Tag: لکڑی کا کام

  • ٹال ووڈ ہاؤس اور ہو ہو ٹاور!

    ٹال ووڈ ہاؤس اور ہو ہو ٹاور!

    یوں تو زمانۂ قدیم میں بھی انسان نے تعمیرات کے فن میں مہارت اور ہنرمندی میں کمال دکھایا اور ایسی عمارتیں، محلات، پُل وغیرہ تعمیر کیے جنھیں دیکھ کر آج کا انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ تعجب اور حیرت ہمارا احاطہ کر لیتی ہے، مگر آج یہ ایک باقاعدہ فن ہے اور تعمیرات کو ایک صنعت کا درجہ حاصل ہے۔

    موجودہ دور میں تعمیراتی شعبے میں جدت اور تنوع کے ساتھ نیا تعمیراتی میٹیریل استعمال کیا جارہا ہے جس کا ایک مقصد اس شعبے میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنا اور دوسری جانب پائیدار عمارتیں تعمیر کرنا ہے۔

    سائنسی ترقی اور سہولیات کی وجہ سے کثیر منزلہ عمارتیں اور ان کی خوب صورتی شاید ہمیں اہرامِ مصر اور روم کے آثار کی طرح حیرت زدہ نہ کریں، مگر اس میدان اب لکڑی سے صنعت گری کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔

    تعمیراتی مقصد کے لیے مخصوص درختوں کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے جو پائیدار اور موسم سے لڑنے کے قابل ہوتی ہے۔ ان میں شہتیر، شاہ بلوط، صنوبر، ساگوان اور چیڑ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    ہم یہاں ان دو عمارتوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جنھیں اس شعبے میں جدت اور میٹیریل کے اعتبار سے منفرد قرار دیا گیا ہے۔

    ٹال ووڈ ہاؤس
    یہ کینیڈا کے مشہور شہر وینکوور کی وہ عمارت ہے جو لکڑی سے تعمیر کی گئی ہے۔ یہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہے جو لکڑی سے تعمیر کی گئی ہے۔ برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے کیمپس میں 53 میٹر بلند اس عمارت کو ٹال ووڈ ہاؤس کا نام دیا گیا ہے۔ اس کی 18 منزلیں ہیں اور اس میں طلبا رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس عمارت کا فرش کنکریٹ سے تیار کیا گیا ہے۔ ماہرین نے اسے 18 ماہ کی قلیل مدت میں تعمیر کیا ہے۔

    ہوہو ٹاور
    ویانا میں 24 منزلہ ہوہو ٹاور 84 میٹر بلند ہے جس میں ایک ہوٹل، اپارٹمنٹ اور دفاتر شامل ہوں گے۔ یہ لکڑی سے بنی ہوئی وہ عمارت ہے جو ٹال ووڈ ہاؤس کا ریکارڈ توڑ دے گی۔ لکڑی کی بنی ہوئی اس بلند عمارت کے حوالے سے ماہرینِ تعمیرات کا کہنا تھا کہ یہ رواں سال کے اختتام تک مکمل کر لی جائے گی۔

    اسی سال جاپانی ماہرینِ تعمیرات نے دنیا کی سب سے بلند لکڑی کی عمارت تعمیر کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ یہ 350 میٹر بلند ہو گی جو رہائشی اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہو گی۔ کہا گیا تھا کہ یہ عمارت ٹوکیو کے وسط میں تعمیر کی جائے گی۔

    ان ممالک میں لکڑی سے تیار کی جانے والی بلند عمارتوں کی تعمیر کا ایک مقصد موسمی تبدیلیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ماحول دوست فضا پیدا کرنا ہے۔

  • صدیوں پرانی مسجد جو وادیِ سوات کی پہچان ہے!

    صدیوں پرانی مسجد جو وادیِ سوات کی پہچان ہے!

    وادیِ سوات ایک پُرفضا اور سیاحتی مقام ہی نہیں بلکہ یہ علاقہ قدیم تہذیبوں کا مسکن اور ثقافت کے لحاظ سے کئی رنگ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

    صدیوں پہلے بھی یہاں مختلف فنون اور ہنر میں لوگ باکمال اور قابلِ ذکر رہے ہیں۔ قدیم دور کا انسان پتھروں اور لکڑیوں کے کام میں ماہر تھا اور اس نے نقاشی، کندہ کاری میں لازوال اور یادگار کام کیا۔

    سوات کے لوگ کندہ کاری کے ہنر کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں پہچان رکھتے ہیں۔ کندہ کاری وہ ہنر ہے جسے سوات میں 1300 عیسوی سے بیسویں صدی تک ہنرمندوں نے گویا حرزِ جاں بنائے رکھا۔ یہاں گندھارا آرٹ اور لکڑی پر کندہ کاری کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جو ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔

    ہم آپ کو سوات کے ایک گاؤں سپل بانڈئی کی اس مسجد کے بارے میں بتا رہے ہیں جو تین سو سال قدیم ہے۔ اس مسجد کے در و بام کو جس خلوص اور محبت سے مقامی ہنر مندوں کے ہاتھوں نے سجایا تھا، اُسی طرح وہاں کے مسلمانوں نے اپنی مذہبی عقیدت اور سجدوں سے اسے بسایا تھا۔ مگر پھر گردشِ زمانہ اور ہماری عدم توجہی نے اس تاریخی ورثے کو دھندلا دیا۔

    سپل بانڈئی وادیِ سوات کے دارالخلافہ سیدو شریف سے چند کلومیٹر دور واقع ہے جہاں یہ مسجد قائم کی گئی تھی۔ سرسبز و شاداب پہاڑی پر واقع اس گاؤں کو جانے کب بسایا گیا، لیکن محققین کا خیال ہے کہ اسے محمود غزنوی کی افغان فوج میں شامل لوگوں نے آباد کیا تھا۔

    یہ تین سو سالہ تاریخی مسجد اب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک قدیم اور دوسرا موجودہ دور میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے ستون اور چھت سواتی کاری گری کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ماہرینِ آثار کے مطابق اس مسجد کی تزئین و آرائش میں جس لکڑی سے کام لیا گیا ہے وہ ‘‘دیار’’ کی ہے۔ تاہم پوری مسجد میں مختلف درختوں کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ محرابوں کی بات کی جائے تو اس دور میں ہنرمندوں نے اسے تین مختلف اقسام کی لکڑیوں سے جاذبیت بخشی ہے۔ اس میں کالے رنگ کی خاص لکڑی بھی شامل ہے جو اس علاقے میں نہیں پائی جاتی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کے لیے دوسرے علاقوں سے بھی لکڑی منگوائی گئی تھی۔ دیار کے علاوہ عمارت میں چیڑ کی لکڑی بھی استعمال ہوئی ہے۔

    اگر صرف مسجد میں‌ استعمال کی گئی لکڑی کی بات کی جائے تو تین سو سے زائد سال بعد بھی وہ بہتر حالت میں ہے اور ستون نہایت مضبوط ہیں۔ ماہرین کے مطابق مسجد کا پرانا طرزِ تعمیر سوات کے علاوہ کسی اور علاقے میں نہیں دیکھا گیا.