Tag: لڑکیاں

  • برطانیہ: اسکول جانے والی لڑکیاں کہاں گئیں؟

    برطانیہ: اسکول جانے والی لڑکیاں کہاں گئیں؟

    لندن: برطانیہ میں 12 اور 13 سال کی دو کم سن لڑکیوں کے اچانک لا پتا ہونے کا پریشان کن واقعہ پیش آیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانیہ کے علاقے بکنگھم شائر میں دو کم سن طالبات اسکول جاتے ہوئے لاپتا ہو گئی ہیں، جن کی تلاش شد و مد سے جاری ہے۔

    رپورٹس کے مطابق اسٹیپل کلیڈن سے تعلق رکھنے والی 13 سالہ ایلینا، اور 12 سالہ کیرا کو آخری بار بکنگھم میں منگل کی صبح تقریباً ساڑھے آٹھ بجے دیکھا گیا تھا، اور لاپتا ہونے کے وقت دونوں لڑکیوں نے اپنے اسکول کا یونیفارم پہن رکھا تھا۔

    مقامی پولیس انسپکٹر اولیور برکسی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ لڑکیوں کی جان کے حوالے سے بہت زیادہ فکر مند ہیں، کیوں کہ وہ منگل کے بعد سے نہیں دیکھی گئی ہیں، انھوں نے کہا ’’اطلاع ملنے کے بعد سے ہی انھیں تلاش کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے، تاہم اب ہمیں عوام کی مدد کی ضرورت ہے۔‘‘

    پولیس نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر انھیں لڑکیوں کے بارے میں کسی بھی قسم کی کوئی معلومات ہو تو وہ پولیس کو فوری طور پر آگاہ کر دیں، یا اگر انھیں کہیں دیکھ لیں تو 999 پر کال کریں۔

    پولیس کی جانب سے لاپتا لڑکی کیرا کی تفصیل بھی جاری کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کیرا کا قد تقریباً 5 فٹ 3 انچ ہے، اور وہ دبلی پتلی، لمبے لہردار گہرے بھورے بالوں والی لڑکی ہے۔

    پولیس کی جانب سے لاپتا لڑکیوں سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ اگر وہ کسی پریشانی میں نہیں ہیں اور خیریت سے ہیں، تو وہ اہل خانہ سے رابطہ کریں کیوں کہ سب ان کی سلامتی کے لیے پریشان ہیں۔

  • دو لڑکیاں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے اپنی جان گنوا بیٹھیں

    دو لڑکیاں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے اپنی جان گنوا بیٹھیں

    دو لڑکیاں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے موت کے منہ میں چلی گئیں، ان کی زندگی کی آخری لمحات کی ویڈیو بھی انھوں نے خود ہی ریکارڈ کی۔

    کولمبیا میں دو موٹر سائیکل سوار لڑکیاں حادثے شکار ہوکر اپنی جان گنوا بیٹھیں، ان کے دنیا سے جانے کے آخری لمحے کی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں وہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے کافی خوش ہیں مگر اگلے ہی لمحے بائیک درخت سے ٹکرا جاتی ہے۔

    دونوں لڑکیاں اس حادثے میں جاں بحق ہوگئی جبکہ یہ واقعہ کولمبیا کے علاقے کوئنڈیومیں پیش آیا۔ حادثے سے کچھ دیر قبل کی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے 19 سالہ کیتھرین کیوبیوس موٹر سائیکل چلا رہی ہے، اسکی سہیلی 19 سالہ سیلینا ویلنٹینا اس کے پیچھے بیٹھی ہے۔

    ’پیئبلو تاپاو‘ قصبے سے ’مونٹی نیگرو‘ جاتے ہوئے دنوں بائیک پر ویڈیو ریکارڈ کرہی تھیں، دنوں نے اس دوران ہیلمنٹ بھی نہیں پہنا تھا۔

    لڑکیاں موٹرسائیکل پر شور مچاتی رہیں اور موبائل فون کے کیمرے کی طرف دیکھ کر چیختی رہیں اور مسکراتے ہوئے بھی نظر آئیں۔

    سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں لڑکیاں تیز رفتاری سے موٹرسائیکل چلاتے ہوئے اچانک کیمرے سے غائب ہوجاتی ہیں۔

    جائے حادثہ سے گزرتے ہوئے راہ گیروں اور ڈرائیوروں نے دونوں لڑکیوں کو زمین پر پڑے دیکھا، جائے وقوع پر ہی انھیں مردہ قرار دیا گیا۔ مذکورہ واقعہ 26 مئی کو پیش آیا جبکہ ویڈیو گذشتہ جمعہ کو آن لائن شیئر کی گئی۔

    کوئنڈیو حکام نے مئی میں موٹر سائیکل سواروں کی کم از کم 10 اموات ریکارڈ کی ہیں۔ مونٹی نیگرین حکام نے حادثے کی وجہ نہیں بتائی لیکن اس بات کی تحقیقات کی جارہی ہیں کہ آیا سڑک کی حالت یا موٹر سائیکل کی رفتار اس حادثے کی وجہ بنی۔

  • لڑکیوں کے اسکول کو روشنی سے منور کرنے والی قندیل

    لڑکیوں کے اسکول کو روشنی سے منور کرنے والی قندیل

    کراچی: صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی قندیل رحمٰن لڑکیوں کے لیے امید کی کرن بن گئیں، ان کی تنظیم اب تک کئی اسکولوں میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کی سہولت فراہم کرچکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر کوہاٹ سے تعلق رکھنے والی قندیل رحمٰن کم عمر لڑکیوں کے لیے امید کی کرن بن گئیں۔ قندیل کی تنظیم سولر فار ہر لڑکیوں کے اسکولوں کو روشنی سے منور کر رہی ہے۔

    یہ تنظیم پسماندہ علاقوں میں جہاں بجلی کی ناکافی سہولیات ہیں، لڑکیوں کے اسکول میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی فراہم کر رہی ہے۔

    قندیل کا کہنا ہے کہ اب تک وہ 8 اسکولوں کو سولر پینل فراہم کرچکی ہیں جو ہنزہ، اسکردو، مانسہرہ، چمن، قصور اور تھر میں واقع ہیں جبکہ ایک کمیونٹی کالج کو بھی سولر پینل کی سہولیات دی جاچکی ہیں۔

    ان کے مطابق سولر پینلز اور ان کی تنصیب کے اخراجات پبلک فنڈنگ سے پورے کیے جاتے ہیں۔

    قندیل کا کہنا ہے کہ اس سال ان کا ارادہ 30 اسکولوں کو بجلی کی سہولت فراہم کرنا ہے تاہم اس کا انحصار اخراجات پر ہے۔

  • 12 سال کی لڑکیوں کے ساتھ شادی کرنے والے دولھوں کے خلاف کارروائی

    12 سال کی لڑکیوں کے ساتھ شادی کرنے والے دولھوں کے خلاف کارروائی

    ملتان: بستی خداداد میں کم سن بچیوں کی شادیوں پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ایک دولھا گرفتار کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ملتان کے ایک علاقے بستی خداداد میں پولیس نے 2 لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کی کوشش ناکام بنا دی، پولیس نے ایک دولھا گرفتار کر لیا جب کہ دوسرا فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان نے 12، 12 سال کی لڑکیوں کے ساتھ گزشتہ روز نکاح کیا تھا، رخصتی ہو رہی تھی کہ اطلاع ملنے پر پولیس نے چھاپا مارا اور اس کارروائی کے دوران ایک دولھا فرار جب کہ دوسرا پکڑا گیا۔

    رپورٹس کے مطابق تھانہ کینٹ کے علاقے بستی خداداد میں 45 سالہ فیصل کی 12 سالہ فائزہ جب کہ 37 سالہ احسن کی 12 سالہ طیبہ سے شادی کی کوشش کی جا رہی تھی۔ رخصتی کی تقریب میں باراتی بھی موجود تھے جو پولیس کو دیکھ کر فرار ہو گئے، پولیس نے لڑکیوں کی رخصتی کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے دولھے احسن کو گرفتار کر لیا۔

    پولیس کے مطابق فرار ہونے والے دوسرے دولھے فیصل کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی جا رہی ہے، جلد ہی اسے بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان کے خلاف کم عمر لڑکیوں کے ساتھ شادی کرنے پر مقدمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔

    بچیوں کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ان کے والدین کون ہیں، تاہم پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔

  • سکھر: پیش امام کی بچی سے زیادتی کی تصدیق ہو گئی، عدالت میں پیش

    سکھر: پیش امام کی بچی سے زیادتی کی تصدیق ہو گئی، عدالت میں پیش

    سکھر: صوبہ سندھ کے شہر سکھر کے علاقے پنو عاقل میں مسجد کے پیش امام کی بچی کے ساتھ زیادتی کے معاملے کی تصدیق ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پنو عاقل میں دس سالہ بچی افسانہ بنت احسان سمیجو سے زیادتی ہونے کی تصدیق ہو گئی، ملزم شفقت سمیجو کو سکھر کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔

    یہ افسوس ناک واقعہ پنوعاقل کے قریبی گاؤں دلدار سمیجو میں ایک ہفتہ قبل پیش آیا تھا، جس میں مسجد کے پیش امام نے دس سالہ بچی افسانہ بنت احسان سمیجو کے ساتھ زیادتی کی تھی۔

    اس سلسلے میں بچی کی میڈیکل رپورٹ سامنے آ گئی ہے جس میں بچی کے ساتھ زیادتی کی تصدیق کی گئی ہے، واقعے کے ملزم پیش امام شفقت سمیجو کو پولیس نے گزشتہ دنوں گرفتار کیا تھا، ملزم کو آج پولیس نے سکھر کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا، عدالت نے گرفتار ملزم کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا۔

    مزید تفصیل یہاں:  پنو عاقل، 10 سالہ بچی سے زیادتی کرنے والا معلم گرفتار

    واضح رہے کہ بچی ملزم کے پاس قرآن پڑھنے جاتی تھی جس کے دوران اس نے بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا، ملزم بچی کے ساتھ زیادتی کا اعتراف بھی کر چکا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق متاثرہ بچی نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا تھا جس کے بعد انھوں نے درخواست دائر کی اور پھر پولیس نے اسے حراست میں لے لیا، متاثرہ بچی اور والد کی تصویر بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر وائرل ہوئی تھی۔

  • لڑکیوں کا عالمی دن: کم عمری کی شادیاں سب سے بڑا خطرہ

    لڑکیوں کا عالمی دن: کم عمری کی شادیاں سب سے بڑا خطرہ

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج لڑکیوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لڑکیوں کو درپیش مسائل، صنفی امتیاز اور ان کے لیے مساوی مواقعوں کی عدم دستیابی کی طرف توجہ دلانا ہے۔

    لڑکیوں کا عالمی دن منانے کی قرارداد اقوام متحدہ نے 19 دسمبر 2011 کو منظور کی، اس کے اگلے برس 11 کتوبر 2012 سے یہ دن ہر سال باقاعدگی سے منایا جارہا ہے۔ رواں برس آج کے دن کا مرکزی خیال ’گرلز فورس‘ ہے۔

    اس دن کو منانے کا مقصد لڑکیوں کو درپیش مسائل، صنفی امتیاز، ان کے لیے مساوی مواقعوں کی عدم دستیابی، بنیادی انسانی حقوق کے حصول میں مشکلات اور ان پر مظالم و تشدد کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کروانا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں پرائمری اسکول جانے کی عمر والی 3 کروڑ 10 لاکھ بچیاں اسکول نہیں جا رہیں، دنیا بھر میں 15 سے 19 سال کی عمر کی ہر چار میں سے ایک لڑکی کو جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    پاکستان میں بھی اس عمر کی 30 فیصد لڑکیوں کو مختلف قسم کے تشدد کا سامنا ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں روزانہ 33 ہزار سے زائد کم عمر لڑکیاں جبری شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں، یہ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جو ان کی صحت کے لیے بے شمار خطرات کھڑے کردیتی ہے۔

    تاہم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال یونیسف کا کہنا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی شرح 25 فیصد سے کم ہو کر 21 فیصد ہو گئی ہے۔

    یونیسف کے مطابق دنیا بھر میں مجموعی طور پر 765 ملین کم عمر شادی شدہ لوگ ہیں جن میں لڑکیوں کی تعداد 85 فیصد ہے۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 21 فیصد بچیاں بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی بیاہ دی جاتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق کم عمری کی شادیوں کی سب سے زیادہ شرح صوبہ سندھ میں ہے جہاں 75 فیصد بچیوں اور 25 فیصد بچوں کی جبری شادی کردی جاتی ہے۔ انفرادی طور پر کم عمری کی شادی کا سب سے زیادہ رجحان قبائلی علاقوں میں ہے جہاں 99 فیصد بچیاں کم عمری میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔

    رواں برس پاکستان میں بھی چائلڈ میرج بل منظور کرلیا گیا ہے جس کے تحت 18 سال سے کم عمر کی شادیوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

  • پولینڈ کا وہ گاؤں جہاں گزشتہ 10 سال میں صرف لڑکیوں کی پیدائش ہوئی

    پولینڈ کا وہ گاؤں جہاں گزشتہ 10 سال میں صرف لڑکیوں کی پیدائش ہوئی

    پولینڈ کے ایک گاؤں میں گزشتہ 10 برس سے کسی لڑکے کی پیدائش نہیں ہوئی، گزشتہ ایک دہائی میں یہاں صرف لڑکیاں پیدا ہوئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب ان لڑکیوں کو بھی وہ مہارتیں سکھائی جارہی ہیں جو صرف لڑکوں کے لیے مخصوص تھیں۔

    300 افراد پر مشتمل اس گاؤں میں لڑکیوں کو فائر فائٹنگ اور فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جاتی ہے۔ سنہ 2013 میں ایک پروفیشنل فائر فائٹر نے انہی لڑکیوں کی درخواست پر فائر بریگیڈ قائم کیا جہاں یہ لڑکیاں اسکول کے بعد ٹریننگ حاصل کرنے آتی ہیں۔

    یہاں آنے والی سب سے کم عمر طالبہ صرف 2 سال کی ہے۔

    ان لڑکیوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں لڑکوں کی تعداد کم ہونے کا کسی کو بھی احساس نہیں ہونے دینا چاہتیں۔

    ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے جب ایک لڑکی سے شادی سے متعلق سوال پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ فی الحال اس کی توجہ مختلف ٹریننگز پر مرکوز ہے اور وہ چاہتی ہے کہ جلد سے جلد وہ لوگ ایک نیا فائر انجن خریدنے کے قابل ہوسکیں۔

    اس نے بتایا کہ یہاں کا فائر انجن 44 سال پرانا ہے اور انہیں ڈر کہ کسی روز جب واقعی اس انجن کی ضرورت پڑے تو وہ چلنے سے انکار نہ کردے۔

    ان لڑکیوں کا عزم ہے کہ نہ صرف وہ بہترین تعلیم حاصل کریں گی بلکہ ان شعبوں میں بھی مہارت حاصل کریں جو لڑکوں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے ہیں۔

  • سعودیہ سے سیاسی پناہ کیلئے فرار ہونے والی لڑکیاں ہانگ کانگ میں پھنس گئیں

    سعودیہ سے سیاسی پناہ کیلئے فرار ہونے والی لڑکیاں ہانگ کانگ میں پھنس گئیں

    ریاض/ہانگ کانگ : آسٹریلیا میں پناہ حاصل کرنے کی خواہشمند سعودی بہنوں نے ہانگ کانگ میں پھنسنے کا الزام سعودی حکام پر عائد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق ہانگ کانگ میں پھنسی عربی بہنیں ستمبر 2018 میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ سعودی عرب سے سری لنکا چھٹیاں گزارنے آئی تھیں لیکن دونوں بہنیں وہاں سے آسٹریلیا جانے کی غرض سے اپنے خاندان سے علیحدہ ہوگئیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ عربی لڑکیاں ہانگ کانگ کے راستے آسٹریلیا جانا چاہتی تھیں لیکن ہانگ کانگ میں ہی پھنس گئیں، تاہم انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ سعودی حکام نے انہیں ہانگ کانگ کے ایئرپورٹ پر روکا ہوا ہے جس کے باعث وہ ہانگ کانگ میں چھپتی پھر رہی ہیں۔

    اپنے وکیل کے ذریعے فرضی ناموں سے بیان جاری کرنے والی سعودی دو شیزاؤں کا کہنا تھا کہ وہ اسلام سے دستبردار ہوگئیں ہیں اس لیے انہیں ڈر ہے کہ اگر سعودی عرب واپس لوٹیں تو انہیں قتل کردیا جائے گا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ دونوں بہنوں کی عمر 18 اور 20 برس ہے اور ان کے موکلین کو بھی سعودی عرب میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

    سعودی لڑکیوں نے بہنوں کو بتایا کہ وہ اپنی حفاظت کےلیے فرار اختیار کیا اور ایسے ملک میں پناہ کی خواہش مند ہیں جو خواتین کو آزادی ہو اور ان حقوق کو تسلیم کیا جاتا ہو۔

    واضح سعودی عرب کا شمار ان ممالک میں ہوتا جہاں خواتین پر وژن 2030 کے تحت دی جانے والی آزادیوں کے باوجود بھی کئی پابندیاں عائد ہیں۔

    مزید پڑھیں : بیرون ملک پناہ لینے والے سعودیوں کی تعداد میں تین گناہ اضافہ ہوگیا، اقوام متحدہ

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پناہ حاصل کرنے والے سعودی عرب کے شہریوں کی تعداد میں پانچ سالوں کے دوران 317 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

    اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کا کہنا ہے کہ سنہ 2017 میں 800 سے زائد سعودی شہریوں نے بیرون ممالک میں پناہ اختیار کی جبکہ 2012 میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والے افراد کی تعداد 200 تھی۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کرنے اور سماجی خدمات میں انجام لینے والے مرد و خواتین کی بڑی تعداد نے انتقامی کارروائیوں سے بچنے کیلئے ریاست سے فرار اختیار کی۔

    مزید پڑھیں : سعودی لڑکی راہف القانون کینیڈا پہنچ گئیں

    خیال رہے کہ سعودی عرب سے فرار اختیار کرکے بیرون ملک پناہ لینے تازہ واقعہ 18 سالہ سعودی دوشیزہ راہف القانون کا ہے، جس نے کینیڈا میں سیاسی پناہ اختیار کی ہے۔

    راہف 7 جنوری کو کویت سے بنکاک پہنچی تھی جہاں اس نے ایئرپورٹ ہوٹل میں خود کو قید کردیا تھا۔ لڑکی کے مطابق ترکِ مذہب کے سبب اسے سعودی عرب میں موت کی سزا ہوسکتی ہے۔

    یاد رہے کہ تھائی لینڈ کے امیگریشن حکام کی جانب سے راہف القانون کو واپس جانے کا کہا گیا تو سعودی لڑکی نے خود کو ایئرپورٹ ہوٹل کے کمرے میں بند کرکے ٹویٹر پر #SaveRaHaf کی مہم شروع کردی تھی۔

    سعودی عرب سے فرار ہونے والی 18 سالہ لڑکی راہف محمد القانون سیاسی پناہ ملنے کے بعد 13 جنوری کو کینیڈا پہنچی تھی جہاں کینیڈا کی وزیرخارجہ کرسٹیا فریلینڈ نے انہیں ایک نئی بہادر کینیڈین کے طور پرمتعارف کروایا تھا۔

  • نیپال میں ہندو پجاری کم عمری کی شادیوں کے خلاف ڈٹ گئے

    نیپال میں ہندو پجاری کم عمری کی شادیوں کے خلاف ڈٹ گئے

    کھٹمنڈو: نابالغ اور کم عمر بچیوں کی شادیاں ایک بڑا معاشرتی مسئلہ ہے اور یہ انہیں شمار طبی و نفسیاتی مسائل میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ نیپال میں بھی اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کچھ ہندو پجاری اپنی مذہبی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے والدین پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنی کم عمر بچیوں کی شادی نہ کریں۔

    نیپال میں کام کرنے والے ایک سماجی ادارے کے مطابق ملک میں 38 سے 50 فیصد لڑکیاں 18 سال کی عمر سے قبل بیاہ دی جاتی ہیں۔ یہ شادیاں لڑکی کے خاندان والوں کی خواہش پر ہوتی ہیں اور کم عمر لڑکیوں کو انتخاب کا کوئی حق نہیں ہوتا۔

    یاد رہے کہ نیپال میں گزشتہ 54 سالوں سے کم عمری کی شادی پر پابندی عائد ہے لیکن دور دراز دیہاتوں کے لوگ اب بھی اپنی لڑکیوں کی شادیاں جلدی کردیتے ہیں۔ یہ ان کی قدیم خاندانی ثقافت و روایات کا حصہ ہے اور ان دور دراز علاقوں میں قانون بھی غیر مؤثر نظر آتا ہے۔

    مزید پڑھیں: افریقی ممالک میں کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار

    دوسری جانب طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی لڑکیوں کو بے شمار طبی مسائل میں مبتلا کردیتی ہے۔ کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔

    کم عمری کے حمل میں اکثر اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    اسی مسئلے کو دیکھتے ہوئے نیپال کے مغربی حصے میں واقع ایک گاؤں میں ہندو مذہبی رہنماؤں اور پجاریوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس برائی کو روکنے کی کوشش کریں گے۔

    ان ہی میں سے ایک پجاری 66 سالہ دیو دت بھٹ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک نو عمر لڑکی کے والدین اس کی شادی کے سلسلے میں مشورہ کرنے کے لیے آئے۔ اس لڑکی کی عمر صرف 16 برس تھی۔

    nepal-3

    دیو دت نے ان پر زور دیا کہ وہ کم از کم اپنی لڑکی کو 20 سال کی عمر تک پہنچنے دیں اس کے بعد اس کی شادی کریں۔

    انہوں نے بتایا کہ اکثر والدین ان کے پاس آکر اپنی لڑکی کی عمر کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں، جس کے بعد وہ اس لڑکی کا پیدائشی ’چینا‘ دیکھتے ہیں جس سے انہیں اس کی صحیح عمر کے بارے میں علم ہو جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    نیپالی زبان میں چینا دراصل ماہرین نجوم کی جانب سے بنایا گیا مستقبل کی پیش گوئی کرتا چارٹ ہے جو نیپالی ثقافت کے مطابق ہر پیدا ہونے والے بچے کا بنایا جاتا ہے۔ اس چارٹ میں درج کی جانے والی معلومات بشمول تاریخ پیدائش اور سنہ بالکل درست ہوتا ہے جس سے کسی کی بھی درست عمر کو چھپایا نہیں جاسکتا۔

    دیو دت نے بتایا کہ وہ اکثر والدین کو یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی لڑکیوں کا رشتہ طے کردیں مگر شادی کو چند سالوں کے لیے مؤخر کردیں۔

    اس کام میں دیو دت اکیلے نہیں ہیں۔ گاؤں میں ان جیسے کئی مذہبی پجاری ہیں جو اس کام میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔

  • لڑکیاں گڑیا اور لڑکے گاڑیوں سے کیوں کھیلتے ہیں، دلچسپ تحقیق

    لڑکیاں گڑیا اور لڑکے گاڑیوں سے کیوں کھیلتے ہیں، دلچسپ تحقیق

    نو ماہ کی عمر میں بچے میں کتنی عقل ہوتی ہے؟ لیکن اس ننھی عمر میں بھی ان کھلونوں کو ترجیح دیتے ہیں، جو ان کے لیے بنتے ہیں۔

    ایک تجربے میں پایا گیا کہ لڑکے ٹرک اور ایسے ہی دیگر کھلونوں کے ساتھ کھیلتے ہیں جبکہ لڑکیاں کھلونا برتنوں سے۔ پھر عمر بڑھتی ہے تو بچے گاڑیوں اور گیندوں اور لڑکیاں گڑیوں کے ساتھ کھیلنا شروع کردیتی ہیں۔

    تحقیق کے مطابق بچیاں تھوڑی بڑی ہوکر گاڑیوں اور گیندوں میں دلچسپی دکھاتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ والدین لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ زیادہ کھلونوں سے کھیلے لیکن لڑکے گڑیوں کی طرف راغب نہیں ہوتے۔ یہ سب اتنی کم عمری میں ہوتا ہے کہ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے کچھ فطری وجوہات ہوں۔

    * ڈزنی شہزادیاں صنفی تفریق کو فروغ دینے کا باعث

    یونیورسٹی کالج لندن اور سٹی یونیورسٹی نے 101 شیر خواروں پر تجربے کیے جنہیں تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا، نو سے 17 ماہ کے، پھر 18 سے 23 ماہ اور 24 سے 32 ماہ کے۔ ان پر تجربات لندن کی چار نرسریوں میں کیے گئے، بچوں کی ترجیحات کا جائزہ لینے کے لیے سات کھلونوں کا انتخاب کیا گيا، گڑیا، گلابی بھالو، کھلونا برتن، کار، نیلا بھالو، کھلونا بیلچا اور گیند شامل تھے۔

    تجربات نرسری کے اس خاموش حصے میں کیے گئے ہاں بچوں اور بچیوں کو کھل کر کھیلنے کا وقت اور اجازت دی جاتی ہے، بچوں کو کھلونوں سے ایک میٹر کی دوری پر ایک دائرے میں بٹھایا گیا، انہیں بتایا گیا کہ وہ کسی بھی کھلونے کے ساتھ کھیل سکتے ہیں، پھر ریکارڈ کیا گیا کہ بچوں نے پانچ سیکنڈ سے تین منٹ تک بچوں نے کن کھلونوں کو چھوا۔

    نتائج کے مطابق عام طور پر لڑکوں نے ان کھلونوں کے ساتھ زیادہ کھیلا جو بچوں کے لیے تیار کیے جاتے ہیں اور اس کے مقابلے میں بچیوں نے بھی ان کھلونوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارا جو لڑکیوں ہی کے لیے ہوتے ہیں۔

    مزید بتایا گیا کہ سب سے چھوٹے بچوں کے گروپ میں یعنی نو سے 12 ماہ کے بچوں میں چھ لڑکے اور آٹھ لڑکیاں تھیں، تمام ہی لڑکوں نے گیند کے ساتھ کھیلا اور کھیلنے کے کل وقت کا نصف سے بھی زیادہ وقت انہوں نے گیند کے ساتھ گزارا، جبکہ 12 ماہ اور اس سے کم عمر کی لڑکیوں میں سے سبھی نے کھلونا برتنوں کے ساتھ سب سے زیادہ کھیلتی نظر آئیں ۔