Tag: لوک کہانیاں

  • دربان اور قاضی (ترکی کی لوک کہانی)

    دربان اور قاضی (ترکی کی لوک کہانی)

    پرانے زمانے میں ترکی میں ایک کسان تھا جس کا نام عبدل تھا۔ اس کے پاس تھوڑی سی زمین تھی مگر اس زمین سے اس کا گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کی بیوی نے دو بھینیسں رکھی ہوئی تھیں، وہ ان کا دوودھ نکالتی اور دودھ سے گھی، مکھن اور پنیر بناتی۔ کسان یہ دودھ اور پنیر شہر لے جاتا اور وہاں سے اس کے بدلے شہد خرید لاتا۔ گاؤں میں شہد کی بہت مانگ تھی، واپس آکر وہ شہد بیچ کر رقم حاصل کر لیتا تھا۔

    کچھ عرصہ سے مسئلہ یہ ہورہا تھا کہ جب وہ اپنا سامان لے کر شہر کے دروازے پر پہنچتا تو وہاں‌ کا دربان روک لیتا کہ قاضی کے اجازت نامے کے بغیر تم شہر میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ایک مرتبہ عبدل مکھن اور پنیر کے برتن لے کر شہر پہنچا تو دربان نے اسے روک لیا کہ تم قاضی کی اجازت کے بغیر شہر میں داخل نہیں ہو سکتے۔

    عبدل نے اس کی بہت منت سماجت کی مگر دربان نے شہر میں داخل ہونے نہ دیا۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد عبدل نے کہا کہ دربان بھائی تم ایسا کرو ان برتنوں میں سے ایک برتن تم رکھ لو۔ دربان کو برتن میں سے تازہ پنیر کی مہک آرہی تھی، اس نے برتن رکھ لیا اور عبدل کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ عبدل کا مال جلد ہی بک گیا، اس نے اس رقم سے شہد خریدا اور واپس گاؤں کو چل دیا۔ اس مرتبہ شہر کے دروازے پر اسے پھر دربان نے روک لیا اور کہا کہ قاضی کی اجازت کے بغیر باہر نہیں جا سکتے۔ چنانچہ عبدل نے دربان کو شہد سے بھری بوتل پیش کی۔ تب دربان نے اسے شہر سے باہر جانے دیا۔ گھر آ کر عبدل سوچتا رہا کہ اگر ایسے ہی دربان کو رشوت دیتا رہا تو بہت نقصان ہو جائے گا، اگلے دن وہ سیدھا قاضی کے پاس پیش ہو گیا تاکہ اجازت نامے کی درخواست کرے اور دربان کو رشوت دینے سے اس کی جان چھوٹ جائے۔ مگر قاضی اپنی کتابوں میں ایسے گم ہو گیا، جیسے اس کے سامنے کوئی موجود ہی نہ ہو۔ کچھ دیر بعد اس نے عبدل کو دیکھا اور کہا آج وقت نہیں ہے کل آنا۔ اگلے روز عبدل پھر پیش ہوا مگر قاضی نے اسے پھر ٹال دیا۔ عبدل کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا نیک دل قاضی ایسا کیوں کر رہا ہے۔

    راستے میں اسے ایک بزرگ ملے انہوں نے بتایا کہ اس شہر کا حاکم بدل گیا ہے اور اب نئی تنظیم کے بعد کوتوالی، محافظ اور قاضی سمیت سب محکموں میں نئے منصب دار آگئے ہیں، اب رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، تم قاضی صاحب کو جا کر نذرانہ پیش کرو گے تو تب تمہارا کام ہو جائے گا۔ عبدل کو یہ جان کر بڑا رنج ہوا اور اسے غصّہ بھی آیا کہ وہ اور اس کی بیوی محنت کرکے یہ سب حاصل کرتے ہیں اور وہ سڑکوں بازاروں پر پیدل پھر کر رقم جمع کرتا ہے جس میں سے یہ لوگ رشوت چاہتے ہیں۔ اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد پنیر کے ایک برتن میں گوبر بھر لیا مگر اوپر کی تھوڑی سی جگہ خالی رکھی۔ اس پر اس نے پنیر ڈال دیا، دیکھنے سے یوں لگ رہا تھا جیسے سارا برتن پنیر سے بھرا ہوا ہے۔ اگلے دن وہ برتن لے کر قاضی کی خدمت میں پیش ہو گیا کہ حضور یہ ہمارے علاقے کی خاص سوغات ہے آپ اسے قبول فرمائیں۔

    قاضی نے اس روز کچھ دیر نہ لگائی اور برتن لے کر ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا تمہاری درخواست کہاں ہے؟ عبدل نے درخواست سامنے رکھی تو قاضی نے اسے منظور کر کے اجازت نامے پر اپنی مہر ثبت کر دی۔ عبدل نے اجازت نامہ جیب میں رکھا اور پوچھا کہ حضور کیا پنیر لیے بغیر آپ میری درخواست پر دستخط نہیں کر سکتے تھے؟

    قاضی نے کہا تمہارا کام ہو گیا، اب گھر جاؤ اور یاد رکھو معاملے کی گہرائی میں کبھی نہیں جانا چاہیے۔ عبدل نے قاضی کے دفتر سے باہر قدم رکھا اور اونچی آواز میں بولا: قاضی صاحب آپ بھی برتن کی گہرائی میں نہ جائیے گا۔

  • شفیع عقیل اور ’بھوکے‘ پر فحاشی کا مقدمہ

    شفیع عقیل اور ’بھوکے‘ پر فحاشی کا مقدمہ

    پیٹ بھرنے کے لیے محنت مزدوری اور بعد میں سائن بورڈ لکھنے کو ذریعۂ معاش بنانے والے شفیع پینٹر کی اوّلین تحریر ’زمیندار‘ میں شائع ہوئی جس نے انھیں شفیع عقیل بنا دیا۔ یہ 1948ء کی بات ہے، اور پھر ان کی ساری زندگی کتاب اور قلم کے ساتھ گزری۔

    شعر و ادب، صحافت اور ترجمے کے میدان میں اپنا لوہا منوانے والے شفیع عقیل آرٹ اور مصوّری کے نقّاد بھی تھے۔ وہ باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے تھے۔ منشی فاضل اور پھر ادیب فاضل کا امتحان دیا اور پھر زندگی کی آزمائشوں کا سامنا کرنے گھر سے نکل گئے۔ انھوں نے 6 ستمبر 2013ء کو وفات پائی۔

    1930ء میں لاہور کے گاؤں تھینسہ میں آنکھ کھولنے والے شفیع عقیل 20 سال کے تھے جب کراچی آئے اور یہاں ابتداً سائن بورڈ لکھنے کا کام کرنے لگے، لیکن جلد ہی اردو کے معروف مزاح نگار اور صحافی مجید لاہوری کے مشہور جریدے نمکدان سے وابستہ ہو گئے۔ اسی زمانے میں‌ وہ افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے اور 1952ء میں افسانوں کا پہلا مجموعہ ’بھوکے‘ کے نام سے شائع کروایا جس پر حکومت کی طرف سے فحاشی کا مقدمہ دائر کردیا گیا۔ یہ مقدمہ ڈھائی سال چلا تھا۔

    نمکدان کے بعد شفیع عقیل نے صحافتی سفر میں‌ بچّوں کے رسالے بھائی جان کی ادارت اور پھر روزنامہ جنگ اور اخبارِ جہاں میں تمام عمر کام کیا۔ مدیر کی حیثیت سے وہ مختلف صفحات پر نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور انھیں‌ آگے بڑھنے کا موقع دیتے رہے اور ساتھ ہی تصنیف و تالیف اور تراجم کا سلسلہ جاری رکھا۔

    مجید لاہوری اور سلطان باہو کے فن و شخصیت پر لکھنے کے علاوہ انھوں نے سیف الملوک، سسی پنوں از ہاشم شاہ اور پنجابی کے پانچ قدیم شاعر نامی کتابیں بھی مدون کیں۔ شفیع عقیل پنجابی زبان کے شاعر تھے جن کا کلام بھی کتابی صورت میں‌ سامنے آیا۔ وہ چار مصروں کی ایک نئی صنف کے موجد بھی تھے۔ انھوں نے دیگر شعرا کے کلام کا ترجمہ بھی کیا تھا جب کہ پنجابی زبان میں ان کی جمع و تدوین کردہ لوک کہانیاں بھی ایک بڑا کام ہے جس کا انگریزی اور دوسری کئی زبانوں میں بھی ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔ شفیع عقیل نے پنجابی کلاسیکی شاعری پر جو کام کیا وہ کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔

    وہ فنونِ‌ لطیفہ کے بڑے شیدائی تھے۔ مصوّری سے شفیع عقیل کو گہری دل چسپی رہی جس کا اندازہ اردو زبان میں فنِ مصوّری اور مشہور آرٹسٹوں کے متعلق ان کی کتابوں سے ہوتا ہے۔ وہ کئی مشہور پاکستانی مصوروں کے قریب رہے اور ان کے علاوہ مجسمہ سازوں اور ادیبوں کے انٹرویو بھی کیے۔ وہ سیر و سیاحت کے بھی دلدادہ تھے اور ان کے سفر نامے بھی کتابی شکل میں موجود ہیں۔ حکومت نے شفیع عقیل کو تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

  • صدیوں پرانی داستانوں‌ کے کردار آج بھی ‘زندہ’ ہیں!

    صدیوں پرانی داستانوں‌ کے کردار آج بھی ‘زندہ’ ہیں!

    ساری دنیا کے ادب کی بنیاد لوک ادب ہے۔ لوک گیت اور کہانیاں صدیوں سے سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں۔ یہ داستانیں ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی رہی ہیں اور بہت بعد میں‌ انسان نے تحریری شکل میں‌ محفوظ کیا۔ آج ہمارے پاس کئی کتابیں‌ ہیں جن میں دنیا بھر کی قدیم لوک کہانیاں اور ایسی داستانیں محفوظ ہیں جو مختلف ادوار میں‌ مشہور ہوئیں۔

    لوک کہانیاں چاہے مغرب کی ہوں یا مشرق کی، ان سب میں جنوں، بھوتوں اور پریوں کے قصے، خیر اور شر کی کشمکش اور انجام کے علاوہ نیکی اور بدی کے دیوتاؤں کے مابین تصادم کی داستانیں شامل ہیں۔ یہ لوک ادب بچوں کو بالخصوص حق اور سچ کے لیے، برائی سے نفرت اور بدی کی طاقت کو انجام تک پہنچانے کے لیے جان کی بازی لگا دینے والے سورماؤں اور بہادروں سے واقف کراتا ہے۔ ان کہانیوں میں پہاڑوں کی بلندیاں اور سمندر کی گہرائی ان کرداروں کی راہ میں زیادہ دیر حائل نہیں رہتے اور ثابت قدمی اور لگن سے جیت کا پیغام دیتی ہیں۔ ان کتھاؤں کی بنیاد سچائی اور انسان دوستی ہوتی ہے۔

    آج دنیا کے بڑے بڑے شہنشاہوں کے نام اور ان کی عظیم الشان اور وسیع سلطنت کے تذکرے تاریخ کی کتابوں میں بند ہیں، لیکن لوک کہانیوں کے نیک اور رحم دل بادشاہ اور سورما ان گنت لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں جو لوک ادب کا کمال ہے۔کسی بھی علاقے یا ملک کی لوک کہانیوں کو سمجھنے کے لیے اس علاقے کے رسم و رواج، تاریخ و ثقافت، سماج اور مذہب کو سمجھنا پڑتا ہے۔ لوک کہانیوں میں سب سے زیادہ جادوئی، سحر میں جکڑنے والی الف لیلہ ہزار داستان ہے۔ یہ لوک کہانیوں کا سب سے ضخیم ترین مجموعہ ہے۔ عرب دنیا کی الف لیلہ کی ہر کہانی داستان گوئی کا ایک شاہکار ہے اور ہر ملک کی زبان میں‌ ترجمہ ہوکر مقبول ہوئی ہے۔

    الف لیلہ کی پہلی کہانی کا آغاز بادشاہ شہریار اور اس کے بھائی شاہ زمان سے ہوتا ہے۔ اس کا سب سے اہم اور کلیدی کردار ملکہ شہر زاد ہے۔ شہر زاد ہر روز بادشاہ کو ایک نئی کہانی سُنا کر اپنی موت کے آخری فرمان کو ٹالتی ہے۔ اس کی ہر کہانی منفرد نوعیت کی ہوتی ہے۔ ان میں جنوں، بھوتوں، پریوں سمیت ہر شعبے کے لوگوں کا ذکر ہوتا ہے اور یہ سب نہایت دل چسپ اور تحیر خیز ہوتا ہے جو بادشاہ کو گویا اس کے ارادے سے باز رکھتا ہے۔ اسی طرح الہ دین کی کہانی نے جادوئی چراغ کے جن کو اس قدر مقبولیت عطا کی کہ آج تک اس پر کئی فلمیں، ڈرامے اور کارٹون بن چکے ہیں۔ علی بابا کا کردار اور چالیس چوروں کی کہانی بھی ایک خوب صورت ماجرا ہے جسے آج بھی نہایت دل چسپی اور شوق سے پڑھا اور دیکھا جاتا ہے۔ یہ لالچ کے مقابلے میں‌ خیر کی ایک داستان ہے۔

    لوک کہانیاں چھوٹے بچوں یا نوعمروں کے لیے تو دل چسپی کا باعث ہوتی ہی ہیں، لیکن بڑے بوڑھے بھی ان میں‌ کم دل چسپی نہیں‌ لیتے۔ یہ وہ ادب ہے جو ہر معاشرے میں اور ہر طبقہ ہائے سماج میں‌ سب سے زیادہ مقبول ہوتا ہے۔

  • جَل پری

    جَل پری

    کسی چھوٹی سی بستی میں کوئی بڑھیا رہتی تھی۔ اس کے آگے پیچھے ایک لڑکی کے سوا کوئی دوسرا نہ تھا۔ بڑھیا نے لاڈ پیار میں اسے ایسا اٹھایا تھا کہ وہ اپنوں کو خاطر میں لاتی نہ غیروں کو۔ زبان دراز، پھوہڑ، کام چور۔ ماں کے جھونٹے نوچنے کو تیار مگر ماں تھی کہ داری صدقے جاتی۔ اس کے نخرے اٹھاتی۔

    بڑھیا نے اپنی مرنے والی بہن کی لڑکی کو بھی اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ بیچاری بے گھر اور بے بس۔ سارے دن خالہ کی خدمت میں لگی رہتی۔ بہن کے نکتوڑے اٹھاتی، تب کہیں روکھی سوکھی میسر آتی۔ غریب اپنی ننھی سی جان کو مارتی لیکن کیا مجال جو کبھی خالہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ہو یا بہن نے میٹھی زبان سے کوئی بات کی ہو۔ جب دیکھا ماں بیٹیوں کو غرّاتے۔ مثل تو یہ مشہور ہے کہ ماں مرے اور موسی جیے۔ ہوتی ہوں گی ماں سے زیادہ چاہنے والی خالائیں بھی۔ اس کے نصیب سے تو بڑھیا جلادنی تھی۔

    عید بقرعید کو بھی بیچاری اچھے کھانے، اپنے کپڑوں کے لیے ترستی کی ترستی ہی رہ جاتی۔ اس برے برتاؤ پر شاباش ہے اس لڑکی کو کہ ایک دن بھی اس نے کسی سے شکایت نہیں کی، نہ کام کاج سے جی چرایا۔ جس حال میں خالہ رکھتی رہتی اور ہنسی خوشی وقت گزارتی۔

    بڑی بی اگر اندھی تھیں یا ان کے دل سے ترس اٹھ گیا تھا تو دوسرے تو اندھے نہ تھے۔ دنوں لڑکیوں کا رنگ ڈھنگ سب کے سامنے تھا۔ پاس پڑوس والیاں دیکھتیں اور جلتیں مگر کیا کرسکتی تھیں۔ ایک تو پرائی آگ میں پڑے کون؟ دوسرے بڑھیا چلتی ہوا سے لڑنے والی۔ بد مزاج۔ حق ناحق الٹی سیدھی بکنے لگے۔ اچھی کہو بری سمجھے۔ جھاڑ کا کانٹا ہو کر لپٹ جائے۔ پڑوسنوں کا اور تو کیا بس چلتا۔ بڑھیا اپنے گھر کی مالک تھی۔ ایک اس کی بیٹی دوسری بھانجی۔ ہاں انہوں نے اپنے دل کے جلے پھپولے پھوڑنے کو دونوں لڑکیوں کے نام رکھ دیے۔ جب آپس میں ذکر آتا تو بڑھیا کی چہیتی کو تتیا کہیں کہ ہر وقت بھن بھن، ذرا چھیڑا اور کاٹا۔ دوسری کو گؤ کہ نگوڑی پٹتی ہے، بُرا بھلا سنتی ہے۔ اور کان تک نہیں ہلاتی۔

    وہ جو مثل ہے کہ نکلی ہونٹوں اور چڑھی کوٹھوں۔ بستی ہی کون سی لمبی چوڑی تھی۔ دونوں لڑکیوں کے یہ نام سب کو یاد ہوگئے۔ جہاں ذکر آتا بڑھیا کو تتیا اور بھانجی کو گؤ کہتے۔ ایک دن کہیں جھلو خانم کے کانوں میں بھی بھنک پڑگئی۔ وہ آئے تو جائے کہاں۔ پڑوسنوں پر تو دل ہی دل میں خوب برسی کہ جاتی کہاں ہیں میرا موقع آنے دو۔ ایسی پھلجھڑی چھوڑوں گی کہ گاؤں بھر میں ناچتی پھریں۔ تتیے ہی نہ لگادوں تو بات ہی کیا۔ ہاں غریب بھانجی کہ کم بختی آگئی۔ کہاوت سنی ہوگی کہ

    کمہار پر بس نہ چلا تو گدھیا کے کان امیٹھے۔

    جب ہوتا اسے گود گود کر کھائے جاتی کہ ہاں یہ گؤ ہے اور میری بچی تتیا؟ خدا کرے کہنے والوں کی زبان میں تتیے ہی کاٹیں۔ کیوں ری تُو گؤ ہے؟ یہ سارے کوتک تیرے ہی ہیں۔ میں سب جانتی ہوں۔ ارے تیرے کہیں اس نے ڈنگ مارا ہوگا؟ نہ جانے میرے گھر میں سوکن بن کر کہاں سے آ مری۔ یہ جیسی مسمسی ہے اسے کوئی نہیں جانتا۔

    اس طرح روز بڑھیا بکا کرتی اور لڑکی شامت کی ماری کو سننا پڑتا۔ سننے کے سوا اسے چارہ ہی کیا تھا۔ خدا کسی کو کسی کے بس میں نہ ڈالے۔ ایک دن بستی کے باہر کوئی میلہ تھا۔ بڑھیا کی لاڈلی اچھے کپڑے پہن مٹکتی اتراتی اپنی سہیلیوں کے ساتھ میلہ دیکھنے چلی۔ گؤ بھی آخر لڑکی ہی تھی۔ ایک ایک کا مونہہ دیکھنے لگی۔ ہمسائی اوپر سے جھانک رہی تھیں۔ انہوں نے کہا، ’’بوا اس بچی کو بھی بھیج دو۔ اس کا دل بھی خوش ہوجائے گا۔ دیکھنا بے چاری کیسی چپ چاپ کھڑی ہے۔‘‘

    بڑی بی جھلاّ کر بولیں، ’’یہ میلہ میں جانے کے قابل ہے۔ سر جھاڑ مونہہ پہاڑ۔ نہ ڈھنگ کے کپڑے، نہ کہیں جانے کا سلیقہ۔ دوسرے گھر کا کام کون کرے گا۔ اس کی لونڈیاں بیٹھی ہیں جو کام کرنے آئیں گی۔‘‘ اور لڑکی سے چلّا کر کہنے لگی، ’’چل گھڑا اٹھا اور کنویں پر سے پانی لا۔‘‘

    اس غریب لڑکی نے گھڑا اٹھایا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے کنویں پر گئی، پانی بھرا اور درخت کی چھاؤں میں پہنچی کہ ذرا دل ٹھہر جائے تو گھر چلوں۔ رات دن کی مصیبت پر اسے رونا آگیا۔ اتنے میں پیچھے سے اس کو ایک آواز سنائی دی۔ اس نے جھٹ پلّو سے آنسو پوچھ کر گردن اونچی کی تو دیکھا ایک بڑھیا کھڑی ہے۔ بڑھیا نے گڑگڑا کر لڑکی سے کہا، ’’بیٹی پیاسی ہوں ذرا سا پانی پلا دے۔‘‘ لڑکی نے خوشی خوشی بڑھیا کو پانی پلا دیا۔

    پانی پی کر بڑھیا نے لڑکی کو دعائیں دیں اور بولی، ’’تم بڑی اچھی لڑکی ہو۔ میں تمہارے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہوں کہ ساری عمر یاد کرو گی۔ لو آج سے جب تم بات کرو گی تمہارے مونہہ سے موتی جھڑیں گے۔‘‘ یہ کہتے کہتے بڑھیا لڑکی کی آنکھوں کے آگے سے غائب ہوگئی۔ اصل میں وہ بڑھیا جَل پری تھی۔

    جَل پری تو چلی گئی، اور لڑکی بھی اپنا گھڑا سَر پر رکھ اپنے گھر کے طرف روانہ ہوئی۔ لیکن اب اسے یہ فکر ہوا کہ یہ بڑھیا کون تھی اور اس نے کیا کہا؟ میں اس کا مطلب نہیں سمجھی۔

    گھر پہنچی تو خالہ نے بیچاری کی خواب خبر لی، ’’اب تک کہاں رہی تیرا کام کرنے کو دل نہیں چاہتا تو کہیں اور چلی جا۔‘‘

    لڑکی دبی زبان سے بولی، ’’خالہ جی اب ایسا نہیں ہوگا۔ ایک بڑھیا کو پانی پلانے لگی تھی۔‘‘ لڑکی کا مونہہ سے بات کرنا تھا کہ آنگن میں موتی بکھر گئے۔ جل پری کا کہنا سچ ہوا۔ بڑھیا نے جو چمکتے ہوئے موتی دیکھے تو دیوانوں کی طرح جھپٹی اور موتی چننے لگی۔ موتی سمیٹ چکی تو بڑے پیار سے بولی، ’’چندا! یہ کہاں سے لائی؟‘‘

    لڑکی نے کہا، ’’خالہ جی لائی تو کہیں سے بھی نہیں، میرے مونہہ سے جھڑے ہیں۔‘‘

    بڑھیا ہنس کر بولی، ’’چل جھوٹی۔ مونہہ سے بھی موتی جھڑا کرتے ہیں۔ ایک واری سچ بتا ضرور تجھے کوئی خزانہ ملا ہے۔‘‘

    ’’نہیں خالہ اللہ جانے میرے مونہہ سے جھڑے ہیں۔ ایک بڑھیا کنویں پر ملی تھی۔ اسے میں نے پانی پلایا۔ اس نے مجھے دعا دی کہ جب تُو بات کرے گی تیرے مونہہ سے موتی جھڑیں گے۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔ وہ ضرور کوئی پری تھی مگر بیٹی اب تو دوچار دن پانی بھرنے نہ جائیو پریوں کا کیا بھروسہ۔ آج مہربان ہیں تو کل قہرمان۔ تجھے کہیں کنویں میں نہ لے جائیں۔‘‘ بڑی بی بڑی تیز تھیں۔ بھانجی سے تو ظاہر میں یہ باتیں بنائیں لیکن دل میں کھول ہی تو گئی کہ پری نے میری بچّی کو موتیا کھان نہ بنایا۔ بیٹی میلے میں سے آئی تو اسے خوب پٹیاں پڑھائیں اور بڑی مشکل سے دوسرے دن اس کو کنویں پر پانی بھرنے کے لیے بھیجا۔

    تتیا مرچ اوّل تو گئی بڑے نخروں سے۔ پھر کنوئیں پر ڈول کو جھٹکتی پٹکتی رہی۔ جھینک پیٹ کر گھڑا بھرا اور درخت کے نیچے جا بیٹھی۔ بیٹھی ہی تھی کہ جَل پری بڑھیا کے روپ میں اس کے بھی پاس آئی۔ بولی، ’’بیٹی! ذرا سا پانی تو پلا دے۔ کب سے پیاسی مر رہی ہوں۔‘‘

    بڑھیا کی لڑکی ویسے ہی جلاتن۔ پھر جل پری نے ایسی گھناؤنی صورت بنا رکھی تھی کہ دیکھے سے نفرت ہو۔ گھرک کر بولی، ’’چل چل، میں نے کوئی پیاؤ لگا رکھی ہے۔‘‘

    جل پری گھگھیا کر بولی، ’’پلا دے بیٹی ثواب ہوگا۔‘‘

    لڑکی نے جواب دیا، ’’جاتی ہے یا پتھر ماروں۔‘‘

    ’’اری میں بہت پیاسی ہوں۔‘‘

    ’’میری جوتی سے۔ پیاسی ہے تو کنویں میں ڈوب جا۔‘‘ لڑکی نے تیزی سے جواب دیا۔

    جل پری کو پانی کی کیا ضرورت تھی۔ اسے تو اس بھیس میں اپنا کرشمہ دکھانا تھا۔ غصّے سے بولی، ’’بدتمیز لڑکی جاتی کہاں ہے۔ اتنی آپے سے باہر ہوگئی۔ میں بھی تجھے وہ مزہ چکھاتی ہوں کہ یاد رکھے۔ جا میں نے کہہ دیا کہ آج سے جب تو بات کرے گی تیرے مونہہ سے مینڈک پھدک پھدک کر باہر آئیں گے۔

    لڑکی کو اس بات پر غصّہ تو بہت آیا۔ جوتی اٹھا مارنے کو کھڑی ہوئی لیکن پری کب ٹھہرنے والی تھی وہ بددعا دیتے ہی غائب ہوگئی۔ لڑکی دیر تک دانت پیستی رہی۔ پری کا بھی اسے انتظار تھا۔ دوپہر ہونے آئی اور پری وری کوئی نہیں دکھائی دی تو یہ دل ہی دل میں بڑبڑاتی اپنے گھر روانہ ہوئی۔

    ماں اپنی چہیتی بیٹی کے انتظار میں دروازے کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھی تھی۔ دیکھتے ہی پوچھا، ’’کہو بیٹی پری ملی اس نے تجھے کیا دیا۔‘‘

    لڑکی جلی بھنی تو پہلے ہی چلی آرہی تھی تڑخ کر جواب دیا، ’’چولھے میں جائے تمہاری پری۔ نگوڑی میری تو گردن بھی ٹوٹ گئی۔‘‘

    ’’آخر کیا ہوا؟ پری آج نہیں آئی؟‘‘ ماں نے پوچھا۔

    ’’کیسی پری؟ وہاں تو ایک پگلی سی بڑھیا نجانے کہاں سے آن مری تھی۔‘‘ لڑکی نے جل کر جواب دیا۔

    لڑکی جب بات کرتی اس کے مونہہ سے مینڈکیاں نکل کر زمین پر بھدکنے لگتیں۔ پہلے تو بڑھیا نے اپنی دھن میں دیکھا نہیں۔ لیکن جب ایک مینڈکی اس کی گود میں جاکر اچھلنے لگی تو وہ اچھل پڑی۔ ’’اوئی یہ مینڈکی کہاں سے آئی۔‘‘ پھر جو دیکھتی ہے تو سارے صحن میں مینڈکیاں ہی مینڈکیاں کودتی پھر رہی ہیں۔ ’’ہے ہے اری کیا گھڑے میں بھر لائی ہے۔‘‘

    ’’اسی پچھل پائی بڑھیا نے کوسا تھا کہ تیرے مونہہ سے مینڈکیاں برسیں گی۔‘‘ بیٹی نے بسور کر جواب دیا۔

    ’’جھلسا دوں اس کے مونہہ کو۔ وہ پری نہیں کوئی بھتنی ہوگی۔‘‘ بڑھیا بولی۔

    ’’امّاں یہ سب اس کٹنی کے کرتوت ہیں۔ اسے تم نے گھر میں کیوں گھسا رکھا ہے۔‘‘

    ’’اچھا اب تُو تو مونہہ بند کر پڑوسنیں دیکھ لیں گی تو سارا گاؤں تماشا دیکھنے آجائے گا۔ دیکھ میں اس مردار کی خبر لیتی ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر بڑھیا نے پھکنی اٹھا، بیچاری بے قصور بھانجی کو دھننا شروع کردیا۔ ’’کیوں ری مردار، تیرے مونہہ سے تو موتی جھڑیں اور میری بچّی کے مونہہ سے مینڈکیاں۔ جاتی کہاں ہے۔ آج میں بھی تیری دھول جھاڑ کر رہوں گی۔‘‘

    بڑھیا اپنی یتیم بھانجی پر پل پڑی۔ مارنے کے بعد بھی بڑھیا کو صبر نہ آیا۔ ہاتھ پکڑ گھر سے باہر نکال دیا۔ لڑکی اور کہاں جاتی کنواں ہی پاس تھا۔ روتی ہوئی اس درخت کے نیچے جا بیٹھی جہاں جل پری ملی تھی۔ کبھی خیال کرتی کہ ڈوب مروں۔ کبھی سوچتی کہ کسی اور بستی میں چلی جاؤں۔ اتنے میں جل پری بھی آگئی اور اس نے لڑکی سے پوچھا، ’’بیٹی روتی کیوں ہے؟‘‘

    لڑکی نے اپنی بپتا سنائی اور کہا، ’’تمہاری بدولت میں گھر سے نکالی گئی ہوں۔‘‘

    پری قہقہہ لگا کر بولی، ’’اچھی لڑکیاں کہیں اس طرح بے آس ہو کر رویا کرتی ہیں۔ جا خدا تیرے دن پھیر دے۔ آج سے تو پھولوں کی سیج پر شاہی محل میں سوئے گی۔‘‘

    اللہ کو نہ بگاڑتے دیر لگتی ہے نہ بناتے۔ اتفاق سے ادھر تو پری نظروں سے اوجھل ہوئی اور ایک شہزادہ شکار کھیلتا پانی کی تلاش میں کنویں کے پاس آیا۔ ڈول اٹھاتے اٹھاتے لڑکی پر نظر پڑی۔ لڑکی حقیقت میں چاند کا ٹکڑا تھی۔ کیسا پانی اور کیسی پیاس۔ ڈول وول چھوڑ لڑکی کے پاس آیا۔ بات کی کہ مونہہ سے پھول کیسے سچ مچ کے موتی جھڑتے ہیں۔ اتنے میں پھر جل پری سامنے آئی۔ اب وہ اور ہی شان سے آئی تھی۔

    شہزادہ سمجھا کہ یہ لڑکی کی ماں ہے۔ اس نے پری سے لڑکی کی درخواست کی۔ جل پری نے عہد و پیمان کرکے لڑکی کو شہزادے کے ساتھ کر دیا۔

    شہزادہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ لڑکی کو اپنے محل میں لے گیا۔ بہو کو دیکھ کر ساس سسرے بہت خوش ہوئے۔ بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی۔ بن ماں باپ کی لاوارث لڑکی کو خدا نے اس کے صبر کا پھل دیا۔ بڑھیا اور بڑھیا کی تتیا ساری عمر اپنے تتیے میں کھولتی اور مینڈکوں ہی کے چکر میں رہی۔

    (اردو کے ممتاز صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کے قلم سے)

  • انگوٹھی اور بانسری

    انگوٹھی اور بانسری

    پرانے زمانے کی بات ہے کسی شہر میں دو دوست رہا کرتے تھے۔ ایک کا نام عدنان تھا اور دوسرے کا مانی۔ عدنان ایک سوداگر کا بیٹا تھا اور مانی کا باپ شہر کا کوتوال تھا۔ عدنان تجارت کے کاموں میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا جب کہ مانی فنِ سپاہ گری سیکھ رہا تھا تاکہ شاہی فوج میں شامل ہو کر اپنے ملک کی خدمت کرسکے۔

    یوں تو عدنان تجارت کا مال لے کر اپنے باپ کے ساتھ ہی سفر پر روانہ ہوتا تھا مگر ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ اس کا باپ بیمار پڑ گیا۔ وہ کافی کم زور بھی ہوگیا تھا اس لیے اسے آرام کی ضرورت تھی۔ عدنان نے سوچا کہ اس مرتبہ وہ اکیلا ہی تجارت کا مال لے کر نکل جائے۔

    اس کے ارادے کی خبر مانی کو ملی تو وہ بھی گھومنے پھرنے کی غرض سے اس کے ساتھ ہو لیا۔ ان کے سفر پر جانے کی وجہ سے ان کے گھر والے فکر مند ہوگئے تھے کیوں کہ ان دنوں بہت ہی خطرناک اور ظالم ڈاکوؤں نے لوٹ مار مچا رکھی تھی۔ وہ سنسان جگہوں سے گزرنے والے قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور اگر کوئی مزاحمت کرتا تھا تو اسے قتل بھی کر دیتے تھے۔ دونوں دوستوں نے اپنے گھر والوں کو تسلی دی اور بیٹھ کر یہ منصوبہ بنانے لگے کہ خدانخواستہ اگر کبھی انھیں ڈاکوؤں نے گھیر لیا تو وہ کیا کریں گے۔

    سفر کے دوران انھیں کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور وہ بڑے آرام سے اس ملک میں پہنچ گئے جہاں عدنان کو اپنا تجارتی مال فروخت کرنا تھا۔ چند ہی روز گزرے تھے کہ اس کا سارا سامان فروخت ہوگیا۔ اس تجارت میں اسے بہت فائدہ ہوا تھا۔ وہ دونوں جس مقصد کے لیے آئے تھے وہ پورا ہوگیا تھا اس لیے انہوں نے اپنے گھروں کی واپسی کی تیاری شروع کر دی۔ انہوں نے اپنے گھر والوں کے لیے بہت سے تحفے تحائف بھی خریدے تھے۔

    سفر کے لیے ان کے پاس ان کے گھوڑے تھے۔ عدنان کے گھوڑے پر دو چمڑے کے تھیلے لٹکے ہوئے تھے جو سونے کی اشرفیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ اشرفیاں اسے اپنا مال بیچ کر حاصل ہوئی تھیں۔ مانی کے پاس بھی چند سو اشرفیاں تھیں جو وہ اپنے گھر سے ساتھ لے کر نکلا تھا تاکہ سفر میں اس کے کام آسکیں۔ اس کی اشرفیاں اور تحفے تحائف کے تھیلے بھی اس کے گھوڑے پر لدے ہوئے تھے۔

    دو دن اور ایک رات کی مسافت کے بعد وہ اپنے ملک میں داخل ہوگئے۔ اب ان کا تھوڑا ہی سا سفر باقی تھا جس کے بعد وہ اپنے گھروں کو پہنچ جاتے۔ اچانک انہوں نے سامنے سے دھول اڑتی دیکھی۔ ان کے کانوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ اس دھول کو دیکھ کر اور گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سن کر دونوں دوست گھوڑوں سے اتر گئے اور تشویش بھری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

    تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بہت سے گھڑ سوار ان کے نزدیک پہنچ گئے اور انہوں نے دونوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ وہ لوگ شکل و صورت سے ڈاکو لگتے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں چمکتی ہوئی تلواریں تھیں۔

    سب سے آگے خوفناک شکل اور بڑی بڑی مونچھوں والا ایک لحیم شحیم شخص تھا۔ وہ ان کا سردار معلوم ہوتا تھا۔ اس نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ایک خوفناک قہقہ بلند کیا اور اپنے ساتھیوں سے بولا ۔ “شکل سے یہ لوگ امیر زادے لگتے ہیں۔ سارا مال ان سے چھین لو۔ مزاحمت کریں تو قتل کر دو۔ ”

    عدنان اور مانی ماہر تلوار باز تھے اور بہادر بھی بہت تھے۔ لیکن اتنے بہت سے ڈاکوؤں سے وہ لوگ ہرگز نہیں جیت سکتے تھے۔ عدنان نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا۔ “ہم دو ہیں اور تم لوگ بہت سارے۔ عقل کا تقاضہ ہے کہ ہم تمہارا مقابلہ نہ کریں۔ تم ہمارا مال لے لو اور ہمیں جانے دو۔ ”

    ڈاکوؤں کا سردار ایک مرتبہ پھر بلند آواز میں ہنسا۔ پھر اس کا اشارہ پا کر اس کے دو ساتھی گھوڑوں سے اترے اور ان کے گھوڑوں کی طرف بڑھے تاکہ ان پر لدے سامان پر قبضہ کر سکیں۔

    مانی کی انگلی میں ایک انگوٹھی تھی۔ عدنان کے ہاتھ میں ایک بانسری تھی۔ ڈاکوؤں کو آتا دیکھ کر اس نے یہ بانسری اپنی جیب سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لی تھی۔ جب ڈاکو ان کے تھیلے گھوڑوں سے اتار کر اپنے قبضے میں لے رہے تھے تو مانی نے اپنی انگوٹھی انگلی سے اتاری اور اسے زمین پر پھینک کر اس پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ عدنان نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بانسری جلدی سے اپنے لباس کی جیب میں چھپا لی۔

    دونوں ڈاکو تو اپنے کام میں مصروف تھے مگر ڈاکوؤں کے سردار نے دونوں کی یہ حرکت دیکھ لی تھی۔ وہ گھوڑے سے اتر کر آگے بڑھا۔ اس نے مانی کو دھکا دے کر ایک طرف ہٹایا اور زمین سے انگوٹھی اٹھالی۔ پھر اس نے عدنان کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس کی بانسری بھی نکال لی اور بولا۔ “بے ایمان لڑکو۔ یہ بتاو کہ تم لوگ یہ انگوٹھی اور بانسری کیوں چھپا رہے تھے؟”

    مانی نے گڑ گڑا کر کہا۔ “اے ڈاکوؤں کے سردار۔ ہم سے ہمارا سارا مال لے لو مگر یہ انگوٹھی اور بانسری ہمیں واپس کر دو۔ ”

    ڈاکوؤں کے سردار نے غور سے انگوٹھی اور بانسری کو دیکھا اور بولا۔ “نہ تو یہ انگوٹھی سونے کی ہے اور نہ ہی بانسری پر ہیرے جواہرات جڑے ہوئے ہیں۔ پھر تم لوگ ان معمولی چیزوں کے لیے اتنا پریشان کیوں ہو؟”

    مانی نے بے بسی سے عدنان کو دیکھا اور بولا۔ “انگوٹھی اور بانسری کا ایک راز ہے۔ ادھر سامنے پہاڑوں کے پاس والے جنگل میں ہزاروں سال پرانا ایک درخت ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ جنگل کا سب سے بڑا درخت ہے اور جھیل کے نزدیک ہے۔ اگر کوئی شخص اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر اس انگوٹھی کو انگلی میں پہن کر اس بانسری کو بجائے گا تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اسے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ جائے گا۔”

    مانی کی باتیں سن کر ڈاکوؤں کے سردار کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اسے وہ تمام کہانیاں یاد آگئیں جن میں طرح طرح کی جادو کی چیزیں ہوا کرتی تھیں۔ مانی کی باتوں سے اس نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ انگوٹھی اور بانسری جادو کی ہیں۔ اس نے انھیں اپنی جیب میں رکھ لیا اور دل میں سوچنے لگا کہ وہ جنگل میں جا کراس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر انگوٹھی پہن کر بانسری بجائے گا اور پھر دیکھے گا کہ کیا ہوتا ہے۔

    دونوں ڈاکو عدنان اور مانی سے لوٹا ہوا سامان اپنے گھوڑوں پر لاد چکے تھے۔ سردار نے اپنے ساتھیوں کو وہاں سے روانہ ہونے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے اپنے گھوڑے موڑے اور انھیں تیزی سے بھگاتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ شکر یہ ہوا کہ انہوں نے عدنان اور مانی کے گھوڑے اپنے قبضے میں نہیں لیے تھے ورنہ انھیں گھر پہنچنے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا۔

    ڈاکوؤں کے چلے جانے کے بعد عدنان نے کہا۔ “خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہوئے مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔ ”

    “فکر کیوں کرتے ہو۔ الله نے چاہا تو سب ٹھیک ہوجائے گا”۔ مانی نے گھوڑے پر سوار ہوتے ہوئے اسے تسلی دی۔ پھر دونوں دوست اپنے گھروں کی جانب چل پڑے۔

    دونوں نے اپنے گھر والوں کو ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ جانے کی کہانی سنائی۔ ان کی کہانی سن کر سب نے اظہار افسوس کیا مگر وہ اس بات پر خوش بھی ہوئے اور الله تعالیٰ کا شکر بھی ادا کیا کہ ڈاکوؤں نے دونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔

    یہ اگلے روز دوپہر کی بات ہے۔ ڈاکوؤں کا سردار اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں آیا۔ وہ سب جھیل کے نزدیک اس پرانے درخت کے نیچے جمع ہوگئے۔ ڈاکوؤں کا سردار بہت خوش تھا کہ اب اس انگوٹھی اور بانسری کے راز سے پردہ اٹھ جائے گا۔ اس نے انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہنا اور پھر بانسری بجانے لگا۔

    بانسری کی لے اتنی تیز تھی کہ آس پاس کے درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے شور مچاتے ہوئے اڑ گئے۔ ڈاکوؤں کا سردار بانسری بجانے میں مصروف تھا۔ اس کے تمام ساتھی اسے بڑی حیرت اور دل چسپی سے دیکھ رہے تھے۔

    اچانک قریبی درختوں سے بے شمار سپاہی کود کود کر زمین پر اترے اور بے خبر ڈاکوؤں کے سروں پر پہنچ گئے۔ بہت سے سپاہی بڑی بڑی جھاڑیوں میں بھی چھپے ہوئے تھے۔ وہ بھی باہر آگئے۔ ان سپاہیوں کے ساتھ مانی کا کوتوال باپ بھی تھا۔ سپاہیوں کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ انہوں نے تمام ڈاکوؤں کو گھیرے میں لے لیا۔ ایک تو ڈاکو بے خبر تھے۔

    دوسرے سپاہی اتنے زیادہ تھے کہ ڈاکو ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، اس لیے وہ بڑی آسانی سے قابو میں آگئے۔ سپاہیوں نے ان کی تلواریں اور خنجر اپنے قبضے میں لے کر ان کو گرفتار کر لیا۔

    اسی وقت جھاڑیوں کے پیچھے سے عدنان اور مانی بھی نکل آئے۔ انھیں دیکھ کر تمام ڈاکو حیرت زدہ رہ گئے۔ یہ دونوں تو وہ ہی نوجوان تھے جنہیں کل ان لوگوں نے لوٹا تھا اور جن سے ان کے سردار نے انگوٹھی اور بانسری چھینی تھیں۔

    مانی نے ڈاکوؤں کے سردار سے کہا۔ “میں نے ٹھیک ہی کہا تھا نا کہ اگر کوئی شخص اس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر انگوٹھی کو اپنی انگلی میں پہن کر بانسری کو بجائے گا تو اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اسے دیکھ کر وہ شخص حیرت زدہ رہ جائے گا۔ اب بتاؤ کہ یہ سب کچھ دیکھ کر تمہیں حیرت ہوئی یا نہیں؟ “

    اس کی بات سن کر عدنان مسکرانے لگا۔ مانی نے پھر کہا۔ “ہمیں پتہ تھا کہ ہماری باتیں سن کر تم ضرور اس جگہ پہنچو گے تاکہ انگوٹھی اور بانسری کے راز سے واقف ہو سکو۔ میں نے اپنے ابّا جان سے کہہ کر ان سارے سپاہیوں کو درختوں اور جھاڑیوں میں چھپا دیا تھا تاکہ یہ تمہیں گرفتار کر سکیں۔ ”

    عدنان نے ڈاکوؤں کے سردار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ “جب ہم لوگ تجارت کا مال لے کر اپنے سفر پر روانہ ہوئے تھے تو ہم نے منصوبہ بنا لیا تھا کہ اگر ڈاکوؤں سے واسطہ پڑ گیا تو ہم انھیں انگوٹھی اور بانسری کی کہانی سنائیں گے تاکہ جب وہ اس درخت کے پاس آئیں تو سپاہی انھیں گرفتار کرلیں۔ تم لوگوں نے بڑے عرصے سے اس علاقے میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اب تمہیں اپنے کیے کی سزا ملے گی۔ اگر تم لوگ لوٹ مار کے بجائے محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال رہے ہوتے تو اس ذلت سے دو چار نہ ہونا پڑتا۔”

    ڈاکوؤں کا سردار اس بات پر سخت شرمندہ تھا کہ عدنان اور مانی نے اسے بڑی آسانی سے بے وقوف بنا لیا تھا۔ اس نے اپنا سر جھکا لیا۔

    بعد میں ڈاکوؤں پر مقدمہ چلا اور انھیں سزائیں ہو گئیں۔ عدنان اور مانی کو بھی ان کی اشرفیاں اور دوسرا سامان واپس مل گیا تھا۔ یوں ان دونوں کی ذہانت کی وجہ سے یہ ڈاکو اپنے انجام کو پہنچے اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔

    (مصنّف: مختار احمد)

  • ادیب کا لاکر (چینی کہانی)

    ادیب کا لاکر (چینی کہانی)

    بہت عرصے پہلے کی بات ہے چین کے کسی شہر میں ایک شخص چینگ کرانو رہتا تھا۔ چینگ کرانو بہت اچھا ادیب تھا۔ برسوں سے وہ اکیلے ہی رہتا چلا آ رہا تھا۔

    اپنے کم بولنے کی عادت کی وجہ سے وہ کسی سے دوستی نہ کرسکا تھا۔ اس کے پڑوس میں ایک غریب، مگر پیاری سی لڑکی ژیانگ رہتی تھی۔ ژیانگ کو کہانیاں سننے اور پڑھنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ کرانو چوں کہ اچھا ادیب تھا، اس لیے ژیانگ اس کی بہت عزّت کرتی تھی۔

    ایک دن اس نے اپنی ماں سے اجازت لی اور کرانو سے ملنے اس کے گھر آئی۔ کرانو اس وقت کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ ژیانگ اس کے لیے شربت لائی اور ادب سے اسے پیش کیا۔ کرانو نے پہلی بار کسی کو اپنے گھر میں دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ اس نے ژیانگ کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح ژیانگ کا کرانو کے گھر آنا جانا ہو گیا۔

    کرانو کا گھر چھوٹا سا تھا۔ اس کی تمام چیزیں بکھری رہتی تھیں۔ ژیانگ نے اس کا گھر سلیقے سے سجا دیا۔ کرانو بہت سادگی سے رہتا تھا۔ اس کے گھر میں کوئی قیمتی چیز نہ تھی۔ ژیانگ نے اس کا ذکر اپنے باپ چانگ سے کیا تو وہ کہنے لگا کہ کرانو کنجوس ہے اور دولت جمع کر رہا ہے۔

    ایک دن ژیانگ اپنے گھر میں تھی تو اس نے اپنی کھڑکی سے کرانو کو ایک تھیلا ہاتھ میں لٹکائے جاتے دیکھا۔ ژیانگ سوچنے لگی کہ پتا نہیں اس میں کیا ہے۔ ژیانگ نے فوراً یہ بات اپنے باپ کو بتائی۔ وہ سمجھ گیا کرانو اپنی دولت کہیں دفن کرنے جا رہا ہے۔ اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر کرانو کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کرانو اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا اور چانگ اس کے پیچھے پیچھے تھا۔

    جب چانگ نے کرانو کو بینک میں داخل ہوتے دیکھا تو اس کا شک یقین میں بدل گیا۔ گھر آکر اس نے ژیانگ سے کہا کہ وہ ٹوہ لگائے کہ آخر کرانو نے بینک میں کیا جمع کرایا ہے۔ دوسرے دن ژیانگ نے کرانو کو قہوہ پیش کرتے ہوئے کہا، "کل آپ کسی دوست سے ملنے گئے تھے شاید؟”

    کرانو نے پہلے تو قہوے کا شکریہ ادا کیا پھر کہا، "نہیں میں بینک گیا تھا، لاکر میں ایک قیمتی چیز رکھنے۔” لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ چیز کیا تھی۔ ژیانگ نے بھی زیادہ کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس نے تمام بات اپنے باپ چانگ کو بتا دی۔

    چانگ ایک لالچی اور خود غرض انسان تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح کرانو کی دولت حاصل کرے گا۔ تھوڑے دن بعد ہی ژیانگ کا ایک امیر گھرانے سے رشتہ آیا تو اس کی بات پکّی کر دی گئی۔ چانگ سوچ رہا تھا کہ اب ژیانگ کی شادی کے لیے بہت رقم کی ضرورت ہو گی، سو کوئی ترکیب کرنی چاہیے کہ کرانو کی دولت جلد از جلد ہاتھ آ جائے۔ وہ دن رات اسی فکر میں غرق رہتا کہ کیا کیا جائے۔ آخر ایک خطرناک خیال اس کے ذہن میں آیا۔

    ایک دن اس نے ژیانگ سے کہا، "ہوسکتا ہے کرانو اپنی دولت کسی دوست کے حوالے کر دے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس کی دولت حاصل کر لیں۔”

    ژیانگ نے تعجب سے پوچھا، "مگر ہم اس کی دولت کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟”

    چانگ مکّاری کے ساتھ بولا، "وہ آج کل بیمار ہے، اس لیے زیادہ تر اپنے بستر میں رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے کمرے میں بند کر کے آگ لگا دی جائے۔ اس کے کمرے میں بے شمار کاغذ ہیں، جلد ہی آگ پکڑ لیں گے، لیکن اس سے پہلے تم اس کے لاکر کی چابی اور بینک کے کاغذات حاصل کر لو۔”

    باپ کی یہ سازش سن کر ژیانگ لرز کر رہ گئی۔ اس نے فوراً انکار کر دیا۔ مگر چانگ نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے سبز باغ دکھائے اور اس پر سختی بھی کی۔ مجبوراً ژیانگ اس کے ساتھ اس سازش میں شریک ہونے کو تیار ہو گئی، لیکن اس نے آگ لگانے سے صاف انکار کر دیا۔ چانگ نے کہا کہ وہ آگ خود لگے گا۔

    چنانچہ ژیانگ جب اگلے روز کرانو کے گھر گئی تو اس نے کرانو کو اپنی شادی کے بارے میں بالکل نہیں بتایا، لیکن کسی نہ کسی طرح بینک کے کاغذات اور چابی حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی۔ پھر کرانو کی غیر موجودگی میں وہ صفائی کے بہانے اس کے گھر میں رک گئی اور کرانو کے سارے گھر میں تیل چھڑک دیا۔ کرانو کسی کام سے گیا ہوا تھا۔ یہ کام کر کے وہ جلدی سے باہر نکل آئی۔ جیسے ہی کرانو واپس گھر آیا، چانگ نے دروازہ بند کر کے آگ کی مشعل کھڑکی سے اندر پھینک دی۔

    کرانو جب اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اسے بُو محسوس ہوئی اور پھر آگ تیزی سے پھیلتی گئی۔ چانگ اور ژیانگ اپنے گھر جا چکے تھے۔ پھر وہ اس وقت باہر نکلے جب محلّے والوں نے شور مچایا کہ کرانو مر چکا ہے۔ کسی کو معلوم ہی نہ ہو سکا کہ آگ کیسے لگی۔ لوگوں نے یہی خیال کیا کہ شاید کھانا پکانے کے لیے اس نے آگ جلائی ہو گی اور غلطی سے آگ کپڑوں میں لگ گئی ہو گی۔

    اس درد ناک واقعے کو کئی دن گزر گئے۔ آخر ایک دن ژیانگ اور چانگ بینک جا پہنچے۔ انہوں نے خود کو کرانو کا رشتے دار ظاہر کیا اور لاکر کھولنے میں کام یاب ہو گئے۔ لاکر میں اس تھیلے کے ساتھ ایک خط بھی تھا جس میں لکھا تھا:

    "لاکر کھولنے والے پر سلامتی ہو۔ اس لاکر میں میری زندگی کی سب سے عمدہ کہانی ہے۔ میری یہ کہانی دو حصّوں پر مشتمل ہے۔ ایک شخص مجھے اس کے پندرہ ہزار پاؤنڈ دینے کو تیار ہے، مگر میں ابھی اسے بیچنا نہیں چاہتا۔ میں اسے اس وقت بیچوں گا جب ژیانگ کی شادی ہو گی۔ میں اس کہانی کو بیچ کر ساری رقم ژیانگ کو دے دوں گا۔ وہ مجھے بہت پیاری لگتی ہے، اپنی بیٹی جیسی۔ اگر میں اس کی شادی سے پہلے مَر جاؤں تو ژیانگ اس کہانی کو بیچ سکتی ہے۔”

    اتنا خط پڑھ کر ژیانگ نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو خط سن رہا تھا۔ اس وقت تک وہ تھیلے میں سے سارے قیمتی کاغذات نکال چکا تھا۔

    "کاش! میں اسے اپنی شادی کی خبر سنا دیتی!”

    ژیانگ کی یہ بات سن کر چانگ نے کہا، "کوئی فرق نہیں پڑتا، پندرہ ہزار پاؤنڈ تو اب بھی مل ہی جائیں گے۔ تم باقی خط پڑھو۔” ژیانگ پھر پڑھنے لگی:

    "لیکن کہانی کا یہ صرف ایک حصّہ ہے۔ دوسرا حصّہ بہت اہم اور ضروری ہے اور وہ حصّہ میرے تکیے کے غلاف میں رکھا ہوا ہے، جسے میری موت کے بعد ژیانگ نکال سکتی ہے۔ خدا اسے ہمیشہ خوش رکھے!”

    خط کا آخری حصّہ پڑھتے پڑھتے ژیانگ کی آنکھیں بھر آئیں۔ چانگ بھی حیرت اور افسوس سے سوچ رہا تھا، "کاش میں نے لالچ نہ کیا ہوتا۔”

    (چینی ادب سے اردو ترجمہ)

  • ایک کشتی کے چار مسافر (ترکی ادب سے ترجمہ)

    ایک کشتی کے چار مسافر (ترکی ادب سے ترجمہ)

    عرشے پر بجھے بجھے بلب کی روشنی میں چار آفراد بیٹھے تھے۔ ایک بھورے بالوں والی خاتون، ایک قصاب جس سے کچّے گوشت کی بساند آ رہی تھی، ایک گنجے سر والا پروفیسر، منہ میں پائپ تھامے ایک گورا چٹا نوجوان۔

    چاروں کے پہنچنے سے پہلے ہی آخری اسٹیمر چھوٹ چکا تھا۔ اس کشتی کے کپتان نے جو نیند میں دھت تھا، فی کس پانچ لیروں (رقم) کا مطالبہ کیا تو چاروں کود کر جھٹ کشتی میں سوار ہو گئے۔

    انجن سے چلنے والی یہ کشتی اندھیرے میں پانی کو چیرتے آگے بڑھ رہی تھی۔ بھورے بالوں والی عورت ٹانگ پر ٹانگ ٹکائے سگریٹ کے کش لگا رہی تھی۔ سگریٹ کے دھوئیں کو ایک شان دار انداز میں رات کی خنکی کی طرف چھوڑ رہی تھی۔

    گورے چٹے نوجوان کی نگاہیں خاتون کے گھٹنوں پر مرکوز تھیں۔ گو اس کا ذہن ابھی تک شراب خانے کی اس ویٹرس کی بھری بھری رانوں میں الجھا ہوا تھا جس سے وہ تھوڑی ہی دیر پہلے جدا ہوا تھا۔ پروفیسر کا دماغ اس مقالے میں پھنسا ہوا تھا جو وہ ٹرام میں سفر کے دوران پڑھ چکا تھا۔ قصاب ادھر مونگ پھلی کھا رہا تھا اور ادھر اس بل کے بارے میں سوچ رہا تھا جو بکروں کے تھوک کے بیوپاری نے اسے بھیجا تھا۔ چلو قرامانی بکرے کے ڈیڑھ سو لیرے مان بھی لو مگر اس ناہنجار نے پہاڑی بکروں کی قیمت ایک سو اسّی کے حساب سے کیسے لگائی ہے؟‘‘

    رات کے وقت آسمان پر ستاروں کا نام و نشان نہیں تھا۔ سمندر کی موجوں میں معمولی سا اضطراب دکھائی دیتا تھا۔ کشتی سے ٹکراتی چھوٹی چھوٹی لہروں کی پھوار کبھی کبھی تڑپال کے گدوں کو بھگو جاتی تھی۔ کشتی استنبول کے ساحلی قصبوں کو پیچھے چھوڑتی جزیروں کی جانب بڑھ رہی تھی۔

    بھورے بالوں والی خاتون کو سردی لگی ہو گی کہ وہ یکدم عرشے سی اٹھی اور ہوا سے اڑتی اسکرٹ کو تھامے تھامے کمرے کی طرف لپکی۔ اندر داخل ہوتے ہی اس کا سر چکرانے لگا۔ کیونکہ کمرہ جلتے پٹرول اور دہکتے لوہے کی ملی جلی بُو سے بھرا ہوا تھا۔ خاتون نے فوراً ایک کھڑکی کھولی اور اس کے بالمقابل بیٹھ گئی۔ چاملی جا کی ڈھلانوں سے ہوائی جہاز مار گرانے والی توپوں کی دو عدد سرچ لائٹیں اندھیرے گھپ آسمان کو کھنگال رہی تھیں۔ ان میں سے ایک آہستہ آہستہ دائیں سے بائیں حرکت کر رہی تھی جب کہ دوسری بائیں سے دائیں سرک رہی تھی۔ دونوں شعاعیں وسط میں ایک جگہ پہنچ کر اکھٹی ہوتیں تو دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا جاتیں۔

    خاتون اسی نظارے سے لطف اندوز ہونے میں مگن تھی کہ قریب ہی سے جگنو کی طرح کی کوئی عجیب سی روشنی اڑ کر سمندر میں جا گری۔ اس کے بعد ایک اور پھر اور یکے بعد دیگرے روشنی کی چنگاریوں کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہو گیا۔ عورت اپنے خیالوں میں ڈوبی کچھ دیر ایک دوسرے کا پیچھا کرنے والے ان روشنی کے مکوڑوں کو ایک ایک کر کے کالے سیاہ سمندر میں گرتے اور پھر چینی سیاہی کی طرح پگھلتے دیکھتی رہی۔ پھر اچانک اسے پگھلتے لوہے کی وہ بُو یاد آئی جس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کا استقبال کیا تھا۔ وہ اچھل کر اپنی جگہ سے اٹھی اور کپتان کے کمرے کی طرف لپکی۔ اس کمرے کے دروازے میں سے ہلکا سے دھواں باہر آ رہا تھا۔ وہ گھبرا کر دروازے کے ساتھ چمٹ گئی۔ تب اس نے چہرہ جھلساتے دھوئیں میں سے دیکھا کہ اندر کپتان اور اس کا میٹ جو رسّے سے کشتی کو ساحل سے باندھنے کا کام کرتا ہے۔ دونوں خون پسینے سے تر زمین پر آلتی پالتی مارے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ بے ہوش ہونے کو ہے پھر آگ آگ بچاؤ بچاؤ چلاّتی کمرے سے باہر کود گئی، عورت کے چلّانے کی وجہ سے عرشے پر بھگدڑ مچ گئی۔

    وہ چونکہ کپتان کے کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑ آئی تھی اس لیے اب دھواں اتنا گاڑھا ہو گیا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ قصاب نے گھبراہٹ میں اپنی سیٹ کی گدی اٹھا کر سینے سے بھینچ رکھی تھی۔ پروفیسر صاحب کشتی کا واحد حفاظتی جیکٹ اٹھا کر زیب تن کر چکے تھے۔ نوجوان کے منہ سے بوکھلاہٹ کے باعث پائپ نیچے گر چکا تھا۔ بھورے بالوں والی خاتون نوجوان کی طرف بھاگی اور منت سماجت کرتے ہوئی بولی۔

    ’’مجھے بچا لو……….مجھے بچا لو…………مجھے تو تیرنا بھی نہیں آتا۔‘‘

    نو جوان تھر تھر کانپتی آواز میں بولا: ’’ میں بھی نہیں جانتا تیرنا۔‘‘ حالانکہ وہ تھوڑا بہت تیرنا جانتا تھا۔ کم از کم اتنا تو ضرور جانتا تھا کہ آدھ گھنٹے کے قریب پانی کی سطح پر رہ سکتا، مگر تنِ تنہا۔ اس سے مایوس ہو کر خاتون نے قصاب سے مدد کی امید باندھی۔ مگر وہ اس وقت دونوں ہاتھ پھیلا لا کر منت مان رہا تھا۔‘‘

    اگر اس مصیبت سے میں زندہ بچ جاؤں تو اپنی جان کا صدقہ تین بھیڑیں قربان کروں گا۔‘‘

    سب سے بری حالت پروفیسر کی تھی حالانکہ اسے اپنے بڑا بہادر ہونے کا دعوی تھا۔ ابھی اسی روز صبح یہ پڑھاتے ہوئے کہ سقراط نے کیسے زندگی کو حقیر جان کر ٹھکرا دیا تھا، اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ ایک حقیقی فلسفی کے لیے ایسی راہ عمل اختیار کرنا بالکل معمولی بات ہوتی ہے اور یہ کہ وہ خود بھی سقراط کی طرح ہنستے مسکراتے موت کا خیر مقدم کر سکتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ طلبا کے ساتھ ساتھ وہ خود اپنے آپ کو بھی اپنے اس طرزِ عمل کے بارے میں یقین دلانے میں کام یاب ہو گیا تھا۔

    اس وقت میٹ بالٹی میں پانی بھر رہا تھا۔ عورت اس کے بالوں سے اٹے سینے سے چمٹ کر چلّائی۔

    ’’ خدا کا واسطہ ہے مجھے اکیلے چھوڑ کر نہ چلے جانا۔ ہرگز نہ جانا مجھے چھوڑ کر۔‘‘
    وہ یونہی شور مچا رہی تھی کہ ادھر سے کپتان کی آواز سنائی دی۔ ’’ ہنگامہ مت کرو۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ تم لوگ ضرور اس کشتی کو ڈبو کے رہو گے۔‘‘

    غصے میں ہونے کے باوجود کپتان کی آواز میں کوئی ایسا جادو تھا جس سے سب کو سلامتی کا پیغام مل رہا تھا۔ کیا آگ پر قابو پا لیا گیا تھا؟ جی ہاں، آگ بجھا لی گئی ہو گی ورنہ کپتان کو انہیں یوں جھڑکیں پلانے کی مہلت کیسے مل سکتی تھی۔ اور پھر میٹ بالٹی میں بچا ہوا پانی دوبارہ سمندر میں کیسے انڈیل سکتا تھا؟

    کپتان پھر بولا۔ ’’ خدا جانے کیسے لوگوں سے پالا پڑا ہے۔‘‘ پروفیسر کے مطابق کپتان کا غصہ بالکل جائز تھا۔ وہ اپنا کالر سیدھا کرتے ہوئے کھؤ کھؤ کر کے کھانسا اور ابھی کہنے ہی کو تھا کہ ’’ حضرات، یہ گھبراہٹ چہ معنی دارد؟ خاموش ہو جائیے۔‘‘ مگر اچھا ہی ہوا کہ وہ یہ الفاظ نہ کہہ پایا۔ کہتا بھی کیسے؟ ابھی تک حفاظتی جیکٹ اس کے جسم پر ہی رونق افروز تھا۔

    کشتی کا انجن ایک دو بار رکا اور پھر دوبارہ مزے مزے سے چلنے لگا۔ کپتان اب واپس اپنی جگہ پر پہنچ چکا تھا۔ وہ ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے تک آگ کی وجہ سے لال سرخ ہو جانے والی کشتی کے انجن کو، اور شور و غوغا کرنے والے مسافروں کو جلی کٹی سنا رہا تھا۔ مگر کسی نے ذرا بھی برا نہ منایا۔ برا بھلا کہتا ہے تو کہتا رہے، گالیاں دیتا ہے تو دیتا رہے گا۔ چاہے تو بیشک سب کو پیٹ بھی لے۔ کیا یہی کچھ کم ہے کہ اس نے ہم سب کی جان بچا لی ہے۔

    میٹ اب اپنی قمیص کے بازو سے پسینہ خشک کر رہا تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ اس پورے ہنگامے میں کپتان سے کہیں زیادہ یہ بچارا تھکن کا شکار ہوا تھا۔ کوئی پندرہ منٹ بعد ہر چیز اپنے معمول پر آ چکی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے ہوا گلا گھونٹتے کثیف دھوئیں کے ساتھ ساتھ موت کے خطرے کو بھی عرشے پر سے اچک کر اڑا لے گئی ہے۔

    عرشے پر بجھے بجھے بلب کی روشنی میں اب پھر وہی چار مسافر بیٹھے تھے۔ چار مسافر جو سب کے سب اپنے آپ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ خاتون بظاہر خاصے سکونِ قلب سے ہمکنار ہو چکی تھی۔ وہ سگریٹ بھی پی رہی ہوتی، اگر اس کے ہاتھ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی کانپنا نہ شروع کر دیتے۔

    نوجوان حسبِ سابق پائپ کے کش لگا رہا تھا البتہ اب اس کی نگاہیں خاتون کے گھٹنوں پر مرکوز نہیں تھیں۔ پروفیسر پیچھے گھر میں اپنی منتظر گول مٹول بیوی اور لال لال گالوں والے بچوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جنہیں اب وہ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ پیار کرنے لگا تھا۔

    جہاں تک قصاب کا تعلق ہے تو وہ تھوڑی دیر پہلے مانی گئی منت کی تین بھیڑوں کی تعداد گھٹا کر دو کرنے کی خاطر اپنے ضمیر کو بہکانے میں مصروف تھا۔ وہ اپنی اس کوشش میں کام یاب بھی ہو چکا تھا۔ اور کام یاب بھی اس حد تک کہ جونہی بڑے جزیرے کی روشنیاں دکھائی دینے لگیں، قصاب کی قربانی کی بھیڑوں کی تعداد گھٹ کر ایک ہو گئی۔ اس ایک بھیڑ کو بھی وہ عید قربان پر ذبح کرنے کا عہد کر چکا تھا۔

    منزلِ مقصود پر پہنچتے ہی کشتی پر سے کود کر نیچے اترنے والا پہلا شخص پروفیسر تھا۔ اس کے بعد گورا چٹا نوجوان جو سیٹیاں بجاتا، ڈانس میوزک کی دھنیں سناتا چلا جا رہا تھا۔ قصاب بھاگتا بھاگتا، اچھلتا کودتا، ایک بچّے کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے
    اوجھل ہو گیا۔ بھورے بالوں والی خاتون کی باری سب سے آخر میں آئی۔ اسے ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ ڈولتی کشتی میں سے چھلانگ لگا کر ساحل پر جا اترے۔ میٹ نے ہاتھ بڑھا کر اس کی مدد کرنے کی پیشکش کی مگر خاتون بھلا اس پسینے کی بو والے، میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس شخص کا بازو تھامنے پر کیسے راضی ہو سکتی تھی؟ اس نے ہچکچاتے ہوئے اناڑیوں جیسی جست لگائی اور خود کو ساحل پر پہنچا دیا۔ پھر اپنی جوتی کی ایڑیوں کے بل نہایت پُر وقار طریقے سے خراماں خراماں ساحل سے دور ہوتی چلی گئی۔

    (افسانہ نگار: یشار کمال، ترکی، اردو مترجم: مسعود اختر شیخ)

  • پھولوں کی سیج

    پھولوں کی سیج

    کسی نگر میں ایک راجہ راج کرتا تھا۔ اس کی ایک رانی تھی۔ اس رانی کو کپڑے اور گہنے کا بہت زیادہ شوق تھا۔

    اسے کبھی سونے کا کرن پھول چاہیے، کبھی ہیرے کا ہار تو کبھی موتیوں کی مالا۔ کپڑوں کی تو بات ہی نہ پوچھیے۔ بھاگل پوری ٹسراور ڈھاکے کی ململ اور رات کو سونے کے لیے پھولوں کی سیج۔ پھول بھی کھلے ہوئے نہیں بلکہ ادھ کلیاں جو رات بھر میں آہستہ آہستہ کھلیں۔

    ہر روز نوکر ادھ کھلی کلیاں چُن چُن کر لاتے اور باندی سیج لگاتی۔ اسی طرح اتفاق سے ایک دن ادھ کھلی کلیوں کے ساتھ کچھ کھلی ہوئی کلیاں بھی سیج پر آ گئیں۔ اب تو رانی کو بہت ہی بے چینی ہوئی۔

    رانی کو نیند کہاں؟ کھلی کلیاں چبھ رہی تھیں۔ دیپک دیو (دیا) جو اپنی روشنی پھیلا رہے تھے۔ ان سے نہ رہا گیا۔ وہ بولے، ’’رانی! اگر تمہیں مکان بناتے وقت راج گیروں کو تسلے ڈھو ڈھو کر گارا اور چونا دینا پڑے تو کیا ہو؟ کیا تسلوں کا ڈھونا ان کلیوں سے بھی زیادہ برا لگےگا؟‘‘ رانی نے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ لاجواب ہو گئی۔ راجہ بھی جاگ رہے تھے۔ انہوں نے ساری باتیں سن لیں۔

    راجہ نے رانی سے سوال کیا۔ ’’دیپک دیو کے سوال کی آزماش کر کے دیکھو نا؟ ان کا حکم نہ ماننا اچھا نہیں۔‘‘ رانی راضی ہو گئی۔

    راجہ نے کاٹھ کا ایک کٹہرا بنوایا۔ اس میں رانی کو بند کروا دیا اور پاس بہنے والی ندی میں بہا دیا۔

    وہ کٹہرا بہتے بہتے ایک دوسرے رجواڑے کے کنارے جا لگا۔ وہ راجہ کے بہنوئی کے راج میں تھا۔ گھاٹ والوں نے کٹہرے کو پکڑ کر کنارے لگایا۔ کھولا تو اس میں ایک خوب صورت عورت نکلی۔ رانی کے زیور اور قیمتی کپڑے پہلے ہی اتار لیے گئے تھے۔ وہ معمولی پھٹے چیتھڑے پہنے ہوئے تھی مگر خوب صورت تھی۔ راجہ اسے نہ پہچان سکا اور نہ رانی نے ہی اپنا صحیح پتہ بتایا۔ کیوں کہ دیپک دیو کی بات کا امتحان بھی تو لینا تھا۔

    راجہ کا ایک نیا محل بن رہا تھا۔ اس لیے راجہ کو مزدوروں کی ضرورت تھی۔ اس نے پوچھا۔ ’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘

    رانی نے اپنی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ ’’مکان بنانے میں تسلا ڈھونے کا کام۔‘‘

    راجہ نے اس رانی کو تسلا ڈھونے کے کام پر لگا دیا۔ رانی دن بھر تسلا ڈھوتی اور مزدوری کے تھوڑے پیسوں سے اپنی گزر کرتی۔ دن بھر کی سخت محنت کے بعد جو روکھا سوکھا کھانا ملتا وہ اسے بہت ہی میٹھا اور لذیذ معلوم ہوتا اور رات بھر کھردری چٹائی پر خراٹے لے لے کر خوب سوتی۔ منہ اندھیرے اٹھتی اور نہانے دھونے سے فارغ ہوکر دل میں امنگ اور حوصلے کے ساتھ اپنے کام میں لگ جاتی۔

    اسی طرح رانی کو کام کرتے کرتے بہت دن گزر گئے۔ ایک دفعہ رانی کا خاوند اپنے بہنوئی کے ہاں کسی کام سے آیا۔ خاص کر دل بہلانے کے خیال سے۔ کیوں کہ بغیر رانی کے راجہ کیا؟ اکیلے راج کام میں اس کا جی نہیں لگتا تھا۔ اس طرح راجہ نے رانی کو وہاں اچانک دیکھ لیا۔ دیکھتے ہی راجہ رانی کو پہچان گئے۔ ہاں محنت مزدوری کرنے سے رانی کچھ سانوی سلونی سی ہو گئی تھی اور کچھ موٹی تازی بھی۔ رانی بھی راجہ کو پہچان گئی۔

    پھر راجہ نے پوچھ ہی لیا۔ ’’کہو تسلوں کا ڈھونا تمہیں پسند آیا؟‘‘

    رانی مسکراتی ہوئی بولی۔ ’’کلیاں چبھتی تھیں مگر تسلے نہیں چبھتے۔‘‘

    راجہ کے بہنوئی دونوں کی بات چیت سن کر حیران ہوئے۔ انہوں نے بھید جاننا چاہا۔ راجہ نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ بہنوئی راجہ کی بات سن کر مست ہو گئے۔ انہوں نے رانی کو کام سے سبک دوش کر کے اس کے آرام سے رہنے اور کھانے پینے کا انتظام کر دیا۔

    کچھ دنوں کے بعد رانی سے راجہ نے پوچھا۔’’کہو اب کیا حال ہے۔‘‘

    رانی نے کہا۔ ’’وہ لطف کہاں؟ کاہلی اپنی حکومت قائم کرنی چاہے ہے۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں کلیاں پھر سے چبھنے نہ لگیں۔‘‘راجہ نے اپنی رائے ظاہر کی۔’’تو ایک کام کرو، ہم دونوں مل کر دن بھر مزدوری کیا کریں اور رات کو کلیوں کی سیج پر سوئیں۔‘‘

    رانی نے اپنا تجربہ بتا کر کہا۔’’تو پھر کلیوں کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔ ویسے ہی گہری نیند آجایا کرے گی۔‘‘

    (متھلا، ہندوستان کی ایک لوک کہانی جس میں محنت مشقّت کی اہمیت اور اس کے نتیجے میں‌ ملنے والی حقیقی راحت اور آرام و سکون کو اجاگر کرتی ہے)

  • لکڑہارا اور شیر (چینی لوک کہانی)

    لکڑہارا اور شیر (چینی لوک کہانی)

    دوستو! کئی سال پہلے ایک گاؤں میں کوئی لکڑہارا اپنے کنبے کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ روز صبح سویرے اٹھتا اور لکڑیاں کاٹنے کے لیے جنگل کی طرف نکل جاتا۔

    اس کی گزر بسر اور معاش کا ذریعہ یہی لکڑیاں تھیں جنھیں جنگل سے لاکر شہر میں فروخت کرکے ان کے دام وصول کرلیتا تھا۔ کسی طرح تنگی ترشی سے اس کا گھر چل رہا تھا، لیکن اس کی بیوی نہایت تنک مزاج اور بدخُو تھی۔ اس کی زبان پر ہر وقت شکوہ رہتا۔

    ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ لکڑہارے کی جنگل کے ایک شیر سے دوستی ہو گئی۔ شیر جیسا درندہ اسے لکڑیاں چننے میں مدد دینے لگا تھا۔ لکڑہارا بے تکلفی سے اس کے ساتھ اپنے دل کی باتیں بھی کرنے لگا تھا۔

    ایک دن لکڑہارے نے اس کا ذکر اپنی بیوی سے کیا اور کہا کہ میں اپنے دوست کو کسی دن اپنے گھر بلانا چاہتا ہوں۔ بیوی بہت چیخی چلائی کہ بھلا درندے اور انسان کی کیسی دوستی؟ لکڑہارے کے سمجھانے پر وہ خاموش تو ہو گئی، لیکن اندر سے بہت خوف زدہ تھی۔ ایک دن موقع مناسب جان کر لکڑہارا شیر کو گھر لے آیا۔ بیوی نے شیر کو دیکھتے ہی چلّانا شروع کر دیا اور خوب برا بھلا کہا۔

    اپنے دوست کی بیوی کے منہ سے ایسی باتیں سن کر شیر کو بہت دکھ ہوا اور اس نے لکڑہارے سے جو بہت شرمندگی محسوس کر رہا تھا، کہا کوئی بات نہیں، بس تم ایسا کرو کہ اپنے کلہاڑے سے میرے سَر پر ایک ضرب لگا دو۔ لکڑہارے نے کہا میں اپنے دوست کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہوں؟ جب شیر نے زیادہ اصرار کیا، تو اس نے شیر کے سر پر ضرب لگا دی، جس سے خون کا فوارہ جاری ہو گیا اور شیر واپس جنگل چلا گیا۔

    لکڑہارا کئی دن تک خوف و ندامت کے باعث جنگل نہ گیا۔ گھر میں‌ نوبت فاقوں تک آگئی تو بھوک سے مجبور ہو کر ڈرتے ڈرتے جنگل کا رخ کیا۔ ابھی وہ درخت پر چڑھ کر لکڑیاں کاٹ ہی رہا تھا کہ دُور سے شیر آتا نظر آیا۔ خوف کے مارے اس کا برا حال ہو گیا۔

    شیر عین اس درخت کے نیچے آن کھڑا ہوا اور لکڑہارے سے کہا کہ گھبراؤ نہیں۔ ہم اب بھی دوست ہیں۔ تم ذرا نیچے آؤ۔ لکڑہارا ڈرتے ڈرتے درخت سے نیچے اترا۔ شیر نے کہا تم میرے سَر کے بال اٹھا کر دیکھو وہ زخم تازہ ہے یا پھر بَھر چکا ہے؟ لکڑہارے نے ہچکچاتے ہوئے اس جگہ کو دیکھا اور بتایا کہ زخم کا تو نشان تک نہیں ہے۔ شیر نے اس کی طرف دیکھا اور کہا، لیکن میرے دوست تمھاری بیوی کی باتوں سے جو گھاؤ میرے دل پر لگا ہے، وہ اب بھی تازہ ہے۔

    اس کہانی سے سبق ملتا ہے کہ ہمیں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔