Tag: لکھنؤ

  • فرنگی محل: ایک فرانسیسی تاجر کی حویلی

    فرنگی محل: ایک فرانسیسی تاجر کی حویلی

    عہدِ اکبری ہی میں لکھنؤ شہر میں‌ آباد کاری کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ مغلیہ دور میں‌ جب ایک فرانسیسی تاجر یہاں آیا تو اس نے بادشاہ سے پروانۂ اقامت حاصل کرنے کے بعد یہاں ایک حویلی تعمیر کی جس کا نام فرنگی محل پڑ گیا۔

    یہ فرنگی محل لکھنؤ میں وکٹوریہ روڈ اور چوک کے درمیان میں واقع ہے۔ یہ مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دورِ حکومت کی بات ہے جب فرانسیسی تاجر یہ شان دار رہائش گاہ ایک شاہی فرمان کے تحت حکومت کی طرف سے ضبط کر لی گئی اور شہنشاہ نے ایک عالمِ دین، ملا سعید کو یہ حویلی سونپ دی۔ انھوں نے بعد میں یہاں ایک مدرسہ قائم کیا جسے بہت شہرت حاصل ہوئی اور اسی مدرسے سے کئی مسلمان عالم فاضل بن کر نکلے اور تحریکِ‌ خلافت اور بعد میں ہندوستان کی آزادی و تقسیم کے لیے جدوجہد اور تحاریک کا حصّہ بنے۔ اس مدرسے کے فارغ التحصیل علمائے فرنگی محل کے نام سے مشہور ہوئے جن کا تذکرہ تاریخ و سیاست کی کتب میں بہت پڑھنے کو ملتا ہے۔ اٹھارویں صدی میں مدرسہ فرنگی محل کو بہت شہرت ملی اور وہاں سے پڑھ کر نکلے والے علمائے کرام نے کئی ریاستوں میں‌ خواص اور عوام کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔

    فرنگی محل مدرسہ کا موازنہ اکثر انگلینڈ کی عظیم درس گاہوں سے بھی کیا جاتا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ گاندھی جیسے کئی کانگریسی راہ نماؤں نے بھی فرنگی محل میں چند دن گزارے۔ یہ اسلامی اور دینی تشخص رکھنے والی عمارت ہی نہیں تھی بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں‌ کے سیاسی اور سماجی کردار کو زور اور تحریک دینے میں بھی اس کا کردار اہم تھا مؤرخین نے لکھا ہے کہ فرنگی محل اسلامی ثقافت اور روایات کے تحفظ کی علامت بن گیا تھا۔

    گاندھی کے علاوہ تحریکِ آزادی کے دیگر قائدین جن میں سروجنی نائیڈو اور جواہر لعل نہرو بھی شامل ہیں، اس فرنگی محل کا دورہ اور یہاں کے علما سے مشورہ کرنے کے لیے آتے رہے تھے۔ فرنگی محل کے علما خلافتِ تحریک کے زبردست حامی تھے۔ اسی فرنگی محل مدرسہ کے علما نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد کا فتوٰی جاری کیا تھا جس کی پاداش میں کئی علما کو پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔

  • لکھنؤ میں زیکا وائرس کے کیسز سامنے آگئے

    لکھنؤ میں زیکا وائرس کے کیسز سامنے آگئے

    نئی دہلی: بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہروں کانپور اور قنوج کے بعد ریاستی دارالحکومت لکھنؤ میں زیکا وائرس کے 2 کیسز کی تصدیق کے بعد محکمہ صحت حرکت میں آگیا۔

    لکھنؤ کے چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر منوج اگروال کا کہنا ہے کہ حسین گنج اور ایل ڈی اے کالونیوں میں رہنے والے ایک مرد اور ایک خاتون میں زیکا وائرس کے انفیکشن کی تصدیق ہوئی ہے۔

    دونوں مریضوں کی ٹیسٹ رپورٹس میں انفیکشن کی تصدیق ہونے پر محکمہ صحت نے اس انفیکشن کو روکنے کے لیے اقدامات تیز کردیے ہیں۔

    ڈاکٹر اگروال کا کہنا ہے کہ 2 مریضوں میں زیکا وائرس کے انفیکشن کی تصدیق کے بعد جمعہ سے لکھنؤ میں زیادہ تعداد میں نمونے لینے اور ان کی جانچ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

    بعد ازاں دونوں علاقوں میں محکمہ صحت کی ٹیمیں پہنچیں اور انسداد لاروا سرگرمیاں شروع کر دیں، اس کے علاوہ ارد گرد کے لوگوں کو زیکا وائرس کے انفیکشن سے بچنے کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔

  • درندوں اور چوپایوں کو لڑانے کی روایت اور لکھنؤ

    درندوں اور چوپایوں کو لڑانے کی روایت اور لکھنؤ

    جانوروں اور چوپایوں کی لڑائی کی روایت بہت قدیم ہے۔ رومیوں میں یہ ذوق پایا جاتا تھا۔

    اہلِ یورپ کے زیرِ اثر ہندوستان میں اس کا آغاز لکھنؤ سے ہوا۔ لکھنؤ نے اس سلسلے کو استحکام بخشا اور کچھ ایسی نئی چیزوں کا اضافہ کیا جو لکھنؤ ہی کے ساتھ خاص ہے۔ درندوں اور چوپایوں میں شیر، چیتے، تیندوے، گینڈے، ہاتھی، اونٹ، گھوڑے، مینڈھے اور بارہ سنگھے جیسے جانوروں کو لکھنؤ دربار میں کبھی تو باہم لڑایا جاتا تھا اور کبھی مخالف جنس سے۔

    مولانا عبد الحلیم شرر لکھتے ہیں: ’’درندوں کے لڑانے کا مذاق قدیم ہندوستان میں کہیں یا کبھی نہیں سنا گیا تھا۔ یہ اصلی مذاق پرانے رومیوں کا تھا جہاں انسان اور درندے کبھی باہم اور کبھی ایک دوسرے سے لڑائے جاتے تھے۔ مسیحیت کے عروج پاتے ہی وہاں بھی یہ مذاق چھوٹ گیا تھا مگر اب تک اسپین میں اور بعض دیگر ممالک ِ یورپ میں وحشی سانڈ باہم اور کبھی کبھی انسانوں سے لڑائے جاتے ہیں۔ لکھنؤ میں غازی الدین حیدر بادشاہ کو غالباً ان کے یورپین دوستوں نے درندوں کی لڑائی دیکھنے کا شوق دلایا، بادشاہ فوراً آمادہ ہو گئے۔‘‘

    یہ سلسلہ غازی الدّین حیدر کے عہد (1814-1827) تک بڑی شان و شوکت سے جاری رہا۔ بادشاہ نے اس خوب صورت مشغلے کے لیے موتی محل کے پاس دو نئی کوٹھیاں تعمیر کرائیں، ایک مبارک منزل، دوسری شاہ منزل۔ ٹھیک اسی کے بالمقابل دریا کے دوسرے کنارے پر ایک وسیع و عریض سبزہ زار خطے کو منظم کیا گیا تھا، اس میں جانوروں کے الگ الگ کٹہرے تیار کرائے گئے تھے اور اسی میں جانوروں کے لڑنے کا میدان بھی ہموار کیا گیا تھا۔ شاہ منزل سے بادشاہ جانوروں کی خوں ریز لڑائیوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتا تھا۔

    آج کے تناظر میں میدان اور کوٹھیوں کے مجموعے کو اس زمانے کا اسٹیڈیم کہہ سکتے ہیں اور ایک طرح سے اس میدان کو چڑیا گھر بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ آج یہی میدان نشاط گنج کہلاتا ہے۔ (مقتبس: قدیم لکھنؤ کی آخری بہار)

    جانوروں اور چوپایوں کی لڑائیاں تین طرح سے ہوتی تھیں۔ اوّل تو ہم جنس جانوروں کو باہم لڑایا جاتا تھا اور کبھی غیر جنس کو ایک دوسرے سے لڑایا جاتا اور کبھی درندوں ہی میں شیر کو تیندوے اور چیتے سے بھی لڑا دیا جاتا۔ اسی طرح کبھی ہاتھی کو ہاتھی سے، مینڈھے کو مینڈھے اور کبھی گھوڑے کو بھنسے اور ہاتھی کو گینڈے سے بھی بھڑا دیا جاتا۔

    اس سلسلے میں سب سے زیادہ آزمائشوں سے بے چارے شیر کو گزرنا پڑتا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاہانِ اودھ نے اپنی ذمہ داری جنگل کے بادشاہ کے کاندھے ڈال دی تھی۔ اس لیے شیر کو کبھی شیر سے، کبھی چیتے، تیندوے، ہاتھی اور کبھی گینڈے اور گھوڑے سے لڑایا جاتا، لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ وہ اوّل الذّکر چاروں سے شکست کھانے کے ساتھ ساتھ گھوڑے سے بھی ہار جاتا۔

    جنگل کے اس بادشاہ کی شکست خوردگی کا عالم بھی وہی تھا جو لکھنؤ کے شاہوں کا تھا۔

    (محمد اظہار انصاری کے تحقیقی مضمون سے چند پارے)

  • شاعر منور رانا کی رہائش گاہ پر پولیس کا بغیر وارنٹ چھاپا، نواسی کا موبائل فون ضبط

    شاعر منور رانا کی رہائش گاہ پر پولیس کا بغیر وارنٹ چھاپا، نواسی کا موبائل فون ضبط

    لکھنؤ: عالمی شہرت یافتہ شاعر منور رانا کی رہائش گاہ پر رات گئے مقامی پولیس نے بغیر وارنٹ چھاپا مارا، گھر کی تلاشی لی اور ان کی نواسی کا موبائل فون ضبط کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق اترپردیش کے شہر لکھنؤ میں واقع مشہور شاعر منور رانا کی رہائش گاہ پر پولیس نے رات کو اچانک چھاپا مارا، اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے انھیں کچھ نہیں بتایا اور گھر کی تلاشی لیتے رہے۔

    منور رانا کی بیٹی اور کانگریس رہنما فوزیہ رانا نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا میرے بیمار والد کو بے وجہ پریشان کیا جا رہا ہے، انتظامیہ کی کارروائی انتقامی ہے، ان کے کنبے کو ہراساں کیا جا رہا ہے، انھوں نے کہا پولیس بغیر سرچ وارنٹ ان کے گھر کے اندر پہنچی، اور لائبریری کی تلاشی لی اور میرے والد منور رانا کو گھر کے باہر بٹھایا گیا۔

    انھوں نے کہا پولیس نے میری 16 سالہ بیٹی کا موبائل فون بھی ضبط کر لیا، موبائل میں بہت سی تصاویر اور ذاتی چیزیں تھیں، پولیس اس طرح موبائل کیسے لے سکتی ہے؟

    منور رانا کی بیٹی سمیہ رانا نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا پولیس ایسا برتاؤ کر رہی تھی، جیسے ہم لوگ دہشت گرد ہوں۔

    عالمی شہرت یافتہ شاعر منور رانا نے ٹی وی سے گفتگو میں بتایا کہ اگر پولیس کو واقعی تحقیقات ہی کرنی ہے، تو اسے کلکتہ جانا چاہیے، جہاں میرے گھر میں میرا چھوٹا بھائی اسماعیل رانا بم بنا رہا تھا اور دھماکا ہو گیا، اس کے بعد میرے والد نے اسماعیل رانا کو بچانے کے لیے پولیس کے پیر پکڑ لیے تھے۔

    انھوں نے کہا میرے بھائی اور بھتیجے ہماری جائیداد پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ میں مر جاؤں اور وہ میری اولادوں کو زمین جائیداد سے بے دخل کر دیں، انھوں نے کہا کہ اگر پولیس کہہ رہی ہے کہ میرے بیٹے تبریز رانا نے خود پر ہی گولی چلائی ہے، تو میں اپنے بیٹے کو کہوں گا کہ بہت غلط کیا، وہ اپنے ان رشتہ داروں پر چلاتا، جو ہمیں پریشان کر رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ منور رانا اور ان کے بھائی اسماعیل رانا کے درمیان پانچ بیگھے زمین کے لیے تنازع چل رہا ہے۔ چند دن پہلے منور رانا کے بیٹے کی گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ بھی پیش آیا تھا، تبریز رانا کی گاڑی پر موٹر سائیکل سوار نامعلوم افراد نے دن دن دہاڑے فائرنگ کر دی تھی۔

    رپورٹ کے مطابق منور رانا کے گھر پر اس چھاپے کی وجہ واضح نہیں ہو سکی ہے، پولیس کی طرف سے بھی اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

  • غریبُ الوطن میرؔ، جن کے حلیے کا لکھنؤ میں‌ مذاق اڑایا گیا

    غریبُ الوطن میرؔ، جن کے حلیے کا لکھنؤ میں‌ مذاق اڑایا گیا

    میر جب تک دلّی میں رہے شاہی دربار سے بھی کچھ نہ کچھ آتا رہتا تھا، لیکن شاہی دربار کیا، ایک درگاہ رہ گئی تھی جس کا تکیہ دار خود بادشاہ تھا۔ دلّی کے صاحبانِ کمال اس بے یقینی سے دل برداشتہ ہوکر شہر چھوڑے جارہے تھے۔

    استاد الاساتذہ سراجُ الدّین علی خان آرزو لکھنؤ چلے گئے۔ مرزا محمد رفیع سودا کہ سر خیالِ شعرائے شاہ جہاں آباد تھے، لکھنؤ چلے گئے۔ میر سوز بھی لکھنؤ چلے گئے، دلّی اجڑ رہی تھی، لکھنؤ آباد ہو رہا تھا کہ وہاں داخلی اور بیرونی کش مکش نہ تھی۔

    جان و مال کا تحفّظ تھا، در و دیوار سے شعر و نغمہ کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ آصفُ الدّولہ کی داد و دہش سے گھر گھر دولت کی گنگا بہہ رہی تھی۔ نئی تراش خراش، نئی وضع، ایک نیا طرزِ احساس، ایک نیا تہذیبی مرکز وجود میں آچکا تھا۔

    سوداؔ کا انتقال ہوا تو آصفُ الدّولہ کو خیال ہوا کہ اگر میر لکھنؤ آجائیں تو لکھنؤ کی شعری حیثیت نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوگا۔ چناں چہ آصفُ الدّولہ کے ایما سے نواب سالار جنگ نے زادِ راہ اور طلبی کا پروانہ بھجوا دیا۔

    میر لکھنؤ کے لیے روانہ ہوگئے۔ راستے میں فرّخ آباد کے نواب نے انھیں صرف چھے دن کے لیے روکنا چاہا، مگر میر ہوائے شوق میں اڑ رہے تھے، رُکے نہیں۔ حُسن افزا منزل کے مشاعرے میں ‘‘ہستی اپنی حباب کی سی ہے۔ یہ نمائش سراب کی سی ہے’’ پڑھ کر آگے بڑھ گئے اور لکھنؤ پہنچے۔

    یہ واقعہ ۱۱۹۶ھ (1782ء) کا ہے۔ میر اس وقت ساٹھ برس کے ہوچکے تھے۔ اور اب یہ راقم آثم کہ اردو ادب کے البیلے انشا پرداز مولوی محمد حسین آزاد کا سوانح نگار بھی ہے اور خوشہ چیں بھی، الفاظ کے رنگ و آہنگ اور تخیل کی تجسیم کے اس باکمال مصور کے نگار خانے کی ایک تصویر آپ کی نذر کرتا ہے اور سلسلۂ سخن کو یوں رونق دیتا ہے کہ ‘‘لکھنؤ میں پہنچ کر جیسا کہ مسافروں کا دستور ہے ایک سرا میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے، رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جاکر شامل ہوئے۔

    ان کی وضع قدیمانہ، کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، ایک پورا تھان پستو لیے کا کمر سے بندھا۔ ایک رومال پٹری دار تہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع کا پاجامہ جس کے عرض کے پائنچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب، غرض جب داخلِ محفل ہوئے تو شہرِ لکھنؤ میں نئے انداز، نئی تراش، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انھیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔

    میر صاحب بے چارے غریبُ الوطن، زمانے کے ہاتھ پہلے ہی دل شکستہ تھے اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ شمع ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی اور بعض اشخاص نے پوچھا، حضور کا وطن کہاں ہے؟ میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا:

    کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کردیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    سب کو حال معلوم ہوا۔ بہت معذرت کی اور میر صاحب سے عفوِ تقصیر چاہی، صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہوگیا کہ میر صاحب تشریف لائے۔

    آزاد کے نگار خانے کا ورق ختم ہوا۔ میر صاحب آصفُ الدّولہ کے یہاں حاضر ہوئے۔ آصفُ الدّولہ لطف و کرم سے پیش آئے۔ دو سو روپے ماہ وار وظیفہ مقرر ہوا۔ نواب بہادر جاوید خان کے یہاں بائیس روپے ماہ وار ملتے تھے اور میر صاحب خوش تھے کہ روزگار کی صورت برقرار ہے، اب دو سو ملتے ہیں اور میر صاحب فریاد کرتے ہیں۔

    خرابہ دلّی کا وہ چند بہتر لکھنؤ سے تھا
    وہیں میں کاش مرجاتا سراسیمہ نہ آتا یاں

    لکھنؤ میں میر صاحب نے عمرِ عزیز کے اکتیس برس گزارے۔ دلّی میں دل کی بربادی کے نوحے تھے، لکھنؤ میں دل اور دلّی دونوں کے مرثیے کہتے رہے:

    لکھنؤ دلّی سے آیا یاں بھی رہتا ہے اداس
    میر کو سر گشتگی نے بے دل و حیراں کیا

    1810ء کو نوّے برس کی عمر میں میر صاحب کا انتقال ہوا۔

    مرگِ مجنوں سے عقل گم ہے میر
    کیا دوانے نے موت پائی ہے

    (اسلم فرخی کے مضمون سے اقتباس)

  • بھارت: کرونا مریض کے ساتھ رونگٹے کھڑے کر دینے والا واقعہ

    بھارت: کرونا مریض کے ساتھ رونگٹے کھڑے کر دینے والا واقعہ

    لکھنؤ: بھارتی ریاست اتر پردیش میں کرونا کے پھیلاؤ کی صورت حال بد تر ہو گئی ہے، اسپتال مریضوں سے بھر گئے، کرونا میں مبتلا ایک معمر مریض آکسیجن سلنڈر کے ساتھ ایک سے دوسرے اسپتال جاتا رہا لیکن کوئی جگہ نہ ملی۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی شہر لکھنؤ میں رونگٹے کھڑے کر دینے والا واقعہ پیش آیا، ایک بیٹا کرونا انفیکشن سے متاثرہ 70 سالہ والد کو آکسیجن سلنڈر کے ساتھ لیے اسپتال اسپتال پھرتا رہا لیکن انھیں کسی اسپتال نے داخل نہیں کیا۔

    رپورٹس کے مطابق کسی اسپتال میں جگہ نہ ملنے کے بعد علی گنج کے رہائشی سشیل کمار کو ان کا بیٹا واپس گھر لے آیا، جہاں وہ خود والد کی تیمار داری کر رہا ہے۔

    سشیل کمار ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے بھی مریض ہیں، بدھ کو انھیں اچانک سانس لینے میں مشکل پیش آنے لگی، مقامی اسپتال لے جائے جانے پر ڈاکٹرز نے کرونا ٹیسٹ کے بغیر انھیں دیکھنے سے انکار کر دیا، جب کہ ان کا آکسیجن لیول گر رہا تھا، جب ٹیسٹ ہوا تو وہ کرونا پازیٹو نکلے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق جس اسپتال میں مریض کا ریگولر علاج ہو رہا تھا، اس نے بزرگ شہری کو داخل کرنے سے انکار کردیا کہ کوئی بستر خالی نہیں ہے، جس پر بیٹا آکسیجن سلنڈر کار میں رکھ کر انھیں شہر کے دیگر اسپتالوں پر گھمانے لگا، لیکن کہیں جگہ نہ ملی۔

    سشیل کمارے کے بیٹے نے فون پر بھی کئی ڈاکٹرز سے منتیں کیں لیکن کوئی مدد نہ ملی، والد کو اسپتال در اسپتال گھمانے کے دوران آکسیجن سلنڈر بھی ختم ہونے لگا، جس پر اسے ایک آکسیجن سینٹر سے مہنگے داموں آکسیجن سلنڈر بھی خریدنا پڑا۔

    کرونا مریض کے بیٹے اشیش کا کہنا تھا کہ وہ اب گھر پر ہی والد کی دیکھ بھال کر رہا ہے، اور اس واقعے نے ان کی پوری فیملی کو صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔

  • دوپلی ٹوپی اور کرارا جواب

    دوپلی ٹوپی اور کرارا جواب

    یہ پارہ دو اشخاص کی گفتگو پر مبنی ہے۔ ان میں‌ سے ایک لکھنؤ کا باسی ہے جب کہ دوسرا کسی اور شہر سے آیا ہے۔ ان کے درمیان علاقے کی سیر اور میل جول کی غرض سے گھر سے باہر جانا طے ہوتا ہے اور وہ ایک تانگے میں‌ سوار ہوجاتے ہیں۔ اس پارے میں آپ کو لکھنؤ کے عام لوگوں کی عادت اور ان کے اطوار کی ایک دل چسپ جھلک نظر آئے گی۔

    یہ گفتگو اس طرح شروع ہوتی ہے:

    آئیے گومتی کی ٹھنڈی سڑک سے ہوتے ہوئے رفاہِ عام اور گولہ گنج کے محلّوں کی سیر کرلیں۔

    تانگہ مل نہیں رہا، اکّا لے لیں۔ یہ دوپلی ٹوپی اب تک یہاں پہنی جاتی ہے؟ ہماری اور آپ کی طرح موٹی انگریزی ہیٹ نہیں‌ پہنتے۔

    ارے یہ دوپلی ٹوپی تو اکّے والے کی، تیز ہوا سے اڑی جاتی ہے۔ ہر دفعہ ہاتھ سے روکتا ہے۔ کہیں سچ مچ ہوا سے اڑ نہ جائے۔

    آپ سے کیا، آپ خاموش رہیے، نہیں‌ تو یہ اکّے والا ایسا جملہ چپکا دے گا کہ جنم جنم یاد رہے گا۔ یہ لکھنؤ ہے۔

    اجی چھوڑیے…..

    تو شوق فرمائیے، دل میں‌ حسرت کیوں رہ جائے۔

    بھیا اکّے والے، ایسی ٹوپی کیوں پہنتے ہو جو تیز ہوا سے اڑ جائے؟

    حضور، یہ غیرت دار ٹوپی ہے، ہوا کے اشارے سے اڑ جاتی ہے، آپ کی بے غیرت موٹی ہیٹ تھوڑی ہے کہ سو جوتے مارو پھر بھی وہیں وہیں جمی رہتی ہے……..

    ابے کمہار کے لونڈے، ذرا بچ کے، ابے ہٹ کے چل نہیں‌ تو چپاتی بن جائے گا۔

    سن لیا جواب آپ نے؟ منع کیا تھا کہ یہ لکھنؤ ہے۔ سمجھ بوچھ کے جملے بازی فرمائیے گا۔

    ایک بہت موٹے آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے اکّا رکوایا۔ کیوں کہ اکّے میں دو آدمی تھے۔ اور حکومت کی طرف سے تین آدمیوں کے بیٹھنے کی اجازت ہے۔ ذرا ہم کو بھی امین آباد چھوڑ دینا۔ بہت موٹے آدمی نے اکّے والے سے کہا۔

    اکّے والے نے معصوم بن کر جواب دیا: صرف تین آدمیوں کو بٹھانے کی اجازت ہے، چار کو نہیں۔

    موٹے صاحب ہنس کر کہنے لگے: دو بیٹھے ہیں، تیسرا میں ہوں، یہ چار کہاں سے ہوگئے؟ بھنگ پیے ہے کیا؟
    اکّے والے نے تیور بدل کر کہا: غلط فہمی میں‌ نہ پڑیے گا، آج ہی کسی لکڑی کی ٹھیکی پر اپنا وزن کرا لیجیے، ڈھائی گدھوں کے برابر نکلے گا آپ کا وزن حضور۔

    (معروف لکھاری آغا جانی کشمیری کی کتاب سے دل چسپ اقتباس)

  • ایک دن کے لیے شاپنگ ملتوی ہونے پر بھارتی خاتون نے خودکشی کرلی

    ایک دن کے لیے شاپنگ ملتوی ہونے پر بھارتی خاتون نے خودکشی کرلی

    نئی دہلی: بھارتی شہر لکھنؤ میں ایک خاتون نے اس وقت گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی جب ان کے شوہر نے شاپنگ پر جانے کا پروگرام ملتوی کر کے اسے روز کے لیے طے کرلیا۔

    لکھنؤ کے رہائشی دیپک دیودی کا کہنا ہے کہ اسے اپنی 23 سالہ بیوی دپیکا کو شاپنگ کے لیے لے جانا تھا لیکن آفس میں مصروفیت نکل آنے کے بعد اس نے یہ پروگرام ملتوی کر کے اسے اگلے روز پر رکھ دیا۔

    پولیس کے مطابق خاتون اس بات پر بے حد برواختہ ہوئیں اور انہوں نے خود کو کمرے میں بند کرلیا۔ شام کو انہوں نے اپنے شوہر کے لیے بھی کمرے کا دروازہ نہیں کھولا جس کی وجہ سے انہیں دوسرے کمرے میں سونا پڑا۔

    اگلے روز صبح کے وقت کئی بار دروازہ بجانے پر بھی جب خاتون نے دروازہ نہیں کھولا تو مجبوراً ان کے شوہر کو دروازہ توڑنا پڑا تب انہوں نے بیوی کی لاش چھت کے پنکھے سے لٹکتی ہوئی پائی جس کے بعد انہوں نے پولیس کو مطلع کیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کے اہلخانہ نے شوہر یا اس کے گھر والوں پر کوئی شک ظاہر نہیں کیا۔ خاتون کا پوسٹ مارٹم بھی کیا جارہا ہے جس کی رپورٹ جلد سامنے آجائے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بھارت: ٹرین میں پولیس اہلکار کی مسلمان خاتون سے بد سلوکی

    بھارت: ٹرین میں پولیس اہلکار کی مسلمان خاتون سے بد سلوکی

    لکھنؤ : بھارت میں ایک اور مسلمان لڑکی زیادتی کا نشانہ بن گئی۔ لکھنؤ سے چندی گڑھ جانے والی ٹرین میں پولیس اہلکار نے لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بناڈالا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں مسلمان خواتین کا گھر سے باہر نکلنا عذاب ہوگیا، مودی کے ترقی پذیر بھارت میں ایک اور گھناؤنا واقعہ پیش آیا۔ چلتی ٹرین میں مسلمان لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنادیا گیا۔

    زیادتی کرنے والا پولیس اہلکار نکلا، لکھنؤ سے چندی گڑھ جانے والی ٹرین میں ڈیوٹی پر موجود ایک پولیس اہلکار نے مسافر خاتون کے ساتھ بدسلوکی کی۔

    گارڈ نے پولیس اہلکار کو رنگے ہاتھوں پکڑا تو دیگر مسافروں نے پولیس اہلکار کی درگت بنادی۔ پولیس نے ملزم کو عوام کے نرغے سے نکال کر حوالات میں بند کردیا، مذکورہ مسلمان لڑکی کا تعلق میرٹھ سے ہے جسے اسپتال منتقل کردیا گیا۔


    مزید پڑھیں : بھارت: چارمسلم خواتین کے ساتھ زیادتی،مزاحمت پر ایک شخص قتل


    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں یو پی میں بھی گاڑی روک کر چار مسلمان خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور گھر کے سربراہ کو گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔