Tag: لوک کہانی

  • چار ہنر مند اور قاضی کا فیصلہ

    چار ہنر مند اور قاضی کا فیصلہ

    یہ کہانی صدیوں پرانی اور لوک ادب کا حصّہ ہے۔ کہتے ہیں یہ بلوچستان اور اس خطّے کی کہانی ہے جو عورت کے مقام و مرتبے اور عزّت و ناموس کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

    چار لوگ سفر پہ نکلے۔ ان میں سے ایک بڑھئی تھا۔ دوسرا درزی، تیسرا سنار اور چوتھا درویش۔ راستے میں انھیں رات پڑ گئی۔

    لٹیروں کا خدشہ تھا۔ اس لیے طے یہ پایا کہ رات کے ایک ایک پہر تک ایک شخص پہرہ دے گا اور تین سوئیں گے۔ اس طرح سب آرام بھی کر لیں گے اور محفوظ بھی رہیں گے۔

    اوّلین پہر بڑھئی کی باری آئی۔ بڑھی نے سوچا کہ رات کٹتی نہیں، کوئی کام کرنا چاہیے۔ اس نے اپنے اوزار لیے اور ایک درخت کی لکڑی سے عورت کا بُت بنانا شروع کیا۔ بہت خوب صورت طریقے سے اس نے درخت کے تنے کو بُت میں بدل دیا اور یوں اس کے پہرے کا وقت پورا ہو گیا۔

    اس کے بعد درزی کی باری آئی۔ درزی نے باہر آ کر دیکھا کہ کسی عورت کا بُت بنا ہوا ہے۔ اس نے سوچا کیوں نہ اس کے لیے کپڑے سیے جائیں۔ یوں وقت بھی کٹ جائے گا۔ اس نے بُت کا ناپ لے کر کپڑے سینا شروع کیے اور اپنا کام مکمل کر کے ہٹا تو اس کی چوکی داری کا وقت ختم ہو گیا تھا۔ اب سنار کی باری تھی۔

    سنار نے جو یہ بُت دیکھا تو اسے خیال آیا کیوں نہ اس کے لیے زیور بنائے جائیں۔ اس نے زیور بنائے اور بُت کو پہنا دیے۔ اس کے بعد درویش کی باری آئی۔ اس نے جو ایک خوب صورت عورت کا بت دیکھا تو دل میں‌ خیال کیا کہ کاش اس میں جان ہوتی۔ یہ سوچ کر اس نے عبادت شروع کر دی اور مناجات میں‌ گم ہوگیا۔ وہ دعا کرنے لگاکہ اے اللہ، میری ساری عمر کی عبادت کے بدلے اس بُت میں جان ڈال دے۔ کیا وقت تھاکہ خدا نے اس دریش کی سن لی۔ ادھر اس کی دعا پوری ہوئی، اور ادھر بُت میں جان پڑگئی۔

    اتنے میں دور آسمان پر سورج نے خود کو چمکان شروع کردیا۔ صبح ہو گئی تھی۔ درویش تو نیند پوری کرنے کے بعد اب جاگ ہی رہا تھا کہ اپنی باری پوری کرکے سو جانے والے تینوں ہنر مند بھی بیدار ہوگئے۔ چاروں نے جب جیتی جاگتی عورت اپنے درمیان دیکھی تو آپس میں لڑنے لگے۔ ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ یہ عورت میری ہے۔ جھگڑا بڑھ گیا تو انھوں نے طے کیا کہ علاقے کے قاضی کے پاس جاتے ہیں اور اس سے انصاف طلب کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنا مقدمہ قاضی کے پاس لائے اور اس سے درخواست کی وہ فیصلہ کرے یہ عورت کس کی ہے۔

    قاضی نے تمام قصّہ سننے کے بعد اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔ یہ عورت درویش کی تو نہیں ہو سکتی کیوں کہ درویش نے خیر اور نیکی کی غرض سے اس کے حق میں دعا کی تھی۔ اسے یوں سمجھو جیسے کوئی بھی بیمار ہو جائے، تو اسے کسی پیر بزرگ کے پاس لے جاتے ہیں تاکہ وہ اس کی تن درستی کے لیے دعا کرے۔ اب اس کا دعویٰ‌ ایسا ہے کہ ایک مریض کو طبیب کے پاس لے جایا گیا اور وہ اس کے علاج سے تن درست ہو گیا تو طبیب اس پر حق ہی جمانے لگا اور اس پر اپنا تصرف چاہتا ہو۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہو سکتا۔

    ترکھان نے اپنی ہنر مندی دکھائی اور تعریف کی صورت میں اس کا صلہ پایا۔ فن کار کے فن کا صلہ داد ہی ہے، تو ہم اس کے فن کی داد دیتے ہیں۔ سنار نے تو محض اس کے حسن کی تراش کے لیے زیور پہنائے، وہ چاہے تو اپنے زیور واپس لے سکتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ حسن زیور کا محتاج نہیں۔ رہ گیا درزی، جس نے کپڑے پہنائے، وہ انصاف کی بات ہے کہ سب پر بازی لے گیا۔ درزی ہی اس عورت کا دولھا ہو گا، کیونکہ اس نے ایک بہت اچھا کام کیا ہے اور اس کا تن ڈھانپا ہے، ستر پوشی کی ہے۔ عورت کے ساتھ اس سے اچھا سلوک اور خیر خواہی کیا ہوسکتی ہے۔ فیصلہ کچھ یوں‌ ہوا کہ یہ عورت اب اس کی ہے، جس نے اسے کپڑے پہنائے۔

  • گیت کا اثر

    گیت کا اثر

    کسی خوش حال ملک میں ایک شاعر اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا جو کوئی کام نہیں کرتا تھا اور سارا دن شاعر دوستوں کی محفل جمائے رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بہت غریب تھا۔

    ایک دن اس کی بیوی نے اس سے کہا۔ تم بادشاہ کے پاس جا کر کوئی گیت ہی سنا دو۔ شاید بادشاہ سے انعام مل جائے۔ شاعر کو یہ بات پسند آئی اور وہ کسی طرح دربان کی خوشامد کرکے بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ نے اس سے آمد کا سبب دریافت کیا۔ شاعر نے کہا کہ وہ اپنا ایک گیت سنانے کی اجازت چاہتا ہے۔ بادشاہ نے اسے گیت سنانے کی اجازت دے دی۔

    گھسے گِھساوے
    گِھس گِھس لگاوے
    پانی!
    جس کی وجہ سے تو گِھسے
    وہ بات میں نے جانی!

    بادشاہ کو گیت اچھا لگا۔ اس نے اُسے اپنے استعمال کے تمام برتنوں پر لکھوانے کا حکم جاری کر دیا۔

    چند دنوں بعد بادشاہ اور وزیر میں کسی بات پر تکرار اور ناراضی ہو گئی۔ وزیر مزاج کا اچھا آدمی نہیں تھا۔ وہ بادشاہ کو جان سے مار ڈالنے کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس طرح حکومت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ آ جاتی یعنی وہ خود بادشاہ بن جاتا۔

    وزیر نے بادشاہ کو ختم کرنے کے لیے کئی منصوبے ذہن میں ترتیب دیے اور آخر میں ایک پر عمل کرانے کے لیے تیار ہو گیا۔

    ایک حجام روزانہ بادشاہ کی داڑھی بنانے کے لیے آتا تھا۔ وزیر نے حجام کو ڈھیر ساری دولت دینے کا لالچ دے کر اسے اس قتل کے لیے راضی کر لیا۔ اس نے کہا کہ جب حجام بادشاہ کی داڑھی بنانے جائے تو اُسترا خوب تیز کر لے اور داڑھی بناتے وقت بادشاہ کی گردن کاٹ دے۔

    دوسرے دن حجام بادشاہ کی داڑھی بنانے کے لیے گیا۔ کٹورے میں پانی آیا۔ حجام پتھر پر پانی ڈال کر استرا تیز کرنے لگا۔ بیٹھے بیٹھے بادشاہ کی نظر کٹورے پر گئی۔ کٹورے پر شاعر کا وہ گیت کُھدا ہوا تھا۔ بادشاہ گیت گنگنانے لگا۔

    گھسے گِھساوے
    گِھس گِھس لگاوے
    پانی!
    جس کی وجہ سے تو گِھسے
    وہ بات میں نے جانی!

    بادشاہ کی گنگناہٹ سن کر حجام کانپنے لگا۔ وہ سمجھا کی بادشاہ کو وزیر کی سازش کا پتہ چل گیا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی وہ اٹھا اور سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔

    بادشاہ کو حجام کے اس طرح بھاگ جانے پر بڑی حیرت ہوئی، ساتھ ہی غصہ بھی آیا۔ اس نے حکم دیا کہ حجام کو پکڑ کر لایا جائے۔

    حجام جب بادشاہ کے سامنے پیش ہوا تو بادشاہ نے پوچھا۔ "کیا بات ہے؟ تم نے ایسی حرکت کی جرأت کیسے کی”؟

    حجام جان کی امان چاہتے ہوئے گڑ گڑانے لگا۔ اور سب کچھ اگل دیا۔

    بادشاہ نے وزیر کو گرفتار کرانے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اُس شاعر کو دربار میں طلب کر کے خوب سراہا اور کہا۔ "جس قدر بھی دولت اٹھا سکو، اٹھا کر اپنے گھر لے جاؤ۔” شاعر کے تو دن ہی پھر گئے۔ وہ بیٹھے بیٹھے امیر ہو گیا۔ ادھر بادشاہ نے وزیر کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

    (قدیم لوک کہانی)

  • خدا سب کا ایک ہے!

    خدا سب کا ایک ہے!

    کسی ملک میں ابراہم نام کا ایک آدمی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتا تھا۔ وہ ایک معمولی اوقات کا عیال دار تھا۔ مگر تھا بہت ایمان دار اور سخی۔ اس کا گھر شہر سے دس میل دور تھا۔

    اس کی جھونپڑی کے پاس سے ایک پتلی سے سڑک جاتی تھی۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو مسافر اسی سڑک سے آتے جاتے تھے۔

    رستے میں آرام کرنے کے لئے اور کوئی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کو ابراہم کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا تھا۔ ابراہم ان کی مناسب خاطر داری کرتا۔ مسافر ہاتھ منہ دھو کر جب ابراہم کے گھ روالوں کے ساتھ کھانے بیٹھتے تو کھانے سے پہلے ابراہم ایک چھوٹی سی دعا پڑھتا اور خدا کا اس کی مہربانی کے لئے شکر ادا کرتا۔ بعد میں باقی سب آدمی بھی اس دعا کو دہراتے۔

    مسافروں کی خدمت کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ لیکن سب کے دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔ زمانے کے پھیر میں پڑ کر ابراہم غریب ہو گیا۔ اس پر بھی اس نے مسافروں کو کھانا دینا بند نہ کیا۔ وہ اور اس کے بیوی بچے دن میں ایک بار کھانا کھاتے اور ایک وقت کا کھانا بچا کر مسافروں کے لئے رکھ دیتے تھے۔ اس سخاوت سے ابراہم کو بہت اطمینان ہوتا، لیکن ساتھ ساتھ ہی اسے کچھ غرور ہو گیا اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ میں بہت بڑا ایمان دار ہوں اور میرا ایمان ہی سب سے اونچا ہے۔

    ایک دن دوپہر کو اس کے دروازے پر ایک تھکا ماندہ بوڑھا آیا۔ وہ بہت ہی کمزور تھا۔ اس کی کمر کمان کی طرح جھک گئی تھی اور کمزوری کے باعث اس کے قدم بھی سیدھے نہیں پڑ رہے تھے۔ اس نے ابراہم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ابراہم اسے اندر لے گیا اور آگ کے پاس جا کر بٹھا دیا۔ کچھ دیر آرام کر کے بوڑھا بولا۔ ’’بیٹا میں بہت دور سے آ رہا ہوں۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ ابراہم نے جلدی سے کھانا تیار کروایا اور جب کھانے کا وقت ہوا تو اپنے قاعدے کے مطابق دعا کی۔ اس دعا کو اس کے بیوی بچوں نے اس کے پیچھے کھڑے ہو کر دہرایا۔ ابراہم نے دیکھا وہ بوڑھا چپ چاپ بیٹھا ہے۔ اس پر اس نے بوڑھے سے پوچھا۔’’کیا تم ہمارے مذہب میں یقین نہیں رکھتے، تم نے ہمارے ساتھ دعا کیوں نہیں کی؟‘‘

    بوڑھا بولا۔ ’’ہم لوگ آ گ کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘

    اتنا سن کر ابراہم غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اس نے کہا۔

    ’’اگر تم ہمارے خدا پر یقین نہیں رکھتے اور ہمارے ساتھ دعا بھی نہیں کرتے تو اسی وقت ہمارے گھر سے باہر نکل جاؤ۔‘‘

    ابراہم نے اسے کھانا دیے بغیر ہی گھر سے باہر نکال دیا اور دروازہ بند کر لیا۔ مگر دروازہ بند کرتے ہی کمرے میں اچانک روشنی پھیل گئی اورایک فرشتے نے ظاہر ہو کر کہا۔

    ابراہم یہ تم نے کیا کیا؟ یہ غریب بوڑھا سو سال کا ہے۔ خدا نے اتنی عمر تک اس کی دیکھ بھال کی اور ایک تم ہو جو اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھتے ہو اس پر بھی اسے ایک دن کھانا نہیں دے سکے، صرف اس لئے کہ اس کا مذہب تمہارے مذہب سے الگ ہے۔ دنیا میں مذہب چاہے بے شمار ہوں۔ لیکن خدا سب کا سچا خالق ہے اور سب کا وہی ایک مالک ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر فرشتہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ابراہیم کو اپنی غلطی معلوم ہوئی اور وہ بھاگا بھاگا اس بوڑھے کے پاس پہنچا اور اس بوڑھے بزرگ سے معافی مانگی۔ بوڑھے نے اسے معاف کرتے ہوئے کہا ۔’بیٹا اب تو تم سمجھ گئے ہو گے کہ خدا سب کا ایک ہے۔‘‘

    یہ سن کر ابراہم کو بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ یہی بات اس سے فرشتے نے بھی کہی تھی۔

    (پیرس کی ایک لوک کہانی)

  • واہ ری بی لومڑی!

    واہ ری بی لومڑی!

    ایک دیہاتی اپنی لاٹھی میں ایک گٹھری باندھے ہوئے گانے گاتا سنسان سڑک پر چلا جارہا تھا۔ سڑک کے کنارے دور دور تک جنگل پھیلا ہوا تھا اور کئی جانوروں کے بولنے کی آوازیں سڑک تک آ رہی تھیں۔

    تھوڑی دور چل کر دیہاتی نے دیکھا کہ ایک بڑا سا لوہے کا پنجرہ سڑک کے کنارے رکھا ہے اور اس پنجرے میں ایک شیر بند ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا اور پنجرے کے پاس آ گیا۔

    اندر بند شیر نے جب اس کو دیکھا تو رونی صورت بنا کر بولا۔

    ’’بھیا تم بہت اچھّے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ دیکھو مجھے کسی نے اس پنجرے میں بند کر دیا ہے اگر تم کھول دو گے تو بہت مہربانی ہوگی۔‘‘

    دیہاتی آدمی ڈر رہا تھا، مگر اپنی تعریف سن کر اور قریب آ گیا۔ تب شیر نے اس کی اور تعریف کرنا شروع کر دی۔

    ’’بھیّا تم تو بہت ہی اچھے اور خوبصورت آدمی ہو، یہاں بہت سے لوگ گزرے مگر کوئی مجھے اتنا اچھا نہیں لگا۔ تم قریب آؤ اور پنجرے پر لگی زنجیر کھول دو۔ میں بہت پیاسا ہوں۔ دو دن سے یہیں بند ہوں۔‘‘

    اس آدمی کو بہت ترس آیا اور اس نے آگے بڑھ کر پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔ شیر دھاڑ مار کر باہر آ گیا اور دیہاتی پر جھپٹا۔ اس نے کہا، ’’ارے میں نے ہی تم کو کھولا اور مجھ ہی کو کھا نے جا رہے ہو؟

    شیر ہنس کر بولا’’ اس دنیا میں یہی ہوتا ہے اگر یقین نہیں آتا تو پاس لگے ہوئے پیڑ سے پوچھ لو۔‘‘

    دیہاتی نے پیڑ سے کہا۔ ’’بھیّا پیڑ! میں راستے پر جا رہا تھا شیر پنجرے میں بند تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے کھول دو اور میں نے کھول دیا۔ اب یہ مجھ ہی کو کھا نا چاہتا ہے۔‘‘

    پیڑ نے جواب دیا۔ ’’اسِ دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ میرے پھل کھاتے ہیں اور میرے سائے میں اپنی تھکن مٹاتے ہیں۔ مگر جب ضرورت پڑتی ہے تو مجھے کاٹ کر جلا بھی دیتے ہیں۔ مجھ پر ترس نہیں کھاتے۔‘‘

    شیر یہ سن کر پھر دیہاتی پر جھپٹا۔ اس نے کہا، ’’رکو ابھی کسی اور سے پوچھ لیتے ہیں۔‘‘ اس نے راستے سے پوچھا۔

    ’’بھائی راستے! دیکھو کتنی غلط بات ہے کہ شیر کو پنجرے سے میں نے نکالا اور وہ مجھ ہی کو کھانا چاہتا ہے۔‘‘

    راستے نے کہا۔ ’’ہاں بھائی! کیا کریں دنیا ایسی ہی ہے۔ مجھ پر چل کر لوگ منزل تک پہنچتے ہیں، میں ان کو تھکن میں آرام دینے کے لیے اپنے اوپر سلا لیتا ہوں۔ مگر جب ان کو مٹی کی ضرورت ہوتی ہے تو میرے سینے پر زخم ڈال کر مجھے کھود ڈالتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ میں نے کبھی آرام دیا تھا۔‘‘

    شیر یہ بات سن کر پھر جھپٹا۔ دیہاتی سہم کر ایک قدم پیچھے ہٹا۔ تب وہاں ایک لومڑی گھومتی نظر آئی۔ دیہاتی اس کی طرف لپکا اور بولا۔ ’’دیکھو یہاں کیا غضب ہو رہا ہے۔‘‘ لومڑی اطمینان سے ٹہلتی ہوئی قریب آئی اور پوچھا۔

    ’’کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہو‘‘

    ’’دیہاتی نے کہا کہ میں راستے سے جا رہا تھا۔ شیر پنجرے میں تھا اور پنجرہ بند تھا۔ اس نے میری بہت تعریف کی اور کہا کہ پیاسا ہوں کھول دو اور جب میں نے اسے کھولا تو یہ مجھ پر جھپٹ پڑا۔ یہ تو کوئی انصاف نہیں۔ اور جب ہم نے پیڑ سے پوچھا تو وہ کہہ رہا ہے کہ یہی صحیح ہے اور جب راستے سے پوچھا تو وہ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ شیر کی بات ٹھیک ہے۔ اب بتاؤ میں کیا کروں؟‘‘

    شیر کھڑا یہ سب باتیں سن کر یہی سوچ رہا تھا کہ دیہاتی کی بات ختم ہو تو اس کو کھا کر اپنی بھوک مٹاؤں۔

    لومڑی بولی۔ ’’اچھّا میں سمجھ گئی تم پنجرے میں بند تھے اور پیڑ آیا اور اس نے تم کو….‘‘

    ’’ارے نہیں۔۔۔ میں نہیں شیر بند تھا۔‘‘ دیہاتی نے سمجھایا۔

    ’’اچھا۔‘‘ لومڑی بولی

    ’’شیر بند تھا اور راستے نے شیر کو کھول دیا تو تم کیوں پریشان ہو؟‘‘

    ’’اففف۔۔ راستے نے نہیں، میں نے اس کو پنجرے سے…‘‘دیہاتی الجھ کر بولا۔

    ’’بھئی میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کون بند تھا۔ کس نے کھولا، کیا ہوا پھر سے بتاؤ۔‘‘ لومڑی نے کہا۔

    شیر نے سوچا بہت وقت بر باد ہو رہا ہے، وہ بولا۔ ’’ میں پنجرے میں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پنجرے کی طرف گیا اور اندر جا کر بولا۔ یوں بند تھا تو…‘‘

    اتنے میں لومڑی تیزی سے آگے بڑھی اور پنجرے کا دروازہ بند کر دیا اور زنجیر چڑھا دی۔

    پھر مڑ کر دیہاتی سے بولی، اب تم اپنے راستے جاؤ۔ ہر کوئی مدد کے لائق نہیں ہوتا۔ دیہاتی نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا راستے سے گزر گیا۔

    (ایک لوک کہانی)

  • ’’وصیت‘‘

    ’’وصیت‘‘

    ایک تھا کچھوا۔ ایک تھا خرگوش۔ دونوں نے آپس میں دوڑ کی شرط لگائی۔

    کوئی کچھوے سے پوچھے کہ تو نے کیوں لگائی؟ کیا سوچ کر لگائی۔ دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ طے یہ ہوا کہ دونوں میں سے جو نیم کے ٹیلے تک پہلے پہنچے، اسے اختیار ہے کہ ہارنے والے کے کان کاٹ لے۔

    دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش تو یہ جا وہ جا، پلک چھپکنے میں خاصی دور نکل گیا۔ میاں کچھوے وضع داری کی چال چلتے منزل کی طرف رواں ہوئے۔ تھوڑی دور پہنچے تو سوچا بہت چل لیے۔ اب آرام بھی کرنا چاہیے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے شان دار ماضی کی یادوں میں کھو گئے۔ جب اس دنیا میں کچھوے راج کیا کرتے تھے۔ سائنس اور فنونِ لطیفہ میں بھی ان کا بڑا نام تھا۔ یونہی سوچتے میں آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ خود تو تختِ شاہی پر بیٹھے ہیں۔ باقی زمینی مخلوق شیر، چیتے، خرگوش، آدمی وغیرہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں یا فرشی سلام کر رہے ہیں۔

    آنکھ کھلی تو ابھی سستی باقی تھی۔ بولے ابھی کیا جلدی ہے۔ اس خرگوش کے بچّے کی کیا اوقات ہے۔ میں بھی کتنے عظیم ورثے کا مالک ہوں۔ واہ بھئی واہ میرے کیا کہنے۔

    جانے کتنا زمانہ سوئے رہے تھے۔ جب جی بھر کے سستا لیے تو پھر ٹیلے کی طرف رواں ہوئے۔ وہاں پہنچے تو خرگوش کو نہ پایا۔ بہت خوش ہوئے۔ اپنے کو داد دی کہ واہ رے مستعدی میں پہلے پہنچ گیا۔ بھلا کوئی میرا مقابلہ کر سکتا ہے؟ اتنے میں ان کی نظر خرگوش کے ایک پلّے پر پڑی جو ٹیلے کے دامن میں کھیل رہا تھا۔

    کچھوے نے کہا، ’’اے برخوردار تُو خرگوش خان کو جانتا ہے؟‘‘ خرگوش کے بچّے نے کہا، ’’جی ہاں جانتا ہوں۔ میرے ابّا حضور تھے۔ معلوم ہوتا ہے آپ وہ کچھوے میاں ہیں جنہوں نے باوا جان سے شرط لگائی تھی۔ وہ تو پانچ منٹ میں یہاں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد مدتوں آپ کا انتظار کرتے رہے۔ آخر انتقال کر گئے۔ جاتے ہوئے وصیت کر گئے تھے کہ کچھوے میاں آئیں تو ان کے کان کاٹ لینا۔ اب لائیے ادھر کان۔‘‘

    کچھوے نے اپنے کان اور سری خول کے اندر کر لی۔ آج تک چھپائے پھرتا ہے۔

  • چرواہے کی دانش مندی

    چرواہے کی دانش مندی

    کچھ لوگ ایک گمشدہ اونٹ کو تلاش کرتے ہوئے جب ایک نخلستان سے گزرے تو وہاں‌ انہیں وہاں ایک بوڑھا چرواہا ملا۔

    انہوں نے اس سے کہا۔ ’’بھائی ہمارا اونٹ یہاں چر رہا تھا۔ کیا تم نے دیکھا ہے؟‘‘

    چرواہے نے پوچھا۔ ’’کیا تمہارا اونٹ بائیں آنکھ سے کانا ہے؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’کیا وہ ایک پیر سے لنگڑا ہے؟‘‘

    ’’ہاں ۔۔۔ ہاں!!‘‘

    ’’کیا اس کے آگے کے دو دانت ٹوٹے ہوئے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں، ہاں۔۔۔بتاؤ وہ کہاں ہے؟‘‘

    ’’میں نے اسے نہیں دیکھا۔‘‘

    ان لوگوں کو چرواہے کی بات کا یقین نہیں آیا۔ کیوں کہ وہ ان کے اونٹ کی جو نشانیاں بتا رہا تھا، وہ بالکل درست تھیں۔ انہیں‌ یقین تھا کہ اس نے ان کے اونٹ کو دیکھا ہے یا وہ یہ جانتا ہے کہ اونٹ کہاں‌ ہے مگر اب بتانا نہیں‌ چاہتا۔ چنانچہ وہ اسے پکڑ کر قاضی کے پاس لے گئے اور سارا ماجرا کہا۔ قاضی صاحب نے بھی حیرت سے پوچھا ۔

    ’’جب تم نے اونٹ نہیں دیکھا تو اس کے بارے میں اتنی باتیں کیسے بتا دیں؟‘‘

    چرواہے نے جواب دیا۔ ’’حضور اونٹ نے دائیں طرف کی گھاس کھائی تھی اور بائیں جانب کی چھوڑ دی تھی۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ بائیں آنکھ سے محروم تھا۔ پھر جہاں اس نے گھاس کھائی تھی وہاں تھوڑی تھوڑی گھاس رہ گئی تھی جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے دو دانت ٹوٹے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اس کے چاروں پیروں کے نشانات میں سے ایک پاؤں کا نشان ہلکا تھا جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لنگڑا تھا۔

    (مشہور عربی لوک کہانی کا اردو ترجمہ)

  • افغانستان: وادیِ پنجشیر کا ڈیم اور پانچ محافظ!

    افغانستان: وادیِ پنجشیر کا ڈیم اور پانچ محافظ!

    ہندوکش کی بلند و بالا اور سنگلاخ چوٹیوں میں گھری وادیِ پنجشیر یا درهٔ پنجشير ایک قدرتی قلعہ ہے جہاں امریکی فوج کے ملک سے انخلا کے بعد طالبان کو افغان جنگجوؤں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

    اس وادی پر مشہور افغان کمانڈر احمد شاہ مسعود کا کنٹرول رہا ہے اور یہاں سے گزشتہ چار عشروں کے دوران کئی مرتبہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف زبردست اور کام یاب مزاحمت کی گئی ہے۔ اس وادی کا یہ نام کیوں پڑا اور اس حوالے سے کیا کہانی مشہور ہے، یہ آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    سنگلاخ چوٹیوں اور گہری کھائیوں میں گھری اس وادی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تاریخی طور پر سکندرِ اعظم اور امیر تیمور کی فوجوں کی اہم گزرگاہ رہی ہے۔

    کابل سے تقریباً تین گھنٹے کی مسافت پر پنجشیر پہنچا جاسکتا ہے۔ یہاں کی آبادی لگ بھگ ایک لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور یہاں فارسی بولی جاتی ہے۔

    اسّی کی دہائی میں پنجشیر کی وادی سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کا مرکز تھی۔

    ملک پر طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996 سے 2001 تک رہا جس میں اس علاقے کے جنگجوؤں کی مزاحمت نے طالبان کو وادی پر اپنا قبضہ جمانے میں کام یاب نہیں ہونے دیا تھا اور اس بار بھی یہاں ہیرو کا درجہ رکھنے والے احمد شاہ مسعود کے بیٹے اور ان کے مسلح حامیوں نے لڑائی جاری رکھی ہوئی ہے۔

    اس وادی کا مشہور دریا بھی اسی نام سے پہچانا جاتا ہے جس کا مرکزی معاون دریا دریائے غور بند ہے جو مشرق میں دریائے پنجشیر سے ملتا ہے۔

    اس وادی کے نام کا لفظی معنٰی پانچ شیروں کی وادی ہے۔ اس سے مراد پانچ محافظ یا ولی لیے جاتے ہیں جنھیں روحانی حیثیت حاصل تھی۔ اس حوالے سے مختلف کہانیاں یا روایات مشہور ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ روحانی طور پر طاقت وَر پانچ بھائیوں نے گیارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں غزنی کے سلطان محمود کے لیے ایک ڈیم بھی بنایا تھا۔ تاہم مؤرخین کہتے ہیں کہ پنجشیر نام ساتویں صدی میں عربوں کی آمد کے بعد استعمال کیا گیا تھا۔

  • چاندی کا فرشتہ

    چاندی کا فرشتہ

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب اسپین پر اہل فِنیشیا کی حکومت تھی اور اسپین کے باشندے زمین سے معدنیات نکالا کرتے تھے۔

    اسی اسپین کے ایک پہاڑی علاقے میں ایک خچر بان رہتا تھا جس کا نام انتونیو (Antonio) تھا۔ انتونیو خچروں کے ایک مال دار بیوپاری کے یہاں کام کرتا تھا جو خچروں کو شمالی علاقوں میں فروخت کرنے کے لیے بھیجا کرتا تھا جہاں اُن کی مانگ زیادہ تھی اور قیمت اچھی مل جاتی تھی۔

    انتونیو بہت ایمان دار اور ہوشیار آدمی تھا، اس لیے اُس کا مالک اس پر بہت اعتماد کرتا تھا اور اُسی کے ہاتھ خچر بازار بھیجا کرتا تھا لیکن اس کے محنتی اور ایمان دار ہونے کے باوجود وہ انتونیو کو اتنی کم تنخواہ دیتا تھا کہ اس کا گزارہ بھی مشکل سے ہوتا تھا۔

    انتونیو کے کئی کئی وقت فاقے بھی ہو جاتے تھے۔ اپنی غریبی کی وجہ سے وہ اپنی پیاری روزیتا (Rosita) سے شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ روزیتا اور انتونیو دونوں ملاگا (Malaga) کے زرخیز میدانوں کے رہنے والے تھے۔ روزیتا بہت خوب صورت لڑکی تھی مگر وہ بھی انتونیو کی طرح غریب تھی اور اس پر بھی فاقے گزرا کرتے تھے۔

    انتونیو خچروں کو بازار لے جاتا تو گرمیوں کی راتوں میں تاروں کی چھاؤں میں وہ خچروں کے پاس ہی سوتا تھا۔ کڑکڑاتے جاڑوں میں کسی سرائے کی آگ کے سامنے رات کاٹنی ہوتی تھی، مگر اب ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ اسے جاڑے کے موسم میں رات گزارنے کے لیے کوئی سرائے نصیب ہو جائے۔ اکثر کسی جھاڑی کے نیچے بارش اور برف باری میں بھوکے انتونیو کو رات کاٹنی پڑتی تھی۔ بہت ہوتا تو کسی پہاڑ کا غار نصیب ہو جاتا جس کا فرش اور دیواریں گیلی ہوتی تھیں۔

    ایک مرتبہ گرمیوں کی ایک چاندنی رات تھی اور انتونیو خچروں کے ساتھ ایک کالے پہاڑ کے دامن میں ڈیرا ڈالے ہوئے تھا۔ قریب ہی ایک جھرنا بہہ رہا تھا۔ بڑا ہی خوش نما منظر تھا۔

    ایسے وقت میں انتونیو کا دھیان ملاگا کی طرف چلا گیا جہاں روزیتا رہا کرتی تھی۔ اس نے سوچا کہ نہ جانے روزیتا اُس وقت کیا کر رہی ہو گی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اُس کی شادی روزیتا سے ہو جائے، پھر وہ اور زیادہ محنت کرے گا۔ دونوں کے لیے وہ چھوٹی سی جھونپڑی بنا لے گا جس میں وہ رہیں گے۔ وہ کسی محل سے کم نہ ہو گی اور کھانے کو جو بھی روکھا سوکھا مل جائے گا، اسے وہ نعمت سمجھ کر کھا لیں گے۔ یہ باتیں سوچتے سوچتے اُسے نیند آ گئی۔ جب اُس کی آنکھ کھلی تو چاند ڈوب رہا تھا لیکن رات ابھی بہت اندھیری تھی۔

    انتونیو کی نظر کالے پہاڑ کی طرف اُٹھ گئی۔ اُسے ایسا نظر آیا جیسے وادی میں چاندی کی ندی سی بہہ رہی ہو اور پہاڑوں کی ڈھلانوں سے چاندی کے چشمے پھوٹ پھوٹ کر نیچے وادی میں جھما جھم گر رہے ہوں۔ پہاڑ کی چوٹی پر جب اُس کی نگاہ پڑی تو اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ایک بانکا بہادر شخص جگ مگ کرتا ہوا زرہ بکتر پہنے، چاندی کا نیزہ لیے کھڑا ہے۔ پھر وہ شخص پہاڑ سے اُتر کر آہستہ آہستہ اُس کی طرف آیا۔ انتونیو کو یقین تھا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ وہ یوں بھی بہت تھکا ہارا تھا۔ اس لیے اُس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں اور نیند نے پھر اُسے اپنی آغوش میں لے لیا۔

    پھر انتونیو نے سوتے سوتے ایک آواز سُنی ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لیے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔ میں چاندی کا فرشتہ ہوں اور سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہوں۔ مجھ کو صرف ایمان دار آدمی ہی دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے یاد رکھنا۔ میں تمہیں اپنا دوست بنانا چاہتا ہوں۔‘‘

    صبح جب انتونیو کی آنکھ کھلی تو اُس نے سب سے پہلے پہاڑ کی چوٹی کی طرف دیکھا جہاں پچھلی رات چاندی کا فرشتہ کھڑا تھا اور جس کی وادی میں چاندی کی ندی بہہ رہی تھی، لیکن وہ کالا پہاڑ دِن کی روشنی میں بھی پہلے کی طرح کالا بھجنگ ہی نظر آ رہا تھا۔ اب تو انتونیو کو بالکل یقین آ گیا کہ جو کچھ اُس نے رات کو دیکھا تھا وہ خواب ہی تھا۔ وہ اُٹھا اور اپنے خچروں کو لے کر بازار کی طرف چل دیا۔

    راستہ بہت لمبا اور سنسا ن تھا۔ انتونیو کو رات والا خواب بار بار یاد آ رہا تھا اور اُس کے کانوں میں چاندی کے فرشتے کے یہ الفاظ گونج رہے تھے ’’اِسے بھولنا مت! یہ ساری چاندی تمہارے ہی لیے ہے۔ تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ لیکن اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ چاندی کا فرشتہ اُسے کس طرح امیر بنا سکتا تھا۔ اُس فرشتے نے یہ بھی تو کہا تھا کہ وہ سال کے خاص خاص دنوں میں ہی نظر آتا ہے۔ انتونیو سارے ملک میں اپنے مالک کے خچر بیچنے جاتا تھا۔ اُسے اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ دوبارہ اِس پہاڑ کی طرف کبھی پھر آئے گا، اور اگر آیا بھی تو اُسی دن آئے گا جب چاندی کا فرشتہ نظر آتا ہے۔ کیا وہ فرشتہ واقعی اُسے وہ جگہ دکھا دے گا جہاں چاندی کا خزانہ دفن ہے؟‘‘

    انتونیو کے دماغ میں یہ سوالات آتے رہے اور وہ پتھریلی پگڈنڈیوں پر چلتا رہا۔ خچروں کی ٹاپوں کی آوازیں چٹانوں سے ٹکر ا کر ہوا میں گونجتی رہیں یہاں تک کہ وہ اُس سڑک پر پہنچ گیا جو اُس بازار تک جاتی تھی جہاں اُس کو خچر بیچنے تھے۔

    راستے میں ایسے بہت سے لوگ اُس کے ساتھ ہو لیے جو بازار جا رہے تھے۔ وہ خچر بان بھی اُس سے دعا سلام کرتے ہوئے گزر گئے جن سے اُس کی ملاقات مختلف بازاروں میں ہوتی رہتی تھی۔

    لوگوں نے اُسے ان بازاروں کی خبریں سنائیں۔ اسے جا بجا خوب صورت لڑکیاں اُون اور انڈے لیے بازار کی جانب جاتی دکھائی دیں جہاں وہ ان چیزوں کو بیچتی تھیں۔ امیر بیوپاری اپنے خوب صورت گھوڑوں پر سوار جاتے ہوئے نظر آئے۔ اسی گہماگہمی میں انتونیو کے دماغ سے پچھلی رات والا واقعہ نکل گیا۔

    بازار میں انتونیو نے خچر اچھے داموں بیچے اور واپس ہونے سے پہلے راستے کے لیے کھانے پینے کا سامان اور اپنے مالک کی بتائی ہوئی بہت سی چیزیں خریدیں۔ جو روپے باقی بچے انہیں اُس نے ایک پیٹی میں رکھ کر اپنی کمر سے باندھ لیا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بازار والی سرائے میں اور چند دن رک کر اپنے دوستوں سے ملے اور آتش بازی دیکھے، لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ کھیل تماشوں میں انہیں خرچ کرتا۔ پھر اُس کے مالک نے اُسے جلد لوٹ آنے کی تاکید بھی کی تھی اور اب وقت تنگ ہو چلا تھا۔

    انتونیو بازار میں رکنے کا خیال چھوڑ کر اپنے خچر پر بیٹھ کر واپس چل دیا۔ اندھیرا ہونے سے پہلے وہ اسی وادی میں جا پہنچا جہاں اس نے پچھلی رات گزاری تھی۔ ابھی دن کی روشنی باقی تھی لیکن وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کر اُسے رات والا واقعہ یاد آ گیا۔ اُس نے سوچا ’’کیا آج بھی وہی چاندی کا فرشتہ نظر آئے گا؟‘‘وہ اپنے خچر کی زین کھول ہی رہا تھا تاکہ اُسے گھاس چرنے کے لیے چھوڑ دے اور اتنی دیر میں وہ بھی کچھ کھا لے کہ اُس نے ایک لمبے تڑنگے شخص کو اپنی طرف آتے دیکھا۔

    وہ شخص مٹیالے رنگ کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا اور کسی درویش کی طر ح لگ رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا جس کا سہارا لے کر وہ چل رہا تھا۔ وہ شخص بہت تھکا ہارا نظر آ رہا تھا اور لنگڑا بھی رہا تھا۔

    اُس درویش نے انتونیو کے پاس آکر کہا، ’’بھائی ! کیا تم اس پہاڑ پر چڑھنے میں میری مدد کرسکتے ہو؟ میں پہاڑ پر رہنے والے ایک جوگی سے ملنا چاہتا ہوں، مگر میں بہت تھک گیا ہوں اور آگے جانے کی مجھ میں طاقت نہیں رہی ہے۔ کیا تم مجھے اپنا خچر دے سکتے ہو؟ میں تم کو اس خدمت کا اچھا انعام دوں گا۔‘‘

    انتونیو نے جواب دیا ’’میں آپ کی مدد بغیر کسی لالچ کے کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن میں خود بے حد تھکا ہوا ہوں۔ اگر میں اپنا خچر آپ کے حوالے کر دوں گا تو مجھ کو بھی آپ کے ساتھ چلنا ہو گا کیوں کہ خچر میرا نہیں ہے بلکہ میرے مالک کا ہے۔‘‘

    درویش نے کہا ’’اگر تم بہت تھکے ہوئے نہیں ہو تو میرے ساتھ چلو۔ مجھے تمہاری رفاقت سے بہت خوشی ہو گی اور میں تمہیں اِس کا انعام بھی ضرور دوں گا۔‘‘

    انتونیو نے سوچاکہ وہ ابھی ایک مضبوط جوان ہے۔ تھکا ہوا ہے تو کیا ہوا۔ ذرا سی دور تو اور چل ہی سکتا ہوں۔ جب اس نے یہ دیکھا کہ جس پہاڑ پر وہ درویش جانا چاہتا ہے وہ تو وہی پہاڑ ہے جس پر اُس نے چاندی کے جھرنے بہتے دیکھے تھے تو وہ جلدی سے راضی ہو گیا۔ اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا جھاڑیوں میں چھپا دیا تاکہ کوئی چور نہ اُٹھا لے جائے اور بوڑھے درویش کو خچر پر بٹھا کر اس کے ساتھ آہستہ آہستہ ہولیا۔

    جب وہ آدھا راستہ طے کر چکا تو درویش نے خچر روک دیا اور اُتر کر بولا، ’’تم سویرے تک یہیں ٹھہرو۔ اگر میں صبح تک واپس نہ آؤں تو میرا انتظار نہ کرنا اور واپس لوٹ جانا کیوں کہ اس کے بعد مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘‘
    یہ کہہ کر وہ بوڑھا درویش پہاڑ کی چوٹی کی طرف چل دیا اور تھوڑی ہی دیر میں انتونیو کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    جب انتونیو کو خیال آیا کہ اُس نے انتونیو کی خدمت کی قیمت ادا نہیں کی تھی تو اس کا دل اُداس ہو گیا۔ بہرحال وہ اُسی جگہ کھڑا تھا جہاں سے اس نے رات کو چاندی کے جھرنے پھوٹتے دیکھے تھے۔ اُس نے سوچا، ’’ہو نہ ہو اس بوڑھے درویش کا چاندی کے خزانے سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ انتونیو نے پتھروں اور چٹانوں کے درمیان چھپے ہوئے خزانہ کی تلاش شروع کر دی۔ دیر تک وہ چٹانوں کے ٹکڑے توڑ کر دیکھتا رہا، مگر اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ آخر کار تھک کر وہ لیٹ گیا اور پھر اسے نیند آ گئی۔

    جب اُس کی آنکھ کھلی تو سورج نکل آیا تھا اور اُس درویش کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ وہ پہاڑ پر تھوڑی دور تک اور چڑھا اور درویش کو آوازیں دیتا رہا، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ انتونیو کو اب احساس ہوا کہ اس کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔ وہ مایوس ہو کر اُسی جگہ واپس چلا گیا جہاں اس نے خچر کی زین اور اپنا تھیلا چھپائے تھے۔ جب اُس نے اپنا تھیلا اٹھایا تو وہ اُسے بہت بھاری لگا۔ تھیلا کھول کر دیکھا تو اس میں چٹانوں کے وہی ٹکڑے نظر آئے جو رات کو اُس نے توڑے تھے۔

    پتھروں کے وہ ٹکڑے بہت بھاری اور بے ڈول تھے۔ انتونیو انھیں پھینکنے ہی والا تھا کہ اسے درویش کے یہ الفاظ یاد آ گئے کہ وہ اُسے انعام دے گا۔ اس کو ایسا لگا جیسے چاندی کا فرشتہ اس کے کانوں میں کہہ رہا ہو کہ’’اِسے مت بھولنا! یہ ساری چاندی تمہارے لیے ہی ہے، تم اب امیر ہو جاؤ گے۔‘‘ انتونیو نے پتھروں سے بھرا تھیلا خچر پر لادا اور گھر کی طرف چل پڑا۔

    جب انتونیو اپنے گھر پہنچا تو اس نے اپنے مالک کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ مالک نے انتونیو کے لائے ہوئے پتھروں کو غور سے دیکھا تو اسے سیاہ پتھروں میں سفید سفید چمکتی ہوئی نسیں سی نظر آئیں۔ وہ ان پتھروں کو اپنے ایک دوست کے پاس لے گیا جو چاندی کی ایک کھدان کا منیجر تھا۔

    منیجر نے مالک سے پوچھا کہ پتھروں کے یہ ٹکڑے اُسے کہاں سے ہاتھ آئے۔ مالک کو اس جگہ کا علم نہیں تھا اِس لیے اُس نے گھر آ کر انتونیو سے اُس جگہ کا اَتا پتا پوچھا۔ انتونیو کو اپنے مالک پر بھروسہ نہیں تھا۔ اُس نے مالک سے کہا کہ وہ چاندی کی کان اُس منیجر کو دکھا دے گا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ منیجر ایمان دار شخص ہے اور اُسے دھوکا نہیں دے گا۔

    منیجر نے انتونیو کو کچھ رقم دی اور بعد میں اور پیسے دینے کا وعدہ کیا۔ انتونیو اُسے ساتھ لے کر گیا اور جگہ دکھائی جہاں اسے درویش نے چھوڑا تھا، جہاں اس نے خزانے کی تلا ش میں چٹانوں کو توڑا تھا اور جہاں اس نے چاندی کے جھرنے نکلتے دیکھے تھے۔ منیجر نے اس جگہ زمین کھودی تو وہاں چاندی کی ایک بہت بڑی کان نکلی۔

    منیجر نے انتونیو کو بہت سے روپے دیے جن کو لے کر وہ ملاگا کے میدانوں میں چلا گیا اور وہاں اُس نے روزیتا سے شادی کر لی۔ دونوں نے وہاں ایک بڑا فارم خرید لیا اور وہ روزیتا کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگا۔

    انتونیو اب بوڑھا ہو گیا ہے اور چاندی کے فرشتے کی کہانی اپنے بچّوں، پوتے پوتیوں اور نواسے، نواسیوں کو مزے لے لے کر سنایا کرتا ہے۔

    (اسپین کے لوک ادب سے انتخاب)