Tag: لیاقت علی خان

  • لیاقت علی خان:‌ وہ استقامت کا آدمی تھا!

    لیاقت علی خان:‌ وہ استقامت کا آدمی تھا!

    قائدِ ملت نواب گھرانے کے چشم و چراغ تھے، لیکن آپ کی ساری زندگی عیش و نشاط کے بجائے جہدِ مسلسل اور سادگی کا مرقع تھی۔

    علم و ادب کا ذوق و شوق والدین کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں خوب پروان چڑھتا رہا۔ 1923ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر کے قائدِ ملت نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ کی سیاسی بصیرت اور تدبر کے پیشِ نظر 1936ء میں قائدِ اعظم نے آپ کو سیکریٹری جنرل بنایا۔ قائدِ اعظم کے اس فیصلے پر کئی رہنماؤں نے اظہارِ حیرت کیا تو آپ نے فرمایا ” لیاقت علی خان ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے گراں قدر اثاثہ ہیں۔“ اور لیاقت علی خان نے بھی اپنے قائد کے اس قول کو حرزِ جاں بنالیا کہ ”مقصد سے عشق دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہے۔“ آپ قائدِ اعظم کے دستِ راست بنے سرگرمِ عمل رہے۔

    1943ء میں مسلم لیگ کراچی کے ایک اجلاس میں قائدِ اعظم نے فرمایا
    ”لیاقت علی خان میرا دایاں بازو ہیں۔ انہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں دن رات ایک کر کے کام کیا ہے اور شاید کسی کو اندازہ نہیں کہ انہوں نے کتنی بھاری ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے۔ وہ اگرچہ نواب زادہ ہیں لیکن عام انسانوں کی طرح کام کرتے ہیں مجھے امید ہے کہ دوسرے نواب بھی ان کی پیروی کریں گے۔“

    1945، 46ء کے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے مسلم لیگ کے امیدوار چننے کا کام قائدِ ملت کو سونپا گیا تو آپ کی سیاسی حکمتِ عملی نے یہاں بھی اپنا اثر دکھایا جس کے نتیجے میں مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی میں تیس تیس مسلم نشستیں حاصل کیں اور صوبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ 26 اکتوبر1946ء کو لیاقت علی خان ہندوستان کی عبوری حکومت کے فنانس ممبر ہو گئے۔ 28 فروری 1947ء کو چودھری محمد علی کے مشورے سے قائدِ ملت نے اپریل 1947ء سے مارچ 1948ء تک کے مالی سال کے لیے ایک بھاری ٹیکس کا بجٹ پیش کیا جو تاریخ میں ”غریب آدمی کا بجٹ“ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں نمک ٹیکس کے خاتمے سے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ایک لاکھ سے زائد کاروباری سالانہ آمدنی پچیس فیصد کے حساب سے انکم ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔ ہندو صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ تھا کہ وہ کروڑوں کما کر بھی حکومت کو بہت کم ٹیکس ادا کرتے تھے۔ سردار پٹیل نے مشتعل ہو کر ہاؤس کے اندر اور باہر مظاہرہ کی دھمکی دی تو قائدِ ملت نے کہا ”قانونی حد سے کوئی تجاوز نہیں کرسکتا۔“

    قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی فلاح و بقا کے لیے قائدِ ملت نے انتھک کوششیں کیں۔ 1950ء میں ہونے والا ”لیاقت نہرو معاہدہ“ تاریخی حیثیت کا حامل ہے جس میں قائدِ ملت نے اقلیتوں کے حقوق کا ذکر کر کے بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھ قانونی طور پر باندھ دیے۔ اس کے بعد امریکہ کے دورے میں امریکی عوام کے سامنے قائدِ ملت نے پاکستان اور اس کے مقاصد کی وضاحت کر کے ایک بار پھر اپنا لوہا منوا لیا۔ آپ کی خارجہ پالیسی غضب کی تھی۔ اسلامی اتحاد کے سلسلے میں پیہم کاوشیں کرتے رہے کہ اس کے سبب اقتصادی اور تمدنی ترقی کی رفتار تیز ہو سکے۔

    1951ء تک شام، ترکی، ایران اور انڈونیشیا سے اہم معاہدے ہو چکے تھے۔مصر، سعودی عرب اور یمن سے معاہدوں کے لیے پیش رفت جاری تھی، اگر قائدِ ملت شہید نہ ہوتے یہ معاہدے پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتے۔

    قائدِ ملت کے سیاسی تدبر اور پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کا عمل مسلسل جاری تھا۔ قائدِ ملت نے ایک پریس کانفرنس میں پوچھے جانے والے سوال ”پاکستان، بھارت کے مقابلے میں چھوٹا ملک ہے اس کے اثاثے بھارت نے روک رکھے ہیں۔ پاکستانی افواج کے دستے بیرونی ممالک سے پوری طرح پاکستان میں وارد نہیں ہوئے ان حالات میں وہ بھارت کا جنگی چیلنج کیسے قبول کریں گے؟“ کے جواب میں قائدِ ملت نے سکون سے کہا
    ”جنگ محض اسلحہ کی بہتات اور افواج کی کثرت کے اصولوں پر نہیں لڑی جاتی۔ یہ بات درست ہے کہ بھارت کے پاس زیادہ اسلحہ اور افواج موجود ہیں اس کے اقتصادی وسائل ہم سے کہیں زیادہ ہیں مگر جنگوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں جنگ میں سپاہی کا جذبہ اور ایمان لڑتا ہے۔ “

    27 جولائی 1951ء کو جہانگیر پارک میں دو لاکھ افراد کے عظیم الشان جلسۂ عام میں ایک بار پھر اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے قائدِ ملت نے اپنا مکا بلند کر کے کہا ”ہمارا نشان یہ ہے“ اخبارات میں کثیر تعداد میں لیاقت علی خان کا مکا دکھاتی تصویر چھپی۔

    قائدِ ملت پاکستان کے دفاع کے لیے اپنا عملی کردار ادا کرتے رہے۔ مہاجروں کی آباد کاری کے سلسلے میں آپ کی کاوشیں لائقِ ستائش ہیں۔ بی آربی نہر آپ کی دور اندیشی اور حکمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بی آر بی نہر قائدِ ملت کے حکم پر ہی تعمیر کی گئی، نہر کا معائنہ کر کے آپ نے حکم دیا کہ نہر کو اور زیادہ چوڑا کیا جائے کیونکہ ایک دن یہ نہر لاہور کا دفاع کرے گی۔ 1965 ء کی جنگ میں یہ پیش گوئی صد فیصد درست ثابت ہوئی۔نوابزادہ لیاقت علی خان کی بصیرت اور دور اندیشی نے نہ صرف لاہور بلکہ پاکستان کو بچایا۔ گویا خان لیاقت علی خان مدبر سیاستداں تھے۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنے ماتحتوں اور مختلف امور سے متعلق افراد سے آپ نے ایسے کام کروائے جس سے پاکستان کا استحکام اور مفاد وابستہ تھا۔

    14 اگست 1951ء کو جہانگیر پارک میں تقریر کرتے ہوئے قائدِ ملت نے فرمایا ”میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ملت کی اس محبت اور اعتماد کا حق کس طرح ادا کروں؟ میرے پاس دولت نہیں ہے، میرے پاس کوئی جائیداد نہیں ہے اور میں اس پر خوش ہوں کہ یہ چیزیں اکثر ایمان کی کمزوری کا باعث ہو جاتی ہیں۔ میرے پاس صرف زندگی ہے اور وہ بھی گزشتہ چار سال سے قوم کی نذر کر چکا ہوں۔ اس لیے میں صرف ایک وعدہ کر سکتا ہوں کہ اگر کبھی پاکستان کے دفاع اور اس کی آبرو کی خاطر قوم کو خون بہانا پڑا تو لیاقت کا خون اس کے ساتھ مل کر بہے گا۔“

    اس کے ٹھیک دو ماہ دو دن کے بعد 16 اکتوبر 1951ء کی سہ پہر راوالپنڈی کے کمپنی باغ میں قائدِ ملت تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو حاضرینِ جلسہ نے پاکستان زندہ باد، قائدِ اعظم زندہ باد، قائدِ ملت زندہ باد، مسلم لیگ زندہ باد کے نعرے لگائے۔ ابھی قائدِ ملت نے ابتدائی الفاظ ”برادرانِ اسلام“ ادا ہی کیے تھے کہ ایک بدبخت سید اکبر نے آپ کو گولی مار دی۔ تب قائدِ ملت کے سیاسی سیکریٹری نواب مہدی علی خان نے آپ کا سر اپنی گود میں لیا تو آپ نے کلمہ پڑھا۔ قائدِ ملت کے آخری الفاظ تھے”خدا پاکستان کی حفاظت کرے۔“

    قائدِ ملت نے اپنی زندگی پاکستان کے لیے وقف ہی نہیں کی بلکہ اس کی نذر کر دی۔

    بالآخر ہوئے اپنی ملت پہ قرباں
    بڑے آدمی تھے لیاقت علی خاں
    بڑے سخت، دشوار جو مرحلے تھے
    تدبر سے اپنے کیا ان کو آساں
    وہ رہبر ہمارے وہ قائد ہمارے
    لیاقت علی خاں، لیاقت علی خاں

    اس کڑے وقت میں جب قائدِ ملت جیسے زیرک اور مخلص رہنما کی وطنِ عزیز کو سب سے زیادہ ضرورت تھی آپ کو سازش کے تحت قتل کر دیا گیا ۔ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ اس سازش کو بے نقاب نہیں کیا گیا۔

    برسوں بیتے رئیسؔ امروہوی صاحب نے کہا تھا

    سازشِ قتلِ لیاقت ایک معمہ بن گئی
    وہ معمہ جس کا حل بے حد کٹھن بے حد شدید
    مسکرا اے خاکِ مقتل، فاش ہو اے رازِ قتل
    جاگ اے روحِ شہادت، بول اے روحِ شہید

    (تحریر: شائستہ زریں)

  • ”وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں…“

    حیدر آباد کے سقوط کے بعد حکومتِ پاکستان نے مجھے یقین دلایا تھا کہ حیدرآباد پر بھارت کے قبضے سے میرا سفارتی رتبہ اور حیثیت متاثر نہیں ہوگی اور تمام مراعات برقرار رہیں گی۔

    نواب زادہ لیاقت علی خاں کو حکومت کی اس یقین دہانی کا شدت سے احساس تھا اور جن دشوار حالات میں، میں اپنے مؤقف کو نباہ رہا تھا، وہ اس کی دل سے قدر کرتے تھے۔

    حیدر آباد کے سقوط کے بعد اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ریلوے نے مجھے ایک بڑے عہدے کی پیش کش کی۔ جب نواب زادہ صاحب کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا ”مشتاق! کیا تم اپنی ذمے داری سے دست بردار ہونا چاہتے ہو…؟“ میں نے جواب دیا ”میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے، جب تک حکومتِ پاکستان میرے اسنادِ تقرر کو تسلیم کرتی ہے، میرے لیے اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“

    میرے اس جواب پر لیاقت علی خاں نے خود ریلوے والوں سے کہہ کر ملازمت کی پیش کش واپس کرا دی۔ اس کے بعد وہ معمول سے بھی زیادہ میرا خیال کرنے لگے۔ اس کے برخلاف غلام محمد صاحب جن سے حیدر آباد کے معاملات میں مجھ سے براہِ راست تعلق تھا، کے روّیے سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ میں کسی نہ کسی طرح اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو جاؤں۔ چناں چہ انھوں نے خود ہی مجھے مرکزی سیکریٹریٹ میں عہدے کی پیش کش کرا دی، جسے میں نے نواب زادہ علی لیاقت علی خان سے پوچھے کے بغیر ہی مسترد کر دیا۔

    اس پر غلام محمد صاحب مجھ سے کئی دنوں تک بہت ناراض رہے۔ علاوہ ازیں بعض اعلیٰ عہدے داروں کے روّیے سے یہ تاثر ہونے لگا کہ وہ میری سفارتی پوزیشن کو کچھ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اب تک جہاں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ اب وہاں بے اعتنائی اور بے رخی برتی جانے لگی۔ بعض حضرات موقع محل دیکھے بغیر ایسی بات کہہ دیتے تھے، جس سے ان کے دل کی بات ظاہر ہو جاتی تھی۔ مثال کے طور پر ایک حیدر آبادی مہاجر کی شادی ایک وزیرِ مملکت کے گھرانے میں طے پائی۔ حیدر آباد کا نمائندہ ہونے کی بنا پر میں برات کا سربراہ تھا۔ جیسے ہی برات دلہن کے گھر داخل ہوئی، ایک بڑے افسر نے خواجہ ناظم الدّین صاحب کو، جو مہمان خصوصی تھے، مخاطب کر کے کہا ”لیجیے جناب اب حیدر آبادی ہماری لڑکیوں کو بھی لے جانے لگے۔“ مجھے یہ مذاق بھونڈا اور بے موقع معلوم ہوا اور میں نے جواباً عرض کیا ”مگر جنابِ عالی، وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں۔ کوئی باہر نہیں جائے گا۔“ مطلب یہ کہ آپ حیدر آبادیوں کے پاکستانی معاشرے میں ضم ہونے کو برا کیوں مناتے ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ شرمندہ ہوگیا اور خواجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اس جواب کو بہت سراہا۔

    ان حالات میں نواب زادہ صاحب کی شفقت اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی حمایت کے باوجود میں روز بروز یہ محسوس کرنے لگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ میرے مشن میں دل چسپی میں نمایاں کمی ہو رہی ہے اور جو مراعات مجھے شروع سے حاصل تھیں یا قاعدے کے مطابق یا انصاف کی رُو سے مجھے ملنی چاہیے تھیں، ان کے بارے میں ’احتیاط‘ برتی جانے لگی اور جو غلط استدلال میری اسناد کی پیش کشی کے وقت بروئے کار لایا گیا، وہ آہستہ آہستہ میری حاصل شدہ مراعات کو بھی متاثر کرنے لگا۔ مثلاً موٹر پر لگائی جانے والی پلیٹ کا ہی معاملہ تھا۔ میرا کہنا یہ تھا کہ جو سفارتی مراعات میرے ہم رتبہ سفیر کو نئی دہلی میں حاصل تھیں، جس میں پلیٹ کا امتیازی نشان بھی شامل تھا، مجھے بھی ملنی چاہییں، لیکن اس پر ٹال مٹول ہوتا رہا۔

    (نواب مشتاق احمد خان حیدر آباد دکن کے پاکستان میں پہلے اور آخری نمائندے تھے جن کی خود نوشت ’کاروانِ حیات‘ کے عنوان سے شایع ہوئی، یہ پارے اسی کتاب سے لیے گئے ہیں)

  • پہلے پاکستانی پاسپورٹ کی حامل شخصیت، تاریخِ اجرا اور اس کا نمبر!

    پہلے پاکستانی پاسپورٹ کی حامل شخصیت، تاریخِ اجرا اور اس کا نمبر!

    قیامِ پاکستان کے بعد ملک کے نظم و نسق، سرکاری امور نمٹانے اور دنیا میں اپنی پہچان اور شناخت بنانے کی غرض سے قومی نشانات، علامتوں اور ضروری دستاویزات کی ضرورت تھی۔ نوزائیدہ مملکت کی وزارتِ خارجہ نے ایک موقع پر مشرقِ وسطیٰ کا سرکاری دورہ کرنا چاہا تو پاسپورٹ کا معاملہ بھی سامنے آیا۔

    اس وقت برطانیہ سےایک غیر رسمی معاہدے کے تحت ہر نئے پاسپورٹ پر برطانوی شہری لکھنے کا اختیار دیا گیا تھا، لیکن اس دور کے نہایت قابل افسر محمد اسد نے وزارت خارجہ سے کہا کہ یہ پاکستان کا سرکاری دورہ ہے جس میں پاسپورٹ کسی دوسرے ملک کا ہو گا تو دیکھنے والا کیا سمجھے گا؟

    اس وقت تک حکومت نے پاسپورٹ بنانے کا سلسلہ شروع نہیں کیا تھا اور محمد اسد کے لیے پاسپورٹ پر کبھی برطانوی یا آسٹرین لکھنے کی بحث جاری تھی، کیوں کہ وہ آسٹریا کے باشندے تھے۔

    اس بابت انھوں نے اپنی خود نوشت میں لکھا، میں بے سَر و پا باتیں سن سن کر تنگ آگیا۔ بالآخر میں نے وزیراعظم کے ذاتی معاون کو فون کیا اور ان سے عرض کیا کہ براہِ مہربانی وزیراعظم سے میری فوری ملاقات کرا دیجیے۔ کچھ دیر بعد میں لیاقت علی خان کے دفتر پہنچا اور اپنی مشکل بتائی۔

    انھوں نے اپنے سیکرٹری کو کہا کہ فوراً پاسپورٹ افسر کو بلائیں۔ جونہی وہ کمرے میں داخل ہوا وزیراعظم نے انھیں جلد پاسپورٹ بنانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی کہا کہ اس پر ’’پاکستانی شہری‘‘ کی مہر ثبت کرے۔

    اس طرح مجھے پہلا پاسپورٹ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جس پر ’’پاکستانی شہری‘‘ لکھا گیا تھا۔

    یہ پاسپورٹ 15 ستمبر 1947 کو جاری ہوا جس کا نمبر 000001 تھا۔

    پاکستان کے پہلے پاسپورٹ کی جلد کا رنگ ہلکا بادامی اور اس کا جزوی حصّہ سبز تھا۔

    اس پر تین زبانوں انگریزی، بنگالی اور اردو میں ‘‘پاکستان پاسپورٹ’’ لکھا تھا۔ واضح‌ رہے کہ یہ متحدہ پاکستان کی سرکار کے دور کی سفری دستاویز تھی.

    علامہ محمد اسد کا نام آج بھی نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ پہلے پاکستانی پاسپورٹ کے حامل اور پاک سعودی عرب تعلقات کی بنیاد رکھنے والے سرکاری افسر تھے۔ وہ پیدائشی یہودی تھے، لیکن اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا تو جیسے ان کی دنیا ہی بدل گئی، وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں اہم ترین سرکاری عہدوں پر وطنِ عزیز اور اپنے دین کے لیے خدمات انجام دیں۔ ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ ان کی شہرہ آفاق تصنیف ہے۔

  • شہید ملت لیاقت علی خان کی 68 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

    شہید ملت لیاقت علی خان کی 68 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

    کراچی : پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ملت خان لیاقت علی خان کی 68 ویں برسی آج منائی جارہی ہے، ان کے قتل کا معمہ آج تک حل نہ ہوسکا۔

    آج سولہ اکتوبر کا وہ افسوسناک دن ہے، جب ملک کے پہلے وزیرِاعظم کوقتل کر دیا گیا مگر اب تک عوام اس قتل کے محرکات سے لاعلم ہیں۔

    لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1896میں مشرقی پنجاب کے ضلع کرنال میں پیدا ہوئے اور 1918 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے برطانیہ چلے گئے۔

    1922 میں انگلینڈ بار میں شمولیت اختیار کی اور 1923 میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے، 1936 میں آپ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بنے، آپ قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست تھے۔

    پاکستان کے قیام میں نوابزادہ لیاقت علی خان کا کردار سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ، 1933 میں بیگم رعنا لیاقت علی خان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے، قائد ملت لیاقت علی خان برٹش حکومت کی عبوری حکومت کے پہلے وزیرِ خزانہ بھی منتخب ہوئے۔

    انیس سو اڑتالیس میں قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد لیاقت علی خان ملک کے پہلے وزیرِاعظم کے طور پر قوم کے نگہبان بنے۔

    لیاقت علی خان کو سولہ اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں اس وقت شہید کر دیا گیا تھا جب وہ کمپنی باغ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیلئے ڈائس پر پہنچے اور اس دوران سید اکبر نامی شخص نے ان پر ریوالور سے گولیاں برسانا شروع کردیں، وزیرِاعظم کو فوری فوجی ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ شہید قرار دے دیئے گئے۔

    ان کے آخری الفاظ تھے “خدا پاکستان کی حفاظت کرے‘‘۔

    شہیدِ ملت لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کو پولیس کے ایک سب انسپکٹر محمد شاہ نے گولیوں سے اڑا دیا اور یوں شہید ملت کے قتل کا راز ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا۔

    لیاقت علی کان کو سترہ اکتوبر1951 کو قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کے احاطے میں دفن کردیا گیا اور اس عظیم رہنما کی یاد میں راولپنڈی کے کمپنی باغ کو ’’لیاقت باغ‘‘ کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔

  • شہیدِ ملت لیاقت علی خان کا یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے

    شہیدِ ملت لیاقت علی خان کا یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے

    کراچی: پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم شہید ملت لیاقت علی خان کا 124واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے۔

    یکم اکتوبر اٹھارہ سو پچانوے کو بھارتی پنجاب کے گاؤں کرنال میں پیدا ہونے والے نوابزادہ لیاقت علی خان نے ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی، لیاقت علی خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے برطانیہ چلے گئے۔

    سن 1923 میں ہندوستان واپس آتے ہی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی، لیاقت علی خان اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث جلد ہی قائداعظم کے قریب ہوگئے اور تحریک پاکستان کے دوران ہر اہم سیاسی معاملے میں قائداعظم کی معاونت کی۔

    انیس سو تینتیس میں بیگم رعنا لیاقت علی خان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے، قائد ملت لیاقت علی خان برٹش حکومت کی عبوری حکومت کے پہلے وزیرِ خزانہ بھی منتخب ہوئے، قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمدعلی جناح نے انہیں ملک کا پہلا وزیراعظم نامزد کیا، جس پر قائد کے انتخاب کو درست ثابت کرنے کے لیے انہوں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن مملکت خداداد پاکستان کے خلاف سازشیں ابتدا میں ہی شروع ہو گئی تھیں۔

    لیاقت علی خان کو سولہ اکتوبر انیس سو اکیاون کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران خطاب کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔

    پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ واقعہ انیس سو اکیاون کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ایک جلسہ عام میں اس وقت پیش آیا، جب لیاقت علی خان خطاب کے لیے ڈائس پر پہنچے،اس دوران سید اکبر نامی شخص نے ان پر ریوالور سے گولیاں برسانا شروع کردیں،ان کے آخری الفاظ تھے “خدا پاکستان کی حفاظت کرے‘‘، شہیدِ ملت لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کو پولیس نے گولیوں سے اڑا دیا۔

    اس عظیم رہنما کی یاد میں راولپنڈی کے کمپنی باغ کو ’’لیاقت باغ‘‘ کے نام سے منسوب کر دیا گیا، لیاقت علی خان کو کراچی میں مزار قائد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔

  • جعلی اکاؤنٹس کیس میں اہم پیش رفت، سابق ڈی جی پارکس گرفتار

    جعلی اکاؤنٹس کیس میں اہم پیش رفت، سابق ڈی جی پارکس گرفتار

    کراچی: جعلی اکاؤنٹس کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، سابق ڈی جی پارکس لیاقت علی خان کو گرفتارکر لیا گیا.

    نیب ذرایع کے مطابق جعلی اکاؤنٹس کیس میں باغ ابن قاسم میں غیرقانونی پلاٹ کی الاٹمنٹ کی تفتیش جاری تھی.

    [bs-quote quote=”لیاقت علی خان پرڈی جی پارکس کے طورپرجعلی ٹھیکے دینے کا الزام ہے” style=”style-8″ align=”left” author_name=”نیب ذرائع”][/bs-quote]

    اس ضمن میں ابق ڈی جی پارکس کی گرفتاری عمل میں‌ آئی، لیاقت علی خان کوپی ای سی ایچ ایس سوسائٹی سے گرفتار کیا گیا.

    لیاقت علی خان پرڈی جی پارکس کے طورپرجعلی ٹھیکے دینے کا الزام ہے، وہ پیپلز پارٹی کے دور میں اس عہدے پر فائز ہوئے.

    مزید پڑھیں: خورشید شاہ پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام، تفصیلات منظرعام پر آگئیں

    خیال رہے کہ آمدن سے زاید اثاثہ جات کیس میں کارروائی کرتے ہوئے آج نیب نے پی پی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کو گرفتار کر لیا ہے.

    نیب سکھراور راولپنڈی کی مشترکہ کارروائی میں سابق اپوزیشن لیڈر گرفتار کیا گیا، 30 اگست 2019 کو نیب نے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ سے اثاثوں کی تفصیلات طلب کی تھیں.