Tag: لوک گیت

  • مائی بھاگی: صحرائے تھر کی لوک گلوکارہ کو مداحوں سے بچھڑے 35 برس بیت گئے

    مائی بھاگی: صحرائے تھر کی لوک گلوکارہ کو مداحوں سے بچھڑے 35 برس بیت گئے

    تھر میں گویا زندگی لوٹ آئی ہے، چھاجوں پانی برسا ہے اور یہ تو آغاز ہے۔ تھر کے باسی خوشی سے نہال ہیں، مگر 35 سال کے دوران جب بھی ساون کی رُت نے صحرا کو گھیرا، بادل گرجے اور چھما چھم برسے تھر اور اس کے باسیوں نے شدّت سے مائی بھاگی کی آواز میں‌ خوشی کے گیتوں کی کمی بھی محسوس کی ہے۔

    کون ہے جس نے صوبۂ سندھ کی اس گلوکار کا نام اور یہ گیت ”کھڑی نیم کے نیچے“ نہ سنا ہو؟ آج مائی بھاگی کی برسی ہے جن کی آواز کے سحر میں‌ خود صحرائے تھر بھی گرفتار رہا۔ وہ اسی صحرا کے شہر ڈیپلو میں پیدا ہوئی تھیں۔ والدین نے ان کا نام ’’بھاگ بھری‘‘ رکھا۔

    بھاگ بھری نے شادی بیاہ کی تقریبات اور خوشی کے مواقع پر لوک گیت گانے کا سلسلہ شروع کیا تو لوگوں نے انھیں‌ بہت پسند کیا۔ وہ گاؤں گاؤں پہچانی گئیں اور پھر ان کی شہرت کو گویا پَر لگ گئے۔

    7 جولائی 1986ء کو وفات پاجانے والی مائی بھاگی کی تاریخِ پیدائش کا کسی کو علم نہیں‌۔ انھوں نے اپنی والدہ سے گلوکاری سیکھی اور مشہور ہے کہ وہ اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھن خود مرتّب کرتی تھیں۔

    مائی بھاگی کو تھر کی کوئل کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے جن کے گائے ہوئے گیت آج بھی کانوں میں رَس گھولتے ہیں۔

    مائی بھاگی کے فنِ گائیکی اور ان کی آواز نے انھیں‌ ریڈیو اور بعد میں‌ ٹیلی ویژن تک رسائی دی۔ انھوں نے تھر کی ثقافت اور لوک گیتوں کو ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی اُجاگر کیا۔ مائی بھاگی کی آواز میں‌ ان لوک گیتوں کو سماعت کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھے، جو تھری زبان سے ناواقف تھے۔

    1981ء میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے انھیں‌ تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ریڈیو پاکستان نے مائی بھاگی کو شاہ عبداللطیف بھٹائی ایوارڈ، قلندر لعل شہباز اور سچل سرمست ایوارڈ سمیت درجنوں اعزازات اور انعامات دیے اور ملک بھر میں انھیں‌ پہچان اور عزّت ملی۔

  • قرآن پڑھنے کی ترغیب دلاتا لوک گیت

    قرآن پڑھنے کی ترغیب دلاتا لوک گیت

    علاقائی ادب کی بات کی جائے تو اس میں مقامی بولیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں اور ان میں مقامی ثقافت کا رنگ نمایاں‌ ہوتا ہے۔ خاص طور پر لوک گیتوں کی چاشنی اور مٹھاس کی وجہ ان میں شامل مقامی بولیوں کے الفاظ ہوتے ہیں۔

    بھارت میں روہیل کھنڈ اور اس کے مضافات کی بولیاں وہاں کے لوک گیتوں کی روح ہیں۔ روہیل کھنڈ کی بولی کو روہیلی کہا جاتا ہے جہاں کے مقامی ادب میں بھوجپوری، راجستھانی اور اودھی وغیرہ کے الفاظ بھی ملتے ہیں۔

    روہیل کھنڈ میں مسلمان بھی آباد ہیں اور ان میں‌ بھی لوک گیت بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ اس علاقے کے لوک ادب کو اگر صرف مسلم ثقافت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس میں مذہبی عقائد اور اسلامی تعلیمات کا ذکر بھی ملتا ہے۔

    مسلمانوں‌ میں‌ جب بچہ کچھ بڑا ہوتا ہے تو والدین اسے قرآن پاک پڑھانا شروع کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک مقامی گیت ملاحظہ کیجیے جس میں ایک ماں اپنے بچے کو اس طرف راغب کرتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کرتی ہے۔

    چندا میرے قرآن پڑھ لے
    بھولے بھالے قرآن پڑھ لے
    تیرے مکتم پہ پھول گلاب کا
    ترے بکتم پہ پھول گلاب کا
    تیرے نائی پہ نور برسے
    تیرے بھائی پہ نور برسے
    چندا، بنڑے، قرآن پڑھ لے
    بھولے بھالے قرآن پڑھ لے