Tag: لڑکیوں کی تعلیم

  • افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، اقوام متحدہ نے خبردار کردیا

    افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، اقوام متحدہ نے خبردار کردیا

    یو این ویمن ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بہاؤس نے افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے متعلق خبردار کیا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق یو این ویمن ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی جانب سے افغان لڑکیوں کے بنیادی حقوق کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

    سیما بہاؤس کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا نسلوں تک اثرات مرتب کرے گا، افغانستان کی لڑکیوں کو فوری طور پر اسکول واپس جانے کی اجازت دی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ نئے تعلیمی سال کے آغاز سے مزید 4 لاکھ افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہوگئیں، افغانستان میں تعلیم سے محروم لڑکیوں کی مجموعی تعداد 2.2 ملین تک پہنچ گئی ہے۔

    اُن کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں لڑکیوں کے لیے ثانوی اور اعلیٰ تعلیمی ادارے 3 سال سے مستقل بند ہیں، وقت آ چکا ہے کہ افغان حکومت اس سنگین مسئلے کا فوری حل نکالے۔

    اس سے قبل افغانستان نے لڑکیوں کی تعلیم پر کانفرنس میں شمولیت سے بھی انکار کردیا تھا۔

    حال ہی میں پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے موضوع پر عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، کانفرنس میں پڑوسی ملک افغانستان کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی، لیکن ہمیشہ کی طرح ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان حکومت نے شرکت سے انکار کر دیا تھا۔

    بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بار ہا افغان خواتین کی حمایت کی، پاکستانی ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ فرزانہ باری نے کہا کہ افغانستان میں مکمل صنفی نسل پرستی کی جا رہی ہے، طالبان کے اقتدار میں خواتین کے حقوق مکمل طور پر پامال ہو رہے ہیں، میں افغان خواتین کو سلام پیش کرتی ہوں کہ ریاستی جارحیت اور جبر کے باوجود وہ اپنے لیے کھڑی ہیں۔

    افغانستان کی خواتین کو مسلسل صحت کے مسائل کا سامنا ہے، کیوں کہ افغان حکومت افغان خواتین کی صحت کو اپنی ترجیح نہیں سمجھتی، ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ بینش جاوید کا کہنا ہے کہ افغانستان میں لڑکی ہونا ایک جرم بن چکا ہے، طالبان حکومت کی جانب سے، جو خواتین گھروں میں رہ رہی ہیں ان پر کھڑکیوں کو بھی بند کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔

    امریکی الیکشنز میں ووٹ ڈالنے کیلیے بڑی شرط رکھ دی گئی

    طالبان حکومت ہمیشہ سے ان گھناؤنے جرائم کو مذہب کا نام دے کر جواز فراہم کرتی رہی ہے، افغان طالبان نے خواتین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ملازمتوں پر بھی پابندی عائد کی ہے، اسلامی نظام کی دعویدار طالبان حکومت مسلسل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔

  • افغانستان کا لڑکیوں کی تعلیم پر کانفرنس میں شمولیت سے انکار

    افغانستان کا لڑکیوں کی تعلیم پر کانفرنس میں شمولیت سے انکار

    کابل: افغان طالبان کی جانب سے خواتین کے حقوق غصب کرنے کا سلسلہ جاری ہے، افغانستان نے لڑکیوں کی تعلیم پر کانفرنس میں شمولیت سے بھی انکار کیا۔

    حال ہی میں پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے موضوع پر عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، کانفرنس میں پڑوسی ملک افغانستان کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی، لیکن ہمیشہ کی طرح ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان حکومت نے شرکت سے انکار کر دیا۔

    بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بار ہا افغان خواتین کی حمایت کی، پاکستانی ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ فرزانہ باری نے کہا کہ افغانستان میں مکمل صنفی نسل پرستی کی جا رہی ہے، طالبان کے اقتدار میں خواتین کے حقوق مکمل طور پر پامال ہو رہے ہیں، میں افغان خواتین کو سلام پیش کرتی ہوں کہ ریاستی جارحیت اور جبر کے باوجود وہ اپنے لیے کھڑی ہیں۔

    افغانستان کی خواتین کو مسلسل صحت کے مسائل کا سامنا ہے، کیوں کہ افغان حکومت افغان خواتین کی صحت کو اپنی ترجیح نہیں سمجھتی، ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ بینش جاوید کا کہنا ہے کہ افغانستان میں لڑکی ہونا ایک جرم بن چکا ہے، طالبان حکومت کی جانب سے، جو خواتین گھروں میں رہ رہی ہیں ان پر کھڑکیوں کو بھی بند کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔

    طالبان حکومت ہمیشہ سے ان گھناوٴنے جرائم کو مذہب کا نام دے کر جواز فراہم کرتی رہی ہے، افغان طالبان نے خواتین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ملازمتوں پر بھی پابندی عائد کی ہے، اسلامی نظام کی دعویدار طالبان حکومت مسلسل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔

  • لڑکیوں کی تعلیم بڑا چیلنج ہے، مسلم ملکوں کو بڑے پیمانے پر کام کرنا ہوگا، وزیراعظم

    لڑکیوں کی تعلیم بڑا چیلنج ہے، مسلم ملکوں کو بڑے پیمانے پر کام کرنا ہوگا، وزیراعظم

    اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم بڑا چیلنج ہے، مسلم ملکوں کو بڑے پیمانے پر کام کرنا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے مسلم ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شرکاکوعالمی کانفرنس میں شرکت پرخوش آمدید کہتے ہیں، عالمی کانفرنس کا انعقاد پاکستان کیلئے اعزاز ہے۔

    وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شاہ سلمان،محمدبن سلمان کے کانفرنس میں تعاون پرشکرگزارہیں اور ملالہ یوسفزئی کی کانفرنس میں شرکت باعث فخر ہے ، ملالہ یوسفزئی بہادری اورہمت کی علامت ہیں۔

    وزیراعظم نے شہیدبینظیربھٹو کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہرمعاشرے میں تعلیم کا حصول بنیادی حق ہے، لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے یہ کانفرنس بہت اہم ہے۔

    انھوں نے کہا کہ قائداعظم نے ہمیشہ قوم کی ترقی میں خواتین کے کردار کواہم سمجھاہے، دنیابھرمیں خواتین کو حقوق کی فراہمی کیلئے چیلنجز کا سامناہے اور لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کا چیلنج درپیش ہے تاہم تعلیم کے شعبےمیں درپیش چیلنجزکو ہرصورت ختم کرنا ہے۔

    شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان سمیت مسلم دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم ایک بڑا چیلنج ہے ، اس کیلئے آواز بلند کرنا ہوگی، لڑکیوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی سے ہی معاشرہ مضبوط اور ترقی یافتہ ہوگا۔

    انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی اور پاکستانی تنظیموں سے کہتے ہیں آئیں لڑکیوں کو تعلیم کی راہ میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے اور مسائل کے حل کیلئے مل کرکام کریں۔

    وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ طالبات اپنی قابلیت سے بین الاقوامی معیشت میں بھرپور کردار ادا کر سکتی ہیں، لڑکیوں کو تعلیم نہ دینا اُن کو روشن مستقبل کے حصول سے روکتا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہیں، خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ترقی کیلئے کردار ادا کریں، ہماری حکومت طلباکی بہترتعلیم اور روزگار کیلئے کوشاں ہے۔

  • لڑکیوں کی تعلیم کیلئے معاشرتی رویوں کو چیلنج کرنا ہوگا، لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر

    لڑکیوں کی تعلیم کیلئے معاشرتی رویوں کو چیلنج کرنا ہوگا، لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر

    اسلام آباد : پاک فوج کی پہلی خاتون لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کیلیے معاشرتی رویوں کو چیلنج کرنا ہوگا۔ پالیسی سازی و فیصلوں میں لڑکیوں کی شمولیت یقینی بنانی ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق پاک فوج کی پہلی خاتون لیفٹیننٹ جنرل نگارجوہر نے بین الاقوامی اسکول گرلز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایسےمعاشرے میں بڑی ہوئی جہاں صنفی تفریق عام تھی، لڑکیوں کی تعلیم کو اکثر نظرانداز کیا جاتا تھا۔

    نگار جوہر نے بتایا کہ تعلیم نے میری زندگی میں انقلاب برپا کیا، آج اس مقام پر ہوں کہ ملک کی خدمت کررہی ہوں، بطورفوجی ایسےعلاقےدیکھےجہاں گرلزاسکول تباہ ہو چکےتھے، کچھ علاقوں میں لڑکیوں کوزبردستی تعلیم سےمحروم کر دیا گیا تھا۔

    انھوں نے زور دیا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیےمعاشرتی رویوں کو چیلنج کرنا ہوگا، فیصلہ سازی وپالیسی سازی میں لڑکیوں کی شمولیت کو یقینی بنانا ہوگا، خواتین کی تعلیم کو قومی بجٹ اور پالیسی کا لازمی حصہ بنایا جائے۔

    خاتون لیفٹیننٹ جنرل نے مزید کہا کہ خواتین کی تعلیم کیلئے چیلنجز ضرور مگرمواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، نیشنل پالیسی اور بجٹ میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے اقدامات کیے جانے چاہئیں اور آگہی مہم چلائیں، پڑھی لکھی خاتون ہی معاشرےمیں کردار ادا کرے گی۔

  • ویڈیو رپورٹ: افغان طالبان کی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے شعبہ طب بری طرح متاثر

    ویڈیو رپورٹ: افغان طالبان کی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے شعبہ طب بری طرح متاثر

    افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے شعبہ طب بری طرح متاثر ہو چکا ہے، افغان طالبان کے دور میں خواتین کے بنیادی حقوق بھی سلب کیے گئے ہیں، تعلیم حاصل کرنے کا حق بھی چھین لیا گیا، خواتین پر تعلیمی پابندیوں حوالے سے افغانستان دنیا کا واحد ملک بن گیا ہے۔

    بین الاقوامی سطح پر افغان طالبان کی وجہ شہرت ان کا شدت پسندانہ رویہ ہے جو کہ بہت سے معاملات میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، معاشرتی اقدار ہوں یا اسلامی تعلیمات افغان طالبان دونوں پہلووٴں میں شدت پسندی کے علم بردار ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اسکول جانے کی عمر میں 80 فی صد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں، یونیسیف کا کہنا ہے کہ اس پابندی سے 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے واضح اثرات میں سے ایک صحت کے شعبے میں پیشہ ور خواتین کی تربیت کا فقدان ہے۔

    الجزیرہ ٹی وی کے مطابق طالبان کے اقتدار پر قبضے اور خواتین کی تعلیم پر پابندی سے افغانستان میں شعبہ صحت کی تعلیم سے منسلک خواتین کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے، اس حوالے سے کابل کی رہائشی طالبہ بھی ان ہزاروں لڑکیوں میں شامل ہے، جو افغان طالبان کی جانب سے تعلیم پر پابندی کے فیصلے سے شدید متاثر ہوئی ہیں۔

    یہ طالبہ جو کابل میڈیکل اسکول سے گریجویشن کر رہی تھی اور جب طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی تو اس کی ڈگری مکمل ہونے میں چند ہفتے ہی باقی تھے، گو کہ طالبان نے پہلے سے شعبہ صحت میں خدمات سرانجام دینی والی افغان خواتین جن میں ڈاکٹرز، نرسز و دیگر عملہ شامل ہے کو کام جاری رکھنے کی اجازت دی ہے، تاہم اس حوالے سے نئی لڑکیوں کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر دیے ہیں۔

    الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پابندی سے پہلے ہی میڈیکل اسکولوں سے فارغ التحصیل ہونے والی 3,000 سے زیادہ خواتین کو پریکٹس کرنے کے لیے درکار بورڈ کے امتحانات دینے سے روک دیا گیا تھا، افغان طالبان کی جانب سے یہ سخت فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ملک میں پہلے ہی خواتین طبی عملے کی شدید کمی ہے اور نئے ڈاکٹرز کی اشد ضرورت تھی۔

    خواتین کو دباوٴ میں رکھنا اور تعلیم کے حق سے محروم کرنا کیا اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے؟ یہ سوال افغان طالبان کو خود سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔

  • جنوبی وزیرستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کیلئے پاک فوج کا بڑا قدم

    جنوبی وزیرستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کیلئے پاک فوج کا بڑا قدم

    جنوبی وزیرستان میں پاک فوج کے تعاون سے گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول کو تعمیر نو اور بحالی کے بعد فعال کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق قوم کی بیٹیوں کے خوابوں کی تکمیل کی طرف ایک اور قدم ،ٹانک جنوبی وزیرستان میں پاک فوج کے تعاون سے گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول کو تعمیر نو اور بحالی کے بعد فعال کر دیا گیا۔

    قیام امن کے بعد علاقے میں موجود سکولوں کی تعمیر نو اور بحالی کیلئے پاک فوج نے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے ہیں۔

    گرلز سکول کی بحالی کے کام کے بعد تمام تر سہولیات سے آراستہ کر دیا گیا ہے تاکہ قوم کی یہ بیٹیاں کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھے۔

    اسکول میں اس وقت قابل اساتذہ کے زیرنگرانی 90 طالبات تعلیم کے زیور سے بہرومند ہو رہی ہے۔

    پاک فوج نے بچیوں کے حوصلہ افزائی کیلئے مفت کتابیں ، سکول بیگز اور اسٹیشنری کا سامان تقسیم کیا، اسکول کی تعمیر نو اور فعالی پر خصوصاً بچیوں اور علاقے کے لوگوں نے پاک فوج کا شکریہ ادا کیا۔

  • افغان وزیر داخلہ نے لڑکیوں کی تعلیم معاشرے کی ضرورت قرار دے دی

    افغان وزیر داخلہ نے لڑکیوں کی تعلیم معاشرے کی ضرورت قرار دے دی

    کابل: افغان وزیر داخلہ خلیفہ سراج الدین حقانی نے لڑکیوں کی تعلیم معاشرے کی ضرورت قرار دے دی، انھوں نے کہا کہ حالات کے ساتھ یہ مسئلہ حل کر دیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق افغانستان کے وزیر داخلہ سے اسلامی تعاون تنظیم کے وفد نے ملاقات کی ہے، اسلامی تعاون تنظیم کے اراکین نے ملک میں مجموعی امن اور استحکام کو سراہتے ہوئے کہا کہ امارت اسلامیہ دو سالوں میں مجموعی سیکیورٹی صورت حال کو مضبوط بنانے کے علاوہ مختلف شعبوں میں نمایاں پیش رفت کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

    مذکورہ تنظیم کے ارکان نے مزید کہا کہ امارت اسلامیہ نے بہترین مالیاتی پالیسی کے نفاذ، خوارج کی روک تھام اور مجرمانہ واقعات پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ منشیات کے خلاف کامیاب کارروائی کرتے ہوئے افغانستان کے استحکام کو یقینی بنایا ہے اور اس تنظیم سے کیے گئے بہت سے وعدے پورے کیے ہیں۔

    مذکورہ وفد نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے امارت اسلامیہ کے بعض احکام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ احکام وراثت کے حوالے سے خواتین پر ظلم و زیادتی روکنے اور دشمنیوں میں خواتین کے رشتے مقتول خاندان کے افراد کے ساتھ کرنے کی رسم میں روکنے کامیاب ہوئے ہیں۔

    وفد کے ارکان نے تعلیم کو مرد و خواتین کا مشترکہ حق قرار دیتے ہوئے کہا کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم معاشرے کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔

    خلیفہ سراج الدین حقانی نے کہا کہ تعلیم مسلمانوں کی مشترکہ ضرورت ہے، اس سلسلے میں صبر اور حوصلے سے کام لیں کیوں کہ لڑکیوں کی تعلیم ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے جسے حالات کے ساتھ ہی شروع کر دیا جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ امارت اسلامیہ کی حکومت اس طرح نہیں ہے جس طرح دنیا کے سامنے اس کی تصویر پیش کی گئی ہے، ان کے بقول افغان حسن سلوک اور میل جول سے بھرپور لوگ ہیں۔

  • لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کھولیں، اقوام متحدہ کا طالبان سے پُر زور مطالبہ

    نیویارک: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کی طالبان حکومت سے پُر زور مطالبہ کیا ہے کہ لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کھولے جائیں، اور خواتین کے خلاف پالیسیاں واپس لی جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے طالبان سے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو نشانہ بنانے والی پالیسیوں کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے، فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سلامتی کونسل نے منگل کو افغانستان میں ’انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں‘ پر اظہار تشویش کیا۔

    سلامتی کونسل کے بیان میں این جی اوز کے لیے کام کرنے والی خواتین پر پابندی کی بھی مذمت کی گئی، بیان میں کہا گیا کہ پابندیاں طالبان کی جانب سے افغان عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کی توقعات سے بھی متصادم ہیں۔

    یو این سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خواتین اور لڑکیوں پر حالیہ پابندیوں کو ’غیر منصفانہ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں منسوخ کیا جانا چاہیے۔

    افغانستان بھر میں یونیورسٹیز کے باہر طالبات کے مظاہرے

    اس سے قبل منگل کو اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ ایسی پالیسیوں کے ’خوف ناک‘ نتائج سامنے آئیں گے، انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک نے ایک بیان میں کہا کہ ’خواتین اور لڑکیوں پر لگائی جانے والی یہ ناقابل تصور پابندیاں نہ صرف تمام افغانوں کے مصائب میں اضافہ کریں گی، بلکہ مجھے خدشہ ہے کہ یہ افغانستان کی سرحدوں سے باہر بھی خطرے کا باعث بنیں گی۔

    انھوں نے کہا کہ ان پالیسیوں سے افغان معاشرے کو عدم استحکام کا خطرہ ہے۔

  • لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم بھی لازمی ہے: وزیر اعظم افغانستان

    لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم بھی لازمی ہے: وزیر اعظم افغانستان

    کابل: افغان طالبان کا کہنا ہے کہ لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم بھی لازمی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قائم مقام وزیر اعظم نے کہا ہے کہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم لازمی ہے۔

    افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق مُلا حسن آخوند نے دارالحکومت کابل اور دیگر جگہوں پر ‘لڑکیوں کو ثانوی تعلیم کے لیے واپس آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی’ کے موضوع پر بات کی۔

    طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کی تشکیل کے بعد قائم مقام وزیر اعظم کی یہ پہلی تقریر نشر کی گئی ہے۔

    ہفتے کے روز ملا آخوند نے آڈیو تقریر میں اشارہ دیا کہ حالات سازگار ہوتے ہی لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دی جائے گی، انھوں نے کہا ہے کہ مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے حصول تعلیم لازمی ہے۔

    ملا آخوند کا کہنا تھا کہ جب اسکول ان کے لیے الگ الگ تعلیم حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار ہوں گے، تو لڑکیاں رفتہ رفتہ اسکول واپس جائیں گی، افغانستان میں خواتین کسی بھی جگہ جانے کے لیے آزاد ہیں، وہ امن سے مستفید ہو رہی ہیں، اور تعلیم و روزگار حاصل کر سکتی ہیں۔

  • لکی مروت: بچیاں اب بھی تعلیم زمین پر بیٹھ کر حاصل کرنے پر مجبور

    لکی مروت: بچیاں اب بھی تعلیم زمین پر بیٹھ کر حاصل کرنے پر مجبور

    لکی مروت: خیبر پختون خوا کے ضلع لکی مروت کے ایک علاقے میں پی ٹی آئی حکومت کی تعلیمی ایمرجنسی کے اثرات تاحال نہیں پہنچ سکے ہیں، اور مقامی بچیاں تعلیم زمین پر حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق لکی مروت کے علاقے اوت خیل میں بچے درخت کے سائے میں زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، 2013 انتخابات میں خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی تو صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا لیکن تعلیمی ایمرجنسی میں بھی اس علاقے کی قسمت نہیں جاگ سکی۔

    حکومتی عدم توجہ کے شکار پس ماندہ علاقے اوت خیل کی بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے رہائشی آدم خان بیٹنی نے اپنی مدد آپ کے تحت درخت کے سائے میں ایک عارضی اسکول قائم کیا ہے جہاں علاقے کی 35 لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

    آدم خان بیٹنی فرنٹیئر کور میں ملازم ہیں اور دہشت گردی سے متاثرہ وزیرستان میں ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے بات کرتے ہوئے آدم خان بیٹنی نے کہا علاقے میں سرکاری اسکول تو موجود ہے لیکن یہ اسکول ابھی تک بند پڑا ہے، علاقے کی وہ لڑکیاں جو تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں، اسکول نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں۔ آدم خان نے اس صورت حال میں فیصلہ کیا کہ جیسے بھی ہو علاقے کی بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا بندوبست کریں گے۔

    آدم خان کے مطابق سب ڈویژن بیٹنی میں تقریباً 105 سرکاری اسکول قائم ہیں، لیکن 4 یا 5 اسکول فنکشنل ہیں، باقی بند پڑے ہیں، جب کہ علاقے کی 10 ہزار سے زائد بچیاں ایسی ہیں جن کی عمر تعلیم حاصل کرنے کی ہے لیکن اسکول نہ ہونے کی وجہ سے ان کا مستقبل داؤ پر لگا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور محکمہ تعلیم کے حکام سے کئی بار رابطہ کیا گیا اور علاقے میں بچوں کی تعلیم کی راہ میں درپیش مسائل حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا لیکن ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا، اس لیے مجبور ہو کر اپنی مدد آپ کے تحت اسکول چلانے کا فیصلہ کیا۔

    آدم خان بیٹنی نے بچیوں کو تعلیم دلانے کے لیے درخت کے سائے میں جو اسکول شروع کیا ہے اس کا سارا خرچہ وہ خود برداشت کر رہے ہیں، ڈیوٹی کی وجہ سے وہ خود گھر پر نہیں ہوتے اس لیے علاقے کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان کو بچوں کو پڑھانے کی ذمہ داری دی گئی ہے جس کو وہ اپنی جیب سے 10 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دیتے ہیں۔

    آدم خان بیٹنی نے بتایا کہ ان کے علاقے میں سیکیورٹی وجوہ سے باہر کے ٹیچر آنے سے انکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے سرکاری اسکول بند پڑے ہیں، لیکن علاقے کی بچیوں کے روشن مستقبل کی خاطر ہم حکومت کے ساتھ ہر قسم تعاون کے لیے تیار ہیں۔