھیلی کا منہ پھیلا کر شیشے میں پلٹ دی۔لوگیس نے فورا ہی شیشے کو گھما کر بند کیا اور دامن سے نمی کی تہہ کو صاف کر دیا۔ ایک لمحے میں لالٹین کا شیشہ ہلکا سا روشن ہوا۔دسیوں جگنوؤں نے اتنی روشنی ضرور کر دی تھی کہ وہ جانوروں کے پاس چلے جاتے۔

    لوشی لالٹین اٹھا کر دنبی کے پاس آیا تو خوشی سے لوگیس کو آوازیں دینے لگا۔ اس نے ننھے میمنے کو چوما، وہ سفید اور ملائم تھا، نازک اور کوسا کوسا۔ لوشی سوچ رہا تھا کہ میمنا بھی برف کی طرح سفید ہے لیکن برف تو بڑی ٹھنڈی ہوتی ہے اور یہ میمنا بڑا گرم ہے۔ لوشی بار بار میمنے کو چومتا اور اس کے گرم وجود پر ہاتھ پھیرتا۔ اس نے دنبی کے سَر کے پاس جا کر کہا: "اچھی دنبی! تمہارا شکریہ”۔ لالٹین کی مدھم روشنی میں لوشی دنبی کے پاس بیٹھا خوشی منا رہا تھا جب کہ شیشے میں کئی ننھے شعلے دَم توڑ رہے تھے۔

  • بوڑھا شیخ اور قبیلے کی آبرو (عربی حکایت)

    بوڑھا شیخ اور قبیلے کی آبرو (عربی حکایت)

    ایک بوڑھے شیخ کو اپنا ایک مرغا بہت پیارا تھا۔ ایک دن وہ لاپتا ہو گیا۔ اُس عرب شیخ نے ہر جگہ اسے ڈھونڈا اور اپنے خادموں کو پورا علاقہ چھان مارنے کا حکم دیا، مگر مرغا نہیں ملا۔

    شیخ‌ کے نوکروں نے تھک ہار کر اپنی جان چھڑانے کو کہا کہ مرغے کو کوئی جانور کھا گیا ہو گا، اب اسے بھول جانا ہی بہتر ہے۔ یہ سن کر بوڑھے شیخ نے ان کو مرغے کے پٙر اور کھال ڈھونڈنے کا حکم دے دیا۔ نوکروں کے پاس کوئی راستہ نہ تھا، وہ یہ چیزیں‌ ڈھونڈنے نکل پڑے مگر بے سود۔ کچھ نہ ملا۔

    شیخ نے ایک اونٹ ذبح کیا اور پورے قبیلے کے عمائدین کی دعوت کر ڈالی۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو شیخ نے اُن سے اپنے مرغے کے غائب ہوجانے کا ذکر کیا اور اسے ڈھونڈھنے میں مدد کی درخواست کی۔ کچھ زیرِ لب مسکرائے، کچھ نے بوڑھے کو خبطی سمجھا۔ مگر وعدہ کیا کہ کوشش کریں گے۔ باہر نکل کر مرغے کی خاطر اونٹ ذبح کرنے پر خوب مذاق اڑایا۔ سب حیران تھے کہ ایک مرغے کے لیے شیخ‌ نے اونٹ ذبح کردیے۔

    کچھ دن بعد قبیلہ کے غریب آدمی کی بکری چوری ہو گئی۔ وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر خاموش ہو گیا۔ شیخ کے عِلم میں جب یہ بات آئی تو اُس نے پھر ایک اونٹ ذبح کیا اور قبیلے کی دعوت کر ڈالی۔ جب لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو اس نے پھر مُرغے اور بکری کا قصہ چھیڑا اور قبیلے والوں‌ کو کہا کہ اُس کا مرغا ڈھونڈیں۔ اب تو کچھ نے اُسے برا بھلا کہا۔ کچھ نے دلاسہ دیا کہ اِتنی بڑی بات نہیں، صبر کر لو، اس سے زیادہ اپنا نقصان یہ دعوتیں‌ کر کے کرچکے ہو۔

    ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ ایک اور شیخ کا اونٹ رات کو اُس کے گھر کے سامنے سے چوری ہو گیا۔ اُس شیخ نے اپنے ملازمین کو خوب بُرا بھلا کہا اور خاموش ہو گیا کہ ایک اونٹ اُس کے لیے کوئی وقعت نہیں رکھتا تھا۔

    بوڑھے شیخ کو جب عِلم ہُوا تو اُس نے پھر ایک اونٹ ذبح کیا اور قبیلے کی دعوت کر دی۔ سب کھانے سے جب فارغ ہوئے تو اُس نے سرسری اونٹ کی گم شدگی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مُرغے کو یاد کیا اور قبیلے سے پھر درخواست کی کہ مرغا تلاش کرنے میں‌ مدد کریں۔ اب تو محفل میں خوب گرما گرمی ہوئی اور بوڑھے سے کہا گیا کہ اب اگر دوبارہ اُس نے مرغے سے متعلق کوئی بات کی تو پورا قبیلہ اُس سے قطع تعلق کر لے گا۔ شیخ کے بیٹوں نے بھی باپ کی اِس حرکت پر مہمانوں کو رخصت کرتے ہوئے معذرت خواہانہ روّیہ اختیار کیا۔ وہ شرمندہ تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کا ضعیف بات ایک مرغے کے بدلے تین اونٹ ذبح کرچکا ہے۔ یقیناً ان کا باپ اب سٹھیا گیا ہے۔

    پندرہ روز بعد اسی قبیلے کی ایک لڑکی کنویں سے پانی بھرنے گئی اور پھر واپس نہیں آئی۔ گاوں میں کہرام مچ گیا۔ پورے قبیلے کی عزّت داؤ پر لگ گئی۔ نوجوانوں نے جھتے بنائے اور تلاش شروع کی۔ پہلے گاؤں، پھر دوسرے علاقوں اور نواح سے معلومات کی گئیں تو پتہ چلا کہ کچھ ڈاکو قریبی پہاڑ کے ایک غار میں کچھ عرصے سے چھپے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی کارروائی ہوسکتی ہے۔ گاؤں والے اکٹھا ہوئے اور غار پر دھاوا بول دیا۔ وہاں لڑائی ہوئی، اموات ہوئیں اور لڑکی برآمد ہوگئی۔ لوگوں نے وہاں ایک اونٹ، ایک بکری اور مرغے کی باقیات بھی ڈھونڈ لیں۔

    تب انھیں احساس ہوا کہ بوڑھا شیخ کس طوفان سے ان کو خبردار کررہا تھا۔ اگر گاؤں والے اور خاص طور پر قبیلے کے بڑے اس بوڑھے شیخ کے مرغے کے غائب ہونے کو اہمیت دیتے اور اس پر متحد ہو کر کچھ کرتے تو بات ان کی آبرو تک نہ پہنچتی۔

    (ایک قدیم عربی حکایت کا اردو ترجمہ)