Tag: لینڈ سلائڈنگ

  • سوڈان میں لینڈ سلائیڈنگ سے بڑی تباہی، 1000 سے زائد جان سے گئے

    سوڈان میں لینڈ سلائیڈنگ سے بڑی تباہی، 1000 سے زائد جان سے گئے

    افریقی ملک سوڈان میں لینڈ سلائڈنگ سے بڑے پیمانے پر تباہی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، سوڈان لبریشن موومنٹ نے اطلاع دی ہے کہ لینڈ سلائڈنگ سے کم سے کم 1000 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مغربی سوڈان کے ماررا پہاڑی علاقے میں پورا گاؤں تباہ ہوگیا، یہ گاؤں دارفور کے علاقے میں آتا ہے، صرف ایک بچہ معجزاتی طور پر زندہ بچ سکا۔

    رپورٹس کے مطابق عبدالواحد محمد نور کی قیادت والے گروپ نے اپنے ایک بیان میں اطلاع دیتے وہئے کہا ہے کہ شدید بارشوں کے باعث لینڈ سلائڈ کا واقعہ پیش آیا، جس نے ایک پورے گاؤں کو صفحہ ہستی سے ملیا میٹ کردیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق دارفور کے علاقے پر تحریک کار گروپ کا کنٹرول ہے، اس گروپ نے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں سے امداد کی اپیل کی ہے، ہزاروں مرنے والوں میں مرد، خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

    ایس ایل ایم کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ بہت سے افراد کی لاشیں ملبے میں دبی ہیں اور انہیں نکالنے کے لیے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کی مدد درکار ہے۔

    واضح رہے کہ سوڈان میں پہلے سے ہی جنگ کا ماحول ہے، عوام جنگ سے پیدا حالات سے نپٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، اس قدرتی آفت نے انہیں اپنی زد میں لے لیا ہے۔

    غزہ میں اسرائیلی ظلم کی انتہاء، 100 سے زائد فلسطینی شہید

    رپورٹس کے مطابق متاثرہ افراد فاقہ کشی کا شکار ہورہے ہیں، سوڈانی آرمی اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے درمیان خانہ جنگی کی صورتحال ہے، جنگ سے دارفور علاقہ پہلے سے ہی متاثر ہے۔

  • بونیر سیلاب: اے آر وائی کی ٹیم کس طرح مشکل حالات میں متأثرین کی آواز بنی

    بونیر سیلاب: اے آر وائی کی ٹیم کس طرح مشکل حالات میں متأثرین کی آواز بنی

    یہ جمعہ پندرہ اگست دو ہزار پچیس کی دوپہر کا وقت تھا۔ میں اپنے اے آر وائے نیوز پشاور بیورو میں موجود تھا اور صبح سے خیبر پختونخوا کے شمالی علاقہ جات کے اضلاع، شانگلہ، سوات، دیر، باجوڑ، بٹ گرام، مانسہرہ، چترال اور بونیر میں شدید بارشوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کی لمحہ بہ لمحہ تفصیلات آرہی تھیں اور جب کوئی ایسی غیر معمولی صورتحال جنم لیتی ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ابتدائی ویڈیو یا تصاویر موبائل سے بنا کر واٹس ایپ سے شیئر کر دی جائیں اور جہاں ممکن ہو وہاں فوراً لائیو کوریج کے لئے سیٹیلائٹ لنک سے جوڑنے والی گاڑی جس پر ڈش لگی ہوتی ہے اسے روانہ کیا جائے عرف عام میں ہم اس کو ڈائرکٹ سٹیلائیٹ نیوز گیدرنگ ( ڈی ایس این جی ) گاڑی پکارتے ہیں اور اس گاڑی میں بیٹھے ڈرائیور کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کو ایمبولینس کا ہوٹر لگا کر پہنچائے کیونکہ فوراً سے پیشتر پہنچ کر لائیو کوریج شروع کرنے کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔

    یقیناً یہ ایک خطرناک عمل ہوتا ہے لیکن ہر چینل چاہتا ہے کہ وہ اپنے ناظرین تک کیمرے کی آنکھ سے تازہ صورتحال سب سے پہلے بتائے۔ خیر یہ تو لائیو کوریج کی بات ہوگئی تو اسی تناظر میں ہم نے اپنے بیورو میں میٹنگ کی اور حالات کا جائزہ لیا۔ پہلا خیال تھا کہ باجوڑ جایا جائے لیکن ہمارے ساتھی ظفر اللہ نے بتایا وہاں اب سیلابی صورتحال کنٹرول میں ہے اور دوسرا سیکیورٹی نقطۂ نظر سے یہاں حالات بہتر نہیں کیونکہ سیلاب سے قبل شرپسند عناصر کے خلاف آپریشن چل رہا تھا اور ماموند تحصیل میں کچھ گاؤں سے نقل مکانی بھی ہوئی تھی۔ پھر پتہ چلا کہ بونیر اور سوات میں سیلابی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے تو فیصلہ ہوا کہ اسلام آباد بیورو سے رابطہ کرکے وہاں کی ایک ڈی ایس این جی سوات جہاں ہمارے ساتھی شہزاد عالم اور کیمرہ میں کامران کوریج کررہے تھے انکو بھیجی جائے جبکہ پشاور کی دو ڈی ایس این جیز میں ایک بونیر لے جانا کا فیصلہ ہوا۔ جہاں ہمارے ساتھی شوکت علی بھر پور کوریج کر کے پل پل کی خبر دے رہے تھے۔

    بونیر روانگی

    بونیر جانے والی ڈی ایس این جی میں راقمِ حروف اپنے کیمرہ مین ارشد خان، ڈی ایس این جی آپریٹر لئیق اور ڈرائیور رؤف کے ساتھ روانہ ہوا۔ چونکہ ہنگامی صورتحال تھی تو بیورو میں موجود، اسائنمٹ ایڈیٹر وقار احمد، رپورٹر ظفر اقبال، عدنان طارق، نواب شیر، عثمان علی، شازیہ نثار اور مدیحہ سنبل کو پشاور میں سیلاب کی صورتحال اور حکومتی اقدامات پر نظر رکھنے کی ہدایت دی جبکہ عدنان طارق کو ریسکیو کے ہیڈ کوارٹر بھیج دیا جہاں وزیر اعلیٰ کے پی علی امین کی ہدایت پر آپریشن روم بن چکا تھا۔ ہم نے پشاور میں جو انتطامات کئے تھے اس حوالے سے کراچی ہیڈ آفس میں صدر اے آر وائی نیوز عماد یوسف اور سینئر اسائنمنٹ ایڈیٹر فیاض منگی کو بھی آگاہ کیا۔ اس دوران ہم دن دو بجے پشاور سے نکلے تو کراچی سنٹرل ڈیسک سے فون موصول ہوا کہ چھ بجے آپکا بونیر سے لائیو بیپر ہوگا۔ کیونکہ میں نے انکو بتایا تھا کہ ہم چار گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔ جب ہم پشاور سے نکلے تو موسم ابر آلود تھا اور ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ پتہ چلا خیبر پختونخواحکومت نے امدادی کاموں میں حصہ لینے کے لئے زمینی اور فضائی ٹیمیں روانہ کردی ہیں اور فضائی ریسکیو کے لئے دو ہیلی کاپٹر استعمال میں لائے جا رہے ہیں لیکن ان میں ایک ہیلی کاپٹر لاپتہ ہوگیا ہے اب یہ خبر جب ملی تو مصدقہ نہیں تھی اور میری کوشش تھی کہ اسکی تصدیق ہوسکے جس کے لئے جہاں نے میں پشاور کی ٹیم کو متحرک کیا وہیں باجوڑ میں ظفر اللہ اور مہمند میں اپنے ساتھی فوزی خان سے رابطہ کیا ۔ فوزی خان نے واقعہ کے رونما ہونے کے بارے میں بتایا لیکن تصدیق نہیں کرسکا۔ میرے لئے مسئلہ یہ تھا کہ ایک تو میں بونیر کے راستے میں تھا اور موسم خراب ہونے کی وجہ سے موبائیل سگنل بھی نہیں مل رہے تھے اس دوران میرا رابطہ کچھ ذمہ دار حکام سے ہوگیا جنہوں نے پہلے لاپتہ ہونے کی تصدیق کردی تو میں نے فیاض منگی کو بتایا اور انہوں نے خبر اے ار وائے نیوز پر بریک کروا کے میرا بیپر لے لیا اور اس دوران وزیراعلیٰ علی امین کا بیان بھی آگیا کہ ہیلی کاپٹر کریش ہوگیا ہے جس میں پائلٹ سمیت پانچ افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اس خبر کو کور کرتے کرتے ہم سوات موٹر وے کے راستے کاٹلنگ مردان سے ہوتے ہوئے بونیر پہنچ گئے۔

    بونیر کا ماحول اور ڈگر ہسپتال کی صورتحال

    جب بونیر میں داخل ہوئے تو پہلا گاؤں کنگر گلی تھا لیکن وہاں زندگی معمول پر تھی حالانکہ اس وقت تک صرف بونیر میں سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ چکی تھی۔ ادھر سے ہم تیزی سے بونیر کے صدر مقام ڈگر کو روانہ ہوئے جہاں ضلعی ہسپتال تھا۔ وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ اے آر وائے نیوز پہلا چینل ہے جس کی ڈی ایس این جی پہنچی ہے۔ یہاں ایک افراتفری والا ماحول تھا، ایمرجنسی ہوٹر والی گاڑیوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا ۔ وہیں ہم نے ہسپتال کے باہر ڈی ایس این جی سے سٹیلائیٹ رابطہ کرکے ہسپتال کے اندر اور باہر کی فوٹیجز بھیجیں اور ساتھ لائیو تبصرہ بھی دیا ۔ میرے ساتھ ہمارے ساتھی شوکت علی بھی لائیو تھے جنہوں نے بتایا کہ بونیر کے اہم علاقے جو سیلاب سے متاثر ہوئے ان میں پیر بابا بازار، بیشنوئی،قدر نگر اور حصار تنگی ہیں ۔ ابھی ہم لائیو تبصرہ دے رہے تھے کہ اس دوران پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر جو بونیر سے ممبر قومی اسمبلی بھی ہیں پہنچ گئے اور ہمارے ساتھ گفتگو کی جو آن ائیر تھی ۔

    پیر بابا کا سفر اور سیلاب سے متاثرہ خاندان سے ملاقات
    یہاں سے ہم پیر بابا بازار کے لئے روانہ ہوئے تو مجھے ساتھی نے بتایا کہ سیلاب نے بجلی کے نظام کو شدید متاثر کیا ہے ۔ کھمبے زمین سے اکھڑ چکے ہیں ،تاریں سڑکوں پر گری ہوئی ہیں اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے موبائیل فون بھی کام نہیں کررہے ۔ ہم اپنے ساتھ احتیاطاً سٹیلائیٹ فون لے کر گئے تھے لیکن اس کے ذریعے بھی رابطہ مشکل سے ہو رہا تھا اس لئے ہم نے ہیڈ آفس سے ڈی ایس این جی کے لئے فکس پیرامیٹر لئے کہ اگر رابطہ نہ ہو تو ہم چینل کو فوٹیجز اور ریکارڈڈ تبصرہ یا انٹرویو بھیجتے رہیں جو کہ کامیاب تجربہ رہا ۔ کیونکہ جب ڈگر سے پیر بابا کے لئے روانہ ہوئے تو سلطان وس تک موبائل سگنل تھے اس وقت تک رات کی تاریکی شروع ہوچکی تھی اور یہیں میں نے گاڑی روکی تو سیلاب سے تباہ حال ایک غریب مزدور کا مکان نظر آیا جو پہلے ہی کچا تھا میں نے میری وہاں گھر کے چند مرد حضرات سے ملاقات کی جو کیچڑ سے لت پت تھے اور پاوں میں جوتے بھی نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا سیلابی پانی اچانک آیا اور بس انکو اتنا موقع ملا کہ خواتین کو گھر سے نکال سکیں باقی زیادہ تر جمع پونجی پانی کی نذر ہوگئی اور وہ یہاں اس لئے موجود ہیں جو بچ گیا ہے اسکی حفاطت کرسکیں۔

    اس موقع پر میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ صبح سے بھوکے پیاسے ہیں کیونکہ سیلاب نے کنویں اور ہینڈ پمپ کے پانی کو بھی متاثر کیا ہے ۔یہ گھر پیر بابا بازار کے راستے میں آتا تھا اور اس وقت ریسکیو اہلکار ایمبولینس کے ذریعے مردہ و زخمی افراد کو ہسپتال پہنچا رہے تھے ۔ جب میں نے اس شخص کے ساتھ لائیو تبصرہ شروع کیا تو چند مقامی رہنما کیمرے کو دیکھ کر رک گئے تاکہ انٹرویو دے سکیں لیکن میں انکو آن ایئر شرم دلائی کہ آپکے علاقے کا یہ شخص اپنی مدد آپ کے تحت گھر سے سامان نکال رہاہے کم از کم اس کی مدد نہیں کرسکتے تو کھانے یا پانی کا بندوبست کر دیں تو انکا جواب تھا پیر بابا بازار میں بہت تباہی ہوئی ہے آپ وہاں جائیں ۔ اس دوران لائیو شو میں ہمارے چینل نے وزیر اعلیٰ کے ترجمان فراز مغل سے بھی رابطہ کیا اور انکو بتایا کہ ابھی تک حکومتی امداد نہیں پہنچ سکی جبکہ انہوں نے وضاحت دی کہ ریسکیو ۱۱۲۲کے اہلکار اور ایمبولینس پہنچ چکی ہے بلکہ آرمی اور صوبائی حکومت کا ایک ہیلی کاپٹر بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے ۔

    پیر بابا بازار کی رات کا منظر

    خیر ہم وہاں سے جب پیر بابا بازار کی طرف روانہ ہوئے تو آسمان پر اندھیرا چھا چکا تھا اور زمین کی بھی یہی صورتحال تھی کیونکہ ہم نے راستہ میں دیکھا جہاں کھڑی فصلیں ، جنگل تباہی کا منظر پیش کررہے تھے وہیں بڑی تعداد میں درخت، بجلی کی تاریں اور کھمبے گرے ہوئے تھے جسکی وجہ سے پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی نے نہ صرف بونیر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں بلکہ سواتاور شانگلہ میں بھی بجلی منقطع کردی تھی ۔ بہرحال ہم آگے بڑھے تو پیر بازار جہاں جنرل سٹور، کھانے پینے ، مٹھائی ، کپڑے ، الیکٹرانکس، ورکشاپس۔ پیربابا مزار سے متصل سوغات سے بھری سو سے زائد دکانیں تھیں وہ سامان سمیت تباہی کا منظر پیش کررہی تھیں ۔ راستے بند تھے ہر طرف کیچڑ نظر آرہا تھا ، گھر، دکانیں، گیراج، کاروباری عمارتیں سیلابی پانی اور اس میں آنے والی ریت سے بھر چکی تھیں ۔ جو گاڑی سیلاب سے پہلے زمین پر کھڑی تھی وہ یا تو سیلابی پانی کی نذر ہو گئی یا عمارتوں کی چھتوں پر پہنچ گئی تھیں جو افراد سیلاب سے بچ گئے تھے وہ بے بسی اور صدمے میں ڈوبے ہوئے تھے کیونکہ کسی کا گھر تباہ تھا تو کسی کے پیارے سیلابی پانی کی وجہ سے لاپتہ یا جاں بحق ہوگئے تھے ۔ جس سے بھی ملتا وہ یہی کہتا کہ سیلاب کی توقع نہیں تھی اور وہ بھی اتنا شدید جسکی ماضی میں کم ہی مثال ملتی ہے ۔ سب کچھ آناً فاناً ہوااور ہر طرف ایک افراتفری کا عالم تھا۔ ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ اپنے آپ اور پیاروں کو بچائے ۔ مقامی افراد کے مطابق چونکہ یہ سب کچھ اچانک ہوا اس لئے امدادی ادارے موجود نہیں تھے اور امدادی سرگرمیاں بھی سیلاب کے کچھ گھنٹوں بعد شروع ہوئیں ۔ چونکہ رات گہری ہوگئی تھی تو ہم نے کوریج کو روکا اور صبح کا انتظار کرنے لگے اور نزدیک درگاہ شلبانڈی شریف تھی تو وہاں قیام کیا وہاں ہماری بہترین مہان نوازی کی گئی ۔

    پیر بابا بازار کا سیلاب کے دوسرے دن صبح کا منظر

    سیلاب کے دوسرے دن صبح ہم ڈگر سے متصل دیہات گئے جہاں ہم نے سیلاب سے منہدم اور بہہ جانے رابطہ پل دیکھے اور جب پیر بابا پہنچے تو سڑک سے کیچڑ ہٹانے کے لئے ضلعی انتظامیہ کی گاڑیاں پہنچ چکی تھیں لیکن بڑی تعداد میں عوام پیدل ، موٹر سائیکل اور گاڑیوں پر جائے وقوعہ کی طرف رواں دواں تھے ان میں اجتماعی نمازہ جنازہ میں شرکت کرنیوالے ،رضاکار ، سرکاری حکومتی ،منتخب ممبران پارلیمنٹ ، سیاسی شخصیات میڈیا سے وابستہ افراد اور عام شہری شامل تھے ۔ کچھ تو ایسے تھے جو تماش بین تھے جس کے باعث روڈ پر جہاں صفائی کا کام جاری تھا گاڑیوں کی آمد سے بلاک ہورہا تھا اور امدادی کاموں اور ایمبولینس کی آمدورفت میں خلل پڑ رہا تھا ۔پیر بابا بازار ہر قدم پر ایک نئی کہانی تھی راستے دریا برد ہوچکے تھے ہم کیچڑ اور سیلابی پانی سے پیدل گزر کر کوریج کررہے تھے اور اس دوران ایک پرائیویٹ سکول پہنچے جہاں اساتذہ نے جب اچانک سیلاب آیا تو مختلف کلاس روم میں موجود پرائمری تا مڈل کے ڈھائی سو بچوں کو بچایا ۔ اسکی ہم نے کوریج کی جو اے آر وائے نیوز پر ایکسلوسیو چلی ہے

    قدر نگر اور بیشنوئی کا منظر

    پیر بابا سے آگے ہم قدر نگر اور بیشنوئی گئے جہاں سب زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا جو اے آر وائے نیوز نے مختلف زاویوں سے کور کیا اور اپنے ناظرین کو بھی اس سے آگاہ کیا، یہ سر سبز جاذب نظر پہاڑی علاقے ہیں اور الم کا پہاڑی علاقہ بھی اس کے قریب ہے جہاں اکثر سیکیورٹی فورسز کلئیرنس آپریشن بھی کرتی رہتی ہیں۔ یہاں تو پورے کے پورے گاوں زمین بوس ہوچکے تھے ، رابطہ پل ٹوٹ چکے تھے لیکن حکومت نے فوری ایکشن لیتے ہوئے عارضی راستہ بنایا۔ یہاں نقصان کی وجہ یہ بتائی جارہی تھی کہ پہاڑوں پر شراٹے دار بارش کا پانی گرا تو اس نے پہاڑوں کی نرم زمین کو چیرنا شروع کیا تو اس میں سے مٹی ،ریت بھی آبادی کی طرف بہنا شروع ہوگئی جسکی وجہ سے بڑے دیو ہیکل پتھر وہ بھی تیزی سے نیچے لڑکھتے ہوئے آبادی پر گرنا شروع ہوگئے اور چونکہ سر سبز ہونے کے باوجود یہاں درختوں کی انتہائی محدود تعداد تھی تو پانی ریت پتھر اور مٹی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکے۔ اس علاقے کی آبادی کا رہن سہن کا اپنا طریقہ ہے ۔ چونکہ یہاں وسائل کم ہوتے ہیں گزر بسر مقامی کھیتی باڑی ،جنگل سے لکڑی کاٹ کر اسکا ایندھن کے طور پر استعمال ہے اور گھر کشادہ اور منزل بہ منزل ہوتے ہیں تو ایک ایک گھر میں پچیس تا تیس افراد رہائش پذیر ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب تیز سیلابی پانی جو اپنے ساتھ پانی ،بجری، ریت اور پتھر لایا وہ اس آبادی سے ٹکرایا تو جہاں بڑی تعداد میں مکانات زمین بوس ہوئے اور ملبہ کا ڈھیر بن گئے وہیں ان میں موجود آبادی کی بھی بڑی تعداد میں اموات ہوئیں اور پھر ہر گھر کی اپنی کہانی تھی ۔ ان میں کچھ تو ایسے بھی تھے جنکے خاندان کا کوئی فرد نہیں بچا اور وہ ملبے کے ڈھیر تلے دب گئے اور کچھ کو سیلابی پانی بہا کر لے گیا پھر ان میں سے جن کی لاشیں ملیں وہ اکثر مسخ شدہ تھیں کہ شناخت بھی مشکل تھی اور جب امدادی سرگرمیاں شروع ہوئی تو وہ سست تھیں کیونکہ حکام کا بتانا تھا کہ وہ ملبے کو فورا ًبھاری مشینری سے ہٹانے سے گریزاں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کوئی زندہ ہو تو بھاری مشین سے اس کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے ۔ تاہم جب یقین ہوگیا کہ یہاں کوئی زندہ نہیں بچا تو پھر بھاری مشین استعمال کی گئی ۔

    عوام کے تاثرات

    ان علاقوں میں جن افراد سے ملاقات ہوئی ان کا ایک لفظ تھا کہ بس قدرتی آفت تھی تاہم زیادہ تر امدادی کاموں سے خوش تھے اور کچھ کی یہ شکایت تھی کہ رضاکار ،خیراتی ادارے و امدادی ادارے بڑی تعداد میں ان علاقوں کی طرف جارہے ہیں جہاں تباہی زیادہ ہوئی ہے اور کم تباہی والوں کو امداد کے حوالے سے کم توجہ مل رہی ہے حالانکہ نقصان انکا بھی ہوا ہے ۔وہ اپنے برباد گھروں کے دوباری اباد کاری پر پریشان نظر ارہے تھے کیونکہ انکی جمع پونجی سب سیلاب کی نظر ہوچکی تھی ۔کچھ ایسے بھی ملے جنکی بچیوں کی شادی ہونے تھی تو زیور اور دیگر سامان بھی نہیں رہا ۔ ہم نے یہ بھی محسوس کیا ایک طرف اتنی زیادہ خوراک تھی کہ ضائع ہورہی تھی اور دوسری طرف لوگ خوراک کے لئے بھاگ رہے ہوتے تھے ۔ جب کبھی ایسی صورتحال ہوتی تو تماش بین بھی بڑی تعداد میں پہنچ جاتے ہیں جسکی وجہ سے روڈ بلاک ہو جاتے ہیں اور امدادی سرگرمیوں میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں ۔ اس واقعے کو سات روز ہوچکے ہیں لیکن اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب بھی ملبہ ہٹایا جارہا ہے ۔ آخری موصولہ اطلاع کے مطابق صوبہ بھر میں 393 افراد جاں بحق، 423 مکان اور 50 سکول مکمل تباہ، 1288 گھر اور 216 سکول جزوی تباہ ہوئے ہیں۔

    خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ریسکیو کاررائیوں کے بعد اب متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو کے کام کا آغاز ہوچکا ہے اور متاثرہ افراد کو امدادی چیکس بھی حوالے کر دیے گئے ہیں۔

    اس المناک سانحے اور قدرتی آفت کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کرنیوالے سٹاف کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی جنہوں نے دن رات ایک کرکے ناظرین تک اصل حقائق پہنچائے میں بطور بیوروچیف خیبرپختونخوا تمام سٹاف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جن میں رپورٹرز ظفر اقبال، شازیہ نثار، نواب شیر،عدنان طارق،مدیہہ سنبل نمائندہ بونیر سید شوکت علی، نمائندہ بونیر ریاض خان، نمائندہ سوات شہزادعالم و کامران ، نمائندہ شانگلہ سرفراز خان، نمائندہ باجوڑ ظفر اللہ بنوری، نمائندہ مانسہرہ طاہر شہزاد، نمائندہ اپردیر جمیل روغانی، نمائندہ لوئر دیر حنیف اللہ، نمائندہ بٹگرام نورالحق ہاشمی، کیمرہ مین ، ارشد خان، حیات خان، ارسلان جنید، واحد خان۔ عدیل اور محمد شکیل، ڈی ایس این جی انجینئرز طائفل نوید ۔روح اللہ ،لئیق علی شاہ، شکور، سجاد۔ ڈرائیورز محمد رؤف، عرفان، عظمت ۔آصف اور ہیلپر ہارون شامل ہیں۔

  • ویڈیو: لینڈ سلائڈنگ کے باعث تین منزلہ عمارت پلک جھپکتے میں زمیں بوس

    ویڈیو: لینڈ سلائڈنگ کے باعث تین منزلہ عمارت پلک جھپکتے میں زمیں بوس

    نئی دہلی: اترا کھنڈ میں لینڈ سلائڈنگ کے باعث تین منزلہ عمارت پلک جھپکتے میں زمیں بوس ہوگئی، وائرل ہونے والی ویڈیو نے صارفین کے دل دہلا دیے۔

    غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق مذکورہ ہوٹل 30 سے 35 کمروں پر مشتمل اور بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے کیدر گھاٹی رامپور میں واقع تھا، یہ عمارت لینڈ سلائنڈنگ کے سبب تاش کے پتوں کی طرح سکینڈوں میں زمیں بوس ہوگئی جیسے کہ اس کا کبھی وہاں وجود ہی نہیں تھا۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ رات بھر جاری رہنے والی برسات کے بعد عمارت کس طرح دھڑام سے گر گئی۔

    مقامی لوگوں نے اس منظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرلیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، حکام نے بتایا کہ مذکورہ واقعے میں 3 لوگ جاں بحق ہوئے جب کہ 17 لوگوں کے لاپتا ہونے کی اطلاعات ہیں۔

    علاقے میں مسلسل جاری رہنے والی برسات کے سبب اور عمارت کے زمین بوس ہونے کے بعد کیدرناتھ ہائی وے کو بند کردیا گیا جس کے باعث لوگ سڑک پر ہی پھنس گئے۔

  • اسکردو: افسوس ناک واقعہ، پہاڑی تودہ مسافر وین پر گر گیا، 16 جاں‌ بحق

    اسکردو: افسوس ناک واقعہ، پہاڑی تودہ مسافر وین پر گر گیا، 16 جاں‌ بحق

    اسکردو: اسکردو میں مسافر وین پہاڑی تودے کی زد میں آ کر حادثے کا شکار ہو گئی، جس میں 16 افراد جاں بحق ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق اسکردو میں پہاڑی تودے کی زد میں آ کر حادثے کا شکار ہونے والی مسافر وین اور جاں بحق مسافروں کی لاشیں نکالنے کے لیے جاری ریسکیو آپریشن مکمل کر لیا گیا، ملبے سے 16 مسافروں کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔

    جاں بحق مسافروں میں ڈرائیور سمیت 4 فوجی جوان بھی شامل ہیں، جاں بحق افراد کی لاشیں سی ایم، ایچ اسکردو منتقل کر دی گئیں، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان میر افضل نے افسوس ناک واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے متاثرہ خاندانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے میتوں کو آبائی علاقوں تک پہنچانے کے لیے ضروری اقدامات کی ہدایت بھی جاری کی۔

    آپریشن میں ریسکیو 1122، مقامی پولیس، ایف ڈبلیو او کی ٹیموں نے حصہ لیا، ریسکیو ذرائع کے مطابق راولپنڈی سے اسکردو آتے ہوئے مسافر وین روندو تنگوس کے مقام پر پہاڑی تودہ گرنے کے بعد ملبے تلے دب گئی تھی، جس میں مسافر وین میں سوار تمام افراد دب کر جاں بحق ہوئے۔

    ریسکیو ذرایع کے مطابق اس مسافر کوسٹر میں 16 مسافر سوار تھے، ان میں ایک ڈرایور کنڈیکٹر سمیت 4 فوجی جوان جب کہ باقی مقامی لوگ تھے، حادثے کے شکار مسافروں کی لاشیں اسکردو سی ایم ایچ منتقل کردی گئیں جہاں سے آبائی علاقوں کو روانہ کی جائیں گی۔

  • آزاد کشمیر میں بارش کے بعد راولاکوٹ میں لینڈ سلائیڈنگ، 7 افراد جاں بحق

    آزاد کشمیر میں بارش کے بعد راولاکوٹ میں لینڈ سلائیڈنگ، 7 افراد جاں بحق

    راولاکوٹ: آزاد کشمیر میں بارش کے بعد راولاکوٹ میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے 7 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آزاد کشمیر میں تیز بارش کے بعد راولاٹ میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں سات افراد جاں بحق ہو گئے، پاک فوج کے جوان امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

    راولاکوٹ میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ شدید بارش کے باعث ریسکیو آپریشن میں مشکلات کا سامنا ہے جب کہ حکام نے مزید لینڈ سلائیڈنگز کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔

    بارشوں کے نتیجے میں لینڈ سلائیڈنگ کا واقعہ ضلع راولا کوٹ کے علاقے پوٹھی چھپریاں میں پیش آیا، جس کے باعث 4 مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے۔

    یہ بھی پڑھیں:  راولاکوٹ، بھارتی فوج کی گولہ باری، خاتون شہید، بزرگ شہری زخمی

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ بارشوں کے باعث ہزارہ، مالاکنڈ ڈویژن، گلگلت بلتستان اور کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ ہے۔

    ایبٹ آباد، ہری پور، بونیر، سوات، مردان اور کرک سمیت خیبر پختون خوا کے مختلف شہروں میں موسلا دھار بارش کا سلسلہ جاری ہے۔

    ادھر راولپنڈی، اسلام آباد، سرائے عالم گیر، جہلم، سیالکوٹ، اور ڈسکہ پھالیہ میں بھی بادل شدت سے برس پڑے ہیں۔

    دریائے چناب، راوی، ستلج، بیاس اور جہلم میں سیلاب کا خدشہ ہے، پی ڈی ایم اے نے الرٹ جاری کر دیا۔