Tag: لکھنؤ

  • لکھنؤ: وہ شہر جس کی بہار دہلی کی خزاں سے آراستہ ہوئی

    لکھنؤ: وہ شہر جس کی بہار دہلی کی خزاں سے آراستہ ہوئی

    ہر دور کا ادب اس دور کی تہذیب کا آئینہ ہوتا ہے، اور ہندوستان میں لکھنؤ وہ شہر ہے جو اٹھارویں صدی کے وسط سے لے کر انیسویں صدی کے آخر تک شمالی ہند کی تہذیب میں نمایاں رہا ہے۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد دہلی کی مرکزی حیثیت کم زور ہو گئی تھی مگر اس کے باوجود اس مرکز میں ایک تہذیبی شمع جلتی رہی جس نے شعر و ادب کے پروانوں کو لکھنؤ کا رخ‌ کرنے پر آمادہ کرلیا اور وہاں علم و فن کی قدر دانی، تحسین اور ادبی سرپرستی میں‌ خوش حالی دیکھی۔

    اردو ادب میں سیرت نگاری، تاریخ اور تنقید و تذکرہ نویسی میں اپنی قابلیت اور قلم کے زور پر نمایاں‌ ہونے والوں میں ایک نام سید سلیمان ندوی کا بھی ہے جنھوں نے لکھنؤ کے بارے میں‌ طویل مضمون رقم کیا تھا۔ اسی مضمون سے چند پارے پیشِ خدمت ہیں۔

    سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں، آج ہم جس تاریخی شہر میں جمع ہیں وہ گو ہمارے پورے ملک کی راجدھانی کبھی نہیں بنا لیکن یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ ہمارے علوم و فنون اور شعر و ادب کا مدتوں پایۂ تخت رہا ہے اور اب بھی ہے۔

    شاہ پیر محمد صاحب جن کا ٹیلہ اور ٹیلے پر والی مسجد مشہور ہے، یہاں کے سب سے پہلے عالم ہیں۔ عالمگیر کے عہد میں سہالی سے فرنگی محل کو علم و فنون کا وہ خاندان منتقل ہوا جو صدیوں تک ہمارے علوم و فنون کا محافظ اور شیراز ہند پورب کا دارالعلوم رہا اوراس نئے زمانے میں مسلمانوں کی نئی عربی درس گاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کی یہیں بنیاد پڑی۔ یہاں کا خاندانِ اجتہاد پورے ملک کے طول و عرض پر تنہا حکمراں ہے۔

    دلّی کے باغ میں جب خزاں آئی تو یہاں بہار کا دور آیا۔ اس اجڑے باغ کے کتنے مرغ خوش لحن تھے، جنہوں نے اڑ اڑ کر اس چمن کی شاخوں پر بسیرا لیا۔ ہندوستان کی موجودہ بولی پیدا تو سندھ اور پنجاب میں ہوئی، نشو و نما دکن میں پایا، تعلیم و تربیت دلّی میں حاصل کی، لیکن تہذیب اور سلیقہ لکھنؤ میں سیکھا۔ اودھ کی راجدھانی جب فیض آباد سے لکھنؤ منتقل ہوئی تو اس کو اور چار چاند لگ گئے۔ میرتقی میرؔ، انشاء اللہ خاں انشاءؔ، جرأت اورمصحفیؔ وغیرہ نے اودھ کا رخ کیا۔ میر انیس کا خاندان دلّی سے پہلے ہی آچکا تھا۔ ان بزرگوں کے دم قدم سے بادشاہوں کے دربار، امراء کی ڈیوڑھیاں اور اہلِ علم کی محفلیں شعر و سخن کے نغموں سے پُر شور بن گئیں۔ ناسخ و آتشؔ، وزیرؔ و صباؔ اور ان کے شاگردوں کے شاگردوں نے شعر و ادب کے جواہر ریزوں کے ڈھیر لگا دیے۔

    شعر و سخن کے چرچوں اور شاعروں کے تفریحی جمگھٹوں کو چھوڑ کر نفس زبان کی ترقی، محاورات کی نزاکت، الفاظ کی تراش خراش اور اصول و قواعد کے وضع و تالیف کا جو اہم کام گزشتہ دو صدیوں میں یہاں انجام پایا، اسی کا اثر ہے کہ اس نے بولی سے بڑھ کر زبان کا درجہ پایا۔ ملک سخن کے دو اخیر فرماں روا انیسؔ اور دبیرؔ نے شاعری نہیں کی، بلکہ اپنے نام سے زبان و ادب کے سکے ڈھال ڈھال کر اہل ملک میں تقسیم کرتے رہے۔

    ناسخؔ نے زبان کی نزاکت و لطافت میں وہ کام کیا جو ہر ایک ہوشیار جوہری جواہرات کے نوک پلک نکال کر جلا دینے میں کرتا ہے۔ ان کے شاگرد والا جاہ میراوسط علی رشک نے صحیح و غلط، ثقیل و سبک لفظوں کو اس طرح پرکھ کر الگ کر دیا کہ ان کی پسند فصاحت کا معیار بن گئی۔ سیکڑوں الفاظ جو بول چال میں رائج تھے، مگر شعر و انشاء کی بارگاہ میں ان کو بار حاصل نہ تھا، ان کو خود اپنے شعروں میں نظم کر کے پچھلوں کے لیے سند پیدا کی۔

    لکھنؤ میں غالباً یہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے ۱۸۴۸ء میں اردو لغت ترتیب دیا، جس کا نام ’’نفس اللغۃ‘‘ہے۔ سید انشاء اللہ خاں کے دریائے لطافت کا دھارا بھی یہیں بڑھا۔ شیخ امداد علی بحر المتوفی ۱۸۸۲ء کی نسبت بھی مشہور ہے کہ انہوں نے کوئی لغت لکھا تھا، مگر اس کا سراغ نہیں ملتا۔

    حکیم ضامن علی جلال جن کے دیدار کا شرف مجھے بھی حاصل ہے، ان شعراء میں ہیں جنہوں نے زبان کو نہ صرف شاعری بلکہ وضع اصول اور تحقیقات کے لحاظ سے بھی مالا مال کیا ہے۔ سرمایہ زبان اردو، مفید الشعراء، تنقیح اللغات، گلشن فیض اور قواعد المنتخب وغیرہ ان کی وہ کتابیں ہیں جو اردو زبان کا سرمایہ ہیں۔ منشی امیر احمد مینائی کے شاعرانہ خدمات سے قطع نظر، امیر اللغات کے مصنف کی حیثیت سے ہماری زبان پر ان کا بڑا احسان ہے کہ اردو کے اس عظیم الشان لغت کے دو حصّے الف ممدودہ اور الف مقصورہ تک چھپ سکے۔ ان کے جلیل القدر شاگرد نواب فصاحت جنگ جلیل سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ رام پور میں اس لغت کا پورا مسودہ موجود ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ہماری زبان کی بڑی بدقسمتی ہو گی کہ ترقی کے اس روز بازار میں بھی مشتاقوں کی آنکھیں اس عروس فن کی دید سے محروم ہیں۔

    لکھنؤ نے شعر و سخن کے ذریعہ سے اس زبان کی جو خدمتیں انجام دی ہیں، وہ ہماری علمی محفلوں کی بار بار کی دہرائی ہوئی کہانیاں ہیں اور جو شہرت کی بنا پر زبان زد خاص و عام ہیں۔ مجھے اس شاہراہ سے ہٹ کر لکھنؤ کی وہ خدمتیں گنانا ہیں جن کو اس دور کے قدر داں بھول گئے ہیں یا ہماری زبان کی تاریخ سے یہ اوراق گر کر کھو گئے ہیں۔

  • پڑوسیوں کے ہراساں کرنے پر نوجوان نے 4 بہنوں اور ماں کو قتل کردیا

    پڑوسیوں کے ہراساں کرنے پر نوجوان نے 4 بہنوں اور ماں کو قتل کردیا

    نوجوان لڑکے نے ہوٹل کے کمرے میں اپنی چار بہنوں اور ماں کو قتل کردیا، ملزم نے ویڈیو میں بتایا کہ پڑوسی اسکے گھروالوں کا ہراساں کررہے تھے۔

    بھارتی شہر لکھنؤ بدھ کے روز ایک ہولناک واقعہ پیش آیا ہے جس میں 24 سالہ شخص ارشد نے مبینہ طور پر ایک ہوٹل میں اپنی ماں اور چار بہنوں کا قتل کر دیا، جرم کے بعد ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں، ارشد نے دعویٰ کیا کہ اس نے اپنے خاندان کو ’تحفظ‘ دینے کے لیے یہ کام کیا ہے۔

    ارشد نے الزام لگایا کہ آگرہ میں ان کی جائیداد پر پڑوسیوں کی نظر تھی، نوجوان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پڑوسیوں نے حیدرآباد میں اسکی بہنوں کو فروخت کرنے کا بھی منصوبہ بنایا تھا۔

    ارشد نے مبینہ طور پر ویڈیو میں کہا کہ ہمارے پڑوسی ہماری جائیداد پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور انھوں نے حیدرآباد میں میری بہنوں کو فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا، میں ایسا نہیں ہونے دے سکتا تھا۔

    مذکورہ خاندان آگرہ کا رہنے والا ہے جو کہ 30 دسمبر سے ہوٹل میں مقیم تھا اور مبینہ طور پر نئے سال کا جشن منانے کے لیے اتر پردیش کے دارالحکومت میں موجود تھا۔

    ارشد نے مبینہ طور پر اپنی ماں اور بہنوں کو نشہ آور اشیا سے بھرا کھانا اور شراب پیش کیا، اس کے گھنٹوں بعد اس نے مبینہ طور پر انھیں قتل کر دیا، کچھ کو گلا گھونٹ کر جبکہ کچھ کو اس نے بلیڈ کی مدد سے موت کے گھاٹ اتارا۔

    مرنے والوں میں ارشد کی ماں اسما اور اس کی بہنیں شامل ہیں، جن کی عمریں صرف 9، 16، 18 اور 19 سال تھیں۔

    ڈپٹی کمشنر پولیس روینہ تیاگی نے کہا کہ آج ہوٹل شرن جیت کے ایک کمرے سے پانچ لوگوں کی لاشیں ملی ہیں، مقامی پولیس نے موقع پر پہنچ کر ارشد نامی شخص کو حراست میں لیا گیا۔

    روینہ تیاگی نے بتایا کہ ابتدائی پوچھ گچھ میں اس نے بتایا کہ خاندانی جھگڑے کی وجہ سے اس نے اپنی چار بہنوں اور ماں کو قتل کیا ہے۔ مزید پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

  • میڈیکل یونیورسٹی کے 5 ڈاکٹر ٹریفک حادثے میں جان گنوا بیٹھے

    میڈیکل یونیورسٹی کے 5 ڈاکٹر ٹریفک حادثے میں جان گنوا بیٹھے

    بھارت کے اتر پردیش کی سیفئی میڈیکل یونیورسٹی کے پانچ ڈاکٹر لکھنؤ ایکسپریس وے پر خوفناک ٹریفک حادثے کے نتیجے میں زندگی کی بازی ہار گئے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق افسوسناک حادثہ لکھنؤ ایکسپریس وے پر قنوج کے تروہ علاقے میں پیش آیا، حادثے میں مرنے والے تمام افراد یونیورسٹی کے پوسٹ گریجویٹ (پی جی) طلباء تھے، جو شادی کی تقریب سے واپس جارہے تھے۔

    گاڑی تیز رفتاری کے باعث مخالف لائن میں پہنچ گئی، سامنے سے آنے والے ٹرک سے خوفناک تصادم ہوگیا۔

    رپورٹس کے مطابق افسوسناک حادثے میں پانچ ڈاکٹر موقع پر ہی دم توڑ گئے، جبکہ گاڑی میں موجود ایک اور طالب علم شدید زخمی ہو گیا، جسے فوری طور پر سیفئی میڈیکل یونیورسٹی اسپتال روانہ کیا گیا۔

    پولیس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ حادثہ تیز رفتاری کے باعث پیش آیا، تھانہ تروہ کے علاقہ میں 196 پر بے قابو ہو کر ڈیوائیڈر سے ٹکرا کر مخالف سمت میں چلی گئی اور وہاں ایک بڑے ٹرک سے تصادم ہوگیا۔

    ہاسٹل میں ناقص غذا کے باعث طالبہ کی موت

    حادثے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں، جنہوں نے لاشوں اور زخمی کو قریبی اسپتال منتقل کیا۔

  • جلالؔ کا شعر اور مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کے آنسو

    جلالؔ کا شعر اور مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کے آنسو

    ضامن علی نام، جلالؔ تخلص۔ والد کا نام حکیم اصغر علی، خاندانی پیشہ طبابت۔ فارسی کی درسی کتابیں مکمل پڑھیں۔ مزاج میں نزاکت کے ساتھ کچھ چڑچڑا پن۔ پستہ قد، سانولا رنگ، گٹھا ہوا بدن، آواز بلند، پڑھنا بہت بانکا تھا۔ پڑھنے میں کبھی کبھی ہاتھ ہلاتے تھے، اپنا آبائی پیشہ یعنی طبابت بھی نظر انداز نہیں کیا۔

    ایک مرتبہ رام پور کے مشاعرہ میں حضرتِ داغؔ دہلوی نے مندرجۂ ذیل مطلع پڑھا:

    یہ تری چشمِ فسوں گر میں کمال اچھا ہے
    ایک کا حال برا ایک کا حال اچھا ہے

    مشاعرہ میں بہت داد دی گئی، مگر جلالؔ مرحوم نے تعریف کرنے میں کمی کی اور جب ان کی باری آئی، ذیل کا شعر پڑھا جس کی بے حد تعریف ہوئی:

    دل مرا آنکھ تری دونوں ہیں بیمار مگر
    ایک کا حال برا ایک کا حال اچھا ہے

    ایک اور مشاعرہ میں جلالؔ نے ایک شعر پڑھا، مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کو وجد آگیا۔ جھوم اٹھے اور بے اختیار آنسو آنکھوں سے جاری ہوگئے:

    حشر میں چھپ نہ سکا حسرتِ دیدار کا راز
    آنکھ کم بخت سے پہچان گئے تم مجکو

    مولانا مرحوم روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ سبحان اللہ کیا با اثر شعر ہے، کس مزے کی بلاغت ہے، رازِ حسرتِ دیدار چھپانے کی انتہائی حد دکھائی ہے، عمر بھر حسرت چھپائی، وقت مرگ بھی افشائے راز نہ ہونے دیا لیکن مقام حشر جو آخری دیدار کی جگہ ہے وہاں حسرتِ دیدار کا راز کسی طرح چھپائے نہ چھپ سکا۔ آنکھ کم بخت سے پہچان گئے تم مجکو۔

    (کتاب لکھنؤ کی آخری شمع سے انتخاب)

  • بھارت کے انٹرنیشنل شوٹر نے ٹیکسی ڈرائیور پر پستول تان لی!

    بھارت کے انٹرنیشنل شوٹر نے ٹیکسی ڈرائیور پر پستول تان لی!

    لکھنؤ میں بھارت کے انٹرنیشنل شوٹر نے بحث و مباحثے کے بعد کیب ڈرائیور پر پستول تان لی جبکہ اسے بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاست اتر پردیش کے شہر لکھنؤ میں ایک شخص کی جانب سے کیب ڈرائیور کو اپنے پستول کے بٹ سے مارنے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ تاہم جب ملزم کو گرفتار کیا گیا تو پتا چلا کہ ونود مشرا نامی شخص بین الاقوامی سطح کا شوٹر ہے۔

    مذکورہ واقعہ پیر کو لکھنؤ کے پوش علاقے وبھوتی کھنڈ میں پیش آیا۔ پولیس نے بتایا کہ مشرا اور کیب ڈرائیور کی گاڑی کی معمولی ٹکر کے بعد جھگڑا ہوا تھا۔

    مشرا اپنی کار سے ٹیکسی کے ٹکرانے کے فوراً بعد باہر نکلا اور اپنے لائسنس یافتہ پستول کے بٹ سے ڈرائیور پر حملہ کردیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوگئی۔

    کیب ڈرائیور کی شکایت پر مذکورہ شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جس کے بعد ونود مشرا کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔

    مذکورہ ویڈیو کو یوپی کانگریس نے بھی شیئر کیا ہے اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے لیے ریاستی حکومت پر تنقید کی گئی ہے۔

    یوپی کانگریس نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ویڈیو لکھنؤ کی ہے، اس ریاست کی راجدھانی، جہاں آپ کی حکمرانی ہے، دیکھیں، جہاں آپ بے شرمی کے ساتھ امن و امان کی بات کرتے ہیں وہاں یاست کا کیا حال ہے۔

    اس پوسٹ کے شیئر ہونے کے بعد لکھنؤ پولیس نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ملزم کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ اس کے خلاف مزید کارروائی کی جا رہی ہے۔

  • فلمی اسٹائل کی چوری نے پولیس کو چکرا کر رکھ دیا

    فلمی اسٹائل کی چوری نے پولیس کو چکرا کر رکھ دیا

    بالی وڈ سے متاثر ہوکر فلمی اسٹائل کی چوری نے پولیس کو چکرا کر رکھ دیا، مالک اور ڈرائیور کو دھمکی دے کر ملزمان نے ایس یو وی چھین لی۔

    اترپردیش کے شہر لکھنؤ میں دو ملزمان نے بالی وڈ فلموں کے اسٹائل میں چوری کی، پہلے تو انھوں نے مالک اور ڈرائیور کو ڈرا دھمکا کر اسکارپیو ایس یو وی جیسی مہنگی کار چھینی اور اسے لے کر فرار ہوگئے۔

    تاہم اس وقت ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا جب وہ کار لے کر فرار ہوتے ہوئے حادثے کا شکار ہوگئے لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔

    حادثے کے بعد جب آس پاس موجود لوگ وہاں مدد کو پہنچے تو ان کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب انھوں نے دیکھا کہ ایس یو وی میں موجود دونوں اشخاص وہاں کسی اور سے زبردستی بائیک چھینے کی کوشش کرنے لگے۔

    دنوں ملزمان نے وہاں ایک موٹرسائیکل سوار سے بائیک ہتھیائی اور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے جبکہ لوگ انھیں کار سے اتر کر بائیک چھینتے دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔

    بھارتی پولیس نے انڈین پینل کوڈ کے سیکش 394 کے تحت ان دونوں چوروں کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کی تلاش شروع کردی ہے۔

  • 24 قیراط سونے سے بنی چائے، جس کی قیمت سن کر آپ پریشان ہوجائیں گے

    24 قیراط سونے سے بنی چائے، جس کی قیمت سن کر آپ پریشان ہوجائیں گے

    سوشل میڈیا کے اس دور میں تجارتی افراد اپنی اشیا فروخت کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے آزماتے ہیں، کھانے پینے کی اشیا بھی اس سے مختلف نہیں جنہیں مختلف اختراعات کر کے بیچا جاتا ہے۔

    24 قیراط گولڈ قلفی کے بعد اب سوشل میڈیا پر 24 قیراط گولڈ چائے کی ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے جو لکھنؤ کے ایک فوڈ بلاگر کی جانب سے شیئر کی گئی ہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لکھنؤ کی ایک دکان میں 24 قیراط سونے کی چائے فروخت ہورہی ہے، چائے کی تیاری میں خاص 24 قیراط سونے کا ورق بچھایا جا رہا ہے جو چائے کے شوقین افراد کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔

    ویڈیو کے ساتھ کیپشن میں لکھا گیا ہے کہ اس ویڈیو پر امیر افراد کو مینشن کریں۔

    حیرت انگیز طور پر اس چائے کی قیمت کوئی لاکھوں میں نہیں بلکہ صرف اور صرف 150 بھارتی روپے ہے۔

  • ایک ہی درخت سے سیکڑوں قسم کے آم، بھارتی بزرگ نے سب کو حیران کر دیا

    ایک ہی درخت سے سیکڑوں قسم کے آم، بھارتی بزرگ نے سب کو حیران کر دیا

    لکھنؤ: ایک ہی درخت سے سیکڑوں قسم کے آم کی پیداوار حاصل کر کے بھارتی بزرگ نے سب کو حیران کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی شہر لکھنؤ میں ایک شہری 82 سال کے کلیم اللہ خان نے آم کے ایک ہی درخت سے 300 اقسام کے آم کی پیداوار حاصل کر لی ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت دنیا کا سب سے بڑا آم پیدا کرنے والا ملک ہے، جو دنیا کی نصف سے زیادہ پیداوار فراہم کرتا ہے، ریاست اتر پردیش میں کاشت کار کلیم اللہ خان نے کئی دہائیوں سے آم کے درخت کی پرورش کی، تاکہ پھل کی سیکڑوں اقسام پیدا کی جا سکیں۔

    کلیم اللہ کے 9 میٹر (30 فٹ) لمبے درخت کی عمر 120 سال ہے، وہ اس درخت کو دیکھنے کے لیے روزانہ ایک میل کا فاصلہ طے کرتے ہیں، جس سے وہ گزشتہ برسوں میں آم کی تین سو سے زائد اقسام پیدا کر چکے ہیں۔

    کلیم اللہ نے لکھنؤ کے چھوٹے سے قصبے ملیح آباد میں موجود اپنے باغ میں کہا ’’یہ کئی دہائیوں تک چلچلاتی دھوپ میں سخت محنت کرنے کا میرا انعام ہے، آنکھوں کے لیے یہ صرف ایک درخت ہے، لیکن اگر آپ اپنے دماغ سے دیکھیں تو یہ ایک درخت، ایک باغ اور دنیا کا سب سے بڑا آم کا کالج ہے۔‘‘

    اے ایف پی نے رپورٹ کیا کہ کلیم اللہ نے نو عمری میں اسکول چھوڑ دیا تھا اور اسی عمر میں انھوں نے آم کی نئی اقسام بنانے کے لیے پودوں کے حصوں کو پیوند کرنے کا پہلا تجربہ کیا، اُس وقت انھوں نے 7 نئے قسم کے پھل پیدا کرنے کے لیے ایک درخت کی پرورش کی، لیکن وہ طوفان میں ضائع ہو گیا۔

    لیکن پھر 1987 سے انھوں نے آم کے ایک درخت کی پرورش شروع کر دی، جو اب ان کا فخر اور خوشی بن چکا ہے، اور اس سے انھوں نے ہر قسم کے ذائقے، ساخت، رنگ اور سائز کا آم حاصل کیا۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ کلیم اللہ نے جب یہ کام شروع کیا تو ابتدا میں انھوں نے آموں کے نام بالی ووڈ اداکاراؤں کے نام پر رکھنا شروع کیے، ایک آم کا نام انھوں نے ’ایشوریہ‘ بھی رکھا، یہ ان کے تیار کردہ بہترین آموں میں سے ایک تھا۔

    انھوں نے کہا ’’یہ آم اتنا ہی خوب صورت تھا جتنا کہ اداکارہ، ایک آم کا وزن ایک کلو گرام سے زیادہ تھا، اس کی بیرونی جلد کی رنگت سرخی مائل تھی، اور اس کا ذائقہ بہت میٹھا تھا۔

    8 بچوں کے والد کلیم اللہ نے بتایا کہ ایک آم کا نام انھوں نے انارکلی بھی رکھا، ایک نام سچن ٹنڈولکر کے اعزاز میں بھی رکھا، انھوں نے کہا کہ لوگ آئیں گے اور جائیں گے، لیکن آم ہمیشہ رہے گا۔

  • مودی سرکار برصغیر کی تاریخ مسخ کرنے پر تُل گئی

    مودی سرکار برصغیر کی تاریخ مسخ کرنے پر تُل گئی

    مودی سرکار برصغیر کی تاریخ مسخ کرنے پر تُل گئی، الہٰ آباد کا نام پرایا گراج، ہوشنک آباد کا نام نرمدہ پورم اور عثمان آباد کا نام دراشیو رکھنے کے بعد لکھنؤ کا نام تبدیل کر کے لکشمن پور یا لکھن پور قور غازی پور کا نام وشوا مترا نگر رکھنے کی تجویز دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق مودی کے ہندوستان میں اب شہر بھی غیر محفوظ ہوگئے، مودی سرکار برصغیر کی تاریخ مسخ کرنے پر تُل گئی۔

    ہندوتواکے پیروکاروں نے نفرت کی آگ میں شہروں کو بھی نہ بخشا، مودی کے ہندوستان میں مسلمانوں کا مذہبی تشخص خطرے میں پڑ گیا۔

    بی جے پی کے رکن پارلیمان سنگم لال گپتا نے یوگی ادیا ناتھ، ہوم منسٹر امت شاہ اور بھارتی وزیر اعظم مودی کو خط دیا۔

    خط میں لکھنؤ کا نام تبدیل کرکے لکشمن پور یا لکھن پور رکھنے کی تجویز دیدی، 28 لاکھ کے شہر میں 29 فیصد مسلمان اور دیگر اقلیتیں ہیں۔

    600 سال پرانے شہر کا نام تبدیل کرنے کے لئے ہندوتوا کے پیروکاروں کی طرف سے مظاہرے بھی کئے گئے۔

    ماضی میں بھی مودی سرکار کئی شہروں کے نام ہندو طرز پر تبدیل کر چکی ہے، 2018ء میں الہٰ آباد کا نام پرایا گراج، 2021ء میں ہوشنک آباد کا نام نرمدہ پورم اور 2022ء میں عثمان آباد کا نام دراشیو رکھا جا چکا ہے۔

    ہندو انتہا پسند رہنماؤں کی غازی پور کا نام وشوا مترا نگر اور بہرائچ کا نام سلدیو نگر رکھنے کی بھی تجویز ہے۔

    مودی سرکار ہو یا بالی وڈ سب کے سب مسلمان دشمنی میں بڑھ گئے ہیں، ایسے میں سوالات جنم لے رہے ہیں کہ کیا نفرت کی اس اندھی آگ میں بھارتی اقلیتیں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی ہیں؟ کیا مسلم تشخص مسخ کرنے سے برصغیر کی تاریخ ختم کی جاسکتی ہے؟

  • ڈاکوؤں نے سونے کی بالیاں حاصل کرنے کیلئے خاتون کا کان ہی کاٹ ڈالا

    ڈاکوؤں نے سونے کی بالیاں حاصل کرنے کیلئے خاتون کا کان ہی کاٹ ڈالا

    لکھنؤ: بھارت میں ڈاکوؤں نے سونے کی بالیاں حاصل کرنے کیلئے خاتون کا کان ہی کاٹ ڈالا۔

    یہ واقعہ بھارت کے شہر لکھنؤ میں پیش آیا، جہاں نرملا سنگھ نامی خاتون گھر کا سودا لینے باہر جاتی ہیں کہ انہیں دو ڈاکو گھیر لیتے ہیں۔

    ڈاکوؤں نرملا سے اس کی بالیا چھینے کے کوشش کرتے ہیں جس پر وہ شدید مزاحمت کرتی ہے، جب ڈاکو بالیا حاصل کرنے میں ناکام ہونے لگے تو انہوں نے تیز دھار آلے کے خاتون کا کان ڈالا اور بالیا لے کر فرار ہوگئے۔

    پولیس اہلکار کے مطابق نرملا کو فوری طور پر طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کیا گیا، جبکہ پولیس مقدمہ درج کرکے سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔