Tag: لکڑی

  • لکڑی کو جیتے جاگتے کردار دینے والا باکمال فن کار، ویڈیو رپورٹ

    لکڑی کو جیتے جاگتے کردار دینے والا باکمال فن کار، ویڈیو رپورٹ

    فن کسی کی میراث نہیں ہوتا اور یہ ثابت کیا پشاور کے نوجوان تیمور نے جو لکڑی کو جیتے جاگتے کرداروں کی شکل دیتا ہے۔

    پشاور کا تیمور لکڑے سے ایسے شاہکار بناتا ہے کہ دیکھنے والے بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ باکمال نوجوان آرٹسٹ جب محبت اور لگن کے ساتھ لکڑی کو چھوتا ہے تو پھر ایسی دلکش، دیدہ زیب اور منفرد اشیا کی تخلیق ہوتی ہے جس کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ لکڑی ہے۔

    تیمور کا ہر فن پارہ اپنی الگ کہانی خاموش زبان سے بیان کرتا دکھائی دیتا ہے۔

    اس کے فن سے نکھر کر عام سی لکڑی گندھارا تہذیب، ثقافت کی جھلک اور دیہاتی طرز زندگی کی جیتی جاگتی تصویر بھی دکھائی دیتی ہے۔

    نوجوان منفرد مصنوعات بنانے کے لیے اپنا ہنر آزماتا ہے اور اس میں اس کی محنت اور شوق کا عروج صاف نظر آتا ہے۔

    ویڈیو رپورٹ: نواب شیر

    تیمور کا کہنا ہے کہ وہ فن پارے بنانے کے لیے زیادہ تر شیشم کی لکڑی اور بمبو (بانس) کا استعمال کرتا ہے جب کہ عام لکڑی سے بھی کئی چیزیں بنا لیتا ہے۔

    ویڈیو رپورٹ: لکڑی کا پراسرار ’’تاج محل‘‘ اور چڑیلوں کا بسیرا، حقیقت کیا؟

    باصلاحیت تخلیق کار تیمور اپنا یہ فن دوسروں کو منتقل کرنے کا خواہاں ہے، تاکہ اسلاف کی یہ وراثت زندہ رہے۔ اس کے لیے وہ حکومت اور فن کے قدر دانوں کی سرپرستی اور تعاون کا طلبگار ہے۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • لاکھوں مالیت کی قیمتی لکڑی اسمگل کرنے کی کوشش ناکام

    لاکھوں مالیت کی قیمتی لکڑی اسمگل کرنے کی کوشش ناکام

    راولپنڈی: صوبہ پنجاب کی تحصیل کہوٹہ میں قیمتی لکڑی اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی، ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب کی تحصیل کہوٹہ کی حدود میں محکمہ جنگلات نے قیمتی لکڑی اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی۔

    محکمہ جنگلات نے قیمتی لکڑی کی اسمگلنگ میں ملوث ملزم کو گرفتار کرلیا۔

    محکمہ جنگلات کا کہنا ہے کہ ملزم حسنین امجد سے قیمتی لکڑی اور گاڑی برآمد کرلی گئی، برآمد ہونے والی لکڑی کی مالیت ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد ہے۔

    گرفتار ملزم کے خلاف محکمہ جنگلات نے قانونی کارروائی کا آغاز کردیا۔

  • لکڑی سے بنا ہوا وائر لیس چارجر تیار

    لکڑی سے بنا ہوا وائر لیس چارجر تیار

    وائر لیس چارجرز آج کل عام ہوتے جارہے ہیں، حال ہی میں ایک ڈیزائنر انجینیئر نے لکڑی سے بنا ہوا وائر لیس چارجر تیار کرلیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق لیٹویا کے فنکار انجینیئر نے روایتی وائر لیس چارجر کو ایک خوبصورت روپ دیا ہے، انہوں نےوائرلیس چارجر کا پورا سرکٹ دو درختوں کی لکڑی میں سمو دیا ہے۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ لکڑی کا یہ چارجنگ اسٹیشن موبائل فون کے لیے ایک اسٹیںڈ کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور میز پر رکھے فون کو دور سے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔

    اس کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ چارجر کے ایک مقام پر دس لاکھ کے قریب باریک سکشن کپ لگائے گئے ہیں جہاں سے فون چپک کر اس سے جڑ جاتا ہے، اب اس کی پشت پر موجود کوائل فون کو وائر لیس چارجنگ فراہم کرتی ہے اور وہ بہت تیزی سے برقی رو اپنی بیٹری میں بھرنے لگتا ہے۔

    لکڑی سے بنا چارجر آپ کی میز پر ایک طرح کا قدرتی تاثر فراہم کرتا ہے، اس کے دو پہلو پر جارچنگ کی جاسکتی ہے اور یوں فون کو 30 اور 40 درجے زاویے پر رکھا جاسکتا ہے۔

    اس طرح چارجنگ کے دوران آپ فون کو آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔

    اس میں نصب مائیکرو یو ایس بی کیبل مقناطیسی نوعیت کی ہے جس کی بدولت چارجنگ کا عمل آسان ہوجاتا ہے، اس میں نصب ایل ای ڈی جارچنگ کی صورتحال بھی ظاہر کرتی رہتی ہے۔

    لیٹویا کی یہ ایجاد ہر قسم کے چارجنگ فون کے لیے کارآمد ہے، لکڑی سے تراشا ہوا یہ اہم وائر لیس چارجر 75 ڈالر میں خریدا جا سکتا ہے۔

  • انسانی ہاتھوں سے بنا ’دنیا کا قدیم ترین‘ کنواں دریافت

    انسانی ہاتھوں سے بنا ’دنیا کا قدیم ترین‘ کنواں دریافت

    پراگ: یورپی ملک چیک ری پبلک میں 7 ہزار برس قدیم لکڑی سے بنا کنواں دریافت ہوا ہے جسے تاریخ کا قدیم ترین انسانی ہاتھوں سے بنایا گیا کنواں قرار دیا جارہا ہے۔

    چیک ری پبلک میں دریافت ہونے والا یہ کنواں لکڑی سے تعمیر شدہ ہے اور اسے انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی لکڑی کی قدیم ترین تعمیر قرار دیا جارہا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق یہ 5 ہزار 255 قبل مسیح میں بنایا گیا یعنی اس کی عمر 7 ہزار 275 سال ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اس دور کی ایک غیر معمولی شے ہے کیونکہ اس وقت لوگ تعمیرات میں جدت پسند نہیں ہوئے تھے۔

    اس دور میں لوگ سادے مکان بناتے تھے جبکہ وہ چکنی مٹی سے مختلف اشیا بنانے کے ماہر تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اس دور اور اس علاقے کی اپنی نوعیت کی واحد دریافت ہے۔

    کنویں کے یہ آثار سنہ 2018 میں ایک موٹر وے کی تعمیر کے دوران سامنے آئے تھے، یہ زمین سے 5 فٹ گہرائی میں واقع تھے۔ بعد ازاں اس پر تحقیقی کام مکمل کر کے اب جاری کیا گیا۔

  • چین میں ہاتھ سے بنے پرندوں کے خوبصورت پنجرے

    چین میں ہاتھ سے بنے پرندوں کے خوبصورت پنجرے

    چین کے جنوب مغربی صوبے گیژو میں ایک چھوٹا سا گاؤں پرندوں کے پنجرے بنانے کے لیے بے حد مشہور ہے جہاں دور دور سے لوگ ان پنجروں کو دیکھنے آتے ہیں۔

    کالا نامی اس گاؤں میں یہ فن نہایت قدیم ہے اور یہاں کا تقریباً ہر گھر اس کاروبار سے منسلک ہے۔

    لکڑی سے بنائے گئے یہ خوبصورت پنجرے مکمل طور پر ہاتھ سے تیار کیے جاتے ہیں۔ ان کی تیاری کے لیے بانس استعمال کیا جاتا ہے جبکہ تیار ہونے کے بعد ان پر ایک قسم کا تیل لگایا جاتا ہے جو انہیں کیڑوں سے بچا کر رکھتا ہے۔

    پنجروں کی تیاری کے ساتھ اس گاؤں کے لوگ مختلف پرندے بھی پکڑتے ہیں اور ان کی پرورش کرتے ہیں۔ ان کے بنائے گئے پنجرے پورے ملک میں فروخت کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔

    اس قدیم فن کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ سنہ 2008 میں اسے صوبے کے ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا۔

  • لکڑی کو آگ سے بچانے والی کوٹنگ تیار

    لکڑی کو آگ سے بچانے والی کوٹنگ تیار

    لکڑی بظاہر تو مضبوط ہوتی ہے لیکن آگ کی معمولی سی چنگاری لکڑی کے بڑے سے بڑے ڈھیر کو لمحوں میں خاکستر کرسکتی ہے، تاہم اب ایسی پالش تیار کرلی گئی ہے جو لکڑی کو آگ سے بچا سکتی ہے۔

    فن لینڈ میں بنائی گئی یہ انوکھی وارنش نینو سیلولوز پر مشتمل ہے۔ اس کے ریشے بھی لکڑی کے گودے سے ہی تیار کیے گئے ہیں۔

    ہیف سیل یا ’ہائی کنسسٹینسی انزائمٹک فائبریلیشن آف سیلولوز‘ نامی کیمیائی مادے پر مبنی یہ پالش ایک جیل کی طرح ہے۔ اس میں نہایت ٹھوس اجزا موجود ہیں جو لکڑی پر لگنے کے بعد اس پر ایک تہہ تشکیل دے دتے ہیں۔

    اس کے بعد اگر اس لکڑی کو آگ لگ جائے تو یہ تہہ آکسیجن کو لکڑی تک پہنچنے سے روک دیتی ہے جس کے بعد آگ مزید بھڑکنے کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔

    فی الحال اس وارنش کو آزمائشی طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ بہت جلد اسے تجارتی بنیادوں پر بھی پیش کردیا جائے گا۔

  • لکڑی سے تیار کیا گیا لباس

    لکڑی سے تیار کیا گیا لباس

    زمین پر بڑھتی ہوئی آلودگی اور کچرے کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں ماحول دوست اشیا تیار کی جارہی ہیں۔ ایسی ہی ایک نئی شے لکڑی سے بنا ہوا لباس ہے۔

    فن لینڈ کی آلتو یونیورسٹی کے طلبا اور سائنسدانوں نے ایسا لباس تیار کیا ہے جو براہ راست لکڑی سے تیار کیا گیا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کے ماحول کو آلودہ کرنے والے اجزا شامل نہیں ہیں۔

    اس لباس کو تیار کرنے کے لیے سب سے پہلے تمام خام اشیا کا گودا بنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد پودوں سے نکلنے والا ایک مادہ سیلولوز، جس میں چپکنے کی خاصیت ہوتی ہے اس میں شامل کیا جاتا ہے۔

    اس کے بعد اسے عام کپڑے کی طرح کاتا جاتا ہے۔

    یونیورسٹی کے طلبا اور سائنسدانوں کی جانب سے تیار کردہ اس لباس کو فن لینڈ کی خاتون اول جینی ہوکیو نے بھی ایک تقریب میں زیب تن کیا۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل کی صنعت سے نکلنے والے فضلے اور زہریلے پانی کا حصہ تمام صنعتی فضلے کا 20 فیصد ہے۔

    یہ صنعت دیگر صنعتوں سے کہیں زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرتی ہے۔

    اسی طرح اس صنعت میں ٹیکسٹائل کے زیاں کی شرح بھی بہت زیادہ ہے جو بالآخر کچرا کنڈیوں کی زینت بنتا ہے۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق ٹیکسٹائل انڈسٹری ہر ایک سیکنڈ میں ضائع شدہ کپڑوں کا ایک ٹرک کچرے میں پھینکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ لکڑی سے بنے یہ کپڑے جلد زمین میں تلف ہوجائیں گے یوں ٹیکسٹائل کے کچرے میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

    کیا آپ لکڑی سے بنا لباس زیب تن کرنا چاہیں گے؟

  • دبئی: لکڑی کی فیکڑی میں ہولناک آتشزدگی

    دبئی: لکڑی کی فیکڑی میں ہولناک آتشزدگی

    دبئی : اماراتی ریاست کے صنعتی علاقے میں واقع میں فیکڑی میں اچانک خوفناک آگ بھڑک اٹھی جس نے عمارت کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی کے علاقے الجبیل میں واقعے لکڑی کے بکس بنانے والی کمپنی میں جمعے کے روز اچانک آگ بھڑک اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری عمارت کو اپنی لپیٹ میں لےلیا۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ دبئی سول ڈیفینس کا عملہ آگ پر قابو پانے میں مصروف ہیں۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ آتشزدگی کے باعث نذر آتش ہونے والی عمارت سے دھوائیں کے شدید کالے بادل اٹھتے ہوئے دور سے نظر آرہے ہیں۔

    دبئی سول ڈیفینس کے ترجمان نے خبر رساں اداروں کو بتایا کہ ’ہمیں صبح 9 بج کر 21 منٹ پر الجبیل کے علاقے سے آتشزدگی کی اطلاع موصول ہوئی تھی۔

    دبئی سول ڈیفینس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اطلاع موصول ہوتے ہی فائرفایٹرز دس منٹ میں جائے حادثہ پر پہنچ گئے تھے، عفریت کی شکل اختیار کرنے والی آگ پر قابو پانے میں جبل علی، دبئی انوسٹمنٹ اور دبئی پارک فائر اسٹیشن کا عملہ شامل ہے۔

    ترجمان کا کہنا ہے کہ آتشزدگی کے واقعے میں تاحال کسی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ پولیس نے صنعتی علاقے میں جانے والی تمام سڑکیں بند کردیں ہیں تاکہ ہنگامی خدمات انجام دینے والے عملے کو ریسکیوں آپریشن میں مشکلات پیش نہ آئیں۔

    مزید پڑھیں : شارجہ : گودام میں ہولناک آتشزدگی

    خیال رہے کہ ایک ہفتہ قبل اماراتی ریاست کے صنعتی علاقے میں واقع میں گودام اچانک ہولناک آگ بھڑک اٹھی جس نے لکڑی کے گودام کی عمارت کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔

    مزید پڑھیں : شارجہ : رہائشی عمارت میں خوفناک آتشزدگی، 7 سالہ بچہ ہلاک

    یاد رہے کہ گذشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کی ریاست شارجہ کے علاقے القولایا میں واقع کثیرالمنزلہ رہائشی عمارت میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر بھڑک اٹھی تھی جس کے نتیجے میں گھر میں موجود 7 سالہ بچہ جھلس کر ہلاک ہوگیا تھا۔

  • کوئٹہ:شدید سردی،لکڑی اور کوئلہ کی مانگ میں اضافہ

    کوئٹہ:شدید سردی،لکڑی اور کوئلہ کی مانگ میں اضافہ

    کوئٹہ میں شدید سردی کے پیش نظر جلانے والی لکڑی اور کوئلہ کی مانگ میں اضافہ ہوگیا ہے، گیس پریشر کے ستائے شہریوں کو لکڑی کی قیمتیں بھی ڈسنے لگی ہیں۔

    کوئٹہ میں موسم سرما کے دوران گیس پریشر کی کمی کا مسئلہ گزشتہ چند سال سے چلتا آرہا ہے مگر اس سال یہ مسئلہ شدت اختیار کرگیا ہے، شہر کے نواحی علاقوں کے ساتھ ساتھ وسطی علاقوں میں بھی گیس غائب ہوجاتی ہے، اس اذیت ناک صورتحال میں ایندھن کے متبادل ذرائع لکڑی اور کوئلہ کی مانگ میں اضافہ ہوگیا ہے، لوگ گھروں میں انگیٹھیاں جلا کر خون جما دینے والی سردی کا مقابلہ کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔

    سوئی گیس کی عدم دستیابی کی صورت میں لکڑی اور کوئلہ بہترین متبادل ذریعہ ایندھن ہے، اس وجہ سے لوگ سوختنی لکڑیاں خریدنے ٹالوں کا رخ تو کرگئے ہیں مگر آسمان چھوتی قیمتیں غریبوں کی پہنچ سے دور ہیں، ٹال مالکان کا کہنا ہے کہ لکڑی مارکیٹ سے مہنگے داموں آرہی ہے۔

    صوبائی دارالحکومت سمیت صوبے کے سرد علاقوں کے لوگ موسم سرما لطف اندوز ہونے کی بجائے ایندھن کی فکر میں گزار رہے ہیں، گیس پریشر میں کمی کے ستائے شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت لکڑیوں کی قیمتوں میں کمی لانے کے لئے اقدامات کرے تاکہ غریب عوام کی پریشانیوں میں کچھ حد تک کمی آسکے۔